Tag: PML N

  • عمران خان کا آزادی مارچ سے خطاب، نواز شریف ضمیروں کے سوداگرہیں

    عمران خان کا آزادی مارچ سے خطاب، نواز شریف ضمیروں کے سوداگرہیں

    اسلام آباد : پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان آزادی مارچ کے شرکاء سے خطاب کررہے ہیں اور ان کا کہنا تھا کہ میں اپنی وجہ سے نہیں کارکنوں کی وجہ سے واپس گیا وہ تھکے ہوئے تھے اور بارش میں بھیگے ہوئے تھے۔

    انہوں نے کارکنوں سے کہا کہ ان ہیں معلوم ہے کہ آپ مزید چالیس گھنٹے جاگ سکتے ہیں لیکن یہ شریف برادران نہیں جاگ سکتےاللہ نے بارش کارکنوں کو آزمانے کے لئے بھیجی۔

    ان کا کہنا تھا کہ قوم کا جذبہ اور جنون سب کےسامنے ہے اور جس قوم میں ایسا جذبہ ہو نہ تو اسے کسی کے سامنے جھکنے کی ضرورت تھی نہ ہی کسی سےقرضے لینے کی لیکن حکمران چور اور بزدل تھے۔

    ان کا کہنا تھا کہ شہباز شریف کی تو ایف آئی آر کٹنے والی ہے اور الیکشن کی دھاندلی کی کہانی منظر عام پر آنے کے بعد انہیں نواز شریف کا مستقبل بھی اندیھیرے میں نظر آرہا ہے آج ساری رات ہم یہاں آزادی کا جشن منائیں گے۔

    انہوں نے جنگ جیو گروپ کے مالک میر شکیل الرحمن کو مخاطب کر کے کہا شرم کرو تم نے ٹی وی پر پروپیگنڈا شروع کررکھا ہے تم کہتے تھے کہ عمران خان ڈیل کرلے گا لیکن سن لو کہ تم اب پیسے لے کر نواز شریف کو بچا نہیں سکتے۔

    انہوں نے کہا کہ نواز شریف کا دوسرا نام ’’ضمیروں کا سوداگر‘‘ ہے لیکن وہ ان کے ضمیر کا سودا نہیں کرسکتا۔

    انہوں نے اعلان کیا کہ تحریک انصاف حکومت میں آئے گی تو قرضہ لے کر قوم کو بھکاری نہیں بنائیں گے۔

    انہوں نے مزید کہا کہ عمران خان وزیر اعظم بن کر عوام سے جھوٹ نہیں بولے گا ، انکا دعویٰ تھا کہ تحریک انصاف کی حکومت نے ایک سال میں خیبر پختونخواہ کی پولیس میں سے کرپشن ختم کردی ، اس ملک میں سب سے زیادہ ظلم پولیس کرتی ہے۔ نئے پاکستان میں پولیس گلوں بٹوں کو نہیں پالے گی۔

    عمران خان نے کہا کہ اس حکومت نے بجلی چوروں کو پانچ سو ارب روپے دئے ان سب کا احتساب ہوگا دیر لگے گی لیکن ہم سستی بجلی بنائیں گے۔

    انہوں نے کہا نواز شریف نے تو جیم خانہ میں کبھی اپنے ایمپائر کھڑے کئے بغیر کرکٹ نہیں کھیلی انہوں نے کہا کہ عوام بتائے کہ کبھی عمران خان نے اپنے ایمپائر کھڑے کئے۔

  • عمران خان اپنی ضد کی بنا پرتنہا کھڑے ہیں،راناثنا اللہ

    عمران خان اپنی ضد کی بنا پرتنہا کھڑے ہیں،راناثنا اللہ

     لاہور: مسلم لیگ ن کے رہنما رانا ثنا اللہ کا کہنا ہے کہ لاہورمیں پی ٹی آئی کے سربراہ عمران خان اپنی ضد کی بنا پر آج تنہا کھڑے ہیں۔

    اسلام آباد میں پاکستان تحریک انصاف کے آزادی مارچ پر مسلم لیگ ن کے رہنما رانا ثنا اللہ کا کہنا ہے کہ عمران خان کے مطالبات پر آئین و قانون کے مطابق ہی غور کیا جا سکتا ہے، لاہور میں بات کرتے ہوئے رانا ثناءاللہ نے کہا کہ عمران خان نجانے کیوں اپنے بارے میں خوش فہمی کا شکار ہیں-

    انھوں نے کہا کہ احتجاجی سیاست اور دھرنے ملک و قوم کی خدمت نہیں، رانا ثناءاللہ نے کہا کہ عمران خان کی سیاست کا دوہرا معیار ہے، خود بنی گالہ میں ہے اور کارکن سڑکوں پر ذلیل و رسوا ہورہے ہیں۔

    مسلم لیگ ن کے رہنما نے کہا کہ عمران خان کے نعرے صرف کارکنوں کو جھانسہ دینے کے لئےہیں۔

  • پاکستان، جمہوریت اور آئین کوبچایا جائے، سراج الحق

    پاکستان، جمہوریت اور آئین کوبچایا جائے، سراج الحق

    لاہور: جماعت اسلامی نے سیاسی بحران کے خاتمے کیلئے چار نکاتی فارمولہ پیش کردیا ، امیر جماعت سراج الحق کہتے ہیں حکومت احتجاج سے نمٹنے کے بجائے اپوزیشن سے مذاکرات کے لئے کمیٹی تشکیل دے۔

    منصورہ لاہور میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے امیر جماعت اسلامی سراج الحق نے کہا کہ موجودہ سیاسی بحران کے حل کے لئے انکی جانب سے چار نکاتی فارمولہ پیش کیا جارہا ہے، فارمولے کے مطابق پارلیمنٹ کے اندر اپوزیشن لیڈر کی قیادت میں حزب اختلاف کی تمام جماعتوں کی کمیٹی بنا ی جائے جبکہ حکومت احتجاج کرنے والوں کے ساتھ فوری مذاکرات شروع کرے۔

    سپریم کورٹ کے لارجر بنچ کی جانب سے ماورائے آئین اقدام پر دئیے جانے والے فیصلے پر سراج الحق کا کہنا تھا کہ عدلیہ پہلے ان سے نمٹے جنھوں نے ماضی میں آئین توڑا، جماعت اسلامی کے امیر کا کہنا تھا کہ چار نکاتی فارمولے پر وہ حکومت اور تحریک انصاف کے رہنماﺅں سے رابطے میں ہیں اور وہ توقع کرتے ہیں کہ لانگ مارچ کے دوران اب گوجرانولہ جیسا واقعہ پیش نہیں آئے گا۔

  • سراج الحق کی وزیر اعلی پنجاب میاں شہبازشریف سے ملاقات

    سراج الحق کی وزیر اعلی پنجاب میاں شہبازشریف سے ملاقات

    لاہور: جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق کی وزیر اعلی پنجاب میاں شہبازشریف سے اہم ملاقات کہتے ہیں حالات کی بہتری میں پر امید ہوں اگر بات نہ سنی گئی تو پھر کسی نہ کسی کا چالان لازمی ہوگا۔

    وزیراعلی پنجاب شہبازشریف سے ماڈل ٹاؤن میں ملاقات کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے سراج الحق نے کہا کہ بہت سی ایسی قوتیں سرگرم ہیں جو نہیں چاہتیں کہ حالات بہتر ہوں لیکن ہم اپنی ذمہ داریاں پوری کرتے ہوئے حالات کو معمول پر لانے کے لیے اپنے طور پر کوششیں کر رہے ہیں، انہوں نے کہا کہ عمران خان سے بھی ملاقات کی ہے اور شہبازشریف کے سامنے بھی ایجنڈا رکھا ہے میں ابھی تک مایوس نہیں امید ہے کوئی صورتحال نکل آئے گی۔

    انہوں نے کہا کہ اگر روڈ پر ٹریفک حادثہ ہواتو پھر چالان بھی ہوتا ہے ، سراج الحق نے کہا کہ طاہر القادری صاحب سے بھی درخواست کریں گے کہ وہ اپنے مطالبات مذاکرت کے ذریعے منوائیں اگر حالات خراب ہوئے تو پھر کسی کے کنٹرول میں نہیں آئیں گے اور ذمہ داروہی قوتیں ہوں گی جو کسی سمجھوتے پرتیار ہونے کو راضی نہیں۔

  • عمران خان، طاہرالقادری اور موجودہ نظام

    عمران خان، طاہرالقادری اور موجودہ نظام

    گو کہ علامہ ڈاکٹر طاہر القادری کا انقلابی ایجنڈا کافی وضاحت طلب ہے مگروہ عمران خان کے ایک یا دو نکاتی ایجنڈا سے زیادہ بہتر محسوس ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر عمران خان کا سارا فوکس دھاندلی، صاف شفاف انتخابات اور الیکشن کمیشن کی تبدیلی پر مرکوز ہے ایسے میں ان کے پاس اس بات کی کیا گارنٹی ہے کہ افتخار چوہدری کے جانے کے بعد عدلیہ مکمل طور پر غیر جانبدار یا پاک ہو کرایک مثالی عدلیہ بن چکی ہے؟موجودہ نظام عدل اور دستور پاکستان کے حوالے سے سپریم کورٹ تو ہمیشہ سپریم ہی رہے گی توپھر اس بات کی بھی کیاگارنٹی ہے کہ آئندہ کبھی کوئی چیف جسٹس الیکشن کمیشن کے معاملات میں مداخلت نہیں کریگا؟افتخار چوہدری بحیثیت چیف جسٹس سپریم کورٹ جو راستہ دکھاگئے ہیں اس کے اندھیرے میں آج نہیں تو کل پھر کوئی ایسا چیف جسٹس آ سکتا ہے جو اس بد مست ہاتھی کی بے انتہا طاقت کا ناجائز استعمال پھر سے شروع کر دے۔اس طاقت کے ناجائز استعمال کو کون کیسے روکے گا؟۔

    ہمارے دستور میں کسی بھی چیف جسٹس کو ہٹانے کی کوئی دستوری نظیر موجود نہیں ما سوائے اس کے کہ جب بڑا ہاتھی چھوٹے ہاتھیوں کو دستور سمیت گھر بھیج دیتا ہے۔ان حالات میں آپ محض الیکشن کمیشن سے تمام توقعات کیسے وابستہ کر سکتے ہیں؟ تھوڑے دن پہلے تحریک انصاف کے ہی ایک ایم این اے علی خان صاحب یہ فرما رہے تھے کہ ان کی جماعت کے ایک ایم این اے کو ساٹھ ہزار ووٹوں کی دوبارہ گنتی کے لیے ستر لاکھ روپے درکار تھے جو انھوں نے چندہ جمع کر کے پورے کئےتو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس مہنگے نظام عدل سے آپ کیا توقعات وابستہ کر سکتے ہو؟ جو بندہ ستر لاکھ دے کر دوبارہ گنتی کی درخواست دے رہا ہے اگر اسے انصاف مل بھی جائے تو وہ اس انصاف کے ملنے کے بعد کیا ایمانداری دکھائے گا؟جہاں محض ووٹوں کی دوبارہ گنتی کے لیے ستر لاکھ روپے درکار ہوں وہاں عوام کی حکمرانی کیسے ممکن ہے؟جمہور کا لیڈر ستر لاکھ سے کم حیثیت کا مالک نہ ہو اس سے زیادہ جمہوریت کی اور کیا توہین ہوگی؟اس سے زیادہ عدل کی کیا توہین ہوگی؟میرے خیال میں تو ایسا عدل اور دستورخود ایک توہین سمجھا جائے گا جو اس طرح کی شرط رکھے گا۔

    میڈیا سے لے کرہر سطحی سوچ کا مالک پاکستانی ہر وقت کرپشن کا راگ الاپتا رہتا ہے مگر یہ کوئی نہیں سوچتا کہ اس کی جڑیں کہاں سے شروع ہوتی ہیں۔نظام عدل کی کمزوری نظام کی بنیادی ترین خرابیوں میں سے ایک ہے جو پاکستان میں کرپشن کے سورج کو کبھی غروب نہیں ہونے دیتی۔اراکین الیکشن کمیشن کتنے ہی غیر جانبدار کیوں نہ ہوں لیکن وہ کوئی ولی پیغمبر تو نہ ہونگے۔یہاں دلوں کے حال کون جانتا ہے؟کیا بھٹو صاحب نے ضیاءکو آرمی چیف بناتے ہوئے سوچا تھا کہ وہ انھیں تختہ دار تک لے جائے گا؟ کیا میاں صاحب نے مشرف کے بارے میں سوچا تھا کہ وہ انھیں ملک سے ہی نکال دے گا؟کیا خود جنرل مشرف نے یہ سوچا تھا کہ محترمہ اور شریف برادران کو واپسی کی اجازت دینے اوردرجنوں نیوز چینلز کولائسنس اور ڈھیر ساری آزادی دینے کے بعد اس کے ساتھ یہ سب کچھ ہوگا؟بہترنظام کی جڑیں کسی فرد کے ساتھ نہیں بلکہ طاقت ورترین اداروں میں پنہاں ہوتی ہیں لہٰذا اداروں میں اصلاح کے بغیر بہتری کی کوئی گنجائش اورکوئی اُمید نہیں نکلتی۔اسی وجہ سے خان صاحب کے موجودہ مطالبات سے کسی تبدیلی یا نئے پاکستان کا کوئی امکان نظر نہیں آتا۔

    طاہرالقادری کا ایجنڈا نظام عدل اور سستے انصاف کے حوالے سے نسبتا زیادہ واضع محسوس ہوتا ہے۔تاہم وہ بھی یہ واضع نہیں کرپاتے کہ موجودہ اعلی عدلیہ اور اس کے ججوں کے ساتھ یہ خواب کیسے ممکن ہے؟جبکہ افتخار چوہدری صاحب اپنی رخصتی سے پہلے بہت سے پسندیدہ افراد کو اعلی عدلیہ کا حصہ بنا گئے ہیں۔

    علامہ ڈاکٹر طاہرالقادری پر معروف الزامات کچھ اس طرح کے ہیں۔”طاہرالقادری جھوٹ بہت بولتے ہیں“تو کیا میاں برادران اور دیگر سیاسی و مذہبی قیادت جھوٹ نہیں بولتی؟”طاہرالقادری لالچی ہیں “ کیا دیگر سیاسی و مذہبی قیادت لالچی نہیں ہے؟رہی بات قادری صاحب سے کوئی بڑی اُمید رکھنے کی تو وہ یقینا درست نہ ہوگی۔ وہ ایک مخصوس مذہبی فکر کے ترجمان ہیں اور مولوی کے لیبل کے نیچے پاکستان میں کبھی بھی مقبول سیاسی قیادت کے طور پر سامنے نہیں آسکتے۔تاہم اتنا ضرور ہے کہ وہ ریاست کے بعض بڑے معروف اور مقتول طبقات کی آواز بن کر ابھرے ہیں۔میرے نزدیک یہ ان کی بڑی کاوش ہے جو تاریخ میں ہمیشہ یاد رکھی جائے گی کیونکہ ریاست یا ریاستی ادارے ان مظلوم طبقات کے لیے کچھ بھی نہیں کر رہے بلکہ وہ اُلٹا ایسے گروہوں کو تحفظ فراہم کرنے میں ملوث ہیں کہ جو ان مظلوم طبقات کے قتل میں شامل ہیں۔

    اگر کسی میں تھوڑی سی بھی معاملہ فہمی ہو تووہ بآسانی یہ حقیقت جان سکتا ہے کہ حکیم اللہ محسود کو شہید ماننے والی جماعت اسلامی اب دستور کی باتیں کیوں کر رہی ہے۔ جماعت اسلامی حکومت اور تحریک انصاف میں مفاہمتی کردار ادا کرنے کے لیے کیوں تیار ہو گئی ہے؟ کارکن عوامی تحریک کے مارے جا رہے ہیں مگر جماعت کی مفاہمتی کوششیں صرف تحریک انصاف اور حکومت تک محدود ہیں۔اس متعصب معاشرے کی ہر بدبودار گہرائی میں کہیں نہ کہیں فرقہ واریت کا سامنا ضرور ہوتا ہے۔ ہمارا بنیادی مسئلہ یہی ہے کہ ہم دوسرے کو جانے بغیریا آدھی بات سن کر حمایت یا مخالفت شروع کر دیتے ہیں ۔تحقیق کے بغیر لوگوں کو مکمل ہیرو یا ولن مان لیتے ہیں۔یہی وجہ تھی کہ پاکستان کی اکثریت کو افتخار چوہدری کی حمایت پر شرمندگی کا سامنا کرنا پڑا اور اسی طرح سے آصف زرداری کی حد سے زیادہ غیر معقول مخالفت بھی بہت سے لوگوں کے لیے شرمندگی کا باعث بنی۔دوسری طرف ہمارے روشن خیال طبقات کا مسئلہ یہ ہے کہ یہ ایک طرف تو ہر طرح کے مولوی کو نفرت و معاشرتی برائی کا استعارہ تعبیر کرتے ہیں۔ مگر دوسری طرف اسے مذہب کا ٹھیکیدار سمجھتے ہوئے اس سے پیغمبرانہ صفات کے متقاضی نظر آتے ہیں۔قادری صاحب نے آج تک مولویوں والی بات نہیں کی۔وہ اسی بے دست و پا دستور کے حوالے دیتے ہیں۔انھوں نے کبھی اپنی پسند کی شریعت کے نفاذ کا بھی نہیں کہا۔ان کے مذہبی چہرے سے ہٹ کر وہ تمام پاکستانی مولویوں یا ان سیاستدونوں سے بہتر ہی محسوس ہوتے ہیں کہ جو آج تک یو ٹیوب پر پابندی بھی ختم نہیں کرسکے۔ پاکستان کا دستور اور ریاست ہمیشہ ہی ایک دوسرے کو دھوکہ دینے میں مصروف رہتے ہیں۔ہاں ان کا باسٹھ تریسٹھ جیسی غیر حقیقی شق پر عملدرآمد کا مطالبہ زمینی حقائق کے منافی تھااوراس پر وہ خودبھی شاید پورے نہیں اتر سکتے۔لیکن کیا کسی نے باسٹھ تریسٹھ جیسی غیر حقیقی شق پر عمل کیا یا کروایا؟ کیا اٹھارہویں ترمیم پاس کروانے والوں نے جنرل ضیا کی ڈلوائی ہوئی اس شق کوختم کرنے کی کوشش کی؟اگر باسٹھ ،تریسٹھ درست ہے تو اس پر عمل کرو نہیں تو اس کو باہر کرو یہ منافقت اور جھوٹ کا رویہ اور پھر آئین کی پاسداری کے دعوے۔ یہ سب کیا ہے؟

    دوسری طرف بعض لبرل اور جمہوریت پسندلوگ طاہرالقادری کے تازہ بیانات کے بعد ان کے لیے طرح طرح کی سزائیں تجویز کر رہے ہیں۔میرا ان سب سے سوال ہے کہ آج تک آپ نے مولانا صوفی محمد اور مولانا عبدالعزیز جیسے لوگوں کا کیا بگاڑ لیا ہے جو آپ طاہرالقادری کو مجرم گردان کر سزا کی سفارشات مرتب کر رہے ہیں؟آپ کون سے آئین اور کیسی جمہوریت کی بات کر رہے ہیں؟ایک فکر کے لوگ گزشتہ تین دھائیوں سے ریاست کو یرغمال بنائے ہوئے ہیں ،ان کے مدرسوں میں ہر طرح کے جہادی تیار ہوتے ہیں۔ ایکسپورٹ بھی ہوتے ہیں اور ملک میں بھی کام آتے ہیں۔اس بیمار ریاست اور اس کے اپاہج دستور نے کیا بگاڑ لیا؟ کیا ریاست نے حکیم اللہ محسودکو شہید کہنے والے منور حسن پر غداری کا مقدمہ دائر کر دیا؟ہم اتنے اندھے کانے اور متعصب کیوں ہیں کہ ہم انصاف کو برابری اور غیر جانبداری کی آنکھوں سے دیکھ ہی نہیں پاتے؟ہمیں عمران خان یا طاہرالقادری کے طرز سیاست یا دیگر نظریات سے اختلاف ہو سکتا ہے مگر یہ بھی دیکھنا ضروری ہے کہ وہ کہہ کیا رہے ہیں۔

  • حکومت اپنی آئینی مدت پوری کرے گی، راجہ ظفر

    حکومت اپنی آئینی مدت پوری کرے گی، راجہ ظفر

    راولپنڈی : پاکستان مسلم لیگ ن کے رہنما راجہ ظفرالحق کہتےہیں کہ احتجاج کا سارا ڈرامہ مشرف کی رہائی کے لئے رچایا جارہا ہے۔

    ان کا کہنا تھا کہ سابق صدر مشرف کی رہائی کے لیے نواز شریف پر شدید دباو ہے، عمران خان عوام سے سچ نہیں بول رہے ہیں۔

    راولپنڈی میں یوم آزادی کے سلسلے میں تقریب سےخطاب میں راجہ ظفرالحق کا کہنا تھاکہ حکومت اپنی آئینی مدت پوری کریگی۔ انہوں نے عمران خان پر الزام عائد کرتے ہوئے کہا کہ کے عمران خان نے مفاد کی خاطر مشرف کے ریفرنڈم کی حمایت کی تھی۔

    راجا ظفر الحق کا کہنا تھا کہ نواز شریف پر مشرف کی رہائی کیلئے شدید دباؤ ڈالا جارہا ہے کہ کسی صورت آمر کو ملک سے باہر جانے کی اجازت دے دی جائے۔

  • پاکستان کسی لانگ مارچ کے نتیجہ میں نہیں بنا، شہبازشریف

    پاکستان کسی لانگ مارچ کے نتیجہ میں نہیں بنا، شہبازشریف

    لاہور: وزیر اعلی پنجاب شہباز شریف نے کہا ہے مڈ ٹرم الیکشن کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ۔

    لاہور میں میڈیا سے گفتگو میں کہنا تھا ملک میں تبدیلی صرف انتخابات کے ذریعے ہی آسکتی ہے ، مڈ ٹرم الیکشن کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، ان کا کہنا تھا پاکستا ن کےعوا م ہرلانگ مارچ کو نا کام بنا دیں گے،پاکستان کسی لانگ مارچ کے نتیجہ میں نہیں بنا،چودہ اگست تجدیدعہد کادن ہے، ان کا کہنا تھا لانگ مارچ کا مقصد معیشت کو ترقی کے سفرسےروکناہے۔

  • غیر سیاسی عناصر ملک میں انتشار پھیلانا چاہتے ہیں، شہباز شریف

    غیر سیاسی عناصر ملک میں انتشار پھیلانا چاہتے ہیں، شہباز شریف

    لاہور: وزیراعلی پنجاب شہباز شریف نے کہا ہے غیر سیاسی عناصر ملک میں انتشار پھیلانا چاہتے ہیں ۔

    سرکاری ٹی وی کو انٹرویو میں وزیر اعلی پنجاب کا کہنا تھا کہ امن و امان کا قیام حکومت کی پہلی ترجیح ہے،ان کا کہنا تھا کہ ڈاکٹرطاہر القادری امن کی راہ میں رکاوٹ ہیں، خواتین اور بچوں کو ڈھال بنانا انسانیت نہیں ہے، شہباز شریف کا کہنا تھا کہ پہلایوم آزادی ہے جسے متنازع بنایا جارہا ہے۔

  • وزیراعظم اورسراج الحق کے درمیان کل ایک اورملاقات ہوگی

    وزیراعظم اورسراج الحق کے درمیان کل ایک اورملاقات ہوگی

    اسلام آباد: وزیراعظم نوازشریف اورجماعت اسلامی کے امیر سراج الحق کے درمیان کل ایک اورملاقات ہوگی۔

    حکومت نے اپنے پلڑے میں وزن بڑھانے کیلئے جماعت اسلامی سے ایک بارپھر رابطہ کرلیا۔جس کے بعد وزیراعظم اور امیرجماعت اسلامی کے درمیان جمعہ کے روز ایک اور ملاقات کاامکان پیدا ہوگیا ہے۔

    چوہدری نثار اورخواجہ سعد رفیق نے جماعت اسلامی کے سیکرٹری جنرل لیاقت بلوچ سے ٹیلی فون پربات کی اورکہا کہ جماعت اسلامی کے امیرکی طرف سے وزیراعظم کودی گئی تجاویزاورعمران خان کے مطالبات پر غورکیاگیا جس کے بعد وزیراعظم نےجمعہ کو ایک اورملاقات کی خواہش کااظہارکیاہے تاکہ مسائل حل کرنے کیلئے معاملات مثبت اندازمیں آگے بڑھائے جاسکیں۔

  • حکومت بات چیت میں پہل کرکےوسعت قلبی کامظاہرہ کرے، سراج الحق

    حکومت بات چیت میں پہل کرکےوسعت قلبی کامظاہرہ کرے، سراج الحق

    پشاور: جماعت اسلامی نے حکومت کوسنجیدگی کامظاہرہ کرنےاوربات چیت میں پہل کرنے کامشورہ دے دیا۔

    امیرجماعت اسلامی سراج الحق نے ملک کی موجودہ صورتحال کاذمہ دار الیکشن کمیشن اورحکومت کوقرار دے دیاکہتے ہیں حکومت نے سنجیدگی کامظاہر ہ نہیں اب بھی وقت ہے حکومت ہوش کے ناخن لے، سراج الحق نےبتایا چار نکاتی فارمولے کاجواب ملنے پرلانگ مارچ میں شرکت کرنے یانہ کرنے کافیصلہ کریں گے، سیاسی قوتیں تماشائی بننے کے بجائےمسئلہ حل کرنے کی کوشش کریں تشدد کامشورہ دینادرست نہیں، سراج الحق نےکہافوج کومداخلت نہیں کرنی چاہئے حالات بھی ایسے نہیں کہ فوج ذمہ داریاں سنبھالے۔