Tag: nasa

  • خلائی مخلوق وجود رکھتے ہیں: ناسا کے سائنسدان کا انکشاف

    خلائی مخلوق وجود رکھتے ہیں: ناسا کے سائنسدان کا انکشاف

    عالمی خلائی ادارے ناسا کے ایک سابق سائنسداں کا کہنا ہے کہ خلائی مخلوق نہ صرف موجود ہیں بلکہ کئی بار انسانوں کا ان سے سامنا بھی ہوچکا ہے، لیکن حکومتوں نے اس بات کو خفیہ رکھا ہوا ہے۔

    دی کنورزیشن نامی جریدے میں شائع ہونے والے اپنے مضمون میں کیون کنتھ نے دعویٰ کیا کہ ہماری کائنات میں خلائی مخلوق اور اڑن طشتریوں کی موجودگی کے بے شمار ثبوت موجود ہیں۔

    کیون کنتھ ناسا میں اپنی ملازمت مکمل ہونے کے بعد اب ایک امریکی یونیورسٹی میں طبیعات کے پروفیسر کی حیثیت سے فرائض انجام دے رہے ہیں۔

    مزید پڑھیں: خلائی مخلوق کی موجودگی کا ثبوت مل گیا

    اپنے مضمون میں انہوں نے کہا کہ ہمیں اس امکان کو تسلیم کرلینا چاہیئے کہ کچھ ایسے اجنبی اڑنے والے آبجیکٹس (آسان الفاظ میں اڑن طشتریاں) موجود ہیں جو ہمارے ایجاد کردہ ایئر کرافٹس سے کہیں بہتر ہیں۔

    ان کا کہنا ہے کہ اڑن طشتریوں کے دیکھے جانے کے بھی بے تحاشہ ثبوت ہیں جنہیں آسانی سے نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔

    پروفیسر کا کہنا ہے کہ اڑن طشتریوں کے بارے میں بات کرنا اس وقت نہایت متنازعہ ہوچکا ہے جس کی وجہ سے ان دعووں کی سائنسی بنیاد پر تحقیق نہیں کی جارہی۔

    ان کے خیال میں اس کی ذمہ دار حکومتیں اور میڈیا ہے جس نے اس موضوع کو نہایت متنازعہ بنا دیا ہے۔

    مزید پڑھیں: خلائی مخلوق کو بلانا خطرناک اور زمین کی تباہی کا سبب

    پروفیسر نے کہا کہ خلائی مخلوق ایک حقیقت ہیں کیونکہ ہماری کائنات میں 300 ارب ستارے موجود ہیں، اور ان میں سے کچھ یقیناً ایسے ہوں گے جہاں زندگی موجود ہوگی۔

    اپنے مضمون میں انہوں نے کہا کہ اب تک ایک بھی ایسا باقاعدہ اور مصدقہ دستاویز تیار نہیں کیا گیا جو اڑن طشتریوں کے دیکھے جانے کے حوالے سے ہو۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ دنیا بھر کی حکومتیں ان معلومات کو راز میں رکھنا چاہتی ہیں۔

    انہوں نے کہا کہ اس بارے میں سائنسی بنیادوں پر تحقیق بنی نوع انسان کے لیے فائدہ مند ہوگی اور اس سے ترقی کی نئی راہیں کھلیں گی۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • خلائی سائنس کی دنیا میں تہلکہ خیزتحقیق کرنے والے پاکستانی سائنس داں سے ملیے

    خلائی سائنس کی دنیا میں تہلکہ خیزتحقیق کرنے والے پاکستانی سائنس داں سے ملیے

    پاکستانی نژاد جرمن سائنسداں ڈاکٹر نزیر خواجہ چاہتے ہیں کہ ان کی طرح پاکستان سے دیگر طالب علم بھی اسپیس سائنس کے میدان میں آگے آئیں اور ملک کا نام روشن کریں، ان کی حالیہ تحقیق نے خلائی سائنس کی دنیا میں تہلکہ مچا رکھا ہے۔

    حال ہی میں ڈاکٹر نزیر خواجہ اور ان کی ٹیم نے ناسا ، یورپی اور اطالوی خلائی ایجنسی کے انتہائی مہنگے مشن ’کیسینی‘ سے حاصل شدہ ڈیٹا پر ثابت کیا ہے کہ مریخ کے ایک چاند ’انسلیداس ‘ پر وہ تمام عوامل موجود ہیں جو کہ زندگی کی نشونما کے لیے درکار ہیں۔

    ان کی اس تحقیق کو تسلیم کرتے ہوئے ناسا نے گزشتہ ماہ اس کا باقاعدہ اعلان کیا جس کے بعد یہ ساری دنیا کے نشریاتی اداروں کی ہیڈلائن بن گئی۔ ڈاکٹر نزیر اور ان کے ساتھی فرینک پوسٹ برگ اس وقت سے ہی عالمی میڈیا کی توجہ کا مرکز ہیں۔

    پاکستان کے لیے فخر کا مقام یہ ہے کہ اس انتہائی بلند پایہ تحقیق کی سربراہی کرنے والے ڈاکٹر نزیر خواجہ پاکستانی شہری ہیں ۔ ان کا تعلق پاکستان کے ضلع وزیر آباد سے ہے ۔پنجاب یونی ورسٹی سے اسپیس سائنس میں ماسٹرز کی ڈگری حاصل کی، بعد ازاں جرمنی کے نامور تعلیمی ادارے ہائیڈل برگ یونی ورسٹی سے پی ایچ ڈی کیااور پھر وہیں خلائی تحقیق سے وابستہ ہوگئے۔

    پاکستان کا سر فخر سے بلند کرنے والے ڈاکٹر نزیر کا تحقیقاتی کام دنیا کے موقر ترین سائنسی جریدوں میں شائع ہوتا رہتا ہے ، اس کے علاوہ وہ خلائی سائنس سے وابستہ اداروں میں جاکر بھی مقالے پڑھا کرتے ہیں۔ صرف یہی نہیں بلکہ وہ وقتاً فوقتاً ا پنےمتعلقہ مضمون سے متعلق پاکستانی طالب علموں کی رہنمائی بھی کیا کرتے ہیں، اسی مقصد کے لیے انہوں نے آسٹرو بیالوجی نیٹ ورک آف پاکستان کے نام سے ایک سوسائٹی بھی قائم کررکھی ہے جس کے ذریعے وہ نوجوانوں سے رابطے میں رہتے ہیں، اس نیٹ ورک کے قیام کا مقصد اسپیس سائنس میں دلچسی رکھنے والے طلبہ و طالبات کو مستقبل کی منصوبہ بندی کرنے اور اعلیٰ تعلیم کے حصول میں مدد فراہم کرنا ہے۔ ساتھ ہی ساتھ ان کے تربیت یافتہ رضا کار اگلے مرحلےمیں اسکولوں میں جاکر طالب علموں کی رہنمائی کریں گے کہ مروجہ روایتی مضامین سے ہٹ کر بھی طالب علموں کے پاس کئی مواقع موجود ہیں۔

    ڈاکٹر نزیر کی پیشہ ورانہ زندگی کا زیادہ تر حصہ کیسینی نامی خلائی مشن سے حاصل کردہ ڈ یٹا پر کام کرتے گزرا ہے جو کہ خلائی تسخیر کی تاریخ کا اہم ترین مشن سمجھا جاتا ہے اور حالیہ تحقیق میں اس مشن کی اہمیت میں بے پناہ اضافہ ہوگیا ہے۔

    خلا کے طویل سفر پر جانے والے ’کیسینی ‘نامی خلائی جہاز کے ذریعے حاصل کردہ ڈیٹا پر تحقیق کے نتیجے میں معلوم ہوا ہے کہ مذکورہ بالا چاند کی سطح پر’ پیچیدہ مالیکیول‘ تشکیل پارہے ہیں جس سے اس خیال کو تقویت ملتی ہے کہ سمندر حیات کی ابتدا کے لیے انتہائی ساز گار ماحول رکھتے ہیں۔ تحقیق کے نتیجے میں تشکیل پانے والے مالیکیول اب تک کے سب سے بڑے مالیکیول ثابت ہوئے ہیں۔تحقیق سے یہ بھی ثابت ہوا ہے کہ زحل کے چاند پر موجود سمندر میں بالکل ویسے ہی نمکیا ت پائے جاتے ہیں جیسا کہ ہمارے سمندروں میں موجو د ہیں۔

    اے آروائی نیوز کے لیے خصوصی طور پر ریکارڈ کردہ ویڈیو پیغام میں ڈاکٹر نزیر نے اپنی تحقیق کے حوالے سے بتایا کہ ایسا نہیں ہے کہ ہم نے زحل پر کوئی زندگی تلاش کرلی ہے بلکہ ہماری تحقیق کے نتیجے میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ زحل کے چاند انسلیدس پر وہ تمام عوامل موجود ہیں جو کہ زندگی کی تشکیل کے لیے ضروری ہیں۔ اور یہ پہلی بار ہے کہ زمین سے باہر کسی مقام پرخلائی تحقیق کرنے والے سائنسدانوں کو زندگی کے لیے سازگار حالات کے اتنے پختہ ثبوت ملے ہوں۔

  • پاکستانی سائنس داں نے زحل کے چاند پرزندگی کے آثاردریافت کرلیے

    پاکستانی سائنس داں نے زحل کے چاند پرزندگی کے آثاردریافت کرلیے

    پاکستانی نژاد جرمن سائنس داں ڈاکٹر نُزیر اوران کےہمراہ سائنسدانوں کی ٹیم نے تحقیق سے ثابت کیا ہے کہ سیارہ زحل کے چاند پرزندگی کے آثارموجود ہیں، یہ تحقیق ناسا اوریورپی اسپیس ایجنسی اور اطالوی اسپیس ایجنسی کے مشترکہ مشن ’کیسینی‘ سے موصول ہونے والے ڈیٹا پرکی گئی ہے ۔

    سائنس کی دنیا کے موقر ترین جریدے ’نیچر‘ میں شائع ہونے والی تحقیق پاکستانی سائنسداں ڈاکٹرنزیراورڈاکٹر فرینک پوسٹ بر کی سربراہی میں کی گئی ہے جس کے مطابق زحل کے برفیلے چاند’’انسیلیدس‘‘ پر زندگی کےلیے موافق حالات موجودہ ہیں۔

    نیچر نامی جریدے کا برقی عکس

    ناسا کے خلا کے طویل سفر پر جانے والے ’کیسینی ‘نامی خلائی جہاز کے ذریعے حاصل کردہ ڈیٹا پر تحقیق کے نتیجے میں معلوم ہوا ہے کہ مذکورہ بالا چاند کی سطح پر’ پیچیدہ مالیکیول‘ تشکیل پارہے ہیں جس سے اس خیال کو تقویت ملتی ہے کہ سمندر حیات کی ابتدا کے لیے انتہائی ساز گار ماحول رکھتے ہیں۔ تحقیق کے نتیجے میں تشکیل پانے والے مالیکیول اب تک کے سب سے بڑے مالیکیول ثابت ہوئے ہیں۔

    یہ تحقیق یونی ورسٹی آف ہائیڈل برگ سے تعلق رکھنے والے نزیرخواجہ اورفرینک پوسٹ برگ کی سربراہی میں یورپین اسپیس ایجنسی میں کی گئی ہے ۔ تحقیق کے مطابق ہائیڈرو تھرمل وینٹس کے خلا میں تیرتے منجمد آمیزے کا جب تجزیہ کیا گیا تو اس میں نامیاتی مالیکیولز کے بڑے ٹکڑے پائے گئے جو کہ ارتقاء کے عمل کی نشاندہی کرتے ہیں۔

    ہائیڈرو وینٹس کا عمل

    اس حوالے سے ڈاکٹرپوسٹ برگ کا کہنا ہے کہ زحل کے چاند کےسمندروں میں جاری یہ عمل بالکل ایسا ہی ہے جیسا کہ ہماری زمین پر یہ عمل سمندروں کی تہہ میں جاری رہتا ہے اور اسی عمل کے نتیجے میں کرہ ارض پر اولین حیات کا وجود ہوا تھا۔

    ڈاکٹر پوسٹ برگ کی اس تحقیق میں پاکستانی نژاد ڈاکٹر نزیر خواجہ ان کے شریکِ کار تھے اور دونوں ماہرین کے زیرِ نگرانی دنیا بھرکے نامور سائنسدانوں نے یہ تحقیق مرتب کی ہے۔

    ڈاکٹرنُزیربطور پاکستانی


    ڈاکٹر نزیر خواجہ کا تعلق پاکستان کے ضلع وزیر آباد سے ہے ۔ انہوں نے پنجاب یونی ورسٹی سے اسپیس سائنس میں ماسٹرز کی ڈگری حاصل کی، بعد ازاں جرمنی کے نامور تعلیمی ادارے ہائیڈل برگ یونی ورسٹی سے پی ایچ ڈی کیا۔

    ان کی پیشہ ورانہ زندگی کا زیادہ تر حصہ کیسینی نامی خلائی مشن پر کام کرتے گزرا ہے جو کہ خلائی تسخیر کی تاریخ کا اہم ترین مشن سمجھا جاتا ہے اور حالیہ تحقیق میں اس مشن کی اہمیت میں بے پناہ اضافہ ہوگیا ہے۔

    اسلام آباد میں ڈاکٹر نزیر خواجہ ایوارڈ وصول کرتے ہوئے

    پاکستان کا سر فخر سے بلند کرنے والے ڈاکٹر نزیر کا تحقیقاتی کام دنیا کے موقر ترین سائنسی جریدوں میں شائع ہوتا رہتا ہے ، اس کے علاوہ وہ خلائی سائنس سے وابستہ اداروں میں جاکر بھی مقالے پڑھا کرتے ہیں۔ صرف یہی نہیں

    بلکہ وہ وقتاً فوقتاً ا پنےمتعلقہ مضمون سے متعلق پاکستانی طالب علموں کی رہنمائی بھی کیا کرتے ہیں، اسی مقصد کے لیے انہوں نے آسٹرو بیالوجی نیٹ ورک آف پاکستان کے نام سے ایک سوسائٹی بھی قائم کررکھی ہے جس کے ذریعے وہ نوجوانوں سے رابطے میں رہتے ہیں۔

    کیسینی جہاز کا سفر


    خیال رہے کہ کیسینی میں ایسے آلات موجود تھے کہ وہ خلا میں جس شے کا بھی معائنہ کرتا اس کا مکمل ڈیٹا یہاں امریکی خلائی ادارے ناسا اور یورپین اسپیس ایجنسی کو موصول ہوجاتا تھا ۔ یہ جہاز چار ارب ڈالر کی لاگت سے خلا میں بھیجا گیا تھا جسے زحل تک پہنچنے میں ایک طویل عرصہ لگا۔ اس نے زحل سے کئی کار آمد تصاویر اور ڈیٹا یہاں سائنسدانوں کو فراہم کیا تھا ۔

    خلائی جہاز کیسینی

    سنہ 2017 میں اس کا رخ زحل کی سطح کی جانب موڑ کر اسے تباہ کردیا گیا تھا ۔سائنس دانوں کے مطابق کیسینی کا مشن پورا ہوچکا تھا، اس کا ایندھن اختتام پر تھا ، جس کے بعد وہ ادھر ادھر بھٹکنے لگتا اس لیے اس جہاز کا تباہ ہونا بہتر تھا چنانچہ اسے زحل کے مدار میں داخل کردیا گیا۔

    ناسا کے مطابق اس مشن پر چار ارب ڈالر کی لاگت آئی اور تیرہ برس کاعرصہ لگا، اس کی رفتار ایک لاکھ 20 ہزار کلومیٹر فی گھنٹہ تھی اور اسی رفتار سے یہ زحل کی سطح سے ٹکرانے کے لیے روانہ ہوا۔متوقع وقت پر جہاز کے سگنل آنا بند ہوگئے جس سے سائنس دانوں کو یقین ہوگیا کہ جہاز زحل سیارہ سے ٹکرا کر تباہ ہوچکا ہے۔

  • ناسا نے مریخ پر ہیلی کاپٹر بھیجنے کا اعلان کردیا

    ناسا نے مریخ پر ہیلی کاپٹر بھیجنے کا اعلان کردیا

    نیویارک: امریکی خلائی تحقیقاتی ادارے ناسا نے مریخ پر ایک ہیلی کاپٹر بھیجنے کا اعلان کردیا ہے تاکہ معلوم کیا جاسکے کہ مریخ پر بھاری مشینوں کی اڑان سے کیا نتائج برآمد ہوتے ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق ناسا نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ دو سال بعد مریخ پر ایک ’روور‘ بھیجی جائے گی جس کی نچلی سطح سے ایک چھوٹا ہیلی کاپٹر منسلک کیا جائے گا۔

    ناسا کے مطابق روور مریخ پر پہنچے گا تو ہیلی کاپٹر اس سے علیحدہ ہوجائے گا، اس کا وزن دو کلو گرام سے بھی کم ہے اور حجم میں بیس بال کی ایک گیند کے برابر ہوگا۔

    یہ ہیلی کاپٹر مریخ کے ماحول میں اڑنے کے لیے تیار کیا جا رہا ہے جو شمسی توانائی سے چارج ہوگا اور اسی توانائی کو سردی میں درجہ حرارت برقرار رکھنے کے لیے استعمال کرے گا۔

    ناسا کی جانب سے جاری کردہ تفصیلات کے مطابق ہیلی کاپٹر کو زمین سے دی جانے والی ہدایات کے ذریعے اڑایا جائے گا۔ بتایا گیا ہے کہ اس ہیلی کاپٹر کے پنکھے زمین پر اڑنے والے ہیلی کاپٹر سے دس گنا تیز چلیں گے، جس کی وجہ مریخ کی انتہائی لطیف ہوا ہے۔

    ناسا کا کہنا ہے کہ یہ منصوبہ ’ہائی رسک، ہائی ریوارڈ‘ یعنی ’بڑا خطرہ اور بڑا ثمر‘ کے مترادف ہے۔ اگر یہ ہیلی کاپٹر مریخ مشن 2020 میں اس طرح کامیاب نہ ہوا جیسا سوچا گیا ہے، تو اس سے مشن کو بہ حیثیت مجموعی کوئی نقصان نہیں ہو گا۔

    نئی زمینوں کی تلاش میں ناسا کا جدید سیٹلائٹ کل روانہ ہوگا


    مشن کی کام یابی کی صورت میں مستقبل میں کم بلندی پر اڑنے والی مشینیں مریخ پر بھیجی جائیں گی تاکہ اس سیارے پر وہ فاصلے بھی طے کیے جا سکیں جو سطح پر سفر کرتے ہوئے طے کرنا ممکن نہیں ہے۔

    ناسا کے ایڈمنسٹریٹر جم برائڈنسٹائین کا کہنا تھا کہ یہ خیال کہ ایک ہیلی کاپٹر کسی اور سیارے کے آسمان میں اڑان بھرے گا، بے حد سنسنی خیز ہے۔ سرخ سیارے کا یہ ہیلی کاپٹر ہماری آئندہ سائنس کے لیے بے حد اہم مرحلہ ہے۔

    واضح رہے کہ مارس 2020 روور مشن جولائی 2020 میں کیپ کنیورل ایئر فورس اسٹیشن فلوریڈا سے روانہ ہوگا اور فروری 2021 میں مریخ پہنچے گا۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • ہوا کی رفتار سے بھی تیز ہوائی جہاز منظر عام پر آگیا

    ہوا کی رفتار سے بھی تیز ہوائی جہاز منظر عام پر آگیا

    واشنگٹن: پندرہ سو تیرہ کلو میٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے پرواز کرنے والا جہاز منظر عام پر آگیا جو بنا کسی شور کے آواز کی رفتار سے بھی تیز فضا میں اڑے گا۔

    تفصیلات کے مطابق ’ایکس‘ نامی طیارہ آواز کی رفتار سے بھی تیز اڑے گا جس کا شور انتہائی کم ہو گا، یہ تقریبا سترہ کلومیٹر سے زائد بلندی پر پرواز کرسکے گا، طیارے کے ذریعے پیرس سے نیویارک کا سفر صرف تین گھنٹے میں طے کر لیا جائے گا۔

    عالمی میڈیا کے مطابق سُپر سونک (شور کے بغیر) طیارہ امریکی ادارہ لاک ہیڈ مارٹن کے اشتراک سے تیار کیا جارہا ہے جو ایک جدید ترین ماڈل ہے، یہ منصوبہ امریکی خلائی ادارے ناسا کی طرف سے دیا گیا ہے جو سن 2021 تک مکمل کر لیا جائے گا۔

    آواز کی دگنی رفتار سے اڑنے والا طیارہ

    امریکی تحقیقاتی ادارے ناسا کی جانب سے جاری کردہ بیان میں کہا گیا ہے کہ تیز ترین جہاز میں دوران پرواز صرف اتنی ہی آواز پیدا ہو گی، جتنی کہ کسی گاڑی کا دروازہ بند کرنے سے پیدا ہوتی ہے اور اب اس طرح کے طیارے کو ٹیسٹ کرنے کا وقت آ گیا ہے۔

    جیٹ طیارہ زمین پر کار کی صورت میں‌ دوڑے گا

    خیال رہے کہ امریکا میں’ایکس طیارے‘ ماضی میں نئی ٹیکنالوجی کے لیے تجرباتی طور پر بھی استعمال کیے جا چکے ہیں لیکن اب اس نئے جہاز کی تیاری کے لیے امریکی صدر کی جانب سے گزشتہ ماہ فنڈز فراہم کیے جاچکے ہیں، اس وقت دنیا کی کئی بڑی کمپنیاں آواز سے بھی تیز طیارے بنانے کے مختلف منصوبوں پر کام کر رہی ہیں۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں، مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کےلیے سوشل میڈیا پرشیئر کریں۔

  • ‘سورج کو چھونے’ کا مشن حتمی مراحل میں داخل

    ‘سورج کو چھونے’ کا مشن حتمی مراحل میں داخل

    واشگنٹن : امریکی خلائی ایجنسی ناسا کے پہلے خطرناک اور جان لیوا ‘سورج کو چھونے’ کے مشن کی تیاریاں حتمی مراحل میں داخل ہوگئی، خلائی جہاز  رواں برس  جولائی میں روانہ کیا جائے گا۔

    تفصیلات کے مطابق امریکی خلائی تحقیقی ادارے ناسا نے نظام شمسی کے راز جاننے کے لیے اپنے خطرناک اور جان لیوا ‘سورج کو چھونے’ کے مشن کی تیاریوں کو حتمی شکل دے دی ہے۔

    خلائی تحقیقی ادارے ناسا نے اس مشن کا نام پارکر سولر پروب رکھا ہے، جس کا مقصد ماہر فلکی طبیعات پروفیسر یوجین پارکر کی خدمات کا خراج تحسین پیش کرنا ہے۔

    اس مشن کا مقصد نظام شمسی کے رازوں سے پردہ اٹھانا اور سورج کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا ہے۔

    انسان کی جانب سے سورج کے اتنا قریب جانے کا پہلا تجربہ ہوگا، جو خوفناک حدت اور ریڈی ایشن کا سامنا کرے گا۔

    ناسا نے عام عوام سے کہا ہے کہ ہم سورج کو چھونے کے لئے ایک خلائی جہاز بھیج رہے ہیں، اگر آپ اس تاریخی پارکر سولر پروب مشن کو دیکھنا چاہتے ہیں تو اپنے نام کے ساتھ آن لائن درخواستیں جمع کرادیں۔

    اس خطرناک مشن کے لیے سولر پروب پلس نامی خلائی جہاز  تیار کیا گیا ہے، جو ایک چھوٹی گاڑی کی طرح ہے، جسے ہفتے کے روز امریکی ریاست فلوریڈا پہنچایا جائے گا۔

    خلائی جہاز کو رواں برس 31 جولائی کو خلا میں روانہ کیا جائے گا، یہ گاڑی سورج کی سطح سے 40 لاکھ میل دور مدار میں گردش کرے گی۔

    خیال رہے کہ اس سے قبل ناسا چاند، مریخ اور خلا میں بہت سے خلائی مشن بھیج چکا ہے۔


    مزید پڑھیں : ناسا کا پہلا خطرناک اور جان لیوا ‘سورج کو چھونے’ کا مشن


    یاد رہے گذشتہ سال یونیورسٹی آف شکاگو میں معروف خلائی ماہر ایوگن پارکر کو خراج تحسین پیش کرنے کے منعقدہ تقریب کے موقع پر ناسا نے اعلان کیا  تھا کہ 2018 کے موسم گرما میں  اپنا پہلاروبوٹک اسپیس کرافٹ سورج کی جانب روانہ کرے گا۔

    واضح رہے کہ سورج کی سطح کو ضیائی کرہ کہا جاتا ہے، جس کا درجہ حرارت 5500 سینٹی گریڈ تک ہوتا ہے جب کہ اس میں اضافہ 2 ملین ڈگری سیلسئس تک ہو سکتا ہے۔

    سورج کے کرہ ہوائی کو کورونا کہا جاتا ہے، اس کورونا کا درجہ حرارت 5 لاکھ ڈگری سینٹی گریڈ تک ہوتا ہے۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں، مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کےلیے سوشل میڈیا پرشیئر کریں۔

  • زمین کو تابکار شعاعوں سے بچانے والی اوزون تہہ کی رفو گری

    زمین کو تابکار شعاعوں سے بچانے والی اوزون تہہ کی رفو گری

    عالمی خلائی ادارے ناسا نے تصدیق کی ہے کہ زمین کو سورج کی تابکار شعاعوں سے بچانے والی اوزون تہہ میں پڑنے والے شگاف رفو ہونا شروع ہوگئے ہیں اور یہ سنہ 2060 تک مکمل طور اپنی اصل حالت میں واپس آجائے گی۔

    خیال رہے کہ اوزون تہہ زمین کی فضا سے 15 تا 55 کلومیٹر اوپر ایک حفاظتی تہہ ہے جو سورج کی مضر اور تابکار شعاعوں کو زمین پر آنے سے روک دیتی ہے۔

    مزید پڑھیں: اوزون کی تہہ زمین کے لیے کیوں ضروری ہے؟

    یہ تابکار شعاعیں انسان کو جلد کے کینسر سمیت قوت مدافعت میں کمی اور دیگر جان لیوا بیماریوں میں مبتلا کرسکتی ہیں جبکہ پودوں کو بھی تباہ کرسکتی ہیں۔

    کچھ دہائیوں قبل دنیا بھر میں اچانک سی ایف سی گیسز کے استعمال میں بے تحاشہ اضافہ ہوگیا تھا جو اس تہہ کو نقصان پہنچا رہی تھی۔

    سی ایف سی یعنی کلورو فلورو کاربن تین مضر گیسوں کاربن، کلورین اور فلورین پر مشتمل ہوتی ہے جو انرجی سیور بلب، ڈیپ فریزر، ریفریجریٹرز، کار، ایئر کنڈیشنر، فوم، ڈرائی کلیننگ، آگ بجھانے والے آلات، صفائی کے لیے استعمال ہونے والے کیمیکل اور فیومیگیشن میں ہوتی ہے۔

    یہ گیس جب فضا میں جاتی ہے تو براہ راست جا کر اوزون کی تہہ کو نقصان پہنچاتی ہے جس سے اس مقام پر سورج کی تابکار شعاعیں زمین پر آںے لگتی ہیں۔

    سنہ 1989 میں جب اوزون کو پہنچنے والے اس نقصان کا علم ہوا تو کینیڈا کے شہر مونٹریال میں ایک معاہدہ کیا گیا جس کے تحت دنیا بھر کو پابند کیا گیا کہ وہ اپنی صنعتوں میں سی ایف سی گیسز کا استعمال کم سے کم کریں۔

    اس معاہدے پر عمل کا مثبت نتیجہ برآمد ہوا ہے اور اوزون کی تہہ کی رفو گری شروع ہوگئی ہے جس کے تصدیق ناسا نے کی ہے جو خلا میں موجود اپنے اورا سیٹلائٹ کے ذریعے سنہ 2005 سے اوزون کی نگرانی کر رہا تھا۔

    اوزون کی تہہ کے پھٹنے اور اس میں شگاف پڑنے کا عمل انٹارکٹیکا کے خطے میں پیش آیا تھا جس کے باعث وہاں کی برف تیزی سے پگھل رہی تھی جس سے سطح سمندر بلند ہونے کا خدشہ تھا۔

    دوسری جانب برف کی عدم موجودگی میں وہاں موجود برفانی حیات کی معدومی کا بھی خطرہ تھا۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ اوزون کی رفو گری فی الحال صرف 20 فیصد ہوئی ہے اور ابھی ہمیں اپنی زمین کو بچانے کے لیے مزید کام کرنا ہوگا جس کے بعد توقع ہے کہ سنہ 2060 یا 2080 تک یہ تہہ مکمل طور پر اپنی اصل حالت میں واپس آجائے گی۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • ٹرمپ کے حکم پر ناسا کا چاند مشن پروگرام بحال

    ٹرمپ کے حکم پر ناسا کا چاند مشن پروگرام بحال

    واشنگٹن: امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ناسا کے چاند پر امریکی خلا بازوں کو بھیجنے کے پروگرام کی بحالی کے حکم نامے پر دستخط کردیے۔

    بین الاقوامی خبر رساں ادارے کے مطابق ٹرمپ نے ناسا کے چاند پر امریکی خلا بازوں کو بھیجنے کے پروگرام کی بحالی کے حکم نامے پر دستخط کردیے۔ ناسا کا چاند مشن سنہ 2011 میں معطل کردیا گیا تھا۔

    پروگرام کی بحالی کے حکم نامے پر دستخط کرتے ہوئے ٹرمپ نے کہا کہ امریکا کے نئے چاند مشن سے مریخ مشن کی بنیاد پڑے گی۔ امریکی خلا بازوں کا دوبارہ چاند پر پہنچنا اہم قدم ہے۔

    انہوں نے کہا کہ ہم نہ صرف چاند پر اپنا پرچم لہرائیں گے اور نقش چھوڑیں گے بلکہ مستقبل میں مریخ کو بھی تسخیر کرنے کی کوشش کریں گے۔

    اس موقع پر صدر ٹرمپ نے ایک کھلونا خلا باز کے ساتھ تصویر بھی کھنچوائی۔

    یاد رہے کہ ناسا کا اپولو پروگرام نامی چاند مشن 1969 سے 1972 تک فعال رہا تھا۔ اسی پروگرام کے تحت امریکا نے پہلی بار چاند کو تسخیر کیا تھا اور خلا باز نیل آرم اسٹرونگ نے چاند پر قدم رکھ کر چاند پر جانے والے پہلے انسان ہونے کا اعزاز حاصل کیا تھا۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • خلاء میں پیزا پارٹی ،  سپر مون کا مزہ دوبالا

    خلاء میں پیزا پارٹی ، سپر مون کا مزہ دوبالا

    واشنگٹن : چٹورے پن نے خلا میں بھی انسان کا پیچھا نہ چھوڑا، ناسا اسپیس اسٹیشن میں شاندار پیزا پارٹی نے سپر مون کا مزہ دوبالا کر دیا۔

    زمین سے سپر مون کا نظارہ تو دل موہ ہی لیتا ہے لیکن اگر آپ زمین سے چار سو کلومیٹر دور ہو اور خلا سے سپر مون کا شاندار نظارہ کریں تو پھر پارٹی تو بنتی ہے۔

    انٹرنیشل اسپیس اسٹیشن پر سجی اس پارٹی میں خلانوردوں نے پیزا تیار کرنے کے لیے تمام لوازمات استعمال کیے ، کشش ثقل سے آزاد ماحول میں لذیذ پیزا تیار کر کے اسپیس اسٹیشن کے مکینوں نے ثابت کر دیا کہ وہ صرف اچھے خلانورد ہی نہیں، اچھے شیف بھی ہیں۔

    خلانورد پاؤلو نیسپولی نے خلا سے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر ایک ویڈیو شیئر کی، جس میں یڈیو میں نظر آنے والے ان خلاء نوردوں کو ہی دیکھ لیں جو سب کا پسندیدہ پیزا نہ صرف بنا رہے ہیں بلکہ خوب مزے لے لیکر رکھا بھی رہے ہیں۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • ناسا کا اعلیٰ ترین اعزاز بنگلہ دیشی انجینئر کے نام

    ناسا کا اعلیٰ ترین اعزاز بنگلہ دیشی انجینئر کے نام

    واشنگٹن: عالمی خلائی ادارے ناسا کے سالانہ اعلیٰ ترین اعزاز کا حقدار اس بار ایک بنگلہ دیشی نژاد طالبہ کو قرار دیا گیا ہے جنہوں نے ٹیکنالوجی کے میدان میں بہترین ایجاد کی۔

    امریکی پروفیسر رابرٹ ایچ گوڈرڈ کے نام پر قائم ناسا کے پروگرام گوڈرڈ اسپیس فلائٹ سینٹرز انٹرنل ریسرچ اینڈ ڈویلپمنٹ (آئی آر اے ڈی) میں بنگلہ دیشی نژاد انجینئر محمودہ سلطانہ کو سال کے بہترین تخلیق کار کا ایوارڈ دیا گیا ہے۔

    سلطانہ نے خلا میں مزید بہتر طریقے سے کام کرنے والے نینو مٹیریلز اور ڈیٹیکرز بنانے کا تجربہ کیا تھا جو کامیاب رہا اور سلطانہ کو اس اعلیٰ اعزاز کا حقدار بھی قرار دیا گیا۔

    مزید پڑھیں: تھرکول منصوبے میں مصروف عمل تھر کی پہلی خاتون انجینئر

    ایوارڈ کا اعلان کرتے ہوئے گوڈرڈ کے چیف ٹیکنالوجسٹ نے سلطانہ کی تعریف کرتے ہوئے کہا وہ ایک بہترین تکنیکی و تخلیقی ذہن کی مالک اور متاثر کن صلاحیتوں کی حامل ہے۔

    انہوں نے کہا کہ وہ اس کم عمر طالبہ کی کامیابی سے نہایت خوش ہیں اور انہیں یقین ہے کہ سلطانہ مستقبل میں مزید کارنامے سر انجام دے گی۔

    سلطانہ اپنے بارے میں بتاتی ہیں، ’جب ہم اس ادارے میں نئے نئے آئے تھے تو سب کے پاس نہایت اچھوتے آئیڈیاز تھے جو باہر کی دنیا کے افراد کے لیے نہایت انوکھے اور ناقابل عمل تھے۔ لیکن سب نے اپنے تخیلات و تصورات پر کام کیا اور سب ہی اس میں کامیاب ہوئے‘۔

    محمودہ سلطانہ اس وقت دنیا کے بہترین تحقیقی اداروں میں سے ایک میساچوسٹس انسٹیٹیوٹ آف ٹیکنالوجی (ایم آئی ٹی) کے ساتھ بھی طبیعات کے ایک پروجیکٹ پر کام کر رہی ہیں۔

    مزید پڑھیں: خلا کو تسخیر کرنے والی باہمت خواتین

    سلطانہ نے اپنے خاندان کے ساتھ بہت کم عمری میں بنگلہ دیش سے ہجرت کرلی تھی جس کے بعد انہوں نے اپنی تعلیم کیلی فورنیا میں مکمل کی۔ بعد ازاں انہوں نے ایم آئی ٹی سے ہی کیمیکل انجینئرنگ میں پی ایچ ڈی بھی کی۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔