Tag: 03rd death anniversary

  • پاکستان کی معروف نعت خواں منيبہ شيخ کو ہم سے بچھڑے تین سال بیت گئے

    پاکستان کی معروف نعت خواں منيبہ شيخ کو ہم سے بچھڑے تین سال بیت گئے

    کراچی : پاکستان کی معروف نعت خواں منيبہ شيخ کی آج تیسری برسی ہے۔ کلام اقبال کا ہو يا خواجہ غريب نواز کا، منيبہ شيخ کي پر تاثیر آواز نے اسے جاوداں بنا ديا۔

    زمانہ طالب علمی سے سرور کائنات حضرت محمد مصطفیٰ کی خدمت ميں گلہائے عقيدت پيش کرنے والی آواز پہلے ريڈيو پھر ٹی وی اور اس کے بعد سوشل میڈیا کے ذریعے دنيا بھر ميں گونجی۔

    انہوں نے ریڈیو پاکستان سے پہلی مرتبہ نعت مرحبا سیّدی مکّی مدنی العربی پڑھی، اس کے بعد انہوں نے ریڈیو کے پروگرام پلیٹ فارم کی پانچ سال تک کمپیئرنگ بھی کی۔

    ان کے انداز اور طرز میں نعتیں آج بھی میلادوں میں نہایت اہتمام اور شوق سے پڑھی جاتی ہیں۔ حکومت پاکستان کی جانب سے منیبہ شیخ کو ان کی گراں قدر خدمات کے پیش نظر 14 اگست 1988ء کو صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی سے نوازا گیا تھا۔

    منیبہ شیخ14مئی سال2017کو خالق حقیقی سے جاملیں وہ طویل عرصے سے گردے کے عارضہ میں مبتلا تھیں۔ پاکستان میں نعت خوانی کے شعبے کے فروغ اور اس میں نمونہ مثال بننے والی منیبہ شیخ نے زمانہ طالب علمی ہی سے نعت خوانی کا آغاز کیا۔

    جلد ہی محبت و عقیدت میں ڈوبی یہ آواز اسکول اور جامعہ سے نکل کر ریڈیو اور ٹیلی ویژن کے ذریعے گھر گھر پہنچی اور عالمی سطح پر متعارف ہوئی، زمانہ طالب علمی سے پروان چڑھنے والا شوق نعت خوانی ان کی زندگی کی آخری سانس تک جاری رہا۔

  • ’’میرا دل بدل دے‘‘ جنید جمشید شہید کو ہم سے جدا ہوئے 3 برس بیت گئے

    ’’میرا دل بدل دے‘‘ جنید جمشید شہید کو ہم سے جدا ہوئے 3 برس بیت گئے

    کراچی : دل دل پاکستان سے میرا دل بدل دے تک قوم کے دلوں پر راج کرنے والے جنید جمشید کو ہم سے بچھڑے تین برس بیت گئے۔

    تفصیلات کے مطابق 7 دسمبر دوہزار سولہ کو جنید جمشید قومی ائیرلائن پی کے 661 کی پرواز کے ذریعے چترال سے واپس آرہے تھے کہ حویلیاں کے مقام پر طیارے کو حادثہ پیش آیا جس کے نتیجے میں معروف مبلغ سمیت تمام ہی 47 مسافر شہید ہوگئے تھے، جہاز پھٹنے کی وجہ سے لاشوں کی شناخت کا عمل ڈین این اے کے ذریعے کیا گیا تھا۔

    بدقسمت طیارے میں سوار جنید جمشید کا یہ سفر 2016 کا آخری ثابت ہوا جس کے بعد اُن کی آواز ہمیشہ کے لیے خاموش ہوگئی تاہم اُن کا انداز آج بھی لوگوں کے دلوں میں زندہ ہے۔

    جنید جمشید کا کیریئرکاعروج تھا کہ اللہ نے انہیں دین کی راہ دکھادی جس کے بعد انہوں نے موسیقی کو خیرباد کہا اوراللہ والوں سے ناطہ جوڑ لیا۔ تبلیغی جماعت سے وابستگی کے بعد جنید جمشید دین کی عالی محنت کے لیے دیس دیس گئے اور اسی دوران انہوں نے حمد و ثناء و نعت خوانی کا آغاز بھی کیا۔

    یہ پڑھیں: جنید جمشید کا سفر زندگی

    اے آر وائی ڈیجیٹل پر نشر ہونے والی رمضان نشریات میں وسیم بادامی کے ساتھ جنید جمشید کے انداز نے بھی لوگوں کے دلوں میں گھر کیے، بیت بازی کا مقابلہ ہو، سوال جواب کی نشست یا پھر افطار اور سحر کے اوقات کی دعائیں جنید جمشید پیش پیش نظر آتے تھے۔

    واضح رہے معروف مبلغ جنید جمشید کی پیدائش 3 ستمبر 1964 کو کراچی میں ہوئی، والد کا تعلق پاکستان ائیرفورس سے ہونے کے باعث آپ کے والد نے ابتدائی طور پر کوشش کی کہ آپ کو اُسی شعبے سے وابستہ رکھا جائے۔

    یونیورسٹی دور میں میوزک سے لگاؤ ہونے کے بعد دوستوں کے ساتھ مل کر ایک بینڈ تشکیل دیا، جس نے 1983 میں پشاور اور پھر اسلام آباد یونیورسٹی میں اپنی فن کا مظاہرہ کیا، بعد ازاں اس چھوٹے سے بینڈ وائٹل سائنس نے دنیا بھر میں نام روشن کیا اور دل دل پاکستان جیسے مشہور قومی نغموں کو تخلیق کیا۔

  • انسانیت کے عظیم خادم عبدالستار ایدھی کی تیسری برسی آج منائی جائے گی

    انسانیت کے عظیم خادم عبدالستار ایدھی کی تیسری برسی آج منائی جائے گی

     کراچی : ہزاروں یتیموں کے والد‘ بے سہاروں کا سہارا ‘ دنیا کی سب بڑی ایمبولینس سروس کے بانی اور فلاحی خدمات میں پاکستان کی شناخت دنیا بھر میں منوانے والے ڈاکٹر عبدالستار ایدھی کی تیسری آج برسی 8 جولائی 2019 کو منائی جارہی ہے۔

    ایدھی فاؤنڈیشن کے روح رواں عبدالستار ایدھی طویل عرصے تک گردوں کے مرض میں مبتلا رہنے کے بعد گزشتہ برس انتقال کرگئے تھے ‘ علاج کی ہر ممکن آفرز کے باوجود انہوں نے پاکستان سے باہر علاج کرانا گوارا نہیں کیا۔

    ان کے انتقال سے جہاں ایدھی فاؤنڈیشن کے سرسے ان کے بے پناہ محبت کرنے والے بانی کا سایہ اٹھ گیا وہی دنیا بھی انسانیت کے ایک ایسے خادم سے محروم ہوگئی جس کی زندگی کا ایک ایک لمحہ انسانیت کی خدمت کے لیے وقف تھا‘ ان کی وفات سارے پاکستان ا ور دنیا بھر میں پھیلے ہوئے ان کے کروڑوں مداحوں کو سوگوار کرگئی تھی۔

    ان کا مشن ان کی موت کے بعد بھی جاری و ساری ہے ‘ وہ خود بھی جاتے جاتے اپنی آنکھیں عطیہ کرگئے تھے جنہوں ایس آئی یو ٹی میں مستحق مریضوں کو لگایا گیا۔

    فوجی اعزاز کے ساتھ تدفین
    حکومت پاکستان نے ان کی خدمات کے اعتراف میں انہیں مکمل سرکاری اعزاز کے ساتھ انیس توپوں کی سلامی دی گئی‘ ان کی میت کو گن کیرج وہیکل کے ذریعے جنازہ گاہ لایا گیا۔

    ملکی تاریخ میں اس سے پہلے صرف تین شخصیات کی فوجی اعزاز کے ساتھ تدفین کی گئی، قومی پرچم میں لپٹے جسد خاکی کو پاک بحریہ کے سیکیورٹی حصار میں گن کیرج وہیکل پر میٹھا در سے نیشنل اسٹیڈیم پہنچایا گیا۔

    سب سے پہلے بابائے قوم محمد علی جناح کی تدفین مکمل فوجی اعزاز کے ساتھ کی گئی، قائداعظم محمد علی جناح پاکستان کی وہ پہلی شخصیت تھے جن کی میت گن کیرج وہیکل پر لائی گئی تھی، بابائے قوم کاجسد خاکی لحد میں اتارتے وقت پاک فوج نےگارڈ آف آنر پیش کیا تھا۔

    دوسری مرتبہ یہ اعزاز پاک فوج کے سربراہ جنرل ضیاء الحق کونصیب ہوا، انہیں بھی فوجی اعزاز کے ساتھ سپرد خاک کیاگیا تھا۔

    عبدالستارایدھی تیسرے پاکستانی ہیں جنھیں پاک فوج نے سلامی دی اور مکمل فوجی اعزاز کے ساتھ لحد میں اتارا گیا۔

    یادگاری سکہ
    گزشتہ سال مارچ میں اسٹیٹ بینک میں عبدالستار ایدھی کا یادگاری سکہ جاری کرنے کیلئے تقریب منعقد کی گئی، تقریب میں فیصل ایدھی نے بھی شرکت کی، گورنراسٹیٹ بینک نے یادگاری سکہ فیصل ایدھی کوپیش کیا۔

    اسٹیٹ بینک کی جانب سے 50روپے مالیت کے عبدالستار ایدھی کے نام سے منسوب 50روپے مالیت کے 50 ہزار سکے جاری کیے گئے ہیں۔

    ایدھی‘ انسانیت کی خدمت کیوں کرتے تھے؟
    متحدہ ہندوستان کے علاقے گجرات (بانٹوا) میں 1928 کو پیدا ہونے والے عبدالستار ایدھی تقسیم ہند کے بعد 1947 میں ہندوستان سے ہجرت کر کے کراچی میں بسنے والے عبد الستار ایدھی نے بچپن سے ہی کڑے وقت کا سامنا کیا،اُن کی والدہ پر فالج کا حملہ ہوا تھا جس سے وہ ذہنی و جسمانی معذروی کا شکار ہو کر بستر سے جا لگی تھیں، جس کے بعد اس ننھے بچے نے کراچی کی سڑکوں پر اپنی ماں کے علاج کی غرض سے در در کی ٹھوکریں کھائیں تا ہم ماں کی نگہداشت کے لیے ایک بھی ادارہ نہ پایا تو سخت مایوسی میں مبتلا ہو گئے اور اکیلے ہی اپنی کا ماں کی نگہداشت میں دن و رات ایک کر دیے۔

    اسی ابتلاء اور پریشانی کے دور میں انہیں ایک ایسے ادارے کے قیام کا خیال آیا جو بے کسوں اور لاچار مریضوں کی دیکھ بھال کرے،اپنے اسی خواب کی تعبیر کے نوجوان عبد الستار ایدھی نے 1951 ء میں صرف پانچ ہزار روپے سے ایک کلینک کی بنیاد رکھی،یہ کلینک کراچی کے علاقے کھارادر میں کھولا گیا اور دیکھتے ہی دیکھتے ایسے کئی رفاحی کلینک کا جال پورے ملک میں پھیلا دیا۔

    دوسری جانب ایدھی فاونڈیشن کی ایمبولینسس بد سے بد ترین حالت میں بھی زخمیوں اور لاشوں کو اُٹھانے سب سے پہلے پہنچ جاتی ہیں،میتوں کے سرد خانے اور غسل و تدفین کا ذمہ بھی اس محسن انسانیت نے اُٹھایا اور تعفن زدہ لاشوں کو اپنے ہاتھوں سے غسل دینا شروع کیا۔

    وہ مذہب وفرقے، رنگ و نسل اور ادنی و اعلیٰ کی تفریق کے بغیرسب کی خدمت کے لیے ہمہ وقت مگن رہتے، وہ اپنے ادارے کے لیے سڑکوں پر، گلیوں میں در در جا کر چندہ اکھٹا کرتے اور اسے انسانیت کی خدمت میں لگا دیتے اور اپنی ذات پر گھر و اہل و عیال پر سادگی اور میانہ روی اپنائے رکھتے۔

    ایدھی صاحب کو دیےجانے والے اعزازات
    یہی وجہ ہے انسانیت کے لئے بے لوث خدمات پر انہیں ملکی اور بین الاقوامی سطح پر متعدد ایوارڈز سے نوازا گیا، 1980 میں پاکستانی حکومت نے انہیں نشان امتیاز دیا،1992 میں افواج پاکستان کی جانب سے انہیں شیلڈ آف آنر پیش کی جب کہ 1992 میں ہی حکومت سندھ نے انہیں سوشل ورکر آف سب کونٹی نینٹ کا اعزاز دیا۔ بین الاقوامی سطح پر 1986 میں عبدالستار ایدھی کو فلپائن نے Ramon Magsaysay Award دیا جب کہ1993 میں روٹری انٹرنیشنل فاؤنڈیشن کی جانب سے انہیں پاؤل ہیرس فیلو دیا گیا، یہی نہیں 1988 میں آرمینیا میں زلزلہ زدگان کے لئے خدمات کے صلے میں انہیں امن انعام برائے یو ایس ایس آر بھی دیا گیا۔

    ایدھی صاحب کو 2006 میں کراچی کے معتبرو معروف تعلیمی ادارے آئی بی اے کی جانب سے پی ایچ ڈی کی اعزازی ڈگری بھی دی گئی تھی،یہ اعزازی ٍڈگری ایدھی صاحب کی انسانیت کی خدمت اور رفاحی کاموں کے اعتراف کے طور پر دیے گئے۔

  • معروف قوال امجد صابری کی شہادت کو تین برس بیت گئے

    معروف قوال امجد صابری کی شہادت کو تین برس بیت گئے

    کراچی : محبت بھراانداز  رکھنے والے معروف قوال امجد صابری کو ہم سے بچھڑے تین سال بیت گئے مگر اس لازوال شخصیت کی یاد ابھی تک دلوں میں تازہ ہے۔

    معروف قوال امجد صابری کو 16 رمضان المبارک 23 جون 2016 کو لیاقت آباد نمبر 10 پر نامعلوم مسلح ملزمان نے فائرنگ کرکے قتل کردیا تھا، کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے حکیم اللہ محسود گروپ کے ترجمان قاری سیف اللہ محسود نے امجد صابری پر حملے کی ذمہ داری قبول کرنے کا دعویٰ کیا تھا۔

    بعد ازاں27 نومبر2016 کو وزیراعلیٰ سندھ نے اعلان کیا کہ کاؤنٹر ٹیررزم ڈیپارٹمنٹ نے امجد صابری قتل کیس میں دو دہشت گردوں اسحاق بوبی اور عاصم کیپری کو گرفتار کرلیا ہے۔

    امجد صابری کے قتل میں ملوث دہشت گردوں نے تفتیش کے دوران فوجی جوانوں، پولیس اہلکاروں سمیت دیگر افراد کے قتل کا بھی اعتراف کیا، دونوں دہشت گردوں کے مقدمات انسداد دہشت گردی کی عدالت میں زیر سماعت تھے جہاں سے انہیں ملٹری عدالتوں میں منتقل کیا گیا تھا۔

    رواں سال دو اپریل کو آرمی چیف جنرل قمر باجوہ نے امجد صابری کے قاتلوں سمیت 10دہشت گردوں کے ڈیتھ وارنٹ پر دستخط کردیے تھے، تمام دہشت گردسنگین نوعیت کےدہشت گردحملوں میں ملوث تھے ۔ پاک فوج کے ترجمان کا کہنا ہے کہ فوجی عدالتوں سے سزائے موت پانے والے دہشت گردوں میں اسحاق اور عاصم،عریش خان،رفیق، حبیب الرحمان ، فیاض،اسماعیل شاہ،فضل محمد،علی ولد محمدعلی،حبیب شامل ہیں۔

    امجد صابری نے والد فرید صابری کی جدائی کے بعد ان کا نام زندہ رکھنے والے کیلئے والد کی وراثت کا حق ادا کیا،اور قوالی میں نام کمایا۔ امجد صابری نے بچپن سے ہی گھر میں تصوف کو پروان چڑھتے دیکھا ۔فن قوالی میں اپنے والد سے تربیت حاصل کرتے ہوئے محض آٹھ سال کی عمر سے ہی گائیکی کا آغاز کردیا تھا۔

    اللہ اور اس کے اولیا سے محبت نے امجد صابری کی آواز میں ایسی مٹھاس اور سرور بھر دیا کہ سننے والے آواز کے سحر میں کھو جاتے ہیں۔ امجد صابری نے پاکستان اور بھارت میں کئی کلام پڑھے۔انہیں اب تک کئی ایوارڈز کے ساتھ بہترین پرفارمنس کا ایوارڈ پرائڈ آف پرفارمنس بھی ملا۔

    امجد صابری کہتے ہیں کہ تاجدار حرم۔ جب بھی پڑھی آنکھوں میں آنسو آئے۔یہ پڑھتے ہوئے انہیں شدت سے والد کی یاد آئی۔فن قوالی میں اپنا منفرد مقام رکھنے والے امجد صابری اپنی آواز سے دلوں میں خاص مقام رکھتے ہپں۔