Tag: Climate Change

  • ایشیا پر بڑا ماحولیاتی خطرہ منڈلانے لگا

    ایشیا پر بڑا ماحولیاتی خطرہ منڈلانے لگا

    نیویارک: ایشیا پر بڑا ماحولیاتی خطرہ منڈلانے لگا ہے، اقوام متحدہ کی تازہ کلائمٹ چینج رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 2020 میں شدید موسم اور موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے ایشیا میں نہ صرف ہزاروں افراد جان سے ہاتھ دھو بیٹھے بلکہ لاکھوں لوگ بے گھر بھی ہوئے۔

    منگل کو سالانہ رپورٹ ’اسٹیٹ آف دی کلائمٹ چینج ان ایشیا‘ میں اقوام متحدہ کے ادارے ورلڈ میٹرولوجیکل آرگنائزیشن (ڈبلیو ایم او) نے کہا ہے کہ اس خطے کا ہر حصہ متاثر ہوا ہے۔

    رپورٹ کے مطابق ایشیا کو 2020 میں ریکارڈ گرمی کا سامنا رہا، یہ گرم ترین سال تھا، اس برس سیلاب اور طوفان کی وجہ سے تقریباً 5 کروڑ افراد متاثر اور 5 ہزار افراد ہلاک ہوئے، اس کے علاوہ انفرا اسٹرکچر اور ماحولیاتی نظام کو بھی شدید نقصان پہنچا۔

    چین کو اس سال 238 ارب ڈالر کا نقصان ہوا، بھارت کو 87 ارب ڈالر، جاپان کو 83 ارب ڈالر اور جنوبی کوریا کو 24 ارب ڈالر کا نقصان اٹھانا پڑا۔

    قدرتی آفات کا خطرہ، گرین ہاؤس گیسز کی کثافت میں خطرناک اضافہ

    ماہرین کا کہنا ہے کہ ایشیا اور اس کے اردگرد سمندروں کی سطح کا درجہ حرارت اور سمندر کی حدت عالمی اوسط سے زیادہ بڑھ رہی ہے، 2020 میں بحر ہند، بحرالکاہل اور آرکٹک میں سمندر کی سطح کا درجہ حرارت ریکارڈ بلند ترین سطح پر پہنچا۔

    ڈبلیو ایم او کے سربراہ پٹیری تالس نے بتایا کہ سیلاب، طوفان اور خشک سالی نے ایشیا کے بہت سے ممالک پر گہرے اثرات مرتب کیے۔ واضح رہے کہ یہ رپورٹ گلاسگو میں اقوام متحدہ کی موسمیاتی تبدیلی کے کانفرنس کاپ 26 سے قبل سامنے آئی ہے۔

  • موسمیاتی تبدیلیوں کے خطرناک نتائج آنا شروع، سائنسدانوں کا بڑا انکشاف

    موسمیاتی تبدیلیوں کے خطرناک نتائج آنا شروع، سائنسدانوں کا بڑا انکشاف

    سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ دنیا میں ہونے والی ماحولیاتی تبدیلیوں سے سمندر اور منجمد خطوں کو اس دور میں جتنا نقصان ہو رہا ہے اس سے پہلے کبھی نہیں ہوا۔

    محققین کے مطابق سمندروں کی سطح بلند ہو رہی ہے، برف پگھل رہی ہے اور انسانوں کی سرگرمیاں اور نقل و حرکت کے بڑھ جانے سے بہت سی جنگلی حیات اپنے مسکن تبدیل کرنے پر مجبور ہیں۔

    اس حوالے سے ورلڈ میٹرولوجیکل آرگنائزیشن کی جانب سے جاری ہونے والی رپورٹ میں براعظم افریقہ کی طرف بڑھتی ہوئی آفات کی خوفناک منظر کشی کی گئی ہے۔

    رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ دنیا میں ہونے والی موسمیاتی تبدیلیوں کے خطرناک اثرات مرتب ہونا شروع ہوچکے ہیں، ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ افریقہ کے مشرقی گلیشیئرز دو دہائیوں میں غائب ہوجائیں گے۔

    رپورٹ کے مطابق سال 2040 کی دہائی تک افریقہ کے تینوں ٹراپیکل برف کے میدان، تنزانیہ کا کلیمنجارو، کینیا کا ماؤنٹ کینیا اور یوگنڈا کا روینزوریس براعظم کی گرمی کی وجہ سے عالمی اوسط سے زیادہ تیزی سے پیچھے ہٹ رہے ہیں۔

    کلمانجارو کا سب سے بڑا گلیشیر کلیمنجارو 2014 اور 2020 کے درمیان70 فیصد سکڑ گیا اور روینزوریس پہاڑوں کے گلیشیئرز اس کے بڑے پیمانے کا 90 فیصد کھوچکے ہیں۔

    ماہرین کے مطابق گلیشیئرز ختم ہونے کی وجہ سے11 کروڑ 80 لاکھ غریب لوگوں کو شدید خشک سالی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے جبکہ سیلاب یا شدید گرمی اور دیگر موسمیاتی تبدیلیوں کا سامنا ہوگا۔

    جبکہ صدی کے وسط تک براعظم کی جی ڈی پی بھی تین فیصد تک کم ہوسکتی ہے۔ افریقہ کا گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج میں حصہ 4 فیصد سے بھی کم ہے اسے باوجود براعظم کے طویل عرصے سے موسمیاتی تبدیلی سے شدید متاثر ہونے کا امکان ہے۔

  • موسمیاتی تبدیلی کی غلط معلومات ، گوگل نے اہم فیصلہ کرلیا

    موسمیاتی تبدیلی کی غلط معلومات ، گوگل نے اہم فیصلہ کرلیا

    انٹرنیٹ کے سب سے بڑے سرچ انجن گوگل نے کہا ہے کہ وہ اپنے سرچ انجن یا عالمی وڈیو شیئرنگ پلیٹ فارم یوٹیوب پر موسمیاتی تبدیلی بارے غلط معلومات کے حامل مواد کے ساتھ اشتہار شائع نہیں کرے گا۔

    فرانسیسی خبر رساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق گوگل نے مشتہرین، پبلیشرز اور یوٹیوب تخلیق کاروں کے لیے نئی پالیسی کا اعلان کیا ہے۔

    اس پالیسی کے تحت وہ ان پلیٹ فارمز کے ذریعے لوگوں کو آب و ہوا کی تبدیلی کے وجود اور وجوہات کے بارے میں سائنسی اتفاق رائے سے متضاد مواد شیئر نہیں کر سکیں گے اور نہ ہی ای مواد سے پیسہ کما سکیں گے۔

    گوگل نے کہا ہے کہ پالیسی میں تبدیلی پائیدار طریقوں کو فروغ دینے اور موسمیاتی تبدیلیوں کا مقابلہ کرنے کے لیے کمپنی کی کوششوں سے مطابقت رکھتی ہے۔

    این جی او آواز مہم کے ڈائریکٹر فادی قران نے کہا کہ موسمیاتی تبدیل بارے غلط معلومات فراہم کرنے والوں نے رائے عامہ کو الجھا دیا ہے اور یوٹیوب ان کے پسندیدہ پلیٹ فارمز میں سے ایک رہا ہے۔ انہوں نے دوسرے آن لائن پلیٹ فارمز پر بھی زور دیا کہ وہ گوگل کے طریقہ کار پر عمل کریں ۔

  • امریکی پرندوں کی چونچیں بڑی ہونے لگیں، ماہرین حیران

    امریکی پرندوں کی چونچیں بڑی ہونے لگیں، ماہرین حیران

    آسٹریلوی طوطوں سے لے کر امریکی پرندوں تک کئی پرندوں کی چونچیں بڑی ہونے لگی ہیں، ماہرین نے اس پر حیرت کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات ہو سکتے ہیں۔

    ایک امریکی سائنسی جریدے میں شائع شدہ ریسرچ اسٹڈی کے مطابق موسمیاتی تبدیلیوں سے انسان ہی نہیں جانور اور پرندے بھی متاثر ہوتے ہیں، عالمی درجۂ حرارت میں اضافہ برداشت کرنے کے لیے گرم خون والے کئی جانور اپنی ہیئت تبدیل کر رہے ہیں۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ 30 جانوروں میں سب سے زیادہ جسمانی تبدیلیاں آسٹریلوی طوطے میں دیکھی گئی ہیں، ان طوطوں کی چونچ 1871 کے بعد سے اب تک 4 سے 10 فی صد تک بڑھ چکی ہیں، یورپی خرگوش کے کان اور دیگر جانوروں کے دُم میں تبدیلی آ رہی ہے۔

    شاہ طوطے (کنگ پیروٹ) کا تھرمل امیج، جس میں طوطے کی چونچ سے حرارت نکلتی دکھائی دے رہی ہے، چند جانور جسم کی اضافی حرارت دموں، کانوں اور چونچوں کے ذریعے استعمال کرتے ہیں۔

    سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ وہ اس ارتقائی تبدیلی کے حیاتیاتی نتائج کے بارے میں فی الحال کچھ نہیں کہہ سکتے، بلکہ ایسا کہنا بھی قبل از وقت ہوگا کہ اس کے پیچھے صرف موسمیاتی تبدیلیوں کے عوامل ہیں، سائنس دان یہ بھی بتانے کی پوزیشن میں نہیں ہیں کہ یہ تبدیلیاں جانوروں کے لیے مثبت ہیں یا منفی یعنی نقصان دہ۔

    گالاپگوس جزائز کا سمندری شیر، جو اپنے سامنے کے فلپرز کے ذریعے حرارت خارج کر رہا ہے

    یاد رہے کہ چند ماہ قبل قازقستان میں جھیلوں اور قدرتی آثار پر مشتمل سیاحتی مقام پر ایک چٹان دریافت کی گئی تھی، جس سے 50 لاکھ سال کا موسمیاتی احوال معلوم کیا جا سکتا ہے، سوئٹزرلینڈ کی لیوزین یونیورسٹی کے شارلوٹ پروڈ ہوم نے دعویٰ کیا تھا کہ چارین گھاٹی کے مقام پر 80 میٹر طویل پتھریلا سلسلہ ہے، جہاں کلائمٹ چینج کا پانچ کروڑ سالہ ریکارڈ موجود ہے۔

  • انسان کی ماحول دشمنی اسے خطرناک بیماریوں کا شکار بنا سکتی ہے

    انسان کی ماحول دشمنی اسے خطرناک بیماریوں کا شکار بنا سکتی ہے

    کرونا وائرس کی وبا دنیا کے لیے ایک یاد دہانی ہے جس میں فطرت نے ہمیں بھرپور طریقے سے احساس دلایا کہ ترقی کی دوڑ میں ہم اس قدر تیز بھاگ رہے ہیں کہ نفع نقصان کا فرق بھی بھول چکے ہیں۔

    ہم نے دیکھا کہ کس طرح ہماری دہائیوں اور صدیوں کی ترقی اور معیشت کا پہیہ فطرت کے صرف ایک وار سے جھٹکے سے رک گیا اور پوری دنیا کا نظام اتھل پتھل ہوگیا۔

    ماہرین کے مطابق جس بے دردی سے ہم زمین کے پائیدار وسائل کو ضائع کر رہے تھے اور صرف یہ سمجھ بیٹھے تھے کہ یہ زمین صرف انسانوں کے لیے ہے، اس کے ردعمل میں یہ جھٹکا نہایت معمولی ہے، اور اگر ہم اب بھی نہ سنبھلے تو آئندہ جھٹکے اس قدر خطرناک ہوسکتے ہیں کہ پوری نسل انسانیت کو بقا کا خطرہ لاحق ہوسکتا ہے۔

    لیکن سوال یہ ہے کہ کیا ہم نے اب بھی اس وبا سے کچھ سیکھا ہے یا ہم اپنی پرانی روش پر قائم رہیں گے؟

    ایک تحقیق کے مطابق اکثر قدرتی آفات اور وباؤں کو دعوت دینے والا خود انسان ہی ہے جو دنیا بھر میں اپنی سرگرمیوں سے فطرت اور ماحول کے سسٹم میں خلل ڈال رہا ہے اور ان میں خرابی پیدا کر رہا ہے۔

    ماہرین کا ماننا ہے کہ کرونا وائرس بھی ان وباؤں میں سے ایک ہے جو انسان کی اپنی سرگرمیوں کی وجہ سے انہیں متاثر کر رہی ہے، یعنی اگر ہم اپنی حدود میں رہتے ہوئے فطرت سے چھیڑ چھاڑ نہ کرتے تو یہ وبا شاید انسانوں تک نہ پہنچتی۔

    یہ جاننا ضروری ہے کہ ہماری وہ کون سی سرگرمیاں ہیں جو ہمارے ہی لیے نقصان دہ ثابت ہورہی ہیں، اور ہم خود کو بچانے کے لیے کیا اقدامات کر سکتے ہیں؟

    انٹر گورنمنٹل سائنس پالیسی پلیٹ فارم آن بائیو ڈائیورسٹی اینڈ ایکو سسٹم سروس (IPBES) کی سنہ 2020 میں جاری کی جانے والی رپورٹ کے مطابق انسانوں میں پھیلنے والے تقریباً ایک تہائی متعدی امراض ایسے ہیں جو جانوروں سے منتقل ہوئے، اس وقت 17 لاکھ وائرسز ایسے ہیں جو ابھی تک دریافت نہیں ہوسکے اور یہ ممالیہ جانداروں اور پرندوں میں موجود ہیں، ان میں سے نصف ایسے ہیں جو انسانوں کو متاثر کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔

    وجہ؟ انسانوں کا جانوروں سے غیر ضروری رابطہ۔ اس کے خطرناک نقصانات کو ماہر ماحولیات سنیتا چوہدری نے نہایت تفصیل سے بتایا، سنیتا چوہدری مختلف ممالک میں ماہر جنگلات کے طور پر کام کرچکی ہیں جبکہ آج کل وہ نیپال کے تحفظ ماحولیات کے ادارے آئی سی موڈ سے بطور ایکو سسٹم سروس اسپیشلسٹ وابستہ ہیں۔

    سنیتا چوہدری کہتی ہیں کہ انسانوں کا غیر قانونی شکار اور جانوروں کی تجارت کا جنون انہیں سخت نقصان پہنچا رہا ہے، اس تجارت کے لیے وہ جنگلات میں جانوروں کے مساکن (Habitat) میں مداخلت کرتے ہیں اور یہیں سے وہ متعدد وائرسز اور جراثیموں کا شکار بن سکتے ہیں۔

    سنیتا چوہدری کے مطابق اس وقت دنیا بھر میں بطور غذا یا ادویات کی تیاری میں مختلف جانوروں کا استعمال کیا جارہا ہے، ایک اور وجہ گھروں میں جنگلی جانور پالنے کا انسان کا غیر معمولی شوق ہے جس کے دوران تمام خطرات اور احتیاطی تدابیر کو نظر انداز کردیا جاتا ہے۔

    ایک تحقیق کے مطابق جنگلات کی کٹائی بھی انسانوں میں مختلف بیماریوں کے پھیلاؤ کا سبب بن سکتی ہے، کیونکہ جنگلات میں رہنے والے جانور جنگل کٹنے کے بعد انسانی آبادیوں کے ارد گرد رہنے لگتے ہیں۔ بعض اوقات ہم خود ہی جنگلات یا پہاڑوں کو کاٹ کر وہاں رہائشی آبادیاں بنا کر انسانوں کو بسا دیتے ہیں۔

    ان تمام عوامل کے نتیجے میں ہم جانوروں کے جسم میں پلنے والے ان وائرسز، جرثوموں اور بیماریوں کے حصے دار بن جاتے ہیں جو جانوروں میں تو اتنے فعال نہیں ہوتے، لیکن انسانوں پر کاری وار کرسکتے ہیں۔

    کیا کلائمٹ چینج بھی وباؤں کو جنم دے سکتا ہے؟

    سنہ 2011 میں رشین اکیڈمی آف سائنس سے منسلک ماہرین نے اپنی ایک تحقیقاتی رپورٹ میں بتایا کہ موسمیاتی تغیرات یعنی کلائمٹ چینج کے باعث درجہ حرارت بڑھنے کا عمل (جسے گلوبل وارمنگ کہا جاتا ہے) جہاں ایک طرف تو زمینی حیات کے لیے کئی خطرات کو جنم دے رہا ہے، وہاں وہ ان جراثیم اور وائرسز کو پھر سے زندہ کرنے کا سبب بن سکتا ہے جنہوں نے کئی صدیوں قبل لاکھوں کروڑوں انسانوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا تھا۔

    یہ تحقیق برفانی خطے آرکٹک میں کی گئی تھی جہاں گلوبل وارمنگ کی وجہ سے ٹنوں برف پگھل رہی تھی، ایسے میں برف کے نیچے دبے صدیوں پرانے وائرس اور جراثیم جلد یا بدیر ظاہر ہونے کے قریب تھے۔

    اس کی ایک مثال اگست 2016 میں دیکھنے میں آئی جب سائبریا کے ایک دور دراز علاقے میں ایک 12 سالہ لڑکا جانوروں کو ہونے والی ایک بیماری انتھراکس کا شکار ہو کر ہلاک ہوگیا جبکہ 20 کے قریب افراد اس مرض کا شکار ہو کر اسپتال پہنچ گئے۔

    ماہرین نے جب اس وبا کے اچانک پھیلاؤ کے عوامل پر تحقیق کی تو انہیں علم ہوا کہ تقریباً 75 سال قبل اس مرض سے متاثر ایک بارہ سنگھا اسی مقام پر ہلاک ہوگیا تھا۔

    سال گزرتے گئے اور بارہ سنگھے کے مردہ جسم پر منوں برف کی تہہ جمتی گئی، لیکن سنہ 2016 میں جب گرمی کی شدید لہر یعنی ہیٹ ویو نے سائبیریا کے برفانی خطے کو متاثر کیا اور برف پگھلنا شروع ہوئی تو برف میں دبے ہوئے اس بارہ سنگھے کی باقیات ظاہر ہوگئیں اور اس میں تاحال موجود بیماری کا وائرس پھر سے فعال ہوگیا۔

    اس وائرس نے قریب موجود فراہمی آب کے ذرائع اور گھاس پر اپنا ڈیرا جمایا جس سے وہاں چرنے کے لیے آنے والے 2 ہزار کے قریب بارہ سنگھے بھی اس بیماری کا شکار ہوگئے۔

    بعد ازاں اس وائرس نے محدود طور پر انسانوں کو بھی متاثر کیا جن میں سے ایک 12 سالہ لڑکا اس کا شکار ہو کر ہلاک ہوگیا۔

    یہ صرف ایک مثال تھی، ماہرین کا کہنا ہے کہ عالمی درجہ حرارت بڑھنے کے باعث جیسے جیسے زمین کے مختلف مقامات کی برف پگھلتی جائے گی، ویسے ویسے مزید مہلک اور خطرناک بیماریاں پیدا کرنے والے وائرسز پھر سے نمودار ہو جائیں گے۔

    یہاں یہ یاد رہے کہ برف میں جم جانے سے کوئی جسم بغیر کسی نقصان کے صدیوں تک اسی حالت میں موجود رہ سکتا ہے، جبکہ اس طرح جم جانا کسی وائرس یا بیکٹیریا کے لیے بہترین صورتحال ہے کیونکہ وہاں آکسیجن نہیں ہوتی اور ماحول سرد اور اندھیرا ہوتا ہے چنانچہ اس طرح وہ لاکھوں سال تک زندہ رہ سکتے ہیں۔ لہٰذا یہ کہنا بعید از قیاس نہیں کہ لاکھوں سال پرانے وائرس اور جراثیم، جن کے نام بھی ہم نہ جانتے ہوں گے، ہم پر پھر سے حملہ آور ہوسکتے ہیں۔

    گزشتہ برس یورپی یونین کی جانب سے کی گئی ایک تحقیق بھی یہ بتاتی ہے کہ کلائمٹ چینج کی وجہ سے بڑھتا ہوا درجہ حرارت یعنی گلوبل وارمنگ اکثر متعدی امراض میں اضافے کا سبب ہے جیسے ملیریا اور زیکا وغیرہ، اور یہ بات اب طے ہوچکی ہے کہ زمین پر کلائمٹ چینج کی وجہ انسان کی بے پناہ صنعتی ترقی اور اس سے خارج ہونے والی مضر گیسز ہیں۔

    سنیتا چوہدری کہتی ہیں کہ برف پگھلنے کی صورت میں سامنے آنے والے وائرسز کی تعداد اور خطرناکی لامحدود ہوگی، گلوبل وارمنگ ان وائرسز کو مزید فعال اور طاقتور کردے گی، یوں ہمارے سامنے ان گنت خطرات موجود ہیں۔

    کیا ہم بچاؤ کے اقدامات کرسکتے ہیں؟

    یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کیا ہم ان عوامل کو روکنے یا ان کی رفتار دھیمی کرنے کے قابل ہیں؟ اور ایسا کر کے کیا ہم اپنا بچاؤ کر سکتے ہیں؟

    اس حوالے سے سنیتا چوہدری کہتی ہیں کہ کووڈ 19 ہمارے لیے ایک وارننگ ہے کہ انسانوں کا فطرت سے تعلق نہایت ہی غیر صحت مندانہ ہے، ہم فطرت کو ایک پروڈکٹ کی طرح استعمال کر رہے ہیں، جبکہ حقیقت میں ہمیں اس سے بہتر تعلق قائم کر کے فطرت کو اپنے لیے، اور خود کو فطرت کے لیے فائدہ مند بنانا چاہیئے۔

    سنیتا کے مطابق اگر ہم قدرتی ماحول اور فطرت کو احسن اور پائیدار طریقے سے استعمال کریں تو یہ انسانوں اور مختلف وبائی امراض کے درمیان ایک ڈھال کا کردار ادا کر سکتی ہے، ہمیں فطرت کا تحفظ کرنے کی ضرورت ہے اور ضروری ہے کہ انسانوں اور فطرت کے درمیان ہم آہنگی کا رشتہ ہو۔

    سنیتا کے مطابق مندرجہ ذیل اقدامات کی صورت میں ہم نہ صرف ماحول کا بلکہ مختلف خطرات سے اپنا بھی بچاؤ کر سکتے ہیں۔

    دنیا بھر میں ایکو سسٹم کی بحالی، فطری حسن اور وہاں کی مقامی جنگلی حیات کا تحفظ

    زراعت میں رائج پرانے طریقوں کو چھوڑ کر جدید طریقے اپنانا جو بدلتے موسموں سے مطابقت رکھتے ہوں

    جانوروں کے لیے محفوظ علاقوں کا قیام

    آبی ذخائر کی بحالی اور ان کا تحفظ

    ماہرین کا کہنا ہے کہ فطرت کا تحفظ اب ہمارے لیے ایسی ضرورت بن گئی ہے جو ہماری اپنی بقا کے لیے ضروری ہے، ورنہ ہماری اپنی ترقی ہی ہمارے لیے ناقابل تلافی نقصان کا سبب بن سکتی ہے۔

  • موسمیاتی تبدیلی : آنے والی گرمی کتنی خوفناک ہوگی؟ خطرے کی گھنٹی بج گئی

    موسمیاتی تبدیلی : آنے والی گرمی کتنی خوفناک ہوگی؟ خطرے کی گھنٹی بج گئی

    دنیا بھر میں ہونے والے کلائمٹ چینج (موسمیاتی تبدیلی) کی وجہ سے طوفانی بارشوں اور سیلاب نے تباہیاں مچائی ہوئی ہیں تو دوسری جانب مستقبل قریب میں گرمی کی شدت میں بے تحاشا اضافہ ہونے کا بھی قوی امکان ہے جو عوام کیلئے جان لیوا ثابت ہوسکتا ہے۔

    یہ موسمیاتی تبدیلی کا ہی نتیجہ ہے کہ طاقتور اور بہت بڑے طوفان ہمارے ساحلی علاقوں کو برباد کر رہے ہیں، جنگل کی آگ آبادیوں کو راکھ کا ڈھیر بنارہی ہے اور سیلاب اپنی راہ میں آنے والی ہر چیز کو غارت کر رہے ہیں لیکن ان میں ایک نسبتاً نیا اضافہ شدید ترین گرمی کا ہے۔

    جون کے مہینے میں جہاں پاکستان اور بھارت میں ریکارڈ توڑ گرمی پڑ رہی تھی، وہیں دنیا کے ایسے ممالک بھی شدید گرمی کی لپیٹ میں آگئے جہاں عموماً درجہ حرارت بہت زیادہ نہیں ہوتا، مثلاً کینیڈا کہ جہاں حرارت پیما آلات تاریخ کی بلند ترین سطح پر گئے اور سینکڑوں لوگ اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔

    گرمی تو ہر سال پڑتی ہے لیکن گرمی کی یہ نئی لہریں کس طرح ماضی سے مختلف ہیں اور اتنی زیادہ ہلاکت خیز کیوں ہیں؟ اس کی وجہ سے موسمیاتی تبدیلی ہے۔

    اگر ہم اپنی گاڑیوں میں ایسے ہی ایندھن پھونکتے رہے، اپنے بجلی گھروں کو چلانے کے لیے کوئلے اور گیس کا استعمال ایسے ہی کرتے رہے، اپنے سیمنٹ کے کارخانوں میں چونے کے پتھر کا بے دریغ استعمال کرتے رہے اور مختلف مقاصد کے لیے دنیا کے اہم ترین جنگلات کو کاٹتے رہے تو درجہ حرارت ہر آنے والے سال میں بڑھتا ہی رہے گا اور بالآخر یہ انسان کی برداشت سے باہر ہو جائے گا۔

    بلاشبہ خشک گرمی اور مرطوب گرمی میں فرق ہوتا ہے، مثلاً اگر کوئٹہ میں آپ کو پانی میسر ہے اور دھوپ سے بچنے کے لیے سائے میں بیٹھے ہیں تو درجہ حرارت 45 درجہ سینٹی گریڈ سے بھی تجاوز کر جائے، تب بھی ایک عام انسان گھنٹوں تک گرمی برداشت کر سکتا ہے۔ لیکن کراچی میں داستان کافی مختلف ہوگی۔

    یہ ساحل کے قریب موجودگی کی وجہ سے بہت مرطوب علاقہ ہے یعنی یہاں ہوا میں نمی کا تناسب بہت زیادہ ہے اور اگر درجہ حرارت 45 درجہ سینٹی گریڈ سے تجاوز کر گیا تو یہاں بڑے پیمانے پر ہلاکتیں ہو سکتی ہیں۔ جیسا کہ ہم نے چند سال پہلے دیکھا تھا، جب 20 جون 2015کو شہر کا درجہ حرارت 45 ڈگری سینٹی گریڈ ہو گیا تھا اور تقریباً 1500 افراد جان سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے۔

    سوچنے کی بات یہ ہے کہ ایک ہی درجہ حرارت دو مختلف علاقوں میں کس طرح مختلف نتائج برآمد کر سکتا ہے؟ دراصل مسئلہ درجہ حرارت کا ہے ہی نہیں، بلکہ ہوا میں نمی کا تناسب بھی اس میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔

    یہی وجہ ہے کہ آج کل "ویٹ بلب ٹمپریچر” پر زور دیا جا رہا ہے جس میں نہ صرف درجہ حرارت ہوا میں نمی کے تناسب، ہوا کی رفتار، سورج کے زاویے اور شمسی تابکاری کی شدت کو بھی مد نظر رکھا جاتا ہے۔

    ویٹ بلب ٹمپریچر کیا ہے؟

    انسانی جسم کا عام درجہ حرارت 97 سے 99 ڈگری فارن ہائٹ ہوتا ہے یعنی 36 سے 37 ڈگری تک۔ جب باہر کا درجہ حرارت اس سے زیادہ ہو جاتا تو ہمارا جسم پسینہ پیدا کرتا ہے جو آبی بخارات میں تبدیل ہو جاتا ہے۔

    یہ عمل توانائی طلب کرتا ہے جو ہمارے جسم کی گرمی سے ہی آتی ہے۔ بہرحال، پسینہ آبی بخارات میں تبدیل ہو جائے تو اس سے ہمارا جسم ٹھنڈا ہو جاتا ہے۔

    خشک گرمی اس لیے نسبتاً بہتر ہوتی ہے کیونکہ اس میں آبی بخارات بننے کا عمل اتنی تیزی سے ہوتا ہے کہ بسا اوقات ہمیں پتہ بھی نہیں چلتا کہ ہماری جلد پر پسینہ موجود بھی ہے یا نہیں۔

    اس کے مقابلے میں مرطوب موسم میں فضا میں پہلے ہی آبی بخارات بہت زیادہ ہوتے ہیں اور اگر اس صورت حال میں درجہ حرارت بہت بڑھ جائے تو پسینہ بخارات میں تبدیل ہونے کے بجائے جسم ہی پر جمع ہوتا رہتا ہے۔

    اس صورت حال میں بالآخر جسم گرمی کو خارج کرنے کی صلاحیت کھو بیٹھتا ہے اور جسمانی درجہ حرارت بڑھنے لگتا ہے اور ارد گرد کے درجہ حرارت تک پہنچ جاتا ہے۔ ہمارا جسم کا معمول کا درجہ حرارت 98 درجہ فارن ہائٹ ہوتا ہے اور اگر یہ 108 درجے تک پہنچ جائے تو موت واقع ہو جاتی ہے۔

    اس لیے محض درجہ حرارت ہی جان لینا کافی نہیں کہ موسم انسانی جسم کے لیے قابلِ برداشت ہے یا نہیں۔ اس کے لیے آپ کو "ویٹ بلب ٹمپریچر” جاننا ہوگا۔

    تحقیق کے مطابق اِس صدی کے وسط تک دنیا کے کئی علاقوں میں درجہ حرارت انسانی برداشت سے بڑھ جائے گا۔ 2050ء تک یعنی صرف 30سال میں کئی علاقوں میں گرمی میں درجہ حرارت اس سطح پر پہنچ جائے گا کہ جس میں انسانی جسم کے لیے خود کو قدرتی طور پر ٹھنڈا رکھنا ناممکن ہوگا۔

  • پاکستان موسمیاتی تبدیلی پر امریکا کیساتھ ملکر کام کرنے کو تیار

    پاکستان موسمیاتی تبدیلی پر امریکا کیساتھ ملکر کام کرنے کو تیار

    اسلام آباد :گرین ویژن میں ہم آہنگی سے پاکستانی حکام کا امریکی حکام سے رابطہ بحال ہونا شروع ہوگیا، پاکستانی حکام کا کہنا ہے کہ پاکستان موسمیاتی تبدیلی پر امریکا کیساتھ ملکر کام کرنے کو تیار ہے۔

    تفصیلات کے مطابق موسمیاتی تبدیلی کے خطرات سے نمٹنے کے لئے پاک امریکا رابطوں میں تیزی آگئی اور بلین ٹری سونامی منصوبہ امریکاکو بھی پاکستان کے قریب لے آیا۔

    گرین ویژن میں ہم آہنگی سے پاکستانی حکام کا امریکی حکام سے رابطہ بحال ہونا شروع ہوگیا ، سینیٹرجان کیری نے لندن سے امریکا واپس پہنچتے ہی پاکستانی حکام سے ٹوئٹر پر رابطہ کیا۔

    سینیٹرجان کیری نے اپنے ٹوئٹ میں معاون خصوصی ملک امین اسلم سےبات چیت کواہم قرار دے دیا ، ملک امین اسلم نے جواب میں کہا کہ گرین لیڈرشپ کے تحت تعلقات آگے بڑھنے چاہئیں، پاکستان موسمیاتی تبدیلی پر امریکا کیساتھ ملکر کام کرنے کو تیار ہے۔

    معاون خصوصی کا کہنا تھا کہ وزیراعظم ،امریکی صدر کی گرین سوچ کےتحت ملکر کام ہوگا۔

    یاد رہے پاکستان اور امریکا کے درمیان موسمیاتی تبدیلی پر جوائنٹ ورکنگ بنانے پر اتفاق ہوچکا ہے، امریکی صدرکےخصوصی ایلچی نے لندن میں ملک امین سےملاقات کی تھی۔

    ملاقات میں امریکی صدر کے ایلچی جان کیری نے 10 بلین ٹری منصوبے کی تعریف کرتے ہوئے منصوبے کو دنیا بھر کے لیے بہترین قرار دیا، انہوں نے عمران خان کے کوئلہ پاو پلانٹ قائم نہ کرنے کے اعلان کا بھی خیرمقدم کیا۔

    جان کیری نے کہا تھا کہ پاکستان کے ساتھ ماحولیاتی تبدیلی کے حوالے سے مل کر کام کرنے کو تیار ہیں، عالمی ماحولیاتی خطرات سے نمٹنے میں وزیراعظم کی گرین سوچ قابل ستائش ہے۔

  • شمسی توانائی کا مستقبل کیا ہے ؟؟ تیل کے ذخائر کو خطرہ مگر کیسے

    شمسی توانائی کا مستقبل کیا ہے ؟؟ تیل کے ذخائر کو خطرہ مگر کیسے

    سالہا سال کی تحریک کے بعد بالآخر اب لگتا ہے کہ شمسی انقلاب روکنا ناممکن ہے۔ امریکی محکمہ توانائی کے مطابق صرف امریکا میں ہی 2008ء سے اب تک شمسی توانائی کی تنصیبات میں 35 گُنا اضافہ ہو چکا ہے۔ پاکستان 2030ء تک تقریباً 10 گیگاواٹ بجلی شمسی توانائی سے حاصل کرنا چاہتا ہے۔

    ہو سکتا ہے کہ ابھی بھی کچھ لوگوں کو شک و شبہ ہو، لیکن توانائی کی پیداوار کا مستقبل سورج سے فائدہ اٹھانے میں ہی ہے۔ اس مقام تک پہنچنے میں دنیا کو نصف صدی سے زیادہ کا عرصہ لگا ہے۔ ابتدا میں سست روی سے آغاز کے باوجود اب قابل تجدید توانائی کی جانب منتقلی تیزی سے ہو رہی ہے اور شمسی توانائی تو اپنے زوروں پر ہے۔

    اس وقت دنیا کو جن بڑے چیلنجز کا سامنا ہے ان میں سے کئی موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے ہیں۔ خوش قسمتی سے شمسی توانائی ان مسائل کا بہترین حل پیش کرتی ہے۔ جیسا کہ تیل اور گیس کے بجائے شمسی توانائی پر منتقل ہونے سے کاربن خارج ہونے میں کمی آئے گی اور یوں موسمیاتی تبدیلی کی رفتار بھی گھٹے گی۔ تیل و گیس پر انحصار کم ہونے سے عالمی تنازعات میں بھی کمی آئے گی جو توانائی وسائل حاصل کرنے کے لیے مسابقت کی وجہ سے ہو رہے ہیں۔

    اس کے علاوہ شمسی توانائی غذائی تحفظ کے مسائل کا بھی خاتمہ کر سکتی ہے۔ خشک سالی، سیلاب اور سخت درجہ حرارت، جو موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے ہو رہے ہیں، کاشت کاروں کے ذریعہ معاش کو متاثر کرتے ہیں اور ساتھ ہی ہماری فوڈ سپلائی کو بھی۔ اگر کاشت کار شمسی توانائی کی جانب منتقل ہو جائیں تو وہ اپنے کھیت کھلیانوں میں خود بجلی پیدا کر سکتے ہیں اور یوں پانی کی ہمہ وقت دستیابی کے علاوہ کاربن اخراج کو کم کر کے موسمیاتی تبدیلی کی شدت کم کرنے میں مدد دے سکتے ہیں۔

    پینے کے صاف اور محفوظ پانی تک رسائی بھی شمسی توانائی سے بہتر بنائی جا سکتی ہے۔ سائنس دانوں کی ٹیمیں اس وقت ایسی ٹیکنالوجی پر کام کر رہی ہیں جس سے نمکین پانی کو پینے کے قابل بنایا جا سکے، وہ بھی شمسی توانائی کا استعمال کر کے۔

    شمسی توانائی کی زبردست پیشقدمی نے کمرشل صارفین کو بھی متحرک کیا ہے۔ بلکہ حقیقت یہ ہے کہ 2015ء تک اب شمسی توانائی میں دو تہائی اضافہ کمرشل کارپوریشنز نے ہی کیا ہے۔ گوگل، ٹارگیٹ، ایپل، فیس بک، ایمیزن اور آئیکیا صرف چند مثالیں ہیں، جنہوں نے شمسی توانائی کو قبول کیا اور اسے آگے بڑھانے میں اپنا حصہ ڈالا ہے۔

    کاروباری اداروں کو بخوبی معلوم ہے کہ شمسی توانائی کا انتخاب ایک دانشمندانہ فیصلہ ہے کیونکہ یہ ان کے کام کو تقویت دیتی ہے اور ماحولیاتی اہداف بھی حاصل کرتی ہے۔ اس طرح وہ بجلی کی کھپت پر آنے والی لاگت کو بھی کم کر سکتے ہیں۔

    شمسی توانائی نے ایک طویل سفر کیا ہے، لیکن یہ سفر ابھی تھما نہیں ہے۔ سائنس دان نت نئی جدت کے ذریعے اس صنعت کو مزید آگے بڑھا رہے ہیں۔

    حالیہ کچھ عرصے میں شمسی صنعت نے ٹرانسپورٹیشن کے شعبے پر بہت توجہ دی ہے۔ گاڑیوں اور ہوائی جہازوں میں شمسی توانائی کے استعمال کے تجربات کیے گئے ہیں۔ اس کے علاوہ سڑکوں اور راستوں سے بھی شمسی توانائی حاصل کرنے کے اہداف بنائے گئے ہیں، جن پر سائنس دان کام کر رہے ہیں۔

    مسلسل تحقیق کا نتیجہ شمسی توانائی کی لاگت میں کمی کی صورت میں نکلا ہے۔ صرف ایک دہائی میں ہی لاگت میں 70 فیصد سے زیادہ کمی آئی ہے اور اس وقت شمسی توانائی کا حصول تاریخ کی کم ترین قیمت پر پہنچ چکا ہے۔ ایک طرف کم قیمتیں اور دوسری جانب حکومتوں کی جانب سے رعایتیں بھی شمسی توانائی کو قابلِ رسائی بنا رہی ہیں۔ 2010ء کے بعد قیمتوں میں کمی کا جو رحجان نظر آیا ہے اس کی وجہ سے درمیانی آمدنی والے خاندان بھی اب شمسی توانائی میں اپنا سرمایہ لگا سکتے ہیں۔

    یاد رکھیں کہ تیل، گیس اور کوئلہ محدود وسائل ہیں، بالآخر انہیں ختم ہو جانا ہے۔ سائنس دانوں کا اندازہ ہے کہ اگر ہم ان وسائل کی اسی شرح سے استعمال کرتے رہے تو 2050ء تک تیل کی باقی ماندہ سپلائی ختم ہو جائے گی۔ اندازوں کے مطابق تیل اگلے 50 سے 100 سالوں میں ختم ہو جائے گا، یعنی صرف ایک نسل بعد۔ ان ذرائع کے ممکنہ خاتمے کے بعد کی صورت حال سے نمٹنے کے لیے دنیا کو تیل، گیس اور کوئلے سے شمسی توانائی کی جانب منتقل ہونا ہوگا۔

    غیر معمولی کامیابی کے باوجود شمسی توانائی کے شعبے میں بہتری کی اب بھی گنجائش ہے۔ گو کہ عوام بھی سمجھتے ہیں کہ تیل، کوئلہ اور گیس کے مقابلے میں شمسی توانائی کو ہی ترجیح دینی چاہیے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ اب بھی ان کا زیادہ تر انحصار دیگر ذرائع پر ہی ہے۔ اس کی بڑی وجہ ہے شمسی توانائی کے لیے انفرا اسٹرکچر موجود نہیں اور سارا بنیادی ڈھانچہ دراصل دیگر ذرائع کے لیے ڈیزائن کیا گیا ہے۔

    سماجی، سیاسی و معاشی رکاوٹیں بھی شمسی صنعت کی نمو میں رکاوٹ بن رہی ہیں۔ ان رکاوٹوں کے باوجود شمسی انقلاب حقیقت ہے اور وہ دن دور نہیں جب یہ ہمارا سب سے بڑا توانائی ذریعہ بن جائے گی۔

  • کیا 2030میں دنیا ختم ہوجائے گی؟ ناسا نے بڑی آفت کی پیش گوئی کردی

    کیا 2030میں دنیا ختم ہوجائے گی؟ ناسا نے بڑی آفت کی پیش گوئی کردی

    جیسا کہ ہم سب کے علم میں ہے کہ ماحولیاتی تبدیلی کی وجہ سے گلیشیر تیزی سے پگھل رہے ہیں اور سمندروں کی آبی سطح میں بھی لگاتار اضافہ ہو رہا ہے لیکن اب ناسا نے موسمیاتی تبدیلی سے متعلق ایک نیا اور خطرناک اندیشہ ظاہر کیا ہے۔

    امریکی خلائی ایجنسی ناسا نے اپنی تحقیقی رپورٹ میں ایک خوفناک انکشاف کیا ہے، جس میں بتایا گیا ہے کہ چاند پر ہونے والی ہلچل کے باعث زمین پر بہت ہی خطرناک طوفانی سیلاب کا خطرہ ہے۔

    ناسا کے ذریعہ کی گئی تحقیق پر مبنی رپورٹ "نیچر” رسالہ میں گزشتہ ماہ شائع ہوئی تھی۔ اس رپورٹ میں چاند پر ہونے والی ہلچل کی وجہ سے زمین پر آنے والے خطرناک سیلاب کو "نیوسنس فلڈ” کہا گیا ہے۔

    ناسا کا کہنا ہے کہ موسمی تبدیلی کے پیچھے ایک بڑی وجہ چاند بھی ہو سکتا ہے۔ ناسا نے مستقبل قریب میں چاند کے اپنے ہی محور پر ڈگمگانے کا امکان ظاہر کیا ہے۔

    مذکورہ رپورٹ میں امریکہ کی اسپیس ایجنسی ناسا نے کہا ہے کہ جس طرح سے ماحولیاتی تبدیلی میں تیزی آرہی ہے اور سمندر کی آبی سطح بڑھ رہی ہے، ایسے میں 2030 میں چاند اپنے محور پر ڈگمگا سکتا ہے۔ چاند کے اس طرح سے ڈگمگانے سے زمین پر تباہ کن سیلاب آسکتا ہے۔

    حالانکہ جب کبھی بھی زمین پر ہائی ٹائیڈ آتا ہے اس میں آنے والے سیلاب کو اسی نام سے جانا جاتا ہے لیکن ناسا کی تحقیق میں کہا گیا ہے کہ 2030تک زمین پر آنے والے نیوسنس فلڈ کی تعداد کافی بڑھ جائے گی۔

    اس رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ پہلے ان کی تعداد بھلے ہی کم ہوگی، لیکن بعد میں اس میں تیزی آ جائے گی۔ ناسا کی تحقیق کے مطابق چاند کی حالت میں آنے والی تھوڑی سی بھی تبدیلی زمین پر زبردست سیلاب کی وجہ بن سکتی ہے۔

    یونیورسٹی آف ہوائی کے اسسٹنٹ پروفیسر فل تھامپسن کا کہنا ہے کہ جیسے جیسے ماحولیاتی تبدیلی بڑھے گی، ویسے ویسے ہی زمین پر قدرتی آفات میں بھی اضافہ ہوگا۔

    یہاں قابل ذکر ہے کہ چاند اپنے "لونار سائیکل” میں، جو 18.6 سال کا وقت لیتا ہے، اس کے نصف وقت میں زمین پر بڑھتے سمندر کے آبی سطح کے سبب ہائی ٹائیڈ کی تعداد زیادہ ہو جائے گی۔ اس دوران زمین کی سمندری آبی سطح ایک سمت کی طرف زیادہ ہوگی۔

    ناسا کے ایڈمنسٹریٹر بل نیلسن کے مطابق چاند کی کشش ثقل جو طوفان کی وجہ بنتی ہے، ایسی ماحولیاتی تبدیلی زمین پر آنے والے سیلاب کی بڑی وجہ ہوگی۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ زمین پر آنے والا سیلاب چاند، زمین اور سورج کی حالت پر منحصر کرے گا کہ اس میں کتنی تبدیلی ہوتی ہے۔

  • بجٹ 22-2021: تیزی سے بڑھتے ماحولیاتی خطرات اور پاکستان کی دھیمی مگر ہوشیار چال

    بجٹ 22-2021: تیزی سے بڑھتے ماحولیاتی خطرات اور پاکستان کی دھیمی مگر ہوشیار چال

    اسلام آباد: پاکستان دنیا کے ان 10 سرفہرست ممالک کی صف میں شامل ہے جو کلائمٹ چینج سے ہونے والے نقصانات کی زد میں سب سے زیادہ ہیں، تاہم حکومت پاکستان اس حوالے سے کس طرح کام کر رہی ہے، یہ گزشتہ روز پیش کیے جانے والے بجٹ سے ظاہر ہے جسے خاصی حد تک خوش آئند قرار دیا سکتا ہے۔

    وزیر اعظم عمران خان نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹویٹر پر اپنے ٹویٹ میں کہا ہے کہ ماحولیاتی تغیرات (کلائمٹ چینج) کے خلاف پاکستان اپنے حصے سے کہیں زیادہ کام کر رہا ہے۔

    وزارت ماحولیاتی تبدیلی کے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق اس ضمن میں ساڑھے 14 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں جو پچھلی حکومتوں کے مقابلے میں کئی گنا زیادہ ہیں۔

    اس حوالے سے منسٹری آف کلائمٹ چینج کے فوکل پرسن محمد سلیم شیخ نے اے آر وائی نیوز کو بتایا کہ یہ رقم صرف 10 بلین ٹری پروجیکٹ کے لیے مختص ہے۔ ان کے مطابق یہ منصوبہ 10 سال پر محیط ہے اور اس کا کل بجٹ 125 ارب روپے ہے جس میں سے 50 فیصد صوبوں کو دینا ہوگا۔

    سلیم شیخ کے مطابق رواں برس ساڑھے 14 ارب روپے خرچ کرنے کا منصوبہ بنایا گیا ہے، منصوبے کا کل بجٹ پاکستانی تاریخ میں کسی بھی ماحولیاتی منصوبے کے لیے مختص کیا جانے والا سب سے بڑا بجٹ ہے۔

    انہوں نے بتایا کہ 10 بلین ٹری سونامی سمیت حکومت پاکستان اس وقت ماحولیات کے حوالے سے 4 بڑے منصوبوں پر کام کر رہی ہے جو کہ یہ ہیں۔

    ماحول سے مطابقت رکھنے والی انسانی آباد کاری کا منصوبہ
    Climate Resilient Urban Human Settlement Unit
    بجٹ 22-2021 میں مختص کردہ رقم: 15 ملین

    واٹر اینڈ سینی ٹیشن کی بہتری کا منصوبہ
    Establishment of Water Sanitation & Hygiene Strategic Planning and Coordination Cell
    بجٹ 22-2021 میں مختص کردہ رقم: 12 ملین

    پینے کے پانی کے معیار کو بہتر بنانے کا منصوبہ
    Water Quality Monitoring Capacity Building Project
    بجٹ 22-2021 میں مختص کردہ رقم: 30 ملین

    سلیم شیخ کا کہنا ہے کہ پاکستان اس وقت اپنی جی ڈی پی کا 1 فیصد ماحولیات کی بہتری کے لیے مختلف اقدامات اور منصوبوں پر خرچ کر رہا ہے۔

    انہوں نے بتایا کہ ایک محتاط اندازے کے مطابق پاکستان اس وقت ماحولیاتی نقصانات کے باعث سالانہ 11 سو سے 12 سو ارب روپے کا نقصان اٹھا رہا ہے۔

    ان میں سے 400 ارب روپے کا سالانہ نقصان وہ ہے جو قدرتی آفات کی وجہ سے ہوتا ہے جن میں انفرا اسٹرکچر کا تباہ ہونا، صحت اور تعلیم کی سہولیات کا نقصان اور زراعت کو پہنچنے والا نقصان شامل ہے۔

    علاوہ ازیں ماحولیاتی بگاڑ جسے انوائرمنٹ ڈی گریڈیشن کہا جاتا ہے، پاکستانی معیشت کو ہر سال 700 ارب روپے کا جھٹکا دیتا ہے۔ اس بگاڑ میں فضائی و آبی آلودگی میں اضافہ، جنگلات کی کٹائی، موسم کے باعث زراعتی زمین کو پہنچنے والا نقصان، جنگلی حیات کو لاحق خطرات اور ان کے مساکن (رہنے کی جگہوں) کو پہنچنے والے نقصانات شامل ہیں۔

    دوسری جانب گلوبل کلائمٹ رسک انڈیکس رپورٹ کے مطابق سنہ 2000 سے 2019 کے درمیان پاکستان کو مختلف قدرتی آفات اور ماحولیاتی تباہی کی وجہ سے 3 ہزار 771 ملین ڈالرز کا نقصان اٹھانا پڑا ہے۔

    کلائمٹ رسک انڈیکس کے مطابق اس عرصے میں پاکستان کو 173 قدرتی آفات نے متاثر کیا ہے اور اس کی وجہ سے پاکستان مختلف ویدر ایونٹس سے سب سے زیادہ متاثرہ ممالک میں آٹھویں نمبر پر ہے۔