Tag: یکم جون وفات

  • رودبارِ انگلستان عبور کرنے والے بروجن داس کا تذکرہ

    رودبارِ انگلستان عبور کرنے والے بروجن داس کا تذکرہ

    پاکستان کے مشہور کالم نویس، مصنّف اور ڈراما نگار منو بھائی ایک مرتبہ ڈھاکہ (مشرقی پاکستان) گئے تو ایئر پورٹ پر صحافیوں اور علمی و ادبی شخصیات کے درمیان بروجن داس بھی ان کے استقبال کے لیے موجود تھے اور وہی گاڑی ڈرائیو کر کے منو بھائی کو ڈھاکہ میں ان کی اگلی منزل کی طرف لے گئے تھے۔

    منو بھائی نے اپنے ایک کالم میں اس سفر کی یاد تازہ کرتے ہوئے لکھا تھا، ہم ڈھاکہ ایئرپورٹ سے پریس کلب جانے کے لیے ایک گاڑی میں سوار ہوئے تو میں نے کہا کہ مجھے فخر ہے کہ میری گاڑی بروجن داس چلا رہے ہیں۔

    بروجن داس مشرقی پاکستان سے تعلق رکھنے والے مشہور تیراک تھے جنھوں نے ملکی سطح پر کئی مقابلوں میں‌ حصّہ لیا اور متعدد ریکارڈ قائم کیے۔

    9 دسمبر 1927ء کو مشرقی بنگال کے ایک گاؤں بکرم پور میں پیدا ہونے والے بروجن داس کو کم عمری ہی میں‌ تیراکی کا شوق ہو گیا تھا۔ ایک وقت آیا جب دریا اور سمندر کی لہروں کا سامنا کرنے والے بروجن داس تند و تیز موجوں کا مقابلہ کرنے لگے۔ تیراکی کا شوق انھیں فری اسٹائل مقابلوں تک لے گیا۔ انھوں نے 1951ء سے 1957ء کے دوران تیراکی کے مقابلوں میں ریکارڈ بنائے اور اس کھیل میں نام پیدا کیا۔

    23 اگست 1958ء کو بروجن داس 14 گھنٹے 57 منٹ میں رودبارِ انگلستان عبور کرکے پہلے ایشیائی تیراک کا اعزاز اپنے نام کرنے میں‌ کام یاب رہے۔ انھوں نے چھے مرتبہ اس رودبار کو عبور کیا۔

    رودبار کسی بڑے دریا، بڑی نہری گزر گاہ یا آبنائے کو کہتے ہیں۔ رودبارِ انگلستان یا انگلش چینل دراصل بحرِ اوقیانوس کا ایک حصّہ ہے جو برطانیہ کو شمالی فرانس سے جدا اور بحیرۂ شمال کو بحرِ اوقیانوس سے جوڑتا ہے۔ یہ 563 کلومیٹر طویل اور زیادہ سے زیادہ 240 کلومیٹر چوڑی رودبار ہے۔

    یہ رودبار تاریخی اعتبار سے بھی اہمیت کی حامل ہے اور کئی جنگوں کی شاہد ہے۔ ان میں قدیم اور دورِ جدید میں مختلف ممالک اور اقوام کے درمیان ہونے والی جنگیں شامل ہیں۔

    پاکستانی تیراک بروجن داس 22 ستمبر 1961ء کو ایک مرتبہ پھر رودبارِ انگلستان میں ریکارڈ بنانے کا عزم لے کر اترے اور اس مرتبہ 10 گھنٹے 35 منٹ میں اس رودبار کو عبور کرلیا اور ایک نیا عالمی ریکارڈ بنایا۔

    23 مارچ 1960 ء کو حکومتِ پاکستان نے اس ماہر تیراک کو صدارتی تمغہ برائے حسنِ کارکردگی عطا کیا تھا۔ سانحۂ مشرقی پاکستان کے بعد وہ اپنے آبائی وطن میں رہے جہاں 1997ء میں‌ کینسر کی تشخیص کے بعد علاج کی غرض سے وہ بھارت کے شہر کولکتہ چلے گئے تھے تاہم اس کے اگلے سال 1998ء میں آج ہی کے دن بروجن داس کا انتقال ہوگیا۔ ان کے جسدِ خاکی کو بنگلہ دیش منتقل کیا گیا جہاں 3 جون کو ان کی تدفین کردی گئی۔

  • یومِ وفات: اپنی قوّتِ ارادی سے کام لے کر دنیا میں مقام بنانے والی ہیلن کیلر کا تذکرہ

    یومِ وفات: اپنی قوّتِ ارادی سے کام لے کر دنیا میں مقام بنانے والی ہیلن کیلر کا تذکرہ

    ہیلن کیلر کا نام کسی تعارف کا محتاج نہیں دنیا انھیں ایسی باہمّت اور باصلاحیت خاتون کے طور پر یاد کرتی ہے جنھوں نے بصارت اور سماعت سے محرومی کے باوجود بھرپور زندگی گزاری اور دنیا کے لیے مثال بنیں۔ ہیلن کیلر ایک ماہرِ تعلیم اور مصنّفہ کی حیثیت سے مشہور ہیں۔ یکم جون 1968ء کو ہیلن کیلر نے یہ دنیا ہمیشہ کے لیے چھوڑ دی تھی۔

    ہیلن کیلر 27 جون 1880ء کو امریکا میں پیدا ہوئیں۔ وہ پیدائشی طور پر صحّت مند اور نارمل تھیں، لیکن کم سنی میں لاحق ہونے والے ایک مرض کے سبب ان کی بینائی اور قوّتِ سماعت جاتی رہی۔ معالج ان کا مرض نہ جاسکے اور جب والدین ان کے علاج کی طرف سے مایوس ہوگئے تو ایک ایسی خاتون کی خدمات حاصل کرلیں جس نے انھیں معذوری کے ساتھ بھرپور زندگی گزارنا سکھایا۔ اس مہربان اور ماہر استاد کی بدولت ہیلن کیلر نے معمولاتِ زندگی انجام دینا سیکھے۔ لکھنا پڑھنا شروع کیا۔

    دس سال کی عمر میں ہیلن کیلر ٹائپ رائٹر استعمال کرنے لگی تھیں۔ اگلے پانچ سال بعد وہ کسی قدر بولنے کے قابل ہوگئیں اور پھر انھوں نے معذوروں‌ کے ایک اسکول میں‌ داخلہ لے لیا، کالج تک پہنچیں اور گریجویشن کی ڈگری حاصل کی۔

    ہیلن کیلر توانا فکر اور زرخیز ذہن رکھتی تھیں۔ انھوں نے گریجویشن کے ساتھ معذور افراد کو جینے کا حوصلہ دینے اور ان کی ہر طرح سے مدد کرنے کا سلسلہ شروع کردیا۔ اب وہ امریکا میں معذوری کو شکست دینے والی عورت کے طور پر پہچانی جاتی تھیں اور مختلف اداروں اور تقریبات میں لیکچر دینے لگی تھیں۔ انھوں نے بینائی، سماعت اور گویائی سے محروم لوگوں‌ کے حقوق کے لیے کام کیا اور ان سے متعلق بے بنیاد باتوں اور غلط تصوّرات کو دور کرنے کی کوشش کی۔

    ہیلن کیلر نے 14 کتابیں‌ تصنیف کیں اور ان کے کئی مضامین شایع ہوئے۔ ہیلن کیلر کی تصانیف میں‌ ورلڈ آئی لِو اِن، آؤٹ آف دی ڈارک کے علاوہ ہیلن کیلرز جرنل شامل ہیں۔ امریکا میں نابینا افراد کے لیے قائم کردہ تنظیم کے پلیٹ فارم سے جڑنے کے بعد انھیں دنیا کے متعدد ممالک میں لیکچرز دینے کا موقع ملا۔ ان کی خدمات کے صلے میں انھیں‌ متعدد اعزازات سے نوازا گیا، 87 سال کی عمر میں‌ وفات پانے والی ہیلن کیلر عزم و ہمّت اور حوصلے کی علامت کے طور پر آج بھی دلوں میں زندہ ہیں۔