Tag: یہودی

  • ’’میکرون کاغذ پر فلسطینی ریاست تسلیم کریں گے، ہم زمین پر یہودی ریاست قائم کر دیں گے‘‘

    ’’میکرون کاغذ پر فلسطینی ریاست تسلیم کریں گے، ہم زمین پر یہودی ریاست قائم کر دیں گے‘‘

    تل ابیب: اسرائیل کے وزیر دفاع یسرائیل کاٹز نے کہا ہے میکرون اور ان کے دوست کاغذ پر فلسطینی ریاست کو تسلیم کریں گے اور ہم یہاں زمین پر یہودی ریاست قائم کر دیں گے۔

    غیر ملکی میڈیا رپورٹس کے مطابق اسرائیلی وزیر دفاع نے ایمانوئل میکرون اور دیگر یورپی رہنماؤں کو دھمکی دی ہے کہ اگر انھوں نے فلسطینی ریاست کو تسلم کرنے کا اعلان کیا تو وہ مغربی کنارے پر یہودی ریاست قائم کر دیں گے۔

    یسرائیل کاٹز کا کہنا تھا کہ حماس ’’مجبور‘‘ ہے کہ وہ امریکی ایلچی وٹکوف کی تجویز کو قبول کرے یا پھر اپنے خاتمے ہی کو چُنے۔

    مقبوضہ علاقوں میں 22 نئی بستیوں کے قیام کے اعلان کے بعد اب وزیر دفاع نے کہا ہے کہ اسرائیل مغربی کنارے میں ’’ یہودی ریاست اسرائیل‘‘ قائم کرے گا، کاٹز نے اپنے دفتر سے جاری ایک بیان میں مزید کہا کہ یہ حماس جیسی تنظیموں کے لیے فیصلہ کن جواب ہے جو ہمیں نقصان پہنچانے اور اس سرزمین پر ہماری گرفت کو کمزور کرنے کی کوشش کر رہی ہیں۔


    غزہ کو اسرائیل کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا تو مغرب ساکھ کھو دے گا، میکرون نے خبردار کر دیا


    انھوں نے کہا یہ میکرون اور ان کے دوستوں کے لیے بھی ایک واضح پیغام ہے، کہ وہ کاغذ پر فلسطینی ریاست کو تسلیم کریں گے اور ہم یہاں زمین پر یہودی ریاست قائم کریں گے۔

    واضح رہے کہ فرانسیسی صدر میکرون نے جمعہ کے روز کہا ہے کہ فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنا صرف اخلاقی ذمہ داری نہیں بلکہ ایک سیاسی مطالبہ بھی ہے۔

    میکرون نے سنگاپور میں وزیر اعظم لارنس وونگ کے ساتھ ایک پریس کانفرنس کے دوران کہا کہ اگر اسرائیل آنے والے دنوں میں غزہ کے انسانی بحران سے متعلق کوئی قدم نہیں اٹھاتا تو یورپیوں کو اسرائیل کے بارے میں اپنے اجتماعی مؤقف کو سخت کر دینا چاہیے، اور اسرائیل پر پابندیاں عائد کرنی چاہیئں۔

  • ٹرمپ کی دھکمی کے بعد کولمبیا یونیورسٹی کی صدر نے استعفیٰ دے دیا

    ٹرمپ کی دھکمی کے بعد کولمبیا یونیورسٹی کی صدر نے استعفیٰ دے دیا

    امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی وفاقی فنڈنگ روکنے کی دھمکی پر کولمبیا یونیورسٹی کی صدر نے عہدے سے استعفیٰ دے دیا۔

    غیر ملکی میڈیا رپورٹس کے مطابق کولمبیا یونیورسٹی کی عبوری صدر کیٹرینا آرمسٹرانگ نے جمعہ کے روز استعفیٰ دے دیا ہے، وہ یہ عہدہ خالی کرنے والی آئیوی لیگ اسکول کی دوسری صدر بن گئی ہیں۔

    کولمبیا یونیورسٹی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور دیگر ریپبلکنز کے نشانے پر ہے، ٹرمپ انتظامیہ نے کولمبیا یونیورسٹی پر الزام لگایا تھا کہ وہ یہودی طلبہ اور فیکلٹی ممبران کو ہراساں کیے جانے سے روکنے میں ناکام رہی ہے، اور یونیورسٹی کی 400 ملین ڈالر فنڈز میں کٹوتی کا اعلان کیا تھا۔

    ایک ہفتے قبل ہی آئیوی لیگ یونیورسٹی نے ٹرمپ انتظامیہ کے مطالبات کو پورا کرنے کے لیے متعدد پالیسیوں کو تبدیل کرنے پر اتفاق کیا تھا، کیٹرینا آرمسٹرانگ اگست سے یونیورسٹی کی قیادت کر رہی تھیں، جب غزہ میں اسرائیلی فوجی آپریشن کے خلاف مظاہروں کو نہ روکے جانے پر سابق صدر مستعفی ہو گئے تھے۔


    ٹرمپ انتظامیہ کو بڑا جھٹکا، امریکی عدالت کا وائس آف امریکا کے حق میں فیصلہ


    بی بی سی کے مطابق کولمبیا یونیورسٹی ڈونلڈ ٹرمپ کے غصے کا شکار ہوئی ہے، جن کا دعویٰ ہے کہ کولمبیا اور دیگر اسکولوں نے یہود دشمنی اور یہودی طلبہ کو ہراساں کیے جانے کو برداشت کیا۔

    یونیورسٹی نے جمعہ کو ایک بیان میں کہا کہ کیٹرینا کولمبیا کو ان کا سابقہ عہدہ دے دیا گیا ہے اور وہ پہلے کی طرح میڈیکل سینٹر کی قیادت کریں گی، جب کہ ان کی جگہ بورڈ آف ٹرسٹیز کی شریک چیئر کلیئر شپمین لیں گی، جو قائم مقام صدر کے طور پر کام کریں گی۔

    مستعفی صدر کیٹرینا آرمسٹرانگ نے کہا کہ انھوں نے بھرپور طریقے سے اپنی ذمہ داریاں بہتر طریقے سے نباہنے کی کوشش کی، جب کہ نئی عبوری صدر کلیئر شپمین نے کہا ’’مجھے سنگین چیلنجوں کا واضح ادراک ہے، اور میں یہ عہدہ اس ادراک کے ساتھ سنبھال رہی ہوں۔‘‘ ادھر ہارورڈ یونیورسٹی کے مڈل ایسٹرن اسٹیڈیز سینٹر کی سرکردہ شخصیات نے بھی اپنے عہدوں سے مستعفیٰ ہونے کا فیصلہ کر لیا ہے۔

  • علامہ اقبال اور مغربی ممالک کے مسلمانوں سے وعدے

    علامہ اقبال اور مغربی ممالک کے مسلمانوں سے وعدے

    اقبال کا انتقال ۱۹۳۸ء میں ہوا اور اسرائیل ۱۹۴۸ء میں وجود میں آیا لیکن اس سے قبل مشرقِ وسطیٰ میں ہونے والی تبدیلیوں پر اقبال گہری نگاہ رکھے ہوئے تھے۔ مغربی ممالک ان تمام وعدوں کو روندتے ہوئے، جو انھوں نے پہلی جنگِ عظیم کے بعد مسلمانوں سے مذاکرات میں کیے تھے، یہودیوں کو فلسطین میں زمینیں دینے پر تلے ہوئے تھے۔

    بشیر احمد ڈار نے اپنی کتاب ’’انوارِ اقبال‘‘ میں لکھا ہے کہ لاہور کے موچی دروازے پر ۳۰؍ دسمبر ۱۹۱۹ء کو ایک جلسہ ہوا جس میں ایک قرارداد پیش کی گئی۔ اقبال نے یہ قرارداد پڑھ کر سنائی اور جس میں برطانوی حکومت کو یاد دلایا گیا تھا کہ اس نے سلطنتِ عثمانیہ اور ترکی سے متعلق مسلمانوں سے وعدے کیے تھے لیکن پیرس کی صلح کانفرنس میں ان سے متعلق کیے گئے فیصلے قابلِ اطمینان نہیں ہیں۔ اس قراداد میں مطالبہ کیا گیا کہ ’’سلطنتِ عثمانیہ کے کسی حصے پر صراحتاً یا اشارۃً کسی دوسری سلطنت کا قبضہ نہیں ہونا چاہیے۔‘‘

    پہلی جنگِ عظیم کے بعد جب پیرس صلح کانفرنس منعقد ہوئی تو عالمی امن کو برقرار رکھنے کے لیے ایک عالمی تنظیم کی ضرورت محسوس ہوئی۔ چنانچہ لیگ آف نیشنز (League of Nations) کے نام سے ۱۹۲۰ء میں ایک تنظیم بنائی گئی۔

    یہ تنظیم ایک طرح سے اقوامِ متحدہ کی پیش رو تھی۔ لیکن افسوس کہ اس تنظیم پر بڑے ملکوں کی اجارہ داری تھی اور لیگ آف نیشنز وہ کچھ کرنے کی حقیقی قوت نہیں رکھتی تھی جس کے لیے وہ وجود میں لائی گئی تھی۔ طاقت ور ملکوں کے سامنے وہ بے بس تھی۔

    پہلی جنگِ عظیم کے بعد مسلمانوں کے ساتھ جو کچھ کیا گیا اس پر اقبال بڑے مایوس ہوئے۔ بلکہ لیگ آف نیشنز کی تخلیق کو بھی وہ استعماری قوتوں کی سازش سمجھتے تھے اور ان کا خیال تھا کہ یہ تنظیم انگریزوں اور فرانسیسیوں نے محض مسلمان ملکوں کے حصے بخرے کر کے آپس میں بانٹنے کے لیے بنائی ہے۔ اس تنظیم پر اقبال نے ’’پیام ِ مشرق‘‘ میں ’’جمیعتُ الاقوم‘‘ کے عنوان سے طنزیہ کہا:

    برفتد تا روشِ رزم دریں بزمِ کہن
    دردمندانِ جہاں طرحِ نو انداختہ اند
    من ازیں بیش ندانم کہ کفن دُزدے چند
    بہرِ تقسیمِ قبور انجمنے ساختہ اند

    گویا اقبال کے خیال میں لیگ آف نیشنز کفن چوروں کی انجمن تھی جو قبروں کی تقسیم کے لیے وجود میں لائی گئی تھی۔ لیگ آف نیشنز کا مرکزی دفتر جنیوا (سوئٹزر لینڈ) میں تھا اور برطانیہ یہودیوں کی حمایت کررہا تھا۔ چنانچہ اقبال نے ضربِ کلیم میں شامل اپنی نظم ’’فلسطینی عرب سے ‘‘میں فلسطینیوں سے اشارۃً کہا:

    تری دوا نہ جنیوا میں ہے نہ لندن میں
    فرنگ کی رگ ِ جاں پنجۂ یہود میں ہے

    اقبال برطانیہ کی یہود نوازی کے سخت مخالف تھے۔ محمد رفیق افضل نے اپنی کتاب ’’ گفتارِ اقبال‘‘ میں اخبار ’’انقلاب ‘‘کے شمارہ ۱۰؍ ستمبر ۱۹۲۹ء کے حوالے سے لکھا ہے کہ ۷؍ ستمبر ۱۹۲۹ء کو لاہور میں ایک جلسہ بیرونِ دہلی دروازہ منعقد ہوا جس میں فلسطین کے بارے میں برطانیہ کی یہود نواز حکمتِ عملی کے خلاف صدائے احتجاج بلند کی گئی۔ اقبال نے اس جلسے کی صدارت کی اور اپنی تقریر میں کہا: ’’یہودی یورپ کی تمام سلطنتوں میں نفرت کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا۔ مسلمانوں نے یورپ کے ستائے ہوئے یہودیوں کو نہ صرف پناہ دی بلکہ انھیں اعلیٰ مناصب پر فائز کیا۔ ترک یہودیوں کے ساتھ غیر معمولی رواداری کا سلوک کرتے رہے۔

    یہودیوں کی خواہش پر انھیں مخصوص اوقات میں دیوارِ براق کے ساتھ کھڑے ہو کر گریہ و بکا کرنے کی اجازت عطا کی۔ اسی وجہ سے اس دیوار کا نام ان کی اصطلاح میں دیوارِ گریہ مشہور ہوگیا۔ شریعتِ اسلامیہ کی رو سے مسجدِ اقصیٰ کا سارا احاطہ وقف ہے۔ جس قبضے اور تصرف کا یہود اب دعویٰ کرتے ہیں قانونی اور تاریخی اعتبار سے اس کا حق انھیں ہرگز نہیں پہنچتا۔ سوائے اس کے کہ ترکوں نے انھیں گریہ کرنے کی اجازت دے رکھی ہے۔‘‘

    علامہ اقبال نے لندن ۱۹۳۱ء میں منعقدہ دوسری گول میز کانفرنس میں شرکت کی تھی۔ اُنھیِں دنوں یروشلم میں موتمرِ عالمِ اسلامی کے زیرِ اہتمام ایک کانگریس کا انعقاد ہو رہا تھا تا کہ صیہونی خطرے پر غور کیا جاسکے۔ اقبال لندن کی گول میز کانفرنس کو ادھورا چھوڑ کر یروشلم چلے گئے تاکہ اس کانگریس میں شریک ہوسکیں۔

    نومبر ۱۹۳۲ء میں اقبال تیسری گول میز کانفرنس میں شرکت کے لیے لندن گئے۔وہاں ان کی ملاقات مس مارگریٹ فرکہرسن (Miss Margerate Farquharson) سے ہوئی۔ مس فرکہرسن ایک تنظیم نیشنل لیگ کی رہنما تھیں۔ اس تنظیم کا ایک مقصد برعظیم پاک و ہند اور مشرقِ وسطیٰ کے مسلمانوں کو انصاف کے حصول میں مدد دینا بھی تھا۔ اس تنظیم کو فلسطینیوں سے بھی ہمدردی تھی۔ مس فرکہرسن نے لندن میں ۲۴؍ نومبر ۱۹۳۲ء کو اقبال کے اعزاز میں ایک استقبالیہ دیا۔ اس موقعے پر اقبال نے کہا کہ برطانیہ کو چاہیے کہ عالمِ اسلام کے ساتھ تعلقات استوار کرے اور یہ جبھی ممکن ہے کہ فلسطین سے برطانوی اقتدار ختم کر کے اسے عربوں کے حوالے کر دیا جائے۔ مس فرکہرسن کے نام اپنے ایک انگریزی میں لکھے گئے خط بتاریخ ۲۰؍ جولائی ۱۹۳۷ء میں اقبال نے بعض اہم باتیں لکھیں۔ شیخ عطاء اللہ نے ’’اقبال نامہ‘‘ میں اس خط کا اردو ترجمہ درج کیا ہے۔ اس میں سے کچھ اقتباسات سے اندازہ ہوتا ہے کہ اقبال آخرِ عمر میں بھی باوجود بیماری کے مسلمانوں، فلسطین اور عالمِ اسلام کے معاملات و مسائل کے بارے میں کتنے متفکر رہتے تھے۔ لکھتے ہیں:

    ’’میں بدستور بیمار ہوں، اس لیے فلسطین رپورٹ پر اپنی رائے اور وہ عجیب و غریب خیالات اور احساسات جو اُس نے ہندستانی مسلمانوں کے دلوں میں بالخصوص اور ایشیائی مسلمانوں کے دلوں میں بالعموم پیدا کیے ہیں یا کر سکتی ہے تفصیل سے تحریر نہیں کرسکتا۔

    میرے خیال میں اب وقت آگیا ہے کہ نیشنل لیگ آف انگلینڈ وقت شناسی کا ثبوت دے اور اہلِ برطانیہ کو عربوں کے خلاف جن سے برطانوی سیاست دانوں نے اہلِ برطانیہ کے نام سے حتمی وعدے کیے تھے ناانصافی کے ارتکاب سے بچا لے۔‘‘

    اسی خط میں آگے چل کر اقبال نے لیگ آف نیشنز یا جمیعتُ الاقوام کے بارے میں وہ بھی لکھا جو وہ’’ پیامِ مشرق‘‘ میں بزبانِ شعر کہہ چکے تھے۔ لکھتے ہیں: ’’ہمیں یہ کبھی بھی فراموش نہ کرنا چاہیے کہ فلسطین، انگلستان کی کوئی ذاتی جائیداد نہیں۔ فلسطین پر یہودیوں کا کوئی بھی حق نہیں۔ یہودیوں نے تو اس ملک کو رضامندانہ طور پر عربوں کے فلسطین پر قبضے سے بہت پہلے خیر باد کہہ دیا تھا۔‘‘

    (ڈاکٹر رؤف پاریکھ کے ایک مضمون سے اقتباسات)

  • حماس نے ایک ویڈیو ریلیز کر کے اسرائیل میں صف ماتم بچھا دی، یہودی ظلم کی دہائی دینے لگے

    حماس نے ایک ویڈیو ریلیز کر کے اسرائیل میں صف ماتم بچھا دی، یہودی ظلم کی دہائی دینے لگے

    گزشتہ روز جب غزہ کے علاقے نصیرات کیمپ میں تین اسرائیلی یرغمالیوں کو رہا کیا جا رہا تھا، تو ایسے میں حماس نے اس تقریب میں 2 ایسے یرغمالیوں کی شرکت کو بھی ریکارڈ کر لیا جو ابھی بھی ان کی قید میں ہیں۔

    حماس نے دو اسرائیلی یرغمالیوں ایویٹر ڈیوڈ اور گائے گلبووا دلال کو اپنے ساتھیوں کی رہائی کی تقریب میں شرکت کا موقع دیا، اور ان کی ویڈیو بنا کر ریلیز کر دی، جس نے اسرائیل میں صف ماتم بچھا دی ہے، اور 61 ہزار بے گناہ فلسطینیوں، جن میں زیادہ تعداد بچوں اور خواتین کی ہے، کو شہید کرنے والے یہودی بھی ظلم کی دہائی دینے لگے ہیں۔

    یہ ویڈیو اس موقع پر بنائی گئی ہے جب نصیرات میں عمر شیمتوف، ایلیا کوہن اور عمر وینکرٹ کو رہا کیا جا رہا تھا، ویڈیو میں دونوں یرغمالیوں کو ایک گاڑی کے اندر دیکھا جا سکتا ہے۔ سوشل میڈیا پر یہودی اس ویڈیو کو شیئر کر کے ’’ظلم کی انتہا‘‘ کی دہائی دینے لگے ہیں۔

    ڈیوڈ کی طرف سے یہ ویڈیو اس کے زندہ ہونے کی پہلی نشانی کے طور پر سامنے آئی ہے، اسے 7 اکتوبر 2023 کو یرغمال بنایا گیا تھا، جب کہ گلبووا دلال کو جون 2024 میں یرغمال بنایا گیا تھا، یہ تب سے اس زندگی کی پہلی نشانی ہے۔

    یہ ویڈیو ٹیلی گرام پر فلسطینی مزاحمتی گروپ حماس کی عسکری تنظیم القسام بریگیڈز کی طرف سے شائع کی گئی ہے، دونوں قیدیوں کو القسام کی گاڑی کے اندر دیکھا جا سکتا ہے، اور وہ صدمے اور بے اعتمادی کی حالت میں ہیں۔ ایک نے التجا کی ’’پلیز ہمیں بچائیں تاکہ ہم اپنے گھروں کو لوٹ سکیں۔ میں آپ سے التجا کرتا ہوں، نیتن یاہو، بہت ہو گیا، تم نے ہماری زندگیاں تباہ کر دی ہیں، تم نے ہمیں مار ڈالا ہے۔‘‘

    دوسرے نے کہا ’’ہمیں ہمارے گھروں کو واپس لاؤ — ہم بس یہی چاہتے ہیں۔‘‘ دونوں نے جذباتی لہجے میں بات جاری رکھی ’’او، اسرائیل کے لوگو، ہم رہائی پانے والوں کی طرح بننا چاہتے ہیں۔ میں اس پر یقین نہیں کر سکتا، ہم اپنے دوستوں کو 500 سے زائد دنوں کی اسیری کے بعد گھر جاتے ہوئے دیکھ رہے ہیں۔‘‘

    معاہدے کی خلاف ورزی : اسرائیل نے 620 فلسطینیوں کی رہائی ملتوی کردی

    انھوں نے معاہدے کو جاری رکھنے پر زور دیتے ہوئے کہا ’’جیسا کہ آپ کو مذاکرات کرنا چاہیے — بس، معاہدے کو مکمل کرنے اور اس صورت حال کو ختم کرنے کے لیے کام کریں، فوجی دباؤ ہم سب کو مار ڈالے گا۔ حکومت، اور جو بھی حکومت کی سربراہی کر رہا ہے اگر آپ نے یہ معاہدہ شروع کیا ہے، تو اسے دیکھیں، فوجی دباؤ کسی مسئلے کا حل نہیں ہے۔‘‘

    انھوں نے اسرائیلی عوام پر زور دیا کہ وہ ان کی رہائی تک احتجاج کریں اور حکومت پر دباؤ ڈالیں۔ واضح رہے کہ اسرائیلی حکام معاہدے کے پہلے مرحلے کے ساتویں بییچ میں 620 فلسطینی قیدیوں کو رہا کرنے والے تھے، لیکن اسرائیل نے معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے فلسطینیوں کی رہائی منسوخ کر دی ہے۔

    یرغمالیوں کی نمائندگی کرنے والے ایک اسرائیلی فورم نے ایکس پر کہا کہ ’’یہ نفسیاتی اذیت کا اور سخت بیمار کر دینے والا مظاہرہ ہے، ٹرمپ اور نیتن یاہو سے غزہ میں قید بقیہ 63 اسیروں کو واپس لانے کا مطالبہ ہے کہ اب ’’مرحلہ یا تاخیر کا کوئی وقت نہیں ہے‘‘ اور یہ کہ ’’ہر سیکنڈ اہم ہو گیا ہے۔‘‘

  • طالبان کے قبضے کے بعد افغانستان میں بچنے والے آخری یہودی نے کیا کیا؟

    طالبان کے قبضے کے بعد افغانستان میں بچنے والے آخری یہودی نے کیا کیا؟

    کابل: طالبان کے قبضے کے بعد افغانستان کے آخری یہودی نے بھی ملک چھوڑ دیا۔

    تفصیلات کے مطابق افغانستان میں رہنے والا آخری یہودی اور قالین کے تاجر زیبلون سیمنتوف جمعہ کو افغانستان چھوڑ کر چلا گیا، ان کے لیے ملک چھوڑنے کا بندوبست ایک اسرائیلی نژاد امریکی کاروباری شخص موتی کاہنہ نے کیا، زیبلون فی الوقت ایک پڑوسی ملک منتقل ہوئے ہیں۔

    خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق امریکا میں ایک نجی سیکیورٹی فرم چلانے والے موتی کاہنہ کا کہنا تھا کہ زیبلون سیمنتوف کبھی افغانستان چھوڑنے کے لیے راضی نہیں ہوئے، افغانستان میں سوویت یونین کے قبضے، خانہ جنگی، طالبان کے پہلے دور حکومت اور پھر امریکا کے آنے کے باوجود انھوں نے اپنا ملک نہیں چھوڑا۔

    اس بار بھی جب سیکیورٹی ٹیم ان کی روانگی سے 10 روز قبل ان کے پاس پہنچی، تو وہ ملک چھوڑ کر جانے کے لیے مکمل طور پر آمادہ نہیں تھے، موتی کاہنہ کا کہنا تھا کہ زیبلون کو داعش خراسان کے شدت پسندوں سے خطرہ تھا، اس لیے وہ اس وقت وہ باہر نہیں نکلنا چاہتے تھے، تاہم بعد میں وہ ملک چھوڑنے پر راضی ہوگئے۔

    دل چسپ بات یہ ہے کہ افغانستان کے اس آخری رہ جانے والے یہودی نے ملک سے نکلتے ہوئے اپنے اچھے پڑوسی دوست کو بھی پیچھے چھوڑنا گوارا نہ کیا، اور 29 افراد پر مشتمل اس خاندان کو ساتھ لے کر گئے۔

    واضح رہے کہ زیبلون سیمنتوف 1950 کی دہائی میں افغانستان کے مغربی شہر ہرات میں پیدا ہوئے تھے، اور ملک پر سویت یونین کے قبضے کے دوران وہ 1980 کے اوائل میں کابل منتقل ہوئے، گزشتہ دہائیوں کے دوران ان کی اہلیہ دو بیٹیوں سمیت دیگر رشتہ داروں کے ساتھ افغانستان چھوڑ کر چلے گئے تھے، زیبلون کے خاندان کے کچھ افراد نیویارک میں مقیم ہیں۔ زیبلون کے مطابق ماضی میں طالبان کی جانب سے انھیں مسلمان کرنے کی کوششیں بھی کی گئیں، چار بار قید بھی ہوئے، لیکن انھوں نے افغانستان نہیں چھوڑا۔

    یاد رہے کہ افغانستان میں یہودی ڈھائی ہزار سال سے زائد عرصے تک رہے، ان میں سے ہزاروں ہرات میں رہتے تھے، جہاں اب تک چار سیناگاگ موجود ہیں، جو افغانستان میں یہودیوں کی قدیم زمانے سے موجودگی کی نشان دہی کرتے ہیں، تاہم 19 ویں صدی سے اب تک یہودیوں کی بڑی تعداد افغانستان چھوڑتی رہی اور ان میں سے کئی اب اسرائیل میں رہتے ہیں۔

  • ”ایک ترانہ مجاہدینِ فلسطین کے لیے”

    ”ایک ترانہ مجاہدینِ فلسطین کے لیے”

    اسرائیلی درندوں کی مشین گنوں سے نکلتی گولیوں سے خون میں نہاتی، گولہ بارود کے سبب ملبے کا ڈھیر بنتی ارضِ فلسطین کئی عشروں سے اقوامِ عالم کی بے حسی کا ماتم کررہی ہے۔ مظلوم فلسطینی امنِ عالم کے داعی اور انسانیت کا درس دینے والے ممالک کی خاموشی اور بے بسی پر تعجب کرتے ہیں۔

    آج ایک بار پھر فلسطین میں‌ ہر طرف آگ اور خون دکھائی دے رہا ہے۔ حالیہ دنوں‌ میں اسرائیلی فوج کی فائرنگ اور فضائی حملوں میں بچّوں سمیت کئی مظلوم فلسطینی شہید ہوچکے ہیں اور صورتِ حال بگڑتی جارہی ہے۔

    پاکستان کے نام ور شاعر فیض احمد فیضؔ نے اسرائیلی جارحیت کے خلاف 1983ء میں ایک نظم ”ایک ترانہ مجاہدینِ فلسطین کے لیے” لکھی تھی۔ ان کی اس نظم میں شہیدوں کو خراجِ عقیدت پیش کیا گیا ہے اور فتح کی نوید سنائی گئی ہے۔ نظم ملاحظہ کیجیے۔

    ”ایک ترانہ مجاہدینِ فلسطین کے لیے”

    ہم جیتیں گے
    حقا ہم اک دن جیتیں گے
    بالآخر اک دن جیتیں گے

    کیا خوف زیلغارِ اعدا
    ہے سینہ سپر ہر غازی کا

    کیا خوف زیورشِ جیشِ قضا
    صف بستہ ہیں ارواحُ الشہدا
    ڈر کاہے کا

    ہم جیتیں گے
    حقا ہم اک دن جیتیں گے

    قد جاءَ الحقُّ و زھَق الباطل

    فرمودۂ ربِّ اکبر
    ہے جنت اپنے پاؤں تلے
    اور سایۂ رحمت سر پر ہے
    پھر کیا ڈر ہے

    ہم جیتیں گے
    حقا ہم اک دن جیتیں گے
    بالآخر اک دن جیتیں گے

  • یہود مخالف نسلی تعصب کا الزام، برطانوی رکن پارلیمنٹ پارٹی رکنیت سے مستعفی

    یہود مخالف نسلی تعصب کا الزام، برطانوی رکن پارلیمنٹ پارٹی رکنیت سے مستعفی

    لندن: برطانوی رکن پارلیمنٹ لوئیز ایلمن نے اپنی قیادت پر یہود مخالف نسلی تعصب کے الزام کے ردعمل میں 55 سالہ پارٹی رکنیت سے استعفیٰ دے دیا۔

    تفصیلات کے مطابق برطانوی رکن پارلیمنٹ لوئیز ایلمن اپوزیشن جماعت لیبرپارٹی کے رہنما جیریمی کوربن کے یہودی نسل پرستی میں اضافہ کے الزام پر پارٹی کی 55 سالہ رکنیت سے مستعفی ہوگئیں۔

    غیر ملکی میڈیا کے مطابق برطانوی رکن پارلیمنٹ لوئیز ایلمن نے اپنے ٹویٹ میں خدشہ ظاہر کیا کہ ممکنہ عام انتخابات میں اپوزیشن رہنما جیریمی کوربن کی قیادت ملک کے لیے خطرے کا باعث ہو سکتی ہے۔

    ان کا کہنا تھا کہ وہ پارٹی رکنیت سے استعفیٰ کے بعد کسی دوسری جماعت میں شمولیت اختیار نہیں کریں گی اور اگر پارٹی قیادت میں تبدیلی آئی تو وہ واپس آ سکتی ہیں۔

    انہوں نے کہا کہ ممکنہ عام انتخابات میں کوربن کے وزیراعظم بننے کا امکان ہے، لیکن مجھے یقین ہے کہ جیریمی کوربن وزیراعظم کے عہدے کے لیے موزوں نہیں ہیں۔

    کیا ہماری زندگی بیکار ہے؟ سیاہ فام یہودیوں کا اسرائیل کے خلاف احتجاج

    برطانوی رکن پارلیمنٹ کا مزید کہنا تھا کہ جیریمی کوربن کی قیادت میں لیبر پارٹی میں یہودی نسل پرستی کو ہوا دینے کے باعث یہودی اراکین کو نہ صرف جماعت سے کالا گیا بلکہ نفرت انگیز باتوں کا بھی سامنا کرنا پڑا اور ہم کوربن کو ملک کی قیادت کی اجازت نہیں دے سکتے۔