Tag: Edhi

  • اپنے خاندان سے بچھڑنے والی 2 افغان خواتین کو برسوں بعد وطن روانہ کر دیا گیا

    اپنے خاندان سے بچھڑنے والی 2 افغان خواتین کو برسوں بعد وطن روانہ کر دیا گیا

    کراچی: اپنے خاندان سے بچھڑنے والی 2 افغان خواتین کو ایدھی کی کوششوں سے برسوں بعد وطن روانہ کر دیا گیا۔

    تفصیلات کے مطابق چند برس قبل گھر والوں سے بچھڑ کر دربدر ہوتے ہوئے پاکستان پہنچنے والی دو افغان خواتین ایدھی فاؤنڈیشن کی کوششوں سے اپنے وطن روانہ ہو گئیں، ضابطے کی کارروائی کے بعد انھیں افغان حکام کے حوالے کر دیا گیا۔

    نرگس اور راحیلہ کو ایدھی شیلٹر ہوم میں افغان حکام کے حوالے کیا گیا، مشکل حالات میں پناہ دینے اور گھر والوں کو تلاش کرنے پر دونوں افغان خواتین نے ایدھی فاؤنڈیشن کی کاوشوں کو سراہا۔ خواتین نے بتایا کہ انھوں نے مختلف وجوہ کے سبب اپنے گھروں کو چھوڑا تھا، تاہم اب گھر واپس جانے پر انھیں خوشی ہے۔

    افغان حکام دونوں خواتین کو افغانستان میں ان کے اہل خانہ کے حوالے کریں گے۔

    صبا فیصل ایدھی نے اس حوالے سے بتایا کہ دونوں خواتین کچھ سال قبل افغانستان سے براستہ کوئٹہ پاکستان اور پھر کراچی پہنچی تھیں، ایک خاتون اپنے گھر والوں سے لڑ کر کراچی آئی تھی اور دوسری علاج کے لیے آئی تھی، پولیس نے ان دونوں کو پکڑ کر ہمارے حوالے کر دیا تھا۔

    صبا فیصل ایدھی کے مطابق دونوں خواتین کو ایدھی شیلٹر ہوم میں رکھا گیا، فیصل ایدھی کی خصوصی ہدایت پر افغانستان کے جنرل قونصلر سے رابطہ کیا گیا، جس پر آج ان دونوں خواتین کو افغان حکام کے حوالے کر دیا گیا۔

  • ویڈیو: پاکستان میں ہر سال لاکھوں بچے اسقاط حمل کے ذریعے قتل کر دیے جاتے ہیں، دل دہلا دینے والی رپورٹ

    ویڈیو: پاکستان میں ہر سال لاکھوں بچے اسقاط حمل کے ذریعے قتل کر دیے جاتے ہیں، دل دہلا دینے والی رپورٹ

    دنیا میں پیدا ہونے والا ہر بچہ انسانیت کے لیے ایک نئی امید کے ساتھ جنم لیتا ہے، لیکن ایسے کروڑوں بچے بھی مردہ حالت میں دنیا میں آ جاتے ہیں جو ’ان چاہے‘ ہوتے ہیں، ان چاہے حمل کے نتیجے میں بننے والے ان بچوں کو پیدائش سے قبل ہی کوکھ کے اندر مار دیا جاتا ہے۔

    اسقاط حمل ماں کی کوکھ میں موجود جنین کو ہٹا کر حمل ختم کرنے کو کہا جاتا ہے، اگرچہ ایسا بغیر کسی مداخلت کے بھی ہو سکتا ہے جسے ’از خود اسقاط حمل‘ کہا جاتا ہے، اور یہ حمل کے تمام کیسز میں 30 تا 40 فی صد ہوتے ہیں۔ تاہم، دنیا بھر کی طرح پاکستان میں بھی مداخلت کے ذریعے بڑی تعداد میں اسقاط حمل کی غیر قانونی پریکٹس جاری ہے، امریکا میں تو ان دنوں سپریم کورٹ میں اسقاط حمل کی قانونی حیثیت پر ایک بار پھر کیس کھل گیا ہے۔

    پاکستان میں ہر سال لاکھوں بچوں کو ماں کی کوکھ ہی میں قتل کردیا جاتا ہے، وہ دنیا میں آنکھیں کھولنے سے قبل ہی اسقاط حمل کا شکار ہو جاتے ہیں، اور دکھ کی بات یہ ہے کہ ان میں ایسے سیکڑوں انسانی وجود وہ ہیں جنھیں کچرہ کنڈیوں میں پھینک دیا جاتا ہے، اور ریسکیو اداروں کے اہل کار انھیں وہاں سے اٹھاتے نظر آتے ہیں۔

    کچرہ کنڈیوں میں پھینکے ہوئے انسانی وجود

    ایدھی فاؤنڈیشن کے اپنے اعداد و شمار کے مطابق کراچی میں سالانہ 1500 سے زائد نومولود بچوں کو ویران جگہوں پر کوڑے کرکٹ کے ڈھیروں پر پھینک دیا جاتا ہے۔

    معروف تحقیقاتی ادارے پاپولیشن کونسل اور نیشنل لائبریری آف میڈیسن کے مطابق پاکستان میں سالانہ اسقاط حمل کی تعداد تقریباً 25 لاکھ سے زائد ہے، اور ان میں سے 99 فی صد مشکوک حالات میں کیے جاتے ہیں، یعنی لاکھوں معصوم جانیں دنیا میں پہلا سانس لینے سے قبل ہی ختم کر دی جاتی ہیں۔

    فیصل ایدھی نے بتایا کہ پاکستان میں اسقاط حمل غیر قانونی ہے، اس لیے انھیں پھینکنا پڑتا ہے، دفن نہیں کر سکتے۔ کیوں کہ جب انھیں دفن کرنے قبرستان جاتے ہیں تو آپ سے ڈیتھ سرٹیفکیٹ مانگی جاتی ہے۔ غیر قانونی اسقاط حمل میں بچہ تو مرتا ہی مرتا ہے لیکن ماں کی جان کو بھی خطرہ لاحق ہوتا ہے۔

    طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ زچگی کے عمل کے دوران بھی ہر سال 7 لاکھ زچہ و بچہ کی زندگیاں خطرے سے دوچار رہتی ہیں، اور 15 سال سے زیادہ عمر کی ہر ایک ہزار عورتوں یا لڑکیوں میں یہ شرح 50 فی صد تک ہے۔

    سینیئر گائناکالوجسٹ ڈاکٹر شاہین کہتی ہیں کہ اسقاط حمل ان کیسز میں ہوتا ہے جن میں حمل ’اَن چاہا‘ ہوتا ہے، یعنی نہ بچہ عورت کو چاہیے ہوتا ہے نہ مرد کو۔

    میٹرنٹی ہومز

    پاکستان میں اسقاط حمل قانونی اور شرعی طور پر جرم ہے مگر اس کے باوجود ملک بھر میں ہزاروں ایسے میٹرنٹی ہومز ہیں جو اسقاط حمل کے غیر قانونی دھندے میں ملوث ہیں۔

    ملک بھر میں ایسے ہزاروں جعلی میٹرنٹی ہومز کام کر رہے ہیں جہاں ان پڑھ اور ایل ایچ وی اسقاط حمل کرتے ہیں اور اس طرح خواتین کی زندگی داؤ پر لگا دی جاتی ہے، غیر سند یافتہ لیڈی ڈاکٹرز ان میٹرنٹی ہومز میں آپریشن بھی کرتی ہیں جس کی وجہ سے خواتین کے ہلاک ہونے کے کیسز بھی رونما ہوتے رہتے ہیں۔

    سندھ پولیس

    سندھ پولیس نے حال ہی میں نوزائیدہ بچوں کی لاشوں کو کچرا کنڈیوں میں پینھکنے کے واقعات کی روک تھام کے لیے سخت اقدامات کے احکامات جاری کیے ہیں۔

    غیر ارادی حمل

    امریکا اور ترقی پذیر ممالک میں جنسی صحت اور تولیدی حقوق کے سلسلے میں ریسرچ کرنے والے غیر منافع بخش ادارے ’’گٹ میچر‘‘ کے مطابق پاکستان میں پچھلے چند سالوں میں اسقاط حمل میں 64 فی صد اضافہ ہوا ہے۔ ادارے کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ’’پاکستان میں 1990-1994 اور 2015-2019 کے درمیان غیر ارادی حمل (unintended pregnancy) کی شرح میں 21 فی صد کمی واقع ہوئی ہے۔ تاہم اسی عرصے کے دوران اسقاط حمل کی شرح میں 64 فی صد اضافہ ہوا۔ اسقاط حمل پر ختم ہونے والے غیر ارادی حمل کا حصہ 30 فی صد سے بڑھ کر 61 فی صد ہو گیا۔‘‘

    ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان سمیت جنوبی ایشیائی ممالک میں حمل ضائع کرنے والے زیادہ تر خواتین شادی شدہ اور عمر کے متوسط مرحلے میں ہوتی ہیں، اور یہ عورتیں حمل ضائع کرنے کی عموماً دو وجوہ بتاتی ہیں: ایک یہ کہ وہ غریب ہیں، دوم یہ کہ انھیں مزید بچے نہیں چاہیئں۔

  • فیکٹری میں آگ، رضاکار میتیں لے جانے کے لیے لڑتے رہے

    فیکٹری میں آگ، رضاکار میتیں لے جانے کے لیے لڑتے رہے

    کراچی: کورنگی مہران ٹاؤن کی کیمیکل فیکٹری میں‌ آتش زدگی میں‌ سولہ انسانی جانوں‌ کے نقصان کے علاوہ ایک افسوس ناک واقعہ یہ بھی پیش آیا کہ ایدھی اور چھیپا کے رضاکار میتیں‌ لے جانے کے لیے آپس میں‌ لڑتے رہے۔

    اے آر وائی نیوز کے نمائندے افضل پرویز کے مطابق جب فیکٹری کے ہولناک واقعے کے بعد ریسکیو آپریشن جاری تھا تو اس دوران ایک افسوس ناک واقعہ پیش آیا، ریسکیو ٹیم نے فیکٹری سے ایک لاش نکال کر جیسے ہی نیچے اتاری، ایدھی اور چھیپا کے رضا کار اسے لے جانے کے لیے آپس میں بری طرح الجھ پڑے۔

    اس افسوس ناک واقعے کی ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ رضاکار کس طرح جھلس کر جاں بحق ہونے والے ایک مزدور کی میت کے لیے کھینچا تانی کر رہے ہیں، اس کھینچا تانی کی وجہ سے لاش بھی نیچے گر گئی، لیکن میتوں کی بے حرمتی کے باوجود ایدھی اور چھیپا کے رضاکار بے حسی کا مظاہرہ کرتے رہے۔

    خیال رہے کہ مہران ٹاؤن میں ریسکیو آپریشن کے دوران ایک ایدھی رضاکار بھی زخمی ہوا۔

    واضح رہے کہ آج کراچی کے علاقے کورنگی مہران ٹاؤن کی فیکٹری میں ہول ناک آگ سے 16 مزدور زندہ جل گئے، آگ صبح 10 بجے کے قریب لگی، جس نے دیکھتے ہی دیکھتے پوری عمارت کو اپنی لیپٹ میں لے لیا، علاقہ مکینوں کا کہنا ہے کہ فائر بریگیڈ کی گاڑیاں تاخیر سے پہنچیں، جس کے باعث آگ پوری عمارت میں پھیل گئی اور اندر کام کرنے والے مزدور پھنس گئے۔

    جلنے والی فیکٹری سے متعلق بڑا انکشاف، جاں بحق مزدوروں کے ناموں کی فہرست بھی جاری

    مزدوروں کے اہل خانہ کی بڑی تعداد فیکٹری کے باہر جمع ہوگئی تھی، لواحقین نے الزام لگایا کہ فیکٹری انتظامیہ نے پھنسے ہوئے مزدوروں کو نکالنے کی بجائے فیکٹری میں تالے ڈال دیے تھے، فیکٹری سے باہر نکلنے کا ایک ہی راستہ تھا۔

    ذرائع کا کہنا ہے کہ عمارت کی چھت پر جانے والے دروازوں پر بھی تالے تھے، جس کے باعث زیادہ جانی نقصان ہوا۔

    ریسکیو حکام کے مطابق 4 گھنٹے بعد آگ بجھائی گئی، آپریشن کے دوران دو ریسکیو اہل کار بھی زخمی ہوئے، اس وقت فیکٹری میں کولنگ کا عمل جاری ہے۔

  • دکھی انسانیت کے مسیحا عبدالستار ایدھی کو بھارتی شہریوں کا خراج تحسین

    دکھی انسانیت کے مسیحا عبدالستار ایدھی کو بھارتی شہریوں کا خراج تحسین

    جالندھر: انسانیت سے محبت کرنے والے عظیم سماجی کارکن عبدالستار ایدھی مرحوم کو بھارتی شہریوں کی جانب سے خراج تحسین پیش کیا گیا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق بھارتی شہر جالندھر کے ایک ہائی وے پر مولانا عبدالستار ایدھی کا ایک بڑا سائن بورڈ لگایا گیا ہے، انسانیت کے لیے ایدھی کی خدمات ناقابل فراموش ہیں۔

    بھارتی شہر میں نصب سائن بورڈ پر شاندار الفاط میں ایدھی کو خراج تحسین پیش کیا گیا ہے، سائن بورڈ کے دائیں طرف ایدھی کی تصویر ہے اور بائیں طرف لکھا ہے ’’امیر ترین غریب آدمی‘‘۔

    Image result for Edhi Singboard

    سائن بورڈ کے نیچے کی جانب مولانا عبدالستار ایدھی کا ایک مقبول قول بھی درج ہے، ’’انسانیت سے بڑھ کر کوئی مذہب نہیں‘‘۔

    یاد رہے معروف سماجی شخصیت عبدالستار ایدھی طویل علالت کے بعد 8 جولائی 2016 میں کراچی میں انتقال کرگئے تھے، اُن کی خدمات کے اعتراف میں مختلف سڑکوں اور اسٹیڈیمز کو ایدھی صاحب کے نام سے منسوب کیا گیا تھا۔

     

    وہ ساری زندگی اس عقیدے پر کاربند رہے کہ انسانیت سے بڑا کوئی مذہب نہیں۔ ان کی ایمبولینس بغیر کسی تفریق کے ملک کے ہر کونے میں زخمیوں کو اٹھانے پہنچ جاتی تھی۔ چاہے زخمی کوئی ہندو ہو، کوئی عیسائی، کوئی شیعہ، کوئی سنی یا کسی اور مسلک کا پیروکار، ایدھی کی ایمبولینس کسی کو اٹھانے یا دفنانے سے پہلے اس کا مذہب نہیں پوچھتی تھی۔

    عبدالستار ایدھی مذہب وفرقے، رنگ و نسل اور ادنی و اعلیٰ کی تفریق کے بغیرسب کی خدمت کے لیے ہمہ وقت مگن رہتے، وہ اپنے ادارے کے لیے سڑکوں پر، گلیوں میں در در جا کر چندہ اکھٹا کرتے اور اسے انسانیت کی خدمت میں لگا دیتے اور اپنی ذات پر گھر واہل و عیال پر سادگی اور میانہ روی اپنائے رکھتے۔

    ہزاروں یتیموں کے والد‘ بے سہاروں کا سہارا ‘ اپنی سماجی خدمات میں بے مثال عبدالستار ایدھی 8 جولائی 2016ء میں گردوں کے عارضے میں مبتلا ہوکر 88 سال کی عمرمیں اس دنیائے فانی سے کوچ کرگئے۔

  • دکھی انسانیت کےمسیحا عبدالستارایدھی کی دوسری برسی

    دکھی انسانیت کےمسیحا عبدالستارایدھی کی دوسری برسی

    دکھی انسانیت کے مسیحا بابائے خدمن ایدھی فاؤنڈیشن انٹرنیشنل کے بانی ڈاکٹرعبدالستار ایدھی کی دوسری برسی آج انتہائی عقیدت واحترام سے منائی جا رہی ہے۔

    فخرپاکستان انسانیت کے لیے اپنی زندگی وقف کرنے والے دنیا کی سب سے بڑی ایمبولینس سروس کے بانی ڈاکٹرعبدالستار ایدھی کی دوسری برسی آج منائی جا رہی ہے۔

    متحدہ ہندوستان کے علاقے گجرات (بانٹوا) میں 1928ء کو پیدا ہونے والے عبدالستار ایدھی تقسیم ہند کے بعد 1947ء میں ہندوستان سے ہجرت کرکے پاکستان آگئے۔

    کراچی میں بسنے والے عبد الستار ایدھی نے بچپن سے ہی سے کڑے وقت کا سامنا کیا، اُن کی والدہ پر فالج کا حملہ ہوا تھا جس سے وہ ذہنی و جسمانی معذروی کا شکار ہو کر بستر سے جا لگی تھیں، جس کے بعد اس ننھے بچے نے کراچی کی سڑکوں پر اپنی ماں کے علاج کی غرض سے دردر کی ٹھوکریں کھائیں تاہم ماں کی نگہداشت کے لیے ایک بھی ادارہ نہ پایا تو سخت مایوسی میں مبتلا ہو گئے اور اکیلے ہی اپنی کا ماں کی نگہداشت میں دن ورات ایک کردیے۔

    اسی ابتلاء اور پریشانی کے دور میں انہیں ایک ایسے ادارے کے قیام کا خیال آیا جو بے کسوں اور لاچار مریضوں کی دیکھ بھال کرے، اپنے اسی خواب کی تعبیر کے لیے عبد الستارایدھی نے 1951 ء میں صرف پانچ ہزار روپے سے ایک کلینک کی بنیاد رکھی، یہ کلینک کراچی کے علاقے کھارادر میں کھولا گیا اور دیکھتے ہی دیکھتے ایسے کئی رفاحی کلینک کا جال پورے ملک میں پھیلا دیا۔

    دوسری جانب ایدھی فاونڈیشن کی ایمبولینسس بد سے بد ترین حالت میں بھی زخمیوں اور لاشوں کو اُٹھانے سب سے پہلے پہنچ جاتی ہیں،میتوں کے سرد خانے اور غسل و تدفین کا ذمہ بھی اس محسن انسانیت نے اُٹھایا اور تعفن زدہ لاشوں کو اپنے ہاتھوں سے غسل دینا شروع کیا۔

    عبدالستار ایدھی مذہب وفرقے، رنگ و نسل اور ادنی و اعلیٰ کی تفریق کے بغیرسب کی خدمت کے لیے ہمہ وقت مگن رہتے، وہ اپنے ادارے کے لیے سڑکوں پر، گلیوں میں در در جا کر چندہ اکھٹا کرتے اور اسے انسانیت کی خدمت میں لگا دیتے اور اپنی ذات پر گھر واہل و عیال پر سادگی اور میانہ روی اپنائے رکھتے۔

    ہزاروں یتیموں کے والد‘ بے سہاروں کا سہارا ‘ اپنی سماجی خدمات میں بے مثال عبدالستار ایدھی 8 جولائی 2016ء میں گردوں کے عارضے میں مبتلا ہوکر 88 سال کی عمرمیں اس دنیائے فانی سے کوچ کرگئے۔

    عبدالستار ایدھی کی خدمات کے اعتراف میں گزشتہ سال مارچ میں اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے اُن کے نام کا یادگاری سکہ جاری کیا تھا۔

    فوجی اعزاز کے ساتھ تدفین

    حکومت پاکستان نے ان کی خدمات کے اعتراف میں انہیں مکمل سرکاری اعزاز کے ساتھ انیس توپوں کی سلامی دی‘ ان کی میت کو گن کیرج وہیکل کے ذریعے جنازہ گاہ لایا گیا۔

    ملکی تاریخ میں اس سے پہلے صرف تین شخصیات کی فوجی اعزاز کے ساتھ تدفین کی گئی، قومی پرچم میں لپٹے جسد خاکی کو پاک بحریہ کے سیکیورٹی حصار میں گن کیرج وہیکل پر میٹھا در سے نیشنل اسٹیڈیم پہنچایا گیا۔

    سب سے پہلے بابائے قوم محمد علی جناح کی تدفین مکمل فوجی اعزاز کے ساتھ کی گئی، قائداعظم محمد علی جناح پاکستان کی وہ پہلی شخصیت تھے جن کی میت گن کیرج وہیکل پر لائی گئی تھی، بابائے قوم کاجسد خاکی لحد میں اتارتے وقت پاک فوج نےگارڈ آف آنر پیش کیا تھا۔

    دوسری مرتبہ یہ اعزاز پاک فوج کے سربراہ جنرل ضیاء الحق کونصیب ہوا، انہیں بھی فوجی اعزاز کے ساتھ سپرد خاک کیاگیا تھا۔

    ایدھی کو دیےجانے والے اعزازات

    یہی وجہ ہے انسانیت کے لیے بے لوث خدمات پر انہیں ملکی اور بین الاقوامی سطح پر متعدد ایوارڈز سے نوازا گیا، 1980 میں پاکستانی حکومت نے انہیں نشان امتیاز دیا، 1992 میں افواج پاکستان کی جانب سے انہیں شیلڈ آف آنر پیش کی گئی جبکہ 1992 میں ہی حکومت سندھ نے انہیں سوشل ورکر آف سب کونٹی نینٹ کا اعزاز دیا۔ بین الاقوامی سطح پر 1986 میں عبدالستار ایدھی کو فلپائن نے Ramon Magsaysay Award دیا جبکہ1993 میں روٹری انٹرنیشنل فاؤنڈیشن کی جانب سے انہیں پاؤل ہیرس فیلو دیا گیا، یہی نہیں 1988 میں آرمینیا میں زلزلہ زدگان کے لیے خدمات کے صلے میں انہیں امن انعام برائے یو ایس ایس آر بھی دیا گیا۔

    ایدھی صاحب کو 2006 میں کراچی کے معتبرو معروف تعلیمی ادارے آئی بی اے کی جانب سے پی ایچ ڈی کی اعزازی ڈگری بھی دی گئی تھی، یہ اعزازی ڈگری ایدھی صاحب کی انسانیت کی خدمت اور رفاحی کاموں کے اعتراف کے طور پر دی گئی۔

    پاکستان میں بیشتر لوگوں کا ماننا ہے کہ عبدالستار ایدھی نوبل امن انعام کے بھی حق دار تھے۔ اس بارے میں کراچی میں ذرائع ابلاغ کے ماہر پروفیسر نثار زبیری نے کچھ برس قبل عبدالستار ایدھی کو نوبل امن انعام دیے جانے کی تحریری سفارش بھی کی تھی اور اس کے لیے باقاعدہ ایک مہم بھی چلائی گئی تھی۔ عبد الستار ایدھی اپنے سفر آخرت کی جانب کوچ کرچکے لیکن رہتی دنیا تک اس سادہ منش انسان کی انسانوں سے لگاؤ اور محبت کی داستانیں سنائی جاتی رہیں گی۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں، مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • چینی قونصل جنرل کا ایدھی ہیڈ آفس کا دورہ

    چینی قونصل جنرل کا ایدھی ہیڈ آفس کا دورہ

    کراچی: چینی قونصل جنرل وانگ یو نے ایدھی میٹھادر ہیڈ آفس کا دورہ کیا، دورے میں ان کے ساتھ وائس قونصل جنرل بھی تھے۔

    تفصیلات کے مطابق چینی قونصل جنرل اور وائس قونصل جنرل نے ایدھی آفس کے دورے کے دوران ایدھی فاؤنڈیشن کے سربراہ فیصل ایدھی سے ملاقات کی۔

    چینی قونصل جنرل نے بچوں کے ایدھی ہوم کا دورہ کرتے ہوئے ایدھی فاؤنڈیشن کی سرگرمیوں اور اقدامات کو سراہا، وانگ یو کا کہنا تھا کہ انسانی خدمت کی یہ سرگرمیاں قابل تعریف ہیں۔

    یاد رہے کہ رواں سال فروری میں چینی قونصل خانے نے امن فاؤنڈیشن کے ساتھ شراکت داری کی ہے جس کا مقصد جان بچانے والی ایمبولینس پروگرام کی معاونت تھی۔

    اس شراکت داری کا اعلان امن فاؤنڈیشن کے ہیڈ آفس میں خواتین کو خود مختار بنانے کا پروگرام لانچ کرتے وقت کیا گیا تھا جس میں چینی قونصل جنرل وانگ یو اور وزیر اطلاعات ناصر حسین شاہ نے بھی شرکت کی۔

    لندن کے ٹرافلگر اسکوائر پر عبدالستارایدھی کا فن پارا تیار


    چینی قونصل جنرل کا کہنا تھا کہ چین پاکستان میں ترقی کے عمل میں اپنی خدمات پیش کرنے پر بہت زیادہ توجہ دیتا ہے، اسی سلسلے میں پاکستان میں چین کی معاونت سے سی پیک کے تحت متعدد ٹرانسپورٹ اور توانائی کے منصوبوں کی تکمیل عمل میں آئی۔

    وانگ یو کا کہنا تھا کہ جیسے جیسے چینی صنعت کا پاکستان کے اندر نفوذ بڑھتا ہے تو چینی کاروبار کے لیے زیادہ ضروری ہوتا جائے گا کہ وہ مقامی آبادیوں کی بہبود کے لیے بھی اپنا کردار ادا کرے۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • لندن کے ٹرافلگر اسکوائر پر عبدالستارایدھی کا فن پارا تیار

    لندن کے ٹرافلگر اسکوائر پر عبدالستارایدھی کا فن پارا تیار

    عبدالستار ایدھی کی خدمات کبھی بھلائی نہیں جاسکتی، جس تازہ مثال لندن سے تعلق رکھنے والے فنکار کی ہے جس نے ٹریفلگر اسکوائر پر ایدھی صاحب کی خدمات کو پینٹنگ بناکر خراج عقیدت پیش کیا.

    تفصیلات کے مطابق پاکستان کا مثبت چہرہ دنیا کو دکھانے والے اور انسانیت کا درس دینے والے عبدالستار ایدھی صرف پاکستان میں ہی بلکہ پوری دنیا میں اپنے کام کی وجہ سے جانے جاتے ہیں۔جس کی تازہ ترین مثال برطانوی فنکار دانیل سوان کا فن پارا ہے جس کے ذریعے انہوں نے ایدھی صاحب کو خراج تحسین پیش کیا ہے۔

    حال ہی میں لندن سے تعلق رکھنے والے مصور اور سماجی کارکن دانیل سون نے دنیا کی سب سے بڑی ایمبولینس سروس چلانے والے سماجی کارکن ایدھی صاحب کی انسان دوستی سے متاثر ہوکر عبدالستار ایدھی اور عوامی خدمت کے اس زبردست جذبے کو سراہنے کے لیے لندن کے ٹریفلگر اسکوائر پر ان کا فن پارا تیار کیا ہے۔

    Daniel Swan

    ایدھی نے یتیموں کی سرپرستی اور بے سہارا لوگوں کو مدد فراہم کی۔ دنیا انہیں انسان دوست شخصیت تسلیم کرتی ہے جس انسانیت کے لیے زندگی گزاری اور آخری سانس تک لوگوں کے خدمت کے لیے صرف کردی۔

    سوان برطانیہ میں کام میں سماجی کام کرنے والی تنظیم’پیپلز آف پرسیپشن‘کے ساتھ کام کرتے ہیں جو بے گھر افراد کے لیے گھر کا بندوبست کرتی ہے۔

    بے سہارا لوگوں کی مدد کرنے کے حوالے سے بات کرتے ہوئے دانیل سوان نے لکھا کہ’میں دنیاکے ایک بڑے ادارے میں کام کرتا تھا جس کی وجہ سے لوگوں کا یہ خیال تھا کہ میں بہت پیسے کماتا ہوں لیکن میں اس سے انسانیت کی خدمت کے لیے کچھ نہیں کر سکتا تھا‘۔

    انہوں مزید لکھا کہ’لوگ جتنی تکالیف برداشت کررہے ہیں، اگر ہر فرد مجبور لوگوں کی مدد کرنا شروع کردے تو لوگوں کو اتنی مشکلات نہ اٹھانی پڑے،اور اگر ہم اپنے پیار کرنے والے لوگوں کے ساتھ اچھے انداز میں زندگی گزارنے لگے تو پوری دنیا کو تبدیل کرسکتے ہیں۔

  • لاوارث بچوں کی مسکان میں تاقیامت زندہ رہنے والا ایدھی

    لاوارث بچوں کی مسکان میں تاقیامت زندہ رہنے والا ایدھی

    انسانیت سے محبت کرنے والے عظیم سماجی کارکن عبدالستار ایدھی کو آج دنیا سے رخصت ہوئے ایک برس بیت گیا۔ مذہب، رنگ، نسل اور فرقے کی تفریق کے بغیر بے سہارا لوگوں کی خدمت و مدد کرنے کا جو چراغ انہوں نے روشن کیا تھا وہ آج بھی انسانیت سے محبت کرنے والوں کے دلوں میں زندہ ہے۔

    ایدھی کی زندگی کا مقصد دکھ میں مبتلا افراد کی مدد کرنا تھا، انہیں اس پر فخر تھا اور وہ ساری زندگی یہ کام کرنے کا ارادہ رکھتے تھے۔

    ایک بار ان سے کسی نے پوچھا تھا، کہ آپ ہندؤوں اور عیسائیوں کی میتیں کیوں اٹھاتے ہیں؟ تو انہوں نے جواب دیا، ’کیونکہ میری ایمبولینس آپ سے زیادہ مسلمان ہے‘۔

    وہ ساری زندگی اس عقیدے پر کاربند رہے کہ انسانیت سے بڑا کوئی مذہب نہیں۔ ان کی ایمبولینس بغیر کسی تفریق کے ملک کے ہر کونے میں زخمیوں کو اٹھانے پہنچ جاتی تھی۔ چاہے زخمی کوئی ہندو ہو، کوئی عیسائی، کوئی شیعہ، کوئی سنی یا کسی اور مسلک کا پیروکار، ایدھی کی ایمبولینس کسی کو اٹھانے یا دفنانے سے پہلے اس کا مذہب نہیں پوچھتی تھی۔

    ایدھی نے کوئی باقاعدہ تعلیم حاصل نہیں کی تھی۔ وہ کہتے تھے، ’دنیا کے غم میرے استاد اور دانائی و حکمت کا ذریعہ ہیں‘۔

    رسمی تعلیم ان کے لیے یوں بھی غیر اہم تھی کیونکہ وہ مانتے تھے کہ لوگ پڑھ کر تعلیم یافتہ تو بن گئے، لیکن ابھی تک انسان نہیں بن سکے۔

    ایدھی کو مولانا کہلوانا سخت ناپسند تھا۔ البتہ وہ یہ ضرور چاہتے تھے کہ لوگ انہیں ڈاکٹر کہیں۔ ان کی یہ خواہش یوں پوری ہوئی کہ پاکستان انسٹیٹیوٹ آف بزنس ایڈمنسٹریشن نے انہیں ڈاکٹری کی اعزازی سند دی۔

    قائد اعظم نے ہمیں 69 سال پہلے کام، کام اور صرف کام کا درس دیا۔ اس سبق پر اگر کسی نے صحیح معنوں میں عمل کیا تو وہ ایدھی ہی تھے۔ وہ طویل عرصہ تک بغیر چھٹی کیے کام کرنے کے عالمی ریکارڈ کے حامل ہیں۔ ریکارڈ بننے کے بعد بھی وہ آخری وقت تک جب تک ان کی صحت نے اجازت دی، کام کرتے رہے۔

    وہ کہتے تھے، ’میری زندگی کے 4 اصول ہیں، سادگی، وقت کی پابندی، محنت اور دانائی‘۔

    ایدھی فاؤنڈیشن میں ایک بھارتی لڑکی گیتا نے بھی پرورش پائی۔ گیتا بچپن میں اپنے خاندان سے بچھڑ کر غلطی سے سرحد پار کرکے پاکستان آئی اور یہاں ایدھی کے وسیع دامن نے اسے پناہ دی۔

    بولنے اور سننے سے معذور اس لڑکی کے لیے ایدھی فاؤنڈیشن کی عمارت میں خصوصی طور پر مندر بنایا گیا تھا۔ بلقیس ایدھی اسے اپنی بیٹی بلاتیں اور آنے جانے والوں کو مندر میں جوتوں سمیت جانے سے سختی سے منع کرتیں۔

    ایدھی نے ایک بار کہا تھا، ’خدا نے جو بھی جاندار پیدا کیا ہمیں ان سب کا خیال رکھنا چاہیئے۔ میرا مقصد ہر اس شخص کی مدد کرنا ہے جو مشکل میں ہے‘۔

    وہ اسی مذہب کے پیروکار تھے جس کی تبلیغ دنیا میں آنے والے ہر پیغمبر اور ہر ولی نے کی۔ وہ کہتے تھے، ’میرا مذہب انسانیت ہے اور یہ دنیا کے ہر مذہب کی بنیاد ہے‘۔

    ایدھی کو نوبیل انعام دلوانے کی مہم کئی بار چلائی گئی۔ ان کے انتقال سے ایک برس قبل نوبیل انعام حاصل کرنے والی ملالہ یوسفزئی نے بھی انہیں نوبیل کے لیے تجویز کیا، لیکن ایدھی کو نوبیل سے کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ ’مجھے نوبیل نہیں چاہیئے، بس پوری دنیا میں انسانیت سے محبت چاہیئے‘۔

    انہیں کئی بار تنقید کا نشانہ بھی بنایا گیا۔ ان پر کئی بے بنیاد الزامات بھی لگے، لیکن ایدھی نے کسی کو جواب دینے کے بجائے خاموشی سے اپنا کام جاری رکھا، کیونکہ وہ سوچتے تھے، ’محبت الفاظ میں بیان نہیں کی جاسکتی، میری انسانیت کی خدمت ہی میری ان سے محبت کا اظہار ہے اور تمہیں اسے قبول کرنا ہوگا‘۔

    ایدھی خواتین کی خودمختاری کے بھی قائل تھے۔ وہ کہتے تھے، ’لڑکیوں کو گھر میں بند مت کرو، انہیں باہر جانے دو اور کسی قابل بننے دو تاکہ وہ کسی پر بوجھ نہ بنیں‘۔

    ایدھی فاؤنڈیشن نے پاکستان کے علاوہ افغانستان، عراق، چیچنیا، بوسنیا، سوڈان، ایتھوپیا میں بھی کام کیا۔ 2004 کے سونامی میں ایدھی نے انڈونیشیا کے جزیرہ سماٹرا میں بھی اپنی بے لوث خدمات فراہم کیں۔

    وہ مانتے تھے کہ اچھے کام ہمیشہ یاد رکھے جاتے ہیں۔ ’لوگ آج بھی یاد رکھتے ہیں کہ 40 سال قبل میں نے ان کی والدہ کو دفنایا، یا ہڑتال اور کرفیو میں ان کے والد کی لاش کو غسل دے کر کفن پہنایا‘۔

    کروڑوں روپے کی جائیداد رکھنے والے ایدھی اسے اپنانے سے انکاری تھے۔ وہ اسے عوام کی دولت مانتے تھے اور ساری زندگی انہوں نے دو جوڑوں میں گزاری۔ ان کے پاس ایک ہی جوتا تھا جسے وہ پچھلے 20 سال سے استعمال کر رہے تھے۔

    ان کا کہنا تھا، ’اگر دولت کو اپنے اوپر خرچ کیا جائے تو یہ انسان کو اس کے اپنوں سے بھی دور کردیتی ہے۔ تکبر، خود غرضی اور برتری دولت کے منفی اثرات ہیں‘۔

    زندگی کے بارے میں بھی ایدھی ایک واضح نظریہ رکھتے تھے۔ وہ اس بات پر یقین رکھتے تھے کہ دنیا میں کچھ ناممکن نہیں۔ وہ کہتے تھے، ’اگر تم صحت مند ہو، تو ’کیوں‘ اور ’کیسے‘جیسے الفاظ کبھی تمہاری رکاوٹ نہیں بننے چاہئیں‘۔

    مرنے سے قبل ایدھی نے اپنی آنکھیں بھی عطیہ کردیں۔ جاتے جاتے وہ اپنے جسم کا ہر اعضا عطیہ کرنا چاہتے تھے لیکن ذیابیطس اور دیگر بیماریوں کی وجہ سے ایسا ممکن نہیں تھا۔ مرنے سے قبل انہوں نے یہ بھی وصیت کردی تھی، کہ میرے جنازے سے عام آدمی کو کوئی تکلیف نہ پہنچے، نہ کسی کا راستہ بند ہو، نہ کسی کو اپنا کام چھوڑنا پڑے۔

    انہوں نے ایک بار کہا تھا، ’لوگ مرجاتے ہیں تو صرف ایک ہی جگہ جاتے ہیں، آسمان میں۔ چاہے آپ کہیں بھی انہیں دفنا دیں وہ اسی جگہ جائیں گے، آسمان میں‘۔۔

    آج ایدھی بھی آسمانوں کی طرف جا چکے ہیں، لیکن وہ دنیا میں لاوارث لڑکیوں اور ان بچوں کی مسکراہٹ میں زندہ ہیں جنہیں ایدھی ہوم نے پناہ دی، اس شخص کی آنکھوں کی روشنی میں زندہ ہیں جسے ان کی عطیہ کی گئی آنکھیں لگائی گئیں، اور اگر ہم بھی انسانیت کو بچانے کے لیے آگے بڑھیں تو یقین مانیں کہ ایدھی زندہ ہے۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔ 

  • انسانیت کے عظیم خادم عبدالستار ایدھی کی پہلی برسی

    انسانیت کے عظیم خادم عبدالستار ایدھی کی پہلی برسی

    ہزاروں یتیموں کے والد‘ بے سہاروں کا سہارا ‘ دنیا کی سب بڑی ایمبولینس سروس کے بانی اور فلاحی خدمات میں پاکستان کی شناخت دنیا بھر میں منوانے والے ڈاکٹر عبدالستار ایدھی کی پہلی برسی 8 جولائی 2017 کو منائی جارہی ہے۔

    ایدھی فاؤنڈیشن کے روح رواں عبدالستار ایدھی طویل عرصے تک گردوں کے مرض میں مبتلا رہنے کے بعد گزشتہ برس انتقال کرگئے تھے ‘ علاج کی ہر ممکن آفرز کے باوجود انہوں نے پاکستان سے باہر علاج کرانا گوارا نہیں کیا۔

    6

    ان کے انتقال سے جہاں ایدھی فاؤنڈیشن کے سرسے ان کے بے پناہ محبت کرنے والے بانی کا سایہ اٹھ گیا وہی دنیا بھی انسانیت کے ایک ایسے خادم سے محروم ہوگئی جس کی زندگی کا ایک ایک لمحہ انسانیت کی خدمت کے لیے وقف تھا‘ ان کی وفات سارے پاکستان ا ور دنیا بھر میں پھیلے ہوئے ان کے کروڑوں مداحوں کو سوگوار کرگئی تھی۔

    ان کا مشن ان کی موت کے بعد بھی جاری و ساری ہے ‘ وہ خود بھی جاتے جاتے اپنی آنکھیں عطیہ کرگئے تھے جنہوں ایس آئی یو ٹی میں مستحق مریضوں کو لگایا گیا۔

    فوجی اعزاز کے ساتھ تدفین


    حکومت پاکستان نے ان کی خدمات کے اعتراف میں انہیں مکمل سرکاری اعزاز کے ساتھ انیس توپوں کی سلامی دی گئی‘ ان کی میت کو گن کیرج وہیکل کے ذریعے جنازہ گاہ لایا گیا۔

    ملکی تاریخ میں اس سے پہلے صرف تین شخصیات کی فوجی اعزاز کے ساتھ تدفین کی گئی، قومی پرچم میں لپٹے جسد خاکی کو پاک بحریہ کے سیکیورٹی حصار میں گن کیرج وہیکل پر میٹھا در سے نیشنل اسٹیڈیم پہنچایا گیا۔

    سب سے پہلے بابائے قوم محمد علی جناح کی تدفین مکمل فوجی اعزاز کے ساتھ کی گئی، قائداعظم محمد علی جناح پاکستان کی وہ پہلی شخصیت تھے جن کی میت گن کیرج وہیکل پر لائی گئی تھی، بابائے قوم کاجسد خاکی لحد میں اتارتے وقت پاک فوج نےگارڈ آف آنر پیش کیا تھا۔

    دوسری مرتبہ یہ اعزاز پاک فوج کے سربراہ جنرل ضیاء الحق کونصیب ہوا، انہیں بھی فوجی اعزاز کے ساتھ سپرد خاک کیاگیا تھا۔

    عبدالستارایدھی تیسرے پاکستانی ہیں جنھیں پاک فوج نے سلامی دی اور مکمل فوجی اعزاز کے ساتھ لحد میں اتارا گیا۔

    یادگاری سکہ


    رواں سال مارچ میں اسٹیٹ بینک میں عبدالستار ایدھی کا یادگاری سکہ جاری کرنے کیلئے تقریب منعقد کی گئی، تقریب میں فیصل ایدھی نے بھی شرکت کی، گورنراسٹیٹ بینک نے یادگاری سکہ فیصل ایدھی کوپیش کیا، اس موقع فیصل ایدھی نے کہا کہ ایدھی صاحب کے مشن کو جاری رکھیں گے، حکومت اور اسٹیٹ بینک کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔

    اسٹیٹ بینک کی جانب سے 50روپے مالیت کے عبدالستار ایدھی کے نام سے منسوب 50روپے مالیت کے 50 ہزار سکے جاری کیے گئے ہیں۔

    اسٹیٹ بینک کا کہنا ہے یاد گاری سکوں کا سلسلہ 1976 کو شروع ہوا تھا ، ابتک پاکستان میں5شخصیات کےیادگاری سکےجاری کئے گئے ، بابائے قوم محمد علی جناح کے حوالے سے 3 یادگاری سکے جاری ہوچکے ہیں ، اسٹیٹ بینک مختلف مواقعوں کے اب تک 27 سکے جاری کرچکا ہے۔

    ایدھی‘ انسانیت کی خدمت کیوں کرتے تھے؟


    متحدہ ہندوستان کے علاقے گجرات (بانٹوا) میں 1928 کو پیدا ہونے والے عبدالستار ایدھی تقسیم ہند کے بعد 1947 میں ہندوستان سے ہجرت کر کے کراچی میں بسنے والے عبد الستار ایدھی نے بچپن سے ہی کڑے وقت کا سامنا کیا،اُن کی والدہ پر فالج کا حملہ ہوا تھا جس سے وہ ذہنی و جسمانی معذروی کا شکار ہو کر بستر سے جا لگی تھیں، جس کے بعد اس ننھے بچے نے کراچی کی سڑکوں پر اپنی ماں کے علاج کی غرض سے در در کی ٹھوکریں کھائیں تا ہم ماں کی نگہداشت کے لیے ایک بھی ادارہ نہ پایا تو سخت مایوسی میں مبتلا ہو گئے اور اکیلے ہی اپنی کا ماں کی نگہداشت میں دن و رات ایک کر دیے۔

    اسی ابتلاء اور پریشانی کے دور میں انہیں ایک ایسے ادارے کے قیام کا خیال آیا جو بے کسوں اور لاچار مریضوں کی دیکھ بھال کرے،اپنے اسی خواب کی تعبیر کے نوجوان عبد الستار ایدھی نے 1951 ء میں صرف پانچ ہزار روپے سے ایک کلینک کی بنیاد رکھی،یہ کلینک کراچی کے علاقے کھارادر میں کھولا گیا اور دیکھتے ہی دیکھتے ایسے کئی رفاحی کلینک کا جال پورے ملک میں پھیلا دیا۔

    دوسری جانب ایدھی فاونڈیشن کی ایمبولینسس بد سے بد ترین حالت میں بھی زخمیوں اور لاشوں کو اُٹھانے سب سے پہلے پہنچ جاتی ہیں،میتوں کے سرد خانے اور غسل و تدفین کا ذمہ بھی اس محسن انسانیت نے اُٹھایا اور تعفن زدہ لاشوں کو اپنے ہاتھوں سے غسل دینا شروع کیا۔

    وہ مذہب وفرقے، رنگ و نسل اور ادنی و اعلیٰ کی تفریق کے بغیرسب کی خدمت کے لیے ہمہ وقت مگن رہتے، وہ اپنے ادارے کے لیے سڑکوں پر، گلیوں میں در در جا کر چندہ اکھٹا کرتے اور اسے انسانیت کی خدمت میں لگا دیتے اور اپنی ذات پر گھر و اہل و عیال پر سادگی اور میانہ روی اپنائے رکھتے۔

    ایدھی کو دیےجانے والے اعزازات


    یہی وجہ ہے انسانیت کے لئے بے لوث خدمات پر انہیں ملکی اور بین الاقوامی سطح پر متعدد ایوارڈز سے نوازا گیا، 1980 میں پاکستانی حکومت نے انہیں نشان امتیاز دیا،1992 میں افواج پاکستان کی جانب سے انہیں شیلڈ آف آنر پیش کی جب کہ 1992 میں ہی حکومت سندھ نے انہیں سوشل ورکر آف سب کونٹی نینٹ کا اعزاز دیا۔ بین الاقوامی سطح پر 1986 میں عبدالستار ایدھی کو فلپائن نے Ramon Magsaysay Award دیا جب کہ1993 میں روٹری انٹرنیشنل فاؤنڈیشن کی جانب سے انہیں پاؤل ہیرس فیلو دیا گیا، یہی نہیں 1988 میں آرمینیا میں زلزلہ زدگان کے لئے خدمات کے صلے میں انہیں امن انعام برائے یو ایس ایس آر بھی دیا گیا۔

    1

    ایدھی صاحب کو 2006 میں کراچی کے معتبرو معروف تعلیمی ادارے آئی بی اے کی جانب سے پی ایچ ڈی کی اعزازی ڈگری بھی دی گئی تھی،یہ اعزازی ٍڈگری ایدھی صاحب کی انسانیت کی خدمت اور رفاحی کاموں کے اعتراف کے طور پر دیے گئے۔

    پاکستان میں بیشتر لوگوں کا ماننا ہے کہ عبدالستار ایدھی نوبل امن انعام کے بھی حق دار تھے۔ اس بارے میں کراچی میں ذرائع ابلاغ کے ماہر پروفیسر نثار زبیری نے کچھ برس قبل عبدالستار ایدھی کو نوبل امن انعام دیے جانے کی تحریری سفارش بھی کی تھی اور اس کے لیے باقاعدہ ایک مہم بھی چلائی گئی تھی۔ آج عبد الستار ایدھی اپنے سفر آخرت کی جانب کوچ کر چکے لیکن رہتی دنیا تک اس سادہ منش انسان کی انسانوں سے لگاؤ اور محبت کی داستانیں سنائی جاتی رہیں گی۔


    اگرآپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اوراگرآپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پرشیئرکریں۔

  • کراچی: بجلی کی طویل لوڈشیڈنگ: میتوں کو غسل دینے میں پریشانی

    کراچی: بجلی کی طویل لوڈشیڈنگ: میتوں کو غسل دینے میں پریشانی

    کراچی: گرمی اور طویل لوڈشیڈنگ کے باعث ایدھی سرد خانے میں پانی کی قلت پیدا ہوگئی جس کی وجہ سے میتوں کو غسل دینے میں شدید پریشانی کا سامنا ہے،  یکم رمضان سے آج تک 150 میتیں ایدھی سرد خانے لائی گئیں۔

    نمائندہ اے آر وائی رافع حسین کے مطابق گرمی کے ستائے شہری اپنے پیاروں کی میتوں کو محفوظ رکھنے کے لیے ایدھی سرد خانے کا رخ کرتے ہیں تاہم کے الیکٹرک کی غیراعلانیہ لوڈشیڈنگ اور طویل بریک ڈاؤن کے باعث ایدھی سرد خانےمیں پانی کی شدید قلت پیدا ہوگئی۔

    کراچی کے مختلف علاقوں سے پانچ روز میں 150 سے میتیں ایدھی سرد خانے لائی گئی ہیں، ایدھی زرئع کے مطابق لوگ پانی کی کمی کے باعث غسل کے لیے میتیں لارہے ہیں تاہم بجلی کی غیر اعلانیہ بندش کی وجہ سے ہمیں بھی پانی کی قلت کا سامنا ہے۔

    ایدھی فاؤنڈیشن کے سربراہ نے اے آر وائی سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ بجلی کی لوڈشیڈنگ سے پانی کی قلت کا سامنا ہے، پانی نہ ہونے سے میتوں کو غسل دینے میں دشواری کا سامنا ہے۔

    انہوں نے کہا کہ کے الیکٹرک کافی عرصے سے دعویٰ کررہی ہے کہ لوڈشیڈنگ ختم ہوگئی مگر صورتحال دن بہ دن بدتر ہوتی جارہی ہے، غیر اعلانیہ لوڈشیڈنگ کے باعث جنریٹرز بھی جواب دے جاتے ہیں۔