Tag: چیف جسٹس

  • پنجاب کی عدالتیں قتل  ثابت نہ ہونے پر بھی سزائے موت سنادیتی ہیں، چیف جسٹس

    پنجاب کی عدالتیں قتل ثابت نہ ہونے پر بھی سزائے موت سنادیتی ہیں، چیف جسٹس

    اسلام آباد : چیف جسٹس آصف کھوسہ نے 10 سال بعد قتل کےملزم کی اپیل منظور کرتے ہوئے رہائی کا حکم دے دیا اور کہا پنجاب کی عدالتیں قتل کا مقدمہ  ثابت ہو توسزائےموت نہ ہوتوعمرقیدکی سزاسناتی ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں چیف جسٹس آصف کھوسہ کی سربراہی میں 3رکنی بینچ نے قتل کے ملزم محمدرضوان کی اپیل پر سماعت ہوئی ، چیف جسٹس نے کہا میڈیکل رپورٹ کے مطابق ایف آئی آر ، عینی شاہدین کے بیان میں تضادہے، جس پر وکیل مقتول نے بتایا پولیس نے اس مقدمے میں حقائق چھپائے۔

    چیف جسٹس نے ریمارکس میں کہا آپ نے پولیس کو بے ایمان کہا تو کیا پولیس بے ایمان ہوگئی، یہی مسئلہ ہے ہمارا کہ فیصلہ حق میں آئے تو ٹھیک، جب  جھوٹےگواہ بن جائیں تو کہیں نہ کہیں ریکارڈ سے پتہ چل جاتا ہے۔

    سپریم کورٹ نے 10 سال بعد قتل کے ملزم محمد رضوان کی اپیل منظور کرتے ہوئے رہائی کا حکم دے دیا۔

    چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے یہ پنجاب کا کیس ہے، پنجاب کی عدالتیں قتل کا مقدمہ ثابت ہوجائے تو سزائے موت سناتی ہیں اور قتل ثابت نہ ہو تو عمرقید کی سزاسناتی ہیں، جس مقدمے میں عمر قید ہو اس کے شواہد کا جائزہ لینا ضروری ہوتاہے۔

    محمدرضوان سمیت دیگرملزمان پر 2009 میں قتل کاالزام تھا، جائیدادکے تنازع پر جاویدسلیمان کو بھکر کی تحصیل کلور کوٹ میں قتل کیاگیا تھا، ٹرائل کورٹ نے محمدرضوان کو عمرقیدکی سزاسنائی تھی جبکہ ہائی کورٹ نے ٹرائل کوٹ کا فیصلہ برقرار رکھا تھا۔

    تہرے قتل کے مجرموں کی عمرقید کے خلاف اپیلیں مسترد


    دوسری جانب چیف جسٹس آصف کھوسہ نے تہرے قتل کے مجرم آفتاب،اشفاق،عرفان کی عمرقید کے خلاف اپیلیں مسترد کردیں ، تینوں مجرموں نے 2016 میں گوجرانوالہ میں 3 افراد کو قتل کیا تھا۔

    ٹرائل کورٹ نےتینوں مجرموں کوسزائےموت کا حکم سنایاتھا جبکہ ہائی کورٹ نے مجرموں کی سزائے موت کو عمر قید میں تبدیل کردیاتھا۔

  • حادثاتی واقعہ کو قتل خطا تصور نہیں کرنا چاہیے‘ چیف جسٹس

    حادثاتی واقعہ کو قتل خطا تصور نہیں کرنا چاہیے‘ چیف جسٹس

    کراچی: سپریم کورٹ نے قتل کیس کا 10 سال بعد فیصلہ سناتے ہوئے مجرم منصور خان کو رہا کرنے کا حکم دے دیا۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے قتل کیس میں اپیل کی سماعت کی۔

    عدالت عظمیٰ میں سماعت کے دوران چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ قتل خطا اور حادثاتی واقعہ کی درست تشریح ضروری ہے، حادثاتی واقعہ کو قتل خطا تصور نہیں کرنا چاہیے۔

    چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ریمارکس دیے کہ زیردفعہ 80 کے تحت حادثاتی واقعے کی کوئی سزا نہیں ہے، گولی جانور یا مقام پر چلائی جائے اور کسی انسان کو لگے تو یہ قتل خطا ہے۔

    چیف جسٹس آف پاکستان نے کہا کہ کہیں بیٹھے ہوئے گولی چل جائے توقتل خطا نہیں حادثاتی واقعہ قرارپائے گا۔

    انہوں نے ریمارکس دیے کہ اگر قتل خطا بھی تصور کریں تو مجرم اپنی سزا پوری کرچکا، واقعہ فارم ہاوس پر دوستوں کے درمیان اچانک رونما ہوا۔

    یاد رہے کہ فائرنگ کا واقعہ کراچی کے علاقے شرافی گوٹھ لانڈھی تھانے کی حدود میں پیش آیا تھا، ٹرائل کورٹ نے عمر قید کی سزا سنائی تھی، ہائی کورٹ نے سزا برقرار رکھی تھی۔

    سپریم کورٹ نے قتل کے ملزم کو شک کا فائدہ دے کر رہا کردیا

    واضح رہے کہ گزشتہ ہفتے سپریم کورٹ آف پاکستان نے قتل کے الزام میں گرفتار ملزم محمد زمان کو شک کا فائدہ دیتے ہوئے بری کرنے کا حکم جاری کیا تھا۔

  • جھوٹی گواہی دینے والا کانسٹیبل عدالت میں طلب

    جھوٹی گواہی دینے والا کانسٹیبل عدالت میں طلب

    اسلام آباد: چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس آصف سعید کھوسہ نے جھوٹی گواہی دینے والے کانسٹیبل کو عدالت میں طلب کرلیا۔ اس سے پہلے بھی ایک شہری کو جھوٹی گواہی دینے پر عدالت میں طلب کیا جاچکا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس آصف سعید کھوسہ نے قتل کے مقدمے میں جھوٹی گواہی کا نوٹس لیتے ہوئے جھوٹی گواہی دینے والے کانسٹیبل خضر حیات کو طلب کرلیا۔

    چیف جسٹس نے ڈی آئی جی آپریشنز لاہور کو حکم دیا ہے کہ خضر حیات کو 4 مارچ کو پیش کیا جائے۔ جھوٹی گواہی کا نوٹس قتل کے ملزم محمد الیاس کی سزا کے خلاف اپیل پر لیا گیا۔ ملزم محمد الیاس عدم شواہد کی بنیاد پر کیس سے بری ہوگیا تھا۔

    چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ کیس کو جھوٹی گواہی دے کر خراب کر دیا گیا، جھوٹی گواہی دینے والوں کے خلاف کارروائی کریں گے۔

    خیال رہے کہ چیف جسٹس نے جھوٹی گواہی کے خلاف پہلی کارروائی چند روز قبل کی تھی جب انہوں نے جھوٹی گواہی دینے پر ساہیوال کے رہائشی ارشد کو 22 فروری کو طلب کیا تھا۔

    چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ رات کو 3 بجے کا واقعہ ہے کسی نے لائٹ نہیں دیکھی، ٹرائل کورٹ کی ہمت ہے انہوں نے سزائے موت دی۔

    انہوں نے کہا تھا کہ ہائیکورٹ نے بھی عمر قید کی سزا سنائی حالانکہ تمام گواہان کہہ رہے تھے کہ انہوں نے فائر ہوتے نہیں دیکھا، ’یہ سب کچھ نچلی عدالتوں کو کیوں نظر نہیں آتا‘۔

    چیف جسٹس نے کہا تھا کہ جس طرح رضا کارانہ گواہ بنا، اسی طرح رضا کارانہ جیل بھی جانا چاہیئے، ٹرائل کورٹ نے جھوٹی گواہی پر سزائے موت دی اور ہائیکورٹ نے عمر قید کی سزا سنائی۔

  • میمو گیٹ کیس کی سماعت کے لیے سپریم کورٹ نے نیا بینچ تشکیل دے دیا

    میمو گیٹ کیس کی سماعت کے لیے سپریم کورٹ نے نیا بینچ تشکیل دے دیا

    اسلام آباد: میمو گیٹ کیس کی سماعت کے لیے سپریم کورٹ نے نیا بینچ تشکیل دے دیا۔

    تفصیلات کے مطابق میمو گیٹ کیس کی سماعت کے لیے سپریم کورٹ نے نیا بینچ تشکیل دے دیا ہے، چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں تین رکنی بینچ 14 فروری کو کیس کی سماعت کرے گا۔

    تین رکنی بینچ میں جسٹس گلزار احمد اور جسٹس اعجاز الاحسن بھی شامل ہیں، اٹارنی جنرل، ایف آئی اے کے ڈائریکٹر جنرل اور نیب کے پراسیکیوٹر جنرل کو نوٹس جاری کردئیے گئے ہیں۔

    میمو گیٹ اسکینڈل

     حسین حقانی میمو گیٹ کے مرکزی ملزم ہیں اور پیپلز پارٹی کر دور حکومت میں امریکن سفیر رہے چکے ہیں۔

     میموگیٹ اسکینڈل 2011 میں اس وقت سامنے آیا تھا جب پاکستانی نژاد امریکی بزنس مین منصور اعجاز نے یہ دعویٰ کیا تھا کہ انہیں حسین حقانی کی جانب سے ایک پیغام موصول ہوا جس میں انہوں نے ایک خفیہ میمو اس وقت کے امریکی ایڈمرل مائیک مولن تک پہنچانے کا کہا۔

    مزید پڑھیں: امریکا میں پاکستانی شہریوں نے حسین حقانی کو آڑے ہاتھوں لے لیا

    حسین حقانی پر یہ الزام عائد کیا جاتا ہے کہ ایبٹ آباد میں اسامہ بن لادن کی ہلاکت کے لیے کیے گئے امریکی آپریشن کے بعد پاکستان میں ممکنہ فوجی بغاوت کو مسدود کرنے کے سلسلے میں حسین حقانی نے واشنگٹن کی مدد حاصل کرنے کے لیے ایک میمو بھیجا تھا۔

    اس اسکینڈل کے بعد حسین حقانی نے بطور پاکستانی سفیر اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا تھا اور اس کی تحقیقات کے لیے ایک جوڈیشل کمیشن تشکیل دیا گیا تھا۔

    جوڈیشل کمیشن نے اپنی رپورٹ میں کہا تھا کہ میمو ایک حقیقت تھا اور اسے حسین حقانی نے ہی تحریر کیا تھا۔رپورٹ میں مزید کہا گیا تھا کہ حسین حقانی نے میمو کے ذریعے امریکا کو نئی سیکورٹی ٹیم کے قیام کا یقین دلایا اور وہ خود اس سیکورٹی ٹیم کا سربراہ بننا چاہتے تھے۔

  • داڑھی کی بجائے سر مونڈنے پر حجام کا قتل، چیف جسٹس کا عمر قید کے قیدی کو رہا کرنے کا حکم

    داڑھی کی بجائے سر مونڈنے پر حجام کا قتل، چیف جسٹس کا عمر قید کے قیدی کو رہا کرنے کا حکم

    اسلام آباد : چیف جسٹس آصف کھوسہ نے حجام کے قتل کے الزام میں عمر قید کے قیدی اور سوتیلے باپ کے خلاف بیٹے کے قتل کیس میں ملزم کو رہا کرنے کا حکم دے دیا۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں چیف جسٹس کی سربراہی 3 رکنی بینچ نے حجام کے قتل سے متعلق کیس کی سماعت کی ، سماعت میں چیف جسٹس نے ریمارکس میں کہا سپریم کورٹ نے قتل اور حالات کا بغور جائزہ لیا، عدالت اس قتل کو 302بی کی بجائے 302سی کاکیس سمجھتی ہے اور اس معاملے کو اچانک کی لڑائی سمجھتی ہے، عبدالخالق 302 سی کے تحت اپنی سزا مکمل کر چکا ہے۔

    چیف جسٹس نے قتل کے الزام میں عمر قید کے قیدی عبدالخالق کو رہا کرنے کا حکم دے دیا۔

    خیال رہے حضور بخش نامی شخص 2007 میں داڑھی مونڈوانے گیا تو مقتول نے حضور بخش کی داڑھی کی بجائے سر مونڈ دیا، جس پر حضور بخش کے بیٹے نے غصے میں حجام کو قتل کر دیا تھا۔

    ٹرائل کورٹ نےملزم کوسزائےموت اورایک لاکھ جرمانہ کیا بعد ازاں ہائی کورٹ نے ملزم کی سزا برقرار رکھی تھی۔

    سوتیلے باپ کے خلاف بیٹے کے قتل کا کیس


    دوسری جانب چیف جسٹس کی سربراہی میں 3رکنی بینچ نے سوتیلے باپ کے خلاف بیٹے کے قتل سے متعلق کیس کی سماعت کی ، چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے ماتحت عدالتوں پر افسوس ہوتا ہے، معاملات صحیح طریقے سےدیکھیں تو سپریم کورٹ تک نہ آئیں۔

    چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ٹرائل کورٹ نےملزم محمد ریاض کوسزائے موت اور جرمانے کی سزا سنائی، ہائی کورٹ نےجرمانہ برقرار رکھتے ہوئےسزائے موت عمرقید میں بدل دی، اپیل جزوی طور پر منظور کی ، جتنی سزا ملزم بھگت چکا کافی ہے۔

    سپریم کورٹ نے جرمانہ برقرار رکھتے ہوئے ملزم کی رہائی کا حکم دے دیا۔

    مزید پڑھیں : منشیات بر آمدگی کیس : چیف جسٹس آصف کھوسہ نے ملزم کی عمرقیدکی سزا ختم کرکے بری کردیا

    اس سے قبل منشیات بر آمدگی کیس میں چیف جسٹس آصف کھوسہ نے ملزم کی عمر قید کی سزاختم کرکے بری کردیا تھا اور ریمارکس دیئے تھے ہم نے سیف کسٹڈی اور سیف ٹرانسمیشن کا اصول واضح کر دیاہے، یقینی طور پر چند مقدمات میں چند ملزمان کو فائدہ ہوگا، لیکن ہمارے اس عمل سے قانون سیدھا ہو جائے گا۔

    ہمایوں خان پر 18.75 کلو چرس فلائنگ کوچ میں چھپا نےکاالزام تھا، 2010 میں ٹرائل کورٹ نے ملزم کو سزا سنائی تھی اور ہائی کورٹ نے سزا کا فیصلہ برقرار رکھا تھا۔

  • نئے چیف جسٹس کی قومی ڈائیلاگ کی تجویز کا خیرمقدم کرتے ہیں: امیر جماعت اسلامی

    نئے چیف جسٹس کی قومی ڈائیلاگ کی تجویز کا خیرمقدم کرتے ہیں: امیر جماعت اسلامی

    لاہور:  امیر  جماعت اسلامی سراج الحق نے کہا ہے کہ قومی اداروں کے درمیان ڈائیلاگ وقت کی ضرورت ہے.

    ان خیالات کا اظہار  انھوں نے ایک جلسے سے خطاب کرتے ہوئے کیا، ان کا کہنا تھا کہ نئےچیف جسٹس کی قومی ڈائیلاگ کی تجویزکاخیرمقدم کرتے ہیں، یہ وقت کا تقاضا ہے.

    [bs-quote quote=” ہم سیاسی نہیں، حقیقی احتساب کے حق میں ہیں” style=”style-7″ align=”left” author_name=”سینیٹر سراج الحق”][/bs-quote]

    سینیٹر سراج الحق کا کہنا تھا کہ ملک پر قرضہ بڑھ رہا ہے، قوم سیاست دانوں کی لفظی لڑائی سے تنگ آچکی ہے، احتساب کے عمل کو  مشکوک بنا دیا گیا ہے.

    امیر جماعت اسلامی کا کہنا تھا کہ ہم سیاسی نہیں، حقیقی احتساب کے حق میں ہیں، حقیقی احتساب ہوگیا، تو  ملک میں نئی جیلیں بنوانی پڑیں گی.

    مزید پڑھیں: جسٹس آصف سعید کھوسہ نے چیف جسٹس آف پاکستان کا حلف اٹھا لیا

    سینیٹر سراج الحق نے کہا کہ ہمارے ہاں‌ ایکشن پہلے لیا جاتا ہے، سوچا بعد میں جاتا ہے، قومی ڈائیلاگ سے متعلق منصف اعلیٰ کی تجویز اہم ہے.

    اس موقع پر انھوں نے حکومتی پالیسیوں اور دعووں کا تنقید کا نشانہ بنایا اور ان میں فوری تبدیلی کا مطالبہ کیا۔

    یاد رہے کہ آج  جسٹس آصف سعید خان کھوسہ نے چیف جسٹس کے عہدے کا حلف اٹھایا ہے، جسٹس آصف سعید کھوسہ ملک کے 26 ویں چیف جسٹس ہیں۔

  • بنیادی حقوق کی فراہمی کا  اصل فورم عدلیہ اور ذریعہ جمہوریت ہے،چیف جسٹس

    بنیادی حقوق کی فراہمی کا اصل فورم عدلیہ اور ذریعہ جمہوریت ہے،چیف جسٹس

    اسلام آباد: چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس ثاقب نثار نے کہا ہے کہ جمہوریت سے ہی بنیادی حقوق فراہم کیے جاسکتے ہیں، بنیادی حقوق کی فراہمی کا اصل فورم عدلیہ ہے۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ بار نے چیف جسٹس ثاقب نثار کے اعزاز میں الوداعی عشائیہ دیا، چیف جسٹس ثاقب نثار نے کہا کہ الوداعی عشائیہ میرے لیے اعزاز کی بات ہے، عام وکیل کی حیثیت سے اپنے پیشے کا آغاز کیا، میٹرک میں فرسٹ ڈویژن، باقی سیکنڈ ڈویژن لیں، دیانت داری اپنے والد سے سیکھی۔

    چیف جسٹس نے کہا کہ ایس ایم ظفر سے محنت اور لگن سیکھی ہے، نوجوانوں کے لیے یہ پیغام ہے کہ محنت ہی کامیابی کی ضمانت ہے، عدلیہ کو بنیادی حقوق کی فراہمی بھی یقینی بنانا ہوگی۔

    انہوں نے کہا کہ انصاف کی فراہمی میں تاخیر نہیں ہونی چاہئے، قوانین آسان بنانے کے لیے اصلاحات ضروری ہیں، عدالتوں، وکلاء کو انصاف کی فراہمی آسان بنانے کے لیے مل کر کام کرنا ہوگا۔

    مزید پڑھیں: بنیادی انسانی ضروریات کے لیے ایشوز اٹھائے تاکہ بہتری آئے: چیف جسٹس

    چیف جسٹس نے کہا کہ یہی کاوش رہی کہ انصاف فراہم ہو، ملک کے عوام کو انصاف کی فراہمی اہم ترین فریضہ ہے، بنیادی حقوق کا نفاذ عدلیہ کی اولین ذمہ داری ہے۔

    واضح رہے کہ چند روز قبل جسٹس ثاقب نثار نے کہا تھا کہ ہم نے ڈیمز کا ایشو اُٹھایا تو کیا یہ انتظامی معاملات میں مداخلت ہے، بنیادی انسانی ضروریات کے لیے ایشوز اُٹھائے تاکہ بہتری آئے۔

    چیف جسٹس نے کہا تھا کہ کچھ حکام عوام کو نہیں سنتے، مجبوری میں عوام عدلیہ کے پاس آتے ہیں۔ پولیس تحقیقات میں نقائص کی وجہ سے مجرموں کو فائدہ ہوتا ہے۔ امید ہے پولیس تحقیقات کے طریقہ کار کو بہتر بنائے گی۔

  • پاکپتن درباراراضی کیس: جےآئی ٹی نے نوازشریف کوذمہ دارقراردے دیا

    پاکپتن درباراراضی کیس: جےآئی ٹی نے نوازشریف کوذمہ دارقراردے دیا

    اسلام آباد : پاکپتن درباراراضی الاٹمنٹ کیس میں جے آئی ٹی نے زمین منتقل کرنے کے احکامات میں سابق وزیراعظم نوازشریف کوذمہ دارقراردے دیا۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں چیف جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں پاکپتن درباراراضی الاٹمنٹ کیس سے متعلق سماعت ہوئی۔

    عدالت عظمیٰ میں جےآئی ٹی نے زمین منتقل کرنے کے احکامات میں نوازشریف کو ذمہ دارقرار دیا، سپریم کورٹ نے جےآئی ٹی رپورٹ پرنوازشریف اور پنجاب حکومت سے 2 ہفتے میں جواب طلب کرلیا۔

    چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ زمین الاٹمنٹ کس نے کی تھی؟ جس پرجے آئی ٹی سربراہ نے جواب دیا کہ زمین الاٹمنٹ سابق وزیراعلیٰ پنجاب نوازشریف نے کی تھی۔

    جے آئی ٹی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ دربارکی زمین نوازشریف نےغیرقانونی طورپرمنتقل کی، وکیل منور دوگل نے کہا کہ نوازشریف نے جواب دیا تھا انہوں نے ایسا نہیں کیا۔

    نوازشریف کے خلاف پاکپتن درباراراضی کیس: جےآئی ٹی کےسربراہ تبدیل

    چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ایسا نہ ہوہم اینٹی کرپشن کو پرچہ درج کرنے کے لیے کہہ دیں، آپ شاہ سے زیادہ شاہ کا کردارادا کررہے ہیں۔

    جےآئی ٹی سربراہ نے بتایا کہ حجرہ شاہ مقیم اوردربارحافظ جمال کی زمین بھی دی گئی، چیف جسٹس نے کہا کہ درباروں کی زمین 1986میں الاٹ کی گئی۔

    چیف جسٹس آف پاکستان نے کہا کہ تفتیش اورانکوائری ہوئی توکوئی بچ نہیں پائے گا، کیوں یہ زمین غیرقانونی طورپرالاٹ کی گئی، چوروں نے زمین لے کرآگے بیچ دی۔

    جےآئی ٹی سربراہ نے بتایا کہ یہ ساری زمینیں ایک ہی دورمیں نوازشریف نے دیں، پہلی تفتیشی رپورٹ 2015 میں دی گئی جس میں نوازشریف کو ذمہ دارقراردیا گیا، بعدازاں 2016 میں دوسری رپورٹ بنا کرنوازشریف کا نام نکال دیا گیا۔

    چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس ثاقب نثار نے ریمارکس دیے کہ اب وہ دورنہیں رہا، تیسری رپورٹ نہیں بنے گی۔

    سپریم کورٹ آف پاکستان نے نوازشریف اور پنجاب حکومت سے جے آئی ٹی رپورٹ پر 2 ہفتے میں جواب جمع کرانے کا حکم دے دیا۔

  • آسیہ کیس کے فیصلے کیخلاف دھرنا ، چیف جسٹس کا حکومت  کو ایک ماہ میں متاثرین کو ادائیگیوں کاحکم

    آسیہ کیس کے فیصلے کیخلاف دھرنا ، چیف جسٹس کا حکومت کو ایک ماہ میں متاثرین کو ادائیگیوں کاحکم

    لاہور : آسیہ کیس کے فیصلے کے بعد دھرنے اور جلاؤ گھیراؤ کیس میں ، چیف جسٹس نے حکومت اور  چاروں صوبوں کو ایک ماہ میں متاثرین کو ادائیگی کاحکم دےدیا، ہوم ڈیپارٹمنٹ کے افسر نے بتایا پنجاب میں دوسوباسٹھ ملین کانقصان ہوا، شہریوں کوادائیگی جلدشروع کردی جائے گی۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ لاہور رجسٹری میں چیف جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں دو رکنی بنچ نے آسیہ کیس کے فیصلے کے بعد دھرنے اور جلاؤ  گھیراؤ پر ازخود نوٹس کیس کی سماعت کی، چیف جسٹس نے عدالتی احکامات پر عمل درآمد کی رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت کی اور  قرار دیا کہ دھرنے اور جلاؤ گھیراؤ میں نجی املاک کو پہنچنے والے نقصان کا ازالہ ابھی تک کیوں نہیں کیا گیا؟

    چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ اڑھائی ماہ ہوگئے، ابھی تک حکومت نے اس حوالے سے کوئی حکمت عملی ہی طے نہیں کی، معصوم لوگوں کی جان و مال کی حفاظت حکومت کی ذمہ داری ہے۔

    ہوم ڈیپارٹمنٹ کے افسر نے عدالت کو آگاہ کیا کہ نقصان کا تخمینہ لگا لیا گیا ہے، پنجاب بھر میں 262 ملین روپے نقصان کا ہوا ہے، متاثرہ شہریوں کو ادائیگی کا سلسلہ جلد شروع کر دیا جائے گا۔

    ایڈووکیٹ جنرل پنجاب نے عدالت کو آگاہ کیا کہ کابینہ نے اس تخمینے کی منظوری بھی دے دی ہے، جس پر جسٹس اعجازالاحسن نے استفسار کیا کہ ادائیگی کے لیے کوئی پلان بھی مرتب کیا ہے یا یہ سب کاغذی کارروائی ہے۔

    چیف جسٹس نے کہا کہ اگر عدالت حکم نہ دیتی تو یہ پلان بھی نہ آتا، عدالت نے وفاق اور اور چاروں صوبوں کو ایک ماہ میں متاثرین کوادائیگی کاحکم دیتے ہوئے کیس نمٹادیا۔

    مزید پڑھیں : چیف جسٹس نے دھرنوں میں ہونے والی توڑ پھوڑ اور جلاؤ گھیراؤ کا نوٹس لے لیا

    یاد رہے آسیہ کیس کے فیصلے کے ردِ عمل میں دیے جانے والے دھرنوں میں مشتعل افراد کی جانب سے جلاؤ گھیراؤ اور ہنگامہ آرائی کی گئی تھی اور عوامی اور سرکاری املاک کو شدید نقصان پہنچایا گیا تھا، شہر بند ہونے کی وجہ سے کاروبار ٹھپ ہوگیا تھا ،جس سے تاجروں کو اربوں کا نقصان ہوا۔

    بعد ازاں چیف جسٹس پاکستان نے ملک بھر میں دیے جانے والے دھرنوں میں توڑ پھوڑ پر نوٹس لیتے ہوئے وفاق اور صوبائی حکومتوں سے مظاہروں کے دوران ہونے والے نقصان پر 3 دن میں رپورٹ مانگ لی تھی۔

  • جوڈیشل ایکٹوازم کی بنیاد نیک نیتی سے رکھی، سختی صرف قانون کی حکمرانی کے لیے کی: چیف جسٹس

    جوڈیشل ایکٹوازم کی بنیاد نیک نیتی سے رکھی، سختی صرف قانون کی حکمرانی کے لیے کی: چیف جسٹس

    لاہور: چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس ثاقب نثار نے کہا ہے کہ میں نے نیک نیتی سے جوڈیشل ایکٹوازم کی بنیاد رکھی، جوڈیشل ایکٹوازم کا مقصد کسی کے اختیارات سلب کرنا نہیں تھا.

    ان خیالات کا اظہار انھوں نے لاہور میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کیا. انھوں نے کہا کہ کبھی بد دیانتی نہیں کی، سختی کی ہوگی، مگر صرف قانون کی حکمرانی کے لئے کی.

    انھوں نے کہا کہ مجھے اس ملک اور ادارے سے محبت ہے، ظلم اور کفر کا معاشرہ چل سکتا ہے مگر ناانصافی کا نہیں، بدقسمتی سے عوام کو وہ انصاف نہیں مل رہا، جو ملنا چاہیے تھا.

    چیف جسٹس نے کہا کہ نادانستہ طور پر مجھ سے غلطیاں ہوئی ہیں، میرا کسی اور ڈومین میں دخل اندازی مقصد نہیں تھا، میں نے کسی کے کام میں دخل اندازی نہیں کی.

    انھوں نے کہا کہ لوگوں کو جلد انصاف نہیں ملتا، جس کی وجہ سے عدلیہ کا احترام کم ہوا، میں نے اپنے ملک سے محبت اور سخت محنت کی، ججز اپنے کام کو ملازمت نہیں، قوم کی خدمت سمجھ کرکریں.


    مزید پڑھیں: آئندہ نسلوں کو بچانے کے لیے ڈیم کے سوا کوئی راستہ نہیں، چیف جسٹس


    چیف جسٹس نے کہا کہ 14 جنوری کو پولیس ریفارمز کی شکل میں بڑاتحفہ دے رہے ہیں، ہائیکورٹ کا یہ مقام نہیں کہ وہ پرچہ درج ہونے کا مقدمہ سنے، ہائی کورٹ اعلیٰ معیار کے مقدمات کی سماعت کےلئے ہوتی ہے، آج سپریم جوڈیشل کونسل میں صرف 2 ریفرنس باقی ہیں.

    انھوں نے کہا کہ ہم اپنا احتساب خود کررہےہیں امید ہے، وکلا بارزبھی انصاف کریں گے، جج کا ایک ہی مشن ہے کہ وکیل ہے یا نہیں، اسےانصاف کرنا ہے.

    ان کا کہنا تھا کہ لاہور ہائیکورٹ سے میری وابستگی 56 سال سے ہے، اس سے معروف شخصیات وابستہ رہیں، زندگی میں بہت کم رویا آج آپ لوگوں کے پیارسے آنکھیں نم ہوئیں.