Tag: Russia

  • کریمیا میں ہونے والے حالیہ حملوں کے پیچھے امریکا ہے: روس

    کریمیا میں ہونے والے حالیہ حملوں کے پیچھے امریکا ہے: روس

    ماسکو: روس نے کریمیا پر حملوں کا ذمہ دار امریکا کو ٹھہرا دیا، روسی وزارت داخلہ نے کہا ہے کہ کریمیا میں ہونے والے حالیہ حملوں کے پیچھے امریکا ہے۔

    روئٹرز کے مطابق اتوار کو روس کے ساتھ ملحقہ جزیرہ نما کریمیا میں یوکرین کے میزائل حملے میں 2 بچوں سمیت 4 افراد ہلاک اور 151 زخمی ہو گئے تھے، اس حملے میں پانچ امریکی فراہم کردہ میزائل استعمال ہوئے۔

    روس کی وزارت دفاع نے کہا ہے کہ یوکرین نے حملے میں امریکی فراہم کردہ ہتھیاروں کا استعمال کیا، حملے میں کلسٹر بموں کا استعمال کیا گیا، وزارت دفاع نے کہا کہ ماسکو کے ساتھ ملحقہ کریمیا پر مہلک حملے کی ذمہ داری واشنگٹن پر عائد ہوتی ہے۔

    روسی وزارت دفاع نے کہا کہ کلسٹر وار ہیڈز سے لیس امریکا کے فراہم کردہ آرمی ٹیکٹیکل میزائل سسٹم (ATACMS) میزائلوں میں سے چار کو فضائی دفاعی نظام نے مار گرایا تھا لیکن پانچویں میزائل کا گولہ بارود فضا ہی میں پھٹ گیا۔

    روس کے سرکاری ٹیلی ویژن پر نشر ہونے والی فوٹیج میں دکھایا گیا کہ لوگ ساحل سمندر سے بھاگ رہے ہیں اور کچھ لوگوں کو محفوظ مقام کی طرف لے جایا جا رہا ہے۔ کریمیا میں روسی حکام نے بتایا کہ میزائل کے ٹکڑے دوپہر کے بعد سیواستوپول شہر کے شمال کی جانب ایک ساحل کے قریب گرے جہاں مقامی لوگ چھٹیاں منا رہے تھے۔ اس واقعے نے روسی عوام میں شدید غم و غصہ پیدا کیا۔

    وزارت دفاع نے کہا کہ امریکی ماہرین نے میزائلوں کے ’فلائٹ کوآرڈینیٹس‘ امریکی جاسوس سیٹلائٹ کی معلومات کی بنیاد پر ترتیب دیے تھے، یعنی واشنگٹن اس کے لیے براہ راست ذمہ دار تھا۔ وزارت نے کہا کہ سیواستوپول کے شہریوں پر جان بوجھ کر میزائل حملے کی ذمہ داری سب سے بڑھ کر واشنگٹن پر عائد ہوتی ہے جس نے یہ ہتھیار فراہم کیے، اور پھر کیف حکومت پر جس کی سرزمین سے یہ حملہ کیا گیا۔

    واضح رہے کہ دوسری طرف روس کے شہر داغستان میں یہودی اورعیسائی عبادت گاہوں پر بھی حملے ہوئے ہیں جن میں 17 افراد ہلاک اور 25 زخمی ہو گئے، دہشت گردوں نے 2 گرجا گھروں، یہودی عبادت گاہ کو آگ لگا دی تھی، پولیس کی جوابی کارروائی میں 6 حملہ آور مارے گئے، حملہ آوروں نے داغستان میں پولیس چوکی پر بھی فائرنگ کی۔

  • روس نے ایک بڑے حملے میں یوکرینی پاور گرڈ تباہ کر دیا

    روس نے ایک بڑے حملے میں یوکرینی پاور گرڈ تباہ کر دیا

    یوکرین پر روسی حملے جاری ہیں، ایک اور بڑے حملے میں روس نے یوکرین کا توانائی کا انفرا اسٹرکچر تباہ کر دیا۔

    غیر ملکی میڈیا کے مطابق یوکرین کا کہنا ہے کہ روس نے گزشتہ رات تازہ ترین حملے میں ایک پاور گرڈ کو نشانہ بنایا ہے، جس سے توانائی کی تنصیبات تباہ ہو گئیں، اس حملے میں 2 افراد بھی زخمی ہوئے ہیں۔

    یوکرین کی وزارت توانائی کے مطابق 3 ماہ میں یوکرینی توانائی سیکٹر پر روس کا یہ آٹھواں حملہ ہے، جس میں جنوب مغرب میں کئی تنصیبات کو نقصان پہنچا۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق دو سال میں روسی حملوں سے یوکرین کا توانائی سیکٹر بالکل تباہ ہو چکا ہے، یوکرین میں بلیک آؤٹ ہے اور چیزوں کی فراہمی معطل ہے۔

    یوکرین کی فضائیہ نے ایک بیان میں کہا کہ اس کے فضائی دفاعی نظام نے رات بھر روس کی طرف سے کئی علاقوں میں چھوڑے جانے والے 16 میں سے 12 میزائلوں اور تمام 13 ڈرونز کو مار گرایا۔

    روس نے یوکرینی توانائی کے اہداف پر حملوں کی مہم پھر سے شروع کر دی ہے، جس کی وجہ سے ملک بھر میں اکثر بجلی بند ہو جاتی ہے۔ صدر ولادیمیر زیلنسکی نے حال ہی میں کہا تھا کہ ماسکو نے روسی فوج نے یوکرین کی بجلی پیدا کرنے کی نصف صلاحیت کو تباہ کر دیا ہے۔

  • ولادیمیر پیوٹن نے یوکرین میں جنگ بندی کے لیے نیا فارمولا پیش کر دیا

    ولادیمیر پیوٹن نے یوکرین میں جنگ بندی کے لیے نیا فارمولا پیش کر دیا

    ماسکو: روس کے صدر ولادیمیر پیوٹن نے یوکرین میں جنگ بندی کے لیے نیا فارمولا پیش کر دیا۔

    غیر ملکی میڈیا رپورٹس کے مطابق روسی صدر ولادیمیر پیوٹن نے یوکرین کا تنازعہ حل کرنے کے لیے نیا فارمولا پیش کرتے ہوئے کہا ہے کہ یوکرین نیٹو میں شمولیت سے انکار کرے۔

    روسی صدر نے کہا یوکرین نیٹو میں شمولیت سے انکار کرے تو اس کے بعد ماسکو جنگ بندی کر دے گا اور بات چیت کا آغاز کر دیا جائے گا۔

    صدر پیوٹن نے کہا کہ جنگ بندی کے لیے یوکرین کو اپنی افواج روس سے الحاق کرنے والے یوکرینی علاقوں سے مکمل طور پر نکلنا ہوگا۔ تاہم یوکرین نے اس تجویز پر رد عمل ظاہر کرتے ہوئے اسے ہٹلر جیسا ’’الٹی میٹم‘‘ قرار دے دیا ہے۔

    وولودیمیر زیلنسکی ایک عرصے سے کہتے آ رہے ہیں کہ یوکرین اس وقت تک ماسکو کے ساتھ بات چیت نہیں کرے گا جب تک روسی افواج کریمیا سمیت یوکرین کے تمام علاقوں کو چھوڑ نہیں دیتیں۔

    بی بی سی کے مطابق ولادیمیر پیوٹن کی جانب سے جنگ بندی کی یہ شرائط ایسے وقت میں سامنے آئی ہیں جب 90 ممالک کے رہنما ہفتے کے روز سوئٹزرلینڈ میں یوکرین میں امن کی راہوں پر بات کرنے کے لیے ملاقات کرنے کی تیاری کر رہے ہیں، جس میں روس کو مدعو نہیں کیا گیا ہے۔

    جمعہ کو ماسکو میں روسی سفیروں کے ایک اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے پیوٹن نے یوکرین کی حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ روس کے زیر قبضہ چار علاقوں ڈونیٹسک، لوہانسک، خیرسن اور زاپوریژیا سے دست بردار ہو جائے۔ انھوں نے یہ بھی کہا کہ یوکرین کو روسی پیش قدمی کو روکنے کے لیے نیٹو کے فوجی اتحاد میں شامل ہونے کی اپنی کوششوں سے باضابطہ طور پر دست بردار ہونا پڑے گا۔

    صدر پیوٹن نے کہا ’’جیسے ہی کیف نے اعلان کیا کہ وہ اس طرح کے فیصلے کے لیے تیار ہے، ہماری طرف سے اسی لمحے فائر بندی اور مذاکرات شروع کرنے کا حکم فوراً عمل میں آئے گا۔‘‘

  • ایفل ٹاور پر پراسرار تابوت کس نے رکھے؟ فرانسیسی انٹیلیجنس کا روس پر شبہ

    ایفل ٹاور پر پراسرار تابوت کس نے رکھے؟ فرانسیسی انٹیلیجنس کا روس پر شبہ

    پیرس: ایفل ٹاور پر پراسرار تابوت کس نے رکھے تھے؟ اس سوال کے جواب کی تلاش میں فرانسیسی انٹیلیجنس حکام نے روس پر شبہ ظاہر کر دیا ہے۔

    بی بی سی کی ایک رپورٹ کے مطابق فرانسیسی انٹیلی جنس حکام نے خیال ظاہر کیا ہے کہ ایفل ٹاور پر فرانسیسی پرچم میں لپٹے 5 تابوت رکھوانے کے معاملے کے پیچھے روس کا ہاتھ ہے، ان تابوتوں پر لکھا تھا ’’یوکرین کے فرانسیسی فوجی۔‘‘

    تابوت رکھوانے والے کون تھے؟

    رپورٹس کے مطابق ہفتے کے دن 3 افراد کو ایک وین میں ایفل ٹاور آتے دیکھا گیا تھا، انھوں نے وہاں تابوت چھوڑے، جن سے بعد ازاں پلاسٹر کی بوریاں برآمد ہوئیں، پولیس نے تفتیش شروع کی اور جلد ہی وین کے ڈرائیور کو دھر لیا گیا، تاہم ڈرائیور نے بتایا کیا کہ اسے تابوتوں کو لے جانے کے لیے 2 دیگر افراد نے 40 یورو ادا کیے تھے، معلوم ہوا کہ ڈرائیور خود بلغاریہ سے ایک دن پہلے ہی پیرس پہنچا تھا۔

    پولیس کی تفتیش جاری تھی، جلد ہی اس نے باقی دونوں افراد کو بھی وسطی پیرس کے ایک کوچ اسٹیشن سے عین اس پر دھر لیا، جب وہ برلن جانے والی بس میں سوار ہونے کا منصوبہ بنا رہے تھے۔ فرانسیسی میڈیا کے مطابق انھوں نے پولیس کو یہ بتا کر پریشان کر دیا کہ انھیں بھی تابوتوں کو پہنچانے کے لیے 400 یورو ادا کیے گئے تھے۔

    پولیس نے بتایا کہ ڈرائیور بلغاروی تھا اور باقی دو دیگر یوکرین اور جرمن تھے۔ پراسیکیوٹر کے دفتر نے میڈیا کو بتایا کہ پکڑے گئے ملزمان کو اتوار کے روز جج کے سامنے پیش کیا گیا۔

    حکام کا کہنا ہے کہ اب وہ اس کیس میں اس رخ سے بھی تحقیقات کر رہے ہیں کہ کیا یہ منصوبہ بیرون ملک سے ترتیب دیا گیا تھا؟ جب کہ ماضی کے واقعات کو دیکھتے ہوئے فرانسیسی پولیس نے یقین ظاہر کیا ہے کہ اس کیس میں روسی ایجنٹ ملوث ہو سکتے ہیں۔

    اسرائیل کی مثال

    اکتوبر میں حماس اسرائیل جنگ شروع ہونے کے بعد پیرس کی کئی دیواروں پر اسرائیلی پرچم کے رنگوں والا ستارہ داؤدی چھاپا گیا تھا، فرانسیسی پولیس نے یورپ کے غریب ترین ملک مالڈووا کے ایک جوڑے کو گرفتار کیا تو معلوم ہوا کہ اس کام کے لیے انھیں روسی انٹیلیجنس کی جانب سے رقم ادا کی گئی تھی۔

    تابوت اور روس

    واضح رہے کہ فرانس کی جانب سے یوکرین میں لڑنے کے لیے فوجی بھیجے جا رہے ہیں، صدر امانوئل میکرون نے ماسکو کے غصے کو نظر انداز کرتے ہوئے فوجی بھیجنے کے سلسلے کو ختم کرنے سے انکار کیا۔ گزشتہ ہفتے یوکرینی حکام نے بھی تصدیق کی ہے کہ انھوں نے فرانسیسی فوجی انسٹرکٹرز کی روانگی پر بات چیت کی ہے۔

    اب تفتیش کاروں کا خیال ہے کہ اسی معاملے کے تناظر میں تابوتوں کے ذریعے فرانس کو دھمکانے کی کوشش کی گئی ہے۔

  • ولادیمیر پیوٹن نے پانچویں بار صدر مملکت کے عہدے کا حلف اٹھا لیا

    ولادیمیر پیوٹن نے پانچویں بار صدر مملکت کے عہدے کا حلف اٹھا لیا

    ماسکو: روسی صدر ولادیمیر پیوٹن نے 5 ویں بار ملک کے صدر کے عہدے کا حلف اٹھا لیا۔

    تفصیلات کے مطابق کریملین میں سرخ قالین سج گیا، منگل کو ولادیمیر پیوٹن نے پانچویں بار آئندہ 6 سال کی صدارتی مدت کے لیے حلف اٹھا لیا۔

    کریملن پیلس میں منعقدہ حلف برداری تقریب میں موجود وزرا اور دیگر افراد سے خطاب کرتے ہوئے روسی صدر نے کہا کہ ہم متحد اور عظیم لوگ ہیں، ہم سب مل کر تمام رکاوٹوں پر قابو پالیں گے۔ انھوں نے عزم کا اظہار کیا کہ ہم اپنے تمام منصوبوں کو مکمل کریں گے اور ہم مل کر جیتیں گے۔

    یاد رہے کہ ولادیمیر پیوٹن نے رواں برس مارچ میں ہونے والے ملک کے صدارتی انتخابات میں 87.28 فی صد ووٹ حاصل کیے تھے۔

    ولادیمیر پیوٹن

    پیوٹن 7 اکتوبر 1952 کو لینن گراڈ (اب سینٹ پیٹرزبرگ) میں پیدا ہوئے، انھوں نے 1975 میں لینن گراڈ اسٹیٹ یونیورسٹی سے گریجویشن کیا اور سوویت یونین کی اسٹیٹ سیکیورٹی کمیٹی (KGB) میں خدمات انجام دیں۔

    1990 میں سوویت یونین میں واپس آنے کے بعد پیوٹن نے سینٹ پیٹرزبرگ اور ماسکو میں مختلف ذمہ داریاں انجام دیں، جن میں سٹی گورنمنٹ اور صدارتی ایگزیکٹو آفس کے عہدے بھی شامل ہیں۔ وہ اگست 1999 میں وزیر اعظم بنے اور 31 دسمبر 1999 کو بورس یلسن کے مستعفی ہونے پر روس کے قائم مقام صدر بنے۔

    پیوتن نے 26 مارچ 2000 کو صدارتی انتخاب جیتا اور 14 مارچ 2004 کو دوسری مدت کے لیے دوبارہ منتخب ہوئے، اس کے بعد وہ 2008 سے 2012 تک روس کے وزیر اعظم رہے۔ مارچ 2012 میں پیوٹن نے صدارتی انتخاب جیتا، پھر 2018 میں دوبارہ روس کے صدر منتخب ہوئے، مارچ 2024 میں انھوں نے آزاد امیدوار کے طور پر صدارتی انتخابات میں حصہ لیا اور ایک بار پھر صدر منتخب ہو گئے ہیں۔

  • روس نے سلامتی کونسل میں خلا میں ہتھیار رکھنے سے متعلق قرارداد ویٹو کر دی

    روس نے سلامتی کونسل میں خلا میں ہتھیار رکھنے سے متعلق قرارداد ویٹو کر دی

    روس نے خلا میں ہتھیار رکھنے کے خلاف قرارداد اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں ویٹو کردی، قرارداد کو 13ممالک کی حمایت حاصل تھی جبکہ چین نے ووٹ میں حصہ نہیں لیا۔

    غیر ملکی میڈیا کے مطابق روس نے اس حوالے سے موقف اپناتے ہوئے کہا کہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل خلا میں ہتھیاروں پر بحث کا مناسب پلیٹ فارم نہیں۔

    روس اور چین کی جانب سے خلامیں کسی بھی نوعیت کے ہتھیار رکھنے پردائمی پابندی کا مطالبہ کیا گیا، امریکا اور جاپان کی جانب سے سلامتی کونسل میں قرارداد پیش کی گئی تھی۔

    اقوام متحدہ میں روس کے سفیرکا کہنا تھا کہ یہ امریکا اور جاپان کی گھناؤنی سازش ہے جس سے کونسل کو دھوکہ دیا جا رہا ہے۔ بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانیوالے ہتھیار خلا میں لے جانے پر 1967 سے پابندی ہے۔

    روس کے نائب وزیر دفاع رشوت لینے کے شبہ میں گرفتار

    روسی سفیر نے سوال اٹھایا کہ امریکا اور جاپان کی اس قرارداد کے پیچھے کیا مقاصد ہیں؟ انہیں 57 سال بعد 2024 میں پابندی کی توثیق کا خیال کیوں آیا؟

  • ویڈیو: زیر تعمیر عمارت کو دیکھتے ہی دیکھتے آگ کے دل دہلا دینے والے شعلے نگل گئے

    ویڈیو: زیر تعمیر عمارت کو دیکھتے ہی دیکھتے آگ کے دل دہلا دینے والے شعلے نگل گئے

    انٹرنیٹ پر ایک ویڈیو سامنے آئی ہے جو روس کی ایک زیر تعمیر عمارت میں بھڑکنے والی خوف ناک آگ کی ہے، آگ کے دل دہلا دینے والے شعلوں نے دیکھتے ہی دیکھتے پوری عمارت کو نگل لیا۔

    ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ زیر تعمیر بلند و بالا عمارت میں خوف ناک آگ بھڑک اٹھی ہے، اور چند ہی لمحوں میں شعلوں نے پوری عمارت کو لپیٹ میں لے لیا۔

    آتش زدگی کا یہ واقعہ روس کے علاقے ٹویر میں پیش آیا، روسی پریس کا کہنا ہے کہ آگ لگنے کی وجہ عمارت میں موجود ہیٹنگ سسٹم میں اسپارک ہے، جس کی وجہ سے آگ بھڑک اٹھی، بتایا گیا ہے کہ حادثے میں کوئی جانی نقصان نہیں ہوا۔

  • یوکرین جنگ : روس نے ایک بار پھر مذاکرات کا عندیہ دے دیا

    یوکرین جنگ : روس نے ایک بار پھر مذاکرات کا عندیہ دے دیا

    ماسکو : روسی صدر ولادیمیر پوٹن نے کہا ہے کہ روس یوکرین پر مذاکرات کے لیے تیار ہے لیکن اس کیلئے ایک شرط لازمی ہوگی۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے روئٹرز کی رپورٹ کے مطابق میڈیا سے گفتگو میں روسی صدر پیوٹن نے ایک بار پھر اس بات کا عندیہ دیا کہ یوکرین کے حوالے سے باتگ ہوسکتی ہے۔

    روسی صدر نے کہا کہ یوکرین پر بات کے لیے تیار ہیں لیکن صرف اس صورت میں جب بات ‘حقیقت’ پر مبنی ہو، کسی پر بھروسہ نہیں، صرف روس کو دستخط شدہ ضمانتوں کی ضرورت ہے۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے روئٹرز کی رپورٹ کے مطابق اپنی گفتگو میں پوتن نے مغربی ممالک کو خبردار کیا کہ اگر امریکہ نے یوکرین میں اپنی فوج بھیجی تو اسے مداخلت کے طور پر دیکھا جائے گا۔

    میڈیا سے گفتگو میں روسی صدر پیوٹن نے مغرب کو خبردار کرتے ہوئے کہا کہ تکنیکی طور پر روس ایٹمی جنگ کے لیے تیار ہے لیکن فی الحال ایٹمی جنگ کی کوئی جلدی نہیں ہے اور نہ ہی ایسی صورتحال ہے۔

    روسی میڈیا سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے صدر پیوتن نے یوکرین جنگ میں ایٹمی ہتھیار چلانے سے متعلق خدشات کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ میں نہیں سمجھتا کہ کوئی ایسی کوئی صورتحال نہیں ہے کہ جس سے ایٹمی جنگ کا خطرہ بڑھ رہا ہو لیکن اگر ریاست کے وجود کو خطرہ لاحق ہوا تو روسی افواج ایٹمی ہتھیاروں کے استعمال کے لیے ہر طرح سے تیار ہیں۔

    واضح رہے کہ پیوٹن کا جوہری انتباہ یوکرین پر مذاکرات کی ایک اور پیشکش کے ساتھ آیا ہے جبکہ امریکہ کا کہنا ہے کہ پیوٹن یوکرین پر سنجیدہ مذاکرات کے لیے تیار نہیں ہیں۔

    یوکرین میں جنگ نے 1962 کیوبا کے میزائل بحران کے بعد سے روس کے مغرب کے ساتھ تعلقات میں سب سے گہرے بحران کو جنم دیا ہے اور پوتن نے متعدد بار خبردار کیا ہے کہ اگر مغرب نے یوکرین میں لڑنے کے لیے فوج بھیجی تو وہ جوہری جنگ کو بھڑکا سکتا ہے۔

  • یوکرین جنگ: جرمن فضائیہ سربراہ کی ماتحت افسران سے فون پر گفتگو روس نے ریکارڈ کر کے نشر کر دی

    یوکرین جنگ: جرمن فضائیہ سربراہ کی ماتحت افسران سے فون پر گفتگو روس نے ریکارڈ کر کے نشر کر دی

    یوکرین جنگ کے حوالے سے جرمن فضائیہ سربراہ کی اپنے تین ماتحت افسران سے فون پر کی گئی گفتگو روس نے ریکارڈ کر کے نشر کر دی، امریکا نے اس پر شدید رد عمل ظاہر کرتے ہوئے اسے روس کی مغرب کو تقسیم کرنے کی کوشش قرار دے دیا۔

    غیر ملکی میڈیا رپورٹس میں کہا گیا ہے کہ روس کے سرکاری نشریاتی ادارے آر ٹی کی سربراہ مارگریٹا سائمونیان نے جمعہ کے روز جرمن افسران کے درمیان ہونے والی بات چیت کی 38 منٹ کی آڈیو ریکارڈنگ جاری کی تھی، جس میں یوکرین کو ٹورس کروز میزائل بھیجنے کے امکانات پر تبادلہ خیال کیا گیا تھا، ہفتے کو جرمن وزارت دفاع نے آڈیو کو حقیقی قرار دیا اور کہا کہ یہ بات چیت انٹرسیپٹ کر کے ریکارڈ کی گئی ہے۔

    وائٹ ہاؤس کے قومی سلامتی کے ترجمان جان کربی نے کہا ’’یوکرین اور اس کے اتحادیوں کے درمیان روس عدم اعتماد کے بیج بونے کی کوشش کر رہا ہے، اور یہ ظاہر کر رہا ہے کہ مغرب متحد نہیں ہے۔‘‘

    جرمن حکومت نے پیر کو بیان دیتے ہوئے کہا کہ یہ ایک ہائبرڈ حملہ ہے، جس کا مقصد عدم تحفظ پیدا کرنا اور ہمیں تقسیم کرنا ہے۔ جرمنی نے اپنے فوجی افسران کے درمیان جنگ سے متعلق ہونے والی متنازعہ فون کال کی تحقیقات بھی شروع کر دی ہیں۔

    واضح رہے کہ جرمن چانسلر اولاف شولس عوامی سطح پر یوکرین کو مذکورہ میزائلوں کی ترسیل کے امکانات کو مسترد کر چکے ہیں۔ چوں کہ آڈیو کلپ میں یوکرین کو بھیجے گئے برطانوی اسٹارم شیڈو کروز میزائلوں اور یوکرین میں برطانوی فوجیوں کی موجودگی کا بھی ذکر تھا، اس لیے برطانوی وزیر اعظم رشی سونک کے ترجمان نے صحافیوں کو بتایا کہ آڈیو لیک کی تحقیقات جرمنی کا معاملہ ہے تاہم برطانیہ یوکرین کی حمایت کے لیے جرمنی کے ساتھ مل کر کام کرتا رہے گا۔

    اس واقعے کے بعد جرمنی میں ہلچل مچ چکی ہے، جرمن وزیر دفاع نے کہا روس انفارمیشن وار چھیڑنا چاہتا ہے، جرمن چانسلر نے اسے سنگین معاملہ قرار دیا، جرمن وزیر داخلہ نینسی فیزر کا کہنا تھا کہ ملک کو روسی جاسوسی سے اپنے دفاع کے لیے مزید کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔

  • روس نے یوکرین مذاکرات کے لیے مغرب کے سامنے کیا شرط رکھی؟

    روس نے یوکرین مذاکرات کے لیے مغرب کے سامنے کیا شرط رکھی؟

    ماسکو: روس نے یوکرین پر مذاکرات کے لیے مغرب کے سامنے ہتھیاروں کی فراہمی روکنے کی شرط رکھ دی۔

    روسی میڈیا کے مطابق روسی وزارت خارجہ کی ترجمان ماریا زخارووا نے سوئس فیڈرل کونسلر برائے امور خارجہ اگنازیو کیسس کے بیان پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ اگر مغرب یوکرین پر مذاکرات چاہتا ہے تو اسے کیف کو ہتھیاروں کی سپلائی بند کرنی چاہیے، اور روس کو امن مذاکرات میں شامل کیا جانا چاہیے۔

    رپورٹس کے مطابق ڈیووس میں ایک نیوز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیسس نے کہا تھا کہ یوکرین پر دوسرے ممالک کی ثالثی میں امن مذاکرات میں روس کو شامل کرنے کی کوششیں کی جا رہی ہیں، ان کا کہنا تھا کہ روس کی شرکت کے بغیر امن کانفرنس منعقد نہیں ہو سکتی۔

    ماریہ زخارووا نے کہا کہ واشنگٹن نے مغربی ممالک کو ایک بند گلی میں پہنچا دیا ہے، اب اگر وہ اس سے نکلنے کا راستہ تلاش کر رہے ہیں تو یہ اچھی بات ہے، تاہم اس صورت میں انھیں یوکرین کو ہتھیاروں کی سپلائی بند کرنی چاہیے۔

    روسی وزارت خارجہ کی ترجمان نے کہا مغرب کو روس مخالف پابندیاں ختم کرنی ہوگی، اور اسے ’روسو فوبک‘ بیانات دینا بھی بند کرنا چاہیے۔ انھوں نے واضح کیا کہ مغرب اگر اپنی بیان بازی سے روس کو اپنے اصولی نقطہ نظر سے ہٹانا چاہتا ہے تو روس اس جال میں نہیں پھنسے گا۔