Tag: nasa

  • کسی دوسری کہکشاں سے ہمارے نظام شمسی میں داخل ہونے والا پراسرار شہابیہ

    کسی دوسری کہکشاں سے ہمارے نظام شمسی میں داخل ہونے والا پراسرار شہابیہ

    حال ہی میں ہمارے نظام شمسی میں بین النجوم خلا (Interstellar Space) سے ایک فلکیاتی آبجیکٹ داخل ہوا ہے، جسے 3I/ATLAS (C/2025 N1) کا نام دیا گیا ہے۔ اس سے قبل خلا کے اس مسافر کو عارضی طور پر A11pl3Z کا نام دیا گیا تھا۔

    اس کو پہلی بار یکم جولائی 2025 کو چلی میں اٹلس سروے ٹیلی اسکوپ کے ذریعے دریافت کیا گیا تھا۔ اس کے اگلے ہی دن، 2 جولائی 2025 کو، انٹرنیشنل آسٹرونومیکل یونین کے مائنر پلینٹ سینٹر نے باضابطہ طور پر اس کی بین النجوم شے کے طور پر تصدیق کر دی۔ سائنس دانوں کا خیال ہے کہ یہ کوئی عام دم دار ستارہ (شہابیہ) نہیں، بلکہ ایک ایسی خلائی چیز ہے جو کسی دوسرے ستارے کے نظام سے نکلی ہے اور لاکھوں سالوں سے خلا میں سفر کر رہی ہے۔ اس کی حیران کن رفتار اور خصوصیات نے دنیا بھر کے ماہرین فلکیات کی توجہ اپنی جانب مبذول کر لی ہے۔

    فلکیات دانوں کا اندازہ ہے کہ یہ کسی ستارے کا چھوٹا سیارہ، کسی سیارے کا چاند، یا کسی ستارے کے گرد چکر لگانے والا ایک شہابیہ ہو سکتا ہے۔ اس کی چوڑائی تقریباً 12 سے 25 میل (تقریباً 20 کلو میٹر) ہونے کا تخمینہ لگایا گیا ہے، البتہ اگر اس کا زیادہ تر حصہ برف پر مشتمل ہوا تو اس کا سائز کم بھی ہو سکتا ہے۔

    دنیا کا سب سے بڑا مریخ سیارے کا پتھر 4.3 ملین ڈالرز میں نیلام

    ناسا کے مطابق، 3I/ATLAS کی سب سے حیران کن خصوصیت اس کی رفتار ہے۔ یہ تقریباً 150,000 میل فی گھنٹہ (240,000 کلو میٹر فی گھنٹہ) سے زیادہ کی رفتار سے سفر کر رہا ہے۔ یہ رفتار ناسا کے وائجر 1 خلائی جہاز سے چار گنا زیادہ تیز ہے، جو اسے ہمارے نظام شمسی میں اب تک دیکھی جانے والی تیز ترین اشیا میں سے ایک بناتی ہے۔

    ناسا کے سائنس دانوں نے تصدیق کی ہے کہ یہ واقعی کسی دوسرے ستارے کے نظام سے نکلا ہوا شہابیہ ہے جو لاکھوں سالوں سے خلا میں بھٹک رہا ہے۔ یہ پہلا موقع ہے کہ کسی دوسری کہکشاں سے ہمارے نظام شمسی میں داخل ہونے والا کوئی شہابیہ سورج کے اتنے قریب آ رہا ہے۔

    سائنس دانوں کہ مطابق اکتوبر 2025 میں یہ مریخ کے قریب سے گزرے گا اور 30 اکتوبر کو سورج کے سب سے قریب 1.4 فلکیاتی اکائی (AU) کے فاصلے سے گزرے گا۔ اس دوران زمین سے اس کا فاصلہ تقریباً 150 ملین میل ہوگا، اور زمین کو اس سے کوئی خطرہ نہیں ہے۔

    ناسا کا کہنا ہے کہ اگر یہ شہابیہ سورج کے قریب آ کر کافی روشن ہو جاتا ہے تو 2025 کے آخر یا 2026 کے شروع میں اسے امیچر ٹیلی اسکوپس (عام دوربینوں) کے ذریعے بھی دیکھا جا سکے گا۔ یہ فلکیات کے شوقین افراد کے لیے ایک نادر موقع ہوگا کہ وہ اس بین النجومی شہابیے کا مشاہدہ کر سکیں۔

     

  • پاکستانی طالبہ نے ناسا کا ’عالمی اسپیس ایپ چیلنج‘ ایوارڈ اپنے نام کرلیا

    پاکستانی طالبہ نے ناسا کا ’عالمی اسپیس ایپ چیلنج‘ ایوارڈ اپنے نام کرلیا

    پاکستانی طالبہ امامہ علی نے ناسا کا عالمی اسپیس ایپ چیلنج ایوارڈ اپنے نام کرلیا۔

    تفصیلات کے مطابق راس الخیمہ میں یونیورسٹی آف ویسٹ لندن کی پاکستانی طالبہ امامہ علی کی قیادت میں ٹیم نے متحدہ عرب امارات کی نمائندگی کرتے ہوئے عالمی مقابلے میں حصہ لیا۔

    امامہ علی ناسا کے عالمی اسپیس ایپ چیلنج مقابلے میں سب سے متاثر کن پروجیکٹ کا ایوارڈ  حاصل کیا، اس مقابلے میں 163 ممالک کے 93 ہزار  سے زائد طلباء نے حصہ لیا تھا۔

    اس سے قبل اسلام آباد انسٹی ٹیوٹ آف اسپیس ٹیکنالوجی کے طلبا نے 2025 کے اے پی اے سی سولیوشن چیلنج میں”اے آئی کے بہترین استعمال کا ایوارڈ“ اپنے نام کیا تھا۔

    پاکستانی طلبا کی اختراعی صلاحیتیں 2025 کے اے پی اے سی ڈیجیٹل ٹرانسفارمیشن فورم میں اُس وقت توجہ کا مرکز بن گئیں جب انسٹی ٹیوٹ آف اسپیس ٹیکنالوجی کے طلبا پر مشتمل ٹیم کو بہترین اے آئی استعمال کے ایوارڈ سے نوازا گیا۔

    یہ اعزاز گوگل ڈیویلپرز گروپس اور ایشیائی ترقیاتی بینک کے زیر اہتمام ہونے والے اے پی اے سی سولیوشن چیلنج میں دیا گیا، یہ مقابلہ پورے ایشیا و بحرالکاہل اے پی اے سی کے خطے سے طالبعلموں کی قیادت میں تیار کیے گئے منصوبوں کو یکجا کرتا ہے جنہوں نے گوگل کی اے آئی ٹولز کو استعمال کرتے ہوئے دنیا کو درپیش اہم اور پیچیدہ مسائل کا حل تلاش کرنے میں مدد فراہم کی۔

  • زمین کے گرد 93 کروڑ 30 لاکھ میل کا فاصلہ طے کرنے والے خلا بازوں کی واپسی

    زمین کے گرد 93 کروڑ 30 لاکھ میل کا فاصلہ طے کرنے والے خلا بازوں کی واپسی

    بین الاقوامی خلائی اسٹیشن سے 2 روسی خلابازوں کی 220 دن بعد ایک امریکی خلا باز کے ساتھ زمین پر واپسی ہو گئی۔

    تفصیلات کے مطابق روسی خلاباز الیکسی اووچینن اور ایوان ویگنر بین الاقوامی خلائی اسٹیشن (آئی ایس ایس) پر 7 ماہ کے سائنس مشن کے بعد امریکی خلا باز ڈونلڈ پیٹٹ کے ساتھ زمین پر واپس آ گئے ہیں۔

    روسی اور امریکی سائنس دان نے روسی راکٹ کیپسول سویوز کے ذریعے قازقستان میں لینڈنگ کی، تینوں سائنس دانوں کو زمین تک پہنچنے میں 27 گھنٹے لگے، انھوں نے تحقیقی مشن کے دوران زمین کے گرد 3 ہزار 520 بار چکر لگایا، اور 9 کروڑ 33 لاکھ میل کا فاصلہ طے کیا۔


    ہمارے نظام شمسی سے باہر بہت دور ایک سیارے پر زندگی کے آثار مل گئے!


    روسی Soyuz MS-26 خلائی جہاز تینوں کو لے کر اتوار کو صبح 6:20 بجے قازقستان کے قصبے دززکازگان کے جنوب مشرق میں زمین پر اترا، لینڈنگ کی تصدیق امریکی خلائی ایجنسی ناسا اور روس کی روسکوسموس خلائی ایجنسی نے کی۔

    خلاباز زمین میں داخل ہونے کے بعد پیرا شوٹ کی مدد سے زمین پر اترے، جس وقت وہ زمین پر اترے وہ امریکی خلا باز کی 70 ویں سالگرہ کا دن تھا۔ اترتے ہی خلا بازوں کو قریبی شہر کے بحالی مرکز روانہ کیا گیا۔

    ناسا نے ایک بیان میں کہا کہ عملہ 11 ستمبر 2024 کو مدار میں آئی ایس ایس لیبارٹری پر پہنچا تھا، اس نے خلا میں 220 دن گزارے، اس دوران انھوں نے 93.3 ملین میل (150.15 ملین کلومیٹر) کا سفر مکمل کرتے ہوئے 3,520 بار زمین کا چکر لگایا۔

    امریکی سائنس دان نے خلائی اسٹیشن کی لیبارٹری میں واٹر سینیٹائزیشن ٹیکنالوجیز پر تحقیق کی، اور خلا میں پودوں کی نشوونما اور آگ کے رویے کو سمجھنے کی کوشش کی۔

  • خلاء میں پھنسے خلاء بازوں کی 9 ماہ بعد زمین پر بحفاظت واپسی

    خلاء میں پھنسے خلاء بازوں کی 9 ماہ بعد زمین پر بحفاظت واپسی

    گزشتہ برس جون سے خلاء میں پھنسے ہوئے دو خلاء بازوں سنیتا ولیمز اور بوچ ولمور کی زمین پر بحفاظت واپسی ہوگئی۔

    بین الاقوامی خبر رساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق بین الاقوامی خلائی اسٹیشن (آئی ایس ایس) میں سوار 58 سالہ سنیتا ولیمز اور 62 سالہ بوچ ولمور خلاء میں 8 دنوں کے ارادے سے پہنچے تھے، مگر اسٹار لائنر خلائی جہاز میں تکنیکی خرابی کی وجہ سے گزشتہ ساڑھے 9 ماہ سے خلاء میں پھنسے ہوئے تھے۔

    رپورٹس کے مطابق دونوں خلاء بازوں کو اسپیس ایکس کے کریو ڈریگن خلائی جہاز کے ذریعے ریسکیو کرلیا گیا۔

    ناسا کے کریو-10 مشن کے تحت 4 خلاء بازوں میں ناسا کے این میک کلین اور نکول آئرس، جاپان کے تاکویا اونیشی اور روس کے کریل پیسکوف شامل تھے، جنہیں آئی ایس ایس بھیجا گیا۔

    ناسا کا 4 خلاء بازوں پر مشتمل کریو-10 مشن خلاء میں پھنسی سنیتا اور ولمور کو 286 دنوں کے بعد آج صبح بحفاظت واپس زمین پر لے کر پہنچ گیا ہے، خلاء باز اسپیس ایکس کے کیپسول میں فلوریڈا کے ساحل پر بحفاظت اُتر چکے ہیں۔

    واضح رہے کہ دونوں نے خلاء میں اپنے 9 ماہ مکمل کئے ہیں، ان کے ساتھ روس اور جاپان کے خلائی مسافر بھی اسپیس اسٹیشن میں پھنسے ہوئے تھے۔

    ’2029 میں انسان مریخ پر قدم، 2031 میں انسانی بستیاں آباد ہوں گی‘

    اس مشن کا مقصد آٹھ دن تک جاری رہنا تھا لیکن ایک تکنیکی خرابی کی وجہ سے خلابازوں کی واپسی میں طویل تاخیر ہوگئی، جس سے یہ مشن مزید ماہ تک بڑھا دیا گیا۔

  • تاریخی لمحات، 9 مہینوں سے خلا میں پھنسے خلابازوں کی زمین پر واپسی ساری دنیا دیکھ سکے گی

    تاریخی لمحات، 9 مہینوں سے خلا میں پھنسے خلابازوں کی زمین پر واپسی ساری دنیا دیکھ سکے گی

    ناسا کے خلاباز سنیتا ولیمز اور بُچ ولمور 9 ماہ سے زیادہ خلا میں پھنسے رہنے کے بعد بالآخر زمین پر واپس آنے والے ہیں۔ خلائی جہاز کی خرابی کی وجہ سے خلا میں پھنسے خلابازوں کو زمین پر واپس لانے کے لیے تیاریاں عروج پر پہنچ گئی ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق آخر کار انتظار ختم ہوا، اور خلا میں پھنسے سنیتا ولیمز اور بُچ ولمور کو واپس لانے کی تیاری تقریباً مکمل ہو چکی ہیں، گزشتہ 9 مہینے سے بین الاقوامی خلائی اسٹیشن (آئی ایس ایس) میں پھنسے دونوں خلا بازوں کو 18 مارچ کو زمین پر واپس لایا جائے گا۔

    امریکی خلائی ایجنسی ناسا نے تصدیق کی ہے کہ ان کے بوئنگ اسٹار لائنر خلائی جہاز میں تکنیکی خرابی کی وجہ سے بین الاقوامی خلائی سٹیشن (آئی ایس ایس) پر پھنسے ہوئے دو خلاباز بدھ کی صبح اپنے طویل انتظار کے بعد گھر پہنچ جائیں گے۔ وہ گزشتہ سال 5 جون کو انٹرنیشنل اسپیس اسٹیشن گئے تھے، انھیں محض ایک ہفتے کے بعد زمین پر واپس لوٹنا تھا لیکن بوئنگ اسٹار لائنر میں خرابی پیدا ہو گئی۔

    دونوں خلا بازوں کو اب رواں ماہ مارچ کے آخر تک زمین پر واپس آنا تھا، لیکن امریکی صدر ٹرمپ نے ایلون مسک سے انھیں جلدی واپس لانے کی گزارش کی، جس کے بعد اس مشن میں تیزی لائی گئی۔ انھوں نے اسپیس ایکس کے چیف ایگزیکٹو ایلون مسک اور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا بچاؤ میں کردار ادا کرنے پر تہہ دل سے شکریہ ادا کیا۔


    ’2029 میں انسان مریخ پر قدم، 2031 میں انسانی بستیاں آباد ہوں گی‘


    خلابازوں کی زمین پر واپسی اب اسپیس ایکس کے ’’کریو ڈریگن خلائی جہاز‘‘ پر ہوگی، جو اتوار کو آئی ایس ایس پر کامیابی کے ساتھ پہنچ گیا ہے، ناسا نے فلوریڈا کے ساحل پر دونوں خلا بازوں کے اترنے کی امید ظاہر کی ہے، خاص بات یہ ہے کہ ناسا دونوں خلا بازوں کی واپسی کو براہ راست نشر کرنے جا رہا ہے۔

    لائیو کوریج کی شروعات ڈریگن خلائی جہاز کے ہیچ بند کرنے کی تیاری سے ہوگی، ناسا کے خلائی مسافر نک ہیگ اور روسکوسموس، روس کے خلائی مسافر الیکژاند گوربونوو بھی ڈریگن کیپسول سے واپس آئیں گے۔

  • سنیتا ولیمز کی خلاء سے واپسی کب ہوگی؟ ناسا نے بتادیا

    سنیتا ولیمز کی خلاء سے واپسی کب ہوگی؟ ناسا نے بتادیا

    امریکی خلائی ایجنسی’ناسا‘ کی خلاء باز سنیتاولیمز اوران کے ساتھی بُچ وِلمور کی خلاء سے واپسی سے متعلق ناسا کا اہم بیان سامنے آیا ہے۔

    بین الاقوامی خبر رساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق ناسا نے اطلاع دی ہے کہ اپریل کے پہلے ہفتے کے بجائے مارچ کے دوسرے ہفتے میں سنیتاولیمز اوران کے ساتھی بُچ وِلمور کی واپسی کا قوی امکان ہے۔

    ناسا جو اپنے خلا بازو کو ’اسپیس ایکس‘ کے اسپیس کرافٹ سے واپس لانیوالا ہے، نے گزشتہ روز بیان دیا تھا کہ اسپیس ایکس اگلے خلائی مشن کی تاریخوں میں تبدیلی کیلئے تیار ہے۔

    اگر سب کچھ طے شدہ پروگرام کے مطابق ہوا تو سنیتا اپنے دو ساتھیوں کے ساتھ طے شدہ پروگرام سے2 ہفتے پہلے زمین پرواپس آسکتی ہیں۔

    واضح رہے کہ دونوں نے گزشتہ ہفتے خلاء میں اپنے 8 ماہ مکمل کئے ہیں، ان کے ساتھ روس اور جاپان کے خلائی مسافر بھی اسپیس اسٹیشن میں پھنسے ہوئے ہیں۔

    ناسا نے بتایا ہے کہ خلائی اسٹیشن میں عملے کی تبدیلی کیلئے اسپیس ایکس کے خلائی جہاز کو جلد بھیجنے پرگفتگو میں مثبت پیش رفت ہوئی ہے۔

    سمندر میں تباہ ہونے والی آبدوز ’ٹائٹن‘ کے پھٹنے کی خوفناک آڈیو سامنے آگئی

    اس مشن کا مقصد آٹھ دن تک جاری رہنا تھا لیکن ایک تکنیکی خرابی کی وجہ سے خلابازوں کی واپسی میں تاخیر ہوئی، جس سے یہ مشن مزید آٹھ ماہ تک بڑھا دیا گیا۔

  • امریکی صدارتی انتخاب 2024 : خلا بازوں نے بھی ووٹ کاسٹ کرلیا

    امریکی صدارتی انتخاب 2024 : خلا بازوں نے بھی ووٹ کاسٹ کرلیا

    امریکی صدارتی انتخابات میں زمین کے بعد خلا میں بھی ووٹنگ کا عمل جاری رہا، ناسا کے خلا بازوں نے بین الاقوامی خلائی اسٹیشن (آئی ایس ایس) سے اپنا ووٹ کاسٹ کیا۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق امریکی خلا بازوں نے بھی اپنے ووٹ کا حق استعمال کرلیا ہے۔

    ناسا کے خلابازوں نے ووٹ ڈالنے کے بعد خلائی اسٹیشن سے تصویر شیئر کردی، امریکی خلا بازوں نے الیکٹرک بیلٹ کے ذریعے ووٹ کاسٹ کیا۔

    رپورٹ کے مطابق ٹیکساس میں ہیرس کاؤنٹی کلرک آف کورٹ آفس نے بتایا ہے کہ ناسا کے خلابا زبچ ولمور، سنی ولیمز اور ڈان پیٹیٹ نے انتخابات کے دن سے ایک روز قبل بین الاقوامی خلائی اسٹیشن (آئی ایس ایس) سے اپنا ووٹ ڈالا۔

    ناسا کے خلا باز نِک ہیگ کے انسٹاگرام اکاؤنٹ پر یہ تصویر پوسٹ کی گئی، جس میں انہوں نے "Proud to be American” (امریکی ہونے پر فخر ہے) والے موزے پہن رکھے تھے۔

    تصویر کے کیپشن میں انہوں نے لکھا کہ اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ آپ بیٹھے ہیں، کھڑے ہیں یا خلا میں تیر رہے ہیں، اہم بات یہ ہے کہ آپ ووٹ ڈالیں۔

    NASA

    اسمتھ سونین ایئر اینڈ اسپیس میوزیم کے مطابق انتخابی دن سے پہلے ایک خفیہ الیکٹرانک بیلٹ اسپیس سنٹر کو بھیجا جاتا ہے، جسے خلا باز ای میل کے ذریعے حاصل کردہ اسناد سے رسائی حاصل کرکے واپس ہیریس کاؤنٹی کلرک کے دفتر بھیجتے ہیں۔

  • اگر کوئی شخص بلیک ہول میں گرے گا تو کیا ہوگا؟ ناسا نے ناقابل یقین ویڈیو بنا لی

    اگر کوئی شخص بلیک ہول میں گرے گا تو کیا ہوگا؟ ناسا نے ناقابل یقین ویڈیو بنا لی

    امریکی خلائی ادارے ناسا نے ایک ایسی ناقابل یقین ویڈیو بنائی ہے، جس میں یہ دکھایا گیا ہے کہ اگر کوئی شخص بلیک ہول میں گرے گا تو کیا ہوگا؟

    انسان جب اپنی زندگی اور کائنات کے بارے میں غور و فکر کرتا ہے تو ایک خیال اسے ضرور پریشان کرتا ہے کہ اگر بدقسمتی وہ کسی بلیک ہول میں گرنے والا ہو تو اس وقت کیا ہوگا۔ ناسا نے آخرکار اپنے سپر کمپیوٹر کا استعمال کرتے ہوئے ایک شان دار نقل (سیمولیشن) تیار کر کے اس سوال کا جواب دے دیا ہے۔

    ایونٹ ہورائزن کیا ہے؟

    بلیک ہول کی سطح کو ایونٹ ہورائزن (event horizon) کہا جاتا ہے، اس میں وہ تمام مادے شامل ہوتے ہیں جن سے بلیک ہول بنتا ہے اور اتنا مضبوط ہوتا ہے کہ اس میں سے روشنی بھی گزر نہیں پاتی۔ اس ایونٹ ہورائزن میں اگر کوئی ٹھوس چیز گرے گی تو کیا ہوگا، یہ دکھانے کے لیے ناسا نے ایک نئے اور عمیق تمثال (visualization) پر مبنی ایک ویڈیو بنائی ہے، ناظرین جس میں دیکھ سکتے ہیں کہ گرتے وقت ناقابل واپسی نقطے (پوائنٹ آف نو ریٹرن) پر کیا دکھائی دیتا ہے۔

    امریکی ریاست میری لینڈ میں ناسا کے گوڈارڈ اسپیس فلائٹ سینٹر کے سائنس دانوں نے یہ سیمولیشن اپنے ایک انتہائی طاقت ور سپر کمپیوٹر کا استعمال کرتے ہوئے تیار کی ہے۔

    اس پروجیکٹ نے تقریباً 10 ٹیرا بائٹس ڈیٹا تیار کیا اور اسے کمپیوٹر کے 1 لاکھ 29 ہزار پروسیسرز کے صرف 0.3 فی صد حصے پر چلنے میں تقریباً 5 دن لگے، ایک عام لیپ ٹاپ پر اسے چلنے میں دس سال سے زیادہ وقت لگے گا۔

    یہ تمثیل (visualization) کیا ہے؟

    ناسا نے جو یہ تمثیل تخلیق کی ہے، اس میں ایک عظم الجثّہ (supermassive) بلیک ہول کی جانب ایک پرواز دکھائی گئی ہے، اس سفر کے دوران راستے میں ایسی دل چسپ شبیہیں پیدا ہوتی ہیں جو (آئن اسٹائن کے) عمومی نظریہ اضافیت (general relativity) کے اثرات کا نتیجہ ہیں۔

    اس میں آپ کو ایک کیمرہ نظر آئے گا جو چلتے چلتے ایک مختصر چکر لگاتا ہے، اور پھر ہماری کہکشاں کے مرکز میں موجود بلیک ہول (سورج سے تقریباً 43 لاکھ گنا بڑا) جتنے بڑے عفریت نما بلیک ہول کے ایونٹ ہورائزن (ناقابل واپسی نقطہ) کو پار کر لیتا ہے۔

    اس نقل (simulation) میں جو صورت حال دکھائی گئی ہے، اس کا تصور کرنا بھی انسان کے لیے مشکل ہے، لیکن دستیاب علم اور ٹیکنالوجی کی مدد سے ناسا نے اسے کافی حد تک ممکن بنایا، چناں چہ ناسا کے گوڈارڈ اسپیس فلائٹ سینٹر کے ماہر فلکیات جیریمی شنٹمین کے مطابق انھیں اس سیمولیشن کے ذریعے اس حوالے سے مدد ملی ہے کہ نظریۂ اضافیت کی ریاضی کو حقیقی کائنات کے حقیقی نتائج سے کیسے جوڑا جائے۔

    انھوں نے بتایا ’’میں نے دو مختلف خاکوں کی نقلیں تیار کیں، ایک خاکے میں کیمرا (کسی بہادر خلاباز کی طرح) ایونٹ ہورائزن یعنی بلیک ہول کی سطح سے بال بال بچ کر کششِ ثقل کے دھکے سے واپس آ جاتا ہے، اور دوسرے میں یہ کیمرا اپنے مقدر پر مہر لگاتے ہوئے باؤنڈری کو عبور کر لیتا ہے۔‘‘

    ناسا کے مطابق سیمولیشن میں دکھائے گئے بلیک ہول کی سطح یعنی ایونٹ ہورائزن کی پیمائش تقریبا ڈھائی کروڑ کلومیٹر (1.6 کروڑ میل) ہے، اس کے گرد گیس کی ایک گرم اور چمک دار ڈسک (اضافی تہہ) بنی ہوئی ہے، ان چمک دار ساختوں کو فوٹون رِنگ کہا جاتا ہے، یہ اُس روشنی سے بنتے ہیں جو بلیک ہول کے گرد ایک بار زیادہ بار چکر لگاتی ہے۔

    جیسے جیسے کیمرہ بلیک ہول کے قریب پہنچتا ہے، ویسے ویسے کیمرے کی رفتار روشنی کی رفتار جتنی ہوتی جاتی ہے، سیمولیشن میں دکھائی جانے والی اس مووی کا آغاز اس وقت ہوتا ہے جب کیمرہ بلیک ہول سے 640 ملین کلو میٹر دور ہے، قریب آتے آتے بلیک ہول کے گرد موجود چمک دار ڈسک، نارنجی اور پیلے رنگ کے فوٹون رِنگز، اور رات کے آسمان کی شکل تیزی سے بگڑتی ہے، اور حتیٰ کہ ان کی روشنی جب تیزی سے ٹیڑھے میڑے ہوتے زمان و مکان (space-time) میں داخل ہوتی ہے تو گوناں گوں عکس تشکیل پاتے ہیں۔

    زمان و مکان کے ساتھ کیا ہوتا ہے؟

    یہ سیمولیشن تیار کرنے والے ماہرین کا کہنا ہے کہ کیمرے کو بلیک ہول کی سطح میں گرنے کے لیے 3 گھنٹے لگے، راستے بھر اس نے 30 منٹ کے تقریباً دو مکمل محوری چکر لگائے۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ دور سے اگر کوئی اسے دیکھے تو وہ یہی سمجھے گا کہ کیمرہ کبھی وہاں پہنچ ہی نہیں سکا۔ کیوں کہ بلیک ہول کی سطح سے قریب ہوتے ہوتے زمان و مکان زیادہ فولڈ (یا ٹیڑھا میڑا) ہو جاتا ہے، اس لیے کیمرے کا عکس سست ہو جائے گا اور پھر بالکل ہی منجمد ہو جائے گا۔ یہی وجہ ہے کہ ماہرین فلکیات بلیک ہولز کو ’منجمد ستارے‘ کہا کرتے ہیں۔

    بلیک ہول کی سطح پر خود زمان و مکان بھی روشنی کی رفتار (یعنی کائناتی رفتار کی حد) سے اندر کی طرف بہنے لگتا ہے، جیسے ہی وہ اس کے اندر داخل ہوتے ہیں، کیمرا اور زمان و مکان دونوں بلیک ہول کے مرکز کی طرف تیزی سے بڑھتے ہیں۔ یہ مرکز ’ون ڈائمنشنل پوائنٹ‘ (یک جہتی نقطہ) ہے جسے سنگولیریٹی (singularity) کہا جاتا ہے، اور اس میں فزکس کے قوانین (ہمارے علم کے مطابق) کام کرنا چھوڑ دیتے ہیں۔

    اسپگیٹیفیکیشن کیا ہے؟

    ڈاکٹر شنٹمین کے مطابق ایک بار جب کیمرہ بلیک ہول کی سطح کو عبور کر لیتا ہے تو اسے تباہ ہونے میں محض 12.8 سیکنڈ کا وقت لگتا ہے، اور یہ عمل spaghettification کہلاتا ہے۔ ایک ایسا عمل جس میں جسم سوئیوں کی طرح لمبا ہوتے ہوتے پتلا ہو جاتا ہے۔ اس موقع پر یہ مرکز سے 79 ہزار 500 میل دور ہوتا ہے، اور اس سفر کا یہ آخری لمحہ محض پلک جھپکتے پورا ہو جاتا ہے۔

    سوئیوں جیسا یہ عمل اس لیے ہوتا ہے کیوں کہ کسی بھی جسم کا وہ سرا جو بلیک کے قریب ہوتا ہے، اس کا کشش ثقل اُس دوسرے سرے سے جو بلیک ہول دور ہوتا ہے، میں بہت فرق ہوتا ہے، چناں چہ دونوں طرف کا کشش ثقل اس جسم کو اپنی اپنی طرف کھینچتے ہیں اور یوں وہ سوئیوں کی طرح لمبا ہوتا چلا جاتا ہے۔


  • چاند پر ریل گاڑی چلانے کی تیاریاں، ناسا کا بڑا اقدام

    چاند پر ریل گاڑی چلانے کی تیاریاں، ناسا کا بڑا اقدام

    واشنگٹن : امریکی خلائی ایجنسی ناسا چاند پر جدید ریلوے نظام قائم کرنے کی تیاریوں میں مصروف ہے، قمری ٹرینیں سطح کے ارد گرد موجود مواد کی منتقلی کا کام کرسکتی ہیں۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق امریکی خلائی ایجنسی ناسا نے چاند پر ریلوے نظام بنانے انسانوں اور سامان کو مریخ پر منتقل کرنے کے منصوبے کیلئے فنڈنگ ​​کا آغاز کردیا ہے۔

    اس حوالے سے ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ناسا کے (این آئی اے سی) پروگرام کے عہدیدار نے کہا ہے کہ ناسا ایسے منصوبوں پر کام کرے گا جو سائنس فکشن جیسے تصورات ہیں تاہم اس بات کی کوئی گارنٹی نہیں ہے کہ وہ جلد ہی عمل میں لائے جائیں گے۔

     moon's

    انہوں نے امید ظاہر کی کہ یہ ممکن ہے کہ کسی بھی دن مستقبل میں یہ تصورات حقیقت کا روپ دھار لیں گے۔

    ناسا عہدیدار کا کہنا تھا کہ مذکورہ منصوبوں میں چاند پر ریلوے کا جدید نظام، دوربین اور انسانوں اور سامان کو مریخ تک لے جانے کے لیے ٹرانزٹ سسٹم شامل ہیں۔ اس مقصد کیلئے مجموعی طور پر چھ منصوبے ہیں جن میں سے ادارہ ابتدائی مراحل سے گزر چکا ہے۔

    ان کا مزید کہنا تھا کہ دوسرے مرحلے میں یہ منصوبے مزید تحقیق کے لیے اگلے دو سالوں تک 600,000 ڈارلز جمع کرلیں گے۔

  • ناسا کا خلائی مشن ایک بار پھر چاند پر جانے کو تیار، خاتون بھی شامل

    ناسا کا خلائی مشن ایک بار پھر چاند پر جانے کو تیار، خاتون بھی شامل

    ناسا نے نصف صدی بعد انسانوں کو چاند پر بھیجنے کی تیاری کا آغاز کردیا، مشن بھیجنے کے لیے خاتون سمیت چار خلاء نووردوں کے ناموں کا اعلان کر دیا گیا۔

    اس حوالے سے غیرملکی خبر رساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق ناسا کا خلائی مشن چاروں خلانوردوں کو لے کر اگلے سال کے اوائل میں چاند پر جائے گا، چاند پر جانے والوں میں ریڈوائزمین، وکٹرگلوور، کرسٹینا ہیماک اور جیریمی ہینسن مشن میں شامل ہوں گے، آرٹیمس ٹو مشن 2024 پچاس سال بعد ناسا کا پہلا انسان بردار چاند مشن ہے۔

    کرسٹینا کُک

    رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ امریکی خلائی ایجنسی ناسا نے پہلی بار اس مشن کے لیے امریکی خاتون خلانورد کرسٹینا کوچ کو شامل کیا ہے۔ کرسٹینا کوچ کو سب سے طویل مسلسل خلائی پرواز کرنے والی خاتون کا اعزاز بھی حاصل ہے۔ ناسا کے مطابق آرٹیمیس مشن مریخ کے بارے میں بھی نئی کھوج لگائے گا۔

    واضح رہے کہ ناسا کا خلائی مشن چاروں خلانوردوں کو لے کر اگلے سال کے اوائل میں چاند پر جائے گا، جس کے لیے اس ٹیم کی سخت ٹریننگ شروع ہوگئی ہے۔

    رپورٹس کے مطابق ناسا کے آٹیمس ٹو مشن میں خلانوردوں کی یہ 4 رکنی ٹیم چاند پر نہیں اُترے گی لیکن ان کا یہ مشن بعد میں آنے والے خلابازوں کے لیے چاند پر اترنے کی راہ ہموار کرے گا۔

    A person in a helmet and coverall stands beneath a large metal fuel tank hanging from a crane in a vast industrial facility.

    چاند پر آخری بار انسانی خلائی پرواز مشن اپولو 17کے ذریعے دسمبر 1972 میں گئی تھی۔ یاد رہے کہ چاند پر پہلی بار انسانی قدم 1969 میں اپولو مشن 11 کے تحت رکھا گیا تھا۔