Tag: Nature

  • کیا آپ فطرت (نیچر) کے بارے میں یہ باتیں جانتے ہیں؟

    کیا آپ فطرت (نیچر) کے بارے میں یہ باتیں جانتے ہیں؟

    فطرت (Nature) ایک وسیع اور بنیادی تصور ہے لیکن اس سے عام طور پر انسان کی پیدائشی حالت، اس کے بنیادی رجحانات اور وہ خصوصیات مراد لے لی جاتی ہے جو اسے فطری طور پر عطا کی گئی ہیں۔

    مگر فطرت ایک وسیع، خودمختار، اور پیچیدہ نظام ہے جو اربوں سالوں سے اپنے قوانین کے تحت چل رہا ہے۔ یہ انسان سے الگ اور اس سے کہیں بڑا ہے، اور چاہے انسان موجود ہو یا نہ ہو یہ نظام اپنے بل پر چلتا رہتا ہے۔

    فطرت کا انسانی وجود سے آزاد پہلو


    قدرتی نظام (Natural Systems): فطرت کائنات کا وہ حصہ ہے جو اپنے اندرونی قوانین سے وجود میں آیا اور چل رہا ہے، جیسے سورج، چاند، ستارے، سمندر، پہاڑ، اور زمین کے اندرونی عمل (جیسے زلزلے یا آتش فشاں)۔ یہ سب انسان سے آزاد ہیں اور اپنے فطری قوانین کے تحت کام کرتے ہیں۔

    حیاتیاتی تنوع (Biodiversity): فطرت میں تمام جان دار شامل ہیں، جیسے جانور، پرندے، کیڑے مکوڑے، پودے، اور جرثومے (Microorganisms)۔ یہ سب ارتقائی عمل کے نتیجے میں وجود میں آئے اور انسان کے بغیر بھی اپنی زندگی کے چکر (Life Cycles) مکمل کرتے ہیں، جیسے شہد کی مکھیوں کا چھتا بنانا یا درختوں کا بڑھنا۔

    موسمی اور ماحولیاتی عمل (Environmental Processes): فطرت میں وہ تمام واقعات شامل ہیں جو انسان کے کنٹرول سے باہر ہیں، جیسے بارش، طوفان، موسموں کا بدلنا، یا سمندری لہروں کی حرکت۔ یہ عمل زمین کے فطری توازن اور سورج، چاند، اور سیاروں کے باہمی تعامل سے چلتے ہیں۔

    کیمیائی اور طبیعیاتی قوانین (Chemical and Physical Laws): فطرت کو چلانے والے بنیادی قوانین جیسے کشش ثقل (Gravity)، توانائی کا تبادلہ (Thermodynamics)، یا آکسیجن اور کاربن ڈائی آکسائیڈ کا چکر (Carbon Cycle) انسان سے آزاد ہیں۔ یہ قوانین کائنات کے آغاز سے موجود ہیں اور فطرت کے ہر جزو کو متاثر کرتے ہیں۔

    خودکار توازن (Self-Regulation): فطرت کا ایک اہم پہلو اس کا خود کو متوازن رکھنے کا نظام ہے۔ مثال کے طور پر، جنگلوں میں شکار اور شکار کرنے والے جانوروں کے درمیان توازن، یا سمندر میں پانی کے بخارات بننے اور بارش کا عمل، یہ سب انسان کی مداخلت کے بغیر چلتے ہیں۔

    فطرت کا انسانی وجود سے جڑا پہلو


    سائنسی طور پر فطرت کو عام طور پر انسانوں، جانوروں، پودوں اور مجموعی طور پر کائنات کے فطری نظام کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ اسے حیاتیات، جینیات، اور ارتقائی سائنس (Evolutionary Science) کے تناظر میں سمجھا جا سکتا ہے۔ یہ فطرت کا وہ پہلو ہے جو انسان کے وجود سے جڑا ہوا ہے۔

    جینیاتی بنیاد (Genetics): سائنس کے مطابق انسان کی فطرت کا بڑا حصہ اس کے جینز سے طے ہوتا ہے۔ جینز وہ بنیادی اکائیاں ہیں جو والدین سے بچوں میں منتقل ہوتی ہیں اور ان میں انسان کی جسمانی خصوصیات (جیسے رنگت، قد) اور کچھ بنیادی رویوں کے رجحانات شامل ہوتے ہیں۔

    جبلت (Instincts): انسان اور دیگر جان داروں میں کچھ فطری رویے ہوتے ہیں، جو بغیر سیکھے موجود ہوتے ہیں۔ مثال کے طور پر، نومولود بچے کا دودھ پینے کی کوشش کرنا یا خطرے سے بچنے کی جبلت۔ یہ ارتقائی عمل (Evolution) کا نتیجہ مانے جاتے ہیں جو بقا کے لیے ضروری ہیں۔

    دماغ اور رویہ (Brain and Behavior): سائنس کہتی ہے کہ انسان کا دماغ (خاص طور پر نیورو کیمیکلز جیسے ڈوپامائن اور سیروٹونن) اس کی فطرت کو متاثر کرتا ہے۔ مثال کے طور پر، سماجی تعلق قائم کرنے کی خواہش یا خوف کا ردعمل دماغ کے فطری نظام کا حصہ ہیں۔

    ماحول سے تعامل (Interaction with Environment): اگرچہ فطرت جینیاتی طور پر طے ہوتی ہے، لیکن سائنس یہ بھی مانتی ہے کہ ماحول (Nurture) اسے شکل دیتا ہے۔ اسے ’’نیچر بمقابلہ نیچر‘‘ کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ یعنی فطرت اور تربیت مل کر انسان کے رویوں اور شخصیت کو تشکیل دیتے ہیں۔

    ارتقائی نقطہ نظر (Evolutionary Perspective): ارتقائی حیاتیات کے مطابق فطرت میں موجود خصوصیات وہ ہیں جو لاکھوں سالوں کے دوران بقا اور تولید (Survival and Reproduction) کے لیے موزوں ثابت ہوئیں۔ مثلاً انسان کا سماجی ہونا اسے گروہوں میں زندہ رہنے میں مدد دیتا ہے۔

    سائنسی طور پر انسانی فطرت کو جامد چیز نہیں، بلکہ ایک متحرک عمل کے طور پر دیکھا جاتا ہے جو جینیات، دماغی ڈھانچے اور ارتقائی دباؤ سے مل کر بنتا ہے۔ نیورو سائنس کے تناظر میں انسانی فطرت (Human Nature) کو دماغ کے ڈھانچے، اس کے کیمیائی عمل، اور عصبی نظام (Nervous System) کے فطری رجحانات کے ذریعے سمجھا جاتا ہے۔ جس کے مطابق انسان کے بنیادی رویے، جذبات، اور فیصلہ سازی کا تعلق دماغ کے فطری نظام سے ہے۔

    انسانی فطرت نیورو سائنس کے تناظر میں


    دماغ کا ڈھانچا (Brain Structure): انسانی دماغ 3 بنیادی حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے جو فطرت کا حصہ ہیں: ریپٹیلین دماغ (Reptilian Brain) جو بنیادی جبلتوں (جیسے بھوک، خوف، بقا) کو کنٹرول کرتا ہے، لمبک سسٹم (Limbic System) جو جذبات (محبت، غصہ، خوشی) سے جڑا ہے، اور نیو کورٹیکس (Neocortex) جو سوچ، منطق، اور زبان کے لیے ذمہ دار ہے۔ یہ تمام حصے ارتقائی طور پر مختلف مراحل میں تیار ہوئے ہیں اور ان سے انسان کی فطرت متشکّل ہوئی ہے۔

    نیورو کیمیکلز (Neurochemicals): دماغ میں موجود کیمیائی مادے جیسے ڈوپامائن (خوشی اور انعام کا احساس)، سیروٹونن (مستقل مزاجی اور اطمینان)، آکسیٹوسن (سماجی تعلق اور اعتماد)، اور کورٹیسول (تناؤ) انسان کے فطری رویوں کو کنٹرول کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر، ماں اور بچے کے درمیان محبت کا رشتہ آکسیٹوسن کی وجہ سے فطری طور پر مضبوط ہوتا ہے۔

    جبلی ردعمل (Instinctual Responses): نیورو سائنس کے مطابق انسان کے کچھ ردعمل فطری طور پر دماغ میں پروگرامڈ ہوتے ہیں۔ جیسے فائٹ یا فلائٹ (Fight or Flight) ردعمل، جو ایمیگڈالا (Amygdala) نامی دماغ کے حصے سے کنٹرول ہوتا ہے۔ یہ خطرے کے وقت خود بخود متحرک ہوتا ہے۔ یہ دماغ کے لمبک سسٹم میں بادام کی شکل کا ایک اسٹرکچر ہے۔ اسی طرح، سماجی تعلق کی خواہش دماغ کے انعامی نظام (Reward System) سے جڑی ہے۔

    جینیاتی اثر (Genetic Influence): نیورو سائنس جینیات کے ساتھ مل کر بتاتی ہے کہ دماغ کی ساخت اور اس کے نیٹ ورکس جینز سے وراثت میں ملتے ہیں۔ مثال کے طور پر کچھ لوگوں میں تناؤ یا پریشانی کا زیادہ رجحان ان کے دماغ کے کیمیائی توازن اور جینیاتی عوامل کی وجہ سے ہوتا ہے۔

    سماجی فطرت (Social Nature): انسان کا سماجی ہونا بھی نیورو سائنسی طور پر اس کے دماغ سے جڑا ہے۔ مرر نیورونز (Mirror Neurons) انسان کو دوسروں کے جذبات سمجھنے اور ان کی نقل کرنے میں مدد دیتے ہیں، جو تعاون اور گروہی زندگی کے لیے فطری ہیں۔ یہ سماجی رجحانات ارتقائی طور پر انسان کی بقا کے لیے اہم رہے ہیں۔

    لچک اور سیکھنے کی صلاحیت (Plasticity): دماغ کی نیورو پلاسٹیسٹی (Neuroplasticity) انسانی فطرت کا ایک انوکھا پہلو ہے۔ یعنی، اگرچہ کچھ چیزیں فطری ہیں، لیکن دماغ ماحول سے سیکھ کر خود کو تبدیل بھی کر سکتا ہے۔ یہ فطرت اور تربیت (Nature vs. Nurture) کے تعامل کو ظاہر کرتا ہے۔

    فطرت اور ادب


    اگرچہ انسان خود کائنات میں پھیلی عظیم تر فطرت کے بے شمار مظاہر میں سے ایک مظہر ہے، تاہم ادب میں فطرت کو زیادہ تر انسان کے مقابلے میں پیش کیا جاتا ہے۔ کبھی یہ دونوں ہم آہنگ دکھائی دیتے ہیں، جیسے قدیم دیہاتی کہانیوں میں، اور کبھی متضاد، جیسے جدید ادب میں جہاں انسان فطرت کو تباہ کرتا نظر آتا ہے۔ مثال کے طور پر انگریزی ناول The Old Man and the Sea میں فطرت (سمندر) اور انسان کے درمیان کشمکش دکھائی گئی ہے۔

    فطرت اور ادب کا رشتہ بہت گہرا اور قدیم ہے۔ ادب میں فطرت کو مختلف طریقوں سے پیش کیا جاتا ہے—کبھی اسے انسان کے جذبات کا آئینہ دار بنایا جاتا ہے، کبھی اس کی خوب صورتی کو سراہا جاتا ہے، اور کبھی اسے ایک علامت کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔ رومانوی شاعروں جیسے ولیم ورڈز ورتھ اور جان کیٹس کی نظمون میں فطرت مرکزی موضوع رہا، ورڈز ورتھ کا یہ مشہور مصرعہ کتنا خوب صورت ہے ’’Nature never did betray the heart that loved her‘‘۔ یعنی جس دل میں فطرت کا پیار ہوتا ہے، اسے فطرت کبھی دھوکا نہیں دیتا۔

    ایک طرف اگر ادیبوں نے فطرت کو ایک روحانی قوت کے طور پر دیکھا، تو دوسری طرف صنعتی انقلاب اور ماحولیاتی مسائل کے بعد ادب میں فطرت کو تباہی کے تناظر میں بھی دیکھا جانے لگا ہے، جدید ناولوں اور شاعری میں فطرت کی بربادی، آلودگی، اور انسان کے ہاتھوں اس کی بے توقیری کو موضوع بنایا گیا۔

    کیا فطرت بے رحم ہے؟


    بعض اوقات فطرت کو بے رحم کہہ دیا جاتا ہے، اس سوال کا جواب نقطہ نظر پر منحصر ہے۔ سائنسی طور پر فطرت کوئی شعوری ہستی نہیں ہے جو رحم یا بے رحمی کا فیصلہ کرے۔ یہ صرف اپنے قوانین کے تحت کام کرتی ہے، جیسے کشش ثقل، موسم، یا ارتقائی عمل۔ مثال کے طور پر زلزلے، طوفان، یا شکار کرنے اور شکار ہونے کا نظام، یہ فطرت کے عمل ہیں جو کسی جذبات سے متاثر نہیں ہوتے۔ اگر ایک شیر ہرن کا شکار کرتا ہے، تو یہ بے رحمی نہیں، بلکہ فطرت کا توازن ہے، کیوں کہ یہ شیر کی بقا کے لیے ضروری ہے۔ اسی طرح بیماری یا قدرتی آفتیں بھی فطرت کے عمل کا حصہ ہیں، نہ کہ کوئی دانستہ ظلم۔

    فلسفیانہ نقطہ نظر یہ ہے کہ کچھ فلسفی فطرت کو بے رحم سمجھتے ہیں کیوں کہ یہ انسان کے جذبات یا اخلاقیات کی پروا نہیں کرتی۔ مثال کے طور پر تنہائی یا موت کے خوف سے دوچار انسان فطرت کے سامنے خود کو بے بس پا سکتا ہے۔ لیکن دیگر فلسفی جیسے کہ رومانوی مفکرین فطرت کو ایک خوب صورت اور رحم دل قوت سمجھتے ہیں جو انسان کو سکون اور تحریک دیتی ہے، جیسے بہار کے پھول یا سمندر کی لہریں۔

    انسانی تجربہ یہ ہے کہ جب فطرت کی تباہ کاریاں، جیسے سیلاب، زلزلے، یا وبائیں، انسانوں کو نقصان پہنچاتی ہیں تو لوگ اسے بے رحم سمجھنے لگتے ہیں۔ لیکن یہ بے رحمی فطرت کی جانب سے کوئی ارادی عمل نہیں، بلکہ اس کے غیر جانب دار قوانین کا نتیجہ ہے۔

  • غریب بچے بڑے ہو کر دولت مند کیسے بن سکتے ہیں؟

    غریب بچے بڑے ہو کر دولت مند کیسے بن سکتے ہیں؟

    غریب بچے بڑے ہو کر دولت مند کیسے بن سکتے ہیں؟ یہ ایسا سوال ہے جس کے جواب کا ہر غریب شخص متلاشی ہے، لیکن اب ایک بڑے پیمانے پر کی گئی امریکی تحقیق نے اس سلسلے میں ایک اہم انکشاف کیا ہے۔

    امریکی سائنسی جریدے ‘نیچر‘ میں شائع ہونے والی ایک تحقیقاتی رپورٹ میں ‘دوستی کی طاقت’ کے حوالے سے کہا گیا ہے کہ امیر دوستوں والے بچوں کے بڑے ہو کر دولت مند بننے کا امکان زیادہ ہوتا ہے، اگرچہ ایسا پہلے بھی سمجھا جاتا رہا ہے تاہم پہلی مرتبہ اتنے وسیع پیمانے پر ریسرچ کی گئی ہے۔

    محققین نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ اگر غریب گھروں کے بچے ایسے پڑوس میں پلے بڑھیں، جہاں امیر بچے ان کے دوست ہوں، تو بڑے ہو کر ان کے اپنے طور پر دولت کمانے کے امکانات زیادہ ہو جاتے ہیں۔

    تحقیق کے نتائج کے مطابق وہ غریب بچے جو ایسے پڑوس میں پلے بڑھے جہاں ان کے 70 فی صد دوست امیر تھے، تو مستقبل میں ان کی آمدنی ان کے ساتھیوں کے مقابلے میں 20 فی صد زیادہ تھی، بہ نسبت ان کے جو طبقاتی فرق والے رابطوں کے بغیر پلے بڑھے۔

    امریکی محققین کی ایک ٹیم نے اس موضوع پر اپنی ریسرچ کا دائرہ وسیع کرنے کے لیے فیس بک کا انتخاب کیا، کیوں کہ یہ دنیا کا سب سے بڑا سوشل نیٹ ورکنگ پلیٹ فارم ہے، اور دنیا کے تقریباً 3 ارب انسان فیس بک استعمال کرتے ہیں۔

    محققین نے صارفین میں سے تقریباً 7.2 کروڑ افراد کے اعداد و شمار کا مطالعہ کیا، تاہم 25 سے 44 برس تک کی عمر کے ان افراد کی ذاتی تفصیلات کو راز میں رکھا گیا۔

    محققین نے ایک ایلگورتھم کا استعمال کیا، جس میں افراد کو ان کی سماجی اور اقتصادی حیثیت، عمر، علاقے اور کئی دیگر زمروں میں تقسیم کیا گیا، ماہرین نے اپنی ریسرچ میں ایک زمرہ یہ بھی بنایا تھا کہ امیر اور غریب ایک دوسرے سے کس طرح با ت چیت کرتے ہیں۔

    ریسرچ میں دیکھا گیا کہ افراد کے ان کی معاشی حیثیت سے بلند کتنے دوست تھے؟ محققین نے حاصل شدہ اعداد و شمار کا پچھلے تجزیوں اور تحقیقی مطالعات سے موازنہ بھی کیا۔

    ہارورڈ یونیورسٹی کے ماہر اقتصادیات اور اس ریسرچ ٹیم کے سربراہ راج شیٹی نے کہا دو الگ الگ بنیادوں پر اخذ کیے گئے نتائج ‘حیرت انگیز طور پر یکساں’ تھے، پہلے مطالعے سے یہ نتیجہ نکلا کہ ‘معاشی بنیاد پر ربط’ اس بات کی پیش گوئی کرنے کے لیے سب سے مضبوط بنیاد ہے کہ کوئی شخص کتنی اقتصادی ترقی کر سکتا ہے۔ دوسرے مطالعے سے یہ پتا لگانے کی کوشش کی گئی تھی کہ امیر یا غریب طبقات کے بچے کسی خاص شعبے میں کیوں دوست بنا لیتے ہیں۔

    محققین کو امید ہے کہ ان کی اس ریسرچ سے پالیسی سازوں کو مثبت اور تعمیری اقدامات میں مدد ملے گی، راج شیٹی کا خیال ہے کہ دیگر ممالک میں بھی ایسی ریسرچز کے نتائج اسی طرح کے ہوں گے، اس لیے انھوں نے دیگر ملکوں کے محققین سے فیس بک ڈیٹا استعمال کر کے اپنے ہاں ریسرچ کرنے کی اپیل بھی کی۔

    ماہرین نے یہ اشارہ بھی کیا ہے کہ غریب اور امیر بچوں کی زیادہ سے زیادہ دوستیوں سے غربت میں کمی بھی لائی جا سکتی ہے۔

  • انسان کی ماحول دشمنی اسے خطرناک بیماریوں کا شکار بنا سکتی ہے

    انسان کی ماحول دشمنی اسے خطرناک بیماریوں کا شکار بنا سکتی ہے

    کرونا وائرس کی وبا دنیا کے لیے ایک یاد دہانی ہے جس میں فطرت نے ہمیں بھرپور طریقے سے احساس دلایا کہ ترقی کی دوڑ میں ہم اس قدر تیز بھاگ رہے ہیں کہ نفع نقصان کا فرق بھی بھول چکے ہیں۔

    ہم نے دیکھا کہ کس طرح ہماری دہائیوں اور صدیوں کی ترقی اور معیشت کا پہیہ فطرت کے صرف ایک وار سے جھٹکے سے رک گیا اور پوری دنیا کا نظام اتھل پتھل ہوگیا۔

    ماہرین کے مطابق جس بے دردی سے ہم زمین کے پائیدار وسائل کو ضائع کر رہے تھے اور صرف یہ سمجھ بیٹھے تھے کہ یہ زمین صرف انسانوں کے لیے ہے، اس کے ردعمل میں یہ جھٹکا نہایت معمولی ہے، اور اگر ہم اب بھی نہ سنبھلے تو آئندہ جھٹکے اس قدر خطرناک ہوسکتے ہیں کہ پوری نسل انسانیت کو بقا کا خطرہ لاحق ہوسکتا ہے۔

    لیکن سوال یہ ہے کہ کیا ہم نے اب بھی اس وبا سے کچھ سیکھا ہے یا ہم اپنی پرانی روش پر قائم رہیں گے؟

    ایک تحقیق کے مطابق اکثر قدرتی آفات اور وباؤں کو دعوت دینے والا خود انسان ہی ہے جو دنیا بھر میں اپنی سرگرمیوں سے فطرت اور ماحول کے سسٹم میں خلل ڈال رہا ہے اور ان میں خرابی پیدا کر رہا ہے۔

    ماہرین کا ماننا ہے کہ کرونا وائرس بھی ان وباؤں میں سے ایک ہے جو انسان کی اپنی سرگرمیوں کی وجہ سے انہیں متاثر کر رہی ہے، یعنی اگر ہم اپنی حدود میں رہتے ہوئے فطرت سے چھیڑ چھاڑ نہ کرتے تو یہ وبا شاید انسانوں تک نہ پہنچتی۔

    یہ جاننا ضروری ہے کہ ہماری وہ کون سی سرگرمیاں ہیں جو ہمارے ہی لیے نقصان دہ ثابت ہورہی ہیں، اور ہم خود کو بچانے کے لیے کیا اقدامات کر سکتے ہیں؟

    انٹر گورنمنٹل سائنس پالیسی پلیٹ فارم آن بائیو ڈائیورسٹی اینڈ ایکو سسٹم سروس (IPBES) کی سنہ 2020 میں جاری کی جانے والی رپورٹ کے مطابق انسانوں میں پھیلنے والے تقریباً ایک تہائی متعدی امراض ایسے ہیں جو جانوروں سے منتقل ہوئے، اس وقت 17 لاکھ وائرسز ایسے ہیں جو ابھی تک دریافت نہیں ہوسکے اور یہ ممالیہ جانداروں اور پرندوں میں موجود ہیں، ان میں سے نصف ایسے ہیں جو انسانوں کو متاثر کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔

    وجہ؟ انسانوں کا جانوروں سے غیر ضروری رابطہ۔ اس کے خطرناک نقصانات کو ماہر ماحولیات سنیتا چوہدری نے نہایت تفصیل سے بتایا، سنیتا چوہدری مختلف ممالک میں ماہر جنگلات کے طور پر کام کرچکی ہیں جبکہ آج کل وہ نیپال کے تحفظ ماحولیات کے ادارے آئی سی موڈ سے بطور ایکو سسٹم سروس اسپیشلسٹ وابستہ ہیں۔

    سنیتا چوہدری کہتی ہیں کہ انسانوں کا غیر قانونی شکار اور جانوروں کی تجارت کا جنون انہیں سخت نقصان پہنچا رہا ہے، اس تجارت کے لیے وہ جنگلات میں جانوروں کے مساکن (Habitat) میں مداخلت کرتے ہیں اور یہیں سے وہ متعدد وائرسز اور جراثیموں کا شکار بن سکتے ہیں۔

    سنیتا چوہدری کے مطابق اس وقت دنیا بھر میں بطور غذا یا ادویات کی تیاری میں مختلف جانوروں کا استعمال کیا جارہا ہے، ایک اور وجہ گھروں میں جنگلی جانور پالنے کا انسان کا غیر معمولی شوق ہے جس کے دوران تمام خطرات اور احتیاطی تدابیر کو نظر انداز کردیا جاتا ہے۔

    ایک تحقیق کے مطابق جنگلات کی کٹائی بھی انسانوں میں مختلف بیماریوں کے پھیلاؤ کا سبب بن سکتی ہے، کیونکہ جنگلات میں رہنے والے جانور جنگل کٹنے کے بعد انسانی آبادیوں کے ارد گرد رہنے لگتے ہیں۔ بعض اوقات ہم خود ہی جنگلات یا پہاڑوں کو کاٹ کر وہاں رہائشی آبادیاں بنا کر انسانوں کو بسا دیتے ہیں۔

    ان تمام عوامل کے نتیجے میں ہم جانوروں کے جسم میں پلنے والے ان وائرسز، جرثوموں اور بیماریوں کے حصے دار بن جاتے ہیں جو جانوروں میں تو اتنے فعال نہیں ہوتے، لیکن انسانوں پر کاری وار کرسکتے ہیں۔

    کیا کلائمٹ چینج بھی وباؤں کو جنم دے سکتا ہے؟

    سنہ 2011 میں رشین اکیڈمی آف سائنس سے منسلک ماہرین نے اپنی ایک تحقیقاتی رپورٹ میں بتایا کہ موسمیاتی تغیرات یعنی کلائمٹ چینج کے باعث درجہ حرارت بڑھنے کا عمل (جسے گلوبل وارمنگ کہا جاتا ہے) جہاں ایک طرف تو زمینی حیات کے لیے کئی خطرات کو جنم دے رہا ہے، وہاں وہ ان جراثیم اور وائرسز کو پھر سے زندہ کرنے کا سبب بن سکتا ہے جنہوں نے کئی صدیوں قبل لاکھوں کروڑوں انسانوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا تھا۔

    یہ تحقیق برفانی خطے آرکٹک میں کی گئی تھی جہاں گلوبل وارمنگ کی وجہ سے ٹنوں برف پگھل رہی تھی، ایسے میں برف کے نیچے دبے صدیوں پرانے وائرس اور جراثیم جلد یا بدیر ظاہر ہونے کے قریب تھے۔

    اس کی ایک مثال اگست 2016 میں دیکھنے میں آئی جب سائبریا کے ایک دور دراز علاقے میں ایک 12 سالہ لڑکا جانوروں کو ہونے والی ایک بیماری انتھراکس کا شکار ہو کر ہلاک ہوگیا جبکہ 20 کے قریب افراد اس مرض کا شکار ہو کر اسپتال پہنچ گئے۔

    ماہرین نے جب اس وبا کے اچانک پھیلاؤ کے عوامل پر تحقیق کی تو انہیں علم ہوا کہ تقریباً 75 سال قبل اس مرض سے متاثر ایک بارہ سنگھا اسی مقام پر ہلاک ہوگیا تھا۔

    سال گزرتے گئے اور بارہ سنگھے کے مردہ جسم پر منوں برف کی تہہ جمتی گئی، لیکن سنہ 2016 میں جب گرمی کی شدید لہر یعنی ہیٹ ویو نے سائبیریا کے برفانی خطے کو متاثر کیا اور برف پگھلنا شروع ہوئی تو برف میں دبے ہوئے اس بارہ سنگھے کی باقیات ظاہر ہوگئیں اور اس میں تاحال موجود بیماری کا وائرس پھر سے فعال ہوگیا۔

    اس وائرس نے قریب موجود فراہمی آب کے ذرائع اور گھاس پر اپنا ڈیرا جمایا جس سے وہاں چرنے کے لیے آنے والے 2 ہزار کے قریب بارہ سنگھے بھی اس بیماری کا شکار ہوگئے۔

    بعد ازاں اس وائرس نے محدود طور پر انسانوں کو بھی متاثر کیا جن میں سے ایک 12 سالہ لڑکا اس کا شکار ہو کر ہلاک ہوگیا۔

    یہ صرف ایک مثال تھی، ماہرین کا کہنا ہے کہ عالمی درجہ حرارت بڑھنے کے باعث جیسے جیسے زمین کے مختلف مقامات کی برف پگھلتی جائے گی، ویسے ویسے مزید مہلک اور خطرناک بیماریاں پیدا کرنے والے وائرسز پھر سے نمودار ہو جائیں گے۔

    یہاں یہ یاد رہے کہ برف میں جم جانے سے کوئی جسم بغیر کسی نقصان کے صدیوں تک اسی حالت میں موجود رہ سکتا ہے، جبکہ اس طرح جم جانا کسی وائرس یا بیکٹیریا کے لیے بہترین صورتحال ہے کیونکہ وہاں آکسیجن نہیں ہوتی اور ماحول سرد اور اندھیرا ہوتا ہے چنانچہ اس طرح وہ لاکھوں سال تک زندہ رہ سکتے ہیں۔ لہٰذا یہ کہنا بعید از قیاس نہیں کہ لاکھوں سال پرانے وائرس اور جراثیم، جن کے نام بھی ہم نہ جانتے ہوں گے، ہم پر پھر سے حملہ آور ہوسکتے ہیں۔

    گزشتہ برس یورپی یونین کی جانب سے کی گئی ایک تحقیق بھی یہ بتاتی ہے کہ کلائمٹ چینج کی وجہ سے بڑھتا ہوا درجہ حرارت یعنی گلوبل وارمنگ اکثر متعدی امراض میں اضافے کا سبب ہے جیسے ملیریا اور زیکا وغیرہ، اور یہ بات اب طے ہوچکی ہے کہ زمین پر کلائمٹ چینج کی وجہ انسان کی بے پناہ صنعتی ترقی اور اس سے خارج ہونے والی مضر گیسز ہیں۔

    سنیتا چوہدری کہتی ہیں کہ برف پگھلنے کی صورت میں سامنے آنے والے وائرسز کی تعداد اور خطرناکی لامحدود ہوگی، گلوبل وارمنگ ان وائرسز کو مزید فعال اور طاقتور کردے گی، یوں ہمارے سامنے ان گنت خطرات موجود ہیں۔

    کیا ہم بچاؤ کے اقدامات کرسکتے ہیں؟

    یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کیا ہم ان عوامل کو روکنے یا ان کی رفتار دھیمی کرنے کے قابل ہیں؟ اور ایسا کر کے کیا ہم اپنا بچاؤ کر سکتے ہیں؟

    اس حوالے سے سنیتا چوہدری کہتی ہیں کہ کووڈ 19 ہمارے لیے ایک وارننگ ہے کہ انسانوں کا فطرت سے تعلق نہایت ہی غیر صحت مندانہ ہے، ہم فطرت کو ایک پروڈکٹ کی طرح استعمال کر رہے ہیں، جبکہ حقیقت میں ہمیں اس سے بہتر تعلق قائم کر کے فطرت کو اپنے لیے، اور خود کو فطرت کے لیے فائدہ مند بنانا چاہیئے۔

    سنیتا کے مطابق اگر ہم قدرتی ماحول اور فطرت کو احسن اور پائیدار طریقے سے استعمال کریں تو یہ انسانوں اور مختلف وبائی امراض کے درمیان ایک ڈھال کا کردار ادا کر سکتی ہے، ہمیں فطرت کا تحفظ کرنے کی ضرورت ہے اور ضروری ہے کہ انسانوں اور فطرت کے درمیان ہم آہنگی کا رشتہ ہو۔

    سنیتا کے مطابق مندرجہ ذیل اقدامات کی صورت میں ہم نہ صرف ماحول کا بلکہ مختلف خطرات سے اپنا بھی بچاؤ کر سکتے ہیں۔

    دنیا بھر میں ایکو سسٹم کی بحالی، فطری حسن اور وہاں کی مقامی جنگلی حیات کا تحفظ

    زراعت میں رائج پرانے طریقوں کو چھوڑ کر جدید طریقے اپنانا جو بدلتے موسموں سے مطابقت رکھتے ہوں

    جانوروں کے لیے محفوظ علاقوں کا قیام

    آبی ذخائر کی بحالی اور ان کا تحفظ

    ماہرین کا کہنا ہے کہ فطرت کا تحفظ اب ہمارے لیے ایسی ضرورت بن گئی ہے جو ہماری اپنی بقا کے لیے ضروری ہے، ورنہ ہماری اپنی ترقی ہی ہمارے لیے ناقابل تلافی نقصان کا سبب بن سکتی ہے۔

  • کرونا وائرس سے کہیں زیادہ خطرناک وائرس ہم پر حملہ آور ہوسکتے ہیں!

    کرونا وائرس سے کہیں زیادہ خطرناک وائرس ہم پر حملہ آور ہوسکتے ہیں!

    برلن: ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر ہم نے فطرت کی حفاظت نہ کی تو دنیا میں مزید وائرسز سر اٹھائیں گے جو زیادہ تیزی سے پھیلیں گے، زیادہ خطرناک ہوں گے اور زیادہ افراد کو اپنا نشانہ بنائیں گے۔

    جرمنی میں حال ہی میں کی جانے والی ایک تحقیق میں کہا گیا ہے کہ اگر جنگلات اور جنگلی حیات کے دیگر مساکن (ان کے گھروں) کا، پرندوں، جانوروں اور پودوں کی مختلف اقسام کا خیال رکھا جائے تو ہماری دنیا مختلف وباؤں سے محفوظ رہ سکتی ہے۔

    یہ تحقیق جرمن حکومت کے زیر سرپرست ادارے انٹر گورنمنٹل سائنس پالیسی پلیٹ فارم آن بائیو ڈائیورسٹی ایند ایکو سسٹم سروسز کی جانب سے کی گئی ہے۔

    تحقیق میں ماہرین نے انکشاف کیا کہ اس وقت ہماری زمین پر 17 لاکھ کے قریب ایسے غیر دریافت شدہ وائرسز موجود ہوسکتے ہیں جو انسانوں کو متاثر کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ جب ہم جانوروں سے زیادہ تعلق رکھتے ہیں جیسے کہ غیر قانونی تجارت کے لیے ان کا شکار کرنا، ان کی پناہ گاہوں کے قریب جانا، یا پھر جنگلات کو کاٹ کر وہاں نئی تعمیرات بنانا تو ایسے میں ہم ان وائرسز سے قریب آجاتے ہیں نتیجتاً مختلف وباؤں کے پھیلاؤ کا سبب بن سکتے ہیں۔

    اس کی ایک مثال یہی کوویڈ 19 کا کرونا وائرس ہے جو چین کی مچھلی مارکیٹ سے پھیلنا شروع ہوا۔

    تحقیق میں کہا گیا کہ ان وباؤں سے بچاؤ کے اقدامات، کسی وبا کے پھیل جانے کے بعد اس کی روک تھام کے لیے کیے جانے والے اقدامات سے 100 گنا سستے ہوں گے، تاہم اس کی طرف دنیا کی توجہ کم ہے۔

    ماہرین کا کہنا تھا کہ کرونا وائرس کی وجہ سے صرف جولائی کے مہینے تک عالمی معیشت کو 8.16 ٹریلین (ٹریلین = دس کھرب) کا نقصان ہوچکا ہے، صرف امریکا میں ہونے والے معاشی نقصان کا تخمینہ 16 سو کھرب لگایا گیا ہے۔

    مذکورہ تحقیق نے تحفظ ماحولیات کی اہمیت کو ایک بار پھر واضح کردیا ہے اور اس سلسلے میں ہنگامی اقدامات اٹھانے کی ضرورت پر بھی زور دیا گیا ہے۔

  • پھولوں اور ستاروں کے رنگوں سے آراستہ زلفیں

    پھولوں اور ستاروں کے رنگوں سے آراستہ زلفیں

    آج کل زلفوں کو مختلف رنگوں سے رنگنا خواتین میں نہایت مقبول ہے، اور ہر عمر کی خواتین مختلف انداز سے اپنے بالوں کو رنگتی نظر آتی ہیں۔

    یہ فیشن پاکستان میں تو دو چار رنگوں تک ہی محدود نظر آتا ہے تاہم پاکستان کے علاوہ دیگر ممالک میں خواتین اپنے بالوں پر ہر طرح کے رنگ آزماتی ہیں۔ بعض اوقات بالوں میں مختلف رنگ بھی کیے جاتے ہیں جس سے زلفیں قوس قزح معلوم ہونے لگتی ہیں۔

    اس انداز کو بھی ایک امریکی فنکارہ نے مختلف جہت دی ہے۔ وہ زلفوں کو اس انداز میں رنگتی ہیں کہ ان پر قدرت کے کسی خوبصورت منظر کا گماں ہونے لگتا ہے۔

    بادلوں کے مختلف رنگ، سمندر کی نیلاہٹ، کہکہشاں کی جھلملاہٹ غرض ہر طرح کے رنگ وہ گیسوؤں میں قید کردیتی ہیں۔

    آئیں ان کے اس انوکھے فن کے نمونے دیکھتے ہیں۔

    آپ کو ان میں سے کون سی زلفیں سب سے زیادہ پسند آئیں؟

  • دفتر میں روزانہ اپنی ڈیسک پر لنچ کرنے کا نقصان

    دفتر میں روزانہ اپنی ڈیسک پر لنچ کرنے کا نقصان

    کیا آپ اپنے دفتر میں روزانہ اپنی ڈیسک پر کھانا کھاتے ہیں اور شاذ ہی کہیں باہر کھانے جاتے ہیں؟ تو پھر آپ کی زندگی کی بے اطمینانی اور ناخوشی کا ایک اہم سبب یہی ہے۔

    یونیورسٹی آف سسکیس میں کی جانے والی ایک تحقیق کے مطابق ملازمین کا روزانہ اپنی ڈیسک پر بیٹھ کر لنچ کرنا انہیں اپنے کام کے حوالے سے بوریت کا شکار کردیتا ہے۔

    اس کا یہ مطلب نہیں کہ روزانہ کہیں باہر، کسی ریستوران میں جا کر کھانا کھایا جائے۔ دراصل اس کا مطلب یہ ہے کہ کسی کھلی جگہ، تازہ ہوا میں مثلاً کسی پارک یا ساحل سمندر پر بیٹھ کر لنچ کرنا آپ کو اپنی ملازمت سمیت زندگی کے دیگر معاملت میں بھی مطمئن بنا سکتا ہے۔

    اس تحقیق کے لیے ماہرین نے متعدد دفتری ملازمین کے کھانے کے معمول اور ان کے رویے کی جانچ کی۔ ماہرین نے دیکھا کہ روزانہ اپنی ڈیسک پر یا دفتر کے کیفے میں بیٹھ کر کھانا کھانے والے افراد میں ذہنی تناؤ کی سطح بلند تھی۔

    اس کے برعکس وہ افراد جنہوں نے کھلی فضا سے لطف اندوز ہوتے ہوئے کھانا کھایا، ان میں خوشی کے جذبات پیدا ہوئے جبکہ زندگی کے مختلف معاملات کے حوالے سے ان کا مثبت نقطہ نظر سامنے آیا۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ دراصل فطرت سے ہمارے اس ٹوٹے ہوئے تعلق کی طرف اشارہ ہے جس کی وجہ سے ہم بے شمار مسائل میں مبتلا ہوگئے ہیں۔

    فطرت سے باقاعدہ تعلق رکھنا، کھلی فضا میں چہل قدمی، ساحل سمندر پر جانا یا پہاڑوں اور درختوں کے درمیان وقت گزارنا ہمیں بے شمار دماغی مسائل سے بچا سکتا ہے جس میں سر فہرست ڈپریشن سے نجات اور خوشی کا حصول ہے۔

    ماہرین کی تجویز ہے کہ دفاتر میں لنچ کے اوقات میں ملازمین کو باہر جانے کی اجازت دینی چاہیئے۔ اس سے ان کی تخلیقی صلاحیت اور کام کرنے کی رفتار اور معیار میں اضافہ ہوگا۔

  • فطرت کی یہ خوبصورت موسیقی آپ کو مسحور کردے گی

    فطرت کی یہ خوبصورت موسیقی آپ کو مسحور کردے گی

    قدرتی مقامات جیسے سمندر، جنگلات اور پہاڑ کے درمیان موجود ہوتے ہوئے آپ نے محسوس کیا ہوگا کہ فطرت کی آوازیں نہایت پرسکون ہوتی ہیں۔

    خاموش مقامات پر ہوا کی آواز، بارش یا شبنم کے قطروں کا پتوں پر گرنا، پرندوں کی آوازیں اور سمندر کا شور اس قدر مسحور کردیتا ہے کہ بھیڑ بھاڑ اور پرشور مقامات پر واپس جانے کا دل نہیں چاہتا۔

    ایک جاپانی فنکار نے ان آوازوں کے سرور میں اضافہ کرنے کے لیے اس میں ایک انوکھی چیز کا اضافہ کیا۔

    مورہرو ہرانو نامی اس فنکار نے میوزک ڈائریکٹر اور کارپینٹر پر مشتمل اپنی ٹیم کے ساتھ مل کر ایک بڑا سا آلہ موسیقی تشکیل دیا۔

    زائلو فون کی طرز پر بنائے گئے لکڑی کے اس اسٹرکچر پر ربر کی ایک ننھی سی گیند حرکت کرتی ہے جس سے نہایت خوبصورت موسیقی پیدا ہوتی ہے۔

    مزید پڑھیں: گلہ بانی کے لیے استعمال کی جانے والی مسحور کن موسیقی

    یہ موسیقی فطرت کی اپنی آوازوں کے ساتھ مل کر نہایت ہی سحر انگیز سا ماحول تشکیل دے دیتی ہے۔

    کیا آپ اس خوبصورت موسیقی کو سننا چاہتے ہیں؟

  • تحفظ فطرت کے دن پر ماحول دوست بننے کا عزم کریں

    تحفظ فطرت کے دن پر ماحول دوست بننے کا عزم کریں

    آج دنیا بھر میں فطرت کے تحفظ کا عالمی دن منایا جارہا ہے۔ اس دن کو منانے کا مقصد لوگوں میں زمین کے وسائل، ماحول، اور فطرت کے تحفظ کے حوالے سے شعور بیدار کرنا ہے۔

    ہم زمین پر موجود قدرتی وسائل جیسے ہوا، پانی، مٹی، معدنیات، درخت، جانور، غذا اور گیس پر انحصار کرتے ہیں۔

    زندگی میں توازن رکھنے کے لیے ضروری ہے کہ زمین پر موجود تمام جانداروں کی بقا قائم رہے۔ کسی ایک جاندار کو بھی خطرہ ہوگا تو پوری زمین خطرے میں ہوگی کیونکہ تمام جاندار اور وسائل ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں۔

    ورلڈ وائلڈ لائف فاؤنڈیشن کے مطابق 1970 سے دنیا کی آبادی میں اس قدر تیزی سے اضافہ ہوا ہے کہ ہماری زمین پر پڑنے والا بوجھ دگنا ہوگیا ہے جبکہ قدرتی وسائل میں 33 فیصد کمی واقع ہوگئی۔

    مزید پڑھیں: آبادی میں اضافہ پائیدار ترقی کے لیے خطرہ

    ماہرین کے مطابق زندگی میں سسٹین ایبلٹی یعنی پائیداری بہت ضروری ہے۔ اس پائیداری سے مراد ہماری ذاتی زندگی میں ایسی عادات ہیں جو فطرت اور ماحول کی پائیداری کا سبب بنیں۔

    مثال کے طور پر اگر ہم زیادہ پانی خرچ کرتے ہیں تو ایک وقت ایسا آئے گا کہ زمین سے پینے کے پانی کے ذخائر ختم ہوجائیں گے۔

    یا اگر ہم صنعتی ترقی کرتے ہیں اور زہریلی گیسوں کا اخراج کرتے ہیں، تو ان گیسوں سے زمین کے درجہ حرارت میں تبدیلی ہوگی، گلیشیئرز پگھلیں گے، سطح سمندر میں اضافہ ہوگا، اور زمین کی وہ ساخت جو اربوں سال سے قائم ہے، اس میں تبدیلی ہوگی جس کا نتیجہ قدرتی آفات کی صورت میں نکلے گا۔

    مزید پڑھیں: دنیا کے مستقبل کے لیے پائیدار ترقیاتی اہداف

    معروف اسکالر، ماہر ماحولیات اور سابق وزیر جاوید جبار کہتے ہیں، ’فطرت اور زمین کسی سے مطابقت پیدا نہیں کرتیں۔ یہاں آنے والے جاندار کو اس سے مطابقت پیدا کرنی پڑتی ہے۔ ڈائنوسار اور دیگر جانداروں نے جب زمین کے ماحول سے مطابقت پیدا نہیں کی تو ان کی نسل مٹ گئی۔ زمین ویسی کی ویسی ہی رہی۔ اور ہم (انسان) جنہیں اس زمین پر آ کر چند ہزار سال ہی ہوئے، ہمیں لگتا ہے کہ ہم زمین کو اپنے مطابق کرلیں گے‘۔

    ان کے مطابق جب ہم فطرت کو تباہ کرنے کی ایک حد پر آجائیں گے، اس کے بعد ہمارا وجود شدید خطرے میں پڑجائے گا، جبکہ زمین ویسی ہی رہے گی۔

    فطرت سے چھیڑ چھاڑ کے نتیجے میں کئی منفی اثرات واقع ہو رہے ہیں جن میں سے ایک کلائمٹ چینج یعنی موسمیاتی تغیر ہے۔ ماہرین کے مطابق یہ مستقبل قریب میں دنیا کے لیے امن و امن کے مسئلہ سے بھی بڑا خطرہ ہوگا جبکہ اس کے باعث جانداروں کی کئی نسلیں معدوم ہوجائیں گی۔

    ماہرین تجویز کرتے ہیں کہ ہر شخص اپنی انفرادی زندگی میں کچھ عادات اپنا کر فطرت کے تحفظ میں اپنا کردار ادا کرسکتا ہے۔


    آپ کیا کرسکتے ہیں؟

    اپنے آس پاس ہونے والی ماحول دوست سرگرمیوں میں حصہ لیں۔

    ماحول کے تحفظ کے بارے میں دوسروں میں آگاہی پیدا کریں۔

    وسائل کا احتیاط سے استعمال کریں۔ جیسے ایندھن کے ذرائع یا کاغذ۔ واضح رہے کہ کاغذ درختوں سے بنتے ہیں اور کاغذ کو ضائع کرنے کا مطلب درختوں کی کٹائی میں اپنا حصہ ڈالنا ہے۔

    گھروں پر پانی، بجلی اور ایندھن کا احتیاط سے استعمال کیاجائے اور بچوں کو بھی اس کی تربیت دی جائے۔

    پلاسٹک بیگز کا استعمال ختم کیا جائے۔ پلاسٹک ایک ایسی شے ہے جو ہزاروں سال بعد زمین میں تلف ہوتی ہے نتیجتاً زمین کی آلودگی میں اضافے کا سبب بنتی ہے۔

    سفر کرتے ہوئے ہمیشہ ماحول دوست بنیں۔ خصوصاً کچرا پھیلانے سے گریز کریں۔

    ماحول کی تباہ کرنے والی کوئی بھی سرگرمی جیسے درخت کٹتا ہوا دیکھیں تو فوراً متعلقہ حکام کو اطلاع دیں۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • پتوں سے بنائے گئے ماحول دوست برتن

    پتوں سے بنائے گئے ماحول دوست برتن

    پتوں میں کھانا کھانے کا رواج نئی بات نہیں۔ قدیم دور کا انسان پتوں ہی کی مدد سے کھانا تناول کیا کرتا تھا۔ اب اسی خیال کو جدید ٹیکنالوجی کی مدد سے نئے انداز میں پیش کیا جارہا ہے۔

    جرمنی کی لیف ری پبلک نامی ایک کمپنی ایسے برتن بنا رہی جنہیں بنانے کے لیے پتوں کا استعمال کیا جاتا ہے۔

    برتنوں کے لیے ان پتوں کو حاصل کرنے کے لیے ایک بھی درخت نہیں کاٹا جاتا۔ اسی طرح یہ برتن پھینکے جانے کے بعد بہت کم وقت میں زمین کا حصہ بن جاتے ہیں۔

    زمین میں تلف ہونے کے لیے انہیں 28 دن درکار ہیں۔ یوں یہ ہماری زمین پر آلودگی یا کچرا پھیلانے کا سبب بھی نہیں بنتے۔

    عام دھاتوں یا پلاسٹک سے بنائے جانے والے برتنوں کے برعکس اس میں کوئی کیمیکل یا مصنوعی رنگ بھی استعمال نہیں کیے جاتے یوں یہ مضر صحت اجزا سے محفوظ ہیں۔

    پتوں کو پلیٹ یا مختلف برتنوں کی شکل میں ڈھالنے کے لیے ان پر عام دھاگوں سے سلائی کی جاتی ہے۔ یہ دھاگے اور پتے زمین میں تلف ہو کر اس کی زرخیزی میں بھی اضافہ کرتے ہیں۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • اڑنے نہ پائے تھے کہ گرفتار ہم ہوئے!

    اڑنے نہ پائے تھے کہ گرفتار ہم ہوئے!

    آپ نے ’آسمان سے گرا کھجور میں اٹکا‘ والی کہاوت تو ضرور سنی ہوگی، لیکن آج ہم آپ کو اس کی عملی مثال دکھاتے ہیں۔

    نیشنل جیوگرافک کی جانب سے پوسٹ کی جانے والی ایک زیبرا کی حیرت انگیز جدوجہد کی ویڈیو آپ کو سوچنے پر مجبور کردے گی کہ چاہے انسان ہو یا جانور، اپنے لیے کتنی ہی جدوجہد کرلے، لیکن وہ قسمت کے لکھے سے بچ نہیں سکتا۔

    زیر نظر ویڈیو ایک زیبرا کی ہے جو دریا کے بیچ میں کھڑا ہوا کنارے کی طرف جانے کی کوشش کر رہا ہے۔ اچانک اس کے قریب پانی میں کچھ ہلچل ہوتی ہے جس سے ظاہر ہو رہا ہے کہ ایک مگر مچھ اسے اپنے جبڑوں کا نشانہ بنانے کے لیے زیبرا کی طرف بڑھ رہا ہے۔

    مگر مچھ کی موجودگی محسوس ہوتے ہی زیبرا چھلانگیں لگاتا ہوا اور پوری قوت صرف کرتا پانی سے باہر کنارے پر پہنچ جاتا ہے۔

    لیکن ہائے ری قسمت، کنارے پر پہنچ کر ابھی وہ سانس بھی نہیں لینے پاتا، کہ جھاڑیوں میں گھات لگائے ایک شیرنی اس پر حملہ آور ہوجاتی ہے اور موت کو چکمہ دے کر بھاگنے والا زیبرا اس بار نہیں بچ پاتا۔

    شیرنی اس پر حملہ کر کے اسے نیچے گرا لیتی ہے، اس دوران ایک اور شیرنی بھی اپنے ساتھی کی مدد کے لیے شکار کی دعوت اڑانے پہنچ جاتی ہے، یوں موت سے بھاگتا زیبرا بالآخر تمام تر جدوجہد کے باوجود اسی وقت موت کا شکار ہوجاتا ہے، جو وقت اس کا لکھا گیا تھا۔

    اس حیرت انگیز ویڈیو کو دیکھ کر ہمیں تو غالب کا ایک شعر یاد آگیا۔

    پنہاں تھا دام سخت قریب آشیان کے،
    اڑنے نہ پائے تھے کہ گرفتار ہم ہوئے!


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔