Tag: nasa

  • زمین کو خطرہ؟ یکم جون کو ایک بڑا سیارچہ قریب سے گزرے گا

    زمین کو خطرہ؟ یکم جون کو ایک بڑا سیارچہ قریب سے گزرے گا

    واشنگٹن: ناسا کا کہنا ہے کہ بھارت میں موجود مجسمہ اتحاد سے بھی بڑا سیارچہ یکم جون کو زمین کے قریب سے گزرے گا، جو ممکنہ طور پر خطرناک ثابت ہو سکتا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق یکم جون کو زمین سے 72 لاکھ کلو میٹر فاصلے سے ایک سیارچہ گزرے گا، ناسا کا کہنا ہے کہ اس کا سائز بھارتی شہر گجرات میں ایستادہ ولبھ بھائی پٹیل کے 182 میٹر بلند مجسمے سے بھی بڑا ہے اور اس کا سائز 186 میٹر ہے۔

    ناسا نے اس سیارچے (Asteroid) کو KT1 کا نام دیا ہے، اگرچہ اس کا فاصلہ زمین اور چاند کے درمیان فاصلے سے بھی 20 گنا زیادہ ہے تاہم اس کے باوجود اس کو فلکیاتی پیمانے پر ’قریب‘ سمجھا جاتا ہے۔

    66 ملین سال پہلے جب قُطر میں محض چند کلو میٹر پر مشتمل ایک سیارچہ زمین سے ٹکرایا تھا، تو اس نے ہمارے نیلے سیارے پر پودوں اور جانوروں کی تین چوتھائی نسل کا صفایا کر دیا تھا، ان میں ڈائناسارز بھی شامل تھے، اور اس سے جو دھماکا ہوا وہ کئی لاکھ نیوکلیئر ہتھیاروں کے بہ یک وقت دھماکے کے برابر تھا۔

    سیارچوں پر نگاہ رکھنے کے لیے ناسا کی قائم کردہ جیٹ پروپلژن لیبارٹریز کے مطابق کے ٹی وَن نامی یہ سیارچہ 31 مئی سے 2 جون کے درمیان زمین سے نہایت نزدیکی میں گزرنے والے پانچ سیارچوں میں سے ایک ہے۔

    ایک بس جتنا سیارچہ آج (اکتیس مئی) کو زمین کے قریب سے گزرے گا، اس کا فاصلہ چاند کے فاصلے کا ایک تہائی ہوگا، دیگر سیارچوں میں دو ایسے ہیں جو عام گھر جتنے ہیں، اور ایک سیارچہ ہوائی جہاز جتنا ہے، یہ سیارچے زمین سے 11 لاکھ کلو میٹر سے لے کر 59 لاکھ کلو میٹر کے درمیان فاصلوں سے گزریں گے۔

    اسپیس ایجنسی کا کہنا ہے کہ چوں کہ ان سیارچوں کا سائز چھوٹا ہے اس لیے یہ نقصان دہ نہیں ہیں، تاہم کے ٹی وَن سیارچہ سائز میں بڑا ہے، ناسا ہر اس سیارچے کو ممکنہ خطرناک قرار دیتا ہے جو 150 میٹر سے بڑا اور 75 لاکھ کلو میٹرز کے فاصلے کے اندر ہو۔

    ناسا ایسے سیاروں کا باریک بینی سے مشاہدہ کرتا ہے، کیوں کہ وقت کے ساتھ ساتھ متحرک سیاروں سے آنے والی کشش ثقل کھینچاؤ میں تبدیلی کی وجہ سے کوئی سیارچہ اپنا راستہ تبدیل کر سکتا ہے۔

    مذکورہ سائز کا کوئی سیارچہ اگر زمین سے ٹکرا جائے تو اس سے ہمارے نیلے سیارے پر تباہ کن اثر پڑ سکتا ہے، خوش قسمتی سے ناسا ایسی ٹیکنالوجیز تیار کر چکا ہے جسے خلا میں بھیج کر خطرناک سیارچے کو ٹکڑے ٹکڑے کیا جا سکتا ہے۔

  • مریخ پر آکسیجن، ناسا نے بڑی کامیابی حاصل کر لی

    مریخ پر آکسیجن، ناسا نے بڑی کامیابی حاصل کر لی

    واشنگٹن: امریکی خلائی تحقیقاتی ادارے ناسا نے سرخ سیارے پر زندگی کے لیے ضروری عنصر آکسیجن کی تیاری میں کامیابی حاصل کر لی۔

    تفصیلات کے مطابق مریخ پر ناسا کا خلائی مشن Perseverance کاربن ڈائی آکسائیڈ سے آکسیجن تیار کرنے میں کامیاب ہو گیا، 20 اپریل کو ’پرسیورینس مارس رووَر‘ نے مریخ کے ماحول سے کاربن ڈائی آکسائیڈ کو اکٹھا کر کے اسے سانس لینے کے قابل آکسیجن میں تبدیل کر دیا۔

    یہ کارنامہ ناسا کی اس جدید اور نئی خلائی گاڑی جو چھ پہیوں والا روبوٹ ہے، نے مریخ پر اپنی 60 ویں دن انجام دیا، اس مشن نے مریخ پر 18 فروری کو لینڈ کیا تھا۔

    ناسا کے اس مشن پرسیورینس کا اصل مقصد تو مریخ پر زندگی کے آثار کو تلاش کرنا ہے، تاہم اس کے ساتھ ساتھ اس خلائی گاڑی کو دیگر سائنسی تجربات کے لیے بھی استعمال کیا جا رہا ہے۔

    خیال رہے کہ ناسا کی فضا کاربن ڈائی آکسائیڈ سے بھرپور ہے، اس ہدف کو پورا کرنے کے لیے خلائی گاڑی پر ٹوسٹر (ٹوسٹ گرم کرنے والی مشین) جتنا ایک آلہ لگایا گیا ہے، جسے MOXIE کا نام دیا گیا ہے یعنی مارس آکسیجن انسیٹو ریسورس یوٹیلائزیشن ایکسپیریمنٹ۔

    اس آلے کے ذریعے کاربن ڈائی آکسائیڈ کے مالیکیولز سے آکسیجن ایٹمز کو الگ کیا گیا، اور اس کے لیے گیس کو لگ بھگ 1470 ڈگری فارن ہائیٹ پر گرم کر کے کاربن مونو آکسائیڈ تیار کیا گیا۔

    اس آلے کے پہلے تجربے کے دوران 5 گرام آکسیجن تیار ہوئی، جس سے ایک خلا باز 10 منٹ تک اپنے اسپیس سوٹ میں سانس لے سکتا ہے، ناسا کے مطابق اس تجربے کی کامیابی سے مستقبل کے مشنز کے لیے ایک نیا ذریعہ ہاتھ آیا ہے، بالخصوص ایسے مشنز جن میں انسانوں کو راکٹوں میں مریخ پر بھیجا جائے گا، جہاں انھیں آکسیجن کی ضرورت ہوگی۔

    ناسا کا کہنا ہے کہ مریخ پر 4 انسانوں کو لے جانے والے راکٹ میں 55 ہزار پاؤنڈ آکسیجن بھیجنے کی ضرورت ہوگی، مگر مریخ تک اتنی زیادہ مقدار میں آکسیجن بھیجنا ممکن نہیں، اس لیے اس نئی ٹیکنالوجی سے مستقبل کے مشنز کے لیے سرخ سیارے کی کھوج زیادہ آسان ہوسکے گی۔

    واضح رہے کہ یہ پہلی بار ہے جب زمین سے باہر کسی جگہ آکسیجن تیار کرنے میں کامیابی حاصل کی گئی ہے۔ یہ مشن دراصل مریخ پر مائیکروبیل (microbial) زندگی کے آثار کی تلاش کا کام کر رہا ہے، جو 3 ارب برس قبل مریخ پر موجود تھے، جب نظام شمسی کا چوتھا سیارہ سورج سے زیادہ گرم ، نم اور زندگی کے لیے ممکنہ طور پر سازگار تھا، سائنس دانوں نے اس کے لیے امید بھی ظاہر کی ہے۔

  • چاند پر گھر کا ماہانہ کرایہ کتنا ہوگا؟ جان کر آپ کے ہوش اڑ جائیں گے

    چاند پر گھر کا ماہانہ کرایہ کتنا ہوگا؟ جان کر آپ کے ہوش اڑ جائیں گے

    واشنگٹن: خلائی تحقیق کے امریکی ادارے ناسا نے اب چاند پر باقاعدہ رہائش اختیار کرنے کا منصوبہ شروع کر دیا ہے، اس سلسلے میں پہلا مشن 2024 میں بھیجا جائے گا۔

    تفصیلات کے مطابق چاند پر انسانوں کی آباد کاری کے لیے حالات کا جائزہ لینے ناسا ایک مرد اور عورت کو بھیجنے کی تیاری کر رہا ہے، ناسا 2024 میں اپنے پہلے مشن میں خاتون کو چاند پر روانہ کرے گا، اس کے بعد مرد کو بھی بھیجا جائے گا۔

    لیکن کیا آپ سوچ سکتے ہیں کہ چاند پر زندگی گزارنے کا خواب کتنا مہنگا ہو سکتا ہے، تعمیراتی کمپنیوں نے اندازہ لگایا ہے کہ چاند کی سطح پر گھر بنانے میں 40 ملین ڈالر لاگت آئے گی، اور چاند پر بنائے گئے گھر کا ماہانہ کرایہ 3 لاکھ 25 ہزار 67 ڈالر ہوگا۔

    چاند کے سیاحتی دورہ کرنے کا نادر موقع! جاپانی ارب پتی کا بڑا اعلان

    چاند پر زندگی گزارنے کا خیال تو دل چسپ ہے تاہم وہاں آپ کو مختلف حالات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے، چاند پر آپ کو ایسے ذرائع درکار ہوں گے جن کی مدد سے توانائی حاصل کی جا سکے، وہاں گرین ہاؤسز اور سولر پینلز کی ضرورت ہوگی۔ چاند پر بجلی پیدا کرنے کے لیے ایک چھوٹا سا نیوکلیئر ری ایکٹر بھی ساتھ لے جانا ہوگا جس کی قیمت 1.3 بلین ڈالر ہے۔

    متبادل کے طور پر 34 سولر پینل بھی ساتھ لے جایا جاسکتا ہے جو ایک گھر چلانے کے لیے کافی ہوگا، جس کی لاگت 23 ہزار 616 ڈالر بنتی ہے، چاند پر رہائش اختیار کرنے سے قبل وہاں رہنے اور سبزیاں اگانے کے طریقے بھی سیکھنے ہوں گے، چاند پر 7 گھروں میں 28 لوگوں کو 1100 کلو خوراک اگانی ہوگی۔

    روس 45 برسوں میں پہلی بار چاند کی کھوج دوبارہ شروع کر رہا ہے

    خوراک اگانے اور دیگر کاموں کے لیے قابل استعمال، 4 افراد پر مشتمل ایک گھر کو سال میں 5.9 ٹن پانی درکار ہوگا۔ خیال رہے کہ ناسا کا کہنا ہے کہ چاند کے جس حصے پر سورج کی روشنی پڑتی ہے وہاں پانی تو ہے لیکن وہ گلہ بانی کے لیے قابل استعمال نہیں، چاند پانی کا مسئلہ استعمال شدہ پانی کو فلٹر کر کے ہی حل کیا جا سکتا ہے۔

  • کیا خلائی مشن کو سیارہ مشتری پر جنات اور پریاں دکھائی دیں؟

    کیا خلائی مشن کو سیارہ مشتری پر جنات اور پریاں دکھائی دیں؟

    امریکی خلائی تحقیقاتی ادارے ناسا کا کہنا ہے کہ روبوٹک خلائی مشن جونو نے سیارہ مشتری کی بالائی فضا میں مافوق الفطرت مخلوق جنات اور پریاں دیکھیں۔

    ناسا کا کہنا ہے کہ جونو سے حاصل ہونے والی تصاویر میں 2 اقسام کی تیز روشنیاں نظر آئیں، یہ روشنیاں اسپرائٹس (پریاں) اور ایلوز (جن) تھے۔

    اس اقسام کی روشنیاں زمین پر دیکھی جاتی رہی ہیں تاہم کسی دوسرے سیارے پر یہ پہلی بار دیکھی گئیں۔

    امریکی خبر رساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق یورپی افسانوں کے مطابق اسپرائٹس ہوشیار اور پری نما مخلوق ہیں جبکہ سائنس میں کہا جاتا ہے کہ یہ روشنی کے وہ روشن مراکز ہیں جو آسمانی بجلی سے متحرک ہوتی ہیں اور طوفان کے اوپر دکھائی دیتی ہیں۔

    یہ مناظر زمین پر عموماً بڑے طوفانوں کے اوپر تقریباً 60 میل کی اونچائی پر دکھائی دیتے ہیں۔

    آسمان کو روشن کرنے والے ان اسپرائٹس کی روشنی 15 سے 30 میل کے فاصلے تک پھیل سکتی ہے لیکن یہ سلسلہ صرف چند ملی سیکنڈز تک جاری رہتا ہے۔

    دوسری جانب ایلوز سائنسی زبان میں الیکٹرو میگنیکٹ پلس ذرائع کی وجہ سے روشنی کے اخراج اور انتہائی کم فریکوئنسی کے انتشار کا نام ہے جو انتہائی تیز چمکتی بجلی کی طرح دکھائی دیتے ہیں۔

    ایلوز ایک متوازی ڈسک کی طرح دکھائی دیتی ہیں اور یہ آسمان کے ایک بڑے حصے پر 200 میل تک پھیل سکتی ہیں۔

    جونو مشن پر کام کرنے والے سائنسدان اور اس تحقیق کے مصنف روہنی ایس جائلز کا کہنا تھا کہ زمین پر اسپرائٹس اور ایلوز بالائی فضا میں موجود نائٹروجن سے ردعمل کی وجہ سے سرخ رنگ میں دکھائی دیتے ہیں۔

    انہوں نے کہا کہ مشتری پر بلندی میں فضا میں ہائیڈروجن موجود ہوتی ہے جس کی وجہ سے اسپرائٹس اور ایلوز نیلی یا گلابی بھی دکھائی دے سکتی ہیں۔

    یہ تحقیق 27 اکتوبر کو جرنل آف جیوفزیکل ریسرچ میں سیاروں سے متعلق سیریز میں شائع ہوئی۔

  • ’’حفیظ کی کرائی ہوئی گیند ناسا نے چاند پر ڈھونڈلی‘‘

    ’’حفیظ کی کرائی ہوئی گیند ناسا نے چاند پر ڈھونڈلی‘‘

    دبئی: انٹرنیشنل کرکٹ کونسل (آئی سی سی) نے محمد حفیظ کی کرائی گئی گیند کو ایک بار پھر مزاحیہ کیپشن کے ساتھ شیئر کروادیا۔

    تفصیلات کے مطابق آئی سی سی نے ورلڈ کپ 2019 میں قومی کرکٹ ٹیم کے آل راؤنڈر محمد حفیظ کی کرائی گئی گیند ایک بار پھر مزاحیہ کیپشن کے ساتھ شیئر کردی۔

    آئی سی سی نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹویٹر پر لکھا کہ ’بڑی خبر یہ ہے کہ حفیظ کی کرائی گئی گیند ناسا نے چاند پر ڈھونڈ لی ہے۔

    سوشل میڈیا پر آئی سی سی کی جانب سے شیئر کردہ ویڈیو وائرل ہوگئی اور شائقین کرکٹ کی جانب سے اس پر مزاحیہ تبصرے کرنے کا سلسلہ جاری ہے۔

    مذکورہ ویڈیو کو 9 ہزا ر سے زائد سوشل میڈیا صارفین نے پسند کیا اور متعدد صارفین نے اسے ری ٹویٹ کیا۔

    واضح رہے کہ ورلڈ کپ 2019 میں پاکستان اور بنگلہ دیش کے میچ کے دوران محمد حفیظ سے بولنگ کے دوران گیند ہاتھ سے چھوٹ گئی تھی۔

    یاد رہے کہ قومی کرکٹ ٹیم ورلڈ کپ 2019 میں رن ریٹ کی بنیاد پر سیمی فائنل کھیلنے سے محروم رہی تھی، ورلڈ کپ انگلینڈ نے پہلی مرتبہ نیوزی لینڈ کو شکست دے کر اپنے نام کیا تھا۔

  • ناسا نے چاند پر پانی کی موجودگی کی تصدیق کردی

    ناسا نے چاند پر پانی کی موجودگی کی تصدیق کردی

    واشنگٹن: امریکی خلائی ادارے ناسا کے سائنس دانوں نے چاند پر پانی کی موجودگی کی تصدیق کردی۔

    غیرملکی خبررساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق ناسا کے سائنس دانوں نے دعویٰ کیا ہے کہ چاند کی سطح پر پانی دیکھا گیا ہے، قمری مٹی کے ایک مکعب میٹر میں پانی کی مقدار 12 اونس کے برابر ہے۔

    ناسا کے ایڈمنسٹریٹر جم بیڈین اسٹائن نے سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر ایک ویڈیو جاری کرتے ہوئے اپنے پیغام میں بتایا ہے کہ ہم نے سوفیا ٹیلی اسکوپ کی مدد سے چاند پر موجود پانی دریافت کر لیا ہے۔

    انہوں نے کہا کہ ہم ابھی تک یہ نہیں جانتے کہ اسے فوری طور پر استعمال کرسکتے ہیں یا نہیں لیکن یہ دریافت ہمارے چاند پر موجود پانی سے متعلق منصوبوں کے لیے کلیدی حیثیت رکھتی ہے۔

    واضح رہے کہ کچھ عرصہ قبل ایک مطالعاتی رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ چاند کی سطح سے نیچے پانی مرتکز حالت میں موجود ہو سکتا ہے، جس کے بعد ناسا کے ایک تحقیقی مشن سے حاصل ہونے والے ڈیٹا نے اس خیال کی تصدیق کی تھی۔

    سائنس دانوں کا کہنا تھا کہ چاند کی سطح کے نیچے ’مینٹل‘ کہلانے والے حصے میں تین ایسے کیمیائی مادوں کی شناخت ہوئی ہے، جو واضح طور پر بتا رہے ہیں کہ وہاں پانی جمی ہوئی حالت میں یعنی برف کی صورت میں موجود ہے۔

    ناسا کا کہنا تھا کہ چاند کے مینٹل میں پانی کا ارتکاز قریب اسی طرح ہے، جس طرح زمین پر ہے۔ یہ بات اہم ہے کہ زمین کے سطح جسے قشتر کہتے ہیں اس کے نیچے پانی کی مجموعی مقدار اتنی ہے، جتنی تمام سمندروں کے پانی کی۔

  • خلا کی تسخیر کے لیے متحدہ عرب امارت کا اہم اقدام

    خلا کی تسخیر کے لیے متحدہ عرب امارت کا اہم اقدام

    ابو ظہبی: متحدہ عرب امارات نے خلا کی تسخیر کے لیے امریکی خلائی ادارے ناسا سے معاہدہ کرلیا، اماراتی خلا نورد ناسا کے تحت عالمی تجربہ اور مہارت حاصل کریں گے۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق متحدہ عرب امارات میں محمد بن راشد خلائی مرکز اور ناسا نے اماراتی خلا نوردوں کی ٹریننگ کے معاہدے پر دستخط کیے ہیں۔ نئے معاہدے کے تحت اماراتی خلا نورد ناسا کے تحت عالمی تجربہ اور مہارت حاصل کریں گے۔

    معاہدے کے مطابق ناسا میں 4 اماراتی خلا نوردوں کو تربیت دی جائے گی، ابتدا ھزاع المنصوری اور سلطان النیادی سے کی جائے گی۔ دوسرے مرحلے میں دیگر 2 خلا نوردوں کو امریکا بھیجا جائے گا۔

    انہیں سنہ 2021 کے لیے خلا نوردوں کے ناسا پروگرام میں شامل کیا گیا ہے۔

    اماراتی خلا نورد وہی جسمانی اور ذہنی تربیت حاصل کریں گے جو ناسا کی جانب سے اپنے خلا نوردوں کو دی جاتی ہے۔

    ناسا کا جانسن سینٹر خلا نوردی کے شعبے میں نصف صدی سے کہیں زیادہ سے کام کررہا ہے، یہ سینٹر سائنسی اور ٹیکنالوجی معلومات کے فروغ میں کلیدی کردار ادا کر رہا ہے۔

    سنہ 1961 کے دوران ہیوسٹن میں قائم کیا جانے والا ی ادارہ تقریباً 10 ہزار افراد کو تیار کر چکا ہے۔

    خیال رہے کہ امارات کے خلا نورد ھزاع المنصوری اور سلطان النیادی ستمبر 2018 کے دوران ماسکو کی سٹارز سٹی میں یوری گگارین سینٹر میں بھی ٹریننگ حاصل کر چکے ہیں۔

  • زمین سے ایک سیارچہ ٹکرانے جارہا ہے

    زمین سے ایک سیارچہ ٹکرانے جارہا ہے

    امریکی خلائی ادارے ناسا کا کہنا ہے کہ رواں برس نومبر میں ایک سیارچہ زمین سے ٹکرائے گا تاہم زمین کو اس سے کوئی نقصان نہیں ہوگا۔

    ناسا نے حال ہی میں ایک سیارچے کا مشاہدہ کیا ہے جو خلا میں زمین سے براہ راست تصادم کے راستے پر ہے، 6.5 میٹر قطر کا یہ سیارچہ نومبر تک زمین کے قریب پہنچ جائے گا۔

    ناسا کے مطابق امریکا میں صدارتی انتخاب سے ایک روز قبل 2 نومبر کو یہ سیارچہ زمین کی فضا میں داخل ہوجائے گا۔ زمین پر اس کے اثرات ایک فیصد سے بھی کم ہوں گے لہٰذا یہ سیارچہ زمین کے لیے کسی قسم کا خطرہ ثابت نہیں ہوگا۔

    اس سیارچے کو کیلی فورنیا کی رصد گاہ میں 2 سال قبل دیکھا گیا تھا۔

    اس سے قبل سنہ 2018 میں ایک خطرناک جسامت کا سیارچہ زمین کے نہایت قریب آگیا تھا، ویسٹا نامی یہ سیارچہ پاکستان کے کل رقبے جتنا بڑا تھا جبکہ سیارچے میں 13 میل بلند پہاڑ بھی موجود تھے۔

    ناسا کا کہنا تھا کہ وہ سیارچہ جو زمین سے ٹکرا کر ڈائنو سارز کے نسل کے خاتمے کی وجہ بنا، صرف 10 سے 15 کلومیٹر چوڑا تھا، جبکہ ویسٹا کی چوڑائی 252 کلو میٹر تھی۔ اس کے زمین سے ٹکرانے کی صورت میں زمین پر سے زندگی کا خاتمہ ہوسکتا تھا۔

    تاہم خوش قسمتی سے زمین سے انتہائی قریب ہونے کے باجوود یہ اس راستے پر نہیں تھا جس پر زمین سے اس کا تصادم ہوسکے، چنانچہ یہ زمین کو کوئی نقصان پہنچائے بغیر اپنے راستے پر خلا کی وسعتوں میں گم ہوگیا۔

  • لندن آئی سے بڑا پتھر زمین کی طرف تیز رفتاری سے بڑھنے کا انکشاف

    لندن آئی سے بڑا پتھر زمین کی طرف تیز رفتاری سے بڑھنے کا انکشاف

    واشنگٹن: ناسا نے خبردار کیا ہے کہ لندن آئی سے بڑا ایک پتھر خلا سے برق رفتاری کے ساتھ زمین کی جانب بڑھ رہا ہے، اور یہ ممکنہ طور پر خطرناک ثابت ہو سکتا ہے۔

    برطانوی میڈیا کے مطابق ناسا نے کہا ہے کہ ایک بہت بڑا ایسٹرائیڈ زمین کی جانب بڑھتا آ رہا ہے، ناسا نے اس پتھر کو Asteroid 2020ND کا نام دیا ہے، ایسٹرائیڈ وہ عظیم الجثہ پتھر ہیں جو خلا میں سورج کے گرد گھومتے ہیں۔

    ناسا کا کہنا ہے کہ یہ پتھر لندن آئی سے ڈیڑھ گنا بڑا ہے، اور امکانی طور پر یہ زمین کے لیے پُر خطر خلائی پتھروں میں سے ہے، خیال رہے کہ لندن آئی یا ملینیم پہیا لندن میں دریائے ٹیمز کے جنوبی کنارے پر نصب دنیا کا وہ سب سے بڑا پہیا ہے جس کی ساخت 135 میٹر (443 فٹ) ہے اور اس کا قطر 120 میٹر ہے۔

    ناسا نے اس پتھر کے بارے میں کہا ہے کہ یہ اگلے ہفتے ہمارے سیارے کے بہت قریب سے گزرے گا، اور یہ ممکنہ طور پر خطرناک ثابت ہو سکتا ہے، سائنس دانوں خبردار کیا کہ یہ سماوی پتھر زمین کے مدار کی جانب ہی بڑھ رہا ہے اور صرف 0.034 فلکیاتی یونٹس کے اندر ہمارے سیارے کے پاس سے گزرے گا۔ فلکیاتی (astronomical) یونٹ طوالت کا یونٹ ہے جو زمین سے لے کر سورج تک اندازے پر مبنی فاصلہ ہے اور یہ تقریباً 150 ملین کلو میٹرز کے مساوی ہے۔

    سائنس دانوں نے اس خلائی پتھر کی پیمائش کے بارے میں بتایا کہ اس کی لمبائی 170 میٹر ہے، اور یہ اگلے جمعے، 24 جولائی کو زمین کے بالکل قریب آ جائے گا، اسپیس ایجنسی کا کہنا ہے کہ جن خلائی پتھروں کو نقصان دہ کہا جاتا ہے انھیں دراصل زمین کے زیادہ سے زیادہ قریب آنے کے امکان کے پیش نظر خطرناک قرار دیا جاتا ہے۔

    ناسا کے مطابق وہ تمام ایسٹرائیڈز جو زمین کے مدار میں کم سے کم 0.05 اتصالی فاصلہ (MOID) رکھتے ہوں انھیں PHA (پوٹنشلی ہزرڈس ایسٹرائیڈ یعنی ممکنہ طور پر خطرناک) قرار دیا جاتا ہے۔

    سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ اس پتھر کو ایک مدار میں کھسکایا جا سکتا ہے، جس سے دیگر سیاروں کی کشش ثقل کی وجہ سے یہ زمین کے علاقے کی خلا میں پہنچ جائے گا۔

  • ناسا نے سورج کی ناقابل یقین ویڈیو جاری کر دی

    ناسا نے سورج کی ناقابل یقین ویڈیو جاری کر دی

    واشنگٹن: امریکی خلائی ادارے دی نیشنل ایروناٹکس اینڈ اسپیس ایڈمنسٹریشن (ناسا) نے سورج کی ایک ایسی ویڈیو جاری کی ہے جو نہایت شان دار ہے۔

    غیر ملکی میڈیا کے مطابق ناسا (NASA) نے ایک ایسی ناقابل یقین ویڈیو جاری کی ہے جس میں سورج کی حیرت انگیز 4 ہزار پکسلز میں 10 سال کا وقفہ دکھایا گیا ہے، ویڈیو میں پچھلے 10 سالوں کے ہر دن کے لیے ایک سیکنڈ میں سورج کی ایک تصویر دکھائی گئی ہے، اس طرح سورج کی پوری ایک دہائی کو 61 منٹ میں قید کر دیا گیا ہے۔

    ناسا کی اس ویڈیو میں سورج پر گزرنے والے گزشتہ دس سال کا عرصہ دکھایا گیا ہے، ویڈیو میں سورج شان دار طریقے سے گھومتا دکھائی دیتا ہے، یہ ویڈیو ناسا نے خلا میں اپنی سولر ڈائنامکس آبزرویٹری کے دس سال پورے ہونے پر ریلیز کی ہے۔

    یہ تصاویر ناسا کی آبزرویٹری (SDO) سے آئے ہیں، یہ ایک خلائی جہاز ہے جسے فلوریڈا میں کیپ کیناورل ایئر فورس اسٹیشن سے دس سال قبل روانہ کیا گیا تھا، زمین کے گرد گھومتے ہوئے اس نے سورج کی 42 کروڑ 50 لاکھ ہائی ریزولوشن تصاویر جمع کیں، جو 2 کروڑ گیگابائٹس پر مشتمل ڈیٹا تھا۔

    اس ویڈیو کو ‘سورج کے دس سال’ کا عنوان دیا گیا ہے، جس میں ایک گھنٹے تک سورج کا تاج ناقابل یقین تفصیل کے ساتھ گھومتا ہے، چمکتا اور حرارت سے دمکتا ہے۔ آبزرویٹری نے ان تصاویر میں سورج کی اوپری سطح پر شمسی اثرات کو مرتب کیا ہے، جن میں عظیم لہریں، بڑے سوراخ اور مقناطیسی دھماکے شامل ہیں، یہ سب اس ویڈیو میں دکھایا گیا ہے۔

    ناسا کا کہنا تھا کہ اب جون 2020 میں بیٹھ کر کوئی بھی سورج کے ایک عشرے پر مبنی عرصے کو بغیر رکے دیکھ سکتا ہے۔ ویڈیو میں سورج کے 11 سالہ شمسی چکر کے دوران سورج کی سرگرمی میں عروج و زوال بھی دیکھا جا سکتا ہے کہ کب یہ بہت زیادہ متحرک ہوا اور کب کم متحرک۔ اس دوران اہم واقعات بھی نوٹ ہوئے ہیں جیسا کہ سیاروں کا سامنے سے گزرنا اور آتش فشانی کے واقعات۔

    ویڈیو بغور دیکھنے والے چند خصوصی مہمان سیاروں کو بھی دیکھ سکیں گے، 12:20 پر جون 2012 کو وینس تیزی کے ساتھ سورج کے سامنے گزرا تھا، جب کہ چاند 53:30 پر سورج کی ویڈیو میں خلل ڈالتا دکھائی دیتا ہے، یہ واقعہ گزشتہ برس مارچ کا ہے۔ ویڈیو شروع ہونے کے صرف 57 سیکنڈز کے بعد ہی ہلتی دکھائی دیتی ہے، اس کی وضاحت ناسا نے نہیں کی ہے، جب کہ 38 ویں منٹ پر کیمرا ہی آف لائن ہو جاتا ہے۔

    ناسا کا کہنا ہے کہ ویڈیو جب بالکل سیاہ ہو جاتی ہے تو یہ دراصل زمین اور چاند کے خلائی جہاز اور سورج کے درمیان آنے کی وجہ سے ہوئی تھی، 2016 میں آبزرویٹری کے آلات میں کچھ خرابی آئی تھی جس کی وجہ سے بھی ویڈیو میں ایک خلا آتا دکھائی دیتا ہے، مذکورہ خرابی ایک ہفتے بعد ٹھیک کر دی گئی تھی۔ یہ ویڈیو آبزرویٹری کے تین آلات کی مدد سے ممکن بنائی گئی ہے جو دس سال بعد اب بھی اچھی طرح سے کام کر رہے ہیں۔