Tag: tourism

  • استنبول کی سیاحت ان ننھے منے فن پاروں کے ذریعے کریں

    استنبول کی سیاحت ان ننھے منے فن پاروں کے ذریعے کریں

    ہم میں سے تقریباً ہر دوسرا شخص سیاحت کا شوقین ہوتا ہے۔ سیاحت کے لیے بذات خود سفر کرنا تو عام ہے تاہم بعض اوقات آپ تصاویر اور فن پاروں کے ذریعے بھی کسی مقام کی سیر کرسکتے ہیں۔

    ترکی کا فنکار حسن کال بھی ایسا ہی فنکار ہے جو اپنے فن پاروں کی مدد سے آپ کو ترکی کے تاریخی شہر استنبول کی سیر کروا سکتا ہے۔

    اور مزے کی یہ بات ہے کہ یہ سیر نہایت ہی ننھے منے فن پاروں کے ذریعے کی جائے گی۔

    حسن دراصل منی ایچر تخلیق کار ہیں یعنی ننھی منی اشیا پر اپنے فن کے جوہر دکھاتے ہیں۔ انہیں سولہویں صدی کے معروف اطالوی مصور مائیکل انجیلو کی نسبت سے ’مائیکرو اینجلو‘ بھی کہا جاتا ہے۔

    حسن پھلوں کے ننھے منے بیجوں سے لے کر بوتل کے ڈھکنوں اور بلیڈ تک کو خوبصورت رنگوں سے سجا کر اسے فن پارے میں تبدیل کردیتے ہیں۔

    آئیں ان کے تخلیق کردہ خوبصورت فن پارے دیکھتے ہیں۔

  • چلتے ہیں چین کے طلسماتی ’ممنوعہ‘ شہرمیں

    چلتے ہیں چین کے طلسماتی ’ممنوعہ‘ شہرمیں

    تحریر:وقاراحمد


    ثقافتی مقامات کو زندہ رکھنے والے ممالک کی فہرست میں چین دنیا بھر میں دوسرے نمبر پر ہے۔ یونیسکوکے مطابق چین میں 53ایسے مقامات ہیں جو صدیوں پرانے لیکن اپنی اصل حالت میں آج بھی موجود ہیں۔

    انہی صدیوں پرانے مقامات میں ایک ’شہر ممنوعہ‘ بھی ہے ۔آئیں آج آپ کو سیر کرائیں چین کے اس شہر کی جہاں کی سیر کرنا 600سال تک ممنوع رہاکیونکہ اس شہر میں قائم ہے دنیا کا سب سے بڑا محل جو صرف ایک بادشاہ کی خواہش کی تکمیل کیلئے 10لاکھ مزدوروں نے مل کربنایا تھا۔

    اس بادشاہ کا نام تھا ’کنگ ژوڈی‘ اور یہ چین کی مِنگ سلطنت کا چشم و چراغ تھا اور اس کا بنایا ہوا یہ محل قِنگ سلطنت تک قریباً چھ سو سال تک حکمران خاندان کی ملکیت رہا لیکن سلطنت کے خاتمے کے بعد یہ محل چینی حکومت کے کنٹرول میں آگیا۔یہ شہر بیجنگ کے بالکل وسط میں قائم کیا گیا ہے جس میں 980 بڑی عمارات اور 1000 پرتعیش کمرے موجود ہیں۔

    ژوڈی کا شمار چین کے چند طاقتور ترین بادشاہوں میں ہوتا ہے جس کا خاندان 600سال تک چین پر حکمرانی کرتا رہا لیکن ژوڈی کو اس کی رعایا حکمران سے زیادہ خدا مانتی تھی جو ان کے مطابق اپنی رعایا اور درباریوں کی زندگی اور موت کا فیصلہ کرتا تھا ،ژوڈی کو چین کے لوگ جنت کا بیٹا کہا کرتے تھے۔ ژوڈی نے دنیا کا یہ سب سے بڑا محل چنگیز خان کے پوتے قبلائی خان کا بیجنگ میں قدیم محل مسمار کرکے بنوایا تھا۔

    نانجنگ میں منگولوں کے پے درپے حملوں سے تنگ آکر کنگ ژوڈی نے نانجنگ چھوڑنے اور بے ژنگ (بیجنگ) منتقل ہونے کا فیصلہ کیا ۔1406ءمیں ژوڈی اپنے اہل و عیال اور مال و متاع سمیت بے ژنگ منتقل ہوا ۔بے ژنگ میں قبلائی خان کا ایک محل شہر کے عین وسط میں موجود دیکھ کر ژوڈی نے یہیں رہائش کا فیصلہ کیا اور حکم دیا کہ قبلائی خان کا محل مسمار کرکے نیا شہر آباد کیا جائے۔

    اس مقصد کیلئے 1407ءمیں پرانے محل کو ریزہ ریزہ کرکے اسی کی باقیات پر نئے محل کی تعمیر شروع کردی گئی۔1000کمروں پر مشتمل عالیشان محل کی تیاری کیلئے چین بھر سے 10لاکھ انتہائی ماہر اور جوان مزدور اکٹھے کئے گئے جنہوں نے مسلسل 14سال کی انتھک محنت کے بعد کنگ ژوڈی کے خواب کو فنِ تعمیر کے اس شاہکار کی صورت میں حقیقت کا روپ دیا۔1421ءمیں اس محل کی تعمیر مکمل ہوئی توبادشاہ کے حکم پر اس کے گرد اونچی اور مضبوط چاردیواری قائم کرکے اسے یعنی شہر ممنوعہ قرار دیدیا گیا ۔

    مجھے 2دسمبر کی صبح اس شہرممنوع میں قدم رکھنے کا اتفاق ہوا،یہ واقعی شہر کے اندر قائم ایک الگ شہر ہے جس میں 100فٹبال گراؤنڈ باآسانی سما سکتے ہیں،آپ کو پورا محل دیکھنے کیلئے کم سے کم 2دن درکار ہوں گے،کاریگروں کی مہارت اور فن تعمیر پر عبور دیکھ کر آپ عش عش کراٹھیں گے۔اس شہر ممنوع میں رائل فیملی کے علاوہ کسی کو داخلے کی اجازت نہیں تھی البتہ سال ِنو کی تقریب کیلئے شہری اس شہر میں داخل ہوسکتے تھے ۔اس کے علاوہ غلطی سے بھی شہر میں داخل ہونے والوں کیلئے موت کی سزامقرر تھی ۔

    اس شہر کی تعمیر کیلئے 10سال تک لکڑی اور سنگ مرمر جمع کیا جاتا رہا۔300ٹن وزنی سنگ مرمر کے پتھروں کو چین کے کونے کونے سے گھوڑا گاڑیوں کے ذریعے بے ژنگ لایا گیا۔لکڑی اور پتھر جمع کرکے نیا شہر آباد کرنیوالے تمام مزدوروں کے ناموں کی فہرست آج بھی محل میں موجود ہے۔بادشاہ ژوڈی کیلئے اس شہرمیں کئی تخت بھی بنائے گئے ہیں جن میں زیادہ تر سونے سے بنے ہیں اور آج بھی محل میں موجود ہیں۔ان تختوں پر ڈریگن بنائے گئے ہیں جو کہ چین میں طاقت کی علامت سمجھے جاتے ہیں،یہ ڈریگن درحقیقت محل میں ہر جگہ کندہ اور تعمیر ہیں۔

    آپ محل میں کہیں بھی چلے جائیں یہ ڈریگن آپ کے ساتھ ساتھ چلیں گے یہاں تک کہ رائل فیملی کے کپڑوں اور برتنوں پر بھی ڈریگنز کی تصاویر موجود ہیں، محل میں ڈریگن نما 1000پرنالے بھی بنائے گئے ہیں جو بارش کے پانی کی نکاسی کرتے ہیں انہیں دیکھ کر گمان ہوتا ہے کہ شایدیہ فرضی جانور حقیقت میں یہاں موجود ہوں۔شہرممنوع میں داخل ہونے کیلئے 3مرکزی دروازے ہیں جن میں سب سے بڑے دروازے کی لمبائی 12منزلہ عمارت سے بھی زیادہ ہے۔ان میں سے عام دروازہ تیانمن دروازہ ہے جو سیاحوں کیلئے روز کھلتا ہے۔

    بادشاہ ژوڈی رات کے تین بجے دربار لگانے کا عادی تھا اور درباری اسی تیانمن دروازے سے داخل ہوکر بادشاہ کے پاس پہنچتے،انہیں ملکی حالات اور مسائل سے آگاہ کرتے تھے۔ دربار کے دوران کھانسنے اور آپس میں باتیں کرنے پر اذیت ناک سزائیں دی جاتی تھیں۔ محل میں رائل فیملی کی خواتین کیلئے بھی انتہائی خوبصورت مقام قائم کیا گیا ہے ،رہائش کیلئے 12وسیع و عریض کمرے ہیں جن میں بادشاہ کے علاوہ کسی کو داخلے کو اجازت نہیں تھی یہاں تک کہ خواتین ملازمائیں بھی ان کمروں کے قریب نہیں بھٹک سکتی تھیں۔

    بادشاہ ژوڈی سمیت اس کے خاندان کے تمام بادشاہوں کی کئی کئی بیگمات اور بچے ہوا کرتے تھے۔17ویں صدی کے بادشاہ کنگ لوئی کی 13سے 17سال کے درمیان کی سب سے زیادہ 38بیگمات تھیں۔کنگ لوئی 60سال تک چین پر حکمران رہا۔اس کی سلطنت کے خاتمے کے بعد آسمانی بجلی گرنے سے محل میں شدید آگ لگی اور محل کا ایک بڑا حصہ جل کر خاکستر ہوگیا جسے بعد میں پورے ملک سے ماہر کاریگر منگوا کر دوبارہ تعمیر کروادیا گیا۔

    بیس ویں صدی کے وسط میں چین میں انقلاب کے بعد شہرممنوع اب مزید ممنوع نہیں رہا اور اسے عجائب گھر بنا دیاگیا اورشہر کی تعمیر کے 600سال مکمل ہونے پر اسے عوام کی سیروتفریح کیلئے کھول دیا گیا یونیسکو نے اس محل کو دنیا کا قدیم ترین ثقافتی سٹرکچر قراردیاہے اور اب ایک اندازے کے مطابق دنیا بھر سے سالانہ 80لاکھ سیاح اس قدیم شہر کی سیر کیلئے بیجنگ آتے ہیں۔

  • برفیلی آبشار سے جنم لیتی قوس قزح

    برفیلی آبشار سے جنم لیتی قوس قزح

    چین کے صوبے شانزی میں پائی جانے والی ہوکو آبشار ویسے تو دنیا کی انوکھی ترین آبشار ہے تاہم موسم سرما میں اس کی انفرادیت میں اور بھی اضافہ ہوجاتا ہے جب اس کے اوپر قوس قزح نمودار ہوجاتی ہے۔

    شانزی میں پایا جانے والا زرد دریا یعنی یلو ریور دنیا کا انوکھا ترین دریا ہے جس کے پانی کا رنگ زرد ہے۔ یہ جنوبی ایشیا کا دوسرا اور دنیا کا چھٹا طویل ترین دریائی سسٹم ہے۔

    دریا کے دہانے پر ہوکو آبشار بھی موجود ہے اور اس کا رنگ بھی زرد ہے۔

    سخت سردیوں میں جب سورج کی کرنیں برف سے گزرتی ہیں تو آبشار کے دونوں کناروں پر قوس قزح تشکیل دے دیتی ہیں جو نہایت مسحور کن منظر معلوم ہوتا ہے۔

    موسم سرما میں یہ دریا اور آبشار جم جاتا ہے جسے دیکھنے کے لیے سیاح کھنچے چلے آتے ہیں۔ مقامی انتظامیہ کی جانب سے سیاحوں کو ایسے موقع پر محتاط رہنے کی ہدایت بھی کی جاتی ہے۔

  • پاکستان میں ماحول دوست سیاحت کی بے پناہ گنجائش ہے، وزیرِ اعظم عمران خان

    پاکستان میں ماحول دوست سیاحت کی بے پناہ گنجائش ہے، وزیرِ اعظم عمران خان

    اسلام آباد: وزیرِ اعظم عمران خان نے کہا ہے کہ پاکستان میں ماحول دوست سیاحت کو فروغ دینے کی بے پناہ گنجائش موجود ہے۔

    تفصیلات کے مطابق عمران خان نے سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ٹویٹر پر کہا کہ جنوب میں ہمارے ساحلوں سے شمال کے مرغزاروں تک یہ سرزمین سیاحت کی بھرپور تاریخ سے بھری پڑی ہے۔

    وزیر اعظم عمران خان نے اپنے ٹویٹ میں خوب صورت پاکستان کی تصاویر بھی شیئر کیں۔

    انھوں نے کہا کہ ہم نے ملک میں ماحول دوست سیاحت کے فروغ کا عزم کر رکھا ہے، اس عزم کو ہم پورا کریں گے۔ خیال رہے وزیرِ اعظم نے حال ہی میں کلین اینڈ گرین پاکستان مہم کا آغاز بھی کیا تھا۔

    گزشتہ ہفتے وزیرِ اعظم عمران خان نے ملک میں سیاحت کے شعبے کو فروغ دینے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا تھا کہ سیاحت کے فروغ کے راستے سے تمام رکاوٹیں دور کی جائیں گی۔


    یہ بھی پڑھیں:  وزیراعظم کا سیاحت کے فروغ کے لیے ٹاسک فورس قائم کرنے کا حکم


    سیاحت پر قومی ٹاسک فورس کے اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے انھوں نے ہدایت کی تھی کہ ملک میں سیاحت سے متعلق منصوبوں کے ساتھ ساتھ ماحولیاتی اور ثقافتی تحفظ کو بھی یقینی بنایا جائے۔

  • پیرو کا خوبصورت پہاڑ آنکھوں میں قوس قزح بھر دے

    پیرو کا خوبصورت پہاڑ آنکھوں میں قوس قزح بھر دے

    بارشوں کے بعد دھنک یا قوس قزح کا نکلنا نہایت خوبصورت منظر ہوتا ہے جو کم ہی نظر آتا ہے۔ بارش کے بعد فضا میں موجود قطروں سے جب سورج کی شعاعیں گزرتی ہیں تو یہ سات رنگوں میں بدل جاتی ہیں جسے دھنک کہتے ہیں۔

    جنوبی امریکی ملک پیرو میں واقع ایک پہاڑ بھی قوس قزح جیسا منظر پیش کرتا ہے جسے دیکھنے کے لیے سیاح کھنچے چلے آتے ہیں۔

    پیرو کا یہ پہاڑ جسے 7 رنگوں کا پہاڑ بھی کہا جاتا ہے، سطح سمندر سے 5 ہزار 200 میٹر بلند ہے۔

    اس پہاڑ کے رنگین ہونے کی وجہ یہ ہے کہ جب یہاں پر جمنے والی برف پگھلتی ہے تو اس پانی کی آمیزش زمین کے اندر موجود معدنیات کے ساتھ ہوجاتی ہے جس کے بعد مختلف رنگ ظاہر ہوجاتے ہیں۔

    سرخ رنگ زمین کے اندر موجود زنگ آلود آمیزوں کی وجہ سے، زرد رنگ آئرن سلفائیڈ، ارغوانی یا جامنی رنگ آکسیڈائزڈ لیمونائٹ اور سبز رنگ کلورائٹ کی وجہ سے پیدا ہوتا ہے۔

    کیا آپ اس رنگ برنگے پہاڑ کا دورہ کرنا چاہیں گے؟

  • قدیم قلعوں کی بحالی کا حیرت انگیز عمل

    قدیم قلعوں کی بحالی کا حیرت انگیز عمل

    آپ جب بھی کسی تاریخی مقام یا کھنڈرات کا دورہ کرتے ہوں گے تو یقیناً آپ کے ذہن میں اس کے ماضی کی تصویر کھنچ جاتی ہوگی کہ پرانے دور میں یہ جگہ کیسی ہوتی تھی اور یہاں کون لوگ رہتے تھے۔

    پرانے دور کے تاریخی مقامات کو واپس ان کی اصل شکل میں لانا ایک مشکل ترین عمل ہوتا ہے جو بہت زیادہ محنت اور بڑے خرچ کا متقاضی ہوتا ہے۔

    بعض کھنڈرات زمانے کے سرد و گرم کا اس قدر شکار ہوچکے ہوتے ہیں کہ ان کی بحالی کسی طور ممکن نہیں ہوتی، ایسے میں ان کے بچے کچھے آثار کی ہی حفاظت کی جاسکتی ہے۔

    مزید پڑھیں: کلائمٹ چینج کے باعث خطرے کا شکار تاریخی مقامات

    تاہم ڈیجیٹل دور میں کسی بھی شے کو کم از کم تصاویر کی حد تک ان کی اصل شکل میں لایا جاسکتا ہے۔

    ایک برطانوی ڈیجیٹل فنکار نے بھی ایسی ہی ایک کامیاب کوشش کی ہے جس کے تحت اس نے برطانیہ کے قدیم قلعوں کی اصل حالت میں تصویر کشی کردی۔ اس کام کے لیے اس نے ایک ماہر تعمیرات اور ایک تاریخ داں کی مدد بھی لی۔

    اس کی تیار کردہ تصاویر نہایت خوبصورت ہیں جو آپ کو دنگ کردیں گی۔


    ڈنلس قلعہ

    شمالی آئرلینڈ میں سمندر کنارے واقع یہ قلعہ 1500 عیسوی میں تعمیر کیا گیا، تاہم صرف ڈیڑھ سو سال بعد ہی اس کو خالی کردیا گیا۔

    کہا جاتا ہے کہ ایک دفعہ جب یہاں پر رہائش پذیر انٹریم کا شاہی خاندان کھانے کا انتظار کر رہا تھا تو اونچائی پر واقعہ محل کا کچن اچانک ٹوٹ کر سمندر میں جا گرا اور کچن میں موجود عملہ بھی سمندر برد ہوگیا۔


    ڈنسٹنبرگ قلعہ

    انگلینڈ میں واقع یہ قلعہ کنگ ایڈورڈ دوئم نے ( 1200 عیسوی کے اواخر میں) تعمیر کروایا تھا۔ یہ قلعہ ایک جنگ کے دوران تباہ ہوگیا تھا۔


    بوتھ ویل قلعہ

    اسکاٹ لینڈ کا یہ قلعہ تیرہویں صدی میں قائم کیا گیا اور انگریزوں اور اسکاٹس کے درمیان جنگ میں باری باری دونوں فریقین کے قبضے میں آتا رہا۔

    اس قلعے میں رہنے والی ایک معزز خاتون بونی جین قریبی دریا پار کرتے ہوئے ڈوب کر ہلاک ہوگئی تھی جس کی روح اب بھی راتوں میں یہاں بھٹکتی ہے۔


    گڈ رچ قلعہ

    انگلینڈ کا ایک اور قلعہ گڈرچ سنہ 1102 عیسوی میں تعمیر کیا گیا۔ جنگ کے دوران دشمن پر گولے پھینکنے کے لیے قلعے کی چھت پر ایک بڑی توپ بھی نصب کی گئی تھی۔


    کے آرلوروک قلعہ

    اسکاٹ لینڈ میں موجود کے آرلوروک قلعہ برطانیہ کا واحد قلعہ ہے جس میں تکون مینار نصب ہے۔ یہ سنہ 1208 عیسوی میں تعمیر کیا گیا۔

    چودہویں صدی میں انگریزوں سے جنگ کے دوران اسے تباہ کردیا گیا تاکہ دشمن یہاں قابض نہ ہوسکیں۔ 1570 عیسوی میں ارل آف سسکیس نے اسے دوبارہ تعمیر کروایا تاہم اس کے کچھ ہی عرصے بعد اسے ایک بار پھر دشمنوں کے خوف سے تباہ کردیا گیا۔


    کڈ ویلی قلعہ

    ویلز میں واقعہ یہ قلعہ 1106 میں بنایا گیا۔ یہ برطانیہ میں موجود تمام قلعوں میں نسبتاً بہترین حالت میں موجود ہے۔

  • سیاحت کے لیے20 محفوظ ممالک، بھارت 16 ویں نمبرپر

    سیاحت کے لیے20 محفوظ ممالک، بھارت 16 ویں نمبرپر

    کیا آپ سیاحت کے شوقین ہیں، اگر ہاں تو  محفوظ ترین ممالک کی یہ فہرست آپ ہی کے لیے ہے جس میں آئس لینڈ کو سیاحت کے لیے سب سے محفوظ قراردیا گیا ہے جبکہ بھارت اس میں سولہویں نمبر پر ہے۔

    فٹ فار ٹریول نامی ویب سائٹ نے یہ فہرست جرائم کی شرح ، دہشت گرد حملوں کا خدشہ، قدرتی آفات اور سیاحوں کو میسر صحت کی سہولیات کو مدنظر رکھتے ہوئے مرتب کی ہے۔ اس فہرست کے لیے ڈیٹا ورلڈ اکانومک فنڈ کی رپورٹس، ورلڈ رسک رپورٹ برائے قدرتی آفات اور فارن آفس کی دہشت گردی کے خدشات کے حوالے سے کی جانے والی اسسمنٹ رپورٹ سے حاصل کیا گیا ہے۔

    آئس لینڈ اس فہرست میں سب سے اوپر ہے جس کا سبب وہاں قدرتی آفات کے خطرے کا انتہائی کم ہونا اور جرائم کی کم ترین شرح ہے۔ دوسری جانب دہشت گرد حملوں کا ممکنہ نشانہ بننے کے خطرے کے باوجود ’یو اے ای‘ اس فہرست میں دوسرے نمبر پر ہے۔

    سنگاپور اس فہرست میں تیسرے نمبر پر ہے تاہم یہاں سفر کرنے والوں کو زیکا وائرس کے خدشے کا سامنا رہے گا۔ چوتھا محفوظ ترین ملک اسپین ہے جبکہ اس کے بعد آسٹریلیا، کینیڈا، جاپان ، مراکش، اردن اور بارباڈوس کا نمبر ہے۔

    مذہبی شدت پسندی ، صحت کی سہولیات کی عدم فراہی ، ریپ اورجرائم کی بڑھی ہوئی شرح کے سبب بھارت اس فہرست میں سولہویں نمبر ہے ۔ اس فہرست نے جنوبی افریقا کو سب سے خطرناک ملک قرار دیا گیا ہے جبکہ دہشت گردوں حملوں کے شدید خدشات کے سبب ترکی اس فہرست میں دوسرے نمبرپر ہے۔

    سیاحت کے لیے بے شمار قدرتی مقامات سے مالا مال پاکستان بدقسمتی سے اس فہرست میں جگہ بنانے میں کامیاب نہیں ہوسکا، تاہم موجودہ حکومت کی جانب سے سیاحت کے فروغ کے لیے کیے جانے والے اقدامات کے سبب امید ہے پاکستان آئندہ برس اس فہرست میں جگہ بنانے میں کامیاب ہوجائے گا۔

  • وزیراعظم کا سیاحت کے فروغ کے لیے ٹاسک فورس قائم کرنے کا حکم

    وزیراعظم کا سیاحت کے فروغ کے لیے ٹاسک فورس قائم کرنے کا حکم

    اسلام آباد: وزیراعظم عمران خان نے سیاحت کے فروغ کے لیے ٹاسک فورس قائم کرنے کا حکم دے دیا.

    تفصیلات کے مطابق وزیراعظم کی زیر صدارت سیاحت کےفروغ سےمتعلق خصوصی اجلاس ہوا، جس میں وزیراعظم نے ٹاسک فورس قائم کرنے کی ہدایت کی.

    موصولہ اطلاعات کے مطابق وزیراعظم عمران خان ٹاسک فورس کےسربراہ ہوں گے، ٹاسک فورس میں صوبوں، آزادکشمیراورگلگت بلتستان کے نمائندے شامل ہیں.

    اجلاس میں تمام صوبوں کےمتعلقہ نمائندوں نےشرکت کی، آزادکشمیراور گلگت بلتستان کی حکومت کے نمائندوں نے بھی شرکت کی.

    وزیراعظم نے تمام صوبوں سے ایک ہفتے میں سیاحت کےفروغ سےمتعلق تجاویزمانگ لیں.

    مزیر پڑھیں: سیاحت کا عالمی، پاکستان میں سیاحت کے 12 بہترین مقامات

    اس موقع پر وزیراعظم نے کہا کہ اپنے صوبوں میں سیاحتی مقامات کی نشان دہی کریں، پاکستان سیاحتی مقامات سے مالا مال ملک ہے.

    وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ سیاحت کے فروغ سے مقامی افراد کو بھی فائدہ ہوگا، بیش تر ممالک سیاحت سے ریوینیو حاصل کرتے ہیں.

    عمران خان نے کہا کہ وفاقی حکومت سیاحت کےفروغ کے لئےہرممکن مددفراہم کرےگی، ایکوٹورازم،مذہبی سیاحت اورایڈونچرسیاحت کےفروغ کی ضرورت ہے، ٹورارسٹ ریزارٹ کےقیام پربھی خصوصی توجہ دینےکی ضرورت ہے۔

    انھوں نے مزید کہا کہ سیاحت کےفروغ کے لئے ایک مفصل اور جامع پالیسی تشکیل دی جائےگی، سیاحتی،تاریخی مقامات پرتوجہ دینےسےلاکھوں نوجوانوں کوروزگارمیسرآئےگا۔

  • سیاحت کا عالمی، پاکستان میں سیاحت کے 12 بہترین مقامات

    سیاحت کا عالمی، پاکستان میں سیاحت کے 12 بہترین مقامات

    آج پاکستان سمیت دنیا بھر میں سیاحت کا عالمی دن منایا جارہا ہے، آج کے دن کو منانے کا مقصد سیاحت کی بدلتی ہوئی ترجیحات اور اس کی ڈیجیٹل ٹرانسفارمیشن ہے، پاکستان میں سیاحت کے لیے وسیع ترمواقع میسر ہیں۔

    سیاحتی مقامات اپنے اندر قدرتی طورپرایسی کشش رکھتے ہیں کہ زمانہ قدیم سے سیاحت کے شوقین افراد ان کا مشاہدہ کرنے کے لئے دوردرازکے سفراختیار کرتے رہے ہیں۔ پاکستان کا شماراپنے جغرفیائی محلِ وقوع کے لحاظ سے دنیا کے ان خوش قسمت ممالک میں ہوتا ہے جہاں ایک جانب بلند و بالا پہاڑ ہیں تو دوسری جانب وسیع وعریض زرخیزمیدان بھی موجود ہیں۔

    دنیا کے بیشترممالک میں ایک بھی دریا نہیں بہتا جبکہ پاکستان کی سرزمین پر17 بڑے دریا بہتے ہیں، یہاں سبزہ زار بھی ہیں اور ریگ زار بھی، ہمارے وطن عزیز میں چاروں موسم آتے ہیں اور اپنی چھب دکھاتے ہیں ۔الغرض ہرمزاج کے ملکی اورغیر ملکی سیاحوں کے لئے قدرت نے یہاں دل پذیری کا بھرپورانتظام کررکھا ہے۔

    آج ہم آپ کو پاکستان کے چاروں صوبوں میں سےمنتخب سیاحتی مقامات کے بارے میں معلومات فراہم کررہے ہیں تاکہ آپ طے کرسکیں کہ گرمیوں کی چھٹیاں گزارنے کے لئے آپ کےمزاج کے مطابق موزوں ترین علاقہ کون ساہے۔

    گورکھ ہل


    سندھ کے شہردادوکے شمال مغرب کوہ کیرتھر پرگورکھ ہل اسٹیشن واقع ہے، یہ صوبہ سندھ کا بلند ترین مقام ہے اور سطح سمندر سے5،688فٹ بلند ہے جوکہ پاکستان کے مشہور ترین ہل اسٹیشن مری کا ہم پلہ ہے۔ کراچی سے گورکھ ہل اسٹیشن کا فاصلہ 400 کلومیٹرہے ۔

    گورکھ ہل کا حسین منظر

    مہرانو وائلڈ لائف


    سندھ کے علاقے کوٹ دیضی سے دو کلومیٹر کے فاصلے پرمہرانو وائلڈ لائف سینچری واقع ہے یہ ایک وسیع و عریض محفوظ جنگل ہے جہاں مختلف اقسام کی جنگلی حیات کو تحفظ فراہم کیا گیا ہے۔ یہاں ہزاروں کی تعداد میں جنگلی ہرن موجود ہیں جبکہ تیزی سے معدوم ہوتے کالے ہرن کو بھی یہاں تحفظ فراہم کیا جارہاہے اور اب انکی تعداد لگ بھگ 650 ہوگئی ہے۔

    مہرانو میں تحفظ یافتہ کالے ہرن

    ہنگول نیشنل پارک


    بلوچستان میں واقع ہنگول نیشنل پارک پاکستان کا سب سے بڑا نیشنل پارک ہے جو 6،19،043 ایکڑرقبے پرپھیلا ہوا ہے۔ کراچی سے 190 کلومیٹر دوریہ پارک بلوچستان کے تین اضلاع گوادر،لسبیلہ اورآواران کے علاقوں پر مشتمل ہے۔ اس علاقہ میں بہنے والے دریائے ہنگول کی وجہ سے اسکا نام ہنگول نیشنل پارک رکھا گیا ہے۔ اس علاقہ کو 1988میں نیشنل پارک کا درجہ دیا گیا۔ ہندوؤں کا معروف ہنگلاج مندربھی اس پارک میں‌واقع ہے

    یہ پارک کئی اقسام کے جنگلی درندوں ، چرندوں آبی پرندوں ، حشرات الارض دریائی اور سمندری جانوروں کا قدرتی مسکن ہے۔امید کی دیوی یا پرنسز آف ہوپ کہلایا جانے والا 850سال قدیم تاریخی مجسمہ بھی اسی نیشنل پارک کی زینت ہے۔

    پیرغائب


    بلوچستان کے صوبائی دارالحکومت کوئٹہ سے 70 کلومیٹر کے فاصلے پرپیرغائب نامی مقبول تفریح گاہ ہے جہاں بلاشبہ بلوچستان کا سب سے خوبصورت آبشارواقع ہے۔ آبشار سے بہنے والا پانی چھوٹے تالابوں کی صورت جمع ہوتا ہے اور کھجور کے درختوں کے ساتھ مل کر انتہائی دل آویز منظر تشکیل دیتا ہے۔ یہاں آنے کے سبی روڈ سے جیپ لینا پڑتی ہے۔

    پیر غائب کا فضائی منظر

    کھیوڑہ کی نمک کی کانیں


    پاکستان کے ضلع جہلم میں کھیوڑہ نمک کی کان واقع ہے۔ یہ جگہ اسلام آباد سے 160 جبکہ لاہور سے قریبا 250 کلومیٹرفاصلہ پرہے۔

    کھیوڑہ میں موجود نمک کی یہ کان جنوبی ایشیا میں قدیم ترین ہے اور دنیا میں دوسرا بڑا خوردنی نمک کا ذخیرہ ہے۔ اس کے متعلق کہا جاتا ہے کہ جب سکندر اعظم 322 ق م میں اس علاقے میں آیا تو اس کے گھوڑے یہاں کے پتھر چاٹتے ہوئے دیکھے گئے۔ ایک فوجی نے پتھرکو چاٹ کر دیکھا تو اسے نمکین پایا۔

    کھیوڑہ کی کان میں بنی نمک کی مسجد

    یوں اس علاقے میں نمک کی کان دریافت ہوئی۔ اس کے بعد یہ کان یہاں کے مقامی راجہ نے خرید لی اور قیام پاکستان تک یہ کان مقامی جنجوعہ راجوں کی ملکیت رہی۔

    روہتاس کا قلعہ


    شیرشاہ سوری کا تعمیرکردہ قلعہ روہتاس 948ھ میں مکمل ہوا، جو پوٹھوہار اورکوہستان نمک کی سرزمین کے وسط میں تعمیر کیا گیا۔ اس کے ایک طرف نالہ کس، دوسری طرف نالہ گھان اور تیسری طرف گہری کھائیاں اور گھنا جنگل ہے۔ شیر شاہ سوری نے یہ قلعہ گکھڑوں کی سرکوبی کے لئے تعمیر کرایا تھا۔

    دوسرے قلعوں سے ہٹ کر قلعہ روہتاس کی تعمیر چھوٹی اینٹ کی بجائے دیوہیکل پتھروں سے کی گئی ہے۔ ان بڑے بڑے پتھروں کو بلندیوں پر نصب دیکھ کر عقل حیران رہ جاتی ہے۔

    روہتاس – کٹاس راج مندر اور اس کی جھیل

    ایک روایت کے مطابق اس قلعے کی تعمیر میں عام مزدروں کے علاوہ بے شمار بزرگانِ دین نے بھی اپنی جسمانی اور روحانی قوتوں سمیت حصہ لیا۔ ان روایات کو اس امر سے تقویت ملتی ہے کہ قلعے کے ہر دروازے کے ساتھ کسی نہ کسی بزرگ کا مقبرہ موجود ہے، جبکہ قلعہ کے اندر بھی جگہ جگہ بزرگوں کے مقابر پھیلے ہوئے ہیں۔

    ملکہ کوہسارمری


    ملکہ کوہسارمری پاکستان کے شمال میں ایک مشہوراورخوبصورت سیاحتی تفریحی مقام ہے۔ مری شہردارالحکومت اسلام آباد سے صرف ایک گھنٹے کی مسافت پرواقع ہے۔ مری کا سفرسرسبز پہاڑوں، گھنے جنگلات اوردوڑتے رقص کرتے بادلوں کے حسین نظاروں سے بھرپور ہے۔ گرمیوں میں سرسبز اورسردیوں میں سفید رہنے والے مری کے پہاڑ سیاحوں کے لیے بے پناہ کشش کاباعث ہیں۔

    ملکہ کوہسار – جب وہ برف اوڑھ لیتی ہے

    مری سطح سمندر سے تقریباً 2300 میٹر یعنی 8000 فُٹ کی بلندی پرواقع ہے۔ مری کی بنیاد 1851 میں رکھی گئی تھی اور یہ برطانوی حکومت کا گرمائی صدرمقام بھی رہا۔ ایک عظیم الشان چرچ شہرکے مرکزکی نشاندہی کرتا ہے۔ چرچ کے ساتھ سے شہر کی مرکزی سڑک گزرتی ہے جسے’مال روڈ‘ کہا جاتا ہے۔

    ایوبیہ


    ایوبیہ نیشنل پارک مری سے 26 کلومیٹر دور صوبہ سرحد، پاکستان میں واقع ہے۔ سابق صدر پاکستان جناب ایوب خان کے نام پر اس علاقے کا نام ایوبیہ رکھا گیا۔ چار مختلف پہاڑی مقامات گھوڑا گلی، چھانگلہ گلی، خیرا گلی اور خانسپور کو ملا کر ایوبیہ تفریحی مقام بنایا گیا۔

    ایوبیہ چیئر لفٹ

    ٹھنڈیانی


    ٹھنڈیانی ضلع ایبٹ آباد کے جنوب میں واقع ہے۔ ایبٹ آباد شہر سے اسکا فاصلہ تقریبا 31 کلو میٹر ہے۔ اسکے مشرق میں دریائے کنہار اور کشمیر کا پیر پنجال سلسلہ کوہ واقع ہے۔ شمال اور شمال مشرق میں کوہستان اور کاغان کے پہاڑ نظر آتے ہیں۔ شمال مغرب میں سوات اور چترال کے برف پوش پہاڑ ہیں۔ ٹھنڈیانی سطح سمندر سے 9000فٹ (2750 میٹر) بلند ہے۔

    ٹھنڈیانی

    ملکہ پربت اورسیف الملوک


    جھیل سیف الملوک وادی کاغان کے علاقے ناران میں 3224 میٹر/10578 فٹ کی بلندی پرمیں واقع ہے اوراس کا شمار دنیا کی حسین ترین جھیلوں میں ہوتا ہے۔ ناران سے بذریعہ جیپ یا پیدل یہاں تک پہنچا جا سکتا ہے۔ دنیا بھر سے سیاح اسے دیکھنے کے لئے آتے ہیں۔ صبح کے وقت ملکہ پربت اوردوسرے پہاڑوں کا عکس اس میں پڑتا ہے۔ سال کے کچھ مہینے اس کی سطح برف سے جمی رہتی ہے۔

    جھیل سیف الملوک

    جھیل سے انتہائی دلچسپ لوک کہانیاں بھی منسوب ہیں جو یہاں موجود افراد کچھ روپے لےکرسناتے ہیں اوراگر آپ جھیل سے منسوب سب سے دلچسپ کہانی سننا چاہتے ہیں تو جھیل پر کالے خان نامی نوے سالہ بزرگ کو تلاش کیجئے گا۔

    منٹھوکا آبشار


    بلتستان کے مرکزی شہر اسکردو سے 40 کلومیٹر کے فاصلے پر مادو پور نامی گاؤں ہے جس کے نزدیک پاکستان کا سب سے بڑا آبشار منٹھوکا ہے جس کی اونچائی لگ بھگ 140 فت ہے۔ یہاں آنے کے لئے آپ کواسکردو سے گاڑی کرایے پر لینی ہوگی اور اگر آپ کے پاس اپنی ذاتی گاڑی ہے تو بھی آپ باآسانی یہاں پہنچ سکتے ہیں۔

    منٹھوکا آبشار کا حسین منظر

    دیوسائی


    دیوسائی نیشنل پارک سطح سمندر سے 13،500 فٹ اونچائی پر واقع ہے۔ پارک 3000 مربع کلومیٹر پر پھیلا ہوا ہے۔ نومبر سے مئی تک پارک برف سے ڈھکا رہتا ہے۔ بہار کے موسم میں پارک پھولوں اور کئی اقسام کی تتلیوں کے ساتھ ایک منفرد نظارہ پیش کرتا ہے۔

    دیوسائی دو الفاظ کا مجموعہ ہے ‘دیو’ اور ‘سائی’ یعنی ‘دیو کا سایہ۔’ ایک ایسی جگہ، جس کے بارے میں صدیوں یہ یقین کیا جاتا رہا کہ یہاں دیو بستے ہیں۔ آج بھی مقامی لوگوں کا یہ ماننا ہے کہ یہ حسین میدان مافوق الفطرت مخلوق کا مسکن ہے۔ یہاں دیکھتے دیکھتے ہی موسم خراب ہونے لگتا ہے، کبھی گرمیوں میں اچانک شدید ژالہ باری ہونے لگتی ہے۔ ہر لمحہ بدلتے موسم کی وجہ سے دیوسائی میں دھوپ چھاؤں کا کھیل بھی جاری رہتا ہے۔

    یہ علاقہ جنگلی حیات سے معمور ہونے کے باوجود انسان کے لیے ناقابل عبور رہا۔ برفانی اور یخ بستہ ہواؤں، طوفانوں، اور خوفناک جنگلی جانوروں کی موجودگی میں یہاں زندگی گزارنے کا تصور تو اس ترقی یافتہ دور میں بھی ممکن نہیں۔ اسی لیے آج تک اس خطے میں کوئی بھی انسان آباد نہیں۔

    دیوسائی – جھیل کا ایک نظارہ

     

  • دنیا کی خوبصورت ترین عبادت گاہ

    دنیا کی خوبصورت ترین عبادت گاہ

    تھائی لینڈ میں واقع بدھوں کی عبادت گاہ جسے سفید خانقاہ بھی کہا جاتا ہے، دنیا کی خوبصورت ترین معبد قرار دی جاتی ہے۔

    اسے تعمیر کرتے ہوئے معماروں کے ذہن میں یہی ایک خیال تھا کہ اسے دنیا کی سب سے خوبصورت عمارت بنا دی جائے، اور واقعی یہ بدھ خانقاہ فن تعمیر کا شاہکار ہے۔

    یہاں پر جہنم اور جنت کا تمثیلاتی منظر بھی پیش کیا گیا ہے۔ جہنم کے حصے میں بے شمار ہاتھ تعمیر کیے گئے ہیں جو انسان کی مادی اشیا کے لیے ہوس اور بھوک کی عکاسی کرتے ہیں۔

    اس کے بعد ایک پل جنت کی طرف لے جاتا ہے اور یہاں سے واپس پلٹنے کا کوئی راستہ نہیں۔

    بدھ تعلیمات کے مطابق جب سچائی اور نیکی کا راستہ اختیار کرلیا جائے تو پھر انسان کا جہنم سے جنت کا سفر شروع ہوجاتا ہے اور اس خانقاہ کا یہ حصہ اسی کی روشنی میں بنایا گیا ہے۔

    خانقاہ کا اندرونی حصہ بدھ مت کی روایتی تاریخی اور جدید فن تعمیر و مصوری کا شاہکار ہے۔

    اسے تعمیر کرنے والا چالرماچی نامی آرٹسٹ مشہور تھائی مصور ہے۔ اس خانقاہ کی تعمیر میں زیادہ تر رقم اس نے اپنی جیب سے لگائی ہے۔ وہ اس خانقاہ کو اپنی محبت قرار دیتا ہے۔