Tag: یہودیت

  • ”ایک ترانہ مجاہدینِ فلسطین کے لیے”

    ”ایک ترانہ مجاہدینِ فلسطین کے لیے”

    اسرائیلی درندوں کی مشین گنوں سے نکلتی گولیوں سے خون میں نہاتی، گولہ بارود کے سبب ملبے کا ڈھیر بنتی ارضِ فلسطین کئی عشروں سے اقوامِ عالم کی بے حسی کا ماتم کررہی ہے۔ مظلوم فلسطینی امنِ عالم کے داعی اور انسانیت کا درس دینے والے ممالک کی خاموشی اور بے بسی پر تعجب کرتے ہیں۔

    آج ایک بار پھر فلسطین میں‌ ہر طرف آگ اور خون دکھائی دے رہا ہے۔ حالیہ دنوں‌ میں اسرائیلی فوج کی فائرنگ اور فضائی حملوں میں بچّوں سمیت کئی مظلوم فلسطینی شہید ہوچکے ہیں اور صورتِ حال بگڑتی جارہی ہے۔

    پاکستان کے نام ور شاعر فیض احمد فیضؔ نے اسرائیلی جارحیت کے خلاف 1983ء میں ایک نظم ”ایک ترانہ مجاہدینِ فلسطین کے لیے” لکھی تھی۔ ان کی اس نظم میں شہیدوں کو خراجِ عقیدت پیش کیا گیا ہے اور فتح کی نوید سنائی گئی ہے۔ نظم ملاحظہ کیجیے۔

    ”ایک ترانہ مجاہدینِ فلسطین کے لیے”

    ہم جیتیں گے
    حقا ہم اک دن جیتیں گے
    بالآخر اک دن جیتیں گے

    کیا خوف زیلغارِ اعدا
    ہے سینہ سپر ہر غازی کا

    کیا خوف زیورشِ جیشِ قضا
    صف بستہ ہیں ارواحُ الشہدا
    ڈر کاہے کا

    ہم جیتیں گے
    حقا ہم اک دن جیتیں گے

    قد جاءَ الحقُّ و زھَق الباطل

    فرمودۂ ربِّ اکبر
    ہے جنت اپنے پاؤں تلے
    اور سایۂ رحمت سر پر ہے
    پھر کیا ڈر ہے

    ہم جیتیں گے
    حقا ہم اک دن جیتیں گے
    بالآخر اک دن جیتیں گے

  • علامہ محمد اسد ایک گوہرِ تاب دار، دنیائے اسلام کا روشن حوالہ

    علامہ محمد اسد ایک گوہرِ تاب دار، دنیائے اسلام کا روشن حوالہ

    علامہ محمد اسد بیسویں صدی کی ایک متأثر کُن شخصیت اور عالمِ اسلام کا روشن حوالہ ہیں‌ جن کی آج برسی منائی جارہی ہے۔

    بیس فروری 1992 کو اسپین میں وفات پانے والے علامہ محمد اسد ہمہ جہت اور نادرِ روزگار شخصیات میں سے ایک ہیں۔ مفکّر و مصلح، دانا و بینا، نہایت قابل و باصلاحیت علامہ محمد اسد مفسّر، محقق، مؤرخ، ماہرِ لسانیات تھے۔ سیّاحت ان کا شوق تھا، سفارت کاری ان کا شعبہ اور کئی اہم کتب کے مصنف تھے۔

    وہ اپنے علم و فضل، قابلیت و صلاحیت کی بنیاد پر یورپی مسلمانوں میں نہایت معتبر اور ممتاز مانے جاتے ہیں۔
    علامہ محمد اسد ایک گوہرِ تاب دار اور دنیائے اسلام کی گراں مایہ شخصیت ہیں جنھوں نے ’’دی روڈ ٹو مکّہ‘‘ جیسی شہرہ آفاق تصنیف سے دنیا پر اپنی دھاک بٹھائی۔ یہ کتاب 1950 کی دہائی میں منظرِ عام پر آئی۔

    محمد اسد ایک یہودی گھرانے میں پیدا ہوئے اور یہی ان کا مذہب تھا، انھوں نے سن 1900 میں موجودہ یوکرین کے شہر لیویو میں آنکھ کھولی جو اس وقت آسٹرو ہنگیرین سلطنت کا حصہ تھا۔ ان کا نام لیو پولڈویز رکھا گیا، لیکن اللہ نے انھیں دینِ اسلام کی طرف راہ دی اور توجہ و رغبت نے ایک روز کامل ہدایت سے سرفراز کیا۔

    نوعمری میں تورات اور اس کی تفسیر یہودیت سے متعلق دیگر کُتب کا مطالعہ کیا۔ عبرانی پڑھنے اور بولنے کے قابل ہو گئے۔ 1918 میں یونیورسٹی آف ویانا میں داخلہ لیا، لیکن 1920 میں عملی صحافت کی طرف آگئے۔ اس کے لیے برلن، جرمنی کا رُخ کیا اور ایک خبر رساں ادارے سے جڑ گئے۔

    علامہ محمد اسد 1922 کے آغاز پر یروشلم میں مقیم اپنے ماموں کی دعوت پر مصر سے ہوتے ہوئے فلسطین پہنچے جہاں پہلی مرتبہ اسلامی طرزِ زندگی کا مشاہدہ کرنے کا موقع ملا۔ وہ فلسطینی مسلمانوں پر صہیونی غلبے سے متنفر ہوئے اور عربوں کے حق میں آواز بلند کی۔ بعد ازاں فلسطین ہی میں جرمن اخبار کے نمائندے بن کر صہیونیت کے خلاف اور عرب قوم پرستی کے حق میں لکھنے کا سلسلہ شروع کر دیا۔

    صحافتی ذمہ داریوں کے لیے مصر سے شام، عراق، کُردستان، ایران، افغانستان اور مشرقی ایشیا تک سفر کیا اور یوں اسلام کو مزید سمجھنے کا موقع ملا۔

    ایک روز برلن اسلامک سوسائٹی پہنچے اور اسلام قبول کر لیا۔ انھوں نے ایک بیوہ جرمن خاتون ایلسا سے شادی کی تھی۔ ان کی اہلیہ نے بھی اسلام قبول کر لیا اور حج کی سعادت حاصل کرنے کے چند روز بعد ہی خالقِ حقیقی سے جا ملیں۔

    محمد اسد سعودی عرب میں بھی رہے اور مدینے میں مذہبی تعلیم حاصل کرتے ہوئے وقت گزارا۔ 1932 میں ہندوستان آئے اور قیام پاکستان کے بعد پاکستان کی نظریاتی بنیادوں پر تشکیل میں اپنا حصّہ ڈالا۔ پاکستان میں وزارتِ خارجہ سے منسلک رہے اور مسلم ممالک سے روابط و تعلقات مضبوط کرنے کی ذمہ داری بخوبی انجام دی۔ محمد اسد نے 80 برس کی عمر میں “قرآن پاک کا انگریزی ترجمہ اور تفسیر” مکمل کی اور اسپین میں قیام کے دوران عالمِ اسلام کا یہ عظیم فرزند خالقِ حقیقی سے جا ملا۔

    ان کی مشہور تصانیف میں اسلام ایٹ دی کراس روڈ، پرنسپل آف اسٹیٹ اینڈ گورننس ان اسلام، دی میسج آف اسلام اور صحیح بخاری کا انگریزی ترجمہ بھی شامل ہے۔