Tag: nasa

  • 40 سال تک خلا میں رہنے والا سیٹلائٹ زمین پر گر پڑا

    امریکی خلائی ادارے ناسا کا ایک سیٹلائٹ تقریباً 40 سال تک زمین کے گرد چکر لگانے کے بعد الاسکا کے ساحل کے قریب بغیر کسی نقصان کے گر گیا۔

    ارتھ ریڈی ایشن بجٹ سیٹلائٹ (ای آر بی ایس) نامی سیٹلائٹ کو 1984 میں خلا میں بھیجا گیا تھا جو اتوار کی رات گئے الاسکا سے چند سو میل دور بیرنگ سمندر کے اوپر سے گزرا، سیٹلائٹ کے گرنے والے ملبے سے کسی قسم کے نقصان کی کوئی اطلاع نہیں ملی۔

    ناسا کے مطابق سیٹلائٹ کے کام کا متوقع دورانیہ 2 سال کا تھا تاہم اس کے بعد بھی اس کو متحرک رکھا گیا اور وہ سنہ 2005 تک اوزون اور ماحولیات کے حوالے سے مختلف معلومات ادارے تک پہنچاتا رہا۔

    سیٹلائٹ جائزہ لیتا رہا کہ زمین سورج سے کیسے توانائی جذب کرتی ہے۔

    امریکا کی پہلی خاتون خلا باز سیلی رائیڈ نے روبوٹ آرم کا استعمال کرتے ہوئے اس سیٹلائٹ کو مدار میں چھوڑا تھا۔

    اس مشن میں امریکی کی پہلی سپیس واک بھی شامل تھی جو پہلی بار کیتھرین سلیون نے کی تھی، یہ امریکا کی تاریخ میں پہلی بار تھا کہ 2 خلا نورد خواتین ایک ساتھ خلا میں گئی تھیں۔

  • ناسا کے خلائی جہاز کی زمین پر واپسی کی ویڈیو سامنے آ گئی

    ناسا کے خلائی جہاز کی زمین پر واپسی کی ویڈیو سامنے آ گئی

    ناسا کا خلائی جہاز اورین کیپسول چاند مشن سے واپسی پر اتوار کے روز بہ حفاظت زمین پر اتر گیا۔

    تفصیلات کے مطابق چاند مشن سے واپس آنے والے ناسا خلائی جہاز کو زمین کی فضا میں داخل ہوتے ہی آگ لگ گئی تھی، تاہم چاند مشن آرٹیمس 1 میں شامل ’اورین‘ اسپیس کرافٹ چاند کے گرد آخری پرواز کے بعد کیلیفورنیا میں باجا کے ساحل پر بہ حفاظت اتر گیا۔

    اورین کیپسول چاند کے گرد 25 دن کا سفر مکمل کرنے کے بعد واپس پہنچا ہے، ناسا کا کہنا ہے کہ زمین کی فضا میں داخل ہوتے ہی کیپسول پر آگ لگ گئی تھی، تاہم 3 پیراشوٹس کی مدد سے اورین کیپسول کو بحرالکاہل کے کیلیفورنیا جزیرہ نُما میں اتار لیا گیا۔

    بحر الکاہل کی طرف آتے ہوئے، اورین کیپسول نے اُس کارکردگی کا مظاہرہ کیا جسے ’اسکپ انٹری‘ کے نام سے جانا جاتا ہے، یہ ایک نئی تکنیک ہے جسے سائنس دانوں نے خلائی جہاز کو بہ حفاظت زمین پر اتارنے کے لیے بنائی ہے، اورین کیپسول نے تاریخ میں پہلی بار کسی انسانی خلائی جہاز کے لیے اس تکینیک کا استعمال کیا، یہ تدبیر بحرالکاہل میں اپنے لینڈنگ کی جگہ کی نشان دہی کرنے کے لیے بنائی گئی ہے۔

    اس تکنیک کے تحت خلائی جہاز زمین کے اوپری ماحول میں جیسے ہی غوطہ لگاتا ہے، یہ اس ماحول اور کیپسول کے لفٹ کو ایک ساتھ استعمال کرتے ہوئے زمین کے اس اوپری ماحول سے واپس باہر چلا جاتا ہے، اور اس کے بعد پیراشوٹس کے ساتھ واپس نیچے آتا ہے۔

    اب جب کہ اورین بحفاظت زمین پر واپس آ چکا ہے، ناسا ان تمام اعداد و شمار کا جائزہ لینا شروع کرے گا جو خلائی جہاز نے خلا میں اپنے 1.4 ملین میل کے سفر کے دوران جمع کیا ہے، اور آرٹیمیس II کی تیاری شروع کر دے گا۔

    آرٹیمس ٹو وہ مشن ہے جو 2024 کے لیے شیڈول کیا گیا ہے، اس مشن میں انسانی خلا بازوں کو اورین خلائی جہاز پر اڑتا ہوا دیکھا جائے گا، اور اس کے بعد 2025 یا 2026 کے اوائل میں (1972 کے اپالو پروگرام کے بعد سے) چاند پر اپنی پہلی لینڈنگ کو انجام دے گا۔

  • تاریخی چاند مشن پر جانے والا اورین کیپسول واپسی پر کہاں گرے گا؟

    تاریخی چاند مشن پر جانے والا اورین کیپسول واپسی پر کہاں گرے گا؟

    خلا میں سب زیادہ دور تک سفر کرنے والا، اور تاریخی ’چاند مشن‘ مکمل کر کے واپس آنے والا اورین کیپسول واپسی پر بحرالکاہل میں گرنے والا ہے۔

    ناسا کے مطابق اورین کیپسول 3 ہفتوں کی آزمائشی پرواز کے بعد بحر الکاہل میں گرنے والا ہے، اس ٹیسٹ فلائٹ میں چاند کے قریب سے گزرنا اور خلا میں (کسی قابل رہائش خلائی جہاز کے) اب تک کی سب سے زیادہ دوری پر جانے کا سفر شامل تھا۔

    توقع کی جا رہی ہے کہ یہ کیپسول اتوار کو میکسیکو کے جزیرے گواڈیلوپ میں مقامی وقت کے مطابق صبح دس بجے کے قریب گرے گا۔

    ناسا کے مطابق اب تک اورین کی پرواز بہت اچھی رہی ہے، اس میں تین عدد ڈمیوں پر مشتمل مصنوعی عملہ رکھا گیا تھا۔ اورین کی لانچنگ نے پچھلے مہینے ناسا کے آرٹیمس پروگرام کا آغاز کیا تھا، جس کا مقصد لوگوں کو چاند پر واپس لے جانا اور کسی دن مریخ کے آگے کے سفر کی تیاری کرنا ہے۔

    خلائی کیپسول کا نقلی عملہ

    نومبر کے آخر میں یہ کیپسول اپنے 25 دن کے مشن کے وسط میں زمین سے 4 لاکھ 32 ہزار 210 کلومیٹر (268,563 میل) کا سفر طے کرتے ہوئے خلا میں سب سے زیادہ دور تک پہنچ گیا تھا۔ یہ 1970 میں اپالو 13 کے عملے کے طے کردہ ریکارڈ فاصلے سے تقریباً 32 ہزار 187 کلومیٹر (20,000 میل) زیادہ ہے۔ اپالو کو اس وقت چاند پر لینڈنگ کو روکنا پڑا تھا جب ایک تباہ کن مکینیکل خرابی کے باعث اسے واپس زمین پر آنا پڑا۔

    پیر کے روز، اورین نے چاند کی سطح کے 130 کلومیٹر (80 میل) کے اندر سفر کیا، یہ نصف صدی قبل اپالو 17 کی پرواز کے بعد سے انسانوں کو لے جانے کے لیے بنائے گئے خلائی جہاز کی چاند کے سب سے قریب ترین پہنچنے والی پرواز تھی۔

    لیکن، آج اتوار کو اورین کے سفر کے آخری لمحات میں ہی اسے حقیقی چیلنج کا سامنا کرنا ہے، یعنی یہ دیکھنا ہے واپسی کے سفر میں کیپسول کی ہیٹ شیلڈ (اب تک کی سب سے بڑی) واقعتاً سلامت رہتی ہے یا نہیں۔ توقع ہے کہ یہ خلائی جہاز زمین کے ماحول میں 40 ہزار کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے ٹکرائے گا، اور اس دوران اسے 2,800 ڈگری سیلسیس (5,072 ڈگری فارن ہائیٹ) کو برداشت کرنا پڑے گا، یعنی سورج کی سطح کے تقریبا نصف درجہ حرارت۔

  • چاند پر دوبارہ قدم، اس بار ناسا کا راکٹ کامیابی سے لانچ ہو گیا

    چاند پر دوبارہ قدم، اس بار ناسا کا راکٹ کامیابی سے لانچ ہو گیا

    فلوریڈا: نصف صدی بعد چاند پر دوبارہ قدم رکھنے کے امریکی منصوبے کے تحت اس بار ناسا کا آرٹیمس وَن مشن کامیابی سے لانچ ہو گیا۔

    امریکی خلائی ادارے ناسا کے مطابق اپالو کے پچاس سال بعد ناسا کا آرٹیمس وَن مشن کامیابی سے لانچ ہو گیا، خلائی جہاز امریکی وقت کے مطابق رات پونے دو بجے فلوریڈا کے کینیڈی اسپیس سینٹر سے روانہ کیا گیا۔

    ناسا کا نیا راکٹ آرٹمس اپالو کے مقابلے میں کہیں زیادہ بڑا، طاقت ور، زیادہ بہتر اور جدید آلات سے آراستہ ہے، اس کی اونچائی 322 فٹ ہے اور یہ خلائی شٹل کی طرح کام کرتا ہے۔

    لانچ کے وقت 100 میٹر لمبی آرٹیمس گاڑی روشنی اور آواز کے شان دار امتزاج کے درمیان آسمان کی طرف پرواز کر گئی، جس کا مقصد ایک خلاباز کیپسول کو چاند کی سمت پھینکنا تھا۔

    امریکا کا نصف صدی بعد دوبارہ چاند کی تسخیر کا منصوبہ آخری لمحات میں ناکام

    اس مخصوص پرواز کے لیے اورین کے نام سے جانا جانے والے اس خلائی جہاز میں کوئی عملہ سوار نہیں تھا، لیکن اگر سب کچھ منصوبے اور توقعات کے مطابق رو بہ عمل آتا ہے، تو اگلے مرحلے پر چاند کی سطح پر اترنے کے لیے اس خلائی جہاز میں انسان بھی روانہ کیے جائیں گے۔

    بدھ کی یہ پرواز اگست اور ستمبر میں 2 پچھلی لانچ کی کوششوں کے بعد کی کامیاب کوشش تھی، پچھلی مرتبہ تکنیکی خرابیوں کی وجہ سے پروازیں الٹی گنتی کے دوران ہی روک دی گئی تھیں۔

    واضح رہے کہ امریکا نے 2025 تک خلا بازوں کو بھیجنے کی منصوبہ بندی کی ہے، یہ ایک طویل قیام کی منصوبہ بندی ہے، کیوں کہ چاند مشن 2040 کی دہائی میں مریخ کے لیے پروازوں کی بنیاد رکھے گا۔

    SLS ناسا کی اب تک کی سب سے طاقتور گاڑی ہے، اور یہ اس کے آرٹیمس (Artemis) پروجیکٹ کے لیے ایک بنیاد کی مانند ثابت ہوگی، جس کا مقصد 50 سال کی غیر موجودگی کے بعد لوگوں کو چاند کی سطح پر واپس لانا ہے۔

    ناسا کے مطابق اس راکٹ کا کام اورین نامی ٹیسٹ کیپسول کو زمین سے بہت دور چاند کی طرف پہنچانا ہے، یہ خلائی جہاز 6 ہفتوں کے دوران واپسی سے قبل چاند کے گرد ایک بڑے قوسی دائرے میں گھومے گا اور پھر بحر الکاہل میں آ کر گر جائے گا۔

    ناسا کے خلاباز رینڈی بریسنک نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ آرٹیمیس I کی پرواز کے ہم یہ دیکھنا چاہ رہے ہیں کہ کیا کیا خطرات پیش آ سکتے ہیں، جس کی وجہ سے آرٹیمیس II کے عملے کے مشن کے لیے خطرہ کم ہو جائے گا۔

  • ناسا کا اسپیس کرافٹ خود کش مشن کامیاب، سیارچے نے رُخ بدل دیا

    ناسا کا اسپیس کرافٹ خود کش مشن کامیاب، سیارچے نے رُخ بدل دیا

    واشنگٹن: زمین کو سیارچوں سے محفوظ رکھنے کا ناسا کا تاریخی مشن کامیاب رہا، سیارچے کا مدار تبدیل ہو گیا۔

    ناسا کے مطابق گزشتہ ماہ ناسا کے ڈارٹ مشن نے ٹکراؤ کے بعد کامیابی سے سیارچے کے مدار کو تبدیل کر دیا ہے، یہ تجربہ یہ دیکھنے کے لیے کیا گیا تھا کہ کیا مستقبل میں ایک بڑی چٹان کو زمین کے راستے سے ہٹایا جا سکتا ہے، تجربہ کامیاب رہا اور پہلی بار انسانوں نے خلا میں کسی شے کی حرکت کو تبدیل کیا۔

    ناسا کے مطابق دوربین کے مشاہدات کے نتائج سے پتا چلتا ہے کہ 26 ستمبر کو ’ڈبل ایسٹرائڈ ری ڈائریکشن ٹیسٹ (ڈارٹ)‘ کے خلائی جہاز کی خودکش آزمائشی پرواز نے اپنا بنیادی مقصد حاصل کر لیا یعنی سیارچے کی خطِ حرکت (اس کی پوزیشن) کو تبدیل کر دیا۔ ناسا کی جانب سے یہ اپنی نوعیت کا پہلا تجربہ تھا۔

    یہ سیارچہ ہر 11 گھنٹے، 55 منٹ میں ایک بار خود سے پانچ گنا بڑے سیارچے ڈیڈیموس کے گرد چکر لگا رہا تھا۔ ڈارٹ مشن کے ٹکراؤ کے بعد اس کے چکر میں 32 منٹ کا فرق آ گیا ہے۔

    ڈارٹ کے آخری لمحات کی تصویر جب وہ سیارچے ڈائی مارفس کے ساتھ ٹکرانے والا تھا

     

    ناسا کے سربراہ بل نیلسن نے کہا کہ یہ زمین کے دفاع کے لیے ایک سنگ میل اور انسانیت کے لیے ایک ناقابل فراموش لمحہ ہے، یہ مشن ظاہر کرتا ہے کہ کائنات ہماری زمین کی طرف جو کچھ بھی پھینکے گی، ہم اس کے لیے تیار رہیں گے۔

    ناسا کے مطابق زمین سے بھیجا گیا تجرباتی اسپیس شپ سیارچے ڈائی مورفس سے ٹکرا کر تباہ ہو گیا تھا، اور سیارچے ڈائی مورفس کا راستہ کامیابی سے تبدیل کر دیا تھا، اس کامیابی پر نا سا کے انجینئرز اور ماہرین خوشی سے جھوم اٹھے۔

    یاد رہے کہ 26 ستمبر کو ڈارٹ اسپیس کرافٹ 23 ہزار 500 کلو میٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے سیارچے سے ٹکرایا تھا۔ اس طریقے کو زمین کی طرف بڑھنے والے سیارچوں کی روک تھام کے لیے اہم اقدام قرار دیا جا رہا ہے، ناسا کے مطابق 33 کروڑ ڈالر کے ڈارٹ مشن کی تکمیل میں 7 سال لگے۔

    خلا میں موجود جس پتھر (سیارچے) کو نشانہ بنایا گیا وہ تقریباً ایک فٹ بال اسٹیڈیم جتنا تھا، جب کہ زمین سے بھیجا گیا ڈارٹ مشن (اسپیس کرافٹ) ایک وینڈنگ مشین جتنا تھا، یہ پچھلے سال لانچ کیا گیا تھا، اور یہ اس وقت تباہ ہو گیا جب یہ 22 ہزار پانچ سو کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے زمین سے ایک کروڑ 10 لاکھ کلومیٹر دور سیارچے سے ٹکرا گیا۔

  • نصف صدی بعد چاند پر انسانی قدم، ناسا کا راکٹ آج اڑے گا

    نصف صدی بعد چاند پر انسانی قدم، ناسا کا راکٹ آج اڑے گا

    پچاس سال بعد چاند پر ایک بار پھر انسانی قدم رکھنے کے لیے امریکا آج راکٹ روانہ کرے گا۔

    تفصیلات کے مطابق امریکا کی نصف صدی بعد ایک بار پھر چاند پر انسانی مشن بھیجنے کی تیاریاں مکمل ہو چکیں، چاند کے لیے پہلا آزمائشی مشن آج فلوریڈا کے اسپیس اسٹیشن سے روانہ ہوگا۔

    امریکا نے 2025 تک خلا بازوں کو بھیجنے کی منصوبہ بندی کی ہے، یہ ایک طویل قیام کی منصوبہ بندی ہے، کیوں کہ چاند مشن 2040 کی دہائی میں مریخ کے لیے پروازوں کی بنیاد رکھے گا۔

    امریکی خلائی ایجنسی ناسا اپنے اس دیوہیکل نئے چاند راکٹ کو آج فلوریڈا کے اسپیس اسٹیشن سے روانہ کرے گا، ناسا کے مطابق چاند پر انسانی مشن بھیجنے میں کامیابی انسانوں کو مریخ پر اتارنے کی راہ ہموار کرے گی۔

    اس بار خلا باز طویل عرصے تک چاند پر قیام کریں گے اور مریخ مشن کے لیے ڈیٹا اکٹھا کریں گے۔

    SLS ناسا کی اب تک کی سب سے طاقتور گاڑی ہے، اور یہ اس کے آرٹیمس (Artemis) پروجیکٹ کے لیے ایک بنیاد کی مانند ثابت ہوگی، جس کا مقصد 50 سال کی غیر موجودگی کے بعد لوگوں کو چاند کی سطح پر واپس لانا ہے۔

    ناسا کے مطابق اس راکٹ کا کام اورین نامی ٹیسٹ کیپسول کو زمین سے بہت دور چاند کی طرف پہنچانا ہے، یہ خلائی جہاز 6 ہفتوں کے دوران واپسی سے قبل چاند کے گرد ایک بڑے قوسی دائرے میں گھومے گا اور پھر بحر الکاہل میں آ کر گر جائے گا۔

    ناسا کے خلاباز رینڈی بریسنک نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ آرٹیمیس I کی پرواز کے ہم یہ دیکھنا چاہ رہے ہیں کہ کیا کیا خطرات پیش آ سکتے ہیں، جس کی وجہ سے آرٹیمیس II کے عملے کے مشن کے لیے خطرہ کم ہو جائے گا۔

  • خلائی زندگی کی کیا حقیقت ہے؟ ہوشربا انکشافات

    خلائی زندگی کی کیا حقیقت ہے؟ ہوشربا انکشافات

    خلا نوردوں کو خلائی سفر میں پیش آنے واقعات اور حالات سے متعلق بہت ساری باتیں اور کہانیاں ہم نے سن اور پڑھ رکھی ہیں۔

    ان باتوں میں حقیقت کا تعلق کہاں تک ہے؟ اس کا تعین یقینی طور پر نہیں کیا جاسکتا کیونکہ کچھ باتیں اور واقعات مبہم ہیں جن کی تصدیق کا کوئی مصدقہ ثبوت سامنے نہیں آسکا۔

    خلائی مخلوق اوران کے جہاز دکھنے کے دعوے، مریخ کا غیر معمولی طور پر بڑا ہونا، یا چاند کا سبز ہو جانا وہ معلومات ہیں جو آپ کو شک میں مبتلا کر سکتی ہیں اور ان کی حقیقت معلوم ہونا آپ کے لیے انتہائی ضروری ہے۔

    یہاں ہم آپ کو کچھ سب سے بڑی خلائی خرافات یا سازشی نظریات کے بارے میں بتا رہے ہیں۔

    Apollo 11 moon landing | New Scientist

    اپولو کی چاند پر فرضی لینڈنگ

    1969اور1972 کے درمیان امریکی خلائی ادارے ناسا کے بارہ خلانوردوں نے چاند پر چہل قدمی کی اور لونر ریکونیسینس آربیٹر نے لینڈنگ سائٹس کی نئی تصاویر جاری کیں۔

    پہلی بار چاند پر قدم رکھنے کے بعد کی دہائیوں میں بہت سے نظریات پیش کئے گئے جن میں دعویٰ کیا گیا کہ اپولو کا پورا پروگرام اسٹیج کیا گیا تھا۔

    چاند پر چلنے والوں کی تصویروں میں آسمان پر ستارے کیوں نہیں ہوتے؟ سطح پر امریکی پرچم کیوں لہرا رہے ہیں؟ آپ کو تصویروں میں قدموں کے نشانات نظر آتے ہیں لیکن وہاں اترنے والے قمری ماڈیولز کے کوئی نشان کیوں نہیں؟

    یہ وہ سوال ہے جو سازشی نظریے کی سپورٹ میں دلیل کے طور پر پیش کئے جاتے ہیں۔ ان سوالات کے جوابات آپ کی سوچ سے کہیں زیادہ آسان ہیں۔

    آسمان میں کوئی ستارے نہیں ہیں اس کی وجہ وہی ہے جس سے آپ کو زمین پر دن کے وقت ستارے نظر نہیں آتے، سطح پر دن کی روشنی کی چمک انہیں دھندلا کردیتی ہے۔

    چاند کی مٹی میں لگائے گئے امریکی جھنڈوں میں دھات کی تاریں ایسے سی گئی تھیں کہ لگے جیسے وہ حرکت کر رہے ہوں۔ ان تاروں کے بغیر، جھنڈا سیدھا نیچے لٹکا ہوا ہوتا، جس سے تصویر انتہائی خراب ہوجاتی۔

    قمری (لیونر) ماڈیولز اگرچہ بھاری تھے، لیکن کچھ جگہوں پر سطح پر نمایاں نشانات اس لیے نہیں پائے گئے کیونکہ ان کا وزن خلابازوں کے جوتے پر موجود وزن سے زیادہ یکساں طور پر منقسم تھا۔

    NASA would get $26 billion in new budget request - The Verge

    ناسا ایک جھوٹ ہے

    کچھ لوگ اصل میں یقین رکھتے ہیں کہ ناسا کا سارا کام خلا کو تلاش کرنا نہیں ہے بلکہ خلا سے متعلق دھوکہ دہی پیدا کرنا ہے۔

    جو لوگ اس سازش پر یقین رکھتے ہیں، انہیں کبھی کبھی سوشل میڈیا پر ہیش ٹیگ “#NASAhoax” کے ساتھ فلیگ کیا جاتا ہے، وہ کہیں گے کہ مریخ، پلوٹو اور یہاں تک کہ زمین کی حیرت انگیز خلائی تصویریں جعلی، کمپیوٹر سے تیار کردہ تصاویر (سی جی آئی ) ہیں۔

    نیشنل ایروناٹکس اینڈ اسپیس ایکٹ کے مطابق حقیقت میں ناسا 1958 میں زمین کی فضا کے اندر اور باہر پرواز کے مسائل اور دیگر مقاصد کے لیے تحقیق فراہم کرنے کے لیے تشکیل دیا گیا تھا۔

    اس قانون پر1958میں اس وقت کے صدر ڈوائٹ ڈی آئزن ہاور نے سوویت یونین کے خلاف خلائی دوڑ کے آغاز کے فوراً بعد دستخط کیے تھے۔ تب سے ناسا نے سیکڑوں سیٹلائٹس زمین، چاند اور کئی دیگر دنیاؤں کے گرد مدار میں بھیجے ہیں۔

    درحقیقت، ناسا کے خلائی جہاز نظام شمسی کے ہر سیارے پر چکر لگاتے، اڑتے یا اترتے ہیں۔ ناسا خلابازوں کو مدار میں بھی بھیجتا ہے، جہاں وہ بین الاقوامی خلائی اسٹیشن (آئی ایس ایس) پر تحقیق کرتے ہیں۔

    Flat Earth, Ancient Aliens, and Science Denial | Grinnell College

    زمین چپٹی ہے

    یہ افسانہ اتنا مشہور ہے کہ یہاں تک کہ اس کے نام پر ایک گروپ “فلیٹ ارتھ سوسائٹی” بھی موجود ہے۔ تنظیم کے ارکان کا کہنا ہے کہ افق ہمیشہ آنکھوں کی سطح پر ہوتا ہے، ان کا کہنا ہے کہ اگر زمین گول ہوتی تو یہ ممکن نہیں ہوتا۔

    ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ خلا سے گردش کرنے والی زمین کی کوئی پوری ویڈیو نہیں ہے جو کہ درست نہیں ہے، کیونکہ ناسا نے سیٹلائٹص سے لی گئی متعدد ویڈیوز شائع کی ہیں، جس میں آئی ایس ایس سے زمین کی لائیو ویڈیو بھی شامل ہے، جو ہمارے سیارے کے گرد دن میں 16 بار چکر لگاتا ہے۔

    یہ جاننے کا ایک طریقہ کہ زمین گول ہے غور کرنا ہوگا کہ سیٹلائٹس کے مدار کیسے کام کرتے ہیں۔ ہمارے سیارے کی کشش ثقل کی وجہ سے سیٹلائٹ مسلسل زمین کے گرد “گھومتے” رہتے ہیں۔ انہیں صرف اتنی اونچائی پر تیز رفتاری سے سفر کرنے کی ضرورت ہے کہ وہ زمین کی فضا میں گھس نہ جائیں۔

    a star in the dark sky

    پلینٹ نائن (نواں سیارہ) ہمیں مار ڈالے گا

    اپریل 2016 میں، نیویارک پوسٹ نے ٹویٹ کیا، “ایک نیا دریافت شدہ سیارہ اس مہینے زمین کو تباہ کر سکتا ہے۔”

    اخبار پلینٹ نائن کا حوالہ دے رہا تھا، جو نظام شمسی کے کنارے پر ایک نظریاتی سیارہ ہے۔ اس حوالے سے یہ بھی دعویٰ کیا گیا ہے کہ نیا سیارہ زمین پر ہر طرح کے شہابِ ثاقب اور ایسٹیرائیڈز پھینکے گا، جو شاید ہمارے سیارے کو مدار سے باہر دھکیل دے گا۔

    اگرچہ سیارے کے وجود کی تصدیق نہیں ہوسکی ہے، لیکن ماہرین فلکیات اس کی تلاش میں ہیں تاکہ برفیلی کوئپر بیلٹ میں کچھ اشیاء کی حرکات کی وضاحت کی جاسکے، جو نیپچون سے آگے برفیلی اشیاء کا ایک وسیع خطہ ہے۔

    کیلیفورنیا انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی کے مائیک براؤن (جو پلینٹ نائن تھیوری کے اصل حامیوں میں سے ایک ہیں) کے مطابق، اگر یہ سیارہ واقعتاً پایا جاتا ہے، تو اس سے ہمارے لیے کوئی خطرہ نہیں ہوگا۔

    Yes, I'm searching for aliens – and no, I won't be going to Area 51 to look for them

    ایریا 51 میں خلائی مخلوق پر تحقیق

    1996 کی فلم “انڈیپینڈنس ڈے” ایریا 51 سے جڑی افواہوں کے ذرائع میں سے ایک ہے، جس میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ ایلین اور ان کی ٹیکنالوجی جو گر کر تباہ ہونے والی طشتریوں سے برآمد ہوئی ہے، پر شمال مغرب امریکا میں تقریباً 80 میل (130 کلومیٹر) دور ایک خفیہ فوجی اڈے پر خفیہ طور پر مطالعہ کیا جا رہا ہے۔

    نیواڈا کے صحرا میں لاس ویگاس بیس کے آس پاس کے کچھ لوگوں کا دعویٰ ہے کہ انہوں نے اس علاقے سے عجیب و غریب پروازیں دیکھی ہیں۔

    جب کہ ایریا 51 پر جاری اصل کام کو خفیہ رکھا گیا ہے۔ امریکی حکومت نے اس کے وجود کو تسلیم کیا ہے (حالانکہ سی آئی اے سرکاری طور پر اسے “ہومے ایئرپورٹ” یا “گروم لیک” کہتی ہے)۔

    یہ ایڈورڈز ایئر فورس بیس کا ایک حصہ ہے، یہ علاقہ 1960 اور 1970 کی دہائیوں میں ہائی ٹیکنالوجی کے ہوائی جہاز کی پروازوں کے لیے مشہور مقام تھا۔

    اس نے سب سے پہلے 1955 کے اوائل میں لاک ہیڈ U-2 اور A-12 OXCART جاسوس طیاروں کے لیے ثابت قدمی کا کام کیا۔

    نیبیرو نام کا ایک قاتل سیارہ

    سازشی نظریہ سازوں کا کہنا ہے کہ ایک اور خطرناک سیارہ نیبیرو ہے، جس کا ذکر پہلی بار 1976 میں زیکریا سیچن کی کتاب “دی ٹویلتھ پلینٹ” میں کیا گیا تھا۔

    کتاب میں سیچن نے قدیم سمیری کیونیفارم کا ترجمہ کیا اور دعویٰ کیا کہ یہ متن نیپچون سے پرے ایک سیارے کا ثبوت ہے جسے نیبیرو کہتے ہیں جو ہر 3,600 سال بعد سورج کے گرد چکر لگاتا ہے۔

    برسوں بعد خود ساختہ سائکک نینسی لیڈر نے دعویٰ کیا کہ اس نے ماورائی دنیا کے ساتھ بات چیت کی ہے جنہوں نے کہا تھا کہ نیبیرو 2003 میں زمین سے ٹکرا جائے گا۔ جب ایسا نہیں ہوا تو تاریخ کو2012 میں منتقل کر دیا گیا (اور یقیناً، 2012 کی قیامت کی پیش گوئیوں کے ساتھ منسلک کیا گیا۔)

    بلاشبہ تصادم کبھی نہیں ہوا، دنیا 2012 میں ختم نہیں ہوئی اور کسی ماہر فلکیات کو کبھی بھی زمین کے ساتھ تصادم کے راستے پر کوئی سیارہ نہیں ملا۔

    Green Moon Wallpapers - Top Free Green Moon Backgrounds - WallpaperAccess

    چاند سبز ہوجائے گا

    سال 2016کے موسم بہار میں ایک افواہ اڑی تھی کہ چاند سبز ہوجائے گا کیونکہ کئی سیارے سیدھ میں آگئے تھے اور ایک خوفناک چمک پیدا ہوگئی تھی۔ افواہ کے مطابق یہ 1596 کے بعد پہلی بار 20 اپریل اور دوبارہ 29 مئی کو ہونا تھا۔

    چاند درحقیقت کبھی سبز نہیں ہوا حالانکہ چاند گرہن کے دوران جب چاند زمین کے سائے سے گزرتا ہے تو یہ سرخ دکھائی دے سکتا ہے۔

    اسی طرح غروب آفتاب میں اکثر سرخ دکھائی دیتا ہے، سورج کی روشنی زمین کے ماحول سے گزرتے وقت بکھر جاتی ہے اور چاند کی سطح پر سرخی مائل سایہ ڈالتی ہے، اسکائی واچنگ کالم نگار جو راؤ نے اس سبز چاند کے افسانے کو انجام تک پہچایا۔

    انہوں نے نشاندہی کی کہ پورا چاند دراصل 22 اپریل 2016 کو ہوا تھا، اور قیاس کیا کہ “گرین مون” کی 20 اپریل کی تاریخ کا تعلق “نیشنل ویڈ ڈے” سے ہو سکتا ہے، جسے 4/20 کے نام سے جانا جاتا ہے۔

    اس بات کو مدنظر رکھتے ہوئے کہ آخری سبز چاند بھی 420 سال پہلے ہوا تھا، ایسا لگتا ہے کہ یہ کوئی اتفاق نہیں ہے۔

    خلائی مخلوق کا جہاز سورج سے ایندھن بھرتے ہوئے پکڑا گیا

    ناسا کے پاس سورج کو دیکھنے والے خلائی جہاز کا ایک بیڑا ہے جو خاص طور پر شمسی دھماکوں کے دوران خلائی موسم پر نظر رکھتا ہے۔

    سال2012میں، ٹیلی اسکوپ سے حاصل کی گئی تصاویر نے سائے میں کچھ دکھایا۔ یوٹیوب پر کچھ ناظرین نے کہا کہ یہ یو ایف او ہو سکتا ہے جو سولر پلازما کا استعمال کرکے ایندھن بھر رہا تھا۔

    تاہم ناسا نے نشاندہی کی کہ یہ خصوصیت دراصل ایک ایسی چیز ہے جسے “پرومیننس (نمایاں ہونا)” کہا جاتا ہے، جس میں سورج یا کورونا کے بیرونی ماحول سے ٹھنڈا اور کثیف پلازما ہوتا ہے۔

    سائنس دان اب بھی یہ جاننے کی کوشش کر رہے ہیں کہ سولر پرومینن کیسے پیدا ہوتی ہے لیکن انہیں یقین ہے کہ اس کا ایلینز سے کوئی تعلق نہیں ہے۔

    مریخ پر ایک خاتون!

    ناسا کے اوپرچیونٹی اور کیوروسٹی روورز باقاعدگی سے مریخ کی سطح کی تصاویر لیتے ہیں جس سے ناظرین کو یہ دیکھنے کا موقع ملتا ہے کہ وہاں حقیقی وقت میں کیا ہورہا ہے۔

    ناسا خام تصاویر کو عوام کے لیے آن لائن رکھتا ہے لیکن ان تصاویر میں برسوں کے دوران کچھ عجیب و غریب شکلیں سامنے آئی ہیں۔

    مثال کے طور پر سال2008میں روور ایک خاتون شخصیت کی تصویر کشی کرتا نظر آیا۔ دیگر تصاویر میں جانوروں، چمچوں یا دیگر اشیاء جیسی شکل والی چیزیں دکھائی گئی ہیں۔

    آپ تصور کرسکتے ہیں کہ مریخ پر دستیاب تمام چٹانوں میں سے کچھ مانوس اشیاء کی طرح نظر آئیں گی۔ درحقیقت انسانی دماغ بے ترتیب نمونوں میں معنی خیز تصویروں کو محسوس کرتا ہے، ایک ایسا رجحان جسے پیریڈولیا کہا جاتا ہے۔

    دعوؤں کا جائزہ لیتے وقت غور کریں کہ مریخ کا ماحول زندگی کے لیے انتہائی سخت ہے جیسا کہ ہم جانتے ہیں۔ سطح تابکاری کے ساتھ سینکی ہوئی ہے، “ہوا” زیادہ تر کاربن ڈائی آکسائیڈ ہے اور ماحول کا زیادہ دباؤ نہیں ہے۔

  • مریخ پر ایلین کے قدموں کے نشانات؟ تصویر وائرل

    مریخ پر ایلین کے قدموں کے نشانات؟ تصویر وائرل

    واشنگٹن : امریکی خلائی تحقیقاتی ادارے ناسا نے دعویٰ کیا ہے کہ مریخ پر ایلین( خلائی مخلوق) موجود ہیں اور ان کے قدموں کے نشانات بھی مل گئے ہیں۔

    امریکی ٹی وی کے مطابق ناسا کی جانب سے تصویر جاری کی گئی ہیں جس میں دکھایا گیا ہے کہ مریخ کی سطح پر قدموں کے نشان موجود ہیں۔ یہ ایلین کی موجودگی کا ثبوت ہے۔

    سوشل میڈیا یہ تصویر نہ صرف وائرل ہورہی ہے بلکہ صارفین کی جانب سے بھی اس پر کمنٹس بھی کیے جارہے ہیں، ان صارفین نے مریخ پر قدم کے نشان کی خوبصورت تصویر کو ایک منفرد انداز میں تشبیہ دی ہے۔

    ایک صارف نے لکھا کہ مریخ پر اس اجنبی قدم کا نشان حیرت انگیز ہے، خدا کی تمام تخالیق خوبصورتی پر محیط ہیں اور کائنات اس سے مستثنیٰ نہیں ہے۔

    تاہم ماہرین کا کہنا تھا کہ یہ دعویٰ قبل از وقت ہے۔ محض چند نشانات کی بنیاد پر ایلین کی موجودگی کو ثابت نہیں کیا جا سکتا۔

    ان ماہرین کا یہ بھی کہنا تھا کہ یہ تصویریں کسی سیارچے کی ہوسکتی ہیں کیونکہ ناسا کبھی بھی نہیں چاہے گا کہ ایلین کی تصویریں سامنے آئیں۔

    دریں اثنا ایک اور برطانوی خبر رساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق مریخ پر ایلین کی موجودگی کی تلاش کے لئے سیارے پرلینڈنگ کے لیے ایک روبوٹ اتارنے کی جگہ کا انتخاب کر لیا گیا ہے۔

    لینڈنگ سائٹ کے انتخاب پر چار برس سے بحث جاری تھی۔ یہ روبوٹ یورپ اور روس کے ماہرین نے مل کر تیار کیا ہے۔

  • خلا میں روس کی پارٹنر شپ ختم ہونے کے بعد ناسا کا کڑا امتحان

    خلا میں روس کی پارٹنر شپ ختم ہونے کے بعد ناسا کا کڑا امتحان

    روس کی خلائی معاونت بند کیے جانے کے سبب، عالمی خلائی اسٹیشن میں روس کا اشتراک ختم ہوجانے کے بعد ناسا نے اسٹیشن کو اپنے طور پر چلانے کے لیے کوششیں شروع کردی۔

    بین الاقوامی میڈیا رپورٹ کے مطابق روس کی جانب سے عالمی خلائی اسٹیشن کے متعلق دھمکی کے بعد ناسا نے زمین کے نچلے مدار میں اس اسٹیشن کو روس کی مدد کے بغیر چلانے کی راہیں تلاش کرنا شروع کردیں۔

    ایسا 24 فروری کو روس کی جانب سے یوکرین پر حملہ کرنے کے بعد ہوا جب امریکا کی جانب سے پابندیوں کا سیلاب روس پر عائد کر دیا گیا، جس میں خلائی انڈسٹری میں تعاون کو بھی محدود کرنا شامل ہے۔

    گزشتہ ہفتے روسی اسپیس ایجنسی کے سربراہ دیمتری روگوزن نے امریکا کی جانب سے اپنے اسپیس پروگرام پر عائد کی جانے والی پابندیوں کے خلاف خبردار کیا تھا اور اس کی مرمت کو روک دینے کی دھمکی دی تھی، جس کے نتیجے میں 500 ٹن وزنی بین الاقوامی خلائی اسٹیشن مدار سے باہر ہوتے ہوئے گرنے کا خدشہ تھا۔

    روسی کارگو اسپیس شپ اسٹیشن کی پروپلژ کو مینج کرتے ہیں اور اس کو زمین سے 253 میل اوپر مدار میں رکھتے ہیں۔ ان کی باقاعدہ ایڈجسٹمنٹ نہ ہونے کے سبب یہ اسٹیشن واپس زمین پر گر جائے گا۔

    ناسا کا کہنا ہے کہ وہ روسی مدد کے بغیر اسٹیشن کو مدار میں رکھنے کی راہیں تلاش کر رہا ہے، جن میں اسپیس ایکس اور نارتھرپ گرومن کے کمرشل کارگو وہیکلز کا استعمال شامل ہے۔

  • مریخ پر موجود ”انسان“، ناسا کی تصویر نے ہلچل مچا دی

    مریخ پر موجود ”انسان“، ناسا کی تصویر نے ہلچل مچا دی

    امریکی خلائی ادارے ناسا کے پرسیورینس روور کی جانب سے لی گئی تصویر نے لوگوں کو یہ سوچنے پر مجبور کر دیا ہے کہ کیا مریخ پر انسان رہ سکتا ہے۔

    زیرِ گردش تصویر میں ایک چٹان پر موجود پُراسرار چیز کو دیکھا جا سکتا ہے جسے یو اید او ماہرین اور نظریہ کار غیر معمولی چیز کے طور پر دیکھتے ہیں۔

    اسکوٹ سی وارنگ نامی شخص کا کہنا ہے کہ اسے انٹرنیٹ پر براؤزنگ کے دوران یہ تصویر ملی جو مریخ پر ناسا کی جانب سے 2021 میں لی گئی ہے۔

    تصویر میں بہت سی چٹانوں کو دیکھا جا سکتا ہے تاہم ان میں سے ایک چٹان پر کسی چیز کی موجودگی نے اسکوٹ کی توجہ حاصل کرلی۔ اسکوٹ کی جانب سے نشاندہی کرنے کے بعد سوشل میڈیا پر نئی بحث چھڑ گئی ہے۔

    اسکوٹ نے تصویر میں ایک شخص کی نشاندہی کی ہے جو چٹان پر لیٹا ہے۔ اس نے سیاہ رنگ کے کپڑے پہنے ہوئے ہیں۔ اس کے بال سرخ ہیں جبکہ اس کے اردگرد انسانی قدموں کے نشان بھی موجود ہیں۔

    کیا اس تصویر میں موجود چیز کوئی انسان ہے اور کیا مریخ پر انسان رہ سکتا ہے؟ اس پر ناسا کی جانب سے وضاحت آنا باقی ہے۔