Tag: tourism

  • یومِ آزادی پر کراچی کے تاریخی مقامات کی سیر کریں

    یومِ آزادی پر کراچی کے تاریخی مقامات کی سیر کریں

    کراچی: رواں برس مادر وطن پاکستان کا یوم آزادی نہایت اہمیت کا حامل ہے کیونکہ اس روز ہمارے وطن کی آزادی کو 71 برس مکمل ہوجائیں گے۔

    ہر سال یہ دن ہمیں ہمارے بزرگوں کی قربانیوں اور ان تھک جدوجہد کی یاد دلاتا ہے اور یہ احساس دلاتا ہے کہ اس قدر طویل جدوجہد اور بے شمار قربانیوں کے بعد حاصل ہونے والے ملک کی خدمت اور حفاظت ہمارا فرض اولین ہے۔

    اس دن کی تاریخی اہمیت محسوس کرنے کا ایک بہترین طریقہ ان مقامات کی سیر کرنا بھی ہے جو قیام پاکستان سے منسوب ہیں یا اس کی یادگار کے طور پر تعمیر کیے گئے ہیں۔

    آج ہم آپ کو کراچی میں واقع ایسے ہی چند مقامات کے بارے میں بتا رہے ہیں جہاں یوم آزادی کے دن جانا نہ صرف آپ کے اس دن کو یادگار بنا دے گا بلکہ ایک آزاد وطن کے شہری ہونے کے احساس اور فخر کو بھی دوبالا کردے گا۔

    مزید پڑھیں: پاکستان کی 10 قومی یادگاریں

    مزار قائد

    کراچی اس حوالے سے ایک منفرد اہمیت کا حامل شہر ہے کہ یہاں بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کی پیدائش ہوئی، یہیں انہوں نے اپنی ابتدائی تعلیم حاصل کی اور اسی شہر میں وہ ابدی نیند سو رہے ہیں۔

    یوم آزادی پر بابائے قوم کی آخری آرام گاہ پر حاضری، فاتحہ خوانی اور پاکستان کے قیام کے لیے دی جانے والی ان کی جدوجہد کو سلام پیش کرنے کا اس سے بہتر موقع اور کوئی نہیں ہوسکتا۔

    سفید سنگ مرمر سے تعمیر کردہ مزار قائد شہر کراچی کے وسط میں واقع ہے۔ مزار کے اندر نہایت خوبصورت فانوس نصب ہیں۔ رات میں جب روشنیاں جل اٹھتی ہیں تو مزار اور اس کے اطراف کا حصہ نہایت سحر انگیز دکھائی دیتا ہے۔

    مزار سے متصل باغ بھی بلاشبہ ایک خوبصورت مقام ہے جہاں شام کے وقت چلنے والی ٹھنڈی ہوائیں یہاں گزارے گئے وقت کو یادگار ترین بنا دیتی ہیں۔

    وزیر مینشن

    کراچی کے علاقے کھارادر میں واقع وزیر مینشن نامی گھر قائد اعظم کی جائے پیدائش ہے۔

    سنہ 1953 میں حکومت پاکستان نے اس عمارت کو اس کے مالک سے خرید کر قومی ورثے کا درجہ دے دیا جس کے بعد اس کی زیریں منزل کو ریڈنگ ہال جبکہ پہلی منزل کو گیلری بنایا گیا۔

    دو منزلوں پر مشتمل اس مکان میں قائداعظم کے زیر استعمال فرنیچر، لباس، اسٹیشنری، ذاتی ڈائری اور قائد اعظم کی دوسری اہلیہ رتی بائی کے استعمال کی اشیا نمائش کے لیے رکھی گئی ہیں۔

    یہاں موجود سب سے اہم اثاثہ، جو وزیر مینشن کے علاوہ کہیں میسر نہیں، قائداعظم کی قانون کی کتابیں ہیں جن کی مدد سے وہ مقدمات کی پیروی کرتے تھے۔

    فلیگ اسٹاف ہاؤس

    کراچی کی شاہراہ فیصل پر واقع فلیگ اسٹاف ہاؤس جسے قائد اعظم ہاؤس میوزیم بھی کہا جاتا ہے، قائد اعظم نے 1946 میں خریدا تھا۔ ان کا ارادہ پاکستان کے وجود میں آنے یا ریٹائرمنٹ کے بعد اس میں قیام کا تھا۔

    تاہم قیام پاکستان کے بعد قائد اعظم محمد علی جناح گورنر ہاؤس میں رہائش پذیر ہوگئے اور اپنے انتقال تک وہیں رہے۔

    معروف محقق عقیل عباس جعفری کے مطابق، ’قائد اعظم نے اپنی زندگی کا ایک روز بھی اس گھر میں نہیں گزارا۔ یہ گھر ان سے منسوب تو ضرور ہے تاہم اسے قائد اعظم ہاؤس کا نام دینا تاریخ کو مسخ کرنے کے مترادف ہے‘۔

    قائد اعظم کے انتقال کے صرف 2 دن بعد 13 ستمبر 1948 کو مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح گورنر ہاؤس سے فلیگ اسٹاف ہاؤس منتقل ہوگئیں۔ اس وقت وہاں موجود تمام نوادرات فاطمہ جناح سے تعلق رکھتے ہیں اور ان کی وہاں رہائش کے دوران ان کے زیر استعمال تھے۔

    فاطمہ جناح اس گھر میں 16 یا 17 سال تک رہائش پذیر رہیں۔

    موہٹہ پیلیس

    کلفٹن میں واقع یہ خوبصورت محل ایک ہندو تاجر چندر رتن موہٹہ نے تعمیر کروایا تھا۔

    سنہ 1963 میں یہ محل حکومت پاکستان نے محترمہ فاطمہ جناح کو بھارت میں موجود ان کی جائیداد کے عوض الاٹ کردیا جس کے بعد وہ یہاں منتقل ہوگئیں اور اپنے انتقال تک یہیں رہیں۔

    خوبصورت محرابوں اور سرسبز باغ پر مشتمل یہ محل اب حکومت سندھ کی ملکیت ہے جہاں اکثر و بیشتر ثقافتی تقریبات منعقد کی جاتی ہیں۔

    مشہور ہے کہ اپنے قیام کے دنوں میں محترمہ فاطمہ جناح محل کی بالائی منزل سے مرکزی دروازے کی چابی نیچے پھینکا کرتی تھیں جس کی مدد سے ان کا ملازم دروازہ کھول کر اندر آجاتا اور گھریلو امور انجام دیتا۔

    ایک دن انہوں نے مقررہ وقت پر چابی نہیں پھینکی۔ تشویش میں مبتلا ملازم پہلے مدد مانگنے پڑوسیوں کے پاس گیا بعد ازاں پولیس کو بلوایا گیا۔

    اس وقت کے کمشنر کی موجودگی میں دروازہ توڑ کر اندر کا رخ کیا گیا تو علم ہوا کہ محترمہ رات میں کسی وقت وفات پاچکی تھیں۔

    اکادمی قائد اعظم

    قائد اعظم محمد علی جناح کی 100 ویں سالگرہ کے موقع پر قائم کی جانے والی قائد اعظم اکیڈمی، بانی پاکستان اور قیام پاکستان کے بارے میں مصدقہ دستاویزات کی فراہمی کا معتبر ادارہ ہے۔

    یہ ادارہ وفاقی وزارت ثقافت و کھیل کے ماتحت ہے۔

    فریئر ہال

    کراچی کا سب سے مشہور اور نمایاں ترین تاریخی اور خوبصورت مقام فریئر ہال ہے جو صدر کے علاقے میں واقع ہے۔ اسے برطانوی راج میں سنہ 1865 میں ایک ٹاؤن ہال کی حیثیت سے قائم کیا گیا۔ اب اس ہال میں ایک خوبصورت آرٹ گیلری اور لائبریری موجود ہے۔

    فریئر ہال کے لیاقت نیشنل لائبریری کے نام سے جانے جانے والے کتب خانے میں 70 ہزار سے زائد کتابیں موجود ہیں جن میں ہاتھ سے لکھے ہوئے قدیم و تاریخی مخطوطے بھی شامل ہیں۔

    اسی طرح آرٹ گیلری بھی فن و مصوری کا مرکز ہے جسے صادقین گیلری کے نام سے جانا جاتا ہے۔

    پاکستان کے معروف مصور و خطاط صادقین نے فریئر ہال کی چھتوں اور دیواروں پر نہایت خوبصورت میورلز (قد آدم تصاویر) بنائی ہیں۔ یہاں صادقین کا ایک ادھورا فن پارہ بھی موجود ہے جس پر وہ اپنے انتقال سے چند دن قبل تک کام کر رہے تھے لیکن موت نے انہیں اسے مکمل کرنے کی مہلت نہ دی۔

    فریئر ہال کا طرز تعمیر نہایت خوبصورت ہے جو برطانوی اور برصغیر کے مقامی طرز تعمیر کا مجموعہ ہے۔ اس عمارت کی سیر کرتے ہوئے تاریخ کے اوراق پلٹتے ہوئے محسوس ہوں گے اور آپ خود کو متحدہ ہندوستان کے زمانے میں موجود محسوس کریں گے ۔

    قومی عجائب گھر

    کراچی کے علاقے برنس روڈ پر واقعہ برنس گارڈن کے اندر قومی عجائب گھر واقع ہے جو سنہ 1950 میں قائم کیا گیا تھا۔ اس سے قبل اس عمارت میں وکٹوریہ میوزیم کے نام سے ایک عجائب گھر ہوا کرتا تھا جہاں آج سپریم کورٹ آف پاکستان کراچی کی بلڈنگ واقع ہے۔

    اس عجائب گھر میں 6 گیلریز موجود ہیں جن میں وادی مہران اور گندھارا تہذیب کے نوادرات، منی ایچر فن پارے، اسلامی فن و خطاطی کے نمونے، قدیم ادوار کے سکے، مختلف عقائد کے مجسمے (بشمول گوتم بدھ، وشنو اور سرسوتی دیوی) وغیرہ رکھے گئے ہیں۔

    اس کے علاوہ ایک انتہائی خوبصورت قرآن گیلری بھی ہے جہاں پہلی صدی ہجری سے لے کر آج تک کے کئی نادرو نایاب قرآنی نسخے اپنی اصل حالت میں بحال کرکے رکھے گئے ہیں۔

    میوزیم میں قائد اعظم اور لیاقت علی خان کے زیر استعمال گھڑیاں، قلم اور چھڑیاں بھی موجود ہیں۔

    خالق دینا ہال

    خالق دینا ہال سنہ 1906 میں بندر روڈ (ایم اے جناح روڈ) پر تعمیر کیا گیا جس کا مقصد یہاں سماجی و ثقافتی تقاریب کا انعقاد تھا۔

    اس ہال کی تعمیر کے لیے سندھ کی ایک مخیر کاروباری شخصیت غلام حسین خالق دینا کے لواحقین کی جانب سے رقم فراہم کی گئی جس کے بعد اس ہال کو ان کے نام سے منسوب کردیا گیا۔

    قیام پاکستان سے قبل جب ترکی میں خلافت ختم کی جارہی تھی تب برصغیر میں اسے بچانے کے لیے تحریک خلافت شروع کی گئی جس کے سرکردہ رہنماؤں میں مولانا محمد علی جوہر اور ان کے بھائی مولانا شوکت علی شامل تھے۔

    سنہ 1921 میں برطانوی حکومت نے دونوں رہنماؤں پر بغاوت کا مقدمہ دائر کردیا۔ مقدمے کی سماعت 26 دسمبر کو اسی ہال میں ہوئی اور دونوں بھائیوں کو 2، 2 سال قید کی سزا سنائی گئی۔

    یہاں ایک وسیع اور متنوع کتابوں پر مشتمل لائبریری بھی موجود ہے۔

    منوڑہ لائٹ ہاؤس

    کراچی کی بندرگاہ کے جنوب میں واقع منوڑہ ایک جزیرہ نما ہے جو سینڈز پٹ کی پٹی کے ذریعے کراچی سے جڑا ہوا ہے۔ یہاں موجود لائٹ ہاؤس کو دنیا کے طاقتور ترین لائٹ ہاؤسز میں سے ایک ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہے۔

    یہ لائٹ ہاؤس سنہ 1889 میں تعمیر کیا گیا تھا۔ اس وقت کراچی کی بندرگاہ مصروف ترین بندرگاہوں میں شمار ہوتی تھی۔

    سنہ 1909 میں اس لائٹ ہاؤس کو نئی روشنیوں اور لینسز سے آراستہ کیا گیا۔ یہ لائٹ ہاؤس جدید ٹیکنالوجی سے آراستہ ہے اور یہاں جدید آلات نصب ہیں۔

    پاکستان میری ٹائم میوزیم

    کراچی میں پی این ایس کارساز پر واقع پاک بحریہ کے میری ٹائم میوزیم کا دورہ بھی ایک معلوماتی دورہ ہوسکتا ہے۔ 6 گیلریوں اور آڈیٹوریم پر مشتمل اس عجائب گھر میں بحری فوج کے زیر استعمال اشیا، آلات اور لباس رکھے گئے ہیں۔

    یہاں آبدوز اور بحری جہاز کے ماڈل بھی موجود ہیں جن کے اندر جا کر ان کا معائنہ بھی کیا جاسکتا ہے۔ میری ٹائم میوزیم کا دورہ بچوں اور بڑوں کے لیے یکساں معلوماتی تفریح ثابت ہوسکتا ہے۔

    پی اے ایف میوزیم

    کراچی میں پاک فضائیہ کا عجائب گھر (پی اے ایف میوزیم) بھی موجود ہے جہاں فضائیہ کے زیر استعمال آلات، ہتھیار اور دیگر ساز و سامان نمائش کے لیے رکھے گئے ہیں۔

    یہاں سنہ 1965 کی جنگ کے دوران بھارت کا گرفتار کیا گیا ایک طیارہ بھی رکھا گیا ہے جبکہ بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کے زیر استعمال طیارہ بھی یہاں موجود ہے۔

    نشانِ پاکستان

    کراچی کے ساحل پر پاک فوج کی جانب سے بنائی جانے والی قومی یادگار ’نشان پاکستان‘ قومی اتحاد کی علامت ہے۔

    یادگار کے مرکزی چبوترے پر نشان حیدر پانے والے 11 شہدا کی مناسبت سے 11 کمانیں تعمیر کی گئی ہیں جبکہ اندرونی دیواروں پر شہدا کی تصاویر کے ساتھ ان کے بارے میں معلومات بھی درج ہیں۔

    یادگار کے مرکزی دروازے کے ساتھ 145 فٹ اونچائی پر قومی پرچم لہرایا جاتا ہے جس کا یوم آزادی کے موقع پر نظارہ کرنا یقیناً حب الوطنی کے جذبات کو گرما دے گا۔

    آرٹس کاؤنسل آزادی فیسٹیول

    اس یوم آزادی کی شام آرٹس کاؤنسل کے آزادی فیسٹیول میں شریک ہونا نہ بھولیں جہاں شہر بھر سے باصلاحیت نوجوان و بچے شریک ہو کر اپنی تخلیقی صلاحیتوں کا مظاہرہ کریں گے۔

  • سیاحوں کی بہتات سے تباہی کا شکار سیاحتی مقام

    سیاحوں کی بہتات سے تباہی کا شکار سیاحتی مقام

    سیاحت کرنا دل و دماغ کو تازہ دم کردینے والا عمل ہے اور دنیا بھر سے کروڑوں افراد سال کا کچھ عرصہ سیاحت میں ضرور گزارتے ہیں۔

    دنیا بھر میں کچھ مقامات ایسے ہیں جو اپنی خوبصورتی اور تاریخی پس منظر کی وجہ سے سیاحوں میں بے حد مقبول ہیں اور ہر سال لاکھوں افراد وہاں سیاحت کے لیے جاتے ہیں۔

    تاہم حال ہی میں شائع کی جانے والی ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ بہت زیادہ سیاحت کچھ مقامات کو نقصان پہنچا رہی ہے۔

    آئیں دیکھیں وہ مقامات کون سے ہیں۔


    مایا بے، تھائی لینڈ

    تھائی لینڈ اپنے نیلے پانیوں اور خوبصورت ساحلوں کی وجہ سیاحت کے لیے بہترین مقام سمجھا جاتا ہے۔

    تاہم تھائی لینڈ کی ایک ساحلی کھاڑی مایا بے کو سیاحوں کی بہتات کی وجہ سے عارضی طور پر بند کیا جاچکا ہے۔

    اس مقام کو سنہ 2000 میں بہت شہرت ملی جب معروف ہالی ووڈ اداکار لیونارڈو ڈی کیپریو کی فلم ’دا بیچ‘ کو یہاں فلمایا گیا۔ اس کے بعد سے یہاں سیاحوں کی تعداد میں کئی گنا اضافہ ہوگیا۔

    اس مقام کو عارضی طور پر بند کیے جانے کی وجہ یہ ہے کہ یہاں خراب ہوجانے والی مونگے کی چٹانیں اور سمندری حیات دوبارہ افزائش پاسکیں۔


    بوروکے، فلپائن

    فلپائن میں واقع یہ خوبصورت جزیرہ بھی سیاحوں کی بہتات کی وجہ سے تباہی کا شکار ہو رہا ہے۔

    رواں برس اپریل میں اس جزیرے کو حکومت کی جانب سے 6 ماہ کے لیے بند کردیا گیا۔

    مقامی اخبارات کے مطابق یہاں کا سیوریج سسٹم بے حد خراب ہوچکا ہے۔

    علاوہ ازیں اس جزیرے پر قائم 200 کے قریب کاروباری مراکز اپنا کچرا براہ راست سمندر میں پھینک رہے ہیں جس سے ساحل پر آلودگی میں اضافہ ہو رہا ہے۔


    بھوٹان

    بھوٹان میں سیاحوں کی بہتات اور آبادی میں بے تحاشہ اضافے کی وجہ سے سیاحتی مقامات بھی تباہی کا شکار ہورہے ہیں۔

    بھوٹان کی حکومت نے اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے اب سیاحوں پر سخت قوانین نافذ کردیے ہیں جس کے بعد انہیں گائیڈ کی خدمات لینا ضروری ہیں جبکہ روزانہ 200 یورو بھی ادا کرنے ہوں گے۔


    بالی، انڈونیشیا

    انڈونیشیا کا جزیرہ بالی بھی سیاحوں کے لیے ایک پرکشش مقام سمجھا جاتا ہے۔

    گزشتہ برس دسمبر میں اس وقت یہاں ’گاربج ایمرجنسی‘ نافذ کردی گئی تھی جب سیاحوں نے کچرا پھینک پھینک کر ساحل کو کچرا کنڈی میں تبدیل کردیا۔


    چنکوٹیررے، اٹلی

    اٹلی میں دریا کے کنارے خوبصورت رنگ برنگے گھروں کا یہ علاقہ ہر سیاح کا خواب ہیں۔

    گزشتہ کچھ سال میں اس علاقے میں سیاحوں کی تعداد میں بے حد اضافہ ہوا ہے۔ سیاحوں کی آبادی بڑھنے کے ساتھ یہاں ٹریفک حادثات معمول بن چکے ہیں جن میں سیاح و مقامی افراد دونوں کو نقصان پہنچتا ہے۔


    ماچو پچو، پیرو

    جنوبی امریکی ملک پیرو میں واقع قدیم کھنڈرات ماچو پچو یونیسکو کی ثقافتی ورثے کی فہرست میں شامل ہیں۔

    سنہ 2002 میں نیشنل جیوگرافک کی ایک رپورٹ میں متنبہ کیا گیا کہ سیاحوں کی بہتات اس قدیم مقام کو نقصان پہنچا سکتی ہے جس کے بعد حکومت نے فوری طور اقدامات کیے۔

    اب یہاں سیاحوں کی صرف محدود تعداد ہی گائیڈز کی زیر نگرانی سیر کرسکتی ہے اور اس کے لیے بھی دن کا ایک حصہ مخصوص ہے۔


    وینس، اٹلی

    اٹلی کا پانیوں کا شہر وینس دنیا کے خوبصورت ترین شہروں میں سے ایک سمجھا جاتا ہے۔

    تاہم مقامی افراد کا کہنا ہے کہ حکومت کے تمام اقدامات صرف یہاں آنے والے سیاحوں کے لیے ہیں اور مقامی افراد کو نظر انداز کیا جارہا ہے۔

    کئی بار مقامی افراد یہاں سیاحوں کے خلاف احتجاج بھی کرتے پائے جاتے ہیں۔


     

  • دنیا کے سب سے بڑے دریا کے بارے میں حیران کن حقائق

    دنیا کے سب سے بڑے دریا کے بارے میں حیران کن حقائق

    کیا آپ جانتے ہیں دنیا کا سب سے بڑا دریا کون سا ہے؟

    براعظم افریقہ میں مصر کو سیراب کرنے والا تاریخی اہمیت کا حامل دریائے نیل دنیا کا سب سے بڑا دریا ہے۔ مصر کی عظیم تہذیب کا آغاز اسی دریا کے کنارے ہوا اور اس تہذیب نے دنیا بھر کی ثقافت و تہذیب پر اپنے اثرات مرتب کیے۔

    دنیا کو مصر کا تحفہ دینے والا یہ دریا اس وقت 11 ممالک اور 40 کروڑ افراد کی مختلف آبی ضروریات کو پورا کر رہا ہے۔

    آئیں آج اس عظیم دریا کے بارے میں کچھ حیران کن حقائق جانتے ہیں۔

    6 ہزار 6 سو 70 کلو میٹر کے فاصلے پر محیط یہ دریا افریقہ کی سب سے بڑی جھیل وکٹوریہ جھیل سے نکلتا ہے۔ اس علاقے میں بارش بہت ہوتی ہے، لہٰذا یہاں بہت گھنے جگلات پائے جاتے ہیں۔

    ان جنگلات میں ہاتھی، شیر، گینڈے، جنگلی بھینسے، ہرن، نیل گائے، دریائی گھوڑے اور مگر مچھ وغیرہ پائے جاتے ہیں۔ اس علاقے کو نیشنل پارک کا درجہ حاصل ہے۔

    مزید پڑھیں: دریائے نیل کلائمٹ چینج کی ستم ظریفی کا شکار

    جب یہ دریا سوڈان میں داخل ہوتا ہے تو اس کی رفتار بہت سست ہوجاتی ہے، کیوں کہ دریا ایک زبردست دلدل سے گزرتا ہے۔ یہ دلدل دنیا کی سب سے بڑی دلدل تقریباً 700 کلو میٹر طویل ہے۔ یہاں ایک قسم کی گھاس پاپائرس پائی جاتی ہے جو پورے دلدل پر چھائی رہتی ہے۔

    یہ گھاس اتنی گھنی اور مضبوط ہے کہ اس پر ایک ہاتھی بھی کھڑا ہوجائے تو وہ نیچے نہیں جائے گا اور سیدھا کھڑا رہے گا۔ دریا کا پانی گھاس کے نیچے نیچے بہتا ہے۔ یہاں سارس، بگلے اور پانی میں رہنے والی مختلف چڑیاں بکثرت پائی جاتی ہیں۔

    دریائے نیل کے سارے معاون دریا حبشہ کے پہاڑوں سے نکل کر اس میں شامل ہوتے ہیں۔ ان میں سب سے بڑا اور اہم دریا نیلا ہے اور نیل کہلاتا ہے۔ یہ دریا حبشہ میں جھیل تانا سے نکلتا ہے اور فوراً بعد آبشار کی صورت میں ایک نہایت گہری کھائی میں گرتا ہے اور بہتا ہوا خرطوم کے مقام پر دریائے نیل میں مل جاتا ہے۔

    خرطوم کے بعد اتبارا کے مقام پر اتبارا نام کا ایک اور دریا، دریائے نیل میں شامل ہوتا ہے۔ یہ بھی حبشہ کے پہاڑوں سے جھیل تانا کے قریب سے نکلتا ہے۔

    خرطوم کے بعد دریائے نیل میں کئی اتار آتے ہیں، یہ تقریباً 6 مقامات پر ہیں۔ دریا کی تہہ میں مضبوط اور نوکیلی چٹانیں ہیں۔ ان کو دریائے نیل کی رکاوٹیں کہا جاتا ہے۔ ان مقامات سے کشتیاں یا موٹر بوٹس نہیں گزر سکتے۔

    سوڈان میں مصر کی سرحد پر دریائے نیل انسان کی بنائی ہوئی دنیا کی سب سے بڑی جھیل یعنی جھیل ناصر میں داخل ہوتا ہے۔ یہاں اسوان کے مقام پر اسوان بند باندھا گیا ہے۔ اس بند سے دریا کا پانی رک گیا ہے اور ایک جھیل بن گئی ہے۔

    اس بند سے آبپاشی کے لیے نہریں نکالی گئی ہیں اور پانی کو سرنگوں سے گزار کر اس پانی سے بجلی پیدا کی گئی ہے۔

    اسوان بند کی نہروں سے دریائے نیل کے دونوں طرف 50، 50 میل تک کاشت کاری ہوتی ہے اور یہ علاقہ نہایت سر سبز و شاداب اور آباد ہے۔ اسی وجہ سے مصر کو دریائے نیل کا تحفہ کہا جاتا ہے۔

    قاہرہ سے گزر کر دریا بہت خاموشی اور آہستہ آہستہ مختلف شاخوں میں بٹ کر اسکندریہ کے قریب بحیرہ روم میں جا گرتا ہے۔

    دریا کی رفتار اور پانی کی کیفیت معلوم کرنے کے لیے مصری لوگ ایک پیمانہ بناتے تھے۔ یہ دریا کے کنارے ایک کمرا ہوتا تھا، اسے نیلو میٹر کہتے تھے۔ اس میں ایک سرنگ سے دریا کا پانی آتا رہتا تھا۔ اس پیمانے سے پانی کی حرارت، رنگ اور کیفیت معلوم ہوتی تھی اور اس کا سال بھر کا ریکارڈ رکھا جاتا تھا۔

    اسی ریکارڈ سے معلوم ہوتا تھا کہ طغیانی آئے گی یا نہیں اور اگر آئے گی تو کیا اثرات ہوں گے اور فصلوں کے لیے فائندہ مند ہوگی یا نقصان دہ ہوگی۔

    دریائے نیل کے آغاز کا مقام جاننے کے لیے پہلی بار سترہویں صدی میں کوشش کی گئی۔ تحقیق اور سفر کے بعد معلوم ہوا کہ یہ دریا جھیل تانا سے نکلتا ہے مگر اس کے کنارے کنارے کوئی نہ چل سکا، کیوں کہ یہ بڑے خطرناک پہاڑوں اور کھڈوں میں سے گزرتا ہے۔

    دریا کے تیز پانی نے چٹانوں کو کچھ اس طرح کاٹا ہے کہ دونوں طرف دیواریں سی بن گئی ہیں اور ان چٹانی دیواروں پر سے کوئی نہیں گزر سکتا۔

    اٹھارویں صدی میں یورپی سیاحوں نے افریقہ کے اندرونی علاقے دریافت کرنا شروع کیے۔ رچرڈ برٹن اور جان ہیننگ ٹن اسپیک سنہ 1857 میں افریقہ کے مشرقی ساحل سے روانہ ہوئے۔ دشوار گزار راستوں، جنگلوں اور پہاڑوں سے گزرے، مچھروں کی وجہ سے ملیریا میں مبتلا ہوئے۔

    ایک مقام پر برٹن اتنا بیمار ہوا کہ آگے نہ بڑھ سکا، مگر اسپیک چلتا رہا اور جھیل وکٹوریہ تک پہنچ گیا۔ اسپیک کے مطابق یہی جھیل دریائے نیل کے نکلنے کی جگہ تھی، جس کو دنیا نے تسلیم کرلیا۔ یہ جھیل یوگنڈا میں ہے۔ یوگنڈا کا دارالحکومت کمپلا اسی جھیل کے کنارے آباد ہے۔

    وادی نیل کا سب سے بڑا شہر قاہرہ ہے۔ یہاں دنیا کی قدیم ترین یونیورسٹی جامعہ الازہر واقع ہے۔ قاہرہ کے قریب اہرام اور ابو الہول واقع ہیں۔ مصری بادشاہوں کے مقبرے ہیں، جن میں ممی (حنوط شدہ لاشیں) رکھی ہوئی ہیں۔ قاہرہ کا عجائب گھر بھی منفرد مقام ہے۔

    دریائے نیل کے دہانے پر اسکندریہ کا شہر آباد ہے۔ اس کا نام سکندر اعظم کے نام پر ہے۔ یہاں ایک لائٹ ہاؤس بھی تھا جو عجائبات عالم میں شمار ہوتا تھا، مگر زلزلے نے اس کو گرا دیا۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • انسٹاگرام پر مقبول دنیا بھر کے خوبصورت ساحل

    انسٹاگرام پر مقبول دنیا بھر کے خوبصورت ساحل

    موسم سرما ہو یا آسمان پر کالے کالے بادل چھائے ہوں، سردیوں کی نرم گرم دھوپ سے لطف اندوز ہونا ہو یا بے ہنگم زندگی سے دور چند لمحے سکون سے گزارنے ہوں، ساحل سمندر سے بہتر کوئی مقام نہیں ہوتا۔

    سمندر کی لہروں کا شور، ٹھنڈی ہوا اور پرسکون ماحول ساحل سمندر کو تفریح کا بہترین مقام بنا دیتے ہیں۔

    آج ہم آپ کو دنیا بھر کے ایسے ساحلوں کی سیر کروانے جارہے ہیں جن کی تصاویر سماجی رابطے کی ویب سائٹ انسٹا گرام پر سب سے زیادہ پوسٹ کی جاتی ہیں، اور یہ ساحل خوبصورتی میں بھی اپنی مثال آپ ہیں۔

    مزید پڑھیں: روزانہ ساحل سمندر کی سیر پر جانا حیران کن فوائد کا باعث


    آسٹریلیا کا وائٹ ہیون ساحل


    میکسیکو کا پلایا نورٹے

    Hermosa es Tu creación. beautiful is your creation God!

    A post shared by Victor Canul Ancona (@vicpiacell94) on


    کیوبا کا ویرادیرو ساحل


    آئس لینڈ کا رینسفارا ساحل


    کولمبیا کا ہارس شو بے

    Bermuda 🏝 #blue #pinksand #horseshoebay

    A post shared by Megan Twining (@megan.twining) on


    کیپ ٹاؤن کا بولڈرز بیچ

    smile and wave boys

    A post shared by asha wafer (@ashawafer) on


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • سلطنت عثمانیہ کے دور کے قسطنطنیہ کی سیر کریں

    سلطنت عثمانیہ کے دور کے قسطنطنیہ کی سیر کریں

    

    سلطنت عثمانیہ سنہ 1299 سے 1922 تک قائم رہنے والی مسلمان سلطنت تھی جس کے حکمران ترک تھے۔ یہ سلطنت تین براعظموں پر پھیلی ہوئی تھی اور جنوب مشرقی یورپ، مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقہ کا بیشتر حصہ اس کے زیر نگیں تھا۔

    سنہ 1453 سے 1922 تک اس عظیم سلطنت کا دارالخلافہ قسطنطنیہ تھا جسے آج استنبول کے نام سے پکارا جاتا ہے۔

    تاہم اس شہر کی پہچان صرف یہی نہیں۔ قسطنطنیہ سنہ 330 سے 395 تک رومی سلطنت اور 395 سے 1453 تک بازنطینی سلطنت کا دارالحکومت بھی رہا۔

    اس شہر بے مثال کی بنیاد 667 قبل مسیح میں یونان کی توسیع کے ابتدائی ایام میں ڈالی گئی۔ اس وقت شہر کو اس کے بانی بائزاس کے نام پر بازنطین کا نام دیا گیا۔ 330 عیسوی میں قسطنطین کی جانب سے اسی مقام پر نئے شہر کی تعمیر کے بعد اسے قسطنطنیہ کا نام دیا گیا۔

    قسطنطنیہ کی فتح کی بشارت حضور اکرم ﷺ نے دی تھی۔ حضور ﷺ نے فرمایا تھا، ’تم ضرور قسطنطنیہ کو فتح کرو گے، وہ فاتح بھی کیا باکمال ہوگا اور وہ فوج بھی کیا باکمال ہوگی‘۔

    حضور اکرم ﷺ کی اس بشارت کے باعث قسطنطنیہ کی فتح ہر مسلمان جرنیل کا خواب تھی۔

    قسطنطنیہ پر مسلمانوں کی جنگی مہمات کا آغاز حضرت عثمان غنی ؓ کے زمانے سے ہوا تھا تاہم ان میں کوئی خاص کامیابی نہ مل سکی۔

    بالآخر ترک سلطان مراد دوئم کا ہونہار بیٹا سلطان محمد قسطنطنیہ فتح کرنے کے نکلا اور کام کو ممکن کر دکھایا۔ قسطنطنیہ کی فتح نے سلطان محمد فاتح کو راتوں رات مسلم دنیا کا مشہور ترین سلطان بنا دیا۔

    سلطان نے اپنے دور میں قسطنطنیہ میں 300 سے زائد عالیشان مساجد تعمیر کروائیں جن میں سے سلطان محمد مسجد اور ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ مسجد بہت ہی مشہور ہیں۔

    فتح کے بعد قسطنطنیہ کو اسلامبول، یعنی اسلام کا گھر، کا نام دیا گیا جو بعد میں استنبول کہلایا جانے لگا۔

    آج ہم تاریخ کے صفحات سے آپ کو قسطنطنیہ کی کچھ نادر تصاویر دکھانے جارہے ہیں۔ یہ تصاویر سلطنت عثمانیہ کے بالکل آخری ادوار کی ہیں جنہیں بہت حفاظت کے ساتھ بحال کر کے دوبارہ پیش کیا گیا ہے۔


    قسطنطنیہ کی ایک گلی


    بندرگاہ کے مناظر


    دریائے باسفورس


    فوارہ سلطان احمد


    مسجد یلدرم بایزید


    مسجد ینی کیمی جو سلطان کے والد سے منسوب ہے


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • ایسا دریا جس سے قوس قزح پھوٹتی ہے

    ایسا دریا جس سے قوس قزح پھوٹتی ہے

    کیا آپ نے کبھی ایسے دریا کے بارے میں سنا ہے جو بے حد رنگین ہو اور اس میں سے قوس قزح پھوٹتی دکھائی دیتی ہو؟

    جنوبی امریکی ملک کولمبیا میں واقع ایک دریا ایسا ہی ہے جسے 5 رنگوں کے دریا یا مائع قوس قزح کے نام سے پکارا جاتا ہے۔ یہ خوبصورت دریا کولمبیا کے سیرینیا ڈیلا مکرینا صوبے میں واقع نیشنل پارک میں موجود ہے۔

    یہ علاقہ طویل عرصے تک خانہ جنگی کی زد میں رہا جس کی وجہ سے کوئی یہاں آنے کی ہمت نہیں کر پاتا تھا۔

    بالآخر حکومت اور باغیوں کے درمیان امن معاہدے کے ایک سال بعد یعنی گزشتہ برس 2017 میں اس پارک کو عوام کے لیے کھول دیا گیا۔

    دنیا کے خوبصورت ترین دریاؤں میں سے ایک شمار کیے جانے والے اس دریا کی انفرادیت اس کی تہہ میں اگنے والے رنگ برنگے آبی پودوں کی وجہ سے ہے۔ گلابی، جامنی اور سرخ رنگ کے ان پھولوں کے کھلنے کا موسم ستمبر اور نومبر ہے۔

    چھوٹی چھوٹی آبشاروں اور پتھریلے راستوں پر مشتمل یہ خوبصورت دریا 100 کلو میٹر طویل ہے۔

    اس علاقے میں امن قائم ہونے کے بعد اب ملکی و غیر ملکی افراد یہاں آنے لگے ہیں جس سے یہاں کی رونقیں بحال ہوگئی ہیں اور سیاحت کی بدولت مقامی افراد کی زندگی میں بھی خوشحالی آگئی ہے۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • مختلف ممالک کی سیر کے دوران ان چیزوں کا خیال رکھیں

    مختلف ممالک کی سیر کے دوران ان چیزوں کا خیال رکھیں

    ہم میں سے تقریباً ہر شخص سیر و سیاحت کرنا اور دنیا دیکھنا چاہتا ہے لیکن صرف چند افراد اپنی سیاحت کے شوق کو پورا کرنے میں کامیاب رہتے ہیں۔ وہ مختلف ممالک میں گھومتے پھرتے ہیں اور وہاں کی ثقافت و روایات سے واقفیت حاصل کرتے ہیں۔

    اگر آپ کا بھی سیر و سیاحت پر نکلنے کا ارادہ ہے تو یاد رکھیں کہ بعض مقامات پر کچھ چیزوں کو نہایت معیوب خیال کیا جاتا ہے۔ آپ اگر ان جگہوں پر ان کاموں کو انجام دیں گے تو لوگ اسے بہت برا خیال کریں گے۔ یہ چیزیں بعض اوقات بد تہذیبی کے زمرے میں بھی آتی ہیں اور ایسا کر کے آپ اپنے میزبان کو ناراض بھی کر سکتے ہیں۔

    آج کل چونکہ ویسے بھی سیکیورٹی سے متعلق مسائل زیادہ ہیں لہٰذا ملک سے باہر سفر کرتے ہوئے خاص طور پر احتیاط کریں کہ کوئی ایسی حرکت نہ کریں جس سے آپ لوگوں کی توجہ کا مرکز بن جائیں اور خود کو مشکوک بنا بیٹھیں۔

    یہاں ہم آپ کو ایسی ہی کچھ چیزیں بتا رہے ہیں جنہیں بیرون ملک سفر کے دوران کرنے سے گریز کریں۔


    امریکا

    7

    امریکا جانے کے بعد خیال رکھیں کہ ریستوران میں ویٹرز یا ٹیکسی والے کو ٹپ ضرور دیں۔


    برطانیہ

    6

    برطانیہ میں لوگوں سے ان کی آمدنی کے متعلق سوال کرنا نہایت معیوب خیال کیا جاتا ہے۔


    فرانس

    5

    فرانس میں چیزوں کی ادائیگی بل کے بعد کی جاتی ہے۔ پہلے سے ہوٹل کے کمروں، ٹیکسی یا سامان کی قیمت پوچھنا بد تہذیبی سمجھی جاتی ہے۔


    اٹلی

    4

    اٹلی میں کھانے کی پیشکش کو انکار کرنا آپ کو آس پاس کے لوگوں کی نظروں میں ناپسندیدہ بنا سکتا ہے۔


    چین

    3

    چین میں کسی کو گھڑی یا چھتری تحفتاً دینا نہایت برا سمجھا جاتا ہے۔


    جاپان

    جاپان کے لوگ نہایت محنتی اور خود دار ہوتے ہیں لہٰذا وہاں کسی کو ٹپ دینے سے پرہیز کریں۔ یہ چیز آپ کو خود پسند اور مغرور ظاہر کرے گی۔


    تھائی لینڈ

    تھائی لینڈ میں کسی کے سر کو چھونے سے پرہیز کریں۔ اگر آپ ایسا کرتے ہیں تو اس کا مطلب ہے کہ آپ سامنے والے شخص کی عزت نہیں کرتے۔


    سنگا پور

    سنگا پور میں پبلک ٹرانسپورٹ کے حوالے سے قوانین خاصے سخت ہیں اور پبلک ٹرانسپورٹ میں کھانا، پینا یا سگریٹ نوشی جرم ہے۔


    ملائیشیا

    10

    ملائیشیا میں کسی کی طرف انگشت شہادت سے اشارہ کرنا بد تہذیبی سمجھی جاتی ہے۔ وہاں اس کام کے لیے انگوٹھا استعمال کیا جاتا ہے۔


    سعودی عرب

    1

    سعودی عرب میں کھلے عام شراب کی بوتلیں لے کر گھومنا یا پینا نہایت معیوب اور قوانین کی خلاف ورزی ہے۔


    ناروے

    11

    ناروے میں کسی سے یہ مت کہیں، کہ مجھے چرچ جانا ہے، یا مجھے چرچ لے چلو، یا تم چرچ کیوں نہیں جا رہے۔ یہ وہاں کے لوگوں کو خفا کرسکتا ہے۔


    روس

    12

    کسی روسی گھر میں داخل ہوتے ہوئے اپنے جوتے باہر ہی اتار آئیں وگرنہ آپ اپنے میزبان کی خوش اخلاقی سے محروم ہو سکتے ہیں۔


    فلپائن

    13

    فلپائنی رواج کے مطابق کھانے کا آخری ٹکڑا ہمیشہ چھوڑ دیا جاتا ہے۔ پلیٹ کو صاف کرنا وہاں بدتمیزی کی علامت ہے۔


    کینیا

    14

    کینیا میں لوگوں کو ان کے پہلے نام سے بلانا سخت معیوب سجھا جاتا ہے۔


    ہنگری

    15

    یورپی ملک ہنگری میں کھانے یا مشروب کے دوران ’چیئرز‘ کہنے سے گریز کریں۔


    چلی

    17

    چلی میں کھانے کے لیے چمچوں اور کانٹوں کا استعمال کریں۔ وہاں ہاتھ سے کھانا جہالت کی نشانی سمجھی جاتی ہے۔


    میکسیکو

    18

    میکسیو کے لوگ نہایت خوش مزاج ہوتے ہیں اور یہ سیاحوں کو اکثر لطیفے سنائے پائے جاتے ہیں جو آپ کے لیے بعض اوقات الجھن کا سبب بھی بن سکتے ہیں۔ تاہم ان لطیفوں پر برا ماننے یا منہ بنانے سے آپ اپنے گائیڈ کی ناراضگی مول لے سکتے ہیں۔


    نیدر لینڈز

    16

    نیدر لینڈز میں سائیکل چلانے کا رواج عام ہے اور وہاں سڑکوں پر سائیکل سواروں کے لیے خصوصی لینز بنی ہیں۔ ان لینز پر راہگیروں کو چلنے کی اجازت نہیں لہذا آپ بھی وہاں چلنے سے گریز کریں۔


    آئر لینڈ

    19

    آئر لینڈ کے لوگ اپنی زبان اور قومیت کے معاملے میں نہایت حساس ہیں۔ اگر آپ وہاں ان کے لہجے میں بولنے کی کوشش کریں گے تو وہ اسے اپنا مذاق اڑانا خیال کریں گے۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • یورپ کا خوبصورت ترین شہر

    یورپ کا خوبصورت ترین شہر

    جمہوریہ چیک کے دارالحکومت پراگ کا شمار یورپ کے خوبصورت ترین شہروں میں ہوتا ہے۔ اسے ’سو میناروں کا شہر‘ بھی کہا جاتا ہے۔

    دریائے ولتوا کے کنارے اس شہر کی آبادی 12 لاکھ ہے۔ سنہ 1992 سے پراگ کا تاریخی مرکز یونیسکو کے عالمی ثقافتی ورثے میں شامل ہے۔

    4

    گنیز ورلڈ ریکارڈز کے مطابق پراگ میں موجود قلعہ دنیا کا سب سے وسیع قدیم قلعہ ہے۔

    3

    1

    pr-4

    اس کا اولڈ ٹاؤن اسکوائر ایک مشہور جگہ ہے جہاں پر تعمیر کی گئی رنگ برنگی عمارتیں دنیا بھر میں مشہور ہیں۔

    Pr-1

    pr-2

    یہاں نوکدار میناروں والے کلیسا ہیں جو تاریخی اہمیت کے حامل ہیں اور دنیا بھر کے سیاح یہاں عبادت اور تفریح کی غرض سے آتے ہیں۔

    5

    6


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • دنیا کا طویل ترین سوئمنگ پول

    دنیا کا طویل ترین سوئمنگ پول

    سان تیاگو: جنوبی امریکی ملک چلی میں موجود ایک سوئمنگ پول کو دنیا کا طویل ترین سوئمنگ پول ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔

    یہ سوئمنگ پول ایک نجی ریزورٹ سان الفانسو میں بنایا گیا ہے۔

    اس سوئمنگ پول میں نہ صرف تیراکی کی جاتی ہے بلکہ بعض اوقات کشتیاں بھی چلتی دکھائی دیتی ہیں۔

    اس سوئمنگ پول کو اسی کمپنی نے تعمیر کیا ہے جس نے مصر میں دنیا کا ایک اور بڑا سوئمنگ پول بنایا ہے۔ چلی کا یہ سوئمنگ پول 20 ایکڑ پر پھیلا ہوا اور 1 ہزار 13 میٹر طویل ہے۔

    پول میں 250 ملین لیٹرز پانی موجود ہے جس کی گہرائی 11 فٹ سے بھی زائد ہے۔

    اس پول میں آنے والا پانی بحیرہ اوقیانوس سے لیا جاتا ہے اور اسے صاف اور فلٹر کرنے کے بعد پول میں ڈالا جاتا ہے۔

    بحر اوقیانوس پول سے کچھ ہی فاصلے پر موجود ہے اور پول میں تیراکی کرنے والے افراد باآسانی سمندر کا نظارہ کرسکتے ہیں۔

    مزید پڑھیں: دنیا کے خوبصورت اور انوکھے سوئمنگ پولز


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • پنجاب کی خوبصورت کھنڈوعہ جھیل کی سیر کریں

    پنجاب کی خوبصورت کھنڈوعہ جھیل کی سیر کریں

    پاکستان قدرتی حسن سے مالا مال ایک خوبصورت ملک ہے اور اس کا یہ حسن صرف شمالی علاقہ جات تک محدود نہیں، پورے ملک میں جا بجا قدرت کے حسین نظارے بکھرے پڑے ہیں۔

    چاہے سندھ کے صحرا ہوں، بلوچستان کی سنگلاخ پہاڑیاں ہوں، یا پنجاب کے لہلہاتے کھیت، سب ہی کچھ نہایت حسین اور قدرت کی خوبصورت صناعی کا عکاس ہے، اور خیبر پختونخواہ کے علاقے تو دنیا بھر میں اپنی خوبصورتی اور منفرد محل وقع کی وجہ سے مشہور ہیں۔

    پاکستان میں خوبصورت قدرتی مقامات کی بہتات کا یہ عالم ہے کہ ابھی تک کئی ایسے مقامات ہیں جو نظروں میں نہیں آسکے جس کی وجہ سے انہیں باقاعدہ سیاحتی مقام قرار نہیں دیا جاسکا ہے۔

    انہی میں سے ایک پنجاب کی سوائیک جھیل بھی ہے جسے عام طور پر کھنڈوعہ جھیل کے نام سے پکارا جاتا ہے۔

    کھنڈوعہ ضلع چکوال اور تحصیل کلر کہار کا ایک خوبصورت پر فضا مقام ہے جہاں ایک خوبصورت جھیل اور سیر گاہ بھی ہے۔

    یہ کلر کہار سے 8 کلو میٹر، چکوال سے 36 کلومیٹر، اور اسلام آباد سے 114 کلو میٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ اس مقام تک لاہور اور اسلام آباد کو ملانے والی ایم 2 موٹر وے پر سفر کر کے پہنچا جا سکتا ہے۔

    پہاڑیوں کے درمیان میں چھپی اس جھیل تک پہنچنے کے لیے آپ کو ذرا اونچائی کا سفر کرنا ہوگا اور یہ سفر نہایت حسین مناظر پر مشتمل ہوگا۔

    سرسبز پہاڑیوں کے بیچ جھیل کا شفاف پانی دیکھ کر آپ خود کو کسی اور ہی جہاں میں محسوس کریں گے۔

    جھیل میں ایک قدرتی آبشار بھی موجود ہے جس کے ٹھنڈے پانیوں میں نہانا یقیناً زندگی کا شاندار لمحہ ہوگا۔

    یہاں آنے والے افراد کلر کہار میں قیام کرتے ہیں اور دن کے اوقات میں جھیل پر آتے ہیں جہاں وہ ڈائیونگ اور تیراکی سے بھی لطف اندوز ہوتے ہیں۔

    پھر اگلی تعطیلات میں آپ بھی جارہے ہیں اس خوبصورت مقام پر؟


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔