Tag: Climate Change

  • زمین کو ناقابل تلافی نقصان سے بچانے کے لیے صرف 3 برس باقی

    زمین کو ناقابل تلافی نقصان سے بچانے کے لیے صرف 3 برس باقی

    دنیا بھر کے چوٹی کے ماہرین نے الرٹ جاری کردیا ہے جس کے مطابق اگر اگلے 3 برسوں میں موسمی تغیرات یعنی کلائمٹ چینج کو قابو کرنے کے ہنگامی اقدامات نہ کیے گئے تو 3 سال بعد یہ پوری دنیا کو اپنے شکنجے میں جکڑ لے گا اور اس سے بچاؤ نا ممکن ہوگا۔

    اقوام متحدہ کی سابق سربراہ برائے موسمیاتی تغیرات کرسٹینا فگیریس سمیت 6 ماہرین طب و سائنس نے جرنل نیچر میں ایک خط شائع کروایا ہے جس میں انہوں نے کلائمٹ چینج کے ممکنہ اثرات سے آگاہ کیا ہے۔

    ان سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ اگلے 3 برس ہمارا اور ہماری زمین کے مستقبل کا تعین کریں گے۔

    مزید پڑھیں: زمین کی تباہی میں صرف 100 سال باقی؟

    خط میں کہا گیا ہے کہ اگر کلائمٹ چینج سے نمٹنے کے لیے فوری طور پر سنجیدہ اقدامات نہ شروع کیے گئے تو 3 سال بعد یہ ہمیں ناقابل تلافی نقصانات پہنچائے گا۔

    ان کے مطابق 3 سال بعد خوفناک سیلاب اور شدید موسمی تغریات و تبدیلیاں ہماری زمین کا معمول بن جائیں گے جو دنیا بھر کی زراعت پر بدترین منفی اثرات کریں گے اور اس سے اربوں لوگ متاثر ہوں گے۔

    کرسٹینا فگیریس کے مطابق ’کلائمٹ چینج ایک ایسا عفریت بننے جارہا ہے جس سے بچاؤ کی کوئی صورت نہیں ہوگی‘۔

    مزید پڑھیں: کلائمٹ چینج سے مطابقت کیسے کی جائے؟

    ماہرین نے 3 سال بعد کلائمٹ چینج کے ممکنہ اقدامات کو ار ریورس ایبل ڈسٹرکشن کے نام سے پکارا ہے یعنی ایسے نقصانات جن کی تلافی، اور ان نقصانات کے وجوہات سے بچاؤ کسی صورت ممکن نہیں۔

    خط میں کہا گیا ہے کہ اگر ہم سنجیدگی سے پیرس معاہدے پر عمل کرتے ہوئے سنہ 2020 تک گرین ہاؤس یا زہریلی اور نقصان دہ گیسز کے اخراج میں کمی کر لیتے ہیں تو کلائمٹ چینج تو برقرار رہے گا، تاہم اس سے ہونے والے نقصانات کی شدت کم ہوجائے جن کی تلافی بہر صورت ممکن ہوگی۔

    :ماہرین نے کلائمٹ چینج کو شدید ہونے اور گرین ہاؤس گیسز کے اخراج میں کمی کرنے کے لیے کچھ تجاویز بھی دیں جن کے مطابق

    قابل تجدید توانائی کے ذرائع جیسے شمسی، آبی یا ہوا کی توانائی کے استعمال کو مزید 30 فیصد تک بڑھایا جائے۔

    دنیا بھر کے مختلف شہروں اور ممالک میں فاسل فیول یعنی تیل، قدرتی گیس اور کوئلے کا استعمال کم کیا جائے اور اس کے لیے سالانہ 300 ارب ڈالرز کی سرمایہ کاری کی جائے۔

    مزید پڑھیں: گلوبل وارمنگ کم کرنے کے طریقے

    الیکٹرانک گاڑیوں کی تیاری و فرخت میں 15 فیصد اضافہ کیا جائے تاکہ گاڑیوں سے نکلنے والے زہریلے دھوئیں میں کمی کی جاسکے۔

    جنگلات کی کٹائی میں کمی کی جائے۔

    مختلف پیداواری شعبوں کو پابند کیا جائے کہ وہ ماحول دوست اشیا کی پیداوار کریں۔

    بین الاقوامی میڈیا کے مطابق سائنس دانوں کے یہ خط شائع کرنے کی وجہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا چند روز قبل کیا جانے والا وہ فیصلہ ہے جس میں انہوں نے پیرس ماحولیاتی معاہدے سے علیحدگی کا باقاعدہ اعلان کردیا تھا۔

    ٹرمپ نے اس معاہدے کو امریکا کے لیے اقتصادی بوجھ قرار دیتے ہوئے امریکا میں کوئلے کی ڈرلنگ کرنے کا عندیہ بھی دیا ہے۔ اس سے قبل عہدہ صدارت پر براجمان ہوتے ہی انہوں نے سابق صدر اوباما کے تمام ماحول دوست منصوبوں کو منسوخ کردیا تھا۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • گوئٹے مالا کی خوبصورت جھیل بنجر زمین میں تبدیل

    گوئٹے مالا کی خوبصورت جھیل بنجر زمین میں تبدیل

    گوئٹے مالا سٹی: وسطی امریکی ملک گوئٹے مالا میں اٹسٹمپا نامی خوبصورت جھیل موسمیاتی تغیرات یعنی کلائمٹ چینج کے باعث بنجر زمین میں تبدیل ہوگئی اور اب خشک پتھریلی زمین وقت کا نوحہ پڑھ رہی ہے۔

    یہ جھیل کلائمٹ چینج کے تباہ کن اثرات کا ناقابل تردید ثبوت ہے جو کسی زمانے میں اس علاقے کا حسن تھی۔

    پہاڑوں کے دامن میں پھیلی نیلے پانیوں کی یہ خوبصورت جھیل آہستہ آہستہ مر رہی ہے۔ اس جھیل میں جن 2 دریاؤں سے پانی آتا تھا وہ دریا سکڑ چکے ہیں جس کے باعث جھیل کو پانی کی فراہمی بے حد کم ہوچکی ہے۔

    مزید پڑھیں: کلائمٹ چینج کے باعث دریا کا رخ تبدیل

    گوئٹے مالا کا یہ علاقہ کلائمٹ چینج ہی کی وجہ سے گزشتہ برس خشک سالی کی زد میں رہا جس نے پانی کے ان ذخائر کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا۔

    یہ حصہ ایل نینو کی وجہ سے بھی متاثر ہوا جو سال 2015 سے شروع ہو کر 2016 کے وسط تک رہا۔ ایل نینو بحر الکاہل کے درجہ حرارت میں اضافہ کو کہتے ہیں جس کے باعث پوری دنیا کے موسم پر منفی اثر پڑتا ہے۔

    یہ عمل ہر 4 سے 5 سال بعد رونما ہوتا ہے جو گرم ممالک میں قحط اور خشک سالیوں کا سبب بنتا ہے جبکہ یہ کاربن کو جذب کرنے والے قدرتی ’سنک‘ جیسے جنگلات، سمندر اور دیگر نباتات کی صلاحیت پر بھی منفی اثر ڈالتا ہے جس کے باعث وہ پہلے کی طرح کاربن کو جذب نہیں کرسکتے۔

    گوئٹے مالا اور جنوبی و وسطی امریکا کے کئی ممالک کا ساحل بحر الکاہل سے متصل ہے جس کے باعث یہ ممالک ایل نینو سے خوفناک حد تک متاثر ہوتے ہیں۔

    ذریعہ روزگار بھی تباہ

    گوئٹے مالا کی ان جھیلوں اور دریاؤں نے خشک ہو کر اس علاقے کے ذریعہ روزگار کو بھی ختم کردیا ہے۔ یہاں 3 مرکزی ذرائع روزگار تھے جو براہ راست آبی ذخائر سے تعلق رکھتے ہیں۔

    ایک ماہی گیری، یہاں کے لوگ ان دریاؤں سے مچھلی پکڑ کر روزگار کماتے تھے۔ دوسرا زراعت، جس کے لیے پانی انہی دریاؤں سے آتا تھا۔

    تیسرا ذریعہ روزگار یہاں کی سیاحت تھا۔ خشک ہونے والی خوبصورت جھیل اپنے مسحور کن محل وقوع کی وجہ سے دنیا بھر کے سیاحوں کو اپنی طرف متوجہ کرتی تھی جو علاقے کی معیشت کو بہتر بنانے میں معاون ثابت ہوتے تھے۔

    تاہم کلائمٹ چینج کے ان اثرات نےمقامی آبادی کے ذرائع روزگار کو ختم کر کے انہیں غربت کی وادی میں دھکیل دیا ہے۔

    حکومت کی جانب سے مقامی آبادی کو یہاں سے منتقل ہونے پر زور دیا جارہا ہے۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • زمین کو صحرا میں تبدیل ہونے سے بچانے کا عالمی دن

    زمین کو صحرا میں تبدیل ہونے سے بچانے کا عالمی دن

    آج دنیا بھر میں صحرا زدگی اور قحط سے حفاظت کا عالمی دن منایا جارہا ہے۔ اس دن کو منانے کا مقصد خشک سالی اور قحط کے اثرات میں کمی اور صحرا زدگی کے عمل کی روک تھام سے متعلق آگاہی و شعور بیدار کرنا ہے۔

    صحرا زدگی ایک ایسا عمل ہے جو ایک عام زمین کو آہستہ آہستہ خشک اور بنجر کردیتا ہے جس کے بعد ایک وقت ایسا آتا ہے کہ یہ مکمل طور پر صحرا میں تبدیل ہوجاتی ہے۔

    یہ عمل اس وقت شروع ہوتا ہے جب کسی علاقے میں خشک سالی پیدا ہوجائے، کسی مقام سے بڑے پیمانے پر جنگلات کو کاٹ دیا جائے، یا زراعت میں ایسے ناقص طریقہ کار اور کیمیائی ادویات استعمال کی جائیں جو زمین کی زرخیزی کو ختم کر کے اسے بنجر کردیں۔

    براعظم افریقہ اس وقت سب سے زیادہ صحرا زدگی سے متاثر ہے۔

    اقوام متحدہ کے مطابق دنیا میں اس وقت 25 کروڑ افراد صحرا زدگی کے نقصانات سے براہ راست متاثر ہو رہے ہیں۔ علاوہ ازیں 1 سو ممالک اور 1 ارب افراد صحرا زدگی کے خطرے کا شکار ہوجانے کی زد میں ہیں۔

    مزید پڑھیں: صحرا میں جنگل اگانے کا حیرت انگیز طریقہ

    اقوام متحدہ کے عالمی ادارہ برائے خوراک و زراعت کے مطابق دنیا بھر میں ہر 1 منٹ میں 23 ایکڑ زمین صحرا زدگی کا شکار ہو کر بنجر ہو رہی ہے۔

    عالمی اداروں کی رپورٹس کے مطابق دنیا بھر میں جاری خانہ جنگیاں بھی صحرا زدگی کو رونما کرنے کی ایک بڑی وجہ ہیں جو کسی علاقے کو پہلے قحط زدہ بناتی ہیں، زراعت کو نقصان پہنچاتی ہیں، پھر بالآخر وہ زمین صحرا میں تبدیل ہوجاتی ہے جہاں کچھ بھی اگانا ناممکن ہوجاتا ہے۔

    علاوہ ازیں دنیا بھر کے موسموں میں ہونے والا تغیر یعنی کلائمٹ چینج، شدید گرم درجہ حرارت اور پانی کے ذخائر میں تیزی سے ہوتی کمی بھی زمین کو خشک کر رہی ہے اور صحرا زدگی کا عمل تیز ہوتا جارہا ہے۔

    ماہرین کے مطابق صحرا زدگی سے بچنے کا حل یہ ہے کہ زمینوں پر زیادہ سے زیادہ درخت اگائے جائیں تاکہ یہ زمین کو بنجر ہونے سے روک سکیں۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • کلائمٹ چینج پاکستان میں ملیریا کے پھیلاؤ کا سبب

    کلائمٹ چینج پاکستان میں ملیریا کے پھیلاؤ کا سبب

    پاکستان میں ملیریا کا مرض ایک طویل عرصے سے موجود ہے اور حالیہ کچھ عرصے میں ملیریا سے بھی زیادہ خطرناک وائرس ڈینگی اور چکن گونیا بھی سامنے آچکے ہیں۔ تاہم ماہرین کا کہنا ہے کہ ان امراض کے پھیلاؤ کی وجہ کلائمٹ چینج ہے۔

    فیصل آباد کی زرعی یونیورسٹی میں کی جانے والی اس تحقیق کا عنوان’کلائمٹ چینج کے انسانی صحت پر مضمرات اور زراعت سے اس کا تعلق‘ ہے۔ تحقیق میں طلبا و اساتذہ دونوں نے حصہ لیا۔

    تحقیق کی سربراہ پروفیسر ثوبیہ روز نے اس بارے میں گفتگو کرتے ہوئے بتایا، ’کلائمٹ چینج کے باعث درجہ حرات میں اضافہ پانی کے معیار اور غذا کو متاثر کر رہا ہے جبکہ یہ قدرتی آفات خصوصاً سیلابوں میں اضافہ کر رہا ہے جس سے مختلف امراض جنم لے رہے ہیں‘۔

    مزید پڑھیں: کلائمٹ چینج سے پرانی خوفناک بیماریاں لوٹ آنے کا خدشہ

    ان کے مطابق ان کی ٹیم نے کلائمٹ چینج اور ملیریا کے درمیان تعلق کی جانچ کے لیے پنجاب کے 15 ضلعوں میں تحقیقی سروے کیا۔

    پروفیسر ثوبیہ روز کا کہنا ہے کہ کلائمٹ چینج کے باعث درجہ حرارت میں مختلف تبدیلیاں مچھروں کی پیداوار اور نشونما میں اضافے کے لیے مددگار ثابت ہورہی ہیں۔

    انہوں نے بتایا کہ ملیریا کے پھیلاؤ میں اضافے کا تعلق کم علمی اور صحت و صفائی کے فقدان سے بھی ہے۔ اس سلسلے میں مظفر گڑھ کا علاقہ ملیریا کا آسان ہدف پایا گیا جہاں صحت کی سہولیات نہایت ناقص اور شرح خواندگی بے حد کم ہے۔

    رپورٹ میں بتایا گیا کہ مظفر گڑھ میں زیادہ تر کھیتوں میں کام کرنے والے کسان ملیریا کا نشانہ بنتے ہیں جو مختلف ماحول، موسم اور درجہ حرارت میں کام کرتے ہیں۔ ان میں سے بعض موسم مچھروں کے لیے نہایت سازگار ہوتے ہیں۔

    مزید پڑھیں: مچھروں سے حفاظت کریں

    ماہرین نے یہ بھی بتایا کہ جو کسان ملیریا کا شکار نہیں ہوئے وہ نسبتاً تعلیم یافتہ تھے، مختلف بیماریوں اور ان کے بچاؤ کے حوالے سے شعور رکھتے تھے جبکہ وہ صحت و صفائی کا بھی خیال رکھتے تھے۔

    ماہرین نے اپنی رپورٹ میں تجویز کیا کہ ہر علاقے کے ماحول اور اس کی صحت کی صورتحال کو مدنظر رکھتے ہوئے اس علاقے کے لیے علیحدہ طبی پالیسی بنائی جائے۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • سنہ 2025 تک پاکستان میں خشک سالی کا امکان

    سنہ 2025 تک پاکستان میں خشک سالی کا امکان

    اسلام آباد: پاکستان کونسل برائے تحقیقِ آبی ذخائر (پی سی آر ڈبلیو آر) نے متنبہ کیا ہے کہ سنہ 2025 تک پاکستان میں پانی کی شدید قلت واقع ہوجائے گی۔

    کونسل کی جانب سے جاری کی جانے والی حالیہ تحقیقی رپورٹ میں بتایا گیا کہ سنہ 1990 میں پاکستان ان ممالک کی صف میں آگیا تھا جہاں آبادی زیادہ اور آبی ذخائر کم تھے جس کے باعث ملک کے دستیاب آبی ذخائر پر دباؤ بڑھ گیا تھا۔

    سنہ 2005 میں پاکستان پانی کی کمی والے ممالک کی صف میں آکھڑا ہوا۔ اب ماہرین کے مطابق یہ صورتحال مزید جاری رہی تو بہت جلد پاکستان میں شدید قلت آب پیدا ہوجائے گی جس سے خشک سالی کا بھی خدشہ ہے۔

    یاد رہے کہ یہ کونسل وزارت سائنس و ٹیکنالوجی کے زیر سرپرست ہے جو آبی ذخائر کے مختلف امور اور تحقیق کی ذمہ دار ہے۔

    کونسل کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اس صورتحال سے بچنے کے لیے فوری طور پر اس کا حل تلاش کرنے کی ضروت ہے۔

    پاکستان پانی کی کمی کا شکار ملک

    واضح رہے کہ پاکستان دنیا کے ان 17 ممالک میں شامل ہے جو پانی کی قلت کا شکار ہیں۔

    پاکستان کے قیام کے وقت ملک میں ہر شہری کے لیے 5 ہزار 6 سو کیوبک میٹر پانی تھا جو اب کم ہو کر 1 ہزار کیوبک میٹر رہ گیا ہے اور سنہ 2025 تک یہ 8 سو کیوبک میٹر رہ جائے گا۔

    مزید پڑھیں: پاکستان میں صاف پانی کا حصول خواب بن گیا

    گزشتہ برس انسٹی ٹیوٹ فار پالیسی ریفارمز نے بھی اپنی ایک رپورٹ میں متنبہ کیا تھا کہ ملک میں پانی کی کمی بجلی کی کمی سے بھی بڑا مسئلہ بن چکا ہے اور حکومت کو فوری طور پر اس طرف توجہ دینا ہوگی۔

    رپورٹ کے مطابق مالی سال 16-2015 میں زرعی پیدوار میں نمایاں کمی دیکھنے میں آئی تھی جس کی ایک بڑی وجہ پانی کی کمی تھی۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • کلائمٹ چینج سے بچانے کے لیے دیو قامت ہاتھ

    کلائمٹ چینج سے بچانے کے لیے دیو قامت ہاتھ

    روم: اٹلی کے خوبصورت ترین پانیوں کے شہر وینس میں ایک تاریخی عمارت کو کلائمٹ چینج کے نقصانات سے بچانے کے لیے پانی سے دیو قامت ہاتھوں نے نمودار ہو کر عمارت کو سنبھال لیا۔

    یہ دیو قامت ہاتھ دراصل سرامکس سے بنائے گئے ہیں جو ایک اطالوی فنکار نے تخلیق کیے ہیں۔

    ان ہاتھوں کا مقصد دنیا کو کلائمٹ چینج کی طرف توجہ دلانا ہے کہ اگر اس عمل کے باعث سطح سمندر میں اضافہ جاری رہا تو وینس کا خوبصورت شہر اور اس میں موجود تمام تاریخی عمارتیں ڈوب جائیں گی۔

    وینس کی گرینڈ کنال میں جس مقام پر یہ ہاتھ نصب کیے گئے ہیں وہاں 14 ویں صدی کا ایک تاریخی ہوٹل موجود ہے اور ان ہاتھوں کو بنانے والے فنکار کا کہنا ہے کہ یہ ہاتھ دراصل علامتی طور اس ہوٹل کو ڈوبنے سے بچانے کی کوشش کر رہے ہیں۔

    کوئن نامی یہ فنکار کہتا ہے، ’یہ دیو قامت ہاتھ انسانی ہاتھوں کی طرف اشارہ کرتے ہیں جو دنیا کو تباہ کر سکتے ہیں، لیکن یہی ہاتھ ہماری زمین کو بچانے کی صلاحیت بھی رکھتے ہیں‘۔

    وہ کہتا ہے کہ دنیا بھر کے موسموں میں تغیر یعنی کلائمٹ چینج اس وقت ہماری بقا کو لاحق سب سے بڑا خطرہ ہے اور اس پر فوری طور پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔

    وینس میں ہونے والی آرٹ کی ایک نمائش کے تحت نصب کیے جانے والے یہ دیو قامت ہاتھ 26 نومبر تک نصب رہیں گے۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • بجٹ 18-2017: سب سے بڑے خطرے کے  لیے سب سے کم رقم

    بجٹ 18-2017: سب سے بڑے خطرے کے لیے سب سے کم رقم

    اسلام آباد: پاکستان میں پہلی بار گزشتہ 2 سال سے موسمیاتی تغیرات یعنی کلائمٹ چینج کے لیے اقدامات اٹھائے جارہے ہیں اور بجٹ میں ایک بڑی رقم اس کے لیے مختص کی جارہی ہے۔

    تاہم پاکستان کو کلائمٹ چینج کے حوالے سے جن نقصانات کا سامنا ہے اس حوالے سے یہ رقم نہایت قلیل ہے۔ علاوہ ازیں اس حوالے سے اب تک جو اقدامات اٹھائے گئے ہیں وہ بھی ناکافی ہیں اور پاکستان کو مزید بڑے پیمانے پر اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے۔

    گزشتہ سال موسمیاتی تغیرات یعنی کلائمٹ چینج کے 4 منصوبوں کے لیے 1 ارب 2 کروڑ 70 لاکھ روپے مختص کیے گئے تھے تاہم رواں برس کے اقتصادی جائزے کے مطابق وزارت برائے کلائمٹ چینج نے اس میں سے صرف 58 کروڑ روپے خرچ کیے ہیں۔

    اس امر کو وزارت کی نا اہلی کہیں یا غفلت، البتہ یہاں یہ ذکر کرنا ضروری ہے کہ اس شعبے میں (حکومت کی حد تک) ماہرین کی بے حد کمی ہے جو صورتحال کا درست جائزہ لے کر صحیح منصوبہ بندی کرسکیں، اور جو ماہرین پاکستان میں موجود ہیں، حکومت ان کی صلاحیتوں سے فائدہ اٹھانا ضروری نہیں سمجھتی۔

    پاکستان کا کلائمٹ چینج ’445 الفاظ‘ پر مشتمل

    سنہ 2015 میں 2 سال قبل جب دنیا کے بہت سے ممالک کلائمٹ چینج سے نمٹنے کا عزم لیے پیرس میں جمع تھے (کوپ 21 کانفرنس کے لیے) اور دنیا کو بچانے کے لیے ایک تاریخ ساز معاہدہ اپنی تشکیل کے مراحل میں تھا تب اس معاہدے میں شامل ہونے کے لیے ہر ملک نے ایک حکمت عملی کی دستاویز جمع کروائی تھی جسے آئی این ڈی سی کا نام دیا گیا۔

    اس دستاویز میں ہر ملک نے کلائمٹ چینج سے ہونے والے اپنے داخلی نقصانات اور ان کے ممکنہ سدباب کا تفصیلی ذکر کیا۔ علاوہ ازیں اس میں یہ عزم بھی ظاہر کیا گیا کہ مستقبل میں کون سا ملک اپنے کاربن اخراج پر کس قدر قابو پائے گا۔

    مختلف ممالک نے ضغیم آئی این ڈی سی جمع کروا کر کلائمٹ چینج کے سدباب کے لیے اپنی سنجیدگی ظاہر کی اور بتایا کہ ان کے لیے یہ معاہدہ کس قدر اہمیت کا حامل رکھتا ہے۔

    اس وقت پاکستان کا آئی این ڈی سی فقط 445 الفاظ یعنی بہ مشکل ایک صفحے پر مشتمل تھا۔ بعد ازاں اس یک صفحی دستاویز کی وضاحت یہ پیش کی گئی کہ پاکستان کے صنعتی شعبہ کو ابھی پھلنا پھولنا ہے، لہٰذا ابھی یہ کہنا کہ، ہم اپنے کاربن اخراج میں کتنی کمی کریں گے، قبل از وقت ہوگا۔

    شجر کاری اور کوئلے کے بجلی گھر ۔ متضاد ترقیاتی منصوبے

    یہاں یہ ذکر کرنا ضروری ہے کہ صرف چند روز قبل وزیر اعظم میاں نواز شریف ساہیوال میں کوئلے سے چلنے والے بجلی گھر کا افتتاح کر چکے ہیں جو کاربن کی پیداوار کا سب سے بڑا ذریعہ ہے۔

    دوسری جانب گزشتہ سال وزیر اعظم ہی کی ہدایت پر گرین پاکستان پروگرام کا آغاز کیا گیا جس کے تحت ملک بھر میں شجر کاری اور درختوں کا تحفظ کیا جانا ہے۔

    ایک طرف تو گرین پاکستان پروگرام اور بڑے پیمانے پر شجر کاری کا منصوبہ، اور دوسری جانب کوئلے کے بجلی گھروں کی تکمیل اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ وزیر اعظم کو ایسے مشیران کی ضرورت ہے جو ترقیاتی منصوبے بناتے ہوئے پائیداری، تحفظ ماحول، اور صحت عامہ کو بھی مدنظر رکھیں جو اب وقت کی سب سے بڑی ضرورت ہے۔

    یاد رہے کہ پاکستان میں کوئلے کے بجلی گھر چین کے مشترکہ تعاون سے بنائے جارہے ہیں جو اس وقت دنیا میں کوئلے کا سب سے بڑا استعمال کنندہ ہے۔

    چین اپنی توانائی کی 69 فیصد ضروریات کوئلے سے پوری کرتا ہے۔ کوئلے کے اس بے تحاشہ استعمال کے باعث چین کی فضائی آلودگی اس قدر خطرناک حد تک بڑھ چکی ہے کہ یہ ہر روز 4 ہزار چینیوں کو موت کے گھاٹ اتار رہی ہے۔

    موجودہ بجٹ میں ماحول کے لیے کیا ہے؟

    مالی سال 18-2017 کا بجٹ پیش کرتے ہوئے وفاقی وزیرخزانہ اسحٰق ڈار نے بچوں کے ڈائپرز اور سگریٹ کی قیمتوں میں کمی بیشی کا تو ضرور بتایا، تاہم انہوں نے مستقبل قریب میں پاکستان کو لاحق دہشت گردی سے بھی بڑے خطرے کلائمٹ چینج کا ذکر بھی کرنا گوارہ نہیں کیا۔

    بعد میں جاری کی گئی بجٹ دستاویز تفصیلات کے مطابق رواں برس موسمیاتی تغیرات اور ماحولیات سے متعلق 6 ترقیاتی منصوبوں کے لیے 81 کروڑ 50 لاکھ روپے مختص کرنے کی سفارش کی گئی ہے جو کہ مندرجہ ذیل ہیں۔

    جیومیٹرک سینٹر کی بنیاد رکھنے کے لیے: 3 کروڑ 38 لاکھ روپے۔ یہ منصوبہ سنہ 2019 تک پایہ تکمیل کو پہنچ جائے گا۔

    خشک سالی کے سدباب کے لیے پائیدار زمینی انتظام (سسٹین ایبل لینڈ مینجمنٹ): ڈھائی کروڑ روپے۔ یہ منصوبہ سنہ 2020 تک مکمل ہوگا۔

    وزیر اعظم کی خصوصی ہدایت پر شروع کیا گیا گرین پاکستان پروگرام: اس منصوبے کے تحت جنگلات کے تحفظ اور ان میں اضافے کے لیے 60 کروڑ 51 لاکھ روپے مختص کیے گئے ہیں۔ اس منصوبے کا طے کردہ ہدف سنہ 2021 تک حاصل کرلیا جائے گا۔

    تحفظ جنگلی حیات: گرین پاکستان پروگرام ہی کے تحت اس ضمن میں 10 کروڑ روپے رکھے گئے ہیں۔

    اسلام آباد میں نباتاتی و حیاتیاتی گارڈن: 1 کروڑ 50 لاکھ روپے۔

    زولوجیکل سروے آف پاکستان: 3 کروڑ 60 لاکھ روپے۔ یہ سروے پاکستان کی خطرے کا شکار جنگلی حیات اور ان کی پناہ گاہوں کو لاحق خطرات سے آگاہی حاصل کرنے اور ان کے تحفظ کے لیے اقدامات کرنے کے مقصد کے لیے کیا جارہا ہے۔

    دیگر منصوبے

    ان منصوبوں کے علاوہ تحفظ ماحولیات کے نام سے بھی کچھ رقم بجٹ میں شامل ہے جو 11 کروڑ سے زائد (1141 ملین) ہے جو ویسٹ واٹر مینجمنٹ پر خرچ کی جائے گی۔

    ایک خصوصی پروگرام ‘پینے کا صاف پانی ۔ سب کے لیے’ کی مد میں 12 ارب روپے سے زائد کی رقم رکھی گئی ہے۔ یہ رقم ملک بھر میں پینے کے پانی کو صاف کرنے کے اقدامات اور دور دراز علاقوں میں صاف پانی کی فراہمی ممکن بنانے کے لیے خرچ کی جائے گی۔

    وزیر خزانہ کی تقریر میں وزیر اعظم کے ایک پائیدار ترقیاتی اہداف (سسٹین ایبل ڈویلپمنٹ گولز) منصوبے کا بھی ذکر کیا گیا جو تقریباً ہر شعبہ زندگی سے تعلق رکھتا ہے۔ اس منصوبے کے لیے 30 ارب روپے رکھے گئے ہیں۔

    مزید پڑھیں: پائیدار ترقیاتی اہداف کیا ہیں؟

    علاوہ ازیں تحفظ ماحول کے لیے بجٹ میں کچھ اور وعدے بھی کیے گئے ہیں جن کے مطابق

    حکومت تمام بڑے شہروں میں پانی کو صاف کرنے کے پلانٹس نصب کرنے کا منصوبہ رکھتی ہے جس کا پانی زراعت اور باغبانی کے لیے استعمال کیا جائے گا۔

    صنعتوں کو پابند کیا جائے گا کہ وہ پانی کا کم سے کم اخراج کریں۔ یاد رہے کہ کافی عرصہ قبل امریکا سمیت اکثر ممالک میں صنعتوں کو مختلف قوانین کے تحت پابند کیا جاچکا ہے کہ وہ فیکٹریوں میں استعمال شدہ پانی کو ری سائیکل یعنی دوبارہ سے استعمال کریں تاکہ پانی کی بچت ممکن ہوسکے۔

    پائیدار ترقیاتی اہداف کو مدنظر رکھتے ہوئے وزارت کلائمٹ چینج کا مختلف بین الاقوامی اداروں کے ساتھ مل کر شہری حدود میں توسیع کے لیے بھی ایک منصوبہ زیر غور ہے تاکہ شہروں کو ایک حد تک پھیلایا جائے اور بے ہنگم پھیلاؤ پر قابو پایا جاسکے۔

    رواں سال بجٹ میں یہ دعویٰ بھی کیا گیا ہے کہ حکومت کلائمٹ چینج کو منصوبہ بندی اور مالیات کے شعبہ سے منسلک کرنے پر کام کر رہی ہے تاکہ ہر شعبہ میں کسی بھی منصوبہ کے آغاز اور اس کی تکمیل میں کلائمٹ چینج (کے نقصانات) کو مدنظر رکھا جائے۔

    مزید پڑھیں: حکومت کا گلیشیئرز کا ڈیٹا حاصل کرنے کے لیے اہم اقدام

    ماہرین ماحولیات اس بات پر متفق ہیں کہ صرف 1 سے 2 سال کے اندر پاکستان کو کلائمٹ چینج کے ہاتھوں پہنچنے والے نقصانات کا تخمینہ دہشت گردی کے نقصانات کے تخمینہ سے بھی تجاوز کرجائے گا۔

    اگر صرف مذکورہ بالا وعدوں کو ہی پورا کرلیا جائے، اور مختص کی گئی رقم کو دانش مندی اور ایمانداری سے خرچ کیا جائے تو ہم کلائمٹ چینج کے نقصانات سے خاصی حد تک نمٹ سکتے ہیں۔

  • پوپ فرانسس کی ٹرمپ کو کلائمٹ چینج پر توجہ دینے کی ہدایت

    پوپ فرانسس کی ٹرمپ کو کلائمٹ چینج پر توجہ دینے کی ہدایت

    ویٹی کن سٹی: امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی پوپ فرانسس سے ملاقات کے دوران پوپ نے انہیں ایک خط تحفتاً دیا جس میں موسمیاتی تغیرات یعنی کلائمٹ چینج سے نمٹنے کی ہدایت کی گئی۔

    امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے گزشتہ روز اپنی اہلیہ اور دختر کے ہمراہ ویٹی کن سٹی کا دورہ کیا تھا جس کے دوران انہوں نے عیسائیوں کےمذہبی پیشوا پوپ فرانسس سے ملاقات کی۔

    ملاقات کے دوران دونوں رہنماؤں نے روایت کے مطابق ایک دوسرے کو تحائف دیے۔ صدرٹرمپ نے پوپ کو امریکی رہنما مارٹن لوتھر کنگ کی جدوجہد کے بارے میں مبنی کتابوں کا سیٹ پیش کیا۔

    جواباً پوپ نے انہیں ایک دستاویزی خط تحفے میں دیا جس میں انہوں نے کلائمٹ چینج، دہشت گردی اور امن عامہ سے متعلق لکھا ہے۔

    مزید پڑھیں: لیونارڈو، ٹرمپ کو قائل کرنے میں کتنے کامیاب؟

    ذرائع کے مطابق پوپ نے ٹرمپ سے گفتگو کے دوران بھی کلائمٹ چینج کا ذکر کیا۔

    بین الاقوامی میڈیا کا یہ بھی کہنا ہے کہ پوپ نے صدر ٹرمپ کو پیرس معاہدے سے دستبردار نہ ہونے کی بھی تاکید کی جس کی مخالفت ٹرمپ پہلے ہی کرچکے ہیں۔

    روانگی کے وقت صدر ٹرمپ کا کہنا تھا، ’بہت شکریہ پوپ، آپ نے جو کچھ کہا میں اسے یاد رکھوں گا‘۔

    ٹرمپ کی ماحول کے لیے دشمن پالیسیاں

    یاد رہے کہ اپنی انتخابی مہم کے دوران سے صدر ٹرمپ اپنے مختلف بیانات کے ذریعے ماحولیات اور سائنس کے شعبے کے لیے اپنی غیر دلچسپی ظاہر کر چکے ہیں۔

    اپنی انتخابی مہم میں کئی بار ٹرمپ نے کلائمٹ چینج کو ایک وہم اور مضحکہ خیز چیز قرار دیا۔

    ٹرمپ کا انتخابی منشور بھی ماحول دشمن اقدامات سے بھرا پڑا ہے۔ وہ امریکا کی دم توڑتی کوئلے کی صنعت کو دوبارہ بحال کرنے کا اعلان کر چکے ہیں یعنی اب امریکا میں بیشتر توانائی منصوبے کوئلے سے چلائے جائیں گے۔

    یہی نہیں وہ گیس اور تیل کے نئے ذخائر کی تلاش کا ارادہ بھی رکھتے ہیں جن کے لیے کی جانے والی ڈرلنگ اس علاقے کے ماحول پر بدترین اثرات مرتب کرتی ہے۔

    مزید پڑھیں: ٹرمپ کی ماحول دشمن اصلاحات کے خلاف کیلی فورنیا ڈٹ گیا

    انہوں نے یہ بھی کہہ رکھا ہے کہ کلائمٹ چینج کے سدباب کے سلسلے میں تمام پروگراموں کے لیے اقوام متحدہ کی تمام امداد بند کر دی جائے گی۔

    ٹرمپ یہ اعلان بھی کر چکے ہیں کہ وہ گزشتہ برس اقوام متحدہ میں ماحولیاتی خطرات سے نمٹنے کے لیے طے کی جانے والی پیرس کلائمٹ ڈیل سے بھی علیحدہ ہوجائیں گے جس کے بعد دنیا بھر میں ماحولیات کی بہتری کے لیے کی جانے والی کوششوں کو ناقابل تلافی نقصان پہننے کا اندیشہ ہے۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • آم کی پیداوار میں کمی کا خدشہ

    آم کی پیداوار میں کمی کا خدشہ

    اسلام آباد: رواں سیزن آم کی بارہ لاکھ ٹن پیداوار حاصل ہونے کا امکان ہے‘ گزشتہ سیزن میں یہ کل 17 لاکھ ٹن آم حاصل کیا گیا تھا۔

    تفصیلات کے مطابق آل پاکستان فروٹ اینڈ ویجیٹیبل ایکسپورٹرز، امپورٹرز اینڈ مرچنٹس ایسوسی ایشن (پی ایف وی اے) کی جانب سے حالیہ سیزن کے دوران آم کا برآمدی ہدف ایک لاکھ مقرر کیا گیا ہے۔

    رپورٹ کے مطابق گزشتہ سال بھی آم کا برآمدی ہدف ایک لاکھ ٹن مقرر کیا گیا تھا تاہم برآمد کنندگان کی مربوط کاوشوں کے نتیجہ میں ایک لاکھ 28ہزارٹن آم برآمد کرکے 68 ملین ڈالر کا قیمتی زرمبادلہ کمایا گیا تھا۔

    پاکستان دنیا بھر میں آموں کی پیداوار کے حوالے سے چوتھا بڑا ملک سمجھا جاتا ہے۔ اس کی کل پیداوار کا 7 فیصد حصہ برآمد کیا جاتا ہے۔

    یہ برآمدات یورپ سمیت 47 ممالک کو کی جاتی ہے۔ گزشتہ سال ان برآمدات میں 16 فیصد اضافہ دیکھا گیا تھا۔

    ماہرین نے متنبہ کیا ہے کہ رواں سال موسمیاتی تغیرات یعنی کلائمٹ چینج کی وجہ سے آموں کی پیداوار شدید متاثر ہونے کا خدشہ ہے۔کلائمٹ چینج کے باعث موسموں کے غیر معمولی تغیر نے ملک کی بیشتر غذائی فصلوں اور پھلوں کی پیداوار پر منفی اثر ڈالا ہے اور انہیں نقصان پہنچایا ہے۔

    کلائمٹ چینج کے باعث موسموں کے غیر معمولی تغیر نے ملک کی بیشتر غذائی فصلوں اور پھلوں کی پیداوار پر منفی اثر ڈالا ہے اور انہیں نقصان پہنچایا ہے۔

    ملتان سے تعلق رکھنے والے سابق اسپیکر قومی اسمبلی سید فخر امام کا کہنا ہے کہ کلائمٹ چینج نے اس بار جنوبی پنجاب کے ان حصوں کو شدید متاثر کیا ہے جہاں آموں کے باغات ہیں۔

    ان علاقوں میں خانیوال، ملتان، مظفر گڑھ اور رحیم یار خان شامل ہیں۔

  • تاریخی دریائے نیل کلائمٹ چینج کی ستم ظریفی کا شکار

    تاریخی دریائے نیل کلائمٹ چینج کی ستم ظریفی کا شکار

    براعظم افریقہ میں مصر کو سیراب کرنے والا دریائے نیل تاریخی اہمیت کا حامل دریا ہے۔ مصر کی عظیم تہذیب کا آغاز اسی دریا کے کنارے ہوا اور اس تہذیب نے دنیا بھر کی ثقافت و تہذیب پر اپنے اثرات مرتب کیے۔

    تاہم اب ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ دریا بھی موسمیاتی تغیرات یعنی کلائمٹ چینج کی زد میں ہے اور اس کی وجہ سے دریائے نیل میں شدید اتار چڑھاؤ معمول کا حصہ بنتے جا رہے ہیں۔

    دنیا کو مصر کا تحفہ دینے والا یہ دریا اس وقت 11 ممالک اور 40 کروڑ افراد کی مختلف آبی ضروریات کو پورا کر رہا ہے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ دریائے نیل کا بہاؤ اب بہت غیر متوقع ہوچکا ہے۔ کبھی اس میں اتنا زیادہ پانی ہوتا ہے کہ یہ سیلاب کی صورت باہر آجاتا ہے، اور کبھی اتنا کم کہ خشک سالی کے حالات پیدا ہوجاتے ہیں۔

    ہر سال دریا کے اوسط بہاؤ میں 10 سے 15 فیصد اضافہ یا کمی ہوجاتی ہے لیکن گزشتہ چند سالوں سے یہ معیار بھی ختم ہوگیا ہے۔ اب ہر سال تغیر گزشتہ برس سے کہیں زیادہ مختلف ہوتا ہے۔

    بعض اوقات اس کے بہاؤ میں 50 فیصد کمی یا اضافہ بھی ہوجاتا ہے۔

    مزید پڑھیں: کلائمٹ چینج کے باعث دریا کا رخ تبدیل

    ماہرین کے مطابق اس کا انحصار اس علاقے میں ہونے والی بارشوں پر ہے کہ وہاں کتنی بارشیں ہوئیں، تاہم اس حقیقت کو بھی یاد رکھنا چاہیئے کہ دریا یا سمندر کے اوپر بننے والے بادلوں کا انحصار بھی دریا یا سمندر کے پانی پر ہی ہوتا ہے، کہ وہ کس نوعیت کے بادل تشکیل دے رہا ہے۔

    تحقیق میں شامل میسا چوسٹس انسٹیٹیوٹ آف ٹیکنالوجی کے ماہرین کا کہنا ہے، ’یہ کوئی تحقیقاتی جائزہ نہیں ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے جو رونما ہو رہی ہے۔ دریائے نیل کا بہاؤ اب بہت غیر متوقع ہوگیا ہے‘۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ سال 2015 میں جب ایل نینو شروع ہوا تو کم بارشوں کی وجہ سے دریائے نیل میں پانی کی مقدار کم ہوگئی جس سے مصر میں خشک سالی کی صورتحال پیدا ہوگئی۔

    ایل نینو بحر الکاہل کے درجہ حرارت میں اضافہ کو کہتے ہیں جس کے باعث پوری دنیا کے موسم پر منفی اثر پڑتا ہے۔ اس بار ایل نینو سال 2015 سے شروع ہو کر 2016 کے وسط تک جاری رہا۔

    یہ عمل ہر 4 سے 5 سال بعد رونما ہوتا ہے جو گرم ممالک میں قحط اور خشک سالیوں کا سبب بنتا ہے جبکہ یہ کاربن کو جذب کرنے والے قدرتی ’سنک‘ جیسے جنگلات، سمندر اور دیگر نباتات کی صلاحیت پر بھی منفی اثر ڈالتا ہے جس کے باعث وہ پہلے کی طرح کاربن کو جذب نہیں کرسکتے۔

    مزید پڑھیں: کلائمٹ چینج سے مطابقت کیسے کی جائے؟

    اس کے بعد سنہ 2016 میں جب (کمزور) لانینا شروع ہوا تو نیل میں پانی کی مقدار میں اضافہ ہوگیا جس سے دریا بپھر گیا اور اس کے سیلابی پانی نے کروڑوں ڈالر کا نقصان اور 26 افراد کو موت کے منہ میں پہنچا دیا۔

    لا نینا ایل نینو کے برعکس زمین کو سرد کرنے والا عمل ہے۔

    دریائے نیل ہمیشہ سے کئی سیاسی تنازعات کا مرکز بھی رہا ہے لیکن اس کی مہربانیاں قدیم دور سے لے کر اب تک جاری ہیں۔ تاہم اب موجودہ حقائق کو دیکھتے ہوئے یہ کہنا مشکل ہے کہ یہ دریا مزید کب تک مہربان رہے گا۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔