Tag: SC

  • ایم ڈی پی ٹی وی تقرری کیس کا فیصلہ محفوظ

    ایم ڈی پی ٹی وی تقرری کیس کا فیصلہ محفوظ

    اسلام آباد : سپریم کورٹ نے ایم ڈی پی ٹی وی تقرری کیس کا فیصلہ محفوظ کرلیا، چیف جسٹس نے کہا کہ عطاالحق قاسمی کو دی گئی دو سالہ مراعات کا آڈٹ کیا جائے، آڈٹ حضرات پیرتک بتائیں آڈٹ رپورٹ کب تک مکمل ہوگی۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں چیف جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں 3رکنی بینچ نے ایم ڈی پی ٹی وی تقرری کیس کی سماعت ہوئی، چیف جسٹس نے وزیراعظم کے پرنسپل سیکریٹری فوادحسن فواد سے استفار کیا کہ ایم ڈی پی ٹی وی کا تقرر کس قانون کے تحت ہوا، کیا سرکاری کام زبانی حکم پر ہوتے ہیں، بیورو کریٹس کو کچھ کہیں تو ہڑتال کرتےہیں، حالت یہ ہے اتنے بڑے بیورو کریٹ کو قانون کا پتہ نہیں۔

    فواد حسن فواد نے کہا مجھ سے پہلے دو دہائیوں سے اسی طرز پر کام ہورہا ہے۔

    چیف جسٹس نے فواد حسن فواد کی سرزنش کرتے ہوئے کہا کھڑے ہو جاؤ، کیانام ہے تمہارا ، جس کے جواب میں فواد حسن نے کہا کہ میرانام فوادحسن فواد ہے، چیف جسٹس نے کہا کہ قانون کی کتاب دی جائے فواد حسن صاحب کو، اس میں سےپڑھ کرسنائیں زبانی احکامات پر کام کیسےہوتے ہیں۔

    جسٹس ثاقب نثار نے ریمارکس مین کہا کہ تکلیف ہوتی ہےکہ ہم بیوروکریٹس کی بےعزتی کرتے ہیں، آپ مجھےرولزبتائیں، بڑےبیورو کریٹ کا حال ہے، جس کو رولز نہیں پتا، وزیراعظم نے وزارت اطلاعات کی سمری کو دیکھا نہ ہی کوئی نوٹنگ لکھی، عطاالحق قاسمی کی تعیناتی میں وزیراعظم کی تحریری منظوری نہیں لی گئی۔

    ایڈیشنل اےجی نے بتایا کہ عطاالحق قاسمی کی منظوری وزارت اطلاعات کی سمری پرہوئی، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ رولز دکھا دیں چیئرمین کو ملنے والے 5ہزار کو 15 لاکھ کیسےکردیاگیا، امریکی صدر کو بھی یہ اختیار نہیں وزیراعظم کو کیسے یہ اختیار دیدیں۔


    مزید پڑھیں : ایم ڈی پی ٹی وی کی تنخواہ اورمراعات کا مکمل آڈٹ کرانے کا حکم


    فواد حسن فواد نے بتایا ایم ڈی پی ٹی وی کو ادائیگی وزیراعظم کے زبانی حکم پر دی گئی، جس پر چیف جسٹس نے کہا قانون دکھا دیں ورنہ نواز شریف کو نوٹس جاری کر دیتے ہیں، نوازشریف وزیراعظم تھے آکر نتائج بھگتیں، ان کا سیکریٹری کھڑے ہو کر کہہ دیتا ہےزبانی حکم پررقم دی گئی۔

    چیف جسٹس پاکستان نے سوال کیا کہ تقرر کس قانون کے تحت ہوا، جس پر فواد حسن فواد نے جواب دیا کہ تقرر بورڈ آف ڈائریکٹرز نے کیا، واضح طور پر دو بیانات دے رہا ہوں آپ نوٹ کر لیں، تقرر کی سمری بورڈ نے بھیجی،اسٹیبلشمنٹ اور فنانس اسکی توثیق کی، اس کے بعد وزیراعظم نے منظوری دی، عطا الحق قاسمی کے تقرر کی ہدایت میں نے کی نہ ہی وزیراعظم نے۔

    چیف جسٹس نے پرویز رشید سے استفسار کیا آپ نے وکیل کرلیا ہے؟پرویزرشیدنےکہا جی نہیں ایڈیشنل اٹارنی جنرل ہی جواب دیں گے، جس پر چیف جسٹس نے کہا سوچ لیں آپ پر بھی آرٹیکل باسٹھ کا معاملہ ہوسکتا ہے۔

    چیف جسٹس نے ریمارکس میں کہا کہ تقرری غلط ہوئی توتناسب سےتقرری کرنیوالےپیسےواپس کریں، جس پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ سمری سیکریٹری نے سائن کی تھی، جسٹس ثاقب نثار نے کہا کہ معاملہ نیب کونہیں بھیجناتوہم خودمعاملےکودیکھ لیتےہیں۔

    ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے بتایا کہ چیئرمین پی ٹی وی کیلئےعمرکی حد65سال تھی، جس پر چیف جسٹس نے سوال کیا کہ پی ٹی وی کا سربراہ ایم ڈی ہوتا ہے یا چیئرمین ، جس کے جواب میں ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے بتایا کہ پی ٹی وی کا سربراہ ایم ڈی ہوتا ہے۔

    سپریم کورٹ نے تقرری کا فیصلہ محفوظ کرتے ہوئے کہا ہم بندر بانٹ نہیں ہونے دیں گے، عطا الحق قاسمی کو دی گئی دو سالہ مراعات کا آڈٹ کیا جائے، آڈٹ حضرات پیرتک بتائیں آڈٹ رپورٹ کب تک مکمل ہوگی۔

    چیف جسٹس نے کہا کہ ستائیس کروڑ کس مد میں دیئے گئے آڈٹ کیا جائے، عطاالحق قاسمی کے بیٹے کو8 لاکھ50ہزار اسکرپٹ رائٹنگ دیا جاتا رہا، عطا الحق قاسمی کے بیٹے ایف بی آرمیں بھی ملازم رہےہیں۔

    جس پر وکیل نے کہا کہ ایک پروگرام کااسکرپٹ یاسرپیرزادہ اور عطا الحق قاسمی نے لکھا، جسٹس ثاقب نثار نے سوال کیا کہ آڈٹ کروانے کے لیے کیا ضابطہ کار ہوں گے؟ اخراجات کا آڈٹ کراکے دیکھیں گے یہ قابل وضاحت ہے یا نہیں۔

    چسٹس ثاقب نثار نے عطا الحق قاسمی اور بیٹے کو مراعات کے آڈٹ کیلئے ٹرم آف ریفرنس طلب کرلیا اور کیس کی سماعت پیر تک ملتوی کردی۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • سپریم کورٹ کا عمران خان کے بنی گالہ میں مکان کی تعمیر کیلئے فراہم کیے گئے نقشے کی تصدیق کا حکم

    سپریم کورٹ کا عمران خان کے بنی گالہ میں مکان کی تعمیر کیلئے فراہم کیے گئے نقشے کی تصدیق کا حکم

    اسلام آباد : سپریم کورٹ نے عمران خان کے بنی گالہ میں مکان کی تعمیر کے لیے فراہم کیے گئے نقشے کی تصدیق کا حکم دے دیا ہے جبکہ وفاقی ترقیاتی ادارے سی ڈی اے کو ایک ہفتے میں نقشے کی تصدیق سے متعلق ریکارڈ فراہم کرنے کی ہدایت کر دی ہے۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں چیف جسٹس کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے بنی گالہ میں تجاوزات سے متعلق کیس کی سماعت کی ، دوران سماعت بابر اعوان نے عمران خان کے گھر کے نقشے کی دستاویزات عدالت میں پیش کی۔

    بابر اعوان نے اپنے دلائل میں کہنا تھا کہ اپنے کہ یونین کونسل بارہ کہو کا این او سی 1990 کا ہے، عمران خان نے زمین خریداری کی فیس 2002 میں ادا کی اور 250 کنال اراضی پر گھر کی تعمیر کے لیے نقشہ یونین کونسل میں جمع کرایا، 2003 میں سرٹیفکیٹ بھی ملا۔

    جس پر چیف جسٹس نے پوچھا کہ کیا نقشہ منظور کیا گیا؟ قانون کے مطابق طریقہ کار یہ ہے کہ نقشہ جمع کر کے منظوری لی جاتی ہے، پھر تعمیراتی کام مکمل ہونے کے بعد جائزہ لیا جاتا ہے کہ کیا تعمیر نقشے کے مطابق ہوئی۔

    ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ ہم ریکارڈ دیکھ کر بتائیں گے، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ہم بابر اعوان کی جانب سے فراہم کردہ عمران خان کے گھر کے نقشے کی دستاویزات کی پہلے تصدیق کرائیں گے۔

    وکیل بابر اعوان نے کہا کہ نقشے کی منظوری کا قانون ہی موجود نہیں تھا، ہو سکتا ہے مخالف حکومت عمران خان کے گھر کے نقشے کی تصدیق نہ کرے۔

    چیف جسٹس نے مسکراتے ہوئے کہا کہ ہم تفتیش کرا لیں گے یا جے آئی ٹی بنا دیں گے، جس پر بابر اعوان نے کہا کہ جو جے آئی ٹی پہلے بنی ہوئی ہے وہی کافی ہے۔

    عدالت نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل کو ایک ہفتے میں دستاویزات کی تصدیق کا حکم دیتے ہوئے سماعت غیر معینہ مدت کیلئے ملتوی کردی۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں، مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کےلیے سوشل میڈیا پرشیئر کریں۔

  • عاصمہ رانی قتل کیس، پی ٹی آئی رہنما فواد چوہدری آئندہ سماعت پر طلب

    عاصمہ رانی قتل کیس، پی ٹی آئی رہنما فواد چوہدری آئندہ سماعت پر طلب

    اسلام آباد : سپریم کورٹ نے کوہاٹ میں میڈیکل کالج کی طالبہ عاصمہ رانی کے قتل کی ازخود نوٹس کیس کی سماعت میں پی ٹی آئی کے رہنما فواد چوہدری کو آئندہ سماعت پر طلب کرلیا۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں کوہاٹ کی عاصمہ رانی قتل ازخودنوٹس کیس کی سماعت چیف جسٹس کی سربراہی میں 3رکنی بینچ نے کی، سماعت کے دوران سپریم کورٹ نے فواد چوہدری کو طلب کر لیا۔

    فواد چوہدری کوکوہاٹ کی عاصمہ رانی قتل کیس میں طلب کیا گیا۔

    چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ دوسروں پر تنقید کی جاتی ہے اپنی پولیس بہت اچھی ہے، انھیں طلب کرتےہیں معلوم ہوکہ کےپی پولیس کتنی مثالی ہے، فواد چوہدری کہتےہیں ہماری پولیس بہت مثالی ہے۔

    یاد رہے کہ گزشتہ ماہ 29 جنوری کو مجاہد آفریدی نے رشتے سے انکار پرمیڈیکل کی طالبہ عاصمہ رانی کو فائرنگ کرکے قتل کردیا تھا جس کے بعد ملزم سعودی عرب فرار ہوگیا تھا۔

    کے پی کے پولیس ملزم مجاہد اللہ آفریدی کی گرفتاری کیلئے سعودی حکومت اورانٹر پول سے رابطے میں ہیں جبکہ مرکزی ملزم مجاہدآفریدی کے دوست شاہ زیب کو گرفتارکرلیا گیا، ملزم شاہ زیب مقتولہ کی ریکی کرتا تھا اور قتل کے بعد مجاہد آفریدی کو فرار کرانے میں بھی شاہ زیب نے مدد فراہم کی۔


    شادی سے انکار پر میڈیکل کی طالبہ کو گولیاں مار کر قتل کردیا گیا


    بعدازاں 30 جنوری کو چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے کوہاٹ میں میڈیکل کی طالبہ عاصمہ رانی کے قتل کا ازخود نوٹس لیتے ہوئے آئی جی خیبرپختونخواہ صلاح الدین محسود سے 7 دن میں رپورٹ طلب کی تھی۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں، مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہچانے کےلیے سوشل میڈیا پرشیئر کریں۔

  • شاہ زیب قتل کیس، سندھ ہائیکورٹ کا فیصلہ کالعدم قرار، ملزمان کو گرفتارکرنے کاحکم

    شاہ زیب قتل کیس، سندھ ہائیکورٹ کا فیصلہ کالعدم قرار، ملزمان کو گرفتارکرنے کاحکم

    اسلام آباد : شاہ زیب قتل کیس میں سپریم کورٹ نے سندھ ہائیکورٹ کا فیصلہ کالعدم قراردیتے ہوئے ملزمان کو گرفتار کرنے کا حکم دیا اور تینوں ملزمان شاہ رخ جتوئی،سراج تالپور اور سجاد تالپور کا نام ای سی ایل میں شامل کرنے کا حکم بھی دیا۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ نے شاہ زیب قتل کیس ازخودنوٹس کیس کی سماعت چیف جسٹس ثاقب نثارکی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے کی ، چیف جسٹس نے سندھ ہائیکورٹ کا فیصلہ کالعدم قراردیتے ہوئے ملزمان کو گرفتارکرنے کا حکم دیا اور تینوں ملزمان کا نام ای سی ایل میں شامل کرنے کا بھی حکم دیا۔

    سپریم کورٹ نے چیف جسٹس سندھ ہائیکورٹ کو نیا بینچ تشکیل دینے کا حکم دیا، حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ سپریم کورٹ نے مقدمےمیں دہشت گردی کی دفعات شامل کرنے کا حکم دیا تھا۔

    سپریم کورٹ کے حکم پر شاہ رخ جتوئی گرفتار

    سپریم کورٹ کے حکم پر پولیس نے شاہ رخ جتوئی سمیت دیگر ملزمان کو کمرہ عدالت سے گرفتار کرلیا ہے‌، گرفتار ملزمان کو اسلام آباد کے تھانہ سیکرٹیریٹ منتقل کردیا گیا ہے۔

    یاد رہے کہ شاہ زیب قتل کیس میں سول سوسائٹی نے سندھ ہائیکورٹ کے شاہ رخ جتوئی کی رہائی کے فیصلے کیخلاف سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی تھی، سول سوسائٹی کا موقف تھا کہ سندھ ہائیکورٹ نے مقدمے سےاے ٹی اے کی دفعات نکالیں، انسداد دہشت گردی کی دفعات نکالنے سے ملزمان کو فائدہ ہوا۔


    مزید پڑھیں : شاہ زیب قتل کیس، سپریم کورٹ کا اپیلوں پر سماعت کیلئے بینچ تشکیل


    جبران ناصر اور دیگر سول سوسائٹی نے عدالت سے استدعا کی کہ سندھ ہائیکورٹ کےفیصلے کو کالعدم قراردیا جائے۔

    سپریم کورٹ کے چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے شاہ زیب قتل کیس کی فائل منگوا کر مقدمہ سپریم کورٹ اسلام آباد منتقل کرنے کاحکم دے دیا، رجسٹرار کو کیس جلد سماعت کے لیے مقرر کرنے کی ہدایت کی تھی۔

    جس کے بعد شاہ زیب قتل کیس کی اپیلوں پرسپریم کورٹ نے سماعت کے لیے چیف جسٹس کی سربراہی میں تین رکنی لارجربینچ تشکیل دیا تھا۔


    مزید پڑھیں :  شاہ زیب قتل کیس: شاہ رخ جتوئی سمیت دیگرملزمان کی ضمانتیں منظور


    واضح رہے کہ سندھ ہائیکورٹ نے اپنے فیصلے سے دہشت گردی کی دفعات ختم کرکے ماتحت عدالت کا فیصلہ کالعدم قرار دیا تھا، سندھ ہائیکورٹ نے سزا کو کالعدم قرار دیتے ہوئے مقدمہ ازسر نو سماعت کے لیے سیشن جج جنوبی کی عدالت کو منتقل کیا تھا۔

    سیشن جج جنوبی نے مقدمے کے نامزد ملزمان شاہ رخ جتوئی ، سراج تالپور ، سجاد تالپور اور غلام مرتضی لاشاری کی ضمانت پانچ پانچ لاکھ کے عوض منظور کی تھی۔ جس پر تمام ملزمان کو رہا کر دیا گیا تھا۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئرکریں۔

  • نقیب اللہ قتل کیس، راؤانوار کا پیغام میڈیاپرچلانے پر پابندی، گرفتاری کے لیے مزید 10 دن کی مہلت

    نقیب اللہ قتل کیس، راؤانوار کا پیغام میڈیاپرچلانے پر پابندی، گرفتاری کے لیے مزید 10 دن کی مہلت

    اسلام آباد: نقیب اللہ قتل کیس میں چیف جسٹس نے راؤانوار کا پیغام میڈیا پر چلانے پر پابندی لگاتے ہوئے گرفتاری کے لیے مزید 10 دن کی مہلت دیدی۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں سپریم کورٹ کا 3 رکنی بینچ نقیب اللہ محسود قتل ازخود نوٹس کیس کی سماعت کر رہا ہے، سماعت شروع ہوئی تو چیف جسٹس نے سوال کیا کہ آئی جی صاحب ،ذرا تفصیل سے واقعہ بیان کریں، کیا کوئی نجی طیارہ راؤ انوار کے فرار کیلئے استعمال ہوا ؟

    ڈی جی سول ایوی ایشن نے بتایا کہ نجی طیاروں کے مالکان نےبیان حلفی جمع کرادیئےہیں، بیان حلفی میں ہے راؤانوارنےانکے طیارے استعمال نہیں کئے، دنوں میں 4نجی طیاروں نے پروازیں کیں، پائلٹس کی ڈگریوں سے متعلق کمیٹی تشکیل دیدی، فروری تک پہلی رپورٹ آئے گی اور ایک ماہ میں مکمل اسکروٹنی رپورٹ دیں گے۔

    ڈپٹی اٹارنی جنرل نے اپنے دلائل میں کہا کہ ایف آئی اے کےمطابق راؤانوارملک سےباہرنہیں گئے، جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ اس قتل کا الزام ریاست پرہے، الزام ہے ریاست نے قانون سے انحراف کرتے ہوئے قتل کیا۔

    چیف جسٹس نے مزید کہا کہ جس پر حفاظت کی ذمہ داری تھی انھی پر قتل کا الزام ہے، مجھے راؤ انوار کاسروس پروفائل مہیا کریں۔

    آئی جی سندھ اے ڈی خواجہ پیش ہوئے اوربتایا راؤانوارکوگرفتارنہیں کرسکے اے ڈی خواجہ نے بتایا راؤ انوارواٹس ایپ استعمال کر رہا ہے، اس لیے لوکیشن معلوم نہیں ہوسکی، لوکیشن پتہ چل جائے توچوبیس گھنٹےمیں گرفتار کرسکتے ہیں۔

    سپریم کورٹ میں سماعت کے دوران آئی جی سندھ نے بتایا کہ ابتدائی معلومات میں13جنوری کو 4دہشتگردوں کی ہلاکت کی اطلاع ملی، محمد اسحاق، نذر جان کی شناخت موقع پر کرلی گئی جبکہ 17 جنوری کو نسیم اللہ عرف نقیب اللہ کی شناخت ہوئی ، فوری سی سی پی او کو مرنے والوں کی شناخت کا کہا، کمیٹی بنائی جس نے20 جنوری کو عبوری رپورٹ دی۔

    اے ڈی خواجہ نے مزید بتایا کہ کمیٹی نے انکاؤنٹر کو اسٹیج انکاؤنٹر کہا، نتیجے میں20جنوری کو راؤ انوار اور ٹیم کو معطل کردیا گیا۔

    چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے کہا کہ فوری مقدمہ کیوں درج نہیں کیاگیا، راؤانوار کی حاضری یقینی بنانے کے اقدامات کیوں نہیں کئے، عدالتی حکم کے مطابق ایک دوسرا مقدمہ درج کیا جاسکتاہے، جب بھی مقدمہ پولیس کی جانب سےدرج ہو تو سوال اٹھتے ہیں۔

    جسٹس ثاقب نثار نے سوال کیا کہ راؤ انوار کی گرفتاری کیلئے کیا اقدامات کئے گئے، کیا صرف وزارت داخلہ کو نام دیناکافی تھا، بطور سربراہ آپ کو مقدمہ درج کرانا چاہیے تھا۔

    چیف جسٹس نے مزید کہا کہ کمال کی سپروژن تھی آئی جی صاحب، راؤانوار اسلام آباد ایئر پورٹ سے پکڑا گیا تھا، جس پر آئی جی سندھ نے بتایا کہ 20 جنوری کو راؤ انوار کراچی سے اسلام آباد آیا تھا، جسٹس ثاقب نے ریمارکس دیئے کہ خیال تھا آپ کہیں گے راؤ انوار فلموں کی طرح بس یا ٹرک پر آیا۔

    جسٹس عمرعطا بندیال نے پوچھا کہ آپ کو کس قسم کی مدد چاہئے، جس کے جواب میں اے ڈی خواجہ کا کہنا تھا کہ راؤ انوار میڈیا سمیت بہت سے دیگر افراد سے رابطے میں ہیں، عدالت تمام ایجنسیوں کو حکم دے، راؤ انوارکا فون 19جنوری سے بند ہے، راؤ انوار کے پاس دبئی کا اقامہ ہے۔

    چیف جسٹس نے سوال کیا کہ کیا پولیس افسران کے پاس اقامہ ہوسکتاہے، کیا آپ نے سوچا بھی نہیں تھا راؤانوار باہر جاسکتا ہے، جس پر آئی جی سندھ نے کہا کہ لکی مروت اور اسلام آباد میں ٹیمیں بھیجی ہیں ، راؤانوارکی آخری پوزیشن ڈھوک پراچہ اسلام آباد ترنول ہے۔

    جسٹس ثاقب نثار نے ریمارکس میں کہا کہ نقیب سےزندگی کو کسی عام آدمی نےنہیں چھینا، ریاست نے ہی نقیب اللہ سے جینے کا حق چھینا ہے، اب یہ پوری ریاست کی ذمہ داری بن چکی ہے، ممکن ہے راؤانوارکو واپس لانے میں سال لگ جائے، بھول جائیں آپ پر کوئی سیاسی دباؤہے۔

    چیف جسٹس نے مزید کہا کہ ہم پولیس اورانتظامیہ کے تحفظ کے لیے تیار ہیں، معاملات میں عدالت حکم دے تو اختیارات سے تجاوز کہا جاتا ہے۔

    نقیب اللہ محسود کا چچا زاد بھائی سپریم کورٹ میں پیش ہوا اور کہا کہ ملزم کی عدم گرفتاری پر تحفظات ہیں۔

    سپریم کورٹ نے کہا کہ حقیقت اپنی جگہ ہے کہ راؤانوار گرفتار نہیں ہوا، عدالت نے فو ج اور سویلین خفیہ اداروں کوپولیس کی مدد کرنے کا حکم دیتے ہوئے کہا کہ مزید دس دن کی مہلت دیتے ہیں اور میڈیا کو کوہدایت کی کہ راؤ انوار کا آڈیو یاویڈیو پیغام نشر شائع نہ کریں۔

    چیف جسٹس نے کہا کہ راؤ انوارخود کو قانون کےحوالے کردیں ورنہ توہین عدالت کی کارروائی بھی عمل میں لائی جاسکتی ہے، ملزم کی پشت پناہی کرنے والے بھی شاید قانون کی گرفت سے نہ بچ سکیں۔

    نقیب اللہ قتل کیس میں انکوئری رپورٹ سپریم کورٹ میں جمع


    اس سے قبل نقیب اللہ قتل کیس میں انکوئری رپورٹ سپریم کورٹ میں جمع کرادی گئی، آئی جی سندھ اے ڈی خواجہ نے رپورٹ عدالت میں جمع کر سندھ پولیس کی رپورٹ میں 2نکات کو سامنے رکھا گیا ہے۔

    سندھ پولیس کی رپورٹ کہا گیاکہ یہ پولیس مقابلہ جعلی تھا،نقیب اللہ کوپولیس نے دو دوستوں کے ہمراہ تین جنوری کو اٹھایا اور شدید تشدد کا نشانہ بنایا۔

    رپورٹ میں بتایا گیا کہ گرفتار قاسم اور علی کو چھ جنوری کو چھوڑ دیا گیا، کمیٹی کےسامنے نقیب کا پیش کیا گیا ریکارڈ بھی جعلی نکلا اور راؤ انوارکمیٹی کے سامنے پیش ہونے کے بجائے فرار ہوگئے۔

    سندھ پولیس کا مزید کہنا ہے کہ پولیس افسران نقیب کوایک جگہ سےدوسری جگہ منتقل کرتےرہے، نقیب اللہ کسی دہشت گردی کی کارروائی میں ملوث نہیں تھا، نقیب اللہ آزاد خیال طبیعت کاحامل تھا۔

    نقیب اللہ محسود کے والد کا خط عدالت میں پیش


    نقیب اللہ محسود کے والد کا خط عدالت میں پیش کیا گیا ، جس میں نقیب کےوالد کا کہنا تھا کہ راؤانوارمیڈیامیں بولتاہےالحمداللہ پاکستان میں ہوں، پولیس سے پوچھا جائے تفتیش کے دوران وہ کیسے غائب ہوا، پورافاٹاآپ کےانصاف کا منتظرہے۔

    چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے ریمارکس دیے کہ فاٹا والوں کا غم خوشی مشترک ہے، فاٹا والے فکرنہ کریں دل آپ کے لیے دھڑکتےہیں، سی دن فاٹا میں عدالت لگا سکتاہوں، دکھی باپ کاپیغام ہے سن کوافسوس ہورہاہے۔

    بعد ازاں نقیب محسوداز خود نوٹس کی سماعت 13فروری تک ملتوی کردی گئی۔


    مزید پڑھیں : نقیب اللہ قتل کیس: سپریم کورٹ کا راؤانوارکو3 دن میں گرفتارکرنےکا حکم


    گذشتہ سماعت کے دوران سپریم کورٹ نے پولیس کو راؤ انوار کو گرفتار کرنے کے لیے 72 گھنٹوں کی مہلت دی تھی جبکہ تاحال راؤ انوار کو گرفتار نہیں کیا جاسکا۔

    واضح رہے 13 جنوری کو ایس ایس پی ملیر راؤ انوار کی سربراہی میں خطرناک ملزمان کی گرفتاری کے لیے شاہ لطیف ٹاؤن میں چھاپے کے لیے جانے والی پولیس پارٹی پر دہشت گردوں نے فائرنگ کردی تھی جس پر پولیس نے جوابی فائرنگ کرتے ہوئے 4 دہشت گردوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا تھا، ہلاک ہونے والوں میں نوجوان نقیب اللہ بھی شامل تھا۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • آرٹیکل62ون ایف کی تشریح سےمتعلق کیس ، نواز شریف کے وکیل کو ایک ہفتے کی مہلت دیدی

    آرٹیکل62ون ایف کی تشریح سےمتعلق کیس ، نواز شریف کے وکیل کو ایک ہفتے کی مہلت دیدی

    اسلام آباد : آرٹیکل62ون ایف کی تشریح سےمتعلق کیس کی سماعت میں نواز شریف کے وکیل کو ایک ہفتے کی مہلت دیدی گئی، چیف جسٹس ثاقب نثار نے کہا کہ آئندہ ہفتے تیاری کرکے آجائیں۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں چیف جسٹس ثاقب نثارکی سربراہی میں پانچ رکنی لارجر بینچ نے آرٹیکل62ون ایف کی تشریح سےمتعلق کیس کی سماعت کی ، سماعت شروع ہوئی تو چیف جسٹس نے کہا کہ سابق وزیراعظم نواز شریف کی جانب سے کون آیا ہے۔

    نواز شریف کی جانب وکیل اعظم نذیر تارڑ عدالت میں پیش ہو گئے اور کہا کہ مجھے کل ہی بتایا گیا ہے، 3دن کا وقت دیں، جس پر عدالت نے نواز شریف کے وکیل کو آئندہ ہفتے تک کی مہلت دیدی۔

    چیف جسٹس ثاقب نثار نے کہا کہ آئندہ ہفتے تیاری کرکے آجائیں۔

    عدالتی معاون منیر اے ملک کے دلائل


    سماعت میں عدالتی معاون منیر اے ملک نے دلائل کا آغاز کیا تو نوازشریف کے وکیل اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ عدالت کے پبلک نوٹس میں ابہام ہے، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ پبلک نوٹس میں غلطی ہو گئی ہوگی، یہ پبلک نوٹس صرف متاثرین کے لئے ہے۔

    عدالتی معاون منیراےملک نے کہا کہ الیکشن لڑناسب کابنیادی حق ہے، آرٹیکل62میں الیکشن لڑنےمیں رکاوٹ کی پرویژن نہیں ، آرٹیکل 62اور 63 کو ملا کر پڑھنے کی ضرورت ہے، 18 ویں ترمیم سے پہلےآرٹیکل63میں ماضی کے کنڈکٹ پرنااہلی تاحیات تھی، 18 ویں ترمیم میں پارلیمنٹ کی بصیرت یہ تھی تاحیات نااہلی کو ٹائم باؤنڈ کردیا۔

    وکیل نے اپنے دلائل میں کہا کہ اللہ ڈنوکو2013میں2008کےکاغذات مسترد ہونے پر ڈی نوٹیفائی کیا گیا، چیف جسٹس ثاقب نثار نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ عدالت یہاں آرٹیکل 62 کا کیس سن رہی ہے، آپ کی درخواست فیصلے کی نظر ثانی کے لئے ہے، ہم نے دیکھنا ہےکہ نااہلی تاحیات ہےیا نہیں۔

    جسٹس ثاقب نثار کا کہنا تھا کہ آپ کی نظر ثانی 3ممبربنچ کی ہے وہ ہی سنے گا، چاہتے ہیں تو آرٹیکل 62 ون ایف پر دلائل دیں، چلیں ہم آپ کے موکل کی نظر ثانی سن لیتے ہیں۔

    اللہ ڈینوبھائیو کے وکیل وسیم سجاد کے دلائل


    عدالتی معاون منیر اے ملک کے دلائل مکمل ہونے پر اللہ ڈینوبھائیو کے وکیل وسیم سجاد نے دلائل شروع کئے ، وسیم سجاد نے کہا کہ اللہ ڈینو بھائیو 2013 کے الیکشن میں کامیاب ہوئے، بعدازاں2008 کےالیکشن میں ڈگری کے معاملے پر نااہل کیا گیا۔

    چیف جسٹس ثاقب نثار نے ریمارکس دیئے کہ سپریم کورٹ اپیل پہلےہی خارج کر چکی ہے، آپ نظرثانی کے بجائےنااہلی کی مدت پر دلائل دیں، نظرثانی کاکیس ممکن ہے متعلقہ بینچ کو بھجوا دیں۔

    وکیل وسیم سجاد نے اپنے دلائل میں کہا کہ ریٹرننگ افسر کا حکم عدالتی ڈیکلریشن نہیں ہوتا، آراوامیدواروں سےدعائےقنوت اورآیت الکرسی سنتے رہے، سورتیں سن کر صادق اور امین ہونے کا تعین کیا گیا، آر او اور الیکشن ٹربیونل کو ڈیکلریشن دینے کا اختیار نہیں، عدالت کوتاحیات نااہلی سےمتعلق واضح فیصلہ دینا ہوگا، آرٹیکل 62ون ایف میں کوئی سزا تجویز نہیں کی گئی۔

    چیف جسٹس نے کہا کہ سوال یہ ہے نااہل شخص ضمنی یاآئندہ عام انتخابات لڑسکتا ہے؟ جس پر وکیل وسیم سجاد نے کہا کہ نااہلی کی مدت 5سال کیلئے مقرر کی جائے، جسٹس عظمت سعید نے ریمارکس دیئے کہ عدالتی ڈیکلریشن 5 سال بعد ازخود کیسے ختم ہو سکتا ہے، ایسا ہوا توآرٹیکل 62 ون ایف غیر موثر ہو جائے گا۔

    چیف جسٹس نے سوال کیا کہ جو الیکشن سے 3 ماہ پہلےبےایمان قرار پائےکیاوہ انتخابات لڑسکے گا؟

    جہانگیر ترین کے وکیل سکندر بشیر کے دلائل


    جہانگیر ترین کے وکیل سکندر بشیر نے اپنے دلائل شروع کیے تو چیف جسٹس نے کہا کہ بددیانتی کی تعریف کودیکھیں،مطلب دھوکادہی ہے، جس پر وکیل جہانگیرترین نے کہا کہ تسلیم کرتاہوں پارلیمنٹیرین کودھوکادہی نہیں کرنی چاہیے۔

    جسٹس اعجازالاحسن ے ریمارکس دیئے کہ یہ ملک کے قائدین کامقدمہ ہے، چیف جسٹس نے کہا کہ بددیانت کل ملک کا وزیراعظم بھی بن سکتا ہے۔

    جسٹس عظمت سعید نے وکیل جہانگیر ترین سے مکالمہ کیا نظرثانی پر دلائل ہیں، کیاعوامی نمائندگی ایکٹ شق100آئین سےبالاترہے؟ جسٹس عمرعطابندیال نے سوال کیا کہ کیانااہلی سزاہے؟ جس پر جہانگیرترین کے وکیل نے کہا کہ نااہلی سزا ہے۔

    جسٹس عمرعطابندیال نے کہا کہ غداری کرنے والا بھی5 سال بعد دوبارہ پارلیمنٹ آسکتاہے؟چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ہمارےسامنےدوٹریک ہیں، پہلاٹریک واکنگ ہے جبکہ دوسرا ٹریک ریلوے کا ہے، آپ ریلوے ٹریک سے آرہےہیں، جس پر جہانگیرترین کے وکیل نے کہا کہ میں سفر سے لطف اندوز ہورہا ہوں۔

    جسٹس اعجاز نے سوال کیا کہ جہانگیر ترین18ویں ترمیم سے پہلے نااہل ہوتے تو کتنی مدت ہوتی؟ جواب میں وکیل نے کہا کہ 18 ویں ترمیم سےپہلےنااہلی تاحیات ہوتی، جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ چیٹنگ کرنےوالوں پرتاحیات پابندی ہونی چاہیے، بےایمانی کا مطلب چیٹنگ اور فراڈ ہے۔

    سکندربشیر نے دلائل میں کہا کہ ریاست کیخلاف جرم والے سزا بھگت کر رکن اسمبلی بن سکتےہیں، جس پر جسٹس اعجاز نے ریمارکس دیئے سنگین جرائم والے ملزم کو عمر قید پوری کی سزا بھگتنی پڑتی ہے، ہم لیڈرشپ،قومی اسمبلی اورسینیٹ کی بات کر رہے ہیں۔

    چیف جسٹس نے کہا کہ ایک دن اسی شخص نے وزیر یا وزیراعظم بننا ہے، جس پر سکندر بشیر کا کہنا تھا کہ کاغذات نامزدگی میں غلطی پرالیکشن کالعدم ہوتاہے، جسٹس شیخ عظمت نے ریمارکس میں کہا کہ آپ اپنی نظر ثانی درخواست کے دلائل دے رہے ہیں۔

    جسٹس عمرعطابندیال نے کہا کہ کیا نااہلی سزا ہے یا معذوری ہے، کیا سزا بھگتنے کے بعد کسی امیدوار پر قدغن ہوگی، غداری کی سزا بھگت کرآنے والا الیکشن لڑنے کا اہل ہوگا؟

    وکیل جہانگیر ترین سکندر بشیر نے دلائل میں کہا کہ آرٹیکل62ون ایف کےتحت جرم دیوانی ہے فوجداری نہیں، جسٹس عمر عطابندیال نے کہا کہ ہمیں اہلیت اور نااہلیت میں فرق کا جائزہ لینا ہے، جسٹس شیخ عظمت نے ریمارکس دیئے کیا نااہلی کی ڈیکلریشن خود بخود ختم ہو جائے گی، جسٹس اعجاز نے کہا کہ 18 ویں ترمیم میں آرٹیکل 62 اور 63 میں وقت نہیں تھا۔

    چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ کیا ہرکیس میں نااہلی کی مدت کاالگ سےتعین کرنا ہوگا، وکیل سکندربشیر نے کہا کہ کیس ٹو کیس مدت کے تعین کا حامی نہیں ہوں، جس پر جسٹس نثار نے کہا کہ جعلی ڈگری میں امانت والی بات کہاں سے گئی،وکیل جہانگیر ترین کا کہنا تھا کہ ڈیکلریشن کےاثرات کےخاتمے کیلئے سامنے کھڑے ہیں۔

    جسٹس نثار نے ریمارکس دیئے کہ عدالتی معاون نے بھی بنیادی حقوق کی بات کی، شناختی کارڈ پر نااہلی کو ہم دائمی قرار دے چکےہیں ، اس کیس میں 5سال نااہلی کا سوچ رہا تھا، اس شخص نے کہیں سے سفارش کرائی تو تاحیات نااہلی ہوگی۔


    مزید پڑھیں : آرٹیکل62ون کی تشریح سےمتعلق کیس، نواز شریف کی دوبارہ طلبی کا نوٹس جاری


    جسٹس عمرعطا نے کہا کہ کاغذات نامزدگی میں غلط بیانی عوام کیساتھ جھوٹ ہوگی۔

    جہانگیر ترین کے وکیل سکندر بشیر کے دلائل مکمل ہونے پر آرٹیکل 62 ون ایف کیس کی سماعت کل تک ملتوی کردی گئی۔

    یاد رہے کہ گذشتہ روز  آرٹیکل باسٹھ ون ایف کی قانونی تشریح سےمتعلق کیس میں سپریم کورٹ نے نوازشریف کو دوبارہ نوٹس جاری کردیا، چیف جسٹس نے ریمارکس میں کہا کہ نواز شریف کی طرف سے کوئی پیش نہ ہوا تو یکطرفہ کارروائی کرینگے اور یکطرفہ کارروائی پیشی کے بعد کی کارروائی سے مختلف نہیں ہوتی ۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • پراسیکیوٹر جنرل نیب عدم تعیناتی ازخودنوٹس کیس ، سیکریٹری قانون سے تحریری جواب طلب

    پراسیکیوٹر جنرل نیب عدم تعیناتی ازخودنوٹس کیس ، سیکریٹری قانون سے تحریری جواب طلب

    اسلام آباد : پراسیکیوٹرجنرل نیب عدم تعیناتی ازخودنوٹس کیس میں سپریم کورٹ نے سیکریٹری قانون سے تحریری جواب طلب کرتے ہوئے سماعت بدھ تک ملتوی کردی۔

    سپریم کورٹ میں پراسیکیوٹرجنرل نیب عدم تعیناتی ازخودنوٹس کیس کی سماعت ہوئی، سماعت میں سپریم کورٹ نے صدرکی ایڈوائس اوروزیراعظم کی تجاویزسمیت سیکریٹری قانون کو طلب کیا۔

    چیف جسٹس نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ صدر نےسمری مسترد کرنےکی کیاوجوہات تحریرکی تھیں آگاہ کیاجائے، صدر پراسیکیوٹر جنرل کو کیسے نامزد کر سکتے ہیں۔

    بعد ازاں سپریم کورٹ کے طلب کرنے پرسیکریٹری قانون عدالت میں پیش ہوئے اور ہدایت پرصدرکی مستردشدہ سمری عدالت میں جمع کرادی۔

    چیف جسٹس ثاقب نثار نے سیکرٹری قانون سے استفسار کیا کہ بتایا جائے کہ ہم کیا آرڈر کر سکتے ہیں کہ معاملہ حل ہو، اگر حکومت معاملہ حل نہیں کرتی تو مداخلت کرنا پڑے گی۔

    سپریم کورٹ نے سیکریٹری قانون سے تحریری جواب طلب کرتے ہوئے سماعت ملتوی کردی۔


    مزید پڑھیں : پراسیکیوٹر جنرل کی تقرری ، نیب اور حکومت آمنے سامنے


    اس سے پہلے حکومت نے نیب کے پانچ نام مسترد کئے تو چیئرمین نیب نے حکومت کےمنظورنظرافراد کو پراسیکیوٹرجنرل لگانے کی سمری مسترد کردی تھی۔

    چیئرمین نیب کا کہنا تھا کہ نیب کے بھیجے گئے ناموں میں سے کسی ایک کا تقرر کیا جائے گا۔

    تجزیہ کاروں کے مطابق وزیر اعظم کی جانب سے پراسیکیوٹر جنرل کے لیے ارسال کردہ ناموں کو مسترد کیے جانے کے بعد حکومت اور نیب میں تنائو بڑھتا محسوس ہوتا ہے۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • سپریم کورٹ نے شریف فیملی کی شوگر ملزکھولنے سے روک دیا

    سپریم کورٹ نے شریف فیملی کی شوگر ملزکھولنے سے روک دیا

    اسلام آباد : شوگرملزکیس میں سپریم کورٹ نے شریف خاندان کی شوگرملزکھولنےسےروک دیا جبکہ جہانگیر ترین نے سپریم کورٹ کوکسانوں کا تمام گنا خریدنے کی یقین دہانی کرادی، چیف جسٹس نے کہا بابارحمتے کے سامنے سچ بولو گے توسب ٹھیک ہوجائے گا، آنکھیں اور کان کھلے ہیں،پتہ ہے عدالت کے باہر کیا کچھ ہورہا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں شریف برادران کی شوگرملزکی منتقلی کیس کی سماعت ہوئی ، سماعت میں شوگرملزکی منتقلی روکنےکے فیصلے کے خلاف حکم امتناع کی درخواست مسترد کردی۔

    چیف جسٹس نے شریف فیملی کی شوگرملزتین ماہ میں منتقلی کا حکم معطل کرتے ہوئے واضح کیا کہ ملز کام نہیں کر سکیں گی صرف منتقلی روک رہے ہیں، بابا رحمتے کے سامنے سچ بولوگے تو سب ٹھیک ہوجائےگا، ایک ایک چیز مانیٹر کریں گے۔

    چیف جسٹس نے کسانوں کو درپیش مسائل کے باعث کیس روزانہ کی بنیاد پر سننے کا فیصلہ کرتے ہوئے کہا کہ کم ازکم اس سیزن کسانوں کانقصان نہیں ہونےدینگے اور شوگرملزکی بندش سے کیس میں کسانوں کی فریق بننےکی درخواستیں منظور کرلیں۔

    جہانگیر ترین کےوکیل اعتزازاحسن نےدلائل میں کہا حسیب وقاص کا تو فش فارم تھا بعد میں شوگر مل نکل آئی، کسانوں کے اتنے بڑے اشتہاروں کی رقم کس نے دی ، گنےکا ریٹ شوگر کین کمشنر طےکرے گا، 250میل سےبھی مجھےگنااٹھاناہوگا۔

    کسانوں کے اعتراض پر چیف جسٹس نے ٹوک دیا اور کہا آپ کسی اور کے آلہ کار بنیں گےتو معاملہ خراب ہوجائے گا، کسانوں کو بھی ریلیف دیا، شوگر ملزکوغیر قانونی کام سے بھی روک دیا۔

    چیف جسٹس نے ریمارکس میں کہا کسانوں پر رحم ہوگا، میری تمام آنکھیں اور کان کھلے ہیں، ہمیں پتہ ہے عدالت کے باہر کیا کچھ ہوتا رہا۔

    جہانگیر ترین کی کسانوں کا تمام گنا خریدنے کی یقین دہانی

    سپریم کورٹ میں جہانگیر ترین نے کسانوں کا تمام گنا خریدنےکی یقین دہانی کرادی، جس پر چیف جسٹس ن ےیہ کہتے ہوئے سماعت اٹھارہ جنوری تک ملتوی کردی کہ وہ گنا خریداری کے عمل کی خود نگرانی کریں گے۔

    چیف جسٹس نے کہا کہ عدالتی احکامات کی خلاف ورزی نہیں ہونےدیں گے، مکمل گنااٹھنےتک کیس کی مکمل سماعت کروں گا، جےڈبلیوڈی کل تک پلان لائیں ورنہ شوگرملزکھو ل دوں گا، معاملہ حل ہونےتک ہرروزڈھائی بجےمقدمےکی سماعت ہوگی۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • زینب قوم کی بیٹی تھی، واقعےپر پوری قوم کا سر شرم سے جھک گیا، چیف جسٹس

    زینب قوم کی بیٹی تھی، واقعےپر پوری قوم کا سر شرم سے جھک گیا، چیف جسٹس

    اسلام آباد : میڈیکل کالج کے الحاق سے متعلق کیس کی سماعت میں قصور واقعے کے تذکرے پر چیف جسٹس نے کہا کہ زینب قوم کی بیٹی تھی، واقعے پر پوری قوم کا سر شرم سے جھک گیا۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں چیف جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں میڈیکل کالج کے الحاق سے متعلق کیس کی سماعت ہوئی ، دوران سماعت قصور واقعے کا تذکرہ ہوا، چیف جسٹس ثاقب نثار نے سوال کیا کہ آج وکلا نے ہڑتال کیوں کررکھی ہے، جس پر وکیل اعتزاز احسن کا کہنا تھا کہ سانحہ قصور کیخلاف ہڑتال کی جا رہی ہے۔

    جسٹس ثاقب نثار نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ زینب قوم کی بیٹی تھی ، واقعے پر پوری قوم کا سر شرم سے جھک گیا، مجھ سےزیادہ میری اہلیہ گھرمیں پریشان بیٹھی ہے، دکھ اور سوگ اپنی جگہ مگرہڑتال کی گنجائش نہیں بنتی۔

    چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ہڑتال احتجاج کرنیوالوں پرفائرنگ کیخلاف کی جارہی ہے، دعا کریں غرور ہمارے لیے موت کا باعث بنے، ججز کو کسی صورت مغرور نہیں ہونا چاہئے، تشدد روکنا آپ وکلاکی ذمہ داری ہے، میں تو ہاتھ باندھ کر کہہ رہاہوں کہ تشدد نہ کیا کریں۔
    .
    چیف جسٹس ثاقب نثار نے استفسار کیا کہ اعتزاز احسن نہ ہوتے تو وکلاتحریک نہ چلتی، اعتزاز احسن کو بطور قانون سازاب وہی کردارادا کرنا ہوگا، صحت اور عدلیہ میں اصلاحات کیلئے کردارادا کرنا ہوگا۔


    مزید پڑھیں : زینب قتل کیس: چیف جسٹس کا ازخود نوٹس


    عدالت کی خیبرمیڈیکل یونیورسٹی کو داخلہ ٹیسٹ کے نتائج کی اجازت دیتے ہوئے فریقین کے وکلا کو انسپکشن ٹیم کیلئے3،3نام دینے کی ہدایت دیدی۔

    یاد رہے کہ گذشتہ روز  چیف جسٹس آف پاکستان نے معصوم زینب کے بہیمانہ قتل کا از خود نوٹس لیتے ہوئے آئی جی پنجاب سے24 گھنٹے میں رپورٹ طلب کرلی تھی۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • نیب کاحدیبیہ پیپرملزکیس کھلوانے کیلئےنظرثانی اپیل دائرکرنےپرغور

    نیب کاحدیبیہ پیپرملزکیس کھلوانے کیلئےنظرثانی اپیل دائرکرنےپرغور

    اسلام آباد : نیب نے حدیبیہ پیپرملزکیس سے متعلق نظرثانی اپیل دائر کرنے کا فیصلہ کیا، نظر ثانی اپیل پر جلد ہی کام مکمل کرکے اسے چند روز میں دائر کردیا جائے گا۔

    تفصیلات کے مطابق شریف خاندان کیخلاف حدیبیہ پیپرز ملز کیس کامعاملہ مکمل طور پر ختم نہ ہوا، نیب کی جانب حدیبیہ پیپرز ملز ریفرنس پر نظر ثانی کی تیاری شروع کردی گئی ہے۔

    ذرائع کا کہنا ہے کہ نیب پہلے والی درخواست کی خامیاں دور کرنے کے بعد اپیل دائر کریگا، نظر ثانی اپیل پر جلد ہی کام مکمل کرکے اسے چند روز میں دائر کردیا جائے گا۔

    یاد رہے کہ سپریم کورٹ نے نیب کی حدیبیہ پیپر مل کھولنے کی اپیل خارج کردی تھی اور کہا تھا کہ عدالت نیب کےدلائل سےمطمئن نہیں ہوئی، درخواست مسترد کرنے کی وجہ تحریری فیصلےمیں بتائی جائے گی۔


    مزید پڑھیں :  سپریم کورٹ نے نیب کی حدیبیہ پیپرملزکیس دوبارہ کھولنے کی اپیل مسترد کردی


    خیال رہے کہ پانامہ کیس کے دوران عدالت کے سامنے نیب نے اس کیس میں اپیل دائر کرنے کا اعلان کیا تھا، اس کیس میں پنجاب کے وزیر اعلی شہبازشریف کا نام شامل ہے۔ لاہور ہائی کورٹ نے نیب کا ریفرنس خارج کرتے ہوئے نیب کو حدیبیہ پیپرز ملز کی دوبارہ تحقیقات سے روک دیا تھا۔

    جس کے بعد نیب نے لاہور ہائیکورٹ کے فیصلے کے خلاف اپیل دائر کی تھی اور اب سپریم کورٹ آف پاکستان اس کیس کو دوبارہ کھولنے جارہی ہے جبکہ حدیبیہ کیس کےحوالےسے چیئرمین نیب کوبھی عدالت میں طلب کیا گیا تھا ۔

    خیال رہے کہ یہ کیس شہباز شریف کی سیاست کے لیے اہم ثابت ہوسکتا ہے

    واضح رہے کہ حدیبیہ ریفرنس سترہ سال پہلےسن دوہزارمیں وزیرخزانہ اسحاق ڈارکے اعترافی بیان پرنیب نےدائرکیاتھا۔انہوں نےبیان میں نوازشریف کے دباؤپرشریف فیملی کے لیے ایک ارب چوبیس کروڑ روپےکی منی لانڈرنگ اورجعلی اکاؤنٹس کھولنےکااعتراف کیاتھا۔

    شریف برادران کی جلاوطنی کے سبب کیس التواءمیں چلا گیا تھا ۔ سنہ 2011 میں شریف خاندان نے اس کیس کو لاہور ہائی کورٹ میں چیلنج کیا‘ عدالتِ عالیہ نےاحتساب عدالت کوکیس پرمزیدکارروائی سےروکا۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی وال پر شیئر کریں۔