Tag: Climate Change

  • جنگلات میں اچانک آگ کیوں لگ جاتی ہے؟ ماہرین نے وجہ بتادی

    جنگلات میں اچانک آگ کیوں لگ جاتی ہے؟ ماہرین نے وجہ بتادی

    دُنیا بھر میں گزشتہ کچھ سالوں سے مختلف مقامات اور جنگلات میں بڑے پیمانے پر آگ لگنے کے واقعات میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے جس کے نتیجے میں اب تک ہزاروں انسان لقمہ اجل بن چکے ہیں۔

    سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ آتشزدگی کیوں ہوتی ہے اور پراسرار انداز میں آگ لگنے کے ان واقعات کے کیا اسباب ہیں؟

    اس حوالے سے ماہرین ماحولیات کا کہنا ہے کہ موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث خشک سالی کے دورانیے میں اضافہ ہو رہا ہے اور سورج کی تیز تپش یا ہیٹ ویو اس کی بڑی وجوہات میں سے ایک ہے۔

    بلند مقامات میں درختوں پر آگ لگنے کے واقعات تھم نہ سکے

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق جنوب مغربی یورپ کے علاقوں میں موسم گرما کی ہیٹ ویو سنیچر کو چھٹے دن میں داخل ہوگئی ہے اور اس سے جنگلات میں تباہ کن آگ پھیل چکی ہے۔

    فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق براعظم کے کچھ حصوں میں آئندہ ہفتے کے اوائل میں درجہ حرارت کے نئے ریکارڈز بھی قائم ہو سکتے ہیں۔

    فرانس، پرتگال، سپین اور یونان میں فائر فائٹرز جنگل کی آگ بجھانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ان ممالک میں پھیلی آگ نے ہفتے کے آغاز سے ہی ہزاروں ایکڑ اراضی کو تباہ کردیا ہے جبکہ متعدد اہلکار بھی ہلاک ہوچکے ہیں۔

    یہ حالیہ ہفتوں میں جنوب مغربی یورپ کے علاقوں کو اپنی لپیٹ میں لینے والی دوسری ہیٹ ویو ہے۔

    سائنس دان اس کی بنیادی وجہ موسمیاتی تبدیلیوں کو قرار دیتے ہیں اور وہ تسلسل کے ساتھ موسمیاتی شدت کی پیش گوئی کر رہے ہیں۔

    چلی: جنگل میں آگ لگنے سے ایک ہزار گھر تباہ، 10 افراد ہلاک

    فرانس کے جنوب مغربی علاقے گیروندے کے ساحلی قصبے آرکاچون میں فائر فائٹرز دو مقامات پر لگی جنگل کی آگ پر قابو پانے کی کوشش کر رہے تھے جس نے منگل سے اب تک 24 ہزار 700 ایکڑ سے زیادہ رقبے کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔

    فائر اینڈ ریسکیو سروس کے لیفٹیننٹ کرنل اولیور چاوٹے جن کے تحت 1200 فائر فائٹرز اور پانچ طیارے کام کر رہے ہیں، نے کہا کہ یہ ایک مشکل کام ہے۔

    شیرانی جنگلات میں آگ، کیادنیاکاسب سے بڑا چلغوزےکا جنگل راکھ ہوگیا؟ -  Pakistan - SAMAA

    فائر فائٹرز کے ترجمان ارناؤڈ مینڈوس نے اے ایف پی کو بتایا کہ سنیچر کو چند سو رہائشیوں کو مزید انخلا کے احکامات بھی دیے گئے ہیں۔

    خیال رہے کہ منگل کے بعد سے مجموعی طور پر 12 ہزار سے زیادہ افراد (رہائشیوں اور سیاحوں) کو پانچ ہنگامی پناہ گاہوں میں پہنچایا گیا ہے۔

    جنوبی پنجاب کا بڑا جنگل جل کر تباہ، کسی کو پروا ہے؟ | Independent Urdu

    فرانس میں محکمہ موسمیات نے سنیچر کو فرانس کے جنوب میں درجہ حرارت 40 ڈگری سیلسیس تک رہنے کی پیش گوئی کی ہے جبکہ پیر کو گرمی کے نئے ریکارڈز بھی متوقع ہیں۔

  • اٹلی میں خشک سالی نے پچھلے تمام ریکارڈ توڑ دیئے، پانی کا سنگین بحران

    اٹلی میں خشک سالی نے پچھلے تمام ریکارڈ توڑ دیئے، پانی کا سنگین بحران

    دنیا بھر میں ہونے والی موسمیاتی تبدیلی کے نتیجے میں کہیں بارشیں بہت زیادہ یا کم اور موسم میں نمایاں فرق آیا ہے جس کے سبب کچھ علاقوں میں سیلابی صورتحال ہے تو دوسری جانب خشک سالی کا مسئلہ درپیش ہے۔

    اس حوالے سے غیرمعمولی طور پر گرم موسم، موسمیاتی تبدیلیوں نے اٹلی کے شمالی حصے کو بھی بری طرح متاثر کیا ہے جہاں 70سالہ ریکارڈ ٹوٹ گیا۔

    شمالی اٹلی میں انتہائی کم بارشوں کے سبب 5 علاقے بری طرح خشک سالی کا شکار ہوگئے، حکومت کی جانب سے آرائشی فواروں کو بند، گاڑیاں دھونے اور پودوں کو غیرضروری پانی نہ دینے کی ہدایات کی گئی ہے۔

    اٹلی میں خشک سالی کی وجہ سے ایمرجنسی نافذ

    اٹلی کے شمال میں واقع امیلیا، روماگرا، فریوللی ونیزیا، لومبرڈی، پیڈمونٹ، وینٹو ودیگر علاقوں میں پانی کی شدید قلت کا سامنا ہے، خشک سالی سے نمٹنے کے لئے حکومت کی جانب سے 36 ملین یورو کے فنڈز جاری کر دیئے گئے ہیں۔

    غیرملکی خبر رساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق یورپی ملک اٹلی کو ستر برس میں سب سے زیادہ موجودہ وقت میں قحط اور خشک سالی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے، اس خشک سالی کے باعث خدشہ ظاہر کیا جارہا ہے کہ اٹلی کی30 فیصد سے زائد زرعی پیداوار کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔

    یاد رہے کہ کچھ روزقبل شدید موسمی تبدیلیوں کے باعث اٹلی کے انتہائی شمال میں ایلپس پہاڑی سلسلے میں گلیشیئر ٹوٹ گیا تھا جس کے نتیجے میں سات افراد ہلاک جبکہ متعدد زخمی ہوئے۔

  • پاکستان: موسمی تبدیلی سے سیکڑوں بھیڑ بکریاں ہلاک

    پاکستان: موسمی تبدیلی سے سیکڑوں بھیڑ بکریاں ہلاک

    سوات: پاکستان پر موسمی تبدیلی کے اثرات پڑنا شروع ہو گئے ہیں، شمالی علاقوں میں جون میں غیر متوقع برفباری سے سیکڑوں بھیڑ بکریاں ہلاک ہو گئیں۔

    تفصیلات کے مطابق پاکستان کے صوبہ خیبر پختون خوا میں موسمی تبدیلی کے اثرات کے طور پرغیر متوقع برف باری سے انسانوں کے ساتھ بڑی تعداد مں جانور بھی متاثر ہوگئے ہیں۔

    ضلعی انتظامیہ سوات کے مطابق دیر اور سوات کے سنگم پر چمبر بانڈہ اور لوڑہ بانڈہ میں حالیہ برف باری سے 15 سو سے زائد بھیڑ بکریاں ہلا ک ہو گئیں، جب کہ ایک چرواہے کی ہلاکت کی بھی ضلعی انتظامیہ نے تصدیق کر دی ہے۔

    ڈپٹی کمشنر سوات کے مطابق گزشتہ روز ریسکیو 1122 کے عملے نے متاثرہ علاقے میں ریسکیو آپریشن کیا، اور چمبر بانڈہ میں 100 بھیڑوں کو بچایا۔ انتظامیہ کے مطابق پہاڑی علاقے میں غیر متوقع برف باری سے بھیڑ بکریاں چرانے والے چرواہے بڑی تعداد میں متاثر ہوئے ہیں۔

    مقامی شہری کا آنکھوں دیکھا احوال

    برف باری سے متاثرہ علاقے کے رہائشی 65 سالہ حاجی عبدالرحیم نے کہا کہ انھوں نے اس موسم میں برف باری پہلی بار دیکھی ہے، شہری نے بتایا کہ جب ہمیں پتا چلا کہ پہاڑی کے اوپر حصے پر کچھ چرواہے پھنس گئے ہیں تو علاقے کے لوگوں نے اعلان کیا اور ہم وہاں روانہ ہو گئے۔

    عبدالرحیم کے مطابق جب گاؤں والے اوپر پہنچ گئے تو ایک بوڑھے شخص کو زخمی حالت میں دیکھا گیا، گاؤں والوں نے مل کر اس شخص کو نیچے گاؤں پہنچا دیا، اور وہاں ان کو بلیک ٹی پلائی گئی اور گرم کمبل ڈالا گیا۔

    مقامی شہری کے مطابق پہاڑ پر اور بھی چرواہے پھنسے ہوئے تھے، علاقے کے لوگ ان کو بھی گاؤں لائے، ان میں زیادہ تر جوان چرواہے تھے، تاہم ان میں ایک لاپتا تھا، عبدالرحیم نے بتایا کہ جب ہم اس کو ڈھونڈنے گئے تو وہ پہاڑی سے نیچے ایک کھائی میں ملا، جہاں وہ گر کر جاں بحق ہوگیا تھا، ہم اپنی مدد آپ کے تحت چادروں میں ان کی لاش گاؤں تک لے آئے۔

    حاجی عبدالرحیم نے بتایا کہ ہم نے وہاں پر بڑی تعداد میں بھیڑوں کو دیکھا جو مر چکی تھیں، صحیح تعداد کا تو ہمیں نہیں پتا لیکن پہاڑی کے دوسری طرف بھی بڑی تعداد میں جانور مردہ پڑے تھے۔

    جون کے مہینے میں برفباری

    محکمہ جنگلات کے ترجمان لطیف الرحمن نے بتایا کہ موسم گرما میں پہاڑی علاقوں کے لوگ بھیڑ بکریاں پہاڑوں کی چوٹیوں پر چرانے کے لیے لے جاتے ہیں، مئی کے مہینے سے اکتوبر تک بھیڑ بکریاں اونچے پہاڑوں پر ہوتی ہیں، لیکن حالیہ غیر متوقع برف باری نے چرواہوں اور جانوروں کو مشکل میں ڈال دیا ہے۔

    جون کے مہینے میں پاکستان کے میدانی علاقوں میں شدید گرمی پڑتی ہے، لیکن اس بار جون کے مہینے میں خیبر پختون خوا کے پہاڑی علاقوں میں غیر متوقع برف باری کی وجہ سے میدانی علاقوں میں بھی جون کے مہینے میں موسم خوش گوار رہا۔

    پشاور میں 21 اور 22 جون کو رات کے وقت درجۂ حرات 16 ڈگری سنٹی گریڈ تک گر گیا تھا، محکمہ موسمیات کے ڈپٹی ڈائریکٹر فہیم احمد نے بتایا کہ شاید یہ پہلی بار ہوا کہ جون میں موسم اتنا سرد ہو گیا ہے، جون کے مہینے میں پہلی بار ایسی تبدیلی دیکھی گئی ہے۔

    محمد فہیم نے بتایا کہ بابو سرٹاپ، چترال، اور سوات کے کچھ اونچے پہاڑوں پر کبھی کبھی ایسا ہوتا ہے کہ ہلکی سی برف باری ہو جاتی ہے لیکن وہ دھوپ نکلتے ہی ختم ہو جاتی ہے، مگر یہ برف باری معمول سے زیادہ ہے، اس بار برف باری نیچے علاقوں میں بھی ہوئی ہے۔

    محکمہ ماحولیات کی جانب سے بھی جون کے مہینے میں ایسی برف باری کو پاکستان پر موسمیاتی تبدیلی کے گہرے اثرات قرار دیے جا رہے ہیں۔

  • جمنا کی کہانی ۔ ہوم گارڈننگ نے ان کی زندگی کس طرح تبدیل کی؟

    جمنا کی کہانی ۔ ہوم گارڈننگ نے ان کی زندگی کس طرح تبدیل کی؟

    ’میں کبھی اسکول نہیں گئی، لیکن ہمیشہ سے پڑھنا چاہتی تھی، شادی ہونے کے بعد اپنے بچوں کو پڑھانا اور انہیں بڑا آدمی بنانا چاہتی تھی لیکن جیب اس کی اجازت نہیں دیتی تھی۔ لیکن اب زندگی نے ایسی کروٹ لی ہے کہ میں اپنے بچوں کو اسکول بھیجنے کے قابل ہوگئی ہوں‘، 35 سالہ جمنا کے چہرے کا اطمینان بتا رہا تھا کہ وہ اپنی زندگی میں آنے والی تبدیلی سے بے حد خوش ہیں۔

    اور ایک جمنا ہی نہیں، نیپال کے اس گاؤں کی رہائشی درجنوں خواتین بے حد خوش ہیں، 3 سال قبل شروع کی جانے والی باغبانی نے ان کی زندگی پہلے کے مقابلے میں خاصی بہتر کردی ہے۔

    نیپال کے دارالحکومت کھٹمنڈو سے کچھ دور واقع گاؤں کوئیکلٹھمکا میں چند سال قبل تک حالات خاصے دگرگوں تھے، معلومات اور سہولیات کی عدم دستیابی کی وجہ سے گاؤں والے سال بھر میں کوئی ایک فصل اگا پاتے تھے، جس کی فروخت سے وہ جیسے تیسے زندگی گزار رہے تھے۔

    اس فصل پر کیڑے مار ادویات کے استعمال سے گاؤں میں مختلف امراض بھی عام تھے جن میں جلدی الرجی سرفہرست تھی، معاشی پریشانی کی وجہ سے بہت کم لوگ اپنے بچوں کو تعلیم دلوانے کے قابل تھے۔

    پھر یہاں ایک انقلاب در آیا، حکومتی سرپرستی کے تحت چلنے والے ایک ادارے نے یہاں گھریلو باغبانی یا ہوم گارڈننگ کا سلسلہ شروع کروایا اور اس کے لیے خواتین کو چنا گیا۔

    مختصر تربیت کے بعد خواتین نے اپنے گھروں میں سبزیاں اگانی شروع کیں اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے گاؤں کا نقشہ بدل گیا، وہ گاؤں جہاں پہلے غربت کے ڈیرے تھے، اب وہاں خوشحالی، صحت اور سکون کی فراوانی ہوگئی۔


    دنیا بھر میں بدلتے اور بڑھتے ہوئے درجہ حرارت یعنی کلائمٹ چینج نے زندگی کے مختلف ذرائع پر منفی اثرات مرتب کیے ہیں اور زراعت بھی انہی میں سے ایک ہے۔

    ایک تحقیق کے مطابق کلائمٹ چینج کی وجہ سے گزشتہ 60 برسوں میں دنیا بھر کی زراعت میں 21 فیصد کمی آئی ہے۔

    کلائمٹ چینج کی وجہ سے زراعت پر اثر انداز ہونے والے عناصر میں سب سے اہم پیداواری موسم میں کمی ہے، یعنی غیر متوقع طور پر ہونے والی بارشیں اور موسم گرما کے دورانیے میں اضافہ فصلوں کو متاثر کر رہا ہے۔

    موسم گرما کے دورانیے میں اضافے سے ایک طرف تو سرد موسم میں پیدا ہونے والی فصلوں کو افزائش کے لیے کم وقت مل رہا ہے، دوسری جانب طویل دورانیے کی گرمی، موسم گرما میں پیدا ہونے والی فصلوں کو بھی نقصان پہنچا رہی ہے۔

    دنیا بھر میں پیدا ہونے والی قلت آب بھی اس کا اہم سبب ہے، علاوہ ازیں بڑھتی ہوئی آبادی کی غذائی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے جب فصل بڑھانے کے لیے دوائیں استعمال کی جاتی ہیں اور زمین کی استطاعت سے زیادہ پیداوار کی جاتی ہے تو زمین جلد بنجر ہوجاتی ہے یوں زیر کاشت رقبہ کم ہوتا جاتا ہے۔

    مستقبل قریب میں غذائی قلت کے ان خطرناک امکانات کو دیکھتے ہوئے مختلف طریقے متعارف کروائے جارہے ہیں، اور انہی میں سے ایک طریقہ ہوم گارڈننگ یا گھر میں سبزیاں اگانا بھی ہے۔

    نیپال کے ایک گاؤں میں اس ہوم گارڈننگ نے مقامی خواتین کی زندگی بدل دی ہے۔

    نیپال ۔ کلائمٹ چینج سے نمٹنے کی کوشش کرتا ملک

    لگ بھگ 2 کروڑ 92 لاکھ آبادی والا جنوب ایشیائی ملک نیپال اپنے 25 فیصد رقبے پر جنگلات رکھتا ہے تاہم یہاں بھی کلائمٹ چینج کے اثرات نمایاں ہیں۔

    کلائمٹ چینج رسک اٹلس کی درجہ بندی کے مطابق نیپال کلائمٹ چینج کے نقصانات سے ممکنہ متاثر ممالک میں 13 ویں نمبر پر ہے۔

    نیپال کا 25 فیصد رقبہ جنگلات پر مشتمل ہے

    زراعت اور فوڈ سیکیورٹی پر تحقیق کرنے والے عالمی ادارے سی جی آئی اے آر کے مطابق نیپال میں کلائمٹ چینج کی وجہ سے زراعت پر پڑنے والے منفی اثرات، ممکنہ غذائی قلت، آبی قلت، اور جنگلات میں کمی کی وجہ سے لاکھوں نیپالی خطرے کا شکار ہیں۔

    پہاڑوں سے گھرے اس ملک میں پانی کا اہم ذریعہ گلیشیئرز ہیں تاہم درجہ حرارت میں اضافے سے ان گلیشیئرز کے پگھلنے کی رفتار میں اضافہ ہوچکا ہے، بدلتے موسموں نے خشک علاقوں کی خشکی اور مرطوب علاقوں کی نمی میں اضافہ کردیا ہے اور زراعت کے لیے یہ ایک پریشان کن صورتحال ہے۔

    ایشیائی ترقیاتی بینک کی ایک تحقیق کے مطابق ہر سال نیپال کی جی ڈی پی میں کلائمٹ چینج سے ہونے والے نقصانات کی وجہ سے ڈیڑھ فیصد تک کی کمی واقع ہو رہی ہے، سنہ 2050 تک یہ شرح 2.2 فیصد اور رواں صدی کے آخر تک 9.9 فیصد تک جا پہنچے گی۔

    چھوٹی چھوٹی کوششیں جو لوگوں کی زندگی تبدیل کر رہی ہیں

    بدلتے موسموں کی وجہ سے زراعت پر ہونے والے نقصانات نئی ترجیحات اور اقدامات کا تقاضا کرتے ہیں جن میں سب سے آسان گھر میں باغبانی یا ہوم گارڈننگ ہے تاکہ ہر گھر اپنی غذائی ضروریات میں خود کفیل ہوسکے۔

    اس کی ایک بہترین مثال نیپال کے چند گاؤں ہیں جہاں ہوم گارڈننگ نے مقامی افراد کی زندگی بدل دی ہے۔

    ہوم گارڈننگ کی وجہ سے جمنا کے بچے اسکول جانے کے قابل ہوگئے ہیں

    35 سالہ جمنا ادھیکاری کھٹمنڈو سے کچھ دور واقع ایک پہاڑی علاقے کوئیکلٹھمکا کے ایک گاؤں کی رہائشی ہیں، 3 سال قبل جب انہوں نے اپنے گھر میں باغبانی شروع نہیں کی تھی تب وہ اور گاؤں کے دیگر گھرانے مخصوص خوراک کھانے پر مجبور تھے، اس کی وجہ مارکیٹس کا گاؤں سے دور ہونا اور معاشی پریشانی تھی۔

    جمنا بتاتی ہیں کہ اس وقت گاؤں میں عموماً سبھی کسان سرسوں اگاتے تھے جسے فروخت کر کے وہ ایک محدود رقم حاصل کر پاتے، اس معمولی رقم سے جیسے تیسے زندگی گزر رہی تھی۔

    پھر 3 سال قبل چند اداروں کی مدد سے انہیں گھر میں سبزیاں اگانے کے حوالے سے تربیت دی گئی، اس کا بنیادی مقصد تو گاؤں والوں کی غذائی ضروریات پورا کرنا تھا تاکہ انہیں اپنے گھر میں ہی مختلف سبزیاں حاصل ہوسکیں، ان کی رقم کی بچت ہو جبکہ سبزیاں خریدنے کے لیے گاؤں سے دور آنے جانے کی مشقت بھی ختم ہوسکے۔

    لیکن اب تین سال میں گاؤں کی تمام خواتین نے اس باغبانی کو اس قدر وسعت دے دی ہے کہ نہ صرف ان کے گھر کی غذائی ضروریات پوری ہوتی ہیں بلکہ وہ اس سبزی کو فروخت بھی کر رہی ہیں۔

    ’اس سبزی کی فروخت سے ہر گھر کو سالانہ تقریباً 1 لاکھ روپے تک کی آمدن حاصل ہوتی ہے، اتنی بڑی رقم ہم نے زندگی میں کبھی نہیں دیکھی تھی‘، جمنا چمکتی آنکھوں کے ساتھ بتاتی ہیں۔

    اپنے گھر میں ہونے والی باغبانی کے حوالے سے جمنا بتاتی ہیں کہ وہ دو حصوں میں باغبانی کرتی ہیں، ایک گھر کی ضرورت کے لیے، دوسرا فروخت کے لیے۔ گھر کے لیے وہ 21 قسم کی سبزیاں اگاتی ہیں جن میں پھول گوبھی، بند گوبھی، ٹماٹر، مرچ، بینگن اور گاجر وغیرہ یکے بعد دیگرے اگاتی ہیں۔

    تجارتی مقصد کے لیے اگائی جانے والی سبزیوں کی تعداد کم لیکن مقدار زیادہ ہے۔

    گاؤں والوں کو تربیت دینے والی نیپال کی ایک مقامی تنظیم CEAPRED کے پروجیکٹ کوآرڈینیٹر کرن بھوشل اس حوالے سے بتاتے ہیں کہ جب اس گاؤں میں امدادی سرگرمیوں کا آغاز کیا گیا تو انہوں نے دیکھا کہ گاؤں والے غذائی عدم توازن کا شکار تھے کیونکہ وہ چند مخصوص غذائیں ہی کھا رہے تھے۔

    ’اس کی وجہ معاشی طور پر کمزور ہونا اور شہر کی مارکیٹ تک عدم رسائی تھی، ہم نے یہ خیال پیش کیا کہ اگر گاؤں والے اپنے گھر میں ہی سبزیاں اگائیں تو ان کے لیے خوراک کا حصول آسان ہوسکتا ہے، جبکہ اضافی دیکھ بھال سے وہ اس موسم میں بھی سبزیاں حاصل کرنے کے قابل ہوسکیں گے جو نسبتاً خشک سالی کا موسم ہوتا ہے اور فصل کی پیداوار کم ہوتی ہے‘، کرن نے بتایا۔

    تاہم اس سے آمدن کا حصول ایک اضافی فائدہ تھا جس نے گاؤں والوں کی زندگی خاصی بہتر بنائی، جمنا بتاتی ہیں کہ ایک غریب خاندان سے تعلق ہونے کی وجہ سے وہ کبھی اسکول نہیں جاسکیں، لیکن اب اس آمدن نے انہیں اس قابل کردیا ہے کہ وہ اپنے بچوں کو اسکول بھیج رہی ہیں۔

    نقصان دہ کیمیکل فرٹیلائزر سے نجات

    نیپال کے ان دیہات میں کاشت کاری اور باغبانی کے لیے مقامی طور پر تیار کردہ کھاد ’جھولمال‘ استعمال کی جارہی ہے، یہ کھاد جانوروں کے گوبر، گلی سڑی سبزیوں پھلوں اور پتوں سے تیار کی جاتی ہے۔

    فصلوں پر گائے کے پیشاب سے تیار کردہ ایک اسپرے بطور کیڑے مار دوا استعمال کیا جارہا ہے۔

    کرن بتاتے ہیں کہ کچھ عرصہ قبل تک جب گاؤں والے اپنی فصل پر نقصان دہ کیڑے مار ادویات استعمال کیا کرتے تھے تب وہ مختلف طبی مسائل میں مبتلا تھے، ’اس وقت گاؤں میں اسکن الرجی اور سر درد کی بیماریاں عام تھیں، پھر کیمیکل فرٹیلائزر بھی صحت کے لیے نقصان دہ ہے اور اس کا مستقل استعمال خطرناک بیماریوں کا سبب بن سکتا ہے، تاہم اب کمرشل فصل اور گھریلو باغبانی دونوں کے لیے مقامی طور پر تیار کردہ کھاد اور اسپرے استعمال کیا جارہا ہے اور لوگوں کے صحت کے مسائل میں خاصی کمی آئی ہے‘۔

    امریکی تحقیقاتی ادارے ڈرگ واچر کے مطابق فصلوں پر چھڑکی جانے والی اور زمین کی زرخیزی کے لیے استعمال کی جانے والی کیمیکل ادویات جلد کی الرجی سے لے کر سانس، ہاضمے کے مسائل اور کینسر تک کا سبب بن سکتی ہیں۔

    کرن کہتے ہیں کہ گھر میں کی جانے والی آرگینک فارمنگ نے مقامی افراد کو نقصان دہ فرٹیلائزر اور کیڑے مار ادویات سے تحفظ فراہم کردیا ہے۔

    پانی کی فراہمی کے لیے مقامی ذرائع

    سارا سال سبزیوں کے حصول کے لیے سب سے بڑا مسئلہ خشک سالی سے نمٹنا تھا، کرن کے مطابق بارشوں کے موسم میں کچھ بھی اگا لینا تو بے حد آسان تھا لیکن مسئلہ تب ہوتا جب بارشیں ختم ہوجاتیں۔

    اس وقت پانی کی کمی گاؤں والوں کی تجارتی فصل کی پیداوار کو بھی متاثر کرتی۔

    سوائل سیمنٹ ٹینک

    اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے گاؤں میں جگہ جگہ خاص قسم کے ٹینکس بنائے گئے، چکنی مٹی، ریت اور سیمنٹ سے تیار کردہ ان ٹینکس میں بارش کا پانی ذخیرہ کر لیا جاتا ہے جو بارش کا سیزن ختم ہوجانے کے بعد استعمال کیا جاتا ہے۔

    ’ہوم گارڈننگ کی وجہ سے ہمارے حالات خاصے بہتر ہوگئے ہیں، معاشی خوشحالی کے ساتھ ساتھ ہمیں صحت کا تحفہ بھی ملا ہے، ذرا سی محنت اور معمولی کوشش سے ہماری زندگی اتنی بہتر ہوجائے گی، ہم نے کبھی سوچا بھی نہ تھا‘، جمنا جھلملاتی مسکراہٹ کے ساتھ بتاتی ہیں۔


    Story Supported By: ICIMOD & GRID-Arendal

  • پاکستان میں پہلی ماحول دوست گڑیا، ننھی طالبہ کا بڑا کارنامہ

    پاکستان میں پہلی ماحول دوست گڑیا، ننھی طالبہ کا بڑا کارنامہ

    کیا آپ جانتے ہیں کہ پاکستان میں پہلی ماحول دوست گڑیا بنالی گئی ہے جس کانام "فضا” ہے، اس گڑیا کا شاندار آئیڈیا ننھی ایمان دانش کا ہے۔

    ایمان دانش کا مقصد ہے کہ وہ اپنی گڑیا "فضا” کے ذریعے بچوں کو ماحولیاتی تبدیلیوں کے بارے میں آگاہ کریں اور انہیں ان کی ذمہ داریوں کا احساس دلائیں۔

    کراچی کی رہائشی چوتھی جماعت کی طالبہ ایمان دانش خان موسمیاتی تبدیلیوں کے خلاف ایک سرگرم کارکن ہیں جو دنیا میں پلاسٹک سے بنے کھلونوں کو روئی اور کپڑے کے کھلونوں سے تبدیل کرنے کا عزم رکھتی ہیں۔

    اے آر وائی نیوز سے گفتگو میں آٹھ سالہ ایمان نے بتایا کہ 1950 سے اب تک دنیا میں 83 ارب ٹن پلاسٹک بنایا گیا ہے، جس کا 91 فیصد اب دوبارہ استعمال کے قابل بھی نہیں رہا۔

    ان کا کہنا تھا کہ پلاسٹک ماحول میں تحلیل نہیں ہوتا اور اسے گلنے کے لیے پانچ ہزار سال کا عرصہ لگتا ہے۔

    ایمان نے کہا کہ اس کرہ ارض پر پلا سٹک کے باعث سمندری آلودگی ہوتی ہے اور سمندر میں پلاسٹک پھینکنےکے باعث سمندری حیات کو ناقابل تلافی نقصان پہنچتا ہے۔

    اس کے علاوہ پلاسٹک سمندر میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کے جذب ہونے اور آکسیجن کے اخراج کے عمل کو بھی متاثر کر رہا ہے جس کے باعث موسمیاتی تبدیلیوں کی رفتار میں بھی تیزی آگئی ہے۔

    انہوں نے بتایا کہ انہیں گڑیوں سے کھیلنے کا شوق ہے مگر ان کو جو پہلی گڑیا ملی وہ پلاسٹک کی تھی جسے انہوں نے شلوار قمیص اور دوپٹہ پہنا کر پاکستانی گڑیا بنا دیا مگر بعد میں انہیں محسوس ہوا کہ وہ تو پلاسٹک کی گڑیا ہے اور انہوں نے اپنی کلاس میں پڑھا تھا کہ پلاسٹک ماحول کے لیے بہت خطرناک ہے تو انہوں نے سوچا کہ اگر ایک چیز ماحول کے لیے خطرناک ہے تو ان کے لیے کتنی خطرناک ہوگی۔

    ایمان نے بتایا کہ شروع میں تو میں نے سوچا کہ پرانی گڑیائیں لے کر مرمت کرکے پلاسٹک کو دوبارہ استعمال کیا جائے مگر پھر مجھے لگا کہ اگر میں پرانی گڑیا لوں گی بھی تو وہ بھی تو پلاسٹک کی ہی ہوگی تو میں نے روئی اور کپڑے کے گڑیا بنائی اور اس کا نام "فضا” رکھا۔

    فضا کی عمر دس سال ہے اور وہ میری تصوراتی کلائیمٹ ہیرو ہے جو کرہ ارض کو پلاسٹک سے پاک کرنے کا کام کرتی ہے۔

  • موسمیاتی تبدیلیوں کا مقابلہ کرنے کے لیے عام لوگ کیا کریں؟

    موسمیاتی تبدیلیوں کا مقابلہ کرنے کے لیے عام لوگ کیا کریں؟

    اقوام متحدہ نے کہا ہے کہ آلودگی، موسمیاتی یا ماحولیاتی تبدیلیوں کا مقابلہ سائیکل چلا کر کیا جا سکتا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق اقوام متحدہ میں ایک قرارداد منظور کی گئی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ آلودگی اور موسمیاتی یا ماحولیاتی تبدیلیوں کا مقابلہ کرنے کے لیے لوگوں میں سائیکل چلانے کے رجحان کو فروغ دیا جائے گا۔

    یہ قرارداد دنیا کے 193 ممالک نے منظور کی، اور اسے اقوام متحدہ میں ترکمانستان نے پیش کیا تھا۔

    خیال رہے کہ سائیکلنگ ایک بہترین جسمانی سرگرمی یا ورزش سمجھی جاتی ہے، ماہرین صحت اس کی تجویز دیتے ہیں، ایندھن والی سواریوں کے مقابلے میں سائیکل کے استعمال سے ظاہر ہے کہ آلودگی کم ہو سکتی ہے۔

    اس قرارداد میں اقوام متحدہ کے رکن ممالک کو تجویز دی گئی ہے کہ ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ممالک کے شہری اور دیہی علاقوں کی پبلک ٹرانسپورٹ میں سائیکل کو بھی شامل کیا جائے۔

    سڑک پر سائیکل چلانے والوں کے لیے حفاظتی اقدامات کو بڑھانے اور بائیک کی سواری کے فروغ سے دیرپا ترقی اور گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج میں کمی کا عالمی ہدف حاصل کیا جا سکتا ہے۔

    ترکمانستان نے اپنی پیش کردہ قرارداد کے ذریعے تجویز دی کہ دنیا بھر میں جب بھی اور جہاں بھی عالمی، علاقائی اور ملکوں کی قومی ترقی کی پالیسی اور پروگرام مرتب کیے جائیں، ان میں سائیکل چلانے کے رجحان کو فروغ دینے کے لیے خصوصی اقدامات بھی کیے جائیں۔

  • مارگلہ ہلز میں تفریحی زون سمیت 4 زونز بنانے پر غور

    مارگلہ ہلز میں تفریحی زون سمیت 4 زونز بنانے پر غور

    اسلام آباد: سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے ماحولیاتی تبدیلی کے اجلاس میں بتایا گیا کہ مارگلہ ہلز میں 4 زون بنائے جا رہے ہیں، ایک تفریحی زون بنایا جائے گا جہاں ریستوران بھی ہوگا۔

    تفصیلات کے مطابق سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے ماحولیاتی تبدیلی کا اجلاس ہوا، چیئرمین اسلام آباد وائلڈ لائف مینجمنٹ بورڈ رائنہ سعید خان نے اجلاس کو بریفنگ دی۔

    چیئرمین نے بتایا کہ مارگلہ نیشنل پارک کی سائنٹفک اسٹڈی کی جا رہی ہے، مارگلہ ہلز میں 4 زون بنا رہے ہیں، ایک تفریحی زون بنا رہے ہیں جہاں ریستوران بھی بنایا جائے گا۔

    سینیٹر مشاہد حسین نے دریافت کیا کہ مونال بند ہو گیا تو پھر ریستوران کیسے بنایا جارہا ہے جس پر چیئرمین نے بتایا کہ ریسٹورنٹ کو قانون سازی کے بعد ریگولیٹ کیا جائے گا، باقی ریسٹورنٹس کو ای پی اوز بھی جاری کر دیے گئے ہیں۔

    انوائرنمنٹ پروٹیکشن ایجنسی (ای پی اے) کی ڈائریکٹر جنرل نے بتایا کہ مونال سمیت تمام ہوٹلز نے پانی کو گندا کر دیا ہے، ہم نے پانی کے سیمپل لیے ہیں وہ بہت زہریلا ہے۔

    ڈائریکٹر نے بتایا کہ تمام ہوٹلز نے سیوریج سید پور ویلج کے نالے میں ڈال دیا ہے۔

    اجلاس میں وزارت کلائمٹ چینج کو مارگلہ نیشنل پارک میں کیبل کار کی اسٹڈی کروانے کی ہدایت کی گئی۔

  • ‏’ہم نے 15نئے نیشنل پارکس کا اعلان کیا ہے اس کا تحفظ کرنا ہوگا’‏

    ‏’ہم نے 15نئے نیشنل پارکس کا اعلان کیا ہے اس کا تحفظ کرنا ہوگا’‏

    وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ ہم نے 15نئے نیشنل پارکس کا اعلان کیا ہے اس کا تحفظ کرنا ہوگا سیٹلائٹ اور ڈرونز کے ذریعے پارکس کے تحفظ کو مانیٹر کریں گے۔

    اے آر وائی نیوز کے مطابق اسلام آباد میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ عالمی بینک اور وزارت ماحولیات تبدیلی کے درمیان معاہدہ پاکستان کے لیے بہت اہم ہے جس پر عالمی بینک کے شکرگزار ہیں۔

    وزیراعظم کا کہنا تھا کہ موسمیاتی تبدیلی سے گلیشیئرز پگھل رہےہیں دنیا بھرمیں بارش کم اورگرمی زیادہ ہوتی جارہی ہے کئی ممالک کوجنگلات میں آگ کے واقعات  اور سیلاب کا سامنا ہے، ماحولیاتی آلودگی کی ایک مثال لاہور سب کےسامنے ہے۔

    انہوں نے کہا کہ مختلف ممالک نے ماحولیاتی آلودگی کوتاخیر سے سنجیدہ لیا، گلوبل وارمنگ روکنےکیلئےبہت سےاقدامات کی ضرورت ہے اگر فوری اور سنجیدہ اقدامات نہ کئے گئے تو ماحولیاتی آلودگی کے برے اثرات ہوں گے پاکستان بھی موسمیاتی تبدیلی سےبہت زیادہ متاثر ہے اس لیے 10ارب درخت کامنصوبہ بہت ضروری ہے۔

    عمران خان کا کہنا تھا کہ ہمارے شہر پھیلتے  جارہے ہیں اور گرین ایریاز غائب ہوتے جا رہے ہیں اسلام آباد میں بھی آبادی کا بہت دباؤ ہے آبادی بڑھنےسے ہم پانی کو صاف نہیں کرسکتے اورنہ ہی ہوا کا تحفظ کرسکتے ہیں جس تیزی سے آبادی  بڑھ رہی ہے ہمیں پارکس کوبچانا ہو گا بڑے شہروں کیلئے ہمارے ماسٹر پلانز تیار ہورہےہیں۔

    ان کا مزید کہنا تھا کہ کئی جنگل غائب ہو گئے اور وہاں قبضے ہوچکے ہیں ہمیں اپنے جنگلات کو بچانا ہے درخت اگانے کی مہم تیز اور نیشنل پارکس بہت ضروری ہیں۔

    وزیراعظم نے کہا کہ ہم نے 15 نئے نیشنل پارکس کااعلان کیا ہے اس کا تحفظ کرنا ہے، سیٹلائٹ اور ڈرونز کے ذریعے پارکس کے تحفظ کو مانیٹر کریں گے نیشنل پارکس بننےسے لوگوں کو روزگار بھی ملےگا۔

    انہوں نے مینگروز کی تعداد میں اضافے پر خوشی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ دریاؤں کا تحفظ اور مینگروز کو بچانا بہت ضروری ہے۔

  • سیلابوں اور طوفانوں نے دنیا کی معیشت ہلا کر رکھ دی

    سیلابوں اور طوفانوں نے دنیا کی معیشت ہلا کر رکھ دی

    لندن : دنیا بھر میں ہونے والی موسمیاتی تبدیلی نے ترقی یافتہ ممالک کی معیشت کو بری طرح نقصان پہنچایا ہے، سیلابوں اور طوفانوں کی صورت میں آنے والی قدرت آفات سے لاکھوں لوگ بے گھر بھی ہوئے۔

    اس حوالے سے گزشتہ روز ایک غیر سرکاری برطانوی ادارے نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ 10 بدترین قدرتی آفات کی وجہ سے رواں برس 170ارب ڈالر سے زیادہ کا نقصان ہوا ہے، یہ 2020 میں ہونے والے نقصانات سے 20ارب ڈالر زیادہ ہے۔

    Study: 10 biggest climate disasters of 2021 cost $ 170 billion in damage -  Canada Express News

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق ہر سال برطانیہ کا امدادی ادارہ کرسچن ایڈ شدید موسموں کے باعث رونما ہونے والے واقعات جیسے سیلاب، آگ لگنے اور شدید گرمی کی لہر سے ہونے والے نقصانات کا تخمینہ انشورنس کے ذریعے لگاتا ہے۔

    2020 میں کرسچن ایڈ نے کہا تھا کہ کہ دنیا بھر میں 10 بدترین قدرتی آفات کی وجہ سے 150 ارب ڈالر کا نقصان ہوا تھا، رواں برس اس نقصان میں مجموعی طور پر 13 فیصد اضافہ ہوا ہے۔

    کرسچن ایڈ کے مطابق قدرتی آفات کی وجہ سے نقصانات میں اضافے کا رجحان انسانوں کی وجہ سے ہونے والی موسمیاتی تبدیلی کے اثرات کی عکاسی کرتا ہے۔ ادارے نے مزید کہا کہ ان 10 قدرتی آفات کی وجہ سے کم از کم 1075 افراد ہلاک ہوئے اور 13 لاکھ افراد بے گھر ہوئے۔

    رپورٹ کے مطابق سب سے زیادہ نقصان2021 میں آئیڈا کے طوفان سے ہوا۔ یہ طوفان مشرقی امریکہ میں تیزی سے پھیلا اور اس سے تقریباً 65 ارب ڈالر کا نقصان ہوا۔ یہ طوفان نیویارک سمیت کئی شہروں میں سیلاب کا باعث بنا۔

    The 10 most expensive natural disasters of 2020 — Quartz

    جولائی میں جرمنی اور بیلجیئم میں ہونے والے تباہ کن سیلاب کی وجہ سے 43 ارب ڈالر کا نقصان ہوا۔ اسی طرح ٹیکساس میں شدید سردی کی لہر اور برفانی طوفان کی وجہ سے اس امریکی ریاست کے گرڈ سٹیشن کو 23ارب ڈالر کا نقصان ہوا۔

    جولائی میں چین کے صوبے ہینن میں سیلاب کے باعث بھی کافی نقصان ہوا تھا اور نقصانات کا تخمینہ 17.6 ارب ڈالر لگایا گیا۔ کینیڈا، فرانس، انڈیا اور بنگلہ دیش میں بھی قدرتی آفات کی وجہ سے اربوں ڈالر نقصان ہوا۔

    Natural disasters cost $210bn in 2020, the world's joint-hottest year - CGTN

    فرانس میں موسم بہار کے آخر میں شدید سردی کی وجہ سے انگور کے باغوں کو نقصان پہنچا تھا جبکہ مئی میں انڈیا اور بنگلہ دیش میں طوفان کی وجہ سے بھی کافی نقصان ہوا تھا جبکہ جنوبی سوڈان میں سیلاب سے تقریباً آٹھ لاکھ افراد متاثر ہوئے تھے۔

    رپورٹ کی پریس ریلیز میں کہا گیا ہے کہ ’2021 میں کچھ انتہائی تباہ کن قدرتی آفات کی وجہ سے ہونے والے واقعات نے غریب ممالک کو بری طرح متاثر کیا۔ جنہوں نے موسمیاتی تبدیلی کا سبب بننے میں کم حصہ ڈالا ہے۔

  • موسمیاتی تبدیلی : عالمی شخصیات سرجوڑ کر بیٹھ گئیں

    موسمیاتی تبدیلی : عالمی شخصیات سرجوڑ کر بیٹھ گئیں

    عالمی درجہ حرارت میں اضافے اور ماحولیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے دنیا شدید موسمیاتی تبدیلیوں کی زد میں ہے ، ان ہی تبدیلیوں کے شدید خطرات کے پیش نظر عالمی شخصیات سرجوڑ کر بیٹھ گئیں۔

    موسمیاتی تبدیلی کے حوالے سے عالمی سطح کی سربراہی کانفرنس گلاسکو میں آج سے شروع ہوگی، کانفرنس کوپ 26میں 120 ممالک کے وزرائےاعظم اور سربراہان مملکت شریک ہونگے۔

    موسمیاتی تبدیلی میں پاکستان کا قائدانہ کردار ہے، ملک ترقی یافتہ ممالک کی اگلی صف میں آگیا۔ کانفرنس میں شرکت کیلئے وزیراعظم کے معاون خصوصی ملک امین اسلم کی سربراہی میں پاکستانی وفد گلاسکو پہنچ گیا۔

    پاکستان کا موسمیاتی تبدیلیوں سے شدید متاثر ہونے والے ممالک میں شامل ہونے کا  امکان، خطرے کی گھنٹی بج گئی - Pakistan News International - Latest  Pakistani News in Urdu

    وفاقی وزیر موسمیاتی تبدیلی ملک امین اسلم دنیا بھر کو حکومتی اقدامات سے آگاہ کرینگے، پاکستانی وفد10بلین ٹری،متبادل توانائی، الیکٹریک وہیکل پالیسی منصوبوں پربات کرے گا۔

    وزیرموسمیاتی تبدیلی کوئلہ جلانے پر پابندی کے مثبت اثرات سےبھی آگاہ کریں گے، وزیراعظم کو سربراہی کانفرنس میں کلیدی خطاب کیلئےخصوصی مدعو کیا گیا تھا۔ وزیراعظم عمران خان نے ملکی حالات کے پیش کانفرنس میں شرکت سےمعذرت کی تھی۔

    اس حوالے سے سائنسدانوں نے بریفنگ میں بتایا ہے کہ راستہ نہ بدلا گیا تو کرہ ارض کو بدترین نتائج بھگتنے پڑسکتے ہیں، گلاسگو میں موسمیاتی تبدیلی پرعالمی سربراہی کانفرنس یکم سے12نومبرتک جاری رہے گی۔