Tag: SC

  • حدیبیہ پیپرملزکیس، نیب نےسپریم کورٹ میں نئی درخواست دائرکردی

    حدیبیہ پیپرملزکیس، نیب نےسپریم کورٹ میں نئی درخواست دائرکردی

    اسلام آباد : نیب نے حدیبیہ پیپرملزکیس کیلئے سپریم کورٹ میں نئی درخواست دائرکردی، جس میں کہا گیا کہ نواز شریف حدیبیہ پیپرکیس میں اپیل دائرکرنے پر اثر انداز ہوئے، عدالت اپیل میں تاخیرنظراندازکرکےکیس کھولنےکی اجازت دے۔

    تفصیلات کے مطابق نیب نے حدیبیہ پیپرملزکیس کھولنے کیلئے سپریم کورٹ میں نئی درخواست دائرکردی، نیب کی جانب سے ڈپٹی پراسیکیوٹر جنرل عمران الحق نے درخواست دائر کی۔

    درخواست میں عدالتی حکم کے 3سال بعد اپیل دائرکرنے کا جواز پیش کیا۔

    دائر درخواست میں مؤقف اختیار کیا کہ نواز شریف حدیبیہ پیپرکیس میں اپیل دائرکرنےپراثراندازہوئے، عدالتی غلطی یاججزکی غیر سنجیدگی
    سے کیس کوہٹایا نہیں جاسکتا دوبارہ تحقیقات کی استدعامسترد کرنا انصاف کو جھٹلانے کے مترادف ہوگا۔


    مزید پڑھیں : حدیبیہ پیپرزملز کیس: سپریم کورٹ نےنیب سےتمام ریکارڈ طلب کرلیا


    درخواست میں استدعا کی گئی عدالت اپیل میں تاخیرنظراندازکرکے کیس کھولنے کی اجازت دے۔

    حدیبیہ پیپرز ملز کیس کی گذشتہ سماعت میں سپریم کورٹ نےنیب سےتمام ریکارڈ طلب کرلیا تھا جبکہ نیب کی جانب سے ایک۔ماہ کی مدت دینے کی استدعا مسترد کر دی گئی تھی۔

    جسٹس فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے ہم کیس جلد سن کر فیصلہ کرنا چاہتے ہیں۔

    بعد ازاں عدالت نے کیس کی سماعت 11 دسمبر تک ملتوی کر دی تھی۔

    یاد رہے کہ پانامہ کیس کے دوران عدالت کے سامنے نیب نے اس کیس میں اپیل دائر کرنے کا اعلان کیا تھا، اس کیس میں پنجاب کے وزیر اعلی شہبازشریف کا نام شامل ہے۔ لاہور ہائی کورٹ نے نیب کا ریفرنس خارج کرتے ہوئے نیب کو حدیبیہ پیپرز ملز کی دوبارہ تحقیقات سے روک دیا تھا۔


    مزید پڑھیں :  حدیبیہ پیپر ملز، اسحاق ڈار کے خلاف بحثیت ملزم تحقیقات کا آغاز


    جس کے بعد نیب نے لاہور ہائیکورٹ کے فیصلے کے خلاف اپیل دائر کی تھی اور اب سپریم کورٹ آف پاکستان اس کیس کو دوبارہ کھولنے جارہی ہے جبکہ حدیبیہ کیس کےحوالےسے چیئرمین نیب کوبھی عدالت میں طلب کیا گیا تھا ۔

    خیال رہے کہ یہ کیس شہباز شریف کی سیاست کے لیے اہم ثابت ہوسکتا ہے

    واضح رہے کہ حدیبیہ ریفرنس سترہ سال پہلےسن دوہزارمیں وزیرخزانہ اسحاق ڈارکے اعترافی بیان پرنیب نےدائرکیاتھا۔انہوں نےبیان میں نوازشریف کے دباؤپرشریف فیملی کے لیے ایک ارب چوبیس کروڑ روپےکی منی لانڈرنگ اورجعلی اکاؤنٹس کھولنےکااعتراف کیاتھا۔

    شریف برادران کی جلاوطنی کے سبب کیس التواءمیں چلا گیا تھا ۔ سنہ 2011 میں شریف خاندان نے اس کیس کو لاہور ہائی کورٹ میں چیلنج کیا‘ عدالتِ عالیہ نےاحتساب عدالت کوکیس پرمزیدکارروائی سےروکا۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی وال پر شیئر کریں۔

     

  • بتایاجائےدھرنےکے پیچھے کون ہے،دھرنے کا فائدہ کس کو ہورہا ہے، جسٹس قاضی فائز

    بتایاجائےدھرنےکے پیچھے کون ہے،دھرنے کا فائدہ کس کو ہورہا ہے، جسٹس قاضی فائز

    اسلام آباد : سپریم کورٹ نےفیض آباددھرنےپر حکومتی رپورٹ مایوس کن قرار دیدی، جسٹس قاضی فائز نے کہا بتایاجائےدھرنے کے پیچھے کون ہے، دھرنے کا فائدہ کس کو ہورہا ہے، سپلائی لائن کیوں نہیں کاٹی جارہی۔ دھرنےوالوں کوغیرملکی فنڈنگ توحاصل نہیں۔

    تفصیلات کے مطابق فیض آباد میں دھرنے کے خلاف ازخودنوٹس کی سماعت سپریم کورٹ کے دو رکنی بینچ نے کی، جسٹس قاضی فائز نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ ڈنڈااٹھاکراحتجاج،اسلامی تعلیمات میں کہاں لکھاہے، دین اسلام تو امن کا درس دیتا ہے ، کیا اسلامی تعلیمات پرعمل مسلمانوں کافرض نہیں، دھرنے میں استعمال ہونیوالی زبان کیایہ اسلام ہے۔

    انھوں نے مزید کہا کہ سمجھ نہیں آرہا معاشرہ کیسے چلے گا، اتنی کوریج کیوں دی جارہی ہے، پیمرا کہاں ہے، کیا اسلامی تعلیمات میں 2 رائے ہوسکتی ہیں، اسلام میں گفتگوکاآغازالاسلام علیکم سےہوتاہے، ہم جن اداروں پرپیسہ لگارہےہیں ان کاکیا کردار ہے، مغرب کا پروپیگنڈا ہےکہ اسلام تلوار سے پھیلا۔

    جسٹس قاضی فائزعیسیٰ نے ریماکس میں کہا کہ اسلام آباد میں کنٹینرز کا خرچہ کون بھررہا ہے، قانون کےرکھوالے پرتشددکیا گیا کیونکہ اس نےوردی پہنی تھی، اسلامی تعلیمات میں جبر کا ذکر نہیں ، ڈنڈے کےزورپراچھی بات بھی بری لگتی ہے۔

    اٹارنی جنرل نے بتایا کہ تصادم کاخطرہ ہے اس لئے حکومت احتیاط کررہی ہے، مذاکرات کا عمل جاری ہے، ہم تشدد روکنے کی کوشش کررہے

    عدالت نے سوال کیا کہ دھرنےوالوں کی سپلائی لائن کیوں نہیں کاٹی جارہی، دھرنے والوں کوچائے کون دے رہا ہے، پیشگی اطلاع کے باوجودپنجاب حکومت نے کارروائی نے کی۔


    مزید پڑھیں :  سپریم کورٹ کا فیض آباد دھرنے کا ازخود نوٹس


    اٹارنی جنرل نے جب یہ کہا کہ سپریم کورٹ کا حکم دھرنے والوں کو بھیجا، تو عدالت نے کہا کیا مطلب فیصلہ اب دھرنے والےکریں گے، کیا پنجاب حکومت یرغمال بن چکی ہے۔

    جسٹس فائز عیسیٰ نے معاملات پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہاکہ یہی حال رہاتو آئندہ فیصلےعدالتوں کے بجائے سڑکوں پرہوں گے۔

    اعلی عدالت نے دھرنے کےاخراجات کی تفصیلات طلب کرتے ہوئے کہاکہ بتایا جائے بتایاجائےدھرنےکےپیچھے کون ہے،دھرنے کا فائدہ کس کو ہورہا ہے، دھرنے میں کوئی غیر ملکی تو شامل نہیں، دھرنے پراخراجات کیا آئے اور اب تک کتنا خرچہ ہوا، کون کیا کررہاہےہے عدالت کو بتایا جائے، ٹیکس دینے والے عوام کواخراجات کاعلم ہوناچاہئے۔

    جسٹس قاضی فائز نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ دھرنے میں نامناسب زبان استعمال ہورہی ہے، ختم نبوت کی بات کرنیوالے خود دین الٰہی پرعمل نہیں کررہے، ایک بچےکی موت ہوئی تو دھرنےوالوں کوتوبہ کرلینی چاہئے تھی۔

    سپریم کورٹ کا استفسار کیا کہ حکومت معاملے پر خاموش ہے، دھرنا ختم کرنے کے لیے کیا اقدامات کررہے ہیں ؟ جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ ٹھوس اقدامات کرنے والے ہیں آپ کو چیمبرمیں بتاسکتاہوں، جسٹس قاضی فائز نے کہا کہ چیمبرمیں نہ بتائیں سربمہر لفافے میں تفصیلات بتادیں ہوسکتا ہے معاملے کو پبلک کرنے سے اس کااثرزائل ہو۔

    اٹارنی جنرل نے کہا کہ آج ہی آپ کوسربمہرلفافےمیں تفصیلات فراہم کردوں گا، جس پر جسٹس قاضی فائز نے کہا کہ آپ کی رپورٹ ماضی کےاقدامات سےمتعلق ہیں، مستقبل کے لیے آپ نے کچھ نہیں کیا۔

    عدالت میں اٹارنی جنرل نے بتایا کہ ہم مستقبل کے لیے بھی عملی اقدامات کررہے ہیں، آپ کو یہاں بیٹھ کرنظرنہیں آسکتے، کچھ اقدامات خفیہ ہوتے ہیں، یہی وجہ ہے دھرنے والوں کی تعدادبڑھ نہیں رہی، مقدمات کا اندراج اور گرفتاریاں الگ ہیں۔

    جسٹس قاضی فائز کا کہنا تھا کہ دھرنے پر اخراجات کی تحقیقات آپ نےکیوں نہیں کی، یہ اخراجات کون ادا کرے گا قومی خزانہ توعوام کاہے، یہ اخراجات دھرنےوالوں سے ہی وصول کرنےچاہئیں، کیا آپ نے کوئی اقدامات اٹھائے۔

    اٹارنی جنرل نے جواب میں کہا کہ ابھی تک نہیں مگر یہ پوائنٹ نوٹ کرلیاہے۔

    سپریم کورٹ نے وزارت دفاع کی رپورٹ مایوس کن قرار دیدی اور کہا کہ کون لوگ ہیں،کہاں کام کرتے ہیں ،بینک اکاؤنٹس کہاں ہیں، اکاؤنٹ منجمد کیوں نہیں ، دھرنےوالوں کے 4نام بتادیئےیہ توسب کوعلم ہے، عدالت کوبتایاجائےدھرنےکےپیچھے کون ہے، دھرنا کا فائدہ کس کو ہورہا ہے، آپ حق پر ہیں تو معذرت خوانہ اندازاختیارنہ کریں۔

    جسٹس قاضی فائز نے مزید اپنے ریمارکس میں کہا کہ دھرنے میں کوئی غیر ملکی تو شامل نہیں، دھرنےوالوں کوغیرملکی فنڈنگ توحاصل نہیں، تصدیق کریں دھرنےکافائدہ کس کوہورہاہے، دعا کرتے ہیں اللہ سب کوہدایت دے، کئی مسلم ممالک میں سوشل میڈیا کو کنٹرول کیا جاتا ہے۔

    بعد ازاں فیض آباددھرناازخودنوٹس کی سماعت آئندہ جمعرات تک ملتوی کردی گئی۔

    یاد رہے کہ سپریم کورٹ نے فیض آباد میں دھرنے کا نوٹس لیتے ہوئے، آئی جی اسلام آباد،آئی جی پنجاب اوراٹارنی جنرل کو نوٹس جاری کردیا،جسٹس فائز عیسیٰ نے ریمار کس دیئے کہ دھرناآرٹیکل 14، 15 اور19 کی خلاف ورزی ہے۔


    مزید پڑھیں : اسلام آباد دھرنا: وزیر داخلہ کی عدالت سے مزید 2 دن کی مہلت طلب


    خیال رہے کہ اسلام آباد اور راولپنڈی کے سنگم فیض آباد میں دھرنے کا سولہواں روز ہے ، اسلام آباد ہائیکورٹ کے حکم کے باوجود حکومت دھرنے والوں کو نہ ہٹا سکی،  مذاکرات کےکئی دور ناکام ہوئے جبکہ علما و مشائخ کا اجلاس بھی بے نتیجہ رہا۔

    دھرنے کے شرکاء وزیر قانون کےاستعفٰی سے کم پر تیارنہیں جبکہ حکومت کا مؤقف ہے کہ بنا ثبوت کے وزیر سے استعفٰی نہیں لے سکتے۔ 

    گذشتہ روزاسلام آباد ہائیکورٹ نے وزرات داخلہ کوایک بارپھر دھرنا ختم کرانے کی ہدایت کی تھی، جس پر وفاقی وزیر داخلہ احسن اقبال نے عدالت سے اڑتالیس گھنٹے کا وقت لیاتھا۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • سپریم کورٹ میں الیکشن ایکٹ2017 کے خلاف تمام اپیلیں سماعت منظور

    سپریم کورٹ میں الیکشن ایکٹ2017 کے خلاف تمام اپیلیں سماعت منظور

    اسلام آباد : چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے انتخابی اصلاحات ایکٹ کے خلاف تمام اپیلیں سماعت کیلئے منظور کرتے ہوئے رجسٹرار آفس کے اعتراضات مسترد کر دیے ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے چیمبر میں انتخابی اصلاحات ایکٹ کے خلاف اپیلوں پر سماعت کی، چیف جسٹس نے رجسٹرار آفس کے اعتراضات مسترد کرتے ہوئے انتخابی اصلاحات ایکٹ دوہزار سترہ کیخلاف تمام اپیلیں ابتدائی سماعت کیلئے منظور کرلیں۔

    عدالت کا تین رکنی بینچ درخواستوں کے قابل سماعت ہونے پر سماعت کرے گا۔

    عدالت نے رجسٹرار آفس کے متعلقہ فورم سے رجوع نہ کرنے کا اعتراض مسترد کرتے ہوئے تمام درخواستیں سماعت کیلئے مقرر کرنے کی ہدایت کردیں۔

    چیف جسٹس نے تمام درخواستیں سماعت کے لئے مقرر کرتے ہوئے تمام اپیلوں کو نمبر لگانے کی بھی ہدایت کر دی۔

    خیال رہے کہ انتخابی اصلاحات ایکٹ کی منظوری کیخلاف اپیلیں شیخ رشید، پیپلزپارٹی، عادم آدمی پارٹی، جسٹس اینڈ ڈیموکریٹک پارٹی، جمشید دستی، داود غزنوی اور ذوالفقار بھٹی کی جانب سے دائر کی گئی ہیں۔

    سپریم کورٹ کے رجسٹرار آفس نے تمام درخواستوں پر اعتراضات لگائے تھے جبکہ درخواست گزاروں نےاعتراضات کیخلاف ان چیمبر اپیلیں کررکھی تھیں۔


    مزید پڑھیں : شیخ رشیدنےانتخابی اصلاحات بل 2017 کیخلاف درخواست دائر کردی


    درخواستوں میں نااہل نوازشریف کو پارٹی صدر بننے سے روکنے کی استدعا کی گئی ہیں۔

    اجمل پہاڑی یا عزیربلوچ کو پارٹی کا صدر بنایا جاسکتا ہے، شیخ رشید

    دوسری جانب عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید کا کہنا ہے کہ چیف جسٹس نے رجسٹرار کو اپیلوں پر سماعت کی تاریخ دینے کا کہا ہے، کیس اس ہفتے یاآئندہ ہفتے سماعت کے لیے مقرر ہو جائے گا۔

    شیخ رشید نے کہا کہ کسی بھی نااہل کو سیاسی جماعت کا صدر بنایا جاسکتا ہے، اجمل پہاڑی یا عزیربلوچ کو پارٹی کا صدر بنایا جاسکتا ہے۔

    واضح رہے کہ دو روز قبل نااہل نواز شریف کو مسلم لیگ ن کی صدارت کا اہل بنانے کے لیے انتخابی اصلاحات ایکٹ 2017 سینیٹ کے بعد قومی اسمبلی میں بھی منظور کرایا گیا تھا۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی وال پر شیئر کریں۔

  • عمران خان کی الیکشن ریفارمز پر درخواست اعتراضات کے ساتھ واپس

    عمران خان کی الیکشن ریفارمز پر درخواست اعتراضات کے ساتھ واپس

    اسلام آباد : سپریم کورٹ نے تحریکِ انصاف کے چیئرمین عمران خان کی جانب سے الیکشن ریفارمز ایکٹ 2017 کے خلاف دائر درخواست اعتراض لگا کر واپس کردی۔

    تفصیلات کے مطابق پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان کی الیکشن ریفارمز پر درخواست اعتراضات کے ساتھ واپس کردی گئی، سپریم کورٹ کے رجسٹرار آفس کی جانب سے تحریک انصاف کے ریفارمز ایکٹ کی درخواست پر اعتراض میں کہا گیا ہے پی ٹی آئی چیئرمین نے الیکشن ریفارمز ایکٹ کے خلاف متعلقہ فورم سے رجوع نہیں کیا اور متعلقہ فورم سے رجوع نہ کرنے کی وجوہات سے بھی آگاہ نہیں کیا۔

    عمران خان کی درخواست پر ایک اعتراض یہ بھی سامنے آیا کہ درخواست کے ساتھ لگایا جانے والا سرٹیفکیٹ بھی قواعد کے مطابق نہیں۔

    تحریکِ انصاف کے چیئرمین عمران خان نے حال ہی میں پارلیمان سے منظور ہونے والے الیکشن ریفارمز ایکٹ کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا تھا، جس کے تحت عدالت سے نااہل شخص کو کسی سیاسی جماعت کا عہدہ رکھنے کی اجازت دیدی گئی تھی۔


    مزید پڑھیں : عمران خان نےالیکشن ریفارمزایکٹ 2017چیلنج کردیا


    درخواست میں مؤقف اختیار کیا گیا تھا کہ پانامافیصلے کے نتیجے میں نوازشریف کونااہل کیاگیا پاناماکیس کے نتیجےمیں نوازشریف کوپارٹی عہدے سے ہٹنا پڑا، الیکشن ایکٹ2017میں کی گئیں ترامیم آئین سےمتصادم ہیں، بطوررکن اسمبلی سےنااہل ہونےوالاشخص پارٹی عہدہ نہیں رکھ سکتا۔

    عمران خان کی جانب سے درخواست میں استدعا کی گئی تھی کہ یفارمزایکٹ کی شقوں9، 10 اور203 کوکالعدم قرار دیا جائے۔

    یاد رہے کہ نااہل نواز شریف کو مسلم لیگ ن کی صدارت کا اہل بنانے کے لیے انتخابی اصلاحات ایکٹ 2017 سینیٹ کے بعد قومی اسمبلی میں بھی منظور کرایا گیا تھا۔


    مزید پڑھیں : نواز شریف کو پارٹی سربراہ بنانے کی راہ میں‌ حائل آخری رکاوٹ بھی دور


    بل کی شق 203 میں کہا گیا ہے کہ ہر پاکستانی شہری کسی بھی سیاسی جماعت کی رکنیت اور عہدہ حاصل کرسکتا ہے۔

    واضح رہے کہ حکومت نے 22 ستمبر کو الیکشنز ایکٹ میں ترمیم کا بل پیش کیا تھا، انتخابی اصلاحاتی بل میں کسی بھی نا اہل شخص کے سیاسی جماعت کے بھی عہدیدار نہ بننے کے حوالے سے کوئی شق موجود نہیں تھی اسی لیے پیپلز پارٹی کے اعتزاز احسن نے یہ ترمیم پیش کی۔ بل کی شق 203 میں کہا گیا ہے کہ ہر پاکستانی شہری کسی بھی سیاسی جماعت کی رکنیت اور عہدہ حاصل کرسکتا ہے۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • نوازشریف کو سپریم کورٹ کے فیصلے سے نقصان بہت ہوا ، خورشید شاہ

    نوازشریف کو سپریم کورٹ کے فیصلے سے نقصان بہت ہوا ، خورشید شاہ

    اسلام آباد : قائد حزب اختلاف خورشید شاہ کا کہنا ہے کہ نوازشریف کو سپریم کورٹ کے فیصلے سے نقصان بہت ہوا ، نوازشریف کو بطور وزیراعظم جھوٹا حلف نامہ نہیں دیناچاہئے تھا۔

    تفصیلات کے مطابق اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ نے میڈیا سے گفتگو میں سپریم کورٹ کےفیصلے پر ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ جو چیزیں پہلےنہیں تھیں سپریم کورٹ نے وہ بھی ڈال دی ہیں، سپریم کورٹ نے شعر پڑھ کر سارا نچوڑ دے دیا۔

    خورشید شاہ کا کہنا تھا کہ نواز شریف کو اس طرف جانا ہی نہیں چاہئےتھا، میں یہ نہیں کہوں گا نواز شریف نےعوام کوبےوقوف بنایا، نوازشریف کو بطور وزیراعظم جھوٹا حلف نامہ نہیں دیناچاہئے تھا۔


    مزید پڑھیں : نوازشریف جانتے ہیں ان کا دشمن کون ہے، اب بھاگے تو تباہ ہوجائیں گے، خورشید شاہ


    اپوزیشن لیڈر نے کہا کہ سپریم کورٹ نے چھان بین کے بعد ہی ذمہ دارانہ بات کی، نوازشریف پر دھبہ لگتا رہے گا، نوازشریف کو سپریم کورٹ کے فیصلے سے نقصان بہت ہوا۔

    انکا مزید کہنا تھا کہ سپریم کورٹ کا فیصلہ اپنی نوعیت کاالگ فیصلہ ہے، نوازشریف جو باتیں کرتے تھے ان سے یہی لگتا تھا جو عدالت نے کہا۔

    یاد رہے دو روز قبل  قائد حزب اختلاف خورشید شاہ کا کہنا تھا کہ نوازشریف کےبہت قریب لوگ ان کیخلاف سازش کررہے ہیں، نوازشریف جانتے ہیں ان کادشمن کون ہے، نوازشریف اب بھاگے توتباہ ہوجائیں گے۔

    رہنماپیپلزپارٹی کا کہنا تھا کہ شاہد خاقان عباسی قائم مقام وزیراعظم ہیں ، یہ جوک آف دی ائیر ہے کہ نااہل شخص کو شاہد خاقان عباسی اپناوزیراعظم کہتے ہیں۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • عمران خان نےالیکشن ریفارمزایکٹ 2017چیلنج کردیا

    عمران خان نےالیکشن ریفارمزایکٹ 2017چیلنج کردیا

    اسلام آباد : پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نےالیکشن ریفارمزایکٹ 2017چیلنج کردیا، جس میں کہا گیا ہے کہ ریفارمزایکٹ کی شقوں 9، 10 اور203 کوکالعدم قرار دیاجائے۔

    تفصیلات کے مطابق چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان نے سپریم کورٹ میں الیکشن ریفارمزایکٹ 2017 کیخلاف درخواست دائر کردی ، درخواست عوامی مفادکےآرٹیکل184/3کے تحت دائرکی گئی ہے۔

    درخواست میں مؤقف اختیار کیا گیا ہے کہ پانامافیصلے کے نتیجے میں نوازشریف کونااہل کیاگیا پاناماکیس کے نتیجےمیں نوازشریف کوپارٹی عہدے سے ہٹنا پڑا۔

    دائر درخواست میں کہا گیا کہ نوازشریف کیلئے پارٹی عہدے پر الیکشن ایکٹ میں خصوصی ترامیم کی گئیں، الیکشن ایکٹ2017میں کی گئیں ترامیم آئین سےمتصادم ہیں، بطوررکن اسمبلی سےنااہل ہونےوالاشخص پارٹی عہدہ نہیں رکھ سکتا۔

    عمران خان کی جانب سے درخواست میں استدعا کی گئی ہے کہ الیکشن ایکٹ 2017پولیٹیکل پارٹیزآرڈرز2002 کےبرخلاف ہے، ایکٹ2017میں ہونےوالی ترامیم آرٹیکل204 اور  175کے خلاف ہیں، ریفارمزایکٹ کی شقوں9، 10 اور203 کوکالعدم قرار دیا جائے۔


    مزید پڑھیں : نواز شریف کو پارٹی سربراہ بنانے کی راہ میں‌ حائل آخری رکاوٹ بھی دور


    یاد رہے کہ نااہل نواز شریف کو مسلم لیگ ن کی صدارت کا اہل بنانے کے لیے انتخابی اصلاحات ایکٹ 2017 سینیٹ کے بعد قومی اسمبلی میں بھی منظور کرایا گیا تھا۔

    بل کی شق 203 میں کہا گیا ہے کہ ہر پاکستانی شہری کسی بھی سیاسی جماعت کی رکنیت اور عہدہ حاصل کرسکتا ہے۔

    ، واضح رہے کہ حکومت نے 22 ستمبر کو الیکشنز ایکٹ میں ترمیم کا بل پیش کیا تھا، انتخابی اصلاحاتی بل میں کسی بھی نا اہل شخص کے سیاسی جماعت کے بھی عہدیدار نہ بننے کے حوالے سے کوئی شق موجود نہیں تھی اسی لیے پیپلز پارٹی کے اعتزاز احسن نے یہ ترمیم پیش کی۔ بل کی شق 203 میں کہا گیا ہے کہ ہر پاکستانی شہری کسی بھی سیاسی جماعت کی رکنیت اور عہدہ حاصل کرسکتا ہے۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • پیپلزپارٹی نے بھی انتخابی اصلاحات بل کو سپریم کورٹ میں چیلنج کردیا

    پیپلزپارٹی نے بھی انتخابی اصلاحات بل کو سپریم کورٹ میں چیلنج کردیا

    اسلام آباد : انتخابی اصلاحات بل2017 کیخلاف پیپلزپارٹی نے بھی ایک درخواست دائر کردی، جس میں کہا گیا ہے کہ کابینہ کوپارٹی صدرنوازشریف سےہدایات لینےسےروکاجائے۔

    تفصیلات کے مطابق انتخابی اصلاحات بل کو پیپلزپارٹی نے بھی سپریم کورٹ میں چیلنج کردیا، پیپلزپارٹی کی جانب سے سپریم کورٹ میں بل کیخلاف درخواست میں مؤقف اختیار کیا گیا ہے کہ آرٹیکل203میں ترمیم آئین کی بنیادی اساس کے خلاف ہے نوازشریف کونااہلی پرپارٹی صدر نہیں بنایا جاسکتا۔

    درخواست میں استدعا کی گئی کہ کابینہ کوپارٹی صدر نوازشریف سے ہدایات لینے سے روکا جائے۔

    پیپلزپارٹی کی درخواست میں وفاق،نوازشریف سمیت دیگر کو فریق بنایا گیا ہے۔


    مزید پڑھیں : ایم کیوایم اور پی ٹی آئی نے انتخابی اصلاحات بل ہائی کورٹ میں چیلنج کردیا


    اد رہے کہ اس سے قبل پاکستان تحریک انصاف ، ایم کیو ایم ، پاکستان عوامی تحریک اور شیخ رشید  الیکشن اصلاحات بل 2017 کیخلاف درخواست دائر کر چکے ہیں، جس میں  استدعا کی ہے کہ انتخابی اصلاحات ایکٹ 2017 کو آئین کے منافی اور کالعدم قرار دیا جائے اور  نواز شریف کوبطور صدر مسلم لیگ ن کام کرنے سے فوری روکا جائے۔

    واضح رہے کہ دو روز قبل نااہل نواز شریف کو مسلم لیگ ن کی صدارت کا اہل بنانے کے لیے انتخابی اصلاحات ایکٹ 2017 سینیٹ کے بعد قومی اسمبلی میں بھی منظور کرایا گیا تھا۔

    بل کی شق 203 میں کہا گیا ہے کہ ہر پاکستانی شہری کسی بھی سیاسی جماعت کی رکنیت اور عہدہ حاصل کرسکتا ہے۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • شیخ رشیدنےانتخابی اصلاحات بل 2017 کیخلاف درخواست دائر کردی

    شیخ رشیدنےانتخابی اصلاحات بل 2017 کیخلاف درخواست دائر کردی

    اسلام آباد : عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید نے انتخابی اصلاحات بل 2017 کیخلاف درخواست دائر کردی ، جس میں نواز شریف کوبطور صدر مسلم لیگ ن کام کرنے سے فوری روکنے کی استدعا کی گئی ہے۔

    تفصیلات کے مطابق عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید نے انتخابی اصلاحات بل 2017 کیخلاف درخواست دائر کردی، درخواست سپریم کورٹ میں بیرسٹرفروغ نسیم کےذریعے دائر کی گئی، درخواست میں مؤقف اختیار کیا گیا ہے کہ سینیٹ میں الیکشن ایکٹ 2017 منظورکرتے وقت قواعد کی خلاف ورزی کی گئی۔

    درخواست میں استدعا کی گئی کہ نواز شریف کوبطور صدر مسلم لیگ ن کام کرنے سے فوری روکا جائے، الیکشن ایکٹ 2017 کا سیکشن 203اور232کالعدم قرار دیا جائے۔

    دائر درخواست میں کہا گیا کہ مسلم لیگ ن کے پارٹی صدر کے انتخاب کو کالعدم قرار دیا جائے۔

    عوامی مسلم لیگ کے سربراہ نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہ آج انہوں نے آئینی ترمیم الیکشن بل کی شق دوسو تین کیخلاف رٹ دائر کی ہے، الیکشن بل کی شق دوسو تین آئین سے متصادم ہے ، الیکشن بل کی شق203بدنیتی پر مبنی ہے ، نااہل شخص خود کو اہل بنا لے گاتو نااہلوں کاجمعہ بازار لگ جائیگا،چور کا ساتھی چور ہی ہوتا ہے۔


    مزید پڑھیں : نواز شریف کو پارٹی سربراہ بنانے کی راہ میں‌ حائل آخری رکاوٹ بھی دور


    شیخ رشید کا کہنا تھا کہ دنیا کی تاریخ میں نہیں ہے کہ سپریم کورٹ کیخلاف کوئی جائے، اداروں کو پیغام دیا گیا ہے کہ ہم فیصلے کو نہیں مانتے ،جب بھی یہ کیس لگے گا آئین اورقانون کو فتح ہوگی۔

    اضح رہے کہ دو روز قبل نااہل نواز شریف کو مسلم لیگ ن کی صدارت کا اہل بنانے کے لیے انتخابی اصلاحات ایکٹ 2017 سینیٹ کے بعد قومی اسمبلی میں بھی منظور کرایا گیا تھا۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • ایسامحسوس ہوتا ہے ہمیں انصاف نہیں ملا،انوشہ رحمان

    ایسامحسوس ہوتا ہے ہمیں انصاف نہیں ملا،انوشہ رحمان

    اسلام آباد : وزیر مملکت برائے آئی ٹی انوشہ رحمان کا کہنا ہے کہ ایسامحسوس ہوتا ہے ہمیں انصاف نہیں ملا، پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ مانیٹرنگ جج مقررکیا گیا ہے، مانیٹرنگ جج اس بینچ کاحصہ رہےجس نےہمارےخلاف فیصلہ سنایا۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ کے باہر وزیر مملکت برائے آئی ٹی انوشہ رحمان نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ایسا تاثرنہیں جانا چاہیے کہ سپریم کورٹ کیس میں مدعی بن گئی، جے آئی ٹی کی نامکمل تحقیقات پر ریفرنس کا حکم دینا درست نہیں۔

    انوشہ رحمان کا کہنا تھا کہ نیب کے نوٹسز شریف خاندان اوراسحاق ڈار کو موصول نہیں ہوئے، پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ مانیٹرنگ جج مقررکیا گیا ہے، مخصوص کیس کیلئے مانیٹرنگ جج عدالتی تاریخ میں پہلی مرتبہ لگا ہے۔


    مزید پڑھیں :  انوشے رحمان کا جے آئی ٹی پر جے آئی ٹی بنانے کا مطالبہ


    انھوں نے مزید کہا کہ مانیٹرنگ جج اس بینچ کاحصہ رہے، جس نے ہمارے خلاف فیصلہ سنایا، مانیٹرنگ جج ہی نظرثانی درخواست کوبھی سن رہےہیں، ایساحکم دیناسپریم کورٹ کی اپنی روایات کے منافی ہے۔

    وزیر مملکت برائے آئی ٹی کا کہنا تھا کہ ہم نے نشاندہی کی یہ ریفرنس عدالتی حکم پر دائر کیے جارہے ہیں، سپریم کورٹ کا ایسا ترجمہ ملا ہے، جو نوازشریف کیخلاف جاتا تھا۔

    انوشہ رحمان نے کہا کہ نااہلی کی سزایک نظام کے تحت ہوتی ہے، ٹرائل کورٹ کرتا ہے، درخواست کی ایسے معاملات ہونگے تو عدالتوں پرسوال اٹھیں گے۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • پاناما کیس فیصلہ پر نظرثانی درخواستوں پر سماعت، نوازشریف کے وکیل کو کل وقفے تک دلائل مکمل کرنے کی ہدایت

    پاناما کیس فیصلہ پر نظرثانی درخواستوں پر سماعت، نوازشریف کے وکیل کو کل وقفے تک دلائل مکمل کرنے کی ہدایت

    اسلام آباد : سپریم کورٹ میں پاناما کیس فیصلے پر نظرثانی سے متعلق درخواستوں پر سماعت کل تک ملتوی کرتے ہوئے نوازشریف کے وکیل خواجہ حارث کو کل وقفےتک دلائل مکمل کرنے کی ہدایت کردی، جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ نواز شریف کی نااہلی کا فیصلہ متفقہ ہے۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں 5رکنی لارجر بینچ پاناما کیس فیصلے پر نظرثانی سے متعلق درخواستوں پر سماعت کررہا ہے، سماعت شروع ہونے پر جسٹس آصف سعیدکھوسہ نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ کچھ نظرثانی درخواستیں 3 رکنی اور کچھ 5 رکنی بنچ کےخلاف ہیں۔

    نوازشریف کے وکیل خواجہ حارث نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ درخواستیں 5 رکنی بنچ اور 3 درخواستیں 3 رکنی بنچ کے خلاف ہیں، نوازشریف کے بچوں نے بھی درخواستیں دائر کی ہیں جبکہ اسحاق ڈار نے بھی لارجر بنچ کے فیصلے کے خلاف درخواست دائر کی ہے، جس پر جسٹس آصف سعیدکھوسہ کا کہنا تھا کہ ایک درخواست شیخ رشید نے بھی دائر کی ہے، شیخ رشید کی درخواست میں کیا ہے ابھی علم نہیں۔

    وکیل خواجہ حارث کا اپنے دلائل میں کہنا ہے کہ میں فیصلے کےقانونی نکات پر دلائل دونگا واقعات پر نہیں ، جولائی کو 5 رکنی بنچ اپنا فیصلہ دے چکا تھا، بعد میں 2 ججزکی بنچ میں شمولیت قانوناً درست نہیں تھی، نوازشریف کو شوکاز نوٹس دیکر وضاحت کا موقع ملنا چاہیے تھا، عدالت نے نواز شریف کو 62 ایکٹ کے تحت نااہل کیا، جسٹس اعجاز الاحسن نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ آپ نے 20 اپریل کے فیصلے کو چیلنج نہیں کیا،اس کا مطلب ہے کہ 20 اپریل کا فیصلہ تسلیم کیا گیا۔

    خواجہ حارث کے دلائل پر پانچ رکنی لارجر بینچ کے سربراہ خواجہ آصف نے کہا کہ3 رکنی بنچ نے ہی اپنا فیصلہ دیا ہے، آپ عملدرآمد بنچ کودوسرے بنچ سےمکس کررہےہیں، جے آئی ٹی رپورٹ کے بعد معاملہ 3 رکنی بنچ کےسامنے ہی آیا، رپورٹ آنے کے بعد عملدرآمد بنچ ختم ہوگیا تھا۔ دونوں فیصلوں میں نوازشریف کو نااہل کیا گیا۔

    عدالت نے کہا کہ اٹھائیس جولائی کو پانچ ججز نے اپنا فیصلہ دیا، تینوں میں کسی جج نے نہیں کہا کہ اقلیتی فیصلے سے اختلاف کرتے ہیں، بیس اپریل کو نااہل کرنے والوں نے اٹھائیس جولائی کو کچھ نہیں کہا، اختلاف کرنے والے جج بھی فیصلوں پر دستخط کرتے ہیں، ایسی عدالتی مثالیں موجود ہیں۔

    نواز شریف کے وکیل نے دلائل میں کہا سپریم کورٹ معاملے میں شکایت کنندہ بن چکی ہے،عدالت نے نیب کو ریفرنس کا حکم دیا، فیصلہ ہونا چاہئے تھا کہ نیب قانون کے مطابق کارروائی کرے، خلاف فیصلہ دینے والے جج کو نگران بنا دیا گیا ، ایسی مثال دنیا میں نہیں ملتی، عدالت نے جے آئی ٹی ارکان کی فیصلے میں تعریف بھی کی۔

    عدالت نے کہا جے آئی ٹی ارکان کی تعریف ضرور کی لیکن ٹرائل کورٹ ان کی اسکروٹنی ہوگی، ٹرائل کورٹ آزادی سے جو چاہے فیصلہ کرے گی، ٹرائل کورٹ میں آپ جے آئی ٹی ارکان پر جرح کرسکتے ہیں۔

    جسٹس آصف کھوسہ نے کہا کہ ہمیشہ اکثریت کےفیصلوں پر ہی دستخط کیے جاتے ہیں، آپ خود ایسے مقدمات میں عدالت کی معاونت کرچکےہیں، آئینی ترامیم کیس میں بھی تمام ججز نے الگ فیصلہ لکھا تھا، حتمی فیصلے پر دستخط سب نے کیے تھے، تلور کے شکار سے متعلق فیصلے میں بھی ایسا ہی ہوا تھا، 28 جولائی کو 2 ججز نے فیصلے میں کوئی اضافہ نہیں کیا تھا، فیصلے میں کوئی نیا کام نہیں ہوا، یہ عدالت کا معمول ہے۔

    خواجہ حارث نے اپنے دلائل میں کہا کہ2 ججز حتمی فیصلے پر دستخط کرچکے تھے،2 ججز نے نااہلی الگ معاملے پر کی، 3 نے الگ معاملے پر، 5 رکنی بنچ فیصلہ نہیں کرسکتا تھا، جس پر جسٹس عظمت سعید نے کہا کہ آئینی ترامیم کیس میں میرے فیصلے پر 8 ججز نے دستخط کیے، 28 جولائی کو پہلے 3 رکنی بنچ کا فیصلہ سنایا گیا۔

    وکیل صفائی نے کہا کہ 28 جولائی کے فیصلے میں اکثریت کا ذکر نہیں، جسٹس گلزار احمد نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ 2ججز کے فیصلے پر بھی کیس مکمل نہیں ہوا تھا، سماعت کو ایک ہی حتمی آرڈر کے ساتھ مکمل ہونا تھا، ججز نے اپنا فیصلہ تبدیل نہیں کیا تھا، جسٹس اعجازافضل نے کہا کہ 3ججوں نےفیصلہ تبدیل کیاہوتاتوعدالتی حکم تبدیل ہوجاتا۔

    نواز شریف کے وکیل کا کہنا تھا کہ اگر 3 میں سے2 جج درخواستیں خارج کردیتے تو فیصلہ کیاہوتا، جس پر جسٹس عظمت سعید نے کہا کہ ایسی صورت میں تین دو کی اکثریت سےفیصلہ ہوجاتا، جسٹس آصف سعیدکھوسہ نے سوال کیا کہ کیا 3 ججز 2 ججز کو بینچ سے نکال سکتے تھے؟ تو خواجہ حارث نے کہا کہ 2جج حتمی فیصلہ دیکر خود ہی بینچ سے نکل گئے، جسٹس آصف سعید نے مزید کہا کہ 3 ججز نے کہاں لکھا 2ججز کا فیصلہ ردی کی ٹوکری میں چلاگیا۔

    خواجہ حارث نے کہا کہ الگ سے 5رکنی بینچ قائم ہوتاتومعاملہ الگ ہوتا، جس پر جسٹس اعجازالاحسن نے سوال کیا آپ کہتے ہیں 3ججز کا فیصلہ اختلافی ہوتا تو نااہلی نہ ہوتی؟ حتمی فیصلہ پھر بھی 5ججوں کا ہی ہونا تھا، مزید ایک جج بھی نااہل کردیتا تو تین دو سے فیصلہ ہوتا، 20 اپریل کے فیصلے سے کیس مکمل نہیں ہوا۔

    وکیل کا کہنا تھا کہ 2 ججز کی نااہلی کو 3 ججز نے آج بھی تسلیم نہیں کیا، تینوں ججوں نے نااہلی کیلئے اپنا الگ فیصلہ دیا، جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ دو ججز کا فیصلہ اب بھی برقرار ہے، دونوں ججوں کا فیصلہ ردی کی نذر نہیں ہوا۔

    وکیل صفائی نے کہا کہ دو جج 20 اپریل کے فیصلے کے بعد کارروائی کا حصہ ہی نہیں تھے، جسٹس عظمت سعید نے کہا کہ آبزرویشن کامقصدمزیدتہہ تک جاناہوتاہے، عدالت میں خاموش ہو کر نہیں بیٹھ سکتے، خواجہ حارث کا کہنا تھا کہ جنہوں نے کیس نہیں سنا تھا، انہیں نظرثانی پر کیا دلائل دوں۔

    جس پر جسٹس آصف کھوسہ نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ آپ کی بات مان کرہی لارجربینچ تشکیل دیاگیا ہے، خواجہ حارث کا کہنا تھا کہ 2 ججز کو 3ججز سے اختلاف ہے تو نظرثانی3ججز کو سننی چاہیے، جسٹس گلزاراحمد نے کہا کہ اختلاف جے آئی ٹی بنانے پر تھا نااہلی پر نہیں،جسٹس کھوسہ نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ آپ نے3ججز کو قائل کرنا ہے تو انہیں کرلیں، 3 ججز کے فیصلے سے اختلاف کریں یا نہیں فرق نہیں پڑتا۔

    نظرثانی درخواستوں کی سماعت میں آدھے گھنٹے کے وقفے کے بعد ایف زیڈ ای کے معاملے پر دلائل دیتے ہوئے خواجہ حارث نے کہا کہ کیپٹل ايف زيڈای کامعاملہ عدالت کے سامنے نہیں اٹھایا گیا تھا، جنہوں نےایف زیڈ ای پر سماعت نہیں کی انہوں نے دستخط کیے، جسٹس عظمت سعید نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ اقلیتی فیصلہ تقاریر میں تضاد اور ذرائع نہ بتانے پر تھا، اکثریت فیصلے میں مختلف بنیاد پر نااہل کیاگیا، فیصلے میں آبزرویشن نیب قانون اورٹرائل کیلئے تھیں۔

    خواجہ حارث نے کہا کہ سوال یہ ہے 2الگ وجوہات پر62ون ایف لگایاجاسکتاہے؟ 62 ون ایف کےتحت نااہلی تاحیات ہے؟ جس کے جواب میں جسٹس اعجازافضل نے کہا کہ فیصلےمیں یہ کہاں لکھاہےکہ نااہلی تاحیات ہوگی، تاحیات نااہلی کےمعاملےپرآپ کی معاونت درکارہوگی۔

    وکیل صفائی نے کہا کہ تنخواہ نہ وصول یاظاہرنہ کرنےپر62ون ایف کیسےلگ سکتاہے، جس پر جسٹس عظمت سعید نے کہا کہ نوازشریف ایف زیدای بورڈآف ڈائریکٹرکےچیئرمین تھے،خواجہ حارث نے مزید کہا کہ اثاثہ وہ ہوتا ہے، جو مالک کےقبضےمیں ہو، ڈکشنری میں تنخواہ کی کئی تعریفیں موجود ہیں، عدالت نے وہی تعریف کیوں لی جو نوازشریف کے خلاف جاتی تھی،خواجہ حارث

    جسٹس اعجازالاحسن نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ عدالتی فیصلےمیں محتاط زبان استعمال کی گئی، ہم نہیں چاہتے ٹرائل کورٹ پر عدالتی حکم اثر ہو۔

    سپریم کورٹ میں نظرثانی درخواستوں پر سماعت کل تک ملتوی کرتے ہوئے خواجہ حارث کو کل وقفے تک دلائل مکمل کرنے کی ہدایت کردی ، جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ جمعے کے بعد یہ بینچ شاید دستیاب نہ ہو، جمعےتک یہ سماعت مکمل کرنی ہے۔

    یاد رہے گذشتہ روز چیف جسٹس میاں ثاقب نثارنےجسٹس آصف سعیدکھوسہ کی سربراہی میں لارجربینچ تشکیل دیا تھا، جسٹس گلزار، جسٹس اعجاز افضل،جسٹس عظمت سعیداورجسٹس اعجازالحسن بینچ کا حصہ ہوں گے۔

    خیال رہے کہ تین رکنی بینچ نے شریف فیملی کےوکیل کی درخواست پر لارجر بنچ کی سفارش کی تھی جبکہ پاناماپیپرز سے متعلق درخواستوں کی سماعت جسٹس آصف کھوسہ کی سربراہی میں اسی پانچ رکنی بینچ نے کی تھی۔


    پاناما کیس نظرثانی: شریف خاندان کی سماعت مؤخرکرنے کی اپیل


    واضح رہے کہ سابق وزیراعظم نوازشریف کے بعد ان کے بچوں نے بھی سپریم کورٹ میں پاناما کیس کے فیصلے پرنظرثانی کی درخواست پرسماعت مؤخر کرنے کی اپیل کی تھی اورسماعت کے لیے پانچ رکنی لارجر بینچ تشکیل دینےکی استدعا کی تھی۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔