Tag: Russia

  • ایران، روس اور ترکی شام کی جغرافیائی وحدت کو برقرار رکھنے کیلئے متحد

    ایران، روس اور ترکی شام کی جغرافیائی وحدت کو برقرار رکھنے کیلئے متحد

    ماسکو : روس، ترکی اور ایران کے نے شام کی جغرافیائی وحدت برقرار رکھنے کی حمایت کرتے ہوئے کہا ہے کہ شام کی جغرافیائی سالمیت باالخصوص گولان ہائیٹس کو برقرار رہنا چاہیے۔

    تفصیلات کے مطاقب روس، ترکی اور ایران کی جانب سے شام کی جغرافیائی سالمیت سے متعلق مشترکا بیان گولان کی پہاڑیوں پر غاصب صیہونی ریاست اسرائیل کے ناجائز قبضے کو امریکا کی جانب سے تسلیم کرنے کی صورت میں سامنا آیا ہے۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کا کہنا ہے کہ روس، ایران اور ترکی کی پارلیمان کی خارجہ امور کی کمیٹیوں سے تعلق رکھنے والے ارکان پارلیمان کی ملاقات روسی دارالحکومت ماسکو میں ہوئی تھی، جسے مندوبین نے ایک اچھی ابتداء قرار دیا۔

    ان کا کہنا تھا کہ شام کی جغرافیائی سالمیت کو برقرار رہنا چاہیے، خاص طور پر گولان ہائٹس کے حوالے سے۔ تینوں ملکوں کے پارلیمانی ارکان نے شام کی جغرافیائی وحدت برقراررکھنے کا بھی مطالبہ کیا۔

    مزید پڑھیں : گولان کی پہاڑیوں پراسرائیل کی مکمل بالادستی تسلیم کرنے کا وقت آگیا ہے‘ ڈونلڈ ٹرمپ

    خیال رہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹویٹر پر اپنے پیغام میں کہا تھا کہ 52 سال بعد امریکا شام کی گولان ہائیٹس پراسرائیل کی مکمل بالادستی تسلیم کرنے کا وقت آگیا ہے۔

    ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا تھا کہ گولان کی پہاڑیاں اسرائیل کی سلامتی اور علاقے کے استحکام کے لیے اہمیت رکھتی ہیں۔

    امریکی صدر کا یہ بیان ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب وزیرخارجہ مائیک پومپیو بھی یروشلم میں ہیں۔

    واضح رہے کہ گولان کی پہاڑیاں 1200 مربع کلومیٹر پرپھیلی ایک پتھریلی سطح ہے جو کہ شامی دارالحکومت دمشق سے تقریباََ 60 کلومیٹرجنوب مغرب میں واقع ہیں۔

  • امریکی دباؤ کے باوجود ترکی کا روسی دفاعی میزائل نظام خریدنے کا فیصلہ

    امریکی دباؤ کے باوجود ترکی کا روسی دفاعی میزائل نظام خریدنے کا فیصلہ

    انقرہ: امریکا کی جانب سے شدید دباؤ کے باوجود ترک حکام نے فیصلہ کیا ہے کہ روسی دفاعی میزائل نظام ہرصورت خریدا جائے گا۔

    تفصیلات کے مطابق گذشتہ ماہ ترک صدر رجب طیب اردوگان نے اعلان کیا تھا کہ روس سے دفاعی میزائل نظام خریدیں گے جس پر امریکا نے شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے فیصلہ واپس لینے کا مطالبہ کیا تھا۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کا کہنا ہے کہ ترک صدر نے امریکی دباؤ کے باوجود اپنے فیصلے سے پیچھے نہ ہٹنے کا اعلان کیا ہے، اور باور کرایا ہے کہ روس سے ہونے والا معاہدہ جلد عمل میں لایا جائے گا۔

    رجب طیب اردوگان کا اپنے ایک بیان میں کہنا تھا کہ روسی ایس 400 ڈیفنس میزائل نظام کی ترسیل رواں برس جولائی تک شروع ہو جائے گی۔

    اس بیان پر ردعمل دیتے ہوئے امریکی حکام نے ترکی کو ایک بار پھر خبردار کیا کہ اس ڈیل کی وجہ سے ترکی اپنی نیٹو کی رکنیت کو خطرے میں ڈال رہا ہے۔

    امریکا سمیت نیٹو کے دیگر رکن ممالک بھی اپنے اپنے تحفظات و خدشات کا اظہار کر رہے ہیں، جبکہ ترکی اپنے اس فیصلے سے پیچھے نہ ہٹنے پر بضد ہے۔

    روسی میزائل دفاعی سسٹم کی خریداری سے امریکا کو کوئی خطرہ نہیں ہوگا: ترکی

    خیال رہے کہ گذشتہ سال جون میں امریکی وزارت خارجہ نے ترکی کو خبردار کیا تھا کہ جب تک انقرہ روس سے ایس 400 میزائل دفاعی سسٹم کی خریداری کے منصوبے سے دستبردار نہیں ہوتا اس وقت تک ترکی کا ایف 35 لڑاکا طیاروں کی خریداری کا معاملہ خطرے میں رہے گا۔

    امریکی وزارت خارجہ نے دھمکی دی تھی کہ اگر ترکی نے روس سے یہ نظام خریدا تو وہ امریکی قانونی بل کے تحت پابندیوں کا شکار ہوگا، بل پر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے 2017 میں دستخط کیے تھے۔

  • روس کی کریمیا کے ساحل پر جنگی مشقیں، امریکا اور یورپ کو شدید تشویش

    روس کی کریمیا کے ساحل پر جنگی مشقیں، امریکا اور یورپ کو شدید تشویش

    واشنگٹن: روس کی کریمیا کے ساحل پر جنگی مشقوں کے پیش نظر امریکا اور یورپ میں شدید تشویش کی لہر دوڑ گئی۔

    تفصیلات کے مطابق روس کی جانب سے کریمیا کے ساحل پر جنگی منشقوں کا انعقاد کیا جارہا ہے، امریکا اور یورپ نے شدید تشویش کا اظہار کرتے ہوئے روس پر سخت اقتصادی پابندیاں لگانے پر غورشروع کردیا۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کا کہنا ہے کہ جنگی منشقوں میں پندرہ ہزار پیرا ٹروپرز شریک ہوں گے، تین روزہ مشقوں میں تین سو فوجی مشینی دستوں کے علاوہ بحری بیڑے اور اس کے تمام جنگی ہوائی جہاز بھی اپنی مہارت کا مظاہرہ کریں گے۔

    کریمیا روس اور یورپی ممالک کے درمیاں متنازع علاقہ ہے، دوہزار چودہ میں کریمیا کو روس نے اپنا حصہ بنانے کے لیے ریفرینڈم کرایا تھا۔

    ریفرینڈم کی رو سے ماسکو کا کہنا ہے کہ کریمیا کی اکثریت روس کے ساتھ ہے۔خیال رہے کہ یہ مشقیں یوکرائن کے صدارتی انتخاب سے ایک ہفتہ پہلے کی جارہی ہیں۔

    امریکا اور یورپی یونین نے روس پر ایسی سخت اقتصادی پابندیاں عائد کرنے کا مطالبہ کیا، جو سرد جنگ کے دوران بھی نہیں لگی تھیں۔

    یاد رہے کہ روس نے گذشتہ سال ستمبر میں سائبریا میں اپنی تاریخ کی سب سے بڑی جنگی مشقیں کی تھیں، جس میں تین لاکھ سے زائد فوجی اہلکار ہزاروں کی تعداد میں ٹینکوں اور سیکڑوں جنگی جہازوں کے ساتھ میدان میں اترے تھے۔

    روسی تاریخ کی سب سے بڑی جنگی مشقوں کا آغاز، 3 لاکھ سے زائد فوجی شریک

    خیال رہے کہ اتنے بڑے پیمانے پر روس نے آخری مرتبہ سرد جنگ کے دور میں 1981 میں زی پاڈ 81 کے نام سے جنگی مشقوں کا انعقاد کیا تھا جو سوویت دور کی سب سے بڑی جنگی مشق تھی۔

  • امریکی دھمکیوں کے باوجود روسی فوج وینزویلا پہنچ گئی

    امریکی دھمکیوں کے باوجود روسی فوج وینزویلا پہنچ گئی

    کراکس: جنوبی امریکی ملک وینزویلا میں سیاسی بحران کے تناظر میں روس نے اپنی فوج اتار دی۔

    تفصیلات کے مطابق امریکا نے روس کو تنبیہ کی تھی کہ وینزویلا بحران کے آڑ میں روسی فوج نے مداخلت کی تو خاموش نہیں بیٹھیں گے، باوجود اس کے روس نے اپنی فوج بھیج دی۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کا کہنا ہے کہ روسی فوج کا وینزویلا پہنچنے کا مقصد فوجی آپریشن میں شمولیت کے بجائے فوجی تعاون پر بات چیت کرنا ہے۔

    وینزویلا پہنچنے والے روسی فوجی دستوں میں 100 کے قریب سپاہی شامل ہیں، جو دارالحکومت کراکس کے ایئربیس پر موجود ہیں۔

    غیر ملکی میڈیا نے دعویٰ کیا ہے کہ اس سے قبل بھی روسی فوج کے کئی اہلکار کراکس پہنچ چکے ہیں، جس سے متعلق امریکا نے خبردار بھی کیا ہے۔

    امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے روس سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ وینزویلا سے اپنے تمام فوجی واپس بُلا لے۔ ٹرمپ کے مطابق اس کو ممکن بنانے کے لیے تمام راستے کھلے ہیں۔

    دوسری جانب امریکی وزیرخارجہ مائیک پومپیو نے گذشتہ روز روس پر الزام عائد کیا تھا کہ وہ وینزویلا بحران میں مرکزی کردار ادا کرتے ہوئے تنازعے کو مزید بڑھاوا دے رہا ہے۔

    وینزویلا بحران: امریکا نے روسی مداخلت پر حکام کو خبردار کردیا

    مائیک پومپیو نے خدشہ ظاہر کیا تھا کہ اس طرح کے اقدامات سے وینزویلا کے عوامی مزید مصائب کو شکار ہوں گے، جبکہ روسی فوج کی ملک میں آمد کا سلسلہ بھی جاری ہے۔

    یاد رہے کہ وینزویلا میں 23 جنوری کو اپوزیشن لیڈر اور پارلیمںٹ کے اسپیکر جون گائیڈو نے خود کو عبوری صدر قرار دیا تھا جس کے بعد امریکا اور بعض دوسرے علاقائی ممالک نے صدر نکولس مادورو کی جگہ گائیڈو کو ملک کا عبوری صدر تسلیم کرلیا ہے۔

  • الیکشن میں روسی مداخلت کا معاملہ، صدر ٹرمپ پر کوئی جرم ثابت نہ ہوسکا

    الیکشن میں روسی مداخلت کا معاملہ، صدر ٹرمپ پر کوئی جرم ثابت نہ ہوسکا

    واشنگٹن: امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتخابی مہم کے خلاف دو سال سے جاری رابٹ ملر کی خصوصی تحقیقات اختتام پذیر ہوگئیں، تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق صدر ٹرمپ سے کوئی جرم سرزرد نہیں ہوا۔

    تفصیلات کے مطابق 2016 کے امریکی صدارتی انتخابات میں مبینہ روسی مداخلت کے بارے میں سپیشل کونسل رابرٹ ملر کی تیار کردہ خفیہ رپورٹ کا خلاصہ جاری کر دیا گیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ صدر ٹرمپ سے کوئی جرم سر زرد نہیں ہوا۔

    رپورٹ کے خلاصے میں کہا گیا ہے کہ صدر ٹرمپ کی انتخابی مہم کے دوران روس کے ساتھ کسی ملی بھگت کوئی ثبوت ملا۔

    دوسری جانب ڈونلڈ ٹرمپ کا کہنا ہے کہ دو سال سے ان کے خلاف مفروضوں پر مبنی الزامات لگائے گئے اور آج سب جھوٹ ثابت ہوئے۔

    امریکی صدر کا کہنا تھا کہ خصوصی کونسل رابرٹ ملر نے اپنی رپورٹ میں بتایا کہ ٹرمپ کے خلاف روس سے ملی بھگت کے کوئی واضح ثبوت سامنے نہیں آئے۔

    اس رپورٹ کو صدر ٹرمپ اور ان کے حمایتی صدر ٹرمپ کی ایک بڑی کامیابی قرار دے رہے ہیں۔

    ساؤنڈ بائٹ رپورٹ میں مزید کہا گیا تھا کہ صدر ٹرمپ نے انصاف کی راہ میں کوئی رکاوٹ نہیں ڈالی، اس بڑی خبر کے بعد اب صدر ٹرمپ کی صدارت پر چھائے کالے بادل کافی حد تک ختم ہوچکے ہیں۔

    امریکی انتخابات میں روسی مداخلت کا معاملہ، ٹرمپ مخالفین پر برس پڑے

    خیال رہے کہ گذشتہ روز ٹرمپ نے مخالفین کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا تھا، رابرٹ میولرکی رپو رٹ منظرعام آنے پر ان کہنا تھا کہ انتخابی مہم میں روسی مداخلت کے الزام میں انہیں پھنسانے غیرقانی ناکام ہوگئی۔

  • امریکی انتخابات میں روسی مداخلت کا معاملہ، ٹرمپ مخالفین پر برس پڑے

    امریکی انتخابات میں روسی مداخلت کا معاملہ، ٹرمپ مخالفین پر برس پڑے

    واشنگٹن: امریکا میں دوہزار سولہ میں صدارتی انتخابات سے متعلق روسی مداخلت کے الزامات پر امریکی صدر مخالفین پر برس پڑے۔

    تفصیالت کے مطابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے مخالفین کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا، رابرٹ میولرکی رپو رٹ منظرعام آنے پر ان کہنا تھا کہ انتخابی مہم میں روسی مداخلت کے الزام میں انہیں پھنسانے غیرقانی ناکام ہوگئی۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کا کہنا ہے کہ واشنگٹن روانگی سے قبل میڈیا سے گفتگو میں صدر ٹرمپ نے مخالفین کو کڑی تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ یہ ملک کے لیے شرم کا مقام ہے کہ دوہزار سولہ کی انتخابی مہم میں روسی مداخلت کا الزام لگا کر عوام کو گمراہ کیا گیا۔

    ٹرمپ کا کہنا تھا کہ خصوصی تفتیش کار رابرٹ میولر اپنی رپورٹ میں ان کے اور ان کی ٹیم کے خلاف روسی مداخلت کے ثبوت فراہم کرنے میں ناکام رہے ہیں جو ان کی بے گناہی کا ثبوت ہے۔

    قبل ازیں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ امریکی انتخابات میں روسی مداخلت کے معاملے پر تحقیقات امریکا کے لیے باعث شرم قرار دے کر اسے رکوانے کا بھی مطالبہ کرچکے ہیں۔

    ٹرمپ کا امریکی انتخابات میں روسی مداخلت کے معاملے پر تحقیقات روکنے کا مطالبہ

    یاد رہے کہ نومبر 2016 میں ہونے والے صدارتی انتخاب سے قبل ماہ اکتوبر میں امریکی حکومت نے روس پر ڈیموکریٹک پارٹی پر سائبر حملوں کا الزام عائد کیا تھا۔

    واضح رہے کہ سابق امریکی صدر باراک اوباما بھی اس عزم کا اظہار کر چکے ہیں کہ امریکی صدارتی انتخابات میں مبینہ مداخلت کرنے پر روس کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔

  • روس یوکرائن کشیدگی: امریکا اور اتحادیوں‌ نے متعدد روسی شہریوں و کمپنیوں پر پابندی لگادی

    روس یوکرائن کشیدگی: امریکا اور اتحادیوں‌ نے متعدد روسی شہریوں و کمپنیوں پر پابندی لگادی

    ماسکو : یوکرائن کے خلاف روسی جارحیت پر رد عمل دیتے ہوئے امریکا اور اس کے مغربی اتحادیوں نے روسی شہریوں اور کمپنیوں پر نئی پابندیاں عائد کردیں۔

    تفصیلات کے مطابق یوکرائن کے خلاف روس کی بڑھتی ہوئی جارحیت خلاف امریکا اور اتحادیوں نے روس کے ایک درجن سے زائد افراد اور اداروں پر پابندی لگائی ہے۔

    امریکی حکومت کا کہنا ہے کہ مذکورہ پابندی ان افراد اور اداروں پر لگائی گئی ہے جنہوں نے یوکرائنی جنگی جہاز پر حملے میں کردار ادا کیا تھا۔

    امریکی حکومت کی جانب سے جاری اعلامیے میں کہا ہے کہ روسی حکام یوکرائن کے علیحدگی پسند افراد کی حمایت و معاونت کررہا ہے۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کا کہنا ہے کہ امریکا، یورپی ممالک اور کینیڈا کی جانب سے روسی محکمہ دفاع کے 4 افسران سمیت اعلیٰ عہدوں پر فائز 6 افسران پر قدغن لگائی گئی ہے جبکہ کریما میں تعمیراتی کام کرنے والی کمپنیوں اور روسی توانائی کی کمپنیوں پر بھی پابندی عائد کی گئی ہے۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کا کہنا ہے کہ روس اور یوکرائن میں جاری کشیدگی میں مذکورہ اقدامات کے باعث مزید اضافے کا خدشہ ہے۔

    یورپی یونین کے صدر ڈونلڈ ٹسک کا کہنا تھا کہ روسی حکام یوکرائنی بحریہ کے گرفتار افراد کو واپس یوکرائن کے حوالے کریں۔

    مزید پڑھیں : روس یوکرائن کشیدگی کے بادل جی 20 اجلاس پر بھی منڈلانے لگے

    یوکرائن نے روس سے ملحقہ سرحدی علاقے میں مارشل لاء لگادیا

    غیر ملکی میڈیا کا کہنا ہے کہ روس اور یوکرائن کے درمیان 2014 سے جاری کشیدگی کے باعث اب تک دس ہزار سے زائد افراد لقمہ اجل بن چکے ہیں۔

    خیال رہے کہ روس اور یوکرائن کے درمیان تنازع اس وقت پیدا ہوا روس نے کیراج پورٹ پر 3 یوکرائینی بحری جنگی کشتیوں پر فائرنگ کرکے 6 اہلکاروں کو زخمی کردیا تھا اور تاحال یوکرائن کے بحری جہاز اور عملہ روس کے قبضے میں ہے۔

  • روسی میزائل دفاعی سسٹم کی خریداری سے امریکا کو کوئی خطرہ نہیں ہوگا: ترکی

    روسی میزائل دفاعی سسٹم کی خریداری سے امریکا کو کوئی خطرہ نہیں ہوگا: ترکی

    انقرہ: ترکی نے امریکا کو باور کرایا ہے کہ روس سے ایس 400 میزائل دفاعی سسٹم کی خریداری سے امریکا کو کوئی خطرہ نہیں ہوگا۔

    تفصیلات کے مطابق ترکی اور روس کے درمیان معاہدہ طے ہے جس کے تحت روس ترکی کو ایس 400 میزائل دفاعی نظام فروخت کرے گا، جس پر امریکا نے شدید تشویش کا اظہار کیا ہے۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق ترک صدر رجب طیب اردوگان نے اپنے ایک خطاب میں امریکا کو آگاہ کیا ہے کہ مذکورہ سسٹم کی خریداری سے امریکی سلامتی کو کوئی خطرہ نہیں ہے۔

    انہوں نے کہا کہ شام میں عسکریت پسند تنظیم داعش کے خاتمے اور ان کی نقل حرکت سمیت دہشت گرد حملوں سے نمٹے کے تناظر میں دفاعی سسٹم خرید رہے ہیں۔

    اردوگان کا مزید کہنا تھا کہ ترکی کی جانب سے روسی میزائل نظام کی خریداری کا مقصد بالکل واضح ہے اور اسی طرح وہ طریقہ بھی جس کے مطابق ہم اسے استعمال کریں گے۔

    روس سے میزائل سسٹم نہ خریدیں، امریکا نے ترکی کو خبردار کردیا

    خیال رہے کہ گذشتہ سال جون میں امریکی وزارت خارجہ نے ترکی کو خبردار کیا تھا کہ جب تک انقرہ روس سے ایس 400 میزائل دفاعی سسٹم کی خریداری کے منصوبے سے دستبردار نہیں ہوتا اس وقت تک ترکی کا ایف 35 لڑاکا طیاروں کی خریداری کا معاملہ خطرے میں رہے گا۔

    امریکی وزارت خارجہ نے دھمکی دی تھی کہ اگر ترکی نے روس سے یہ نظام خریدا تو وہ امریکی قانونی بل کے تحت پابندیوں کا شکار ہوگا، بل پر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے 2017 میں دستخط کیے تھے۔

  • شام کو ایران کا فوجی اڈا نہیں بننے دیں گے، اسرائیلی وزیر اعظم

    شام کو ایران کا فوجی اڈا نہیں بننے دیں گے، اسرائیلی وزیر اعظم

    ماسکو : اسرائیلی وزیر اعظم اور پیوٹن کے درمیان ملاقات ہوئی، جس میں دونوں رہنماؤں کے مابین مشرق وسطیٰ کی صورتحال اور خطے میں  ایران کی بڑھتی ہوئی مداخلت پر گفتگو ہوئی۔

    تفصیلات کے مطابق فلسطین پر قابض صیہونی ریاست اسرائیل کے وزیر اعظم بنجامن نیتن یاہو نے گزشتہ روز روسی صدر ولادی میر پیوٹن سے دارالحکومت ماسکو میں ملاقات میں کی، جس میں باہمی دلچسپی کے امور پر تبادلہ خیال ہوا۔

    اسرائیلی وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ مشرق وسطیٰ کے امن و امان کو سب سے زیادہ خطرہ ایران سے ہے اور اسرائیل اس خطرے کے سامنے دیوار بن کر کھڑا رہے گا۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق نیتن یاہو کا کہنا تھا کہ اسرائیلی کسی بھی صورت شام کو ایرانی فوجی چھاونی نہیں بننے دے گا۔

    یاد رہے کہ گزشتہ برس ستمبر کے بعد روسی صدر پیوٹن اور اسرائیلی وزیر اعظم کے درمیان یہ پہلی ملاقات ہے۔

    مزید پڑھیں : شام میں روسی طیارہ میزائل حملے میں تباہ، 15 فوجی ہلاک

    گزشتہ برس ستمبر میں شام میں تعینات روسی فوجیوں کو ایئر بیس لانے والا روسی طیارہ بحیرہ روم میں پرواز کے دوران میزائل حملے میں تباہ ہوگیا تھا جس کے نتیجے میں 15 روسی فوجی ہلاک ہوئے تھے۔

    روسی وزارت دفاع کا کہنا ہے کہ صیہونی ریاست اسرائیل کے جنگی طیارے اس دوران شامی شہروں کو اپنے ظلم و بربریت کا نشانہ بنارہے تھے اور روس کا فوجی طیارہ بھی اسی دوران علاقے میں پرواز کررہا تھا۔

    روسی حکام کی جانب سے اسرائیل پر الزام عائد کیا گیا ہے کہ اسرائیلی جنگی طیارو نے روسی آئی ایل 20 طیارے کو شامی دفاعی سسٹم کی جانب دھکیلا تھا جس کے نتیجے میں اسرائیلی طیاروں پر فائر کیے جانے والے میزائلوں نے روسی طیارے کو ہدف بنایا اورحادثہ پیش آیا۔

  • وینزویلا بحران، کیا امریکا فوجی مداخلت کی تیاری کررہا ہے؟

    وینزویلا بحران، کیا امریکا فوجی مداخلت کی تیاری کررہا ہے؟

    ماسکو: روسی حکام نے دعویٰ کیا ہے کہ وینزویلا میں جاری سیاسی بحران کے نتیجے میں امریکا فوجی مداخلت کی تیاری کررہا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق جنوبی امریکی ملک وینزویلا میں شدید سیاسی بحران جاری ہے، جبکہ روسی حکام نے امریکی فوجی مداخلت کی تیاری کا دعویٰ کیا ہے۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کا کہنا ہے کہ امریکا کی جانب سے روس کو وینزویلا بحران پر بات چیت کی پیش کش کی گئی جسے روس نے قبول کرلیا۔

    البتہ روس نے یہ موقف اختیار کیا ہے کہ امریکا معاملہ حل کرنے کے بجائے حیلوں بہانوں سے کام لیتے ہوئے فوجی مداخلت کی تیاری کررہا ہے، ماسکو کراکس کا ایک قریبی حلیف ملک سمجھا جاتا ہے۔

    دوسری جانب امریکی نمائندہ خصوصی برائے وینزویلا ایلیٹ ایبرم نے روسی دعوے کو مسترد کردیا، انٹرویو کے دوران صحافی کے پوچھے گئے سوال پر ان کا کہنا تھا کہ الزامات بے بنیاد ہیں، امریکا فوجی مداخلت نہیں کرے گا۔

    ان کا مزید کہنا تھا روس سے معاملے کے حل کے لیے مذاکرات کی بات کی ہے۔

    وینزویلا بحران: شہریوں کی ہلاکت پر اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل کا اظہار تشویش

    واضح رہے کہ وینزویلا میں 23 جنوری کو اپوزیشن لیڈر اور پارلیمںٹ کے اسپیکر جون گائیڈو نے خود کو عبوری صدر قرار دیا تھا جس کے بعد امریکا اور بعض دوسرے علاقائی ممالک نے صدر نکولس مادورو کی جگہ گائیڈو کو ملک کا عبوری صدر تسلیم کرلیا ہے۔

    بعد ازاں امریکا میں تعینات وینزویلا کے ملٹری اتاشی کرنل جوش لوئس سلوا کی ایک ویڈیو بھی سوشل میڈیا پر جاری ہوئی تھی جس میں وہ نکولس ماڈورو سے علیحدگی اختیار کرتے ہوئے اپوزیشن رہنما جون گائیڈو اعلان وفاداری کررہے تھے۔

    علاوہ ازیں اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوٹیرس نے وینزویلا بحران پر شدید تشویش کا اظہار کرتے ہوئے معاملے کے حل پر زور دیا ہے۔