Tag: یکم نومبر وفات

  • یومِ وفات: اردو کی ترقّی میں اولیائے سندھ کا حصّہ ڈاکٹر وفا راشدی کی مشہور تصنیف ہے

    یومِ وفات: اردو کی ترقّی میں اولیائے سندھ کا حصّہ ڈاکٹر وفا راشدی کی مشہور تصنیف ہے

    معروف ادیب، شاعر، محقّق اور نقّاد ڈاکٹر وفا راشدی کی تصانیف اردو کی ترقّی میں اولیائے سندھ کا حصّہ اور بنگال میں اردو کو علمی و ادبی حلقوں میں‌ خاصی پذیرائی ملی۔ اس کے علاوہ بھی ان کی متعدد کتب اردو زبان و ادب کا سرمایہ ہیں۔ وفا راشدی نے 2003ء میں آج ہی کے دن وفات پائی۔

    ان کا اصل نام عبد الستار خان تھا۔ یکم مارچ 1926ء کو کلکتہ میں پیدا ہوئے۔ مدرسہ عالیہ کلکتہ سے میٹرک کے بعد کلکتہ یونیورسٹی سے بی اے کیا۔ اردو میں‌ ایم اے کی ڈگری بھی اسی جامعہ سے لی۔ انھوں‌ نے پی ایچ ڈی کا مقالہ اردو کی ترقّی میں اولیائے سندھ کا حصّہ جیسے موضوع پر لکھا اور پی ایچ ڈی کی سند حاصل کی۔

    وفا راشدی نے شاعری کا آغاز لڑکپن میں کیا اور بعد میں وحشت کلکتوی سے اصلاح‌ لینے لگے۔ شاعری کے ساتھ وہ تحقیق و تاریخ کی طرف راغب ہوئے۔ تقسیم ہند کے بعد مشرقی پاکستان منتقل ہو گئے۔ وہاں بنگال میں اردو کے عنوان سے ان کی تحقیقی کتاب 1955ء میں شائع ہوئی۔ مشرقی پاکستان کی تاریخ و ثقافت پر ان کی دوسری کتاب سنہرا دیس کے نام سے منظرِ عام پر آئی۔

    سقوطِ ڈھاکہ کے بعد ڈاکٹر وفا راشدی لاہور چلے آئے اور یہاں صحافت سے وابستہ ہوگئے۔ بعد ازاں کوٹری اور حیدر آباد، سندھ میں‌ رہائش اختیار کی اور پھر مستقل طور پر کراچی منتقل ہوگئے جہاں ٹیلی کمیونیکیشن ٹریننگ اسکول سے منسلک ہو گئے۔ انھوں‌ نے انجمن ترقّیِ اردو پاکستان کے لیے بھی بحیثیت سینئر اسکالر خدمات انجام دیں۔

    ڈاکٹر وفا راشدی کراچی کے ایک قبرستان میں‌ آسودہ خاک ہیں۔

  • علمِ عروض کے موجد، ماہرِ‌ موسیقی و لغت خلیل بن احمد کا یومِ وفات

    علمِ عروض کے موجد، ماہرِ‌ موسیقی و لغت خلیل بن احمد کا یومِ وفات

    خلیل بن احمد کو علمِ عروض کا بانی اور موجد کہا جاتا ہے۔ وہ ماہرِ موسیقی و لغت بھی مشہور ہیں۔ آج ان کا یومِ وفات ہے۔

    عروض، شاعری سے متعلق ایک ایسا علم ہے جس سے کسی شاعر کے کلام کی موزونیت یا اس کے وزن میں ہونے کو جانچا جاتا ہے۔ یہ علم ایک طرح سے منظوم کلام کی کسوٹی ہے۔ خلیل بن احمد نے اس میں پانچ دائرے اور پندرہ بحریں اختراع کیں جو آج بھی عربی، فارسی اور اردو شاعری میں استعمال ہوتی ہیں۔

    انھیں‌ علمِ موسیقی سے بھی کامل واقفیت تھی اور وہ سنسکرت زبان سے آشنا تھے۔ خلیل بن احمد نے اپنی صلاحیتوں اور ان علوم کی مدد سے علمِ عروض وضع کیا تھا۔

    تاریخ‌ کے صفحات میں‌ ان کا پورا نام ابو عبد الرحمٰن خلیل ابن احمد الفراھیدی البصری لکھا گیا ہے جن کے یومِ پیدائش اور سنِ وفات میں اختلاف ہے، تاہم زیادہ تر مؤرخین اس بات پر متفق ہیں‌ کہ وہ 718ء میں‌ عمان میں پیدا ہوئے اور یکم نومبر 790ء کو وفات پائی۔

    انھیں‌ ماہرِ لغت و موسیقی بھی کہا جاتا ہے۔ محققین کے مطابق وہ عجمی النسل تھے۔ مشہور عربی مؤرخ جارج زیدان نے لکھا کہ ہے وہ ایرانی شہزادوں کی نسل سے تھے اور ان کے جدّ کو شہنشاہِ ایران نے یمن بھیجا تھا۔ ان کی زندگی کا بڑا حصّہ بصرہ میں گزرا اور وفات کے بعد وہیں دفن کیے گئے۔

  • برج موہن دتاتریہ کیفی دہلوی: اردو کے ایک عاشق اور خدمت گار کا تذکرہ

    برج موہن دتاتریہ کیفی دہلوی: اردو کے ایک عاشق اور خدمت گار کا تذکرہ

    آج معروف ادیب، قادرُ الکلام شاعر، ڈراما نویس، ناول نگار اور انشا پرداز پنڈت برج موہن دتاتریہ کیفی دہلوی کا یومِ‌ وفات ہے۔

    ان کی اردو زبان کی ترقّی کے لیے پُرخلوص خدمات کو دیکھتے ہوئے انھیں اردو کا عاشق کہا گیا۔ دتاتریہ کیفی دہلوی شان دار شخصیت کے مالک تھے، ان کی گفتگو، تقریر اور تحریر نہایت شستہ اور شائستہ تھی۔

    معروف شاعر، افسانہ نگار اور فلم ساز خلیق ابراہیم خلیق نے ان کے بارے میں لکھا، انجمن ترقی اردو (ہند) کا مرکزی دفتر حیدر آباد دکن سے دہلی منتقل ہوا تو وہ انجمن کے ہمہ وقتی رکن بن گئے اور اردو کی ترقی اور فروغ کی کوششوں میں بابائے اردو کا ہاتھ بٹانے لگے۔

    بڑے عالم فاضل شخص تھے۔ اردو، فارسی، عربی اور انگریزی پر تو عبور رکھتے ہی تھے، سنسکرت اور ہندی میں بھی خاصی استعداد تھی۔ اعلیٰ پائے کے ادیب اور شاعر تھے۔

    ابتدا میں اپنے کلام پر انھوں نے مولانا حالی سے اصلاح لی تھی۔ تنقید میں بھی حالی کی پیروی کرتے تھے۔ معاش کے لیے پنڈت کیفی نے درس و تدریس کا پیشہ اختیار کیا۔ عرصہ دراز تک کشمیر میں قیام پذیر رہے۔ کچھ عرصہ لائل پور (موجودہ فیصل آباد) میں بھی گزارا۔ ان کی شخصیت میں ایسی کشش تھی کہ جہاں بھی رہے وہاں کے شاعر اور ادیب ان کے پاس آئے اور ان کی صحبت سے فیض اٹھایا۔

    پنڈت کیفی ان بوڑھوں میں سے تھے جن کی صحبت میں بوڑھوں، جوانوں، بچوں سبھی کا دل لگتا۔ میری ان سے خاصی دوستی ہوگئی تھی۔ دلّی تو ان کا گھر ہی تھا۔ اس کے چپے چپّے کی تاریخ سے وہ واقف تھے۔ اپنے بچپن اور جوانی کی دلی کے قصے مزے لے لے کے سنایا کرتے تھے۔ کشمیر اور لائل پور کے بھی قصے سناتے اور لائل پور کے اپنے بعض دوستوں اور شاگردوں کا ذکر بہت محبت سے کرتے تھے۔

    کیفی دہلوی نے ادب و شعر کی مختلف اضاف میں متعدد کتابیں لکھیں جن میں سے بعض نصاب میں بھی شامل رہیں۔ وہ 13 دسمبر 1866ء کو دہلی میں پیدا ہوئے اور یکم نومبر 1955 کو نواسی سال کی عمر میں دہلی کی ایک نواحی بستی غازی آباد میں وفات پائی۔

    ان کی تصانیف میں منشورات (لیکچرز و مضامین، 1934ء)، واردات (شعری مجموعہ، 1941ء)، پریم ترنگنی (مثنوی)، توزک ِ قیصری (منظوم تاریخِ ہند، 1911ء)، راج دلاری (ڈراما، 1930ء)، خمسۂ کیفی (اُردو زبان سے متعلق مقالات و منظومات، انجمن ترقی اُردو (ہند) دہلی، 1939ء)، اُردو ہماری زبان (1936ء)، نہتا رانا یا رواداری (تاریخی ناول،1931ء)، بھارت درپن (ڈراما) و دیگر شامل ہیں۔

  • لازوال گیتوں کے خالق تنویر نقوی کی برسی

    لازوال گیتوں کے خالق تنویر نقوی کی برسی

    آج پاکستانی فلم انڈسٹری کے ممتاز نغمہ نگار تنویر نقوی کی برسی ہے۔ تنویر نقوی یکم نومبر 1972ء کو اس جہانِ فانی سے کوچ کر گئے تھے۔

    آواز دے کہاں ہے دنیا میری جواں ہے جیسے کئی گیت آج بھی ہماری سماعتوں میں رس گھول رہے ہیں جن کے خالق تنویر نقوی تھے۔

    نغمہ نگار تنویر نقوی 6 فروری 1919ء کو لاہور میں پیدا ہوئے۔ ان کا اصل نام سید خورشید علی تھا۔ انھوں نے فلمی دنیا میں تنویر نقوی کے نام سے شہرت پائی۔ وہ 15 سال کے تھے جب شاعری کا آغاز کیا اور 1938ء میں اپنی پہلی فلم ‘شاعر’ کے لیے گیت لکھے۔ اس وقت متحدہ ہندوستان میں بمبئی فلمی صنعت کا مرکز تھا، جہاں تنویر نقوی نے تقریباً آٹھ سال تک گیت نگاری کی۔

    ان کا تعلق ایک علمی اور ادبی گھرانے سے تھا اور ان کے بڑے بھائی بھی نوا نقوی کے نام سے شاعری کرتے تھے۔ 1940ء میں تنویر نقوی کا پہلا مجموعہ سنہرے سپنے کے نام سے شائع ہوا۔ اسی کی اشاعت کے بعد انھوں نے بمبئی کی فلم انڈسٹری کا رخ کیا تھا جہاں کئی فلموں کے لیے نغمات تحریر کیے اور نام کمایا۔

    قیام پاکستان سے قبل انھوں‌ نے فلم ‘انمول گھڑی’ کے لیے نغمات تحریر کیے تھے جن میں ان کی وجہِ شہرت بننے والا نغمہ آواز دے کہاں ہے بھی شامل تھا۔ یہ اس دور کا سب سے زیادہ مقبول ہونے والا گیت تھا، جس کے بعد ان کے دو نغمات آجا میری برباد محبت کے سہارے اور جواں ہے محبت حسیں ہے زمانہ کو بھی شائقین نے بہت پسند کیا۔

    تقسیم کے بعد وہ پاکستان آگئے جہاں ان کی پہلی پاکستانی فلم ‘تیری یاد’ تھی۔ پاکستان میں تنویر نقوی نے 1959ء میں بننے والی فلم ‘کوئل’ کے گیت لکھ کر لازوال شہرت پائی، جس میں رم جھم رم جھم پڑے پھوار یا مہکی فضائیں، گاتی ہوائیں اور دل کا دِیا جلایا نے مقبولیت کے گویا ہفت آسمان طے کیے۔

    اسی طرح 1960ء میں فلم ‘ایاز’ ریلیز ہوئی جس کا گیت رقص میں ہے سارا جہاں بھی بہت مقبول ہوا۔ بعد کے برسوں میں فلم ‘انار کلی’ کے گیت کہاں تک سنو گے کہاں تک سناﺅں یا جلتے ہیں ارمان میرا دل روتا ہے سمیت متعدد فلموں کے گیتوں نے تنویر نقوی کو بہترین شاعر اور نغمہ نگار ثابت کیا۔ انھیں فلم و ادب کی دنیا کے کئی اعزازات سے نوازا گیا۔

    1965ء کی جنگ میں نشر ہونے والا نغمہ رنگ لائے گا شہیدوں کا لہو اور چھٹی ذرا سیاں جی کے نام لکھ دے بھی ان کے ناقابلِ‌ فراموش نغمات میں سرفہرست ہیں۔

    تنویر نقوی نے فلموں کے لیے متعدد خوب صورت نعتیں بھی لکھیں جن میں ‘نورِ اسلام’ کی ایک نعت نہایت مشہور ہوئی اور یہ کلام آج بھی بے انتہا مقبول ہے۔ یہ نعت آپ نے بھی ضرور سنی ہوگی: شاہِ مدینہ، یثرب کے والی، سارے نبی تیرے در کے سوالی۔ ان کا یہ کلام ہر محفل میں پڑھا گیا اور سوالی گلی گلی پھر کر اسے بلند آواز سے پڑھتے اور لوگوں سے نذرانے وصول کرتے تھے۔

    تنویر نقوی نے خوب صورت گیت نگاری پر تین نگار ایوارڈ حاصل کیے۔

  • اردو زبان و ادب، نونہالوں اور طلبہ کے محسن اسماعیل میرٹھی کی برسی

    اردو زبان و ادب، نونہالوں اور طلبہ کے محسن اسماعیل میرٹھی کی برسی

    مولوی محمد اسماعیل میرٹھی کو بچّوں کا بڑا شاعر اور ادیب مانا جاتا ہے۔ ایک دور تھا جب ان کی نظمیں بچّوں کو ہی نہیں ان کے والدین اور بڑوں کو بھی زبانی یاد تھیں اور چھوٹے بچّوں کو بہلانے اور انھیں خوش کرنے کے لیے بڑے خاص طور پر مائیں لوری کی صورت یہ نظمیں‌ سنایا کرتی تھیں۔

    نظم خدا کی تعریف کا یہ شعر دیکھیے:

    تعریف اُس خدا کی جس نے جہاں بنایا
    کیسی زمیں بنائی کیا آسماں بنایا

    اسی طرح ہماری گائے وہ ایک مشہور نظم ہے جس کا مطلع تھا:

    رب کا شکر ادا کر بھائی
    جس نے ہماری گائے بنائی

    آج اردو کے اس نام ور ادیب، شاعر اور مضمون نگار کی برسی ہے۔ وہ یکم نومبر 1917ء کو اس دارِ فانی سے کوچ کرگئے تھے۔

    مولوی اسماعیل میرٹھی نے 12 نومبر 1844ء کو ضلع میرٹھ کے ایک علاقے میں آنکھ کھولی۔ اسی شہر کی نسبت اپنے نام سے میرٹھی جوڑا۔ ابتدائی تعلیم و تربیت والد کی زیرِ نگرانی گھر ہی پر حاصل کی۔ بعد میں اتالیق سے گھر پر مزید تعلیم مکمل کی اور عربی اور فارسی بھی سیکھی۔

    دورانِ تعلیم انھوں‌ نے اپنے تخلیقی سفر کا آغاز کیا۔ انھوں نے متحدہ ہندوستان میں بچّوں کی تعلیم و تربیت، ان میں دین و مذہب، اپنی روایات اور ثقافت کا شعور بیدار کرنے کی غرض سے اصلاحی مضامین لکھنا شروع کیے جنھیں‌ بہت پسند کیا گیا۔ بعد میں وہ ایک شاعر اور مصنّف کے طور پر مشہور ہوئے جنھوں نے کئی درسی کتابیں بھی تحریر کیں۔ ان کی زیادہ تر نظمیں، حکایات اور کہانیاں طبع زاد ہیں اور بعض تحریریں فارسی اور انگریزی سے ماخوذ یا ترجمہ ہیں۔

    مولوی محمد اسماعیل میرٹھی نے شاعری کے علاوہ تصنیف و تالیف کے حوالے سے بالخصوص تعلیمی مضامین اور تدریس کے موضوعات پر کام کیا۔ ان کے مضامین اور نظمیں‌ آج بھی ہماری درسی کتب میں‌ شامل ہیں اور مختلف رسائل کی زینت بھی بنتی رہتی ہیں۔

    ان کے زمانے میں‌ اگرچہ زبان و ادب پر فارسی کا گہرا اثر تھا، لیکن مولوی اسماعیل میرٹھی اور ان کے چند ہم عصر ایسے تھے جنھوں نے اردو کی آب یاری کی اور زبان کو تصنع اور تکلف سے دور رکھتے ہوئے سادہ و عام فہم انداز اپنایا۔ خاص طور پر بچّوں کے لیے تخلیق کردہ ادب میں ان کی ذہنی سطح اور زبان کو سمجھنے کی استعداد اور صلاحیت کو بھی پیشِ نظر رکھا۔ اسماعیل میرٹھی نے ابتدائی جماعتوں کے لیے اردو زبان کا قاعدہ بھی مرتّب کیا تھا۔

    مولوی اسمٰعیل میرٹھی نے بچّوں کی نظموں کے علاوہ مقبول ترین صنفِ سُخن غزل میں بھی خوب طبع آزمائی کی جب کہ مثنوی، قصیدہ، رُباعی اور قطعہ نگاری بھی کی، تاہم اُن کی شہرت کا اصل میدان بچّوں کی شاعری ہی رہا۔

    اسمٰعیل میرٹھی نے اپنے عزم و حوصلے سے نونہالوں اور طلبہ میں ایسا ادبی ذوق بیدار کیا جس نے آنے والی کئی نسلوں کا نہ صرف نصاب سے بلکہ کتاب سے بھی رشتہ مستحکم تر کر دیا۔ گوپی چند نارنگ نے ان کے بارے میں‌ لکھا ہے کہ ’’وہ صرف عجیب چڑیا، گھوڑا، اونٹ، ملمع کی انگوٹھی، محنت سے راحت اور ہر کام میں کمال اچھا ہے کے، شاعر نہیں تھے۔ انھوں نے ’’مناقشۂ ہوا و آفتاب‘‘، ’’مکالمۂ سیف و قلم‘‘، ’’بادِ مراد‘‘، ’’شفق، ’’تاروں بھری رات‘‘ اور ’’آثار سلف‘‘ جیسی نظمیں بھی لکھیں۔‘‘