Tag: یکم جولائی برسی

  • یومِ وفات: صلیبی افواج کے بعد سلطان بیبرس نے منگولوں‌ کا غرور بھی خاک میں‌ ملا دیا

    یومِ وفات: صلیبی افواج کے بعد سلطان بیبرس نے منگولوں‌ کا غرور بھی خاک میں‌ ملا دیا

    آج بیبرس کا یومِ وفات ہے۔ تاریخ کے اوراق میں انھیں مصر کا پہلا عظیم مملوک حکم راں لکھا گیا ہے، انھوں نے ایک کمانڈر کی حیثیت سے ساتویں‌ صلیبی جنگ میں مسلمانوں کے لشکر کی قیادت کی تھی۔ سلطان بیبرس یکم جولائی 1277ء کو وفات پاگئے تھے۔

    اس جری اور شیر دل سلطان کا نام رکن الدّین بیبرس بند قداری تھا جنھوں نے اپنے لیے الملکُ الظّاہر کا خطاب چنا۔ وہ نسلاً قپچاق ترک تھے، ان کا لقب ابوالفتح تھا۔

    بیبرس نے 19 جولائی 1223ء کو دشتِ قپچاق کے ایک خانہ بدوش قبیلے میں‌ آنکھ کھولی۔ وہ مصر و شام کے غلاموں‌ کے مملوک خاندان کے فرد تھے۔ یہ خاندان دو شاخوں میں منقسم تھا اور بیبرس بحری مملوکوں میں سے تھے۔ وہ مصر کے چوتھے فرماں روا بنے جب کہ پہلے ایسے حکم راں تھے جنھیں ان کی فتوحات کی بدولت شہرت ملی۔ بیبرس نے 1260ء سے 1277ء تک حکم رانی کی۔

    بیبرس، ہلاکو خان اور دہلی کے غیاث الدین بلبن کے ہم عصر تھے۔ کہا جاتا ہے کہ بیبرس کو غلام بنا کر فروخت کیا گیا تھا۔ وہ ساتویں صلیبی جنگ میں فرانس کے لوئس نہم اور جنگِ عین جالوت میں منگولوں کو شکست دینے والے لشکر کے کمانڈر تھے۔ تاریخ بتاتی ہے کہ جب بغداد کو خون ریزی اور آگ میں جھونک کر ہلاکو خان کی فوجیں مصر و شام کی طرف بڑھیں تو بیبرس اور ایک مملوک سردار نے مل کر عین جالوت کے مقام پر ان کا مقابلہ کیا اور بدترین شکست دی۔ یوں بیبرس نے مصر و شام کو منگولوں کی تباہ کاریوں سے بچایا اور یہ ان کا بڑا کارنامہ تھا۔

    بیبرس کا ایک اور بڑا کارنامہ شام کے ساحلی علاقوں پر قابض یورپی حکومتوں کا زور توڑنا تھا۔ یہ حکومتیں پہلی صلیبی جنگ کے بعد سے وہاں قابض تھیں۔ سلطان بیبرس نے عین جالوت میں منگولوں سے اتحاد کرنے کی کوشش کرنے پر 1268ء میں عیسائی سلطنت انطاکیہ کو اکھاڑ پھینکا۔ انہی جنگی فتوحات اور سلطنت کے مفاد میں‌ کارناموں کی وجہ سے بیبرس کا نام مصر و شام میں مشہور ہوا۔

    بیبرس نے رفاہِ عامّہ کے کام بھی کیے۔ انھوں نے شہروں میں نہریں، پُل اور مدارس تعمیر کرائے۔

    وفات کے بعد سلطان بیبرس کو الظّاہریہ کتب خانہ (دمشق) کے احاطے میں سپردِ خاک کیا گیا۔

  • یومِ وفات: آسکر ایوارڈ یافتہ اداکار مارلن برانڈو ’گاڈ فادر‘ مشہور ہوگئے تھے

    یومِ وفات: آسکر ایوارڈ یافتہ اداکار مارلن برانڈو ’گاڈ فادر‘ مشہور ہوگئے تھے

    ہالی وڈ کی کئی فلموں میں یادگار کردار ادا کرنے والے مارلن برانڈو کو ایک لیجنڈ کا درجہ حاصل ہے جو 2004ء میں آج ہی کے دن وفات پاگئے تھے۔

    آسکر ایوارڈ یافتہ اداکار مارلن برانڈو کا تعلق امریکا سے تھا۔ وہ 3 اپریل 1924ء کو پیدا ہوئے تھے۔ انھوں نے 80 سال کی عمر پائی اور وفات سے تین سال قبل تک فلمی پردے پر کام کرتے رہے۔

    برانڈو نے فلموں میں اداکاری کا آغاز 1950ء میں فلم ’دی مین‘ سے کیا۔ اس فلم میں وہ ایک چھبیس سالہ مفلوج مریض کے بہروپ میں نظر آئے۔ کہتے ہیں انھوں نے اپنے پہلے کیریکٹر کو خوبی سے نبھانے کے لیے کئی دن مقامی اسپتال میں بستر پر گزارے۔

    برانڈو ان اداکاروں میں شامل ہیں‌ جو دوسری جنگِ عظیم کے بعد اسکرین پر نظر آئے اور خود کو اہم فن کار ثابت کیا۔ انھوں نے 40 سے زائد فلموں میں کردار نبھائے۔ ’دی وائلڈ ون‘ 1953ء میں نمائش کے لیے پیش کی گئی وہ فلم تھی جس میں برانڈو نے بدمعاش گروہ کے سرغنہ کا کردار ادا کیا تھا جسے بہت پسند کیا گیا۔ تاہم 1972ء میں بننے والی ’دی گاڈ فادر‘ میں ان کا مافیا ڈان کا کردار ان کی وجہِ‌ شہرت بنا۔ یہ ہالی وڈ کی کلاسک فلموں میں سے ایک تھی جس پر برانڈو کو آسکر ایوارڈ دیا گیا۔ اس سے قبل ’اے اسٹریٹ کار نیمڈ ڈیزائر‘ وہ فلم تھی جس کے ایک کردار کے لیے وہ یکے بعد دیگرے چار مرتبہ آسکر کے لیے نام زد ہوئے، تاہم پہلا آسکر 1954ء میں بننے والی فلم ’آن دی واٹر فرنٹ‘ میں باکسر کا کردار ادا کرنے پر ملا۔ دوسرا آسکر ’دی گاڈ فادر‘ کے کردار پر دیا گیا۔

    ’لاسٹ ٹینگو ان پیرس‘ کے بعد برانڈو نے فلموں میں مرکزی کردار ادا کرنا چھوڑ دیا تھا۔

    مارلن برانڈو اپنے فنی کیریئر کے دوران آٹھ مرتبہ فلمی دنیا کے سب سے معتبر ایوارڈ ’آسکر‘ کے لیے نام زد ہوئے اور دو مرتبہ اس کے حق دار قرار پائے۔

    ’دی وائلڈ ون‘ ’اسٹریٹ کار نیمڈ ڈزائر‘ اور ’لاسٹ ٹینگو ان پیرس‘ برانڈو کی وہ فلمیں‌ تھیں جنھوں‌ نے باکس آفس پر دھوم مچا دی اور دنیا بھر میں ان کی مقبولیت کا سبب بنیں۔

    2001ء میں اس فلمی ستارے نے ’دی اسکور‘ میں کام کیا۔ جرائم پر مبنی اس کہانی میں انگریزی فلموں کے شائقین اور مداحوں نے آخری مرتبہ مارلن برانڈو کو اسکرین پر دیکھا۔