Tag: Climate Change

  • پاکستان میں گلیشیئرز کی اونچائی میں اضافہ، لیکن پانی کی کمی کا خدشہ

    پاکستان میں گلیشیئرز کی اونچائی میں اضافہ، لیکن پانی کی کمی کا خدشہ

    اسلام آباد: شمالی علاقوں میں رہنے والے افراد کے لیے ایک اچھی خبر ہے کہ ان کے علاقوں میں موجود گلیشیئرز کی اونچائی اور ان کی برف میں اضافہ ہورہا ہے، تاہم یہ عمل ملک میں پانی کی کمی کا سبب بن سکتا ہے۔

    ایریزونا یونیورسٹی میں پاکستانی گلیشیئروں پر کی جانے والی ایک تحقیق میں بتایا گیا کہ گو کہ دنیا بھر میں عالمی درجہ حرارت بڑھنے یعنی گلوبل وارمنگ کی وجہ سے دنیا بھر کے گلیشیئروں کی برف پگھل رہی ہے، تاہم پاکستان میں اس کے برعکس عمل ہورہا ہے۔

    ماہرین کے مطابق پاکستانی گلیشئیروں پر برف پگھلنے کی رفتار میں کمی واقع ہورہی ہے جس سے دریاؤں میں کم پانی آنے اور ملک میں پانی کی قلت پیدا ہونے کا خدشہ ہے۔

    تحقیق میں کہا گیا کہ مستقبل قریب میں پاکستانی دریاؤں میں پانی کی 7 فیصد کمی دیکھی جاسکتی ہے۔

    سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ گلیشیئروں کے بڑھنے کی وجہ درجۂ حرارت میں کمی کے علاوہ اس علاقے میں بادلوں اور نمی کا ہونا اور تیز ہواؤں کا نہ چلنا ہے۔

    یاد رہے کہ پاکستان میں 5 ہزار سے زائد گلیشیئرز موجود ہیں۔ یہ گلیشیئر بر اعظم انٹار کٹیکا کے بعد دنیا بھر میں سب سے بڑے گلیشیئر مانے جاتے ہیں اور پاکستانی دریاؤں کو پانی کی فراہمی کا سب سے بڑا ذریعہ ہیں۔

    مزید پڑھیں: حکومت کا گلیشیئرز کا ڈیٹا حاصل کرنے کے لیے اہم اقدام

    ماہرین نے موسمیاتی تغیرات یعنی کلائمٹ چینج کے اثرات کے برعکس ہونے والے اس عمل کو قراقرم اینا ملی (بے قاعدگی یا غیر معمولی) قرار دیا ہے۔

    یہ تحقیق ایریزونا یونیورسٹی میں ایک پاکستانی محقق فرخ بشیر، اور 3 امریکی محققین شوبن زنگ، ہوشن گپتا اور پیٹر ہیزنبرگ نے کی۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • آفاقی عشق کی لازوال داستاں – دوام

    آفاقی عشق کی لازوال داستاں – دوام

    "جنت شاید کوئی ایسی ہی جگہ ہوگی ۔۔۔”
    سوات اور کالام میں ہر سو بکھرے حسن کو دیکھ کر فاریہ بے اختیار بول اٹھی ۔۔
    "لیکن اس جنتِ ارضی کو انسان کس طرح جہنم بنا رہا ہے ۔۔ اِس پر بھی غور کرو”۔۔ منتہیٰ کا مدلل جواب حاضر تھا۔
    "پوائنٹ ٹو بی نوٹڈ”۔۔ فاریہ نے کسی فلاسفر کی طرح سر ہلایا ۔۔
    وہ گزشتہ ایک ہفتے سے دیر ، سوات ، بالا کوٹ اور ملحقہ علاقوں کی خواتین میں اویئرنیس کمپین ( شعور و آ گہی کی مہم )چلانے کے لیےرامین ، پلوشہ ،سنبل غازی ونگ کی کئی اور لڑکیوں کے ساتھ آئی ہوئی تھیں ۔
    اگرچہ وہ غازی ونگ میں نہیں تھیں پر ارمان اور ڈاکٹر عبدالحق کے اسرار پر منتہیٰ کو ساتھ آن پڑا تھا کیونکہ ایس ٹی ای کے خواتین ونگ کی شمالی علاقہ جات کے دور دراز علاقوں میں یہ پہلی کمپٔین تھی۔ان علاقوں کی خواتین شرحِ خواندگی کم ہونے کے باعث زلزلے یا سیلاب کی ہنگامی صورتحال میں احتیاطی تدابیر سے لا علم تھیں،منتہیٰ اور برین ونگ کے چند دیگر کمانڈرزکا آئیڈیا تھا کہ خواتین ممبرز گھر گھر جا کر ان میں آفات سے ازخود نمٹنے کا شعور پیدا کرنےکی کوشش کریں تاکہ وہ بروقت اپنی اور بچوں کی جان بچا سکیں۔ پچھلے تباہ کن زلزلے کے اعداد و شمار کے مطابق اموات میں بچوں اور خواتین کی تعداد سب سے زیادہ تھی۔


    اسی ناول کی گزشتہ اقساط پڑھنے کے لیے کلک کریں


    وہ گروپس کی صورت میں مختلف علاقوں میں علی الصبح نکل جاتیں اور سارا دن در در کی خاک چھان کر واپس کیمپس لوٹ آتیں۔
    "ہم ایک لا حاصل مقصد کے پیچھے خوار ہو رہے ہیں "۔۔ کمپین کے چھٹے روز تھکی ہاری کیمپ پہنچ کر فاریہ پھٹ پڑی
    "خیریت کیا ہوا ؟؟ "۔ارمان قریب ہی ایک اونچے پتھر پر بیٹھا چائے پی رہا تھا
    "کیا ہوا ؟۔۔یہ پوچھیے کہ کیا نہیں ہوا ۔۔”
    "ہم سارا دن بمشکل پانچ خواتین سے ملاقات کر پائے ۔۔ جس گھر پر دستک دو، وہاں خونخوار سے بڑی بڑی مونچھوں والے آدمی نکل کر ہمیں یوں مشکوک نظروں سے گھورتے ہیں۔۔ جیسے ہم داعش کی نمائندہ ہوں "۔رامین بہت اَپ سیٹ تھی
    "اور جن خواتین سے ہمیں کسی نہ کسی طرح شرفِ ملاقات نصیب ہوا ۔۔ اُن کے پلے ہماری بات نہیں پڑ تی ۔۔۔ پلوشہ نےانہیں مقامی زبان میں ہر طرح سمجھانے کی کوشش کی مگر ہماری باتیں اُن کی سمجھ سے باہر ہیں "۔۔ سنبل نے بھی بھڑاس نکالی
    "تو پھر ہمیں کیا کرنا چاہئے ؟؟”۔۔ ارمان نے باری باری اِن سب کے ستے ہوئے چہروں کو دیکھا
    "بس ہم کل سے کمپین پر نہیں جائیں گے "۔۔ رامین نے جیسے فیصلہ صادر کیا
    "گرلز اتنی جلدی ہمت ہار بیٹھی، ابھی عشق کے امتحاں اور بھی ہیں”۔ ارحم نے دانت نکالے
    "ٹھیک ہے پھر کل سے آپ خود جائیے گا ، دیکھتے ہیں کتنے پانی میں ہیں آپ”۔۔ ہونہہ ۔ فاریہ کا چہرہ غصے اور تھکن سے سرخ تھا۔
    "میں اس وقت گھٹنوں گھٹنوں پانی میں ہوں آپ لوگ چاہیں تو پیمائش کر سکتی ہیں۔ ارحم نے جو چشمے کے کنارے پانی میں پاؤںمیں ڈالے بیٹھا تھا "۔۔۔ فاریہ اور رامین کو مزید طیش دلایا ۔
    "ہاں ٹھنڈے پانی میں پاؤں ڈالے بیٹھے ہیں ، سارا دن گرمی میں خوار ہونے پڑے گا نہ تو نانی یاد آجا ئے گی ۔”
    "نانی اماں میری کب کی جنت کو سدھار چکی ہیں ، مگر یاد کرنے کے لیے کچھ اور لوگ بھی ہیں میری زندگی میں ۔ ارحم نے ایک سردآہ بھری”۔۔ "اس دشت پیمائی میں یونیورسٹی کی’’ راحتیں ‘‘اسے بہت یاد آرہی تھیں۔”
    "بے فکر رہ ! جب تو واپس لوٹے گا نہ تو وہ ساری ۔ کہیں اور بندوبست کر چکی ہوں گی”۔ ارمان نے اس کے قریب جاکر ایک دھپرسید کی۔ اگرچہ منتہیٰ ان سے کچھ فاصلے پر تھی، مگر ان کی نوک جھونک اس تک پہنچ رہی تھی۔
    "تو بھی کچھ لوگوں کی زیادہ فکر مت کیا کر ۔ اب ہم ان کی وجہ سے سقراط تو بننے سے رہے”۔ ارحم نے جھک کر سرگوشی کی۔تو ارمان نےکھا جانے والی نظروں سے اسے دیکھا ۔
    "میم منتہیٰ”۔ "آپ کیا کہتی ہیں اس بارے میں ، کیا اتنی جلدی ہمت ہار بیٹھنا عقل مندوں کا کام ہے”۔ ارحم نے منتہیٰ کو قدرے اونچی آواز میں مخاطب کیا ۔فاریہ کا بس نا چلتا تھا کہ ارحم کا قتل کردے۔اسے معلوم تھا منتہیٰ ہارتی نہیں ہے وہ آخری حد تک جانے والوں میں سے تھی۔
    "ہمارا ٹاسک لا حا صل ہر گز نہیں ہے لیکن قبل از وقت ضرور ہے ‘‘ ۔۔’’یہاں کی عورتوں میں آگاہی اور شعور بیدار کرنے سےپہلے ہمیں اِن کے مردوں کی سوچ تبدیل کرنا ہوگی ۔۔ ورنہ غالب امکان یہ ہے کہ ۔۔ اِس طرح کی کوششوں سے ہم دوست کے بجائے اِنہیں اپنا دشمن بنا لیں گے ۔۔ کیونکہ یہاں کے لوگ بیوی ہی نہیں ماں ، بہن اور بیٹی کی گردنیں بھی گاجر،مولی کی نسبت زیادہ آسانی سے کاٹتا ہے‘‘۔ فاریہ کی توقع کے بر عکس منتہیٰ کا جواب خاصہ مدلل تھا۔
    رامین ، سنبل وغیرہ نے باقاعدہ تالیاں بجا کر منتہیٰ کا پوائنٹ سیلبریٹ کیا ۔
    "چلیں جی ۔ کل سے ایس ٹی ای کے میل کمپین شروع ہوگی اور ہم چشمے کے ٹھنڈے پانیوں کو ناپا کریں گے”۔ فاریہ نے حساب چکتا کیا۔
    ان کی نوک جھونک اب رات تک یونہی چلتی رہنی تھی، سو انہیں نظر انداز کرتا ہوا ارمان، چائے کا مگ ہاتھ میں لیئے منتہیٰ سے کچھفا صلے پر جا کر بیٹھا ۔
    میرے خیال میں ہمیں کچھ دن میل اور فی میل کی مشترکہ مہم چلانی چاہیئے، اس سے ناصرف آپ لوگوں کو تحفظ اور سپورٹ ملے گی بلکہ ہمیں مستقبل میں کمپین کے لیے صحیح آئیڈیا بھی ہو سکے گا ۔
    "جی ۔ لیکن میرے خیال میں اس کے ساتھ یہاں اپنے پہلے ڈیسازٹر سینٹر کا بھی آغاز کر دینا چاہیئے ۔ اس سے ایک تو یہاں کے لوگوں کا ہم پر اعتماد بڑھے گا ، اور دوسرے مقامی افراد کی بھرتی سے ہم گھر گھر جانے کی زحمت سے بچ جائیں گے۔ لوگوں
    کو ایک جگہ جمع کرکے کینوینس کرنا زیادہ آسان بھی ہے اور فائدہ مند بھی” ۔
    ارمان نے اسکی بات ختم ہوتے ہی اثبات میں سر ہلایا ۔
    ************
    ان کے پاس وقت کم تھا کیونکہ خواتین ممبران کا زیادہ عرصے تک ان علاقوں میں قیام ممکن نہیں تھا ، سو ارمان نے چند ساتھیوں کے ساتھ مل کر اگلے تین روز میں کرائے پر ایک نیم خستہ گھر لے کر آفس بنانے کی تیاریاں شروع کیں ۔
    پہلے مرحلے میں انھیں لوگوں کو یہاں جمع کرکے اپنے مقاصد سے آگاہ کرنا تھا جس کے لیے زیادہ دفتری لوازمات کی ضرورت نہیں تھی ۔
    اگلے روز ارمان ناشتے کے بعد اپنا لیپ ٹاپ لیے بیٹھا پریزینٹیشن بنا رہا تھا ۔۔کہ بھاری بھرکم جسامت والا ایک شخص اچانک وارد ہوا ۔ ان کے کچھ ساتھی گروپس کی صورت میں گھر گھر مہم پر روانہ ہوچکے تھے جبکہ باقی ابھی کیمپس میں تھے۔
    "اسلام و علیکم ‘‘۔ "میرا نام خوشحال ہے "۔۔نو وارد نے تعارف کروا کر خوشدلی سے مصافحہ کے لیے ہاتھ بڑھایا ۔ ارمان نے ہاتھ ملاتے ہوئے اسے بغوردیکھااس کا صاف اردو لہجہ چونکا نے والا تھا ۔ کیونکہ وہ دیکھنے میں مقامی لگتا تھا۔
    "کیا مجھے آپ کے اس آفس کے قیام اور مقاصد کے متعلق کچھ معلومات مل سکتی ہیں ؟؟”
    ارمان نے کافی دیر تک پوسٹرز اور لیپ ٹاپ پر سلائیڈز کی مدد سے خوشحال خان کو مکمل بریف کیا ۔ اس کی چھٹی حس جو ہمیشہ سےبہت تیز رہی تھی، ایک دفعہ پھر کہتی تھی یہ بندہ مستقبل میں ان کے بہت کام آنے والا ہے ۔
    "میں اسی علاقے کا رہائشی ہوں لیکن تعلیم اور ملازمت کے سلسلے میں مختلف شہروں میں قیام رہا ہے۔۔گذشتہ ہولناک زلزلے کے بعد میں یہاں لوٹا تو میرے آبائی گھر سمیت سب کچھ فنا ہو چکا تھا ۔ تب سے میں وقتاَ فوقتاَ یہاں آ کر آفت زدہ لٹے پٹے اپنے رشتہ داروں کی کچھ مدد کر جایا کرتا ہوں ۔ مجھے بہت خوشی ہے کہ جو کام ہماری حکومت کرنے میں ناکام رہی ۔ اسےکرنے کا بیڑہ اب عوام نے اٹھایا ہے‘‘۔
    "میرا بھر پور تعاون آپ کے ساتھ ہے”۔۔ اپنا وزیٹنگ کارڈ ارمان کو تھماتا ہوا وہ شخص جا چکا تھا ۔
    ارمان نے کرسی واپس سنبھالتے ہوئے ایک نظر کارڈ پر ڈالی، پھر زور سے اچھلا ۔
    "خوشحال خان‘‘ ۔ "وہ کراچی سٹاک ایکسچینج کا ایک معروف تاجر تھا ۔”
    ************
    شام ڈھلے جب سارے ساتھی تھکے ہارے کیمپس واپس لوٹے تو اس روز چائے کے ساتھ کچھ ہلکے پھلکے لوازمات بھی ان کے تھے ۔
    "یاہو۔۔ ٹریٹ۔۔ "۔فاریہ اور ارحم نے ایک ساتھ نعرہ لگایا
    "ارمان بھائی زندہ باد "۔۔ رامین کب کسی سے پیچھے رہنے والی تھی ۔ جب سے گھر کے عیش و آسائش چھوڑ کر نکلے تھے سادہ کھاناہی مل رہا تھا۔
    "ویسے یہ ٹریٹ ہے کس خوشی میں ۔۔؟؟”۔ صہیب نے پورا سموسہ منہ میں ٹھونستے ہوئے دیدے نچائے، بھوک سے سب کا برا حال تھا ۔
    "یہ ہمارے ایک نئے خیر خواہ کی طرف سے دی گئی ٹریٹ ہے ۔آج رات کے کھانے پر ہم ان کے گھر پر مدعو ہیں "۔ ارمان نے ان کو ساری تفصیل بتائی۔
    فاریہ، رامین اور پلوشہ نے ایک ساتھ زوردار نعرہ لگایا۔ چلو یہاں کوئی کام کا بندہ تو ملا ۔
    "تم لوگوں نے اگر یہی حرکتیں کرنی ہیں تو ہم تمہیں ہر گز ساتھ نہیں لے کر جائیں گے "۔منتہیٰ نے تنبیہی نظروں سے انہیں گھورتے ہوئے ڈانٹا۔
    ارحم اور شہریار نے بمشکل اپنا اونچا قہقہہ ضبط کیا۔۔ ورنہ خدشہ تھا کہ ان کو بھی بین کر دیا جاتا ۔
    "آپی۔ اب کیا ہم خوش بھی نہیں ہوسکتے۔؟ "۔رامین نے منہ بسورا ۔
    "خوش ہونے کا یہ کونسا انداز ہے؟؟ "۔۔”تم لوگ اپنے گھر کے بیڈروم میں نہیں بیٹھی ہوئیں ۔ سمجھیں۔۔”
    ارمان نے دلچسپی سے ساری لڑکیوں کے اترے چہروں کو دیکھا ۔پھر ایک گہری نظر منتہیٰ پر ڈالی۔
    وہ کیمپس کے قریب پہاڑی جھرنے کے ٹھنڈے پانی میں اپنے دود ھیا پاؤں ڈالے بیٹھی تھی ۔۔۔ دن بھر کی کوفت اور تھکن سے اُس کا سپید چہرہ قدرے سرخ تھا ۔۔۔ ارمان اُسے دم بخود دیکھے گیا ۔
    "اور زندگی میں کچھ لمحے آتے نہیں۔۔ بلکہ دلوں پر وارد ہوتے ہیں ۔۔ ایسا ہی ایک لمحہ اُس روز ارمان یوسف کی زندگی میں بھی آیا تھا ۔ وہ جھرنے سے کچھ فاصلے پر ایک اونچے پتھر پر بیٹھا ہوا تھا پھر بھی کوئی پھوار سی اُسے شرابور کرتی چلی گئی تھی۔”
    "وہ بے خبر تھا ۔۔آج جو بیڑیاں اُس نے با خوشی اپنے پاؤں میں بندھوائی ہیں اب اُسے تا عمر ان کا اسیر رہنا تھا ۔”

    تم نے دیکھی نہیں عشق کے قلندر کی دھمال
    پاؤں پتھر پہ بھی پڑ جائے تو دُھول اڑتی ہے

    جاری ہے

    ***********

  • مشرق سے مغرب تک تباہ کن سیلاب اور طوفان، یا الٰہی یہ ماجرا کیا ہے؟

    مشرق سے مغرب تک تباہ کن سیلاب اور طوفان، یا الٰہی یہ ماجرا کیا ہے؟

    سال 2017 موسمیاتی تغیرات یعنی کلائمٹ چینج کے حوالے سے ایک تباہ کن سال ثابت ہوا۔ فرسٹ ورلڈ امریکہ سے لے کر تیسری دنیا کے جنوبی ایشیا تک طوفانوں اور سیلابوں نے وہ تباہی مچائی کہ دنیا لرز اٹھی۔

    یہ بات اب دنیا کو سمجھنی ہوگی کہ گو کہ ہم نے زمین سے مماثلت رکھنے والے کئی سیارے دریافت تو کرلیے ہیں، لیکن فی الحال ہمارے پاس رہنے کے لیے صرف ایک ہی سیارہ زمین ہے جہاں باقاعدہ زندگی ہے اور انسانی زندگی کو مطلوب مکمل ضروریات موجود ہیں، اور بدقسمتی سے اب اس زمین کا کوئی بھی حصہ قدرتی آفات سے محفوظ نہیں رہا جسے عاقبت نا اندیش انسان نے خود اپنے ہاتھوں سے دعوت دی۔

    اے آر وائی نیوز نے اس سلسلے میں خصوصی طور پر چند بین الاقوامی ماہرین سے گفتگو کی اور جاننے کی کوشش کی کہ قدرتی آفات میں اور ان کی تباہ کن شدت میں اس قدر اضافہ کیوں ہوگیا ہے، اور ان سے نمٹنا یا ان کی شدت کو کم کرنا ممکن ہے۔

    اس سے قبل ہم گزشتہ 2 ماہ میں دنیا کے کئی ممالک کو متاثر کرنے والے سمندری طوفانوں، سیلابوں اور ان سے ہونے والے نقصانات کا مختصراً جائزہ لیں گے۔

    جنوبی ایشیا کا تباہ کن مون سون

    بارشوں کا سیزن مون سون ایک قدرتی عمل ہے جو جنوبی ایشیا میں جون سے ستمبر تک ہر سال آتا ہے تاہم سینٹر فار ریسرچ آن دا ایپیڈ مولوجی آف ڈیزاسٹر کے مطابق 2017 کے مون سون کا آخری سائیکل جس کا آغاز اگست میں ہوا، نے جنوبی ایشیائی ممالک نیپال، بنگلہ دیش، بھارت اور پاکستان میں بے تحاشہ تباہی مچائی۔

    اس  اسپیل نے چاروں ممالک میں لگ بھگ 13 سو افراد کو لقمہ اجل بنایا جبکہ مجموعی طور پر 4 کروڑ افراد اس سے براہ راست متاثر ہوئے اور ناقابل تلافی نقصانات کا شکار بنے۔

    اس آخری سائیکل نے بیک وقت بھارت، بنگلہ دیش اور نیپال کو اپنا نشانہ بنایا۔ خوش قسمتی سے پاکستان میں اس نوعیت کی تباہی دیکھنے میں نہیں آئی جیسی ان 3 ممالک میں نظر آئی۔

    بھارت

    مون سون کی یہ معمول کی بارشیں جب غیر معمولی صورت اختیار کر گئیں تو انہوں نے بھارت کے شمالی حصے بشمول ممبئی اور بھارتی ریاستوں آسام، مغربی بنگال، بہار اور اتر پردیش کو بدترین طور پر متاثر کیا۔

    اس سیلاب نے 3 کروڑ سے زائد افراد کو متاثر کیا، 8 لاکھ سے زائد گھر بہہ گئے جبکہ ریاست آسام میں واقع نایاب نسل کے گینڈوں اور چیتوں پر مشتمل کازی رنگا نیشنل پارک بھی سیلاب کی زد میں آگیا۔

    بعد ازاں وہاں کئی گینڈوں اور چیتوں کی لاشیں بھی تیرتی ہوئی پائی گئیں۔

    بھارتی شہر ممبئی بھی مذکورہ سیلاب سے بے حد متاثر ہوا، لگاتار پورا دن ہونے والی بارش کے نتیجے میں شہر میں سیلابی صورتحال پیدا ہوگئی، ممبئی کے ریلوے ٹریکس بھی زیر آب آگئے۔

    بھارت میں امدادی کاموں میں تاخیر اور غفلت کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا گیا لیکن یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ جنوب ایشیائی شہری ہونے کی حیثیت سے یہ اس خطے کا معمول کا حکومتی رویہ ہے اور خود عوام بھی اس رویے کو سہنے کی عادی ہے۔

    بنگلہ دیش

    بنگلہ دیشی دارالحکومت ڈھاکہ اور مختلف شمالی و مشرقی حصوں میں معمول کی بارشیں اچانک شدت اختیار کرنے سے سیلابی صورتحال پیدا ہوئی جس سے 60 لاکھ افراد متاثر ہوئے۔ 7 لاکھ گھر تباہ ہوئے، جبکہ 46 لاکھ 80 ہزار ہیکٹرز پر کھڑی فصلیں بہہ گئیں۔

    ڈھاکہ بارشوں کے بعد

    نیپال

    نیپال میں ان تباہ کن بارشوں نے 143 افراد کو موت کے گھاٹ اتارا جبکہ مجموعی طور 17 لاکھ افراد اس سے متاثر ہوئے۔ 4 لاکھ سے زائد لوگ بے گھر ہوئے جبکہ 34 ہزار مکانات بالکل تباہ ہوگئے۔

    سب سے بڑا نقصان مہندرا ہائی وے کو ہوا جو ملک کے مشرقی اور مغربی حصے کو ملانے والا واحد زمینی ذریعہ تھی اور یہ ہائی وے ان بارشوں میں بہہ گئی۔

    سیلاب سے برات نگر ایئرپورٹ کا رن وے بھی زیر آب آگیا جس کے باعث ایئرپورٹ کو بند کرنا پڑا۔

    سیلاب کے بعد برات نگر ایئرپورٹ کا ایک منظر

    زرعی ماہرین کے مطابق بارشوں اور سیلاب میں چاول کی فصلیں بھی بہہ چکی ہیں جو نیپال کی اہم غذائی فصلوں میں سے ایک ہے، اور نیپال میں بہت جلد ایک غذائی قلت اور مہنگائی کا عفریت سر اٹھانے والا ہے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ نیپال کی تاریخ کا بدترین سیلاب تھا جس نے ملک کے ایک تہائی حصے کو متاثر کیا اور کم ترقی یافتہ اور دیہی علاقے خاص طور پر اس کا نشانہ بنے۔

    پاکستان

    پاکستان میں مون سون کے اس آخری سائیکل نے اس نوعیت کی تباہی تو نہ مچائی تاہم سندھ کے کئی دیہی علاقے زیر آب آگئے جبکہ کراچی جیسا میٹرو پولیٹن شہر بھی اربن فلڈ کی زد میں آگیا۔

    مزید پڑھیں: کراچی کا اربن فلڈ

    یاد رہے کہ رواں سال مون سون شروع سے پاکستان کے لیے کچھ اچھا نہ تھا اور مختلف سائیکل ملک کے مختلف حصوں میں تباہی مچاتے رہے جن میں صوبہ پنجاب اور خیبر پختونخواہ کے نشیبی اور دیہی علاقے شامل ہیں۔ لیکن یہاں یہ بھی یاد رکھنے کی ضرورت ہے کہ یہ سیلاب ہر سال ہی پاکستانی مون سون کا حصہ ہیں۔

    ماہرین روز اول سے چیخ رہے ہیں کہ پاکستان میں آنے والے سیلاب خود ہمارے اپنے پیدا کردہ ہیں۔ سال کا آدھا حصہ ہم پیاس سے مرتے ہیں جبکہ بقیہ سال سیلاب ہمیں مارتا ہے۔

    اگر سیاسی جھگڑوں کو چھوڑ کر دانشمندانہ حکمت عملی سے کام لیا جائے تو ڈیمز اور دیگر جدید ذرائع سے اس پانی کو محفوظ کیا جاسکتا ہے جو سیلابی صورت اختیار کرتا ہے۔ اس طرح نہ تو سیلاب پیدا ہوں گے اور نہ سال کے کسی حصے میں کہیں خشک سالی کی صورتحال ہوگی۔

    شہر کراچی میں آنے والا اربن فلڈ بھی صوبائی و شہری حکومتوں کی غفلت اور نااہلی کا منہ بولتا ثبوت تھا جنہوں نے نکاسی آب کے راستوں کو کچرے اور غلاظت سے بھر رکھا ہے، نتیجتاً معمول سے زیادہ ہونے والی بارشیں نکاس نہ ہوسکیں اور سیلاب کی شکل اختیار کر گئی۔

    مزید پڑھیں: کراچی میں اتنی بارشیں کیوں ہونے لگیں؟

    ماہرین کا واضح طور پر کہنا ہے کہ اربن فلڈ آتے ہی اس وقت ہیں جب کسی شہر کو بغیر منصوبہ بندی کے بساتے چلے جایا جائے اور مستقبل اور موسمی حالت کو پیش نظر رکھتے ہوئے کوئی منصوبہ بندی نہ کی جائے۔

    معمول سے ذرا سی زیادہ بارش نے شہر کراچی کا یہ حال کردیا

    مغربی ممالک کے خوفناک طوفان

    امریکا میں بحر اوقیانوس میں سب سے پہلے ہاروی طوفان مشاہدے میں آیا اور اس سے قبل ہی امریکی ماہرین خبردار کرچکے تھے کہ اوقیانوس میں اس وقت 3 فعال طوفان موجود ہیں جن کی شدت کے بارے میں کچھ کہنا قبل از وقت ہوگا۔

    امریکا میں ہریکین ہاروی کی نوعیت کا شدید اور تباہ کن طوفان اس سے قبل سنہ 2005 میں آیا تھا جس کا نام ولما تھا۔ رواں برس آنے والے سمندری طوفان لینڈ سلائیڈنگ کا سبب بھی بنے جس نے نقصان کی شدت میں اضافہ کردیا۔

    یاد رہے کہ بحر اوقیانوس 10 کروڑ 64 لاکھ 60 ہزار اسکوائر کلومیٹر کے رقبے پر پھیلا ہوا بحر ہے اور یہ بحر الکاہل کے بعد زمین کا دوسرا بڑا بحر ہے۔ یہ زمین کے رقبے پر کل 20 فیصد حصے پر مشتمل ہے۔

    متعدد افریقی، امریکی و یورپی ممالک اس کے کناروں پر واقع ہیں لہٰذا اوقیانوس میں معمولی سی ہلچل کا مطلب ہے کہ متعدد مغربی و افریقی ممالک میں نقصانات کا خدشہ۔

    ہریکین ہاروی

    گزشتہ ماہ 215 کلو میٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے چلنے والی ہواؤں اور اس کے نتیجے میں 100 سینٹی میٹر کی ہونے والی بارشوں نے امریکا میں تباہی کی تاریخ رقم کردی۔

    اوقیانوس میں ایک بڑی لہر سے شروع ہونے والا یہ طوفان 17 اگست کو بدترین سمندری طوفان کی شکل اختیار کرگیا۔ ایک معمولی نوعیت کے طوفان کی حیثیت سے یہ سب سے پہلے ونڈ ورڈ جزائر سے گزرا اس کے بعد کیریبیئن جزائر کے ملک بارباڈوس پہنچا لیکن ابھی بھی یہ ایک کم شدت کا طوفان تھا۔

    تاہم کم ترقی یافتہ کیریبیئن ملک بارباڈوس اس طوفان کو سہہ نہ سکا اور بے تحاشا نقصان دیکھنے میں آیا۔

    کیریبیئن جزائر سے لے کر کولمبیا کے سفر تک اس طوفان کی شدت میں کبھی کمی اور کبھی اضافہ دیکھا جاتا رہا۔ بعد ازاں 24 اور 25 اگست کی رات یہ اچانک درجہ 4 کےطوفان میں تبدیل ہوگیا، اس وقت یہ امریکی ریاست ٹیکسس میں داخل ہوچکا تھا۔

    ہاروی طوفان اور بارشوں سے پیدا ہونے والے سیلاب نے ٹیکسس کے شہر ہیوسٹن کو بے تحاشہ نقصان پہنچایا۔

    طوفان اور سیلاب کے دوران ٹیکسس کے شہر ہیوسٹن کا ایک منظر

    اس دوران یہ اپنے پیچھے تباہی و بربادی کی داستان رقم کرتا چلا آرہا تھا۔ اس کے بعد یہ بحر اقیانوس کے ساحلی نشیب گلف میکسیکو میں داخل ہوا جہاں اس کی شدت ابھی برقرار تھی۔

    ہاروی نے وہاں پر واقع امریکی ریاست لوزیانا میں بے حد نقصان بشمول لینڈ سلائیڈنگ برپا کی، اس کے بعد کمزور ہوتا چلا گیا اور پھر یکایک اوقیانوس کی گہرائیوں میں گم ہوگیا۔

    ہریکین ہاروی نے ونڈ ورڈ آئی لینڈز، سوری نام، گیانا، نکارا گوا، ہنڈراس، اور جنوبی اور مغربی امریکی ریاستوں خصوصاً ٹیکس اور لوزیانا کو بری طرح متاثر کیا۔ طوفان میں کل 83اموات رپورٹ ہوئیں جن میں 82 امریکی ریاستوں میں تھی۔

    طوفان نے ان ممالک و جزائر کی معیشتوں کو ابتدائی تخمینے کے مطابق 200 ارب ڈالرز کا نقصان پہنچایا۔

    ہریکین ارما

    ابھی ہاروی طوفان کی تباہ کاریوں کا جائزہ لیا جارہا تھا اور امدادی کام جاری تھا کہ ارما طوفان بھی سر پر آ پہنچا۔ امریکی ماہرین ارما کے گرداب اور لہروں کا مشاہدہ سنہ 2007 سے کر رہے تھے تاہم ہاروی نے اس کو بے پناہ تقویت دی اور یہ چیختا چھنگاڑتا سمندر کے کناروں سے باہر اچھل آیا۔

    پہلے درجے سے شروع ہوتا ہوا 6 ستمبر کو یہ پانچویں درجے تک جا پہنچا جس میں ہواؤں کی شدت 295 کلو میٹر فی گھنٹہ تھی۔

    ذرا سے مختلف راستوں سے گزرتا ہوا یہ کیپ ورڈی، لی وارڈ جزائر، اور کیریبیئن جزائر کے ملک کیوبا میں تباہی مچاتا جس وقت امریکی ریاست فلوریڈا پہنچا اس وقت یہ اپنےعروج پر تھا۔

    امریکی ریاست فلوریڈا میں طوفان کے بعد تباہی

    اس دوران یہ کم ہو کر چوتھے درجے پر بھی پہنچا لیکن ایک بار پھر پانچویں درجے پر پہنچ کر بدترین لینڈ سلائیڈنگ کا سبب بنا۔ تاہم اس کے بعد اس کی شدت میں کمی آتی گئی۔

    ارما نے کیریبیئن جزائر کے علاقوں بارباڈوس، سینٹ بارتھیلمی، سینٹ مارٹن اور برطانوی ورجن جزائر اور ہیٹی میں خوب تباہی مچائی جس میں سے بارباڈوس پہلے ہی ہاروی سے تباہ حال تھا۔

    مقامی حکام کے مطابق بربودہ یا بارباڈوس میں ارما اور ہاروی کی وجہ سے 95 فیصد عمارتیں تباہ ہو گئیں۔ جزیرہ پورٹو ریکو کے نصف سے زائد مکانات گر گئے جبکہ سینٹ مارٹن جزیرے کا 95 فیصد انفرا اسٹرکچر تباہ ہوچکا تھا۔

    بالآخر جب طوفان ختم ہوا تو یہ 101 افراد کی زندگیاں نگل چکا تھا جن میں 44 کیریبیئن جزائر اور 57 امریکی ریاستوں میں ہوئیں۔ ارما نے امدادی کاموں کو بھی متاثر کیا جو ہاروی کے بعد کیا جارہا تھا۔

    ہریکین ماریا

    بحر اوقیانوس میں آنے والا تیسرا خوفناک شدت کا طوفان ہریکین ماریہ تھا جو فی الحال جاری ہے۔ اس طوفان نے کیریبیئن جزائر کے ملک ڈومنیکا کو شدید نقصان پہنچایا جب اس جزیرے سے یہ 5 درجے کے طوفان کی حیثیت سے ٹکرایا۔

    ڈومنیکا میں اس طوفان نے 33 افراد کو موت کے منہ میں پہنچایا۔ مقامی افراد گھر، بجلی، پانی سب سے محروم ہوچکے ہیں۔

    اس کے بعد یہ ڈومنیکا کے قریب دوسرے جزیرے پورٹو ریکو پہنچا۔ گو کہ یہاں سے اس طوفان کو گزرے ایک ہفتہ ہوچکا ہے تاہم یہاں کے لوگ تاحال امدادی کاموں کے منتظر ہیں۔

    جزیرے میں 16 لاکھ افراد بجلی سے تاحال محروم ہیں جبکہ 16 افراد اپنی جانوں سے بھی ہاتھ دھو بیٹھے۔

     بعد ازاں یہ ورجن آئی لینڈز کی جانب بڑھا۔ یہاں تاحال 48 ہزار افراد بجلی سے محروم ہیں جبکہ مذکورہ جزیرے سمیت کیریبیئن کے متعدد جزائر میں تباہی کی عبرت ناک داستان رقم ہوچکی ہے۔

    دونوں دنیاؤں کے طوفانوں میں فرق کیا ہے؟

    دنیا کے 2 مختلف حصوں میں آنے والے دو مختلف نوعیت کے طوفانوں نے مختلف تباہی مچائی۔

    اس بارے میں سابق امریکی صدر بارک اوباما کے دونوں ادوار میں وائٹ ہاؤس آفس آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی پالیسی کے ڈائریکٹر اور صدر اوباما کے ماحولیاتی مشیر پروفیسر جان پی ہولڈرن سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے بتایا کہ جنوبی ایشیا میں آنے والے سیلاب ٹائی فون تھے جبکہ امریکا کو متاثر کرنے والے طوفان ہریکین تھے۔

    پروفیسر جان پی ہولڈرن فی الحال جان ایف کینیڈی اسکول آف گورنمنٹ میں ماحولیاتی شعبہ کے پروفیسر ہیں جبکہ ہارورڈ یونیورسٹی کے سائنس اینڈ پالیسی ڈیپارٹمنٹ برائے ارتھ اینڈ پلینٹری سائنس شعبہ سے بھی منسلک ہیں۔

    ان کے مطابق بیان کیے گئے ان دونوں طوفانوں کا فرق سمجھنے کے لیے آپ کو زمین کے دو بڑے بحروں کے بارے میں جاننا ہوگا۔

    بحرالکاہل یا پیسیفک اوشین زمین کا سب سے بڑا اور گہرا سمندر ہے جس کا رقبہ 16 کروڑ 50 لاکھ اسکوائر کلومیٹر کے رقبے پر محیط ہے۔ شمالی اور جنوبی بحر الکاہل کے نام سے جانے جانے والے اس بحر کے کناروں پر ایک طرف ایشیائی ممالک واقع ہیں جبکہ اس کی وسعت کی دوسری جانب امریکی براعظم کے کچھ ممالک بھی موجود ہیں۔

    یہ زمین کے کل رقبے کے 30 فیصد سے زائد حصے پر محیط ہے۔

    دوسری جانب بحر اوقیانوس یا انٹلانٹک اوشین کے بارے میں آپ اوپر پڑھ چکے ہیں کہ 10 کروڑ 64 لاکھ 60 ہزار اسکوائر کلومیٹر کے رقبے پر پھیلا ہوا یہ بحر زمین کا دوسرا بڑا بحر ہے۔ یہ زمین کے رقبے پر کل 20 فیصد حصے پر مشتمل ہے۔

    اب بات آتی ہے ہریکین اور ٹائی فون میں کیا فرق ہے۔

    عالمی موسمیاتی تنظیم کے مطابق مغربی شمالی اوقیانوس، بحر الکاہل کے مرکزی اور جنوب شمالی حصے، کیریبیئن سمندر اور گلف میکسیکو میں آنے والے طوفان ہریکین کہلاتے ہیں۔

    مغربی شمالی بحر الکاہل کے حصے میں آنے والے طوفان ٹائی فون کہلاتے ہیں۔

    تاہم یاد رہے کہ جنوبی ایشیائی ممالک کو سیلاب کا شکار کرنے والا کوئی ٹائی فون یا سمندری طوفان نہیں تھا بلکہ یہ معمول کی مون سون بارشیں تھیں جو شدت اختیار کر گئیں تاہم انہوں نے سمندر کی لہروں کو بھی متاثر کر کے انہیں غیرمعمولی بنا دیا۔

    اس بارے میں اسلام آباد میں مقیم کلائمٹ چینج ایکسپرٹ عارف رحمٰن کہتے ہیں کہ یہ موازنہ کرنا غلط ہوگا کہ دونوں میں کون سا زیادہ شدید ہے۔

    ہاشو فاؤنڈیشن سے بطور سینئر پروگرام مینیجر برائے کلائمٹ چینج منسلک عارف رحمٰن کا کہنا تھا کہ بظاہر دیکھا جائے تو ٹائی فون ہریکین سے زیادہ شدید ہوتے ہیں تاہم اگر ہریکین اپنی پوری شدت پر ہوں تو ٹائی فون سے کہیں زیادہ نقصان پہنچاتے ہیں جیسا کہ حالیہ امریکی تباہی کی صورت میں سامنے آیا۔

    ان کے مطابق ایک اور فرق ٹائی فون کی درجہ بندی نہ ہونا ہے۔ جبکہ ہریکین کی درجہ بندی ہوتی ہے اور اس درجہ بندی کے حساب سے وہ شدت اختیار کرتا ہے۔ مختلف عوامل جیسے ہوا کا دباؤ، مذکورہ علاقے پر پڑنے والے موسمیاتی تغیرات اور مذکورہ علاقے کی زمین کی نوعیت بھی اس سلسلے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں جو طوفان کی شدت کا تعین کرتے ہیں۔

    ہریکین کی درجہ بندی

    اب ہم آتے ہیں ہریکین کی درجہ بندی کی طرف جس سے آپ کو علم ہوگا کہ کون سا درجہ کتنا شدید ہے۔

    درجہ 1: کیٹگری 1 کے ہریکین میں ہوا کی رفتار 119 سے 153 کلومیٹر فی گھنٹہ ہوتی ہے۔ یاد رہے کہ جب ہوا کی رفتار 119 کلومیٹر فی گھنٹہ سے تجاوز کر جائے تویہ طوفان ہے جو کہیں ٹائی فون اور کہیں ہریکین کا سبب بنتا ہے۔

    یہ کچھ حد تک نقصان پہنچاتا ہے جبکہ بجلی کی فراہمی میں تعطل کا سبب بنتا ہے۔

    درجہ 2: اس درجے میں ہوا کی رفتار 154 سے 177 کلو میٹر فی گھنٹہ ہوتی ہے اور یہ شدید نقصان کا سبب بنتا ہے۔

    درجہ 3: ہوا کی رفتار 178 سے 208 کلو میٹر فی گھنٹہ ہوتی ہے جو پختہ تعمیر کیے گئے مکانات کو بھی نقصان پہنچاتی ہے۔

    درجہ 4: ہوا کی رفتار 209 سے 251 کلومیٹر فی گھنٹہ جو زمین میں مضبوطی سے گڑے درختوں کو جڑ سے اکھاڑ پھینکتی ہے۔

    درجہ 5: ہوا کی رفتار 252 کلو میٹر فی گھنٹہ یا اس سے زائد، یہ طوفان کی شدید ترین قسم ہے جو عمارتوں کو تباہ کردیتی ہے اور اس کے آخر میں تباہی و بربادی کے سوا کچھ نہیں بچتا۔

    طوفان کے راستے کا تعین کیسے کیا جاتا ہے؟

    پروفیسر جان پی ہولڈرن کے مطابق جب طوفان شروع ہوتا ہے تو اس پر پڑنے والے دباؤ جسے کوریولس فورس کہا جاتا ہے اس کی سمت کا تعین کرتے ہیں۔

    یہ فورس طوفان کو دائیں یا بائیں طرف گھمانے کی صلاحیت رکھتی ہے اور اسی کی بنیاد پر تعین کیا جاتا ہے کہ آنے والا طوفان کن مقامات پر کتنی شدت سے آئے گا۔

    یا الٰہی یہ ماجرا کیا ہے؟

    امریکی میڈیا کے مطابق گزشتہ برس جب دنیا صدر ٹرمپ اور ہیلری کلنٹن کی انتخابی مہمات میں مگن تھی اس وقت سائنس دان مسلسل خبردار کر رہے تھے کہ شدید نوعیت کے طوفان امریکا کی طرف بڑھ رہے ہیں اور ان کے لیے تیاری کرنے کی ضرورت ہے۔

    انہوں نے یہ بھی خبردار کیا تھا کہ ان طوفانوں کی شدت ماضی کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہوگی۔

    لیکن سوال یہ ہے کہ ان طوفانوں میں اتنی شدت آ کیوں رہی ہے؟

    اس بارے میں اے آر وائی نیوز نے آسٹریلین نیشنل یونیورسٹی کے زمینی و آبی سائنس (ارتھ اینڈ میرین سائنسز) شعبے کے پروفیسر ڈاکٹر بریڈلے اوپ ڈک سے رابطہ کیا تو انہوں نے ساری صورتحال کو ایک جملے میں سمود یا۔

    ان کا کہنا تھا، ’سمندروں میں آنے والا گرم پانی (جو مختلف دریاؤں سے آتا ہے) سمندر کے پانی کو گرم کرتا ہے، جس سے پانی مزید تیزی سے بخارات بن کر بادلوں اور پھر بارشوں کو تخلیق کرتا ہے‘۔

    ڈاکٹر بریڈلے اوپ ڈک کے مطابق سمندروں کا گرم درجہ حرارت پہلے سے موجود طوفانوں کو تقویت دیتا ہے، نئے طوفان پیدا کرنے کا سبب بنتا ہے، اور یہ طوفان بارشوں کا سبب بنتے ہیں جو بڑے پیمانے پر سیلاب اور جانی و معاشی نقصان کا باعث بنتے ہیں۔

    ان کا کہنا تھا کہ یہ ایک براہ راست تعلق نہیں، بلکہ بالواسطہ تعلق ہے، یعنی کہ کوئی شے کسی سے جڑی ہے اور وہ مزید کسی شے سے جڑی ہے، لیکن اس کا بنیادی سبب ہےعالمی درجہ حرات میں اضافہ یعنی گلوبل وارمنگ۔

    یہ بات قطعاً سمجھنا مشکل نہیں کہ موسمیاتی تغیرات یعنی کلائمٹ چینج کے باعث عالمی درجہ حرارت میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے جس سے نہ صرف خود سمندر کا پانی گرم ہورہا ہے، بلکہ مختلف دریاؤں کا گرم ہونے والا پانی بھی سمندر میں آکر مل جاتا ہے یوں یہ عمل عظیم تباہیوں کا سبب بنتا ہے۔

    اس بات کی مزید وضاحت پروفیسر جان پی ہولڈرن نے کی۔

    پروفیسر ہولڈرن کے مطابق یہ تاریخی تباہ کن آندھیاں یا طوفان کوئی اتفاقیہ یا اچانک نہیں ہیں۔ ’ہم انسان جس قسم کی ترقی کر رہے ہیں یہ اسی کا نتیجہ ہے اور سائنس و ماحولیات کے ماہرین نہ صرف یہ بات جانتے ہیں بلکہ چیخ چیخ کر دنیا کو خبردار بھی کر رہے ہیں‘۔

    انہوں نے بھی یہی بات دہرائی کہ اس قسم کے طوفان اور آندھیاں گرم پانیوں کی وجہ سے طاقت پارہے ہیں اور یہ گلوبل وارمنگ ہے جس کی وجہ سے سمندر کا پانی گرم ہو رہا ہے۔

    انہوں نے بتایا کہ جب گرم پانیوں کے بخارات اوپر اٹھتے ہیں تو یہ گرم ہواؤں کا سبب بھی بنتے ہیں جو سطح سمندر کو مزید گرم کرتے ہیں اور اس مقام پر ہوا کا دباؤ کم کرتے ہیں۔

    اب یہ سب کچھ سمندر کے اندر ہو رہا ہے جو پانی کو زور آور بنا رہا ہے جو طوفان کی شکل میں کسی نہ کسی دن باہر نکلے گا اور یہ ہوتا ہے۔

    انہوں نے بتایا کہ گرم ہوائیں اور گرم پانی سمندر کی جتنی گہرائی تک جائیں گی یہ ٹھنڈے پانی کی مقدار کو اتنا ہی کم کرتی جائیں گی نتیجتاً ہمارے پاس سمندر کی گہرائی میں بھی گرم پانی موجود ہوگا۔

    انہوں نے بھی اس بات کی تصدیق کی کہ گو کہ ان طوفانوں اور ان کے بننے کی دیگر کئی وجوہات ہیں تاہم بنیادی وجہ گلوبل وارمنگ ہے جو فضا اور سمندروں کو گرم کر رہی ہے۔ گرم پانی ہی سمندری طوفانوں اور آندھیوں کو جنم دیتے ہیں۔

    جنوبی ایشیا میں صورتحال پر کیسے قابو پایا گیا؟

    اس سلسلے میں اے آر وائی نیوز نے مختلف ایشیائی ماہرین سے بھی گفتگو کی اور سیلاب کے بعد امدادی کارروائیوں کے بارے میں جاننے کی کوشش کی۔

    بھارت میں مقیم سماجی کارکن راکھی سوریا پرکاش اپنی قائم کردہ تنظیم سن شائن ملینیئم کے ذریعے بھارت میں ماحول دوست توانائی کے ذرائع پر کام کرتی ہیں۔

    انہوں نے بتایا کہ گزشتہ برس جب بھارتی ریاست تامل ناڈو کے شہر چنئی میں سیلاب آیا تھا تو اس کے کچھ عرصے بعد ایک کانفرنس میں سابق بھارتی وزیر ماحولیات پرکاش جاویدکر نے متنبہ کردیا تھا کہ آنے والے برسوں میں مزید شدید سیلابوں اور طوفانوں کا خطرہ ہے۔

    راکھی کے مطابق اس ضمن میں مودی سرکار ماحولیاتی و موسمیاتی خطرات سے نمٹنے کے لیے سنجیدہ ہے اور ملک بھر میں شجر کاری مہمات اور ماحول دوست توانائی کے ذرائع پر کام کر رہی ہے۔

    چند روز قبل ہی بھارت نے سنہ 2030 تک اپنے تمام جدید ذرائع آمد و رفت بجلی کے ذریعے چلانے کا فیصلہ کیا ہے تاکہ فاسل فیولز یعنی پیٹرول اور ڈیزل کی لعنت سے چھٹکارہ پا کر فضائی آلودگی میں کمی کی جاسکے۔

    انہوں نے بتایا کہ گو کہ ارلی وارننگ سسٹم کے تحت قبل از وقت پیشن گوئی جاری کردی گئی تھی اور امدادی ٹیمیں ممکنہ طور پر متاثر ہونے والے علاقوں میں موجود تھیں تاہم نقصان ان کی توقعات سے کہیں زیادہ تھا۔

    اس کے بعد اے آر وائی نیوز نے نیپال میں مقیم بنود پارا جولی سے خصوصی گفتگو کی۔ بنود ایک محقق ہیں اور ہائی اویئر پروجیکٹ کے تحت ہمالیہ اور اس کے پانیوں پر مختلف تحقیق سر انجام دے رہے ہیں۔

    انہوں نے بتایا کہ نیپال کے مشرقی اور مغربی حصے کو ملانے والا واحد زمینی ذریعہ مہندرا ہائی وے کی تعمیر کا کام شروع کردیا گیا ہے۔

    ان کے مطابق چاول کی فصل نیپال کی اہم غذائی فصلوں میں سے ایک ہے اور ان کے بہہ جانے کے بعد اب ایک غذائی بحران منہ کھولے نیپال کی طرف بڑھ رہا ہے۔

    بنود کے مطابق قبل از وقت پیشن گوئیاں جاری کردیے جانے کے باوجود حکام نے سستی اور غفلت کا مظاہرہ کیا۔ ’یہ ہم جنوبی ایشیائی شہریوں کا المیہ بن چکا ہے‘۔

    بنگلہ دیش سے شائلہ محمود نے اے آر وائی نیوز سے خصوصی گفتگو کی۔ شائلہ محمود انٹرنیشنل سینٹر فار کلائمٹ چینج اینڈ ڈویلپمنٹ سے منسلک ہیں جبکہ وہ اس سے قبل اقوام متحدہ کے ترقیاتی پروگرام یو این ڈی پی کے ساتھ بھی کام کر چکی ہیں۔

    شائلہ کے مطابق بنگلہ دیش کے شمالی اور مشرقی حصوں میں سیلاب نے بہت سے نواحی گاؤں دیہاتوں کو متاثر کیا ہے جہاں بدقسمتی سے تاحال امداد نہیں پہنچائی جاسکی۔

    تاہم قابل رسائی علاقوں میں حکومتی طور پر یا نجی سطح پر جس طرح بھی ممکن تھا امداد پہنچائی گئی، اس ضمن میں مقامی افراد نے بھی بے حد تعاون کیا اور اپنے سیلاب متاثرین ہم وطنوں کی ہر ممکن مدد کی۔

    انہوں نے بتایا کہ بنگلہ دیش پیرس معاہدے کا بھی دستخط کنندہ ہے اور اس ضمن میں مختلف ماحول دوست منصوبوں پر بھی کام کر رہا ہے۔


    مذکورہ بالا تمام صورتحال اور تجزیوں کو دیکھتے ہوئے یہ بات کہنا بے حد آسان ہے، اور ماہرین بھی اس کی تصدیق کرتے ہیں کہ ہماری زمین اور دنیا کو دہشت گردی سے بھی بڑا خطرہ موسمیاتی تغیرات یعنی کلائمٹ چینج سے لاحق ہے، اور اگر موسمیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے کے لیے فوری طور پر ہم نے دفاعی ہنگامی اقدامات نہ اٹھائے تو ’ہماری داستان تک بھی نہ ہوگی داستانوں میں‘۔


    اس مضمون کی تیاری میں مندرجہ ذیل اداروں و شخصیات سے مدد لی گئی۔

    Center for Research on the Epidemiology of Disasters

    National Hurricane Center – USA

    National Oceanic and Atmospheric Administration – USA

    World Meteorological Organization

    Australian National University


    Mr. John P. Holdren

    Teresa and John Heinz Professor of Environmental Policy

    John F. Kennedy School of Government & Professor of Environmental Science and Policy Department of Earth and Planetary Sciences, Harvard University

    Formerly Science Advisor to President Obama and Director, White House Office of Science and Technology Policy (January 2009 – January 2017)

    Dr. Bradley Opdyke

    Department of Earth and Marine Sciences, Australian National University

    Raakhee Suryaprakash

    Sunshine Millennium – India

    Binod Parajuli

    Researcher at HI-AWARE – Nepal

    Shaila Mahmud

    Research Officer at International Centre for Climate Change & Development (ICCCAD) – Bangladesh

    Mr. Arif Rahman 

    Senior Program Manager Climate Change at Hashoo Foundation – Pakistan

    Mr. Nadeem Ahmed

    Policy Manager at Water Aid – Pakistan

  • کلائمٹ چینج کو نہ ماننے والے احمق ہیں: پوپ فرانسس برہم

    کلائمٹ چینج کو نہ ماننے والے احمق ہیں: پوپ فرانسس برہم

    دنیا بھر میں عیسائیوں کے روحانی پیشوا پوپ فرانسس نے ان افراد کو بشمول امریکی صدر ڈونلد ٹرمپ احمق قرار دے دیا جو موسمیاتی تغیرات یا کلائمٹ چینج کو نہیں مانتے، اسے جھٹلاتے یا وہم قرار دیتے ہیں۔

    امریکی ریاستوں ٹیکسس، فلوریڈا، شمالی امریکی ملک میکسیکو اور کیریبئین جزائر میں تاریخ کے بدترین تباہ کن طوفانوں کے بعد پوپ فرانسس نے کولمبیا کا دورہ کیا جہاں سے واپسی پر ایک پریس کانفرنس میں انہوں نے ان افراد پر برہمی کا اظہار کیا جو کلائمٹ چینج کی نفی کرتے ہیں۔

    اپنی پریس کانفرنس میں ان کا کہنا تھا، ’ایسے لوگ سائنسدانوں کے پاس جائیں اور ان سے ملیں۔ سائنس دان اس بارے میں بالکل پریقین ہیں‘۔

    مزید پڑھیں: سیلاب کے بعد ہیوسٹن میں دل دہلا دینے والے مناظر

    انہوں نے آسمانی کتاب توریت کی ایک آیت کا بھی حوالہ دیا، ’انسان احمق ہے، ضدی ہے اور نابینا (مستقبل کو نہیں دیکھ سکتا) ہے‘۔

    پوپ فرانسس نے کہا کہ اب وقت آگیا ہے کہ حکومتیں اور حکمران سائنس دانوں کے ساتھ مل کر کام کریں تاکہ موسمیاتی تغیرات یعنی کلائمٹ چینج اور گلوبل وارمنگ یعنی عالمی حدت میں اضافے کے باعث آئندہ آنے والی آفتوں اور نقصانات سے کس طرح نمٹا جاسکتا ہے۔

    انہوں نے خفگی سے کہا، ’یہ لوگ (سائنس دان) ہوا میں مفروضے نہیں چھوڑ رہے۔ ان کے پاس ثبوت ہیں اور تحقیقات ہیں‘۔

    پوپ نے کہا کہ دیکھتے ہیں کہ دنیا بھر کے حکمران اب کیا فیصلے کرتے ہیں اور اب تاریخ ان کے فیصلوں سے بنے گی‘۔

    مزید پڑھیں: پوپ کی جرمنی کو تحفظ ماحولیات کا معاہدہ بچانے کی تاکید

    یاد رہے کہ پوپ فرانسس پہلے دن سے کلائمٹ چینج کے اثرات کی طرف دنیا کو متوجہ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اپنی مذہبی ذمہ داریوں کے ساتھ ساتھ وہ کثرت آبادی، مختلف امراض، جنگوں اور ہجرتوں کے بارے میں بھی حکمرانوں سے رابطے میں ہیں اور متاثرہ ممالک کے دورے کرتے رہتے ہیں۔

    انہوں نے اس سے قبل امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا تھا جب ٹرمپ نے کلائمٹ چینج کو وہم قرار دیتے ہوئے کلائمٹ چینج کے عالمی معاہدے سے علیحدگی کا اعلان کیا تھا۔

    اس سے پہلے امریکی خاندان اول سے ملاقات کرتے ہوئے پوپ نے صدر ٹرمپ کو ایک دستاویزی خط بھی تحفے میں دیا جس میں انہوں نے کلائمٹ چینج، دہشت گردی اور امن عامہ سے متعلق مسائل پر خصوصی توجہ دینے کی ہدایت کی۔

    اس ملاقات میں پوپ نے ٹرمپ سے گفتگو کے دوران بھی کلائمٹ چینج کا ذکر کیا اور ٹرمپ کو پیرس معاہدے سے دستبردار نہ ہونے کی بھی تاکید کی تھی۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • کراچی میں سیلاب کا خطرہ، بچاؤ کیسے ممکن؟

    کراچی میں سیلاب کا خطرہ، بچاؤ کیسے ممکن؟

    کراچی: صوبہ سندھ کے دارالحکومت کراچی میں محکمہ موسمیات نے موسلا دھار بارشوں کے سبب اربن فلڈ کے خطرے کا اعلان کردیا۔

    تفصیلات کے مطابق محکمہ موسمیات نے آئندہ 2 روز میں ہونے والی بارشوں کے پیش نظر اربن فلڈ (شہری سیلاب) کا خدشہ ظاہر کردیا۔

    مزید پڑھیں: کراچی میں اتنی بارشیں کیوں ہونے لگیں؟

    اربن فلڈ کیا ہے؟

    عام سیلاب اور شہری سیلاب (اربن فلڈ) میں کیا فرق ہے؟ اس سوال کا جواب دیتے ہوئے ماہر ماحولیات رفیع الحق نے بتایا کہ عام سیلاب اس وقت آتا ہے جب کسی دریا یا نالے کے کنارے بھر جائیں، پانی ابل پڑے اور آس پاس کی آبادیاں زیر آب آجائیں۔ یہ ایک قدرتی عمل اور قدرتی آفت ہے۔

    تاہم ان کے مطابق اربن فلڈ ناقص شہری منصوبہ بندی کے باعث رونما ہوتا ہے اور یہ سراسر انسانی ہاتھوں کی کارستانی ہے۔

    انہوں نے مثال دیتے ہوئے بتایا، ’جہاں کہیں سڑکوں پر نشیب واقع تھا اور پانی بہہ کر ایک طرف ہو جاتا تھا، وہاں کوئی رکاوٹ کھڑی کردی گئی یا اسپیڈ بریکر بنا دیا گیا جس کے باعث پانی کی آمد و رفت رک گئی۔ اب جب اس جگہ پر بے تحاشہ پانی کھڑا ہوجائے گا تو وہ مقام زیر آب آجائے گا‘۔

    انہوں نے کہا کہ پورے شہر میں بغیر کسی منصوبہ بندی کے پھیلاؤ جاری ہے، کہیں نہر ہے، نالہ ہے یا دریا ہے وہاں گھر بنا کر پانی کا بہاؤ روک دیا گیا۔ ’پورا شہر کچرے سے اٹا ہوا ہے، نکاسی آب کے ذرائع کچرے سے بھرے پڑے ہیں، ایسی صورت میں پانی جمع ہو کر شہر میں سیلاب ہی لاسکتا ہے‘۔

    کراچی کا گجر نالہ

    رفیع الحق نے بتایا کہ اربن فلڈ آنے کی ایک وجہ درختوں کا نہ ہونا بھی ہے کیونکہ درخت کسی مقام کی مٹی کو تھام کر رکھتے ہیں یوں زمین کے اوپر کوئی بڑا نقصان نہیں ہونے پاتا، ’لیکن ہم نے درختوں کو بھی کاٹ دیا، پورا شہر عمارتوں کا جنگل بن چکا ہے‘۔

    مستقبل کو مدنظر رکھنا ضروری

    رفیع الحق کا کہنا تھا کہ اب بدلتے ہوئے حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے شہری منصوبہ بندی کرنے کی ضرورت ہے۔ ’بظاہر سعودی دارالحکومت ریاض بہت منصوبہ بندی سے بنایا ہوا شہر ہے لیکن جب وہاں غیر معمولی بارشیں ہوئیں تو شہر میں سیلاب آگیا اور پورا شہر زیر آب آگیا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ انہوں نے سائنسی بنیادوں پر طویل المدتی منصوبہ بندی نہیں کی۔ ان کے خیال میں کم بارشیں ساری زندگی ہوتی رہیں گی‘۔

    انہوں نے کہا کہ ’پہلے کراچی میں بارش کی چھینٹ پڑنے کی دیر تھی کہ اسکول اور دفاتر میں چھٹیاں ہوجایا کرتی تھیں اور لوگ خوشی خوشی بارش کا لطف اٹھانے سڑکوں پر نکل آیا کرتے تھے، لیکن اب یہ حال ہے کہ بارشیں ہوتے ہی ہلاکتوں اور تباہ کاریوں کی خبریں سامنے آتی ہیں‘۔

    انہوں نے ایک بار پھر موسمیاتی تغیرات یعنی کلائمٹ چینج کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ اب ہر وقت ہر قسم کے حالات سے تیار رہنے کی ضرورت ہے۔ صحرا میں برف باری ہو یا خشک ترین شہروں میں بارشوں اور سیلابوں کا آنا، اب ہر جگہ کے لوگوں کو، ہر قسم کے موسم کو مدنظر رکھتے ہوئے منصوبہ بندی کرنے کی ضرورت ہے۔

    تحفظ کیسے ممکن ہے؟

    رفیع الحق نے ارلی وارننگ یعنی قبل از وقت انتباہ کی اہمیت بتاتے ہوئے کہا کہ یہ اسی صورت میں فائدہ مند ہوسکتی ہیں جب ان پر عمل کر کے آنے والے وقت سے نمٹنے کے لیے تیاری کرلی جائے۔

    انہوں نے کہا کہ اگر کراچی میں بارش شروع ہونے سے قبل ہنگامی بنیادوں پر کسی حد تک صفائی کر کے نکاسی آب کے راستوں کو بحال کردیا جائے تو آنے والے سیلاب کا خدشہ خاصی حد تک کم ہوجائے گا۔

    یاد رہے کہ محکمہ موسمیات نے کراچی کے علاوہ سندھ کے دیگر ساحلی علاقوں میں بھی بارش کی پیشگوئی کی ہے۔ بدھ سے جمعہ تک ٹھٹہ، بدین، سجاول، مٹھی، تھر پارکر اور نواب شاہ میں بھی بارش کا امکان ہے۔

  • نو منتخب وزیر ماحولیات کا جنگلات کی کٹائی میں کمی کا عزم

    نو منتخب وزیر ماحولیات کا جنگلات کی کٹائی میں کمی کا عزم

    اسلام آباد: نئے وفاقی وزیر برائے موسمیاتی تغیرات مشاہد اللہ کا کہنا ہے کہ جنگلات کے رقبے میں اضافہ کر کے پاکستان کو درپیش موسمیاتی تغیرات کے خطرات میں کمی کی جاسکتی ہے اور اس کے لیے حکومت تمام تر اقدامات اٹھا رہی ہے۔

    تفصیلات کے مطابق وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں جنگلات کی کٹائی اور تحفظ کے حوالے سے قائم فورم (آر ای ای ڈی پلس) کا مشاورتی اجلاس منعقد ہوا۔ اجلاس میں نو منتخب وزیر برائے کلائمٹ چینج مشاہد اللہ نے بھی شرکت کی۔

    یہ ان کی حلف برداری کے بعد ماحولیاتی تحفظ سے متعلق کسی بھی فورم کا پہلا اجلاس تھا۔

    اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے مشاہد اللہ نے کہا کہ جنگلات کی کٹائی ہوتے ہوئے پاکستان کو کلائمٹ چینج کے خطرات سے بچانا ناممکن ہے۔

    مزید پڑھیں: جنگلات کی موجودگی معیشت اور ترقی کے لیے ضروری

    انہوں نے کہا کہ کلائمٹ چینج کے خطرات کے مقابلے میں جنگلات ایک بہترین ڈھال ہیں جو ان خطرات کی شدت بے حد کم کرسکتے ہیں۔

    مشاہد اللہ نے پاکستان پر کلائمٹ چینج کے اثرات کے حوالے سے مختلف رپورٹس کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ منصوبہ بندی کی کمی کی وجہ سے ملک میں جنگلات کے رقبے میں کمی آئی جو اب ایک شدید مسئلے کے طور پر سامنے آرہا ہے۔

    انہوں نے جنگلات کی کٹائی کے ایک اور سبب توانائی کے حصول کے لیے لکڑی کے استعمال کی طرف بھی اشارہ کیا۔

    مزید پڑھیں: بلوچستان میں زیتون کے جنگلات تباہی سے دو چار

    ان کا کہنا تھا کہ جنگلات کی کٹائی میں کمی لانے کے لیے ضروری ہے کہ ہر ایک کے لیے متبادل اور قابل تجدید توانائی کے ذرائع کو قابل رسائی بنایا جائے۔

    اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے عوامی شعور و آگاہی کی مہمات پر بھی زور دیا جس کے تحت لوگوں کو جنگلات کی اہمیت اور ان کی ضرورت کے بارے میں آگاہ کیا جائے۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • پاکستان اور بھارت میں ناقابل برداشت جان لیوا ہیٹ ویوز کا خدشہ

    پاکستان اور بھارت میں ناقابل برداشت جان لیوا ہیٹ ویوز کا خدشہ

    نیویارک: پاکستان اور بھارت میں غیر معمولی موسم گرما اب عام بات بن گیا ہے تاہم ماہرین نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ رواں صدی کے خاتمے تک اس خطے میں ایسی ہیٹ ویوز آئیں گی جو نہایت خطرناک، جان لیوا اور ناقابل برادشت ہوں گی۔

    امریکا کے میساچوسٹس انسٹیٹیوٹ آف ٹیکنالوجی (ایم آئی ٹی) کی جانب سے کی جانے والے تحقیق میں بتایا گیا کہ سنہ 2100 تک جنوبی ایشیا قیامت خیز گرمیوں کی زد میں آجائے گا۔

    تحقیق کے مطابق پاکستان کا جنوبی علاقہ، شمالی بھارت اور بنگلہ دیش اس سے سب سے زیادہ متاثر ہوں گے۔

    ماہرین کے مطابق گرمی کی یہ شدت اس قدر ہوگی کہ گھر سے باہر دھوپ میں نکلنا ایک نا ممکن عمل بن جائے گا۔

    تحقیق میں بتایا گیا کہ اس جان لیوا گرمی سے دریائے سندھ کا زرخیز علاقہ اور بھارت میں دریائے گنگا بھی متاثر ہوں گے جو دونوں ممالک میں غذائی پیداوار کا سب سے اہم اور بڑا ذریعہ ہیں۔

    مزید پڑھیں: ہیٹ ویو کو ہوّا مت بنائیں

    ایم آئی ٹی کے ایک پروفیسر کے مطابق یہ صرف ہیٹ ویو نہیں ہوگی جو لوگوں کی ہلاکت کا باعث بنے گی، بلکہ اس کے باعث ہونے والی قلت آب، خشک سالی اور غذائی پیداوار میں کمی لوگوں کی زندگیوں کے لیے خطرناک ثابت ہوں گی۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ گرمی کی شدت میں اضافے کا عمل شروع ہوچکا ہے اور یہ اگلی آنے والی دہائیوں میں مزید شدت اختیار کرجائے گا اور رواں صدی کے اختتام تک یہ گرمیاں ناقابل برداشت صورت اختیار کرلیں گی۔

    یاد رہے کہ قیامت خیز ہیٹ ویوز پاکستان کے لیے نئی نہیں، اور سنہ 2015 میں صوبہ سندھ کا دارالحکومت کراچی خطرناک ہیٹ ویو کا سامنا کر چکا ہے جس میں 1 ہزار سے زائد افراد اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے۔

    اس ہیٹ ویو نے بھارت کو بھی متاثر کیا تھا اور دونوں ممالک میں تقریباً ساڑھے 3 ہزار افراد شدید گرمی کے باعث لقمہ اجل بن گئے تھے۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • صحرا کے آسماں کی خدا خیر کرے اب

    صحرا کے آسماں کی خدا خیر کرے اب

    صحرا میں رہنے والے افراد ‘ یا وہ لوگ جنہوں نے صحرا کا مشاہدہ کیا ہو‘ جانتے ہیں کہ صحرا کا آسماں دن میں خوبصورت نیلا اور رات میں روشن اور چمک دار ہوتا ہے۔ ریت کے سنہرے ذروں کی طرح یہ آسمان بھی اپنے اندر بے پناہ کشش رکھتا ہے لیکن کوئلے سے بجلی بنانے والے پلانٹ کے سبب صحرائے تھر کے رہنے والے بہت جلد اپنے اس حسین آسمان سے محروم ہونے والے ہیں۔

    سندھ حکومت‘ اینگرو انرجی ‘ اورچین کے اشتراک سے صحرائے تھر میں موجود کوئلے کے عظیم ذخائرکو زمین کی تہہ سے باہر نکال لانے کے منصوبے پرگزشتہ سال اپریل سے زورو شور سے کام جاری ہے اور ساتھ ہی ساتھ 330 میگاواٹ کے دو پاور پلانٹ کی تعمیر بھی اپنے عروج پر ہے جہاں سے2019  کے وسط تک کل 660 میگاواٹ بجلی پیدا ہونا شروع ہوجائے گی اور سندھ اینگرو کول مائننگ کمپنی کا کہنا ہے کہ 2025 تک یہ پراجیکٹ چار ہزار میگا واٹ بجلی پیدا کرنے کی استعداد کا حامل ہوجائے گا۔

    سائٹ پر جاری کام کے مناظر

    اس کا مطلب یہ ہے کہ ایک جانب تھر کاخوبصورت آسمان کوئلے کے دھویں سے گہنا کر بہت جلد سرمئی رنگت اختیار کرنے والا ہے تو دوسری جانب کوئلے کی کانوں سے خارج ہونے والی میتھین گیس بھی اس علاقے میں بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے کو پر تول رہی ہے جس میں سب سے پہلےتھر کی پہلے سے تباہ شدہ زراعت سرفہرست ہے۔

    تھرکول انرجی اورماحولیاتی آلودگی کا خطرہ


    گزشتہ دنوں پیشہ ورانہ مصروفیات کے سلسلے میں تھر کول فیلڈ کا دورہ کیا اور کمپنی کےترجمان سے ملاقات کی جس کے دوران کئی اہم امور زیرِگفتگو آئے جنہیں تلخیص کے ساتھ آپ کی خدمت میں گوش گذار کیا جارہا ہے۔

    سندھ اینگرو کول انرجی کمپنی کا دعویٰ ہے کہ انہوں نے اس پلانٹ کی تعمیر میں نہ صرف یہ کہ حکومتِ پاکستان کے بنائے ہوئے تمام تر معیارات کی پاسداری کی ہے بلکہ ایک قدم آگے بڑھتے ہوئے بین الاقوامی سطح پر اٹھائے جانے والے اقدامات کو بھی پیشِ نظر رکھا ہے۔

    کوئلے کی کان کا فضائی منظر
    کوئلے کی اسی نوعیت کی ایک اور کان – فائل فوٹو

    کمپنی کے ترجمان کے مطابق ماحولیات کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے کئی اقدامات کیے جارہے ہیں ‘ سب سے پہلے تو ملین ٹری پراجیکٹ شروع کیا گیا ہے جس کے تحت سائٹ کی زد میں آنے والے ایک درخت کے بدلے 10 مقامی درخت لگائیں جائیں گے ۔

    گیس کے اخراج کے لیے 180 میٹر بلند ایک اسٹیک تعمیر کی جارہی ہے جو کہ ایجنسی برائے تحفظ ماحولیات سندھ کے طے کردہ معیار یعنی 120 میٹر سے کہیں زیادہ ہے۔ گویا یہ زہریلا دھواں بہت اوپر جا کر خارج ہوگا تاہم تب بھی یہ فضا میں موجود رہے گا۔

    یہ بھی بتایا جا رہا ہے کہ گیس کو خارج کرنے سے پہلے پانی کے ذریعے ٹھنڈا کیا جائے گا اور میتھین گیس جو کہ ماحول کے لیے سخت تباہ کن گیس ہے، کے خطرات کو چونے کے استعمال سے کم سے کم کیا جائے گا۔

    اقدامات اوران پرخدشات


    اوپر بیان کیے گئے اقدامات سن کر ایک جانب تو محسوس ہوتا ہے کہ کوئلے کا یہ پلانٹ ماحول کو زیادہ متاثر نہیں کرے گا جیسا کہ کمپنی کا دعویٰ ہے کہ ہوا میں میتھین کی مقدار ایک فیصد کے اندر ہی رہے گی جو کہ عالمی معیار کے مطابق ہے تاہم جب ان سارے معاملات کا تنقیدی نظر سے جائزہ لیا جائے تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ سب کچھ ویسے ہی ممکن نہیں ہو پائے گا جیسا کہ بتایا جارہا ہے۔

    Thar coal climate change impacts
    دھیں کے اخراج کے لیے بنایا گیا اسٹیک

    کاربن ڈائی آکسائیڈ کا آسیب


    سب سے خطرناک بات فضا میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کا اخراج ہے جس کے حوالے سے تاحال کوئی حکمت عملی سامنے نہیں آئی ہے۔ یاد رہے کہ کاربن ڈائی آکسائیڈ اس وقت گلوبل وارمنگ کے لیے سب سے بڑا خطرہ قرار دیا جاچکا ہے اور دنیا کے کئی ممالک اسے یونہی ہوا میں کھلا چھوڑ دینے کے بجائے اسے محفوظ طریقے سے تلف کرنے کے طریقے ڈھونڈر ہے ہیں۔

    کاربن ڈائی آکسائیڈ ہوا میں شامل ہورہا ہے – فائل فوٹو

    اس سلسلے میں ایک تجربہ امریکا کی یونیورسٹی آف کیلیفورنیا، لاس اینجلس یعنی یو سی ایل اے میں کیا گیا جہاں کاربن سے کنکریٹ تیار کر کے اسے تعمیراتی کاموں میں استعمال کرنے کے تجربے کیے جارہے ہیں۔ اس کو ’سی او ٹو کریٹ ‘ کا نام دیا گیا ہے۔

    سی او ٹو کریٹ سے تیار کردہ ٹھوس جسم

    دوسری جانب آئس لینڈ کے ہیل شیڈی پلانٹ میں کچھ سال قبل ’کارب فکس‘ نامی پراجیکٹ شروع کیا گیاجس کے تحت کاربن کو سفید ٹھوس پتھر میں تبدیل کیا جارہا ہے۔ یہ پلانٹ آئس لینڈ کےدارالحکومت کو بجلی بھی فراہم کرتا ہےاورسالانہ 40 ہزار ٹن کاربن ڈائی آکسائیڈ پیدا کرتا ہے۔ 2012 میں یہاں 250 ٹن کاربن کو پانی کے ساتھ زیر زمین پمپ کرنے کا عمل شروع کیاگیا اور اب وہ سالانہ 10 ہزار ٹن کاربن زیر زمین پمپ کرنے پر کام کر رہے ہیں۔

    سائنسدانوں کا خیال ہے کہ زمین کے لیے نقصان دہ مائع کو ٹھوس بنانے میں کئی سو یا کئی ہزار سال لگ سکتے ہیں تاہم اب تک جو بھی مائع زیر زمین پمپ کیا جاچکا ہے اس کا 95 فیصد حصہ 2 سال میں سفید پتھر میں تبدیل ہوچکا ہے۔

    ملین ٹری پراجیکٹ


    اب ایک نظر ڈالتے ہیں ملین ٹری پراجیکٹ پر۔ تھر کول منصوبے پر گزشتہ 16 ماہ سے کام جاری ہے لیکن شجر کاری کے لیے درخت محض چند دن قبل ہی لگائیں گئے ہیں یعنی کہ جس وقت پلانٹ دھواں اگلنا شروع کرے گا اس وقت تک یہ درخت اس قابل نہیں ہوں گے کہ ہوا میں بڑھتی ہوئی کاربن ڈائی آکسائیڈ کو جذب کرسکیں۔

    دوسری اور اہم بات یہ ہے کہ اس بات کی یقین دہانی کون کروائے گا کہ ایک کے بدلے جو 10 درخت لگائیں جارہے ان کی بھرپور نگہداشت کی جائے گی اور وہ صحرا کی موسمی سختیوں اور خشک سالی کا شکار ہوکر محض کاغذوں کا حصہ بن کر نہیں رہ جائیں گے۔

    Thar coal climate change impacts
    چینی تھر کے ملین ٹری منصوبے میں شجر کاری کرتے ہوئے

    میتھین گیس: ہوا میں موجود بم


    کوئلے کے بند کان میں اگر میتھین گیس کو کنٹرول کرنا مشکل ہے تو میں یہ سمجھنے سے قاصر ہوں کہ تاحدِ نظر وسیع و عریض رقبے پر پھیلی ہوئی کوئلے کی کان جو کہ 86 میٹر گہرائی تک کھودی جاچکی ہے اور اسے 140 میٹر گہرائی تک جانا ہے، اس وسیع و عریض رقبے پر میتھین گیس کو کنٹرول کرنا کیسے ممکن بنایا جائے گا؟ اس کا جواب فی الحال کمپنی کے ترجمان اور سائٹ پر کام کرنے والے مقامی انجینئر کے پاس نہیں تھا سوائے اس کے کہ ہم اسے لائم اسٹون (چونے ) سے ٹریٹ کرکے ہوا میں چھوڑیں گے۔

    یہ بھی کہا جارہا ہے کہ پلانٹ کی کولنگ اور گرین ہاؤس گیسز کی ٹریٹمنٹ کے لیے پانی کا استعمال کیا جائے گا جس کے لیے ایک نہر بھی تھر تک لائی      جارہی ہے اور اس پر تعمیر کا کام تیزی سے جاری ہے۔ اب تک کی تحقیقات کے مطابق میتھین گیس پانی پر اس صورت اثرانداز نہیں ہوتی کہ وہ انسانی صحت کے لیے نقصان دہ بنے یا اس کے استعمال سے انسانی جسم کو کسی قسم کا نقصان پہنچنے کا احتمال ہو۔

    لیکن امریکی ریاست مینی سوٹا کے محکمہ صحت کی جانب سےشائع کردہ معلوماتی مضمون میں کہا گیا ہے کہ ’’ اب تک کی تحقیق کے مطابق میتھین انسانی جسم کو کسی قسم کا فوری یا دور رس نقصان نہیں پہنچاتی تاہم اس سلسلےمیں بہت کم تحقیق کی گئی ہے اور اس حوالے سے مزید کام کرنے کی ضرورت ہے‘‘۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ استعمال شدہ پانی کے بعد کے استعمال پر نظرررکھی جائے اور اگر اس سے مقامی آبادی یا ماحول کو کسی بھی صورت نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہو تو اس کا فی الفور سدِ باب کیا جائے۔

    Thar coal climate change impacts
    زیرِ تعمیر پاور پلانٹ کی عمارت

    ماہرانہ رائے


    اس حوالے سے وفاقی اردو یونی ورسٹی کے شعبہ کیمسٹری کے سابق سربراہ ڈاکٹر معین احمد صدیقی سے رائے لی گئی۔ ڈاکٹر معین کولمبیا یونیورسٹی میں وزٹنگ پروفیسر کی حیثیت سے اپنی خدمات پیش کرتے رہے ہیں۔ اس کے علاوہ کلائمٹولوجی اور پاکستانی جنگلات پر بے شمار تحقیقاتی مقالے بھی لکھ چکے ہیں۔

    ڈاکٹر معین کے مطابق جدید دنیا میں ایسے طریقے موجود ہیں جن میں میتھین اور دیگر گرین ہاؤس گیسز سے درپیش خدشات کا سدِ باب کیا جاتا ہے تاہم اس حوالے نظر رکھنے کی ضرورت ہے کہ آیا ان اقدامات پر عمل کیا جارہا ہے یا نہیں۔

    ان کا کہنا تھا کہ اٹلی میں جب کوئلے سے بجلی بنانے کا عمل شروع کیا تو وہاں زلزلے بھی آئے تھے جن کا سبب بھی زیرِ زمین گرین ہاؤ س گیسز کا اخراج تھا۔ ڈاکٹر معین احمد نے مزید کہا کہ ایسا نہیں ہے کہ کوئلے سے پیدا ہونے والی آلودگی کا سدباب نہیں کیا جاسکتا۔ ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ کیمیکل ری ایکشن کے ذریعے گیس کی ہیئت تبدیل کردی جاتی ہے جس کے بعد وہ ماحول اور اوزون کے لیے نقصان دہ ثابت نہیں ہوتی۔

    پاکستان کو ماحولیاتی تبدیلیوں سے درپیش مسائل


    یہاں یہ بات بھی یاد رکھنا ضروری ہے کہ عالمی ماحولیاتی آلودگی کی شرح میں پاکستان کا حصہ محض 0.43 فیصد ہے لیکن پاکستان ماحولیاتی تبدیلیوں سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والا ملک ہے۔ یہاں تیزی سے بڑھتی ہوئی گرمی‘ حد سے زیادہ بارشیں‘ کچھ علاقوں میں بارش کا بالکل نہ ہونا‘ سیلاب اور سمندروں کی حدود تبدیل ہونا یہ وہ سب عوامل ہیں جو مشترکہ طور پر پاکستان کو شدید ترین نقصان پہنچا رہے ہیں جن میں ملک کی مجموعی پیداوار (جی ڈی پی) کو پہنچے والا سالانہ 3 فیصد کا نقصان بھی شامل ہے جو کہ دہشت گردی سے پہنچنے والے نقصان یعنی سالانہ 2 فیصد سے زیادہ ہے۔

    لہذا تاریخ کے اس مشکل ترین موڑپرپاکستان کسی بھی صورت اپنے ماحول کو نقصان پہنچانے کا رسک نہیں لے سکتا۔ اسی سبب پاکستان پائیدار ترقیاتی اہداف برائے 2030 کا حصہ بھی ہے جس کے طے کردہ کل 17 اہداف میں سے 6 براہ راست ماحولیات سے متعلق ہیں جبکہ باقی بھی کسی نہ کسی صورت ماحولیات تبدیلیوں کو پیشِ نظر رکھ کر مرتب کیے گئے ہیں۔

    Thar coal climate change impacts
    پائیدار ترقیاتی اہداف برائے 2030

    اگرآپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اوراگرآپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پرشیئرکریں۔

  • گرم موسم بھالو کو انسان کے لیے مزید خطرناک بنانے کا سبب

    گرم موسم بھالو کو انسان کے لیے مزید خطرناک بنانے کا سبب

    برفانی ریچھ انسانوں کے لیے کسی حد تک خطرناک جانور ہیں اور یہ اس وقت جان لیوا حملہ کرسکتے ہیں جب کوئی انسان ان کے ماحول میں مداخلت کرے، تاہم ماہرین کا کہنا ہے کہ موسمیاتی تغیرات یعنی کلائمٹ چینج ان بھالوؤں کی جارحیت میں مزید اضافہ کرسکتا ہے۔

    عام طور پر برفانی بھالو اس وقت انسانوں پر حملہ کرتے ہیں جب کوئی انسان ان کی رہائش گاہوں میں مداخلت پیدا کرنے کی کوشش کرے۔ ایسی صورت میں یہ نہایت خطرناک اور جارح ہوجاتے ہیں۔

    تاہم اب ماہرین کا کہنا ہے کہ بڑھتے ہوئے درجہ حرارت کے باعث بھالوؤں کی رہائش کے علاقوں اور خوراک میں کمی آرہی ہے جس سے یہ بھالو دباؤ کا شکار ہو کر انسانوں کے لیے مزید خطرناک بنتے جارہے ہیں۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ کلائمٹ چینج کے باعث برف پگھلنے کی وجہ سے یہ انسانوں کی آبادیوں میں منتقل ہونے پر مجبور ہوجائیں گے اور اصل خطرہ اس وقت سامنے آئے گا۔ ’یہ ایسا ہی ہے جیسے آپ ہر وقت کسی خطرناک دشمن کے نشانے پر موجود رہیں‘۔

    ان بھالوؤں کے غصے میں اضافے کی ایک اور وجہ ان کی خوراک میں کمی آنا ہے۔ سمندری آلودگی کے باعث دنیا بھر کے سمندروں میں مچھلیوں کی تعداد میں کمی آرہی ہے جو ان بھالوؤں کی اہم خوراک ہے۔

    مزید پڑھیں: غیر محفوظ برفانی ریچھوں کے لیے ایک اور خطرہ

    غذائی قلت اور بھوک ان بھالوؤں کو انسانوں پر حملہ کرنے پر مجبور کرے گی اور ماہرین کے مطابق ایک بھوکے بھالو کے حملے سے بچنا نہایت ہی مشکل عمل ہوگا۔

    امریکا کے جیولوجیکل سروے کے ماہر جنگلی حیات ٹوڈ ایٹوڈ کا کہنا ہے کہ سنہ 2000 کے بعد بھالوؤں کے انسانوں پر حملوں کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے۔

    انہوں نے بتایا کہ ایک جامع تحقیق کے مطابق سنہ 1870 سے لے کر 2014 تک اس نوعیت کے 73 واقعات سامنے آئے ہیں جن میں بھالوؤں نے برفانی علاقوں میں آنے والے اکیلے سیاحوں یا سیاحتی گروہوں پر حملہ کیا۔

    ان حملوں میں 20 افراد ہلاک جبکہ 63 زخمی ہوئے۔

    مئی 2008 میں جنگلی حیات کے لیے کام کرنے والے عالمی اداروں نے برفانی بھالوؤں کو خطرے کا شکار جانور قرار دیا تھا۔ ان کے مطابق اگر موسموں میں تبدیلی اور تیزی سے برف پگھلنے کی رفتار جاری رہی تو ہم بہت جلد برفانی بھالوؤں سے محروم ہوجائیں گے۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • کراچی میں اچانک اتنی بارشیں کیوں ہونے لگیں؟

    کراچی میں اچانک اتنی بارشیں کیوں ہونے لگیں؟

    گزشتہ چند سالوں سے کراچی میں بارشوں کے نہ ہونے یا بہت کم ہونے کے بعد اب یکایک کراچی میں بہت زیادہ بارشیں ہونے لگی ہیں۔ گزشتہ سال موسم سرما کے بعد اب رواں سال بھی معمول سے زیادہ بارش ہوئی۔

    ان بارشوں نے ایک طرف تو کراچی والوں کو خوشی سے نہال کردیا دوسری جانب یہ تاثر بھی پیدا ہوا کہ شاید اب کراچی کا موسم معمول پر آرہا ہے اور اب کراچی میں بھی ملک کے دیگر حصوں کی طرح بارشیں ہوں گی۔

    لیکن شاید ایسا نہیں ہے۔

    کراچی کے موسم میں اس اچانک تبدیلی کی وجہ جاننے کے لیے اے آر وائی نیوز نے سابق چیف میٹرولوجسٹ توصیف عالم سے رابطہ کیا اور انہوں نے اس کی جو وجوہات بتائیں وہ زیادہ امید افزا نہیں ہیں۔

    کلائمٹ چینج سب سے بڑی وجہ

    سابق چیف میٹرولوجسٹ توصیف عالم کے مطابق موسم میں اس اچانک تبدیلی کی پہلی اور سب سے بڑی وجہ تو موسمیاتی تغیرات کلائمٹ چینج ہے۔

    ہم جانتے ہیں کہ دنیا بھر میں کلائمٹ چینج بہت تیزی سے واقع ہو رہا ہے جس کے باعث دنیا کے ہرخطے کا موسم غیر متوقع طور پر تبدیل ہونے کے ساتھ ساتھ اس کی شدت میں بھی اضافہ ہورہا ہے۔

    توصیف عالم کے مطابق، ’کلائمٹ چینج نے دنیا بھر کے موسم کو تبدیل کر کے رکھ دیا ہے۔ صحراؤں میں برف باری اور بارشیں ہورہی ہیں، شدید سرد علاقوں میں گرمی پڑنے لگی ہے۔ جو علاقے گرم ہوتے تھے وہاں بھی اب ناقابل برداشت سردی پڑتی ہے۔ یہ سب کلائمٹ چینج کی کرامات ہیں‘۔

    ان کا کہنا تھا کہ ہماری تیز رفتار ترقی نے فطرت کو تبدیل کردیا ہے جس کے نتائج اب غیر متوقع موسموں کی صورت میں سامنے آرہے ہیں۔

    موسم کی پیش گوئی دشوار

    توصیف عالم کے مطابق کلائمٹ چینج نے اب دنیا بھر کے موسم کو بالکل غیر متوقع، ناقابل بھروسہ اور ناقابل پیشن گوئی بنا دیا ہے۔ ’اب یہ ناممکن ہے کہ آپ قطعیت کے ساتھ کہہ دیں کہ اگلے برس اس شہر میں ایسا موسم ہوگا، بارشیں ہوں گی یا نہیں، اور آئندہ آنے والے چند برسوں کے موسم کی پیشن گوئی کرنا تو بالکل ناممکن ہے‘۔

    یہی صورتحال کراچی کے موسم کی ہے۔ کراچی میں بارشوں کا سلسلہ اب باقاعدہ طور پر جاری رہے گا یا نہیں، اس بارے میں بھی ماہرین اندھیرے میں ہیں۔ ’کچھ کہہ نہیں سکتے کہ آیا اگلے برس بھی ایسی ہی بارشیں ہوں گی یا نہیں۔ ہوسکتا ہے اگلے برس اس سے زیادہ بارشیں ہوں۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ بالکل بارش نہ ہو‘۔

    ان کے مطابق یہ صورتحال صرف کراچی پر ہی نہیں بلکہ پوری دنیا کے موسم پر لاگو ہوتی ہے۔

    ایل نینو کا اثر

    توصیف عالم کے مطابق بارشوں کے پیٹرن میں تبدیلی کی ایک وجہ ایل نینو بھی ہے۔

    ایل نینو بحر الکاہل (پیسیفک) کے درجہ حرارت میں اضافہ کو کہتے ہیں جس کے باعث بحر الکاہل میں پانی غیر معمولی طور پر گرم ہو جاتا ہے اور دنیا بھر میں موسمی بگاڑ کا باعث بنتا ہے۔

    یہ عمل ہر 4 سے 5 سال بعد رونما ہوتا ہے جو گرم ممالک میں قحط، خشک سالیوں اور سیلاب کا سبب بنتا ہے۔

    مزید پڑھیں: تاریخی دریائے نیل کلائمٹ چینج کی ستم ظریفی کا شکار

    ایل نینو کاربن کو جذب کرنے والے قدرتی ’سنک‘ جیسے جنگلات، سمندر اور دیگر نباتات کی صلاحیت پر بھی منفی اثر ڈالتا ہے جس کے باعث وہ پہلے کی طرح کاربن کو جذب نہیں کرسکتے اور یوں درجہ حرارت میں اضافہ ہوجاتا ہے۔

    ایل نینو دنیا بھر کے موسم پر اثر انداز ہوتا ہے لہٰذا اس کی وجہ سے مون سون کے سائیکل بھی متاثر ہوتے ہیں۔

    سب سے زیادہ بارشیں کہاں ہوتی ہیں؟

    ایک عام خیال ہے (جو پاکستان میں ابھی تک سائنس کی کتابوں میں بھی پڑھایا جاتا ہے) کہ سب سے زیادہ بارشیں ساحلی علاقوں میں ہوتی ہیں۔

    اس کی وجہ یہ ہے کہ سمندر کا پانی بخارات بن کر اوپر جاتا ہے، وہ بخارات بادل بنتے ہیں پھر وہی بادل بارش برساتے ہیں۔

    لیکن ماہرین اس کی نفی کرتے ہیں۔ ان کے مطابق سمندر سے بادل بننے تک کا عمل تو درست ہے، لیکن یہ بادل بارش برسانے جیسے نہیں ہوتے۔ یہ زیادہ اونچائی تک نہیں جاسکتے علاوہ ازیں سمندری ہوا کی وجہ سے یہ بکھر بھی جاتے ہیں لہٰذا یہ بارش برسانے کے قابل نہیں ہوتے۔

    اس بارے میں توصیف عالم کا کہنا ہے کہ سب سے زیادہ بارشیں پہاڑی علاقوں میں ہوتی ہیں۔ جیسے جیسے ہوا اوپر (پہاڑ) کی طرف جاتی ہے ویسے ویسے ہوا میں نمی کا تناسب بڑھتا جاتا ہے۔

    ان کے مطابق دنیا بھر کے پہاڑوں اور بلندی پر موجود علاقوں میں زیادہ بارشیں ہوتی ہیں۔

    اس کے بعد زیادہ بارشیں جنگلات والے علاقوں میں ہوتی ہیں۔ کسی علاقے میں موجود جنگل اور ہریالی بارش لانے کا سبب بنتے ہیں۔ دنیا بھر کے برساتی جنگلات (رین فاریسٹ) میں بے تحاشہ بارشیں ہوتی ہیں جن میں سرفہرست برازیل کے امیزون کے جنگلات ہیں۔

    امیزون کے جنگلات دنیا بھر کے برساتی جنگلات کا ایک تہائی حصہ ہیں اور یہاں سالانہ 15 سو سے 3 ہزار ملی میٹر بارشیں ہوتی ہیں۔

    سب سے کم بارشیں ساحلی علاقوں میں ہوتی ہیں جن میں کراچی بھی شامل ہے۔

    فطرت کی رفو گری

    کراچی کی حالیہ بارشوں سے ایک تاثر یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ موسم کے درست ہونے کا یہ عمل قدرتی ہے۔ گویا فطرت اپنے آپ کو درست کر رہی ہے۔ لیکن کیا واقعی ایسا ہے؟

    اس بارے میں ماہر ماحولیات شبینہ فراز کہتی ہیں، ’فطرت کا اپنے آپ کو رفو کرنا قابل فہم بات تو ہے، لیکن یہ عمل اتنا آسان نہیں۔ اول تو یہ کہ ہم جس قدر تباہی و بربادی پھیلا چکے ہیں اس حساب سے اگر فطرت اپنے آپ کو درست کر بھی رہی ہے تو اس کی شرح بہت کم ہے جسے ہم صفر اعشاریہ چند فیصد کہہ سکتے ہیں‘۔

    ان کے مطابق، ’یہ درستی اگر ہو بھی رہی ہے تو قابل مشاہدہ نہیں ہے کیونکہ جس وقت فطرت اپنے آپ کو رفو کرتی ہے، ہم اس سے اگلے ہی لمحے دوگنی چوگنی خرابی پیدا کردیتے ہیں‘۔

    شبینہ فراز کا کہنا ہے، ’جب زمین پر رہنے والے جاندار بہت زیادہ تباہی مچادیں تو فطرت اپنی اصل کی طرف پلٹنے کے لیے ایک خوفناک سرجری کے عمل سے گزرتی ہے اور اب بھی ایسا ممکن ہے۔ ہو سکتا ہے سب کچھ ٹھیک ہونے سے قبل بے شمار طوفان آئیں، سمندر کناروں سے باہر نکل کر ہر شے کو تباہ کردے، ہر وہ شے جو فطرت کو نقصان پہنچا رہی ہے تباہ ہوجائے، اس کے بعد فطرت اپنی اصل حالت پر تو واپس آجائے گی، درخت بھی ہوں گے، موسم بھی ٹھیک ہوگا، اور سمندر بھی اپنی حدوں میں ہوگا لیکن پھر انسان کہیں نہیں ہوگا‘۔

    ماہرین کے مطابق کراچی سمیت پورے ملک کا موسم اب ایسے ہی ناقابل پیشن گوئی رہے گا اور اس سے نمٹنے کی ایک ہی صورت ہے کہ ہم ہر لمحہ ہر قسم کی صورتحال کے لیے تیار رہیں۔