Tag: nasa

  • ناسا کا یواے ای کے مارس ہوپ مشن پراطمینان کا اظہار

    ناسا کا یواے ای کے مارس ہوپ مشن پراطمینان کا اظہار

    ابوظہبی: متحدہ عرب امارات میں ہونے والی گلوبل اسپیس کانگریس میں ناسا کے ایک سینئر اہلکار کا کہنا ہے کہ یو اے ای کا ’مشن ہوپ مارس ‘آئندہ سال لانچ کے لیے تیار ہے۔

    تفصیلات کے مطابق ان خیالات کا اظہار ناسا کے سائنس مشن ڈائریکٹوریٹ کے ایسوسی ایٹ ایڈمنسٹریٹر تھامس ایچ زرباکین نے کیا ۔ انہوں نے کہا کہ ناسا کے ماہرین کے مطابق یو اے ای کے مشن میں تاحال کوئی رکاوٹ سامنےنہیں آئی ہے اور امید ہے کہ اماراتی یہ کارنامہ انجام دینے میں کامیاب رہیں گے۔

    انہوں نے بتایا کہ مارس ہوپ مشن کے لیے ناسا تکنیکی مدد فراہم کررہا ہے جو کہ کسی بھی کامیاب مشن کے لیے ضروری ہے۔ ہمارا معاہد ہ تکنیکی سپورٹ کا ہے اور اس کے لیے ایک مشترکہ ایڈوائزری بورڈ قائم ہے، صرف ہمارے ہی ماہرین اس پر کام نہیں کررہے بلکہ یو اے ای کے ماہرین ہی اصال کام کررہے ہیں۔

    ان کا کہنا تھا کہ مریخ پر آج تک جانے والے تمام مشنز میں ناسا کی جیٹ پروپلژن لیبارٹری کا تناسب سب سے اچھا ہے لہذاان کی جانب سے سپورٹ فراہم کی جارہی ہے۔ اس سلسلے میں مارس مشن سے ربط رکھنے کے لیے کمیونی کیشن سسٹم بھی تشکیل دیا جارہ ہے جو وہاں سے ڈیٹا زمین پر بھیجنے کا کام کرے گا۔

    زورباکین نے کہا کہ مریخ پر مشن بھیجنا ایک بڑا چیلنج ہے ، اب تک 50 فیصد مریخی مشن ناکام ہوچکے ہیں لیکن اس خطرے کو اٹھانے کے فوائد بھی اپنی جگہ موجود ہیں۔

    ان کا مزید کہنا تھا کہ انسانیت کو زمین کی سرحدوں سےباہر لے جانے کے وعدے کو مکمل کرنے کے لیے مریخ سب سے بہتر جگہ ہے ، ہم جانتے ہیں کہ وہاں پانی ہے اور اس کے ساتھ ہی دیگر ضروری اشیا جوکہ زندگی کی بقا کے لیے ضروری ہیں۔ زمین اور مریخ کے درمیان کئی مماثلتیں ہیں جو سائنسدانوں کی تحقیق کے لیے سازگار ماحول فراہم کرتی ہیں۔

    آج سے تین ارب سال قبل مریخ کافی حد تک زمین سے ملتا جلتا سیارہ تھا۔ اس کا اپنا ایک سمندر بھی تھا حالانکہ وہ محض 150 میٹر ہی گہرا تھا، اور ہمیں یقین ہے کہ ماضی میں اس کا اپنا مقناطیسی میدان بھی تھا جس کے سبب وہاں آب و ہوا تھی ، یعنی جب زمین پر زندگی کا آغاز ہوا، مریخ ہم سے بہت حد تک ملتا جلتا سیارہ تھا۔

    یاد رہے کہ متحدہ عرب امارات نے بغیر پائلٹ کے ایک خلائی مشن زمین کے پڑوسی سیارے مریخ کی جانب بھیجنے کا اعلان سنہ 2014 میں کیا تھا جس سے یہ دنیا کے ان نو ممالک کی فہرست میں شامل ہوگیا تھا، جو سرخ سیارے کو تسخیر کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔

  • 12 سالہ پاکستانی طالبہ ناسا کے انٹرن شپ پروگرام کے لیے منتخب

    12 سالہ پاکستانی طالبہ ناسا کے انٹرن شپ پروگرام کے لیے منتخب

    امریکی خلائی ایجنسی ناسا کے انٹرن شپ پروگرام کے لیے 12 سالہ پاکستانی طالبہ کو منتخب کرلیا گیا، رادیہ کا تعلق کراچی سے ہے۔

    ناسا کی جانب سے جاری کردہ بیان کے مطابق کراچی کے برٹش اوور سیز اسکول کی آٹھویں کلاس کی طالبہ رادیہ عامر کو ناسا کے انٹرن شپ پروگرام کے لیے منتخب کیا گیا ہے۔

    ناسا کی یہ انٹرن شپ ایک ہفتے پر مبنی ہے جو ناسا کے کینیڈی اسپیس سینٹر میں دی جائے گی۔

    اس ایک ہفتے کے دوران رادیہ کو خلا بازوں کی ٹریننگ دکھائی جائے گی۔ رادیہ سمیت دیگر طلبا کو ورچوئل رئیلٹی کے ذریعے مریخ پر حرکت کرنے، چاند پر اترنے اور چہل قدمی کرنے کا تجربہ کروایا جائے گا۔

    اس دوران انہیں صفر کشش ثقل پر حرکت کرنے کے تجربے سے روشناس بھی کروایا جائے گا جو ناسا سمیت دیگر خلائی اداروں میں مصنوعی طور پر تخلیق کی گئی ہے۔

    اپنے انتخاب پر رادیہ نہایت خوش ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ وہ ہمیشہ سے خلا باز بننا چاہتی تھیں اور انہیں امید ہے کہ ان کا یہ خواب پورا ہوگا۔

    رادیہ کہتی ہیں کہ وہ ناسا میں جا کر پاکستان کا جھنڈا لہرانا چاہتی ہیں۔ انہیں امید ہے کہ ناسا میں انٹرن شپ کا یہ تجربہ ان کے لیے اپنے خواب کی تکمیل میں معاون ثابت ہوگا۔

  • خلا میں اربوں سال کے فاصلے سے پراسرار سگنل موصول

    خلا میں اربوں سال کے فاصلے سے پراسرار سگنل موصول

    خلا اور خلائی مخلوق سے دلچسپی رکھنے والے افراد اس وقت نہایت تجسس میں مبتلا ہیں کیونکہ اربوں نوری سال کے فاصلے سے زمین پر کچھ سگنلز موصول ہوئے ہیں، یہ کہنا مشکل ہے کہ سگنل بھیجنے والے کون ہیں۔

    ناسا کے سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ ڈیڑھ ارب نوری سال کے فاصلے سے کچھ ریڈیائی لہریں کینیڈا کی ایک ٹیلی اسکوپ کو موصول ہوئے ہیں۔ سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ ان لہروں کے سفر کی رفتار حیران کن ہے۔

    سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ وہ ان لہروں کو جانچنے سے قاصر ہیں، جس ٹیلی اسکوپ پر یہ سگنل موصول ہوئے ہیں اس نے کچھ عرصہ قبل ہی کام شروع کیا ہے۔

    کینیڈا کی ٹیلی اسکوپ جہاں سگنلز موصول ہوئے

    ٹیلی اسکوپ پر یہ موصول ہونے والی لہریں ایف آر بی یعنی فاسٹ ریڈیو برسٹ ہیں، یہ ایسی لہریں ہوتی ہیں جو بہت کم وقت کے لیے پیدا ہوتی ہیں اور ان کے حوالے سے عمومی خیال ہے کہ یہ کائنات کے دوسرے سرے سے آتی ہیں۔

    ماہرین اس بارے میں بھی اندھیرے ہیں کہ ایف بی آر نامی لہریں دراصل پیدا کیسے ہوتی ہیں چانچہ انہیں کائنات کا پراسرار ترین پیغام سمجھا جاتا ہے۔

    مزید پڑھیں: اسٹیفن ہاکنگ نے خلائی مخلوق سے کیوں خبردار کیا تھا؟

    ان لہروں کے بارے میں متضاد خیالات پائے جارہے ہیں، کچھ سائنسدانوں کے مطابق یہ لہریں نیوٹرون ستارے کی حرکت کا نتیجہ ہوسکتی ہیں۔ اس ستارے کی مقناطیسی سطح بہت طاقتور ہوتی ہے اور یہ بہت تیزی سے گھومتا ہے۔

    دوسری جانب ایسے سائنسدانوں کی بھی کمی نہیں جو ان لہروں کو خلائی مخلوق کا بھیجا گیا سگنل سمجھ رہے ہیں۔ ان لہروں کی اصل حقیقت جاننے کے لیے شاید کچھ وقت انتظار کرنا پڑے۔

  • وائجر2 نظامِ شمسی سے باہرنکل گیا

    وائجر2 نظامِ شمسی سے باہرنکل گیا

    آج سے 41 سال قبل قریبی سیاروں کے فضائی حالات جانچنے کے لیے بھیجا جانے والے خلائی جہاز ہمارے نظامِ شمسی کی سرحد سے باہر نکل چکا ہے ۔

    تفصیلات کے مطابق واشنگٹن میں منعقدہ امریکن جیوفیزیکل یونین (اے جی یو) کی کانفرنس میں وائجر 2 کے نظام شمسی سے باہر نکلنے کا اعلان کیا گیا ، اس مشن کی دیکھ بھال پر متعین چیف سائنسداں پروفیسر ایڈورڈ سٹون نے اس کی تصدیق کی ہے۔

    ا ن کا کہنا تھا کہ وائجر ٹو نامی خلائی جہاز جسے 1977 میں خلا میں روانہ کیا گیا تھا، انسان کی تخلیق کردہ وہ دوسری چیز بن گیا ہے جو نظام شمسی کی حد سے باہر نکل گئی ہے۔ اس سے قبل اسی خلائی جہاز کاجڑواں ’وائجر ون ‘ وائجر ون اپنی تیز رفتاری کے سبب ‘ستاروں کے درمیان خلا میں’ وائجر ٹو کے مقابلے میں چھ سال پہلے پہنچ گیا۔

    انھوں نے کہا کہ دونوں تحقیقاتی خلائی جہاز اب ‘ستاروں کےدرمیان ہیں’ اور وائجر ٹو نظام شمسی کے دائرے سے پانچ نومبر سنہ 2018 کو نکل گیا۔ اس دن سورج سے نکلنے والی شعاع کے ذرات جس کا خلائی جہاز وائجر ٹو سراغ رکھتا تھا اچانک ماند پڑ گئے جس کا مطلب یہ تھا کہ وہ ‘ہیلیو پاز’ عبور کر چکا ہے۔

    وائجر ون پہلے نظام شمسی کی حد سے نکل چکا ہے تاہم امریکی خلائی ایجنسی کا کہنا ہے کہ وائجر ٹو میں ایک ایسا آلہ نصب ہے جو نظام شمسی سے نکلنے اور کہکشاؤں کے درمیان جانے کے سفرکا مشاہدہ پہلی بار بھیجے گا۔

    یہ خلائی جہاز ابھی زمین سے 18 ارب کلو میٹرکے فاصلے پر ہے اور یہ تقریبا 54 ہزار کلومیٹر فی گھنٹے کی رفتار سے بڑھ رہا ہے۔ وائجر ون اس سے آگے ہے اور اس سے تیز رفتار ہے۔ یہ ابھی 22 ارب کلومیٹر کے فاصلے پر ہے اور 61 ہزار کلومیٹر فی گھنٹے کی رفتار سے بڑھ رہا ہے۔

  • ناسا کے خلائی روبوٹ کی مریخ پر کامیاب لینڈنگ

    ناسا کے خلائی روبوٹ کی مریخ پر کامیاب لینڈنگ

    امریکی خلائی ادارے ناسا کا خلائی روبوٹ ان سائٹ کامیابی سے مریخ کی سطح پر لینڈ کرگیا۔ یہ ناسا کی تاریخ میں مریخ پر آٹھویں کامیاب لینڈنگ ہے۔

    خلائی روبوٹ ان سائٹ نے لینڈنگ کے بعد ناسا کو مشن کی تکمیل کا سگنل دیا ساتھ ہی مریخ کی پہلی تصویر بھی بھیجی جو شیشے پر گرد جمع ہونے کی وجہ سے دھندلی ہوگئی ہے۔

    چند گھنٹوں بعد ان سائٹ نے ایک اور تصویر بھیجی جو خاصی واضح ہے۔

    خلائی روبوٹ نے اپنی لانچ کے بعد سات ماہ میں 29 کروڑ 80 لاکھ میل کا سفر طے کیا اور بالآخر مریخ کی سطح پر لینڈنگ کی۔

    یہ روبوٹ مریخ کی تشکیل، اس پر آنے والے زلزلوں اور اس کی اندرونی ساخت کے بارے میں تحقیق کرے گا۔

    فی الحال سائنسدان اندھیرے میں ہیں کہ مریخ کی اندرونی سطح آیا زمین جیسی ہی ہے یا اس سے مختلف ہے۔

    روبوٹ میں شمسی توانائی کے پینلز بھی نصب ہیں جو اس وقت خودکار طریقے سے کام کرنے لگیں گے جب مریخ کا موسم انتہائی سرد ہوجائے گا۔

    ان سائٹ روبوٹ اس سے قبل مریخ پر بھیجے گئے مشنز سے مختلف ہے کیونکہ اس کے ساتھ 2 مصنوعی سیارے بھی مریخ کی فضا میں بھیجے گئے ہیں۔

  • آئس برگ کا مستطیل ٹکڑا

    آئس برگ کا مستطیل ٹکڑا

    امریکی خلائی ایجنسی ناسا نے انٹارکٹیکا کے برفانی سمندر میں بہنے والے آئس برگ کے مستطیل ٹکڑے کی تصویر جاری کی ہے جو نہایت حیرت انگیز ہے۔

    ناسا کے تحقیقاتی جہاز سے کھینچی جانے والی یہ تصویر انٹارکٹیکا کے ویڈل سمندر کی ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ ٹکڑا کسی برفانی تودے سے ٹوٹ کر لگ ہوا ہے۔

    خیال رہے کہ عالمی حدت یعنی گلوبل وارمنگ میں اضافے کے ساتھ برفانی خطے میں موجود گلیشیئرز پگھل رہے ہیں اور تودوں کے مختلف حصوں کے ٹوٹنے کے واقعات میں اضافہ ہورہا ہے۔

    ناسا کے مطابق سال 2016 میں قطب شمالی پر ریکارڈ مقدار میں برف پگھلی ہے جبکہ گرم موسم کے باعث برف ٹوٹ کر بڑے بڑے تودوں کی شکل میں سمندر پر بہہ رہی ہے۔

    ماہرین کے مطابق کہ سنہ 2016 میں گرمیوں کے موسم کے درجہ حرارت میں تو اضافہ ہوا ہی، مگر اس کے ساتھ ساتھ اس برس موسم سرما بھی اپنے اوسط درجہ حرارت سے گرم تھا۔

    یعنی موسم سرما میں قطب شمالی کا جو اوسط درجہ حرارت ہے، گزشتہ برس وہ اس سے 2 سے 3 ڈگری سینٹی گریڈ زیادہ تھا۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ دنیا میں ہوتی تیز رفتار صنعتی ترقی اور اس کے باعث گیسوں کے اخراج اور درجہ حرارت میں اضافے کی وجہ سے اب تک قطب شمال کے برفانی رقبہ میں 620,000 میل اسکوائر کی کمی ہوچکی ہے۔

  • زحل کے چاند پرآندھی کا پہلی بارمشاہدہ کیا گیا

    زحل کے چاند پرآندھی کا پہلی بارمشاہدہ کیا گیا

    واشنگٹن: سیارہ زحل کے چاند ٹائٹن کے خطِ استواپر گزشتہ روز گرد کے طوفان کامشاہدہ کیا گیا، یہ مشاہدہ ناسا کے خلائی جہاز ’کیسینی ‘ سے موصول ہونے والے ڈیٹا کے ذریعے کیا گیا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق ناسا کے کیسینی نامی پروب سے گزشتہ روز موصول ہونے والی تصاویر کے مطابق زحل کے چاند ٹائٹن پر آندھی چل رہی تھی ، کسی سیارے کے چاند پر یہ آندھی کا پہلا مشاہدہ ہے۔

    یہ آندھی زحل کے چاند ٹائٹن کے خطِ استوا کے علاقے میں دیکھی گئی ہے- سائنسداں جانتے ہیں کہ ٹائٹن پر آتش فشاں پہاڑ موجود ہیں اور وہاں پر ہائیڈروکاربن سائیکل اسی طرح کام کرتا ہے جس طرح پانی کا سائیکل زمین پر کام کرتا ہے- جس طرح زمین پر پانی کے سمندروں سے بھاپ اٹھتی ہے، بادل بنتے ہیں، بارش ہوتی ہے، بارش کا پانی ندی نالوں سے دریاؤں اور وہاں سے سمندروں میں جاتا ہے اسی طرح ٹائٹن پر میتھین گیس انتہائی سرد ماحول کی وجہ سے مائع حالت میں موجود ہے۔

    یونی ورسٹی آف پیرس کے آسٹرونامر سباسشین روڈریگیوز کا کہنا ہے کہ ٹائٹن ایک انتہائی متحرک چاند ہے اور اس پر آندھی کے مشاہدے کے بعد اب اس کی جیالوجی کا زمین اور مریض کی جیالوجی سے موازنہ کیا جاسکتا ہے۔

    میتھین کے سمندروں سے میتھین کے بخارات فضا میں داخل ہوتے ہیں اور بادلوں کو تشکیل دیتے ہیں ، یتھین کے بادل پہاڑوں پر جا کر مائع میتھین بارش کی صورت میں برساتے ہیں، یہ مائع میتھین ندی نالوں اور دریاؤں سے ہوتی واپس سمندر میں پہنچتی ہے۔

    یاد رہے کہ ٹائٹن کا محور بھی زمین کی طرح جھکا ہوا ہے جس کی وجہ سے ٹائٹن پر زمین کی طرح گرمی اور سردی کے موسم ہوتے ہیں۔بہار یا خزاں کے موسم میں سورج ٹائٹن کے خطِ استوا کے عین اوپر ہوتا ہے اور اس علاقے میں شدید جھکڑ پیدا ہوتے ہیں اور آندھیاں چلتی ہیں۔ہمیں ان جھکڑوں کے بارے میں پہلے سے معلوم تھا لیکن ابھی تک گردوغبار سے بھرپور آندھی کا مشاہدہ نہیں ہو پایا تھا- اب کیسینی کی بدولت ٹائٹن پر آندھیوں کا مشاہدہ بھی ہو گیا ہے۔

    ہم جانتے ہیں کہ ٹائٹن پر بہت سا نامیاتی مواد موجود ہے (میتھین خود ایک نامیاتی یعنی organicمالیکیول ہے) اس لیے اس آندھی میں بھی بہت سا نامیاتی مواد اڑتا ہے اور دور دراز کے علاقوں میں پھیل جاتا ہے- میتھین کی بارشوں سے یہ نامیاتی مواد ٹائٹن کی سطح میں جذب ہو سکتا ہے اور پیچیدہ مالیکیولز میں تبدیل ہو سکتا ہے،گویا اس بات کی امید کی جا سکتی ہے کہ ٹائٹن پر کسی نہ کسی شکل میں زندگی کا امکان بھی موجود ہے۔

  • ایوانکا ٹرمپ نے انوکھی خواہش کا اظہار کردیا

    ایوانکا ٹرمپ نے انوکھی خواہش کا اظہار کردیا

    واشنگٹن: امریکی صدر کی صاحبزادی ایوانکا ٹرمپ نے خلا باز بننے کی خواہش کا اظہار کردیا۔

    تفصیلات کے مطابق ہیوسٹن میں ہونے والے اسپیس سینٹر کے پروگرام میں ایوانکا ٹرمپ نےخلابازوں سے ویڈیو کال پر گفتگو کی اور اپنی خواہش کا اظہار کیا۔

    ٹرمپ کی صاحبزادی کو دیکھ کر خلا باز خوشی سے کِھل اٹھے اور انہیں نئی خواہش پر خوش آمدید کہا۔

    ایوانکا نے اسیپس سینٹر کے دورے پر خلا بازوں سے براہ راست ملاقات نہیں کی بلکہ ویڈیو کال پر بات کرتے ہوئے انتہائی مسرت کا اظہار کیا اور کہا کہ میں خلا میں جانا چاہتا ہوں۔

    خلا بازوں کا کہنا تھا کہ وہ ایوانکا کو ٹی وی پر دیکھتے ہیں تو سب کا موڈ اچھا ہوجا تاہے کیونکہ ٹرمپ کی صاحبزادی بہترین شخصیت کی مالک ہیں۔ ایوانکا نے خلا بازوں کا جواب سُنا تو وہ بے ساختہ ہنس پڑیں بعد ازاں انہوں نے اسپیس اسٹاف کے ساتھ تصاویر بھی بنوائیں۔

    امریکی صدر کی صاحبزادی کا کہنا تھا کہ خلا بازوں نے میرے بچپن کا خواب پورا کیا کیونکہ کمسنی میں مجھے چاند پر جانے کا بہت شوق تھا جسے میں ضرور پورا کروں گی۔

    اس موقع پر ایوانکا نے نجی اسکول کے طالب علموں سے خطاب کیا اور انہیں پہلا روبورٹ بنانے پر مبارک باد بھی پیش کی۔

  • ناسا کے خطرناک اور جان لیوا "سورج چھونے کے مشن” کا آغاز 11 اگست کو ہوگا

    ناسا کے خطرناک اور جان لیوا "سورج چھونے کے مشن” کا آغاز 11 اگست کو ہوگا

    واشنگٹن : امریکی خلائی تحقیقی ادارے ناسا نظام شمسی کے راز جاننے کے لیے اپنے خطرناک اور جان لیوا ’سورج کو چھونے‘ کا آغاز کرنے جارہا ہے۔

    امریکی خلائی تحقیقاتی ادارے ناسا کا ’سولر پروب پلس‘ نامی مصنوعی سیارہ گیارہ اگست کو سورج کی جانب اپنے سفر کا آغاز کرے گا، وہ سورج کے اتنا قریب پہنچے گا جتنا آج تک کوئی نہیں پہنچا۔

    ناسا کے مطابق ایک عام سی گاڑی کے سائز کا سیارہ سورج سے اکسٹھ لاکھ کلومیٹر کے فاصلے تک پہنچے گا، یہ اس سے پہلے بھیجے گئے مصنوعی سیاروں کی نسبت سات گنا زیادہ قریب پہنچے گا۔

    سات برس جاری رہنے والے مشن کے دوران وہ سورج کی سطح پر ہونے والی تبدیلیوں اور طوفان، جسے سولر ونڈ کہتے ہیں، کا جائزہ لے گا۔

    خلائی تحقیقی ادارے ناسا نے اس مشن کا نام پارکر سولر پروب رکھا ہے، جس کا مقصد ماہر فلکی طبیعات پروفیسر یوجین پارکر کی خدمات کا خراج تحسین پیش کرنا ہے۔

    ناسا نے سورج کی مزید تحقیق کیلئے گیارہ سال قبل منصوبہ بندی کی تھی اور اسی تحقیق کیلئے ایک نیا چھوٹا خلائی روبوٹ تیار کیا، خلائی روبوٹ سورج کی سطح سے چھ اعشاریہ ایک ملین کلو میٹر تک پرواز کرے گا۔

    امریکی خلائی ادارہ ناسا کا کہنا ہے کہ اس روبوٹ کے ذریعے مزید بہتر انداز میں سورج کی تحقیق کے مواقع میسر آئیں گے اور سورج سے خارج ہونے والی شعاعوں کے فوائد اور نقصانات سے آگاہی ہوگی، جس سے زمین پر پیدا ہونے والے اثرات کا حقیقی نتیجہ برآمد ہوسکے گا۔

    اس مشن میں ناسا کے ایک اعشاریہ پانچ ارب ڈالر کی لاگت آچکی ہے ، تحقیقات میں سورج کی سخت گرمی اور تابکاری سے بچنے اور فوائد حاصل کرنے کا طریقہ تلاش کیا جارہا ہے۔

    ناسا کا خلائی روبوٹ سورج کے تقریبا ڈھائی ہزار ڈگری فارن ہائٹ درجہ حرارت تک برداش کرنے کی طاقت رکھتا ہے اور اس کے آلات پچاسی ڈگری فارن ہائٹ کو برداشت کرنے کا ڈیزائن ڈھالا ہے۔

    خیال رہے کہ انسان کی جانب سے سورج کے اتنا قریب جانے کا پہلا تجربہ ہوگا، جو خوفناک حدت اور ریڈی ایشن کا سامنا کرے گا۔

    اس سے قبل ناسا نے عام عوام سے کہا تھا کہ ہم سورج کو چھونے کے لئے ایک خلائی جہاز بھیج رہے ہیں، اگر آپ اس تاریخی پارکر سولر پروب مشن کو دیکھنا چاہتے ہیں تو اپنے نام کے ساتھ آن لائن درخواستیں جمع کرادیں۔

    گذشتہ سال یونیورسٹی آف شکاگو میں معروف خلائی ماہر ایوگن پارکر کو خراج تحسین پیش کرنے کے منعقدہ تقریب کے موقع پر ناسا نے اعلان کیا تھا کہ 2018 کے موسم گرما میں اپنا پہلاروبوٹک اسپیس کرافٹ سورج کی جانب روانہ کرے گا۔

    واضح رہے کہ سورج کی سطح کو ضیائی کرہ کہا جاتا ہے، جس کا درجہ حرارت 5500 سینٹی گریڈ تک ہوتا ہے جب کہ اس میں اضافہ 2 ملین ڈگری سیلسئس تک ہوسکتا ہے۔

    سورج کے کرہ ہوائی کو کورونا کہا جاتا ہے، اس کورونا کا درجہ حرارت 5 لاکھ ڈگری سینٹی گریڈ تک ہوتا ہے۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • پندرہ سال بعد آج رات پھر مریخ زمین کے قریب تر آ جائے گا

    پندرہ سال بعد آج رات پھر مریخ زمین کے قریب تر آ جائے گا

    ناسا: امریکی وفاقی اسپیس ایجنسی ناسا کا کہنا ہے کہ آج پندرہ سال بعد ایک بار پھر سرخ سیارہ زمین کے قریب تر آ جائے گا جسے رات کے وقت دیکھا جا سکے گا۔

    تفصیلات کے مطابق آج رات زمین کے ایک طرف آسمان پر سورج اور دوسری طرف مریخ براجمان ہوگا، جو ایک سیدھے خط میں نظر آئیں گے۔

    ناسا کا کہنا ہے کہ اگرچہ دونوں سیارے ایک دوسرے سے کم ترین فاصلے پر ہوں گے، یہ پھر بھی ایک دوسرے سے 57.6 ملین کلو میٹر (5 کروڑ 76 لاکھ کلو میٹر) دوری پر ہوں گے۔

    کہا جا رہا ہے کہ یہ اکتوبر 2020 تک زمین اور مریخ کے درمیان قریب ترین فاصلہ ہوگا، تاہم آج جس طرح سرخ سیارہ واضح طور پر نظر آئے گا اس طرح یہ صرف ہر پندرہ سے سترہ سال کے بعد ہی نظر آیا کرتا ہے۔

    دل چسپ بات یہ ہے کہ وہ لوگ جو 27 جولائی کو چاند گرہن دیکھ رہے تھے، آسمان میں مریخ کو بھی دیکھ سکیں گے، تاہم یہ آسٹریلیا، جنوبی افریقا اور جنوبی امریکی ممالک ہی میں بہتر طور پر دکھائی دے گا۔

    مریخ پر مائع پانی کی جھیل مل گئی، سائنس دانوں کا دعویٰ

    ماہرینِ فلکیات کا کہنا ہے کہ ہم مریخ کو ستمبر تک دیکھ سکیں گے تاہم یہ ہر گزرتے روز کے ساتھ چھوٹا ہوتا جائے گا کیوں کہ یہ زمین کے قریب ترین مدار کو چھوڑ دے گا۔

    خیال رہے کہ اگر چہ مریخ پندرہ سال بعد زمین کے قریب تر آ رہا ہے اور یہ بہت سارے لوگوں کے لیے ایک نیا اور شان دار منظر ہوگا تاہم جن لوگوں نے اسے 2003 میں دیکھا ہے ان کے لیے یہ منظر نیا نہیں۔

    ناسا نے مریخ پر ہیلی کاپٹر بھیجنے کا اعلان کردیا

    2003 میں مریخ زمین سے ’محض‘ 56 ملین کلو میٹر کے فاصلے پر آ گیا تھا، ناسا کے مطابق یہ ایک ایسا واقعہ تھا جو 60 ہزار سال کے عرصے میں پیش نہیں آیا تھا اور سال 2287 تک دوبارہ پیش نہیں آئے گا۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کےلیے سوشل میڈیا پرشیئر کریں۔