Tag: Russia

  • مغرب روس میں ورلڈ کپ کا انعقاد نہیں چاہتا، ترجمان ماسکو وزارت خارجہ

    مغرب روس میں ورلڈ کپ کا انعقاد نہیں چاہتا، ترجمان ماسکو وزارت خارجہ

    ماسکو: روس کی وزارت خارجہ کی ترجمان ماریا زکاروا کا کہنا ہے کہ امریکا اور برطانیہ نہیں چاہتے کہ روس میں ورلڈکپ کھیلا جائے۔

    روسی میڈیا کے مطابق وزارت خارجہ کے ترجمان کا کہنا ہے کہ روسی سابق ایجنٹ کو زہر دینے کے حوالے سے جاری تنازعے کے باعث برطانیہ روس سے ورلڈ کپ کی منتقلی چاہتا ہے۔

    ماریا زکاروا کا کہنا ہے برطانیہ کے سیکریٹری خارجہ بورس جانسن پہلے ہی روس سے ورلڈ کپ منتقل کرنے یا اسے منسوخ کرنے کا کہہ چکے ہیں۔

    واضح رہے کہ برطانیہ اور روس کے درمیان سابق روسی ایجنٹ کو زہر دینے حوالے سے تنازعات شدت اختیار کرگئے ہیں اور دونوں ممالک کی جانب سے ایک دوسرے کے سفارتکاروں کو ملک بدر کردیا گیا ہے۔

    برطانوی وزیر خارجہ بورس جانسن کا کہنا تھا کہ روس میں فٹبال کے عالمی کپ کا انعقاد ایسا ہی ہے جیسے 1936 میں ہٹلر دور میں ہونے والے اولمپکس تھے جبکہ برطانیہ کے حزب اختلاف کے رکن پارلیمان نے فٹبال کے عالمی کپ کو روس سے باہر لے جانے یا ملتوی کرنے کا عندیہ دیا ہے۔

    خیال رہے کہ فٹبال ورلڈ کپ کا انعقاد رواں سال 14 جون سے 15 جولائی تک روس کے گیارہ شہروں کے بارہ مقامات میں ہوگا۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • سابق روسی ایجنٹ پر حملہ برطانیہ کے مفاد میں‌ تھا: روسی وزیر خارجہ کا الزام

    سابق روسی ایجنٹ پر حملہ برطانیہ کے مفاد میں‌ تھا: روسی وزیر خارجہ کا الزام

    ماسکو:روسی وزیر خارجہ نے الزام عائد کیا ہے کہ سابق روسی ایجنٹ پر حملہ برطانیہ کے مفاد میں‌ تھا، یہ حملہ بریگزٹ کے مسائل سے عوام کی توجہ ہٹانے کی کوشش ہے۔

    تفصیلات کے مطابق روس کے وزیر خارجہ سرگئی لاروف نے پیر کے روز روس اور برطانیہ کے درمیان بڑھتی ہوئی کشیدگی کے حوالے سے پریس کانفرنس کرتے ہوئے ’برطانوی حکومت اور اس کے مغربی اتحادیوں پر الزام عائد کیا ہے کہ یہ ممالک مسلسل غیر مناسب رویہ اختیار کرتے ہوئے سفید جھوٹ اور غلط معلومات پھیلا رہے ہیں۔

    سرگئی لاروف نے پریس کانفرنس ک دوران گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ مارچ کے اوائل میں برطانیہ کے شہر سالسبری میں ڈبل ایجنٹ پر اعصاب متاثر کرنے والے کیمیکل سے قاتلانہ حملہ خود برطانوی حکومت کے مفاد میں ہے۔

    برطانیہ اس وقت خود بریگزٹ کے وعدے پورے نہ کرنے کے باعث مشکلات کا ہے اس لیے انہوں نے اس طرح کے اوچھے ہھتکنڈوں کے ذریعے بریگزٹ میں پیش آنے والے مسائل سے عوام کے توجہ ہٹانا چاہی ہے۔

    انہوں نے صحافی کی جانب سے سرد جنگ کی نسبت حالیہ دنوں دونوں ممالک کے درمیان بڑھتی کشیدگی کے حوالے سے کیے گئے سوال پر کہا کہ ’ سرد جنگ میں کچھ اصول و قوانین ہوتے تھے اور مناسب رویہ اختیار کیا جاتا تھا‘۔

    ان کا کہنا تھا کہ ’مغربی دنیا برطانیہ اور امریکا کے پیچھے چلنے والے ممالک تمام قابل قبول رویوں کو نظر انداز کرتے ہوئے ابھی بچوں کا کھیل رہے ہیں لیکن ہم بچوں کا کھیل نہیں کھلتے‘۔

    روسی وزیر خارجہ نے کہا کہ سابق ڈبل ایجنٹ سرگئی سکریپال اور ان کی بیٹی کو زہر دینے کا واقعہ برطانیہ کی خصوصی فورسز کے مفاد میں بھی ہوسکتا ہے کیونکہ وہ قتل کے لائسنس کی حامل ہیں اور اپنی ان صلاحیتوں کے لیے معروف ہیں۔

    لاروف نے اس امر کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ اگر یہ حملہ روس نے نہیں کیا کیوں کہ ’’اگر ایسا ہوتا تو متاثرین فوری طور پر مرچکے ہوتے اور جہاں تک میں سمجھتا ہوں ایسے پراسرار اور پیچیدہ حملوں میں فوری طور پر موت واقع ہوجاتی ہے‘‘۔

    ان کا مزید کہنا تھا کہ ’’اس واقعے کی دیگر بھی کئی وجوہات ہوسکتی ہیں اور ان میں سے کسی ایک کے بھی امکان کو مسترد نہیں کیا جاسکتا‘‘۔

    یاد رہے کہ گذشتہ ماہ برطانیہ کے شہر سالسبری میں سابق روسی جاسوس اور اس کی بیٹی پر قاتلانہ حملہ ہوا تھا جس کا الزام برطانیہ نے روس پر عائد کرتے ہوئے 23 سفارت کاروں کو ملک بدر کرنے حکم دیاتھا۔

    تاہم برطانیہ کی حمایت میں امریکا سمیت کئی مغربی ممالک نے بھی اس سرد جنگ میں حصّہ لیتے ہوئے روسی سفارت کاروں کو جاسوس قرار دے کر نکال دیا تھا۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں‘ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کےلیے سوشل میڈیا پرشیئر کریں

  • فٹبال ورلڈ کپ کو روس سے منتقل کیا جائے، برطانوی حکام کا مطالبہ

    فٹبال ورلڈ کپ کو روس سے منتقل کیا جائے، برطانوی حکام کا مطالبہ

    ماسکو: برطانوی وزیر خارجہ بورس جانسن کا کہنا ہے کہ روس میں فٹبال کے عالمی کپ کا انعقاد ایسا ہی ہے جیسے سن 1936 میں جرمنی میں منعقد ہونے والا اولمپکس تھا، فٹبال ورلڈ کپ کو روس سے منتقل کیا جائے۔

    تفصیلات کے مطابق روسی حکام کا کہنا ہے کہ امریکا اور برطانیہ سابق جاسوس پر اعصاب متاثر کرنے والے کیمیکل سے حملے کا الزام لگاکر روس کو فٹبال کے عالمی کپ کی میزبانی سے محروم کرنا چاہتے ہیں۔

    گذشتہ کچھ دنوں سے برطانیہ اور روس کے تعلقات میں برطانوی شہر سالسبری میں ڈبل ایجنٹ پے قاتلانہ حملے کی واجہ سے کشیدگی بڑھتی ہی جارہی ہے، اور دونوں ملک کے رہنما ایک دوسرے کے اوپر الزام کی بوچاڑ کررہے ہیں۔

    روسی وزارت خارجہ کی ترجمان ماریہ زخارووا کا روسی نشریاتی ادارے کو دیئے گئے انٹرویو میں کہنا ہے کہ ’روس پر برطانیہ کی جانب سے لگائے جانے والے الزامات کا مقصد روس کو فٹبال کے عالمی کپ کی میزبانی سے روکنا ہے‘۔

    یاد رہے کہ برطانوی حکام نے روس پر الزام عائد کی تھا کہ انہوں  نے برطانیہ میں مقیم روس کے ایک سابق جاسوس پر اعصاب متاثر کرنے والے کیمیکل سے قاتلانہ حملہ کیا تھا اور برطانیہ و دیگراتحادی  اس الزام میں روس کو سزا دینا چاہتے ہیں۔

    برطانوی وزیر خارجہ بورس جانسن کا کہنا تھا کہ روس میں فٹبال کے عالمی کا انعقاد ایسا ہی ہے جیسے سن 1936 میں نازی جرمن یعنی ہٹلر دور میں ہونے والے اولمپکس تھے۔ جبکہ برطانیہ کی حزب اختلاف کے رکن پارلیمان نے فٹبال کے عالمی کپ کو روس سے باہر لے جانے یا ملتوی کرنے کا مشورہ دیا ہے۔

    خیال رہے کہ گذشتہ ماہ سابق روسی جاسوس سرگئی اسکریپال اور اس کی بیٹی یویلیا کو زہر دیے جانے کے مسئلے پر سینکڑوں سفیروں کو دونوں جانب سے ملک بدر کیا گیا ہے۔

    جبکہ امریکا میں روس کے 170 سفارت کاروں کو جمعے کے روز اہل خانہ کے ہمراہ واشنگٹن کو الوداع کہنا پڑا ، تو دوسری طرف سینٹ پیٹرزبرگ میں امریکی سفارت خانے کو بند کرنے کا حکم جاری ہوا۔

    روسی وزیر خارجہ کی ترجمان ماریہ کا کہنا تھا کہ ’برطانیہ اور امریکا دیگر یورپی ممالک کے ساتھ ملکر فٹبال ورلڈ کپ کو روس سے ہٹانا چاہتے ہیں چاہےخواہ طریقہ کوئی بھی ہو‘۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں، مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • سفارتی بحران شدید، روس نے مزید 50 برطانوی سفیروں کی بے دخلی کا اعلان کردیا

    سفارتی بحران شدید، روس نے مزید 50 برطانوی سفیروں کی بے دخلی کا اعلان کردیا

    ماسکو:برطانیہ میں سابق روسی جاسوس پر قاتلانہ حملے کے بعد برطانیہ اور روس کے تعلقات میں کشیدگی شدت اختیار کرگئی، ہفتے کے روز روس نے مزید 50 برطانوی سفارت کاروں کو ملک سے نکل جانے کا حکم دے دیا۔

    تفصیلات کے مطابق روسی حکام نے ماسکو میں برطانوی سفیر کو دفتر خارجہ طلب کر کے برطانیہ کی جانب سے روس پر لگائے گئے الزامات کے خلاف احتجاج سخت کیا تھا، بعدازاں روسی وزارت خارجہ نے تئیس برطانوی سفارتکاروں کو ملک بدر کرنے اور ماسکو میں برٹش کونسل بند کرنے کا اعلان کردیا تھا۔

    ہفتے کے روز روسی وزارت خارجہ کی ترجمان نے غیر ملکی خبر رساں ادارے کو بتایا کہ روس نے برطانوی حکام کو آگاہ کیا ہے کہ دونوں ملکوں کے سفارت کاروں کی تعداد یکساں ہونی چاہیے۔

    تجزیہ کاروں کا کہنا ہے روس کا برطانیہ اور روس میں سفارت کاروں کی یکساں تعداد کے مطالبے کا مطلب ہے کہ مزید 27 برطانوی سفارت کاروں کو ملک بدر کیا جاسکتا ہے۔

    یاد رہے کہ 4 مارچ کو برطانیہ کے علاقے سالسبری میں سابق روسی جاسوس اور اس کی بیٹی پر اعصاب متاثر کرنے والے زہریلے کیمیکل سے حملہ کیا گیا تھا جس کا الزام برطانوی حکام نے روس پر عائد کیا تھا، تاہم روس اس الزام کی مسلسل تردید کرتا آرہا ہے۔


    روس کا برطانیہ کے 23 سفارت کاروں کو ملک بدر کرنے کا اعلان


    دوسری جانب برطانیہ کے وزارت خارجہ کا کہنا ہے کہ روسی حکام کی جانب سے دیا گیا جواب مایوس کن ہے، لیکن روس نے ماضی میں بھی یہی رویہ اپنایا تھا اس لیے روس کے ان اقدامات کی توقع تھی۔

    روسی وزارات خارجہ نے نے برطانیہ کو پہلے ہی خبر دار کیا تھا کہ اگر برطانوی حکومت نے مزید روس کے خلاف کوئی اقدام کیا تو روس بھرپور جواب دے گا۔

    دریں اثنا جمعہ کے روز برطانیہ کے ہیتھرو ایئرپورٹ پر روسی ایئر لائن ایرو فلوٹ سے برطانیہ جانے والے مسافروں کی مبینہ تلاشی لی گئی جس پر روسی وزارتِ ٹرانسپورٹ نے برطانیہ سے باضابطہ وضاحت مانگی ہے۔

    روس کے وزارت ٹرانسپورٹ کا کہنا تھا کہ ’اگر اس حوالے کوئی وضاحت پیش نہیں کی گئی تو روس برطانیہ کی جانب سے کی گئی اس کارروائی کو غیر قانونی تصور کرے گا اور روس آنے والی برطانوی ہوائی کمپنی برٹش ایئر ویز سے سفر کرنے والے مسافروں کو بھی اس عمل سے گزرنا پڑے گا‘۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں‘ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پرشیئر کریں۔

  • روس نے19 یورپی ممالک کے46 سفیروں کو ملک بدرکرنےکااعلان کردیا

    روس نے19 یورپی ممالک کے46 سفیروں کو ملک بدرکرنےکااعلان کردیا

    ماسکو: روس نے برطانیہ کی حمایت میں روسی سفارت کاروں کو ملک بدر کرنے والے 19 یورپی ممالک کے 46 سفارت کاروں کو جواباً ملک بدر کرنے کا اعلان کردیا۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق سفارت کاروں کی بے دخلی پر روس نے یورپی یونین اور امریکا کو ترکی بہ ترکی جواب دینے کا اعلان کیا تھا، روس نے 60 امریکی سفارتکاروں کی بے دخلی کے بعد یورپی ممالک کے بھی سفیروں کی بے دخلی کا نوٹس جاری کردیا۔

    روسی وزیر خارجہ سرگئی لاوروف نے کہا ہے کہ روس سے بے دخل کیے جانے والے تمام مملکوں کے سفیروں کو آج طلب کرکے سفارت کاروں کی بے دخلی کا نوٹس تھما دیا، اور بتایا گیا ہے کہ یہ اقدام روسی سفارتکاروں کی یورپی ممالک سے بے دخلی کا جواب ہے، روسی وزیر خارجہ نے یورپی یونین سے تعلق رکھنے والے ممالک کے سفارتکاروں کو جلد از جلد ملک چھوڑنے کا حکم بھی دے دیا۔

    روس نے 13 یوکرائنی، 4 کینیڈین، 4 پولش، 4 جرمن،  3مالدووا، 3 چیک، 3لیتھوانیا، 2 اٹلی، 2ڈچ، 2 اسپین، 2ڈینمارک جبکہ فن لینڈ، لٹویا، ناروے، رومانیہ، سوئزلینڈ، کرویئشا، سویڈن، استونیا کے ایک ایک سفیر کو روس سے بے دخل کرنے کا اعلان کیا ہے۔ ماسکو سابق روسی جاسوس کیس میں برطانیہ کی حمایت کرنے والے دیگر یورپی ممالک بیلجیم، ہنگری، مونٹینیگرو اور جارجیا کے خلاف جوابی کارروائی کا حق محفوظ رکھتا ہے۔

    واضح رہے کہ چند روز قبل یورپی ممالک اور امریکا نے برطانیہ میں رہائش پذیر سابق روسی جاسوس سرگئی اسکریپال اور ان کی بیٹی یویلیا اسکریپال پر اعصاب متاثر کرنے والے کیمیکل سے رواں ماہ حملہ کیا گیا تھا۔ برطانیہ نے روس پر الزام حملے کا الزام عائد کرتے ہوئے 23 روسی سفیروں کو برطانیہ سے ملک بدر کردیا تھا۔

    جبکہ امریکا نے برطانیہ کی حمایت کا اعلان کرتے ہوئے 60روسی سفارتکاروں کو امریکا سے بے دخل کرتے امریکی شہر سیٹل میں واقع قونصلیٹ کو بند کرنے کا بھی اعلان کیا تھا۔

    امریکا کے علاوہ کینیڈا، برطانیہ سمیت کئی یورپی ممالک نے بھی روسی سفارتکاروں کو ملک چھوڑنے کا حکم دیا تھا جس کے جواب میں روس نے بھی ہر ملک کے خلاف بھرپور کارروائی کا اعلان کیا تھا۔

    اس سے قبل برطانیہ نے بھی 23 روسی سفارتکاروں کو ملک بدر کرنے کا اعلان کیا تھا جس کے جواب میں روس نے بھی برطانیہ کے اتنے ہی سفارتکاروں کی بے دخلی کا حکم جاری کیا تھا۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں‘ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پرشیئر کریں۔

  • روس کا 60 امریکی سفارتکاروں کی بے دخلی کا اعلان

    روس کا 60 امریکی سفارتکاروں کی بے دخلی کا اعلان

    ماسکو: روس کا 60 امریکی سفارتکاروں کی بے دخلی کا اعلان، روس نے سینٹ پیٹرز برگ میں امریکی قونصل خانہ بھی بند کرنے کا اعلان کردیا۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق سفارت کاروں کی بے دخلی پر روس کا امریکا کو ترکی بہ ترکی جواب، روس نے 60 امریکی سفارتکاروں کی بے دخلی کا نوٹس امریکی سفیر کو طلب کرکے تھما دیا۔

    روسی وزیر خارجہ سرگئی لاوروف نے کہا ہے کہ امریکی سفیر کو آج طلب کرکے نوٹس دے دیا گیا ہے اور بتایا گیا ہے کہ یہ اقدام روسی سفارتکاروں کی بے دخلی کا جواب ہے، روسی وزیر خارجہ نے امریکی سفارتکاروں کو 5 اپریل سے پہلے ملک چھوڑنے کا حکم بھی دے دیا۔

    سفارت کاروں کو ملک بدر کرنے پر منہ توڑ جواب دیں گے: روسی وزارت خارجہ

    چند روز قبل امریکا نے برطانیہ میں رہائش پذیر سابق روسی جاسوس اور ان کی بیٹی پر اعصابی گیس کے حملے کے ردعمل میں 60 روسی سفارتکاروں کی بے دخلی کا حکم جاری کرتے ہوئے امریکی شہر سیٹل میں واقع قونصلیٹ کو بند کرنے کا بھی اعلان کیا تھا۔

    امریکا کے علاوہ کینیڈا، برطانیہ سمیت کئی یورپی ممالک نے بھی روسی سفارتکاروں کو ملک چھوڑنے کا حکم دیا تھا جس کے جواب میں روس نے بھی ہر ملک کے خلاف بھرپور کارروائی کا اعلان کیا تھا۔

    اس سے قبل برطانیہ نے بھی 23 روسی سفارتکاروں کو ملک بدر کرنے کا اعلان کیا تھا جس کے جواب میں روس نے بھی برطانیہ کے اتنے ہی سفارتکاروں کی بے دخلی کا حکم جاری کیا تھا۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں‘ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • سفارت کاروں کو ملک بدر کرنے پر برطانیہ کو منہ توڑ جواب دیں گے: روسی وزارت خارجہ

    سفارت کاروں کو ملک بدر کرنے پر برطانیہ کو منہ توڑ جواب دیں گے: روسی وزارت خارجہ

    ماسکو: برطانیہ اور روس کے درمیان جاری تنازعات اور سفارت کاروں کو ملک بدر کرنے پر روسی وزارت خارجہ نے برطانیہ کو سنگین نتائج کی دھمکی دے دی۔

    تفصیلات کے مطابق گذشتہ دنوں برطانوی سرزمین پر روسی جاسوس اور ان کی بیٹی کو زہر دے کر قتل کرنے کی کوشش کی گئی تھی جس کے بعد برطانوی حکومت نے براہ راست روس کو مورد الزام ٹہراتے ہوئے ان کے 23 سفارت کارروں کو ملک بدر کرنے کا اعلان کیا تھا۔

    بعد ازاں برطانوی حکومت کے اس اقدام کے نتیجے میں روس نے بھی رد عمل میں اپنی سرزمین سے 23 برطانوی سفارت کاروں کو ملک چھوڑنے کا حکم دیا تھا جس کے بعد روس اور برطانیہ کے تعلقات میں شدید تناؤ کی کیفیت پیدا ہوگئی ہے۔

    روس کا بھی برطانوی سفیروں کو ملک بدرکرنے کا فیصلہ

    ترجمان روسی وزارت خارجہ کی جانب سے جاری کردہ بیان میں کہا گیا ہے کہ حالات کا جائزہ لے رہے ہیں تاہم جوابی اقدامات کا فیصلہ روسی صدر ولادیمیر پیوٹن کریں گے، امریکا سمیت 20 سے زائد مغربی ممالک سے اپنے سفیروں کی بے دخلی کا بھرپور جواب دیں گے۔

    ان کا مزید کہنا تھا کہ روسی حکومت پہلے بھی وضاحت اور تصدیق کرچکی ہے کہ برطانیہ میں مقیم سابق روسی جاسوس کو زہر دینے میں اس کا کوئی ہاتھ نہیں لیکن اس کے باوجود ہمارے سفارت کارروں کو ملک بدر کیا گیا۔

    برطانوی سفارت کاروں کو ملک بدر کرنے سے حقائق نہیں چھپ سکتے: برطانوی وزیر اعظم

    خیال رہے کہ روس اور برطانیہ کے درمیان جاری تنازعات میں امریکا نے برطانیہ کی حمایت کی ہے بعد ازاں صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بھی گذشتہ دنوں امریکا میں مقیم روس کے 60 سفارتی اہلکاروں کو ملک سے نکلنے اور سیاٹل میں واقع روسی قونصل خانہ بند کرنے کا حکم دیا تھا۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں، مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • آسٹریلیا نے دو روسی سفیروں کو ملک بدر کردیا

    آسٹریلیا نے دو روسی سفیروں کو ملک بدر کردیا

    سڈنی : برطانیہ اور روس کا تنازعہ تیسری عالمی جنگ کی صورت اختیار کرتا جارہا ہے،امریکا کے بعد آسٹریلیا نے بھی برطانیہ سے اظہار یکجہتی کرتے ہوئے روسی سفیروں کی ملک بدری کا حکم جاری کردیا۔

    تفصیلات کے مطابق برطانیہ میں سابق روسی جاسوس کو قتل کرنے کی کوشش کے بعد جنم لینے والے عالمی بحران کا دائرہ پھیلتا جارہا ہے. برطانیہ کے بعد 23 سے زائد ممالک اب تک 100 روسی سفارت کاروں کو ملک بدر کرچکے ہیں جو تاریخ کی سب سے بڑی بے دخلی ہے۔

    آسٹریلیا نے انتہائی قدم اٹھاتے ہوئے 2 روسی سفارت کاروں کو ملک سے نکل جانے حکم دیا ہے۔ آسٹریلیوی وزارتِ عظمیٰ نے اپنے ایک بیان میں اسے اپنے اتحادی برطانیہ پر حملے کا ردعمل قرار دیا ہے۔

    آسٹریلیا کے وزیر اعظم ٹرنبُل کا کہنا تھا کہ روس کی جانب سے سالسبری میں کی گئی شرمناک کارروائی تمام ممالک پر حملہ ہے۔ پیر کے روز امریکا اور یورپی یونین سے ہم آہنگی کے بعد 20 سے زائد ممالک نے روس کے100 سے زیادہ سفیروں کو ملک بدر کیا ہے۔

    روس نے اپنے سفارت کاروں کو ملک بدر کرنے والے ممالک کے اشتعال انگیز عمل پر رد عمل دینے کا عندیہ دیا ہے۔ جبکہ روس برطانیہ کے شہر سالسبری میں زخمی ہونے والے سابق جاسوس پر حملے میں ملوث ہونے کے الزام کو بھی مسلسل مسترد کررہا ہے۔

    آسٹریلیوی وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ روس کے اقدامات امریکی صدارتی انتخابات میں مداخلت اور ہمارے دوست ممالک کی قومی سلامتی کے لیے خطرہ ہیں۔ دنیا کی تاریخ میں یہ ایک بڑی تعداد ہے روس کے انٹیلی جنس افسران کی جنہیں برطانیہ کی حمایت میں 20 سے زائد ممالک نے اپنی مملتکوں سے ملک بدر کیا ہے۔

    ان کا مزید کہنا تھا کہ روس نے کئی ممالک کی سرحدی خلاف ورزی کرتے ہوئے ممالک کی سالمیت کو نقصان پہچانے کی کوشش کی ہے، اس لیے دنیا کے 23 ممالک کی حکومتوں نے روس کی لاقانونیت اور لاپرواہی کے خلاف یہ اقدامات اٹھائے ہیں۔

    واضح رہے کہ برطانیہ کی جانب سے 23 روسی سفیروں کی ملک بدری کے بعد درج ذیل ممالک نے پیر کے روز برطانوی حکومت سے اظہار یکجہتی کرتے ہوئے روسی سفارت کاروں کی ملک بدری کا اعلان کیا تھا۔

    اب تک روس کے 100 سے زائد سفارت کاروں کو متعدد ممالک سے ملک بدر کیا جاچکا ہے جن میں امریکا سے 60، یوکرائن سے 13، کینیڈا سے 4، البانیا سے 2، اسٹریلیا سے 2، ناروے سے 1، جبکہ یورپی یونین نے کُل 33 سفیروں کو ملک بدر کیا ہے۔

    جبکہ آئس لینڈ کی حکومت نے روسی اقدامات کی مذمت کرتے ہوئے آئندہ روس میں ہونے والے فٹبال ورلڈ کپ میں شرکت نہ کرنے کا اعلان کیا ہے۔


    امریکا نے 60 روسی سفارت کاروں کو ملک بدر کرنے کا حکم دے دیا


    یاد رہے کہ برطانیہ میں‌ مقیم روسی جاسوس اور اس کی بیٹی کو زہر دیے جانے کا الزام برطانوی حکومت نے روسی پر عاید کیا تھا اور 23 روسی سفارت کاروں کوملک بدر کرنے کا حکم دیا تھا۔

    جواباً روس نے بھی 23 برطانوی سفارت کاروں کو ملک بدر کرنے کا اعلان کیا تھا۔ صدارتی انتخاب جیتنے کے بعد روسی صدر نے واضح الفاظ میں کہا تھا کہ سابق روسی جاسوس پر برطانیہ نے حملہ کروایا تھا۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں‘ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کےلیے سوشل میڈیا پرشیئر کریں

  • امریکا نے 60 روسی سفارت کاروں کو ملک بدر کرنے کا حکم دے دیا

    امریکا نے 60 روسی سفارت کاروں کو ملک بدر کرنے کا حکم دے دیا

    واشنگٹن: برطانیہ روس تنازعے نے عالمی بحران کی شکل اختیار کر لی. امریکا نے بھی 60 روسی سفارت کاروں کو ملک بدر کرنے کا حکم جاری کر دیا.

    تفصیلات کے مطابق برطانیہ میں سابق روسی جاسوس کو قتل کرنے کی کوشش کے بعد جنم لینے والے عالمی بحران کا دائرہ پھیلتا جارہا ہے. برطانیہ کے بعد دیگر ممالک سے بھی روسی سفارت کی بے دخلی کا سلسلہ شروع ہوگیا.

    [bs-quote quote=”برطانیہ میں سابق روسی جاسوس کو قتل کرنے کی کوشش کے بعد جنم لینے والے عالمی بحران کا دائرہ پھیلتا جارہا ہے” style=”style-2″ align=”left”][/bs-quote]

    امریکا نے انتہائی قدم اٹھاتے ہوئے 60 روسی سفارت کاروں کو ملک سے نکل جانے حکم دیا ہے۔ امریکی محکمہ خارجہ نے اپنے ایک بیان میں اسے اپنے اتحادی برطانیہ پر حملے کا ردعمل قرار دیا ہے۔ 

    امریکا کے علاوہ جرمنی اور فرانس بھی چار روسی سفارکاروں کو ملک بدر کرنے کا حکم دے چکے ہیں. دیگر یورپی ممالک نے بھی روسی سفارت کاروں کی بے دخلی کا سلسلہ جاری ہے. یوکرین نے 13 سفارت کاروں کو ملک بدر کرنے کا اعلان کیا ہے.

    یاد رہے کہ برطانیہ میں‌ مقیم روسی جاسوس اور اس کی بیٹی کو زہر دیے جانے کا الزام برطانوی حکومت نے روسی پر عاید کیا تھا اور 23 روسی سفارت کاروں کوملک بدر کرنے کا حکم دیا تھا.

    جواباً روس نے بھی 23 برطانوی سفارت کاروں کو ملک بدر کرنے کا اعلان کیا تھا۔ صدارتی انتخاب جیتنے کے بعد روسی صدر نے واضح الفاظ میں کہا تھا کہ سابق روسی جاسوس پر برطانیہ نے حملہ کروایا تھا.

    اب امریکی حکومت کی جانب سے روسی سفارت کاروں‌ کو ملک بدر کرنے کا حکم جاری ہوا ہے، جن میں سے 48 واشنگٹن میں واقع روسی سفارتخانے، جب کہ باقی نیو یارک میں اقوام متحدہ میں تعینات ہیں۔


    روس کا برطانیہ کے 23 سفارت کاروں کو ملک بدر کرنے کا اعلان


    برطانوی وزیر خارجہ نے روسی صدر پیوٹن کو ہٹلر قرار دے دیا


  • طالبان کو اسلحہ کی فراہمی کا امریکی الزام بے بنیاد ہے، روس

    طالبان کو اسلحہ کی فراہمی کا امریکی الزام بے بنیاد ہے، روس

    کابل : روس نے کہا ہے کہ امریکہ کی جانب سے لگائے گئے طالبان کو اسلحہ کی فراہمی کے الزام میں کوئی صداقت نہیں، روس کسی بھی انتہاء پسند قوت کو سپورٹ نہیں کرتا۔

    تفصیلات کے مطابق روس نے امریکہ کی جانب سے دو روز قبل لگائے گئے الزام کو  یکسر مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ طالبان کی حمایت، اسلحہ یا مالی امداد کی فراہمی سے متعلق کہی گئی بات بے بنیاد ہے۔

    افغان دارالحکومت کابل میں واقع روسی سفارت خانے کی جانب سے جاری کردہ بیان میں کہا گیا ہے کہ نیٹو افواج کے سربراہ کی جانب سے طالبان کی مدد کرنے کا الزام بے بنیاد اور جھوٹ پر مبنی ہے ۔

    روس کسی بھی انتہا پسند قوت کو سپورٹ نہیں کرتا بلکہ خطے میں قیام امن کے لیے اپنا کردار ادا کرتے آئے ہیں اس حوالے سے نیٹو کے کمانڈر کو اپنی معلومات درست کرنے کی ضرورت ہے۔ روس افغانستان میں صرف امن مذاکرات کی حد تک متحرک ہے۔

    مزید پڑھیں: روس افغان طالبان کو اسلحہ فراہم کررہا ہے، امریکہ کا الزام

    واضح رہے کہ دو روز قبل افغانستان میں متعین امریکی افواج کے سربراہ جنرل جان نکولسن نے یہ الزام عائد کیا تھا کہ روس نہ صرف افغان طالبان کی مالی مدد کر رہا ہے بلکہ انہیں تاجکستان کی سرحد سے جدید اسلحہ بھی فراہم کیا جا رہا ہے، تاہم ان کا کا یہ بھی کہنا ہے کہ وہ اس کی تعداد نہیں بتا سکتے۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں‘ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔