Tag: یکم جولائی وفات

  • منگولوں کو جنگِ عین جالوت میں‌ بدترین شکست دینے والے سلطان بیبرس کا تذکرہ

    منگولوں کو جنگِ عین جالوت میں‌ بدترین شکست دینے والے سلطان بیبرس کا تذکرہ

    تاریخ کے کئی واقعات ایسے ہیں‌ جن کے بعد دنیا کی عظیم سلطنتوں کا نقشہ بدل گیا اور کئی تخت الٹ گئے۔ ان واقعات نے یکایک تاریخ کا دھارا موڑ دیا۔ جنگِ عین جالوت انہی میں سے ایک ہے جس میں طاقت اور فتوحات کے نشے میں دھت منگولوں نے رکن الدّین بیبرس کے ہاتھوں بدترین شکست کھائی اور مسلمانوں کی خلافت اور ہاتھ سے جاتے ہوئے کئی علاقے محفوظ ہوگئے۔

    جنگِ عین جالوت 1260ء میں مملوک افواج اور منگولوں کے درمیان لڑی گئی تھی جس میں مملوک شاہ سیف الدّین قطز اور اس کے مشہور جرنیل رکن الدّین بیبرس کو کام یابی ملی اور یہ فتح دراصل عالمِ اسلام کی فتح تھی۔ یہ جنگ فلسطین کے مقام عین جالوت پر لڑی گئی۔ اس فتح کے نتیجے میں مصر، شام اور یورپ کے کئی علاقے بھی منگولوں کے ہاتھوں بربادی سے بچ گئے۔ جنگ میں ایل خانی حکومت کے منگول بانی ہلاکو خان کا مشہور سپہ سالار کتبغا مارا گیا۔ یہی نہیں‌ بلکہ اس جنگ نے منگولوں کی طاقت کا غرور اور ان کی فتوحات کا طلسم بھی توڑ کر رکھ دیا۔ بیبرس کو اسی جنگ نے مسلمانوں‌ کا ہیرو بنایا، لیکن اس سپہ سالار کا کارنامہ شام کے ساحل پر قابض یورپی حکومتوں کا زور توڑنا اور صلیبی لشکر کو شکست سے دوچار کرنا بھی ہے۔

    1277 میں آج ہی کے دن بیبرس کا انتقال ہوگیا تھا۔ اس عظیم سپہ سالار نے معرکۂ عین جالوت میں‌ فتح کے بعد میں مصر و شام کا تخت سنبھالا تھا۔ بیبرس کے حالاتِ زندگی اور کئی واقعات محققین کی نظروں سے اوجھل رہے ہیں یا ان میں‌ اختلاف ہے، لیکن دست یاب معلومات کے مطابق 1223 میں اس نے خوارزم شاہ کے ایک درباری کے گھر آنکھ کھولی تھی۔ اس کا نام البند قداری تھا اور وہ رکن الدّین بیبرس مشہور ہوا۔ وقت کی گردش نے اسے غلام بنا کر مختلف ہاتھوں میں فروخت کے بعد مصر کے بازار تک پہنچایا۔ وہ ایک غلام کے طور پر یہاں ایک نیک خصلت خاتون کے گھر آگیا۔ خاتون نے اپنے مرحوم بیٹے کے نام پر اسے بیبرس پکارنا شروع کردیا اور اپنا بیٹا بنا لیا۔ اسی عورت کا ایک بھائی مصر کے سلطان کے دربار سے منسلک تھا جو غلام بیبرس کو اپنے ساتھ دربار میں لے گیا اور کسی طرح اسے سلطان کی کفالت نصیب ہوگئی۔ وہاں اسے رہائش اور کھانا پینا ہی نہیں‌ بہترین تربیت اور اس زمانے کے رائج ہنر اور حربی علوم بھی سکھائے گئے۔ بیبرس نے اپنی ذہانت اور لگن سے خود کو بہترین سپاہی اور بعد میں‌ فوج کی قیادت کا اہل بھی ثابت کیا۔

    مؤرخین کے مطابق وہ مصری افواج کے ان کمان داروں میں سے ایک تھا جس نے فرانس کے بادشاہ لوئس نہم کو ساتویں صلیبی جنگ میں شکست دی۔ بعد میں بیبرس مملوک سلطنت کا ایک نام ور حکم ران بنا اور 1260ء سے 1277ء تک مصر اور شام پر حکومت کی۔ وہ ہلاکو خان اور دہلی کے غیاث الدّین بلبن کا ہمعصر تھا۔ وہ نسلاً ایک قپچاق ترک تھا جسے غلام بنا کر فروخت کر دیا گیا تھا۔

    جنگ عین جالوت اسی سپہ سالار کا وہ کارنامہ ہے جس پر عالمِ اسلام میں آج بھی وہ بیبرس کے نام سے زندہ ہے۔ یوں تو منگول ایک عرصے سے قتل و غارت گری اور اقوام کو زیر کرنے کے لیے جنگیں کررہے تھے لیکن یہ تیرہویں صدی عیسوی کے وسط کی بات ہے جب منگول وسطی ایشیا سے نکل کر چاروں طرف پھیل گئے تھے اور ہر طرف ان کی قتل و غارت گری جاری تھی۔ ہلاکو خان اپنے لشکر کے ساتھ عراق، شام، فلسطین کے شہروں کو فتح کر کے مصر پر حملہ آور ہوا تو یہ کہا جانے لگا کہ منگول اگر اس علاقے پر قابض ہوگئے تو پھر انھیں حجاز کی مقدس سرزمین کی جانب بڑھنے سے روکنا مشکل ہو گا۔

    اس پر سلطان مصر سیف الدین قطز اور رکن الدین بیبرس کے درمیان معاہدہ طے پایا تھا کہ وہ فوج کے ساتھ منگولوں کا مقابلہ کرے اور مسلمانوں کی فتح کے بعد شام میں حلب اور اس کے اطراف کے علاقے بیبرس کے تصرف میں دے دیے جائیں گے۔ بغداد کو تباہ کرنے کے بعد جب ہلاکو کی فوجیں شام کی طرف بڑھیں تو بیبرس اور مملوک سردار سیف الدین قطز نے مل کر 1260ء میں عین جالوت کے مقام پر ان کو فیصلہ کن شکست دی اور شام سے منگول فوجوں کو نکال باہر کیا۔

    عین جالوت کی جنگ میں تاتاریوں کی شکست کی خبر شام اور فلسطین اور دنیا بھر میں منگول مقبوضات میں پھیل گئی جس نے مسلمانوں کو حوصلہ دیا اور وہ منگول حاکموں کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے اور تاتاریوں کا مقابلہ کر کے اپنے شہر واپس لینے شروع کر دیے۔ دیکھتے ہی دیکھتے شام اور فلسطین کے اکثر مقبوضات منگول تسلط سے آزاد ہوگئے۔ یوں عین جالوت کے میدان میں‌ رکن الدّین بیبرس نے گویا منگول آندھی کو ہمیشہ کے لیے زمین کی گہرائیوں‌ میں قید کردیا۔

    بعد میں سیف الدین قطز اپنے وعدے یا اس معاہدے سے مکر گیا جو اس نے بیبرس کے ساتھ جنگ سے قبل کیا تھا اور اس طرح ان کے درمیان رنجش پیدا ہوگئی اور معرکۂ عین جالوت کے چند دنوں بعد پُراسرار طور پر سلطان قطز کا قتل ہوگیا۔ اس وقت چوں کہ رکن الدّین بیبرس وہاں کے مسلمانوں کی نظر میں‌ دلیر اور ہیرو تھا، اس لیے امرا نے متفقہ طور پر اسے سلطانِ مصر تسلیم کر لیا۔

    ایک انگریز مصنّف ہیریلڈیم نے لکھا ہے کہ بیبرس متعدد زبانیں‌ جانتا تھا اور بعض‌ مؤرخین کے مطابق وہ بھیس بدل کر فوج اور عوام کے انتظامات اور حالات پر نظر رکھتا تھا۔

    عالمِ اسلام کے اس عظیم سپاہی کو دمشق کے المکتبۃُ الظّاہریہ میں‌ دفن کیا گیا تھا۔

  • یومِ وفات: صلیبی افواج کے بعد سلطان بیبرس نے منگولوں‌ کا غرور بھی خاک میں‌ ملا دیا

    یومِ وفات: صلیبی افواج کے بعد سلطان بیبرس نے منگولوں‌ کا غرور بھی خاک میں‌ ملا دیا

    آج بیبرس کا یومِ وفات ہے۔ تاریخ کے اوراق میں انھیں مصر کا پہلا عظیم مملوک حکم راں لکھا گیا ہے، انھوں نے ایک کمانڈر کی حیثیت سے ساتویں‌ صلیبی جنگ میں مسلمانوں کے لشکر کی قیادت کی تھی۔ سلطان بیبرس یکم جولائی 1277ء کو وفات پاگئے تھے۔

    اس جری اور شیر دل سلطان کا نام رکن الدّین بیبرس بند قداری تھا جنھوں نے اپنے لیے الملکُ الظّاہر کا خطاب چنا۔ وہ نسلاً قپچاق ترک تھے، ان کا لقب ابوالفتح تھا۔

    بیبرس نے 19 جولائی 1223ء کو دشتِ قپچاق کے ایک خانہ بدوش قبیلے میں‌ آنکھ کھولی۔ وہ مصر و شام کے غلاموں‌ کے مملوک خاندان کے فرد تھے۔ یہ خاندان دو شاخوں میں منقسم تھا اور بیبرس بحری مملوکوں میں سے تھے۔ وہ مصر کے چوتھے فرماں روا بنے جب کہ پہلے ایسے حکم راں تھے جنھیں ان کی فتوحات کی بدولت شہرت ملی۔ بیبرس نے 1260ء سے 1277ء تک حکم رانی کی۔

    بیبرس، ہلاکو خان اور دہلی کے غیاث الدین بلبن کے ہم عصر تھے۔ کہا جاتا ہے کہ بیبرس کو غلام بنا کر فروخت کیا گیا تھا۔ وہ ساتویں صلیبی جنگ میں فرانس کے لوئس نہم اور جنگِ عین جالوت میں منگولوں کو شکست دینے والے لشکر کے کمانڈر تھے۔ تاریخ بتاتی ہے کہ جب بغداد کو خون ریزی اور آگ میں جھونک کر ہلاکو خان کی فوجیں مصر و شام کی طرف بڑھیں تو بیبرس اور ایک مملوک سردار نے مل کر عین جالوت کے مقام پر ان کا مقابلہ کیا اور بدترین شکست دی۔ یوں بیبرس نے مصر و شام کو منگولوں کی تباہ کاریوں سے بچایا اور یہ ان کا بڑا کارنامہ تھا۔

    بیبرس کا ایک اور بڑا کارنامہ شام کے ساحلی علاقوں پر قابض یورپی حکومتوں کا زور توڑنا تھا۔ یہ حکومتیں پہلی صلیبی جنگ کے بعد سے وہاں قابض تھیں۔ سلطان بیبرس نے عین جالوت میں منگولوں سے اتحاد کرنے کی کوشش کرنے پر 1268ء میں عیسائی سلطنت انطاکیہ کو اکھاڑ پھینکا۔ انہی جنگی فتوحات اور سلطنت کے مفاد میں‌ کارناموں کی وجہ سے بیبرس کا نام مصر و شام میں مشہور ہوا۔

    بیبرس نے رفاہِ عامّہ کے کام بھی کیے۔ انھوں نے شہروں میں نہریں، پُل اور مدارس تعمیر کرائے۔

    وفات کے بعد سلطان بیبرس کو الظّاہریہ کتب خانہ (دمشق) کے احاطے میں سپردِ خاک کیا گیا۔

  • یومِ وفات: آسکر ایوارڈ یافتہ اداکار مارلن برانڈو ’گاڈ فادر‘ مشہور ہوگئے تھے

    یومِ وفات: آسکر ایوارڈ یافتہ اداکار مارلن برانڈو ’گاڈ فادر‘ مشہور ہوگئے تھے

    ہالی وڈ کی کئی فلموں میں یادگار کردار ادا کرنے والے مارلن برانڈو کو ایک لیجنڈ کا درجہ حاصل ہے جو 2004ء میں آج ہی کے دن وفات پاگئے تھے۔

    آسکر ایوارڈ یافتہ اداکار مارلن برانڈو کا تعلق امریکا سے تھا۔ وہ 3 اپریل 1924ء کو پیدا ہوئے تھے۔ انھوں نے 80 سال کی عمر پائی اور وفات سے تین سال قبل تک فلمی پردے پر کام کرتے رہے۔

    برانڈو نے فلموں میں اداکاری کا آغاز 1950ء میں فلم ’دی مین‘ سے کیا۔ اس فلم میں وہ ایک چھبیس سالہ مفلوج مریض کے بہروپ میں نظر آئے۔ کہتے ہیں انھوں نے اپنے پہلے کیریکٹر کو خوبی سے نبھانے کے لیے کئی دن مقامی اسپتال میں بستر پر گزارے۔

    برانڈو ان اداکاروں میں شامل ہیں‌ جو دوسری جنگِ عظیم کے بعد اسکرین پر نظر آئے اور خود کو اہم فن کار ثابت کیا۔ انھوں نے 40 سے زائد فلموں میں کردار نبھائے۔ ’دی وائلڈ ون‘ 1953ء میں نمائش کے لیے پیش کی گئی وہ فلم تھی جس میں برانڈو نے بدمعاش گروہ کے سرغنہ کا کردار ادا کیا تھا جسے بہت پسند کیا گیا۔ تاہم 1972ء میں بننے والی ’دی گاڈ فادر‘ میں ان کا مافیا ڈان کا کردار ان کی وجہِ‌ شہرت بنا۔ یہ ہالی وڈ کی کلاسک فلموں میں سے ایک تھی جس پر برانڈو کو آسکر ایوارڈ دیا گیا۔ اس سے قبل ’اے اسٹریٹ کار نیمڈ ڈیزائر‘ وہ فلم تھی جس کے ایک کردار کے لیے وہ یکے بعد دیگرے چار مرتبہ آسکر کے لیے نام زد ہوئے، تاہم پہلا آسکر 1954ء میں بننے والی فلم ’آن دی واٹر فرنٹ‘ میں باکسر کا کردار ادا کرنے پر ملا۔ دوسرا آسکر ’دی گاڈ فادر‘ کے کردار پر دیا گیا۔

    ’لاسٹ ٹینگو ان پیرس‘ کے بعد برانڈو نے فلموں میں مرکزی کردار ادا کرنا چھوڑ دیا تھا۔

    مارلن برانڈو اپنے فنی کیریئر کے دوران آٹھ مرتبہ فلمی دنیا کے سب سے معتبر ایوارڈ ’آسکر‘ کے لیے نام زد ہوئے اور دو مرتبہ اس کے حق دار قرار پائے۔

    ’دی وائلڈ ون‘ ’اسٹریٹ کار نیمڈ ڈزائر‘ اور ’لاسٹ ٹینگو ان پیرس‘ برانڈو کی وہ فلمیں‌ تھیں جنھوں‌ نے باکس آفس پر دھوم مچا دی اور دنیا بھر میں ان کی مقبولیت کا سبب بنیں۔

    2001ء میں اس فلمی ستارے نے ’دی اسکور‘ میں کام کیا۔ جرائم پر مبنی اس کہانی میں انگریزی فلموں کے شائقین اور مداحوں نے آخری مرتبہ مارلن برانڈو کو اسکرین پر دیکھا۔

  • نادر روزگار شخصیت محمد نجمُ الغنی خاں نجمی کی برسی

    نادر روزگار شخصیت محمد نجمُ الغنی خاں نجمی کی برسی

    آج محمد نجمُ الغنی خاں رام پوری کا یومِ‌ وفات ہے۔ اس نادرِ‌ روزگار شخصیت نے یکم جولائی 1941ء کو اس دارِ فانی سے کوچ کیا۔ وہ برصغیر پاک و ہند کے نام وَر محقّق، مؤرخ، مصنّف اور شاعر تھے جنھوں نے شان دار علمی و ادبی سرمایہ یادگار چھوڑا ہے۔

    محمد نجم الغنی خاں ایک علمی و ادبی شخصیت ہی نہیں بلکہ ماہرِ طبِ یونانی اور حاذق حکیم بھی تھے اور اسی لیے انھیں مولوی حکیم محمد نجم الغنی خاں بھی کہا اور لکھا جاتا ہے جب کہ نجمی ان کا تخلّص تھا۔

    مولوی نجم الغنی خاں 8 اکتوبر 1859ء کو ریاست رام پور کے ایک علمی گھرانے میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد مولوی عبد الغنی خاں اپنے دور کے سربر آوردہ علما میں سے ایک تھے۔ والد کا خاندان عربی، فارسی، فقہ، تصوّف اور منطق کے علوم میں شہرت رکھتا تھا۔ دادا مقامی عدالت میں مفتی کے منصب پر فائز تھے جب کہ پر دادا بھی منشی اور فارسی کے مشہور انشا پرداز تھے۔ یوں انھیں شروع ہی سے علمی و ادبی ماحول ملا جس نے انھیں بھی پڑھنے اور لکھنے لکھانے کی طرف راغب کیا۔

    والد نے رام پور سے نکل کر ریاست اودے پور میں سکونت اختیار کی تو یہیں نجم الغنی خاں کی ابتدائی تعلیم و تربیت کا بھی آغاز ہوا۔ 23 برس کے ہوئے تو اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لیے رام پور چلے آئے اور مدرسہ عالیہ میں داخلہ لیا۔ 1886ء میں فاضل درس نظامی میں اوّل درجہ میں‌ سند پائی۔ نجم الغنی خاں نے رام پور اور اودے پور میں مختلف ملازمتیں کیں۔ ان میں میونسپلٹی، یونانی شفا خانے کے نگراں، لائبریرین، رکاب دار، اسکول میں مدرس جیسی ملازمتیں شامل ہیں اور پھر ریاست حیدرآباد(دکن) بھی گئے جہاں علمی و ادبی کام کیا۔

    محمد نجم الغنی خاں نجمی نے اخبارُ الصّنادید، تاریخِ راجگانِ ہند موسوم بہ وقائع راجستھان، تاریخِ اودھ سمیت تاریخ کے موضوع پر متعدد کتب اور علمِ عروض پر بحرُ الفصاحت نامی کتاب تحریر کی جو اس موضوع پر اہم ترین کتاب تسلیم کی جاتی ہے۔

    تاریخ سے انھیں خاص دل چسپی تھی۔ رام پور اور راجپوتانہ کے علاوہ اودھ اور حیدر آباد دکن کی بھی تاریخیں لکھیں۔ نجم الغنی خاں کی ضخیم کتب اور مختصر رسالوں اور علمی و تاریخی مضامین کی تعداد 30 سے زائد ہے۔ ان کا کلام دیوانِ نجمی کے نام محفوظ ہے۔

    علمی و ادبی کتب کے علاوہ انھوں نے حکمت اور طبابت کے پیشے کو بھی اہمیت دی اور اس حوالے سے اپنی معلومات، تجربات اور مشاہدات کو کتابی شکل میں یکجا کرنا ضروری سمجھا جس سے بعد میں اس پیشے کو اپنانے والوں نے استفادہ کیا۔ ان کتابوں میں خواصُ الادوّیہ، خزانۃُ الادوّیہ شامل ہیں۔

    ان کی دیگر علمی و تاریخی کتب میں تذکرۃُ السّلوک (تصوف)، معیارُ الافکار (منطق، فارسی)، میزانُ الافکار (منطق، فارسی)، نہج الادب (صرف و نحو، قواعدِ فارسی)، ( بحر الفصاحت کا انتخاب) شرح سراجی (علم فرائض)، مختصر تاریخِ دکن شامل ہیں۔