Tag: 04th death anniversary

  • پہلے چیف ائیر مارشل اصغر خان کو ہم سے بچھڑے چار برس بیت گئے

    پہلے چیف ائیر مارشل اصغر خان کو ہم سے بچھڑے چار برس بیت گئے

    سیاست کے مرد آہن، نڈر، بے خوف اور فولادی صفات کی حامل عظیم شخصیت چیف ائیر مارشل اصغر خان کی آج چوتھی برسی منائی جارہی ہے۔

    اس حوالے سے پی اے ایف کے پہلے پاکستانی کمانڈر ان چیف ایئر مارشل محمد اصغر خان (مرحوم) کو ان کی چوتھی برسی پر پاک فضائیہ کی جانب سے خراج عقیدت پیش کیا گیا ہے۔

    ائیر مارشل اصغر خان 17جنوری 1921 کو پیدا ہوئے اور دسمبر 1940 میں رائل انڈین ائیر فورس میں شمولیت اختیار کی۔

    آزادی کے بعد انہوں نے رائل پاک فضائیہ کا انتخاب کیا اور 1947 سے 1949 تک پاکستان ایئر فورس اکیڈمی (اس وقت رائل پاکستان ایئر فورس کالج) رسالپور کے پہلے کمانڈنٹ کے طور پر تعینات رہے۔

    بعد ازاں 1957 میں انہیں ائیر مارشل کے عہدے پر ترقی دے دی گئی اور آپ 36 برس کی عمر میں پاک فضائیہ کے سب سے کم عمر پاکستانی کمانڈر ان چیف بنے۔

    ان کی بے لوث خدمات کے اعتراف میں پی اے ایف اکیڈمی رسالپور کو2017 میں ائیر مارشل اصغر خان کے نام سے منسوب کردیا گیا۔

  • خادم انسانیت عبدالستار ایدھی کو ہم سے بچھڑے چار برس گزر گئے

    خادم انسانیت عبدالستار ایدھی کو ہم سے بچھڑے چار برس گزر گئے

    کراچی : ہزاروں یتیموں کے والد‘ بے سہاروں کا سہارا ‘ دنیا کی سب بڑی ایمبولینس سروس کے بانی اور فلاحی خدمات میں پاکستان کی شناخت دنیا بھر میں منوانے والے ڈاکٹر عبدالستار ایدھی کی چوتھی آج برسی 8 جولائی 2019 کو منائی جارہی ہے۔

    ایدھی فاؤنڈیشن کے روح رواں عبدالستار ایدھی طویل عرصے تک گردوں کے مرض میں مبتلا رہنے کے بعد گزشتہ برس انتقال کرگئے تھے ‘ علاج کی ہر ممکن آفرز کے باوجود انہوں نے پاکستان سے باہر علاج کرانا گوارا نہیں کیا۔

    ان کے انتقال سے جہاں ایدھی فاؤنڈیشن کے سرسے ان کے بے پناہ محبت کرنے والے بانی کا سایہ اٹھ گیا وہی دنیا بھی انسانیت کے ایک ایسے خادم سے محروم ہوگئی جس کی زندگی کا ایک ایک لمحہ انسانیت کی خدمت کے لیے وقف تھا‘ ان کی وفات سارے پاکستان ا ور دنیا بھر میں پھیلے ہوئے ان کے کروڑوں مداحوں کو سوگوار کرگئی تھی۔

    ان کا مشن ان کی موت کے بعد بھی جاری و ساری ہے ‘ وہ خود بھی جاتے جاتے اپنی آنکھیں عطیہ کرگئے تھے جنہوں ایس آئی یو ٹی میں مستحق مریضوں کو لگایا گیا۔

    فوجی اعزاز کے ساتھ تدفین

    حکومت پاکستان نے ان کی خدمات کے اعتراف میں انہیں مکمل سرکاری اعزاز کے ساتھ انیس توپوں کی سلامی دی گئی‘ ان کی میت کو گن کیرج وہیکل کے ذریعے جنازہ گاہ لایا گیا۔

    ملکی تاریخ میں اس سے پہلے صرف تین شخصیات کی فوجی اعزاز کے ساتھ تدفین کی گئی، قومی پرچم میں لپٹے جسد خاکی کو پاک بحریہ کے سیکیورٹی حصار میں گن کیرج وہیکل پر میٹھا در سے نیشنل اسٹیڈیم پہنچایا گیا۔

    سب سے پہلے بابائے قوم محمد علی جناح کی تدفین مکمل فوجی اعزاز کے ساتھ کی گئی، قائداعظم محمد علی جناح پاکستان کی وہ پہلی شخصیت تھے جن کی میت گن کیرج وہیکل پر لائی گئی تھی، بابائے قوم کاجسد خاکی لحد میں اتارتے وقت پاک فوج نےگارڈ آف آنر پیش کیا تھا۔

    دوسری مرتبہ یہ اعزاز پاک فوج کے سربراہ جنرل ضیاء الحق کونصیب ہوا، انہیں بھی فوجی اعزاز کے ساتھ سپرد خاک کیاگیا تھا۔

    عبدالستارایدھی تیسرے پاکستانی ہیں جنھیں پاک فوج نے سلامی دی اور مکمل فوجی اعزاز کے ساتھ لحد میں اتارا گیا۔

    یادگاری سکہ
    گزشتہ سال مارچ میں اسٹیٹ بینک میں عبدالستار ایدھی کا یادگاری سکہ جاری کرنے کیلئے تقریب منعقد کی گئی، تقریب میں فیصل ایدھی نے بھی شرکت کی، گورنراسٹیٹ بینک نے یادگاری سکہ فیصل ایدھی کوپیش کیا۔

    اسٹیٹ بینک کی جانب سے 50روپے مالیت کے عبدالستار ایدھی کے نام سے منسوب 50روپے مالیت کے 50 ہزار سکے جاری کیے گئے ہیں۔

    ایدھی‘ انسانیت کی خدمت کیوں کرتے تھے؟
    متحدہ ہندوستان کے علاقے گجرات (بانٹوا) میں 1928 کو پیدا ہونے والے عبدالستار ایدھی تقسیم ہند کے بعد 1947 میں ہندوستان سے ہجرت کر کے کراچی میں بسنے والے عبد الستار ایدھی نے بچپن سے ہی کڑے وقت کا سامنا کیا،اُن کی والدہ پر فالج کا حملہ ہوا تھا جس سے وہ ذہنی و جسمانی معذروی کا شکار ہو کر بستر سے جا لگی تھیں، جس کے بعد اس ننھے بچے نے کراچی کی سڑکوں پر اپنی ماں کے علاج کی غرض سے در در کی ٹھوکریں کھائیں تا ہم ماں کی نگہداشت کے لیے ایک بھی ادارہ نہ پایا تو سخت مایوسی میں مبتلا ہو گئے اور اکیلے ہی اپنی کا ماں کی نگہداشت میں دن و رات ایک کر دیے۔

    اسی ابتلاء اور پریشانی کے دور میں انہیں ایک ایسے ادارے کے قیام کا خیال آیا جو بے کسوں اور لاچار مریضوں کی دیکھ بھال کرے،اپنے اسی خواب کی تعبیر کے نوجوان عبد الستار ایدھی نے 1951 ء میں صرف پانچ ہزار روپے سے ایک کلینک کی بنیاد رکھی،یہ کلینک کراچی کے علاقے کھارادر میں کھولا گیا اور دیکھتے ہی دیکھتے ایسے کئی رفاحی کلینک کا جال پورے ملک میں پھیلا دیا۔

    دوسری جانب ایدھی فاونڈیشن کی ایمبولینسس بد سے بد ترین حالت میں بھی زخمیوں اور لاشوں کو اُٹھانے سب سے پہلے پہنچ جاتی ہیں،میتوں کے سرد خانے اور غسل و تدفین کا ذمہ بھی اس محسن انسانیت نے اُٹھایا اور تعفن زدہ لاشوں کو اپنے ہاتھوں سے غسل دینا شروع کیا۔

    وہ مذہب وفرقے، رنگ و نسل اور ادنی و اعلیٰ کی تفریق کے بغیرسب کی خدمت کے لیے ہمہ وقت مگن رہتے، وہ اپنے ادارے کے لیے سڑکوں پر، گلیوں میں در در جا کر چندہ اکھٹا کرتے اور اسے انسانیت کی خدمت میں لگا دیتے اور اپنی ذات پر گھر و اہل و عیال پر سادگی اور میانہ روی اپنائے رکھتے۔

    ایدھی صاحب کو دیےجانے والے اعزازات

    یہی وجہ ہے انسانیت کے لئے بے لوث خدمات پر انہیں ملکی اور بین الاقوامی سطح پر متعدد ایوارڈز سے نوازا گیا، 1980 میں پاکستانی حکومت نے انہیں نشان امتیاز دیا،1992 میں افواج پاکستان کی جانب سے انہیں شیلڈ آف آنر پیش کی جب کہ 1992 میں ہی حکومت سندھ نے انہیں سوشل ورکر آف سب کونٹی نینٹ کا اعزاز دیا۔ بین الاقوامی سطح پر 1986 میں عبدالستار ایدھی کو فلپائن نے Ramon Magsaysay Award دیا جب کہ1993 میں روٹری انٹرنیشنل فاؤنڈیشن کی جانب سے انہیں پاؤل ہیرس فیلو دیا گیا، یہی نہیں 1988 میں آرمینیا میں زلزلہ زدگان کے لئے خدمات کے صلے میں انہیں امن انعام برائے یو ایس ایس آر بھی دیا گیا۔

    ایدھی صاحب کو 2006 میں کراچی کے معتبرو معروف تعلیمی ادارے آئی بی اے کی جانب سے پی ایچ ڈی کی اعزازی ڈگری بھی دی گئی تھی،یہ اعزازی ٍڈگری ایدھی صاحب کی انسانیت کی خدمت اور رفاحی کاموں کے اعتراف کے طور پر دیے گئے

  • معروف قوال امجد صابری کو ہم سے بچھڑے چار برس بیت گئے

    معروف قوال امجد صابری کو ہم سے بچھڑے چار برس بیت گئے

    کراچی : محبت بھراانداز رکھنے والے معروف قوال امجد صابری کو ہم سے بچھڑے تین سال بیت گئے مگر اس لازوال شخصیت کی یاد ابھی تک دلوں میں تازہ ہے۔

    معروف قوال امجد صابری کو 16 رمضان المبارک 23 جون 2016 کو لیاقت آباد نمبر 10 پر نامعلوم مسلح ملزمان نے فائرنگ کرکے قتل کردیا تھا، کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے حکیم اللہ محسود گروپ کے ترجمان قاری سیف اللہ محسود نے امجد صابری پر حملے کی ذمہ داری قبول کرنے کا دعویٰ کیا تھا۔

    بعد ازاں27 نومبر2016 کو وزیراعلیٰ سندھ نے اعلان کیا کہ کاؤنٹر ٹیررزم ڈیپارٹمنٹ نے امجد صابری قتل کیس میں دو دہشت گردوں اسحاق بوبی اور عاصم کیپری کو گرفتار کرلیا ہے۔

    امجد صابری کے قتل میں ملوث دہشت گردوں نے تفتیش کے دوران فوجی جوانوں، پولیس اہلکاروں سمیت دیگر افراد کے قتل کا بھی اعتراف کیا، دونوں دہشت گردوں کے مقدمات انسداد دہشت گردی کی عدالت میں زیر سماعت تھے جہاں سے انہیں ملٹری عدالتوں میں منتقل کیا گیا تھا۔

    رواں سال دو اپریل کو آرمی چیف جنرل قمر باجوہ نے امجد صابری کے قاتلوں سمیت 10دہشت گردوں کے ڈیتھ وارنٹ پر دستخط کردیے تھے، تمام دہشت گردسنگین نوعیت کےدہشت گردحملوں میں ملوث تھے ۔ پاک فوج کے ترجمان کا کہنا ہے کہ فوجی عدالتوں سے سزائے موت پانے والے دہشت گردوں میں اسحاق اور عاصم،عریش خان،رفیق، حبیب الرحمان ، فیاض،اسماعیل شاہ،فضل محمد،علی ولد محمدعلی،حبیب شامل ہیں۔

    امجد صابری نے والد فرید صابری کی جدائی کے بعد ان کا نام زندہ رکھنے والے کیلئے والد کی وراثت کا حق ادا کیا،اور قوالی میں نام کمایا۔ امجد صابری نے بچپن سے ہی گھر میں تصوف کو پروان چڑھتے دیکھا ۔فن قوالی میں اپنے والد سے تربیت حاصل کرتے ہوئے محض آٹھ سال کی عمر سے ہی گائیکی کا آغاز کردیا تھا۔

    اللہ اور اس کے اولیا سے محبت نے امجد صابری کی آواز میں ایسی مٹھاس اور سرور بھر دیا کہ سننے والے آواز کے سحر میں کھو جاتے ہیں۔ امجد صابری نے پاکستان اور بھارت میں کئی کلام پڑھے۔انہیں اب تک کئی ایوارڈز کے ساتھ بہترین پرفارمنس کا ایوارڈ پرائڈ آف پرفارمنس بھی ملا۔

    امجد صابری کہتے ہیں کہ تاجدار حرم۔ جب بھی پڑھی آنکھوں میں آنسو آئے۔ یہ پڑھتے ہوئے انہیں شدت سے والد کی یاد آئی۔فن قوالی میں اپنا منفرد مقام رکھنے والے امجد صابری اپنی آواز سے دلوں میں خاص مقام رکھتے ہپں۔

  • مایہ ناز باکسر محمد علی کو مداحوں سے بچھڑے 4 برس بیت گئے

    مایہ ناز باکسر محمد علی کو مداحوں سے بچھڑے 4 برس بیت گئے

    دنیا کے ممتاز باکسر محمد علی کو اپنے مداحوں سے بچھڑے آج  چار  برس گزر گئے، محمد علی ایک لیجنڈ باکسر ہی نہیں بلکہ ایک عظیم شخصیت اور عزم و ہمت کی مثال تھے۔

    چاربرس قبل آج ہی کے روز  سانس لینے میں دشواری کے باعث انہیں اسپتال لے جایا گیا تھا، جہاں 74 سالہ سابق امریکی باکسر محمد علی دوران علاج اپنے اہل خانہ اور مداحوں غمگین کرگئے۔

    خیال رہے کہ لیجنڈ باکسر محمد علی موت سے قبل 3 دہائیوں سے پارکنسن سمیت متعدد امراض کا شکار تھے، محمد علی لیجنڈ باکسر ہونے کے ساتھ ساتھ ایک درد مند انسان بھی تھے اور معاشرے میں ہونے والی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر سراپا احتجاج رہتے تھے۔

    سنہ 1959 سے 1975 تک لڑی جانے والی ویت جنگ میں امریکی افواج میں شامل کرنے کے لیے محمد علی سے عہد نامے پر دستخط لینے کی کوشش کی گئی لیکن انہوں نے انکار کردیا، جس کے باعث امریکی حکومت نے ان سے اولمپک چیمپئن شپ کے اعزازات واپس لے کر 5 برس کے لیے جیل منتقل کردیا تھا۔

    غیر ملکی خبر رساں ذرائع کے مطابق امریکی سپریم کورٹ نے لیجنڈ باکسر کی گرفتاری پر بڑھتے ہوئے عوامی احتجاج کو مد نظر رکھتے ہوئے محمد علی کی سزا کو ختم کردیا تھا۔

    محمد علی زندگی کو ایک مثبت نظر سے دیکھنے کے عادی تھے۔ آج ان کی برسی کے موقع پر ان کے زریں خیالات و اقوال یقیناً آپ کی زندگی بدلنے میں مددگار ثابت ہوسکیں گے۔

     ان کا کہنا تھا کہ دوستی ایسی چیز نہیں جو آپ کسی تعلیمی ادارے میں سیکھیں، بلکہ اگر آپ نے دوستی کے صحیح معنی نہیں سیکھے، تو آپ نے کچھ نہیں سیکھا۔

    ایک انٹرویو میں انہوں نے بتایا کہ مجھے اپنی ٹریننگ کا ہر لمحہ برا لگتا تھا، لیکن میں نے سوچا کہ مجھے رکنا نہیں چاہیئے، میں ابھی تکلیف اٹھاؤں گا تو ساری زندگی چیمپئن کہلاؤں گا۔

    وہ کہتے تھے کہ جو شخص مشکلات کا سامنا کرنے کا حوصلہ نہیں رکھتا وہ کبھی کچھ حاصل نہیں کر سکتا, اگر تم مجھے ہرانے کا خواب بھی دیکھو، تو بہتر ہے کہ تم جاگ جاؤ اور اپنے اس خواب کی معافی مانگو۔

    لیجنڈ باکسر نے ایک موقع پر کہا کہ قوم آپس میں جنگیں نقشوں میں تبدیلی لانے کے لیے لڑتی ہیں لیکن غربت سے لڑی جانے والی جنگ زندگیوں میں تبدیلی لاتی ہے۔ میں نے زندگی میں بہت سی غلطیاں کیں، لیکن اگر میں اپنی زندگی میں کسی ایک شخص کی زندگی بھی بہتر کرنے میں کامیاب رہا تو میری زندگی رائیگاں نہیں گئی۔

    ان کا کہنا تھا کہ جو شخص خواب نہیں دیکھتا، وہ کبھی بھی اونچا نہیں اڑ سکتا، کاش کہ لوگ دوسروں سے بھی ویسے ہی محبت کرتے جیسے وہ مجھ سے کرتے ہیں، اگر وہ ایسا کریں تو دنیا بہت خوبصورت ہوجائے گی۔

    ویت نام کی جنگ میں شامل ہونے سے انکار کرنے کے بعد محمد علی نے کہا، ’یہ مجھ سے کیوں توقع رکھتے ہیں کہ میں یونیفار پہن کر اپنے گھر سے 10 ہزار میل دور جاؤں، اور کالوں پر گولیاں اور بم برساؤں؟ یہ تو اپنے ہی ملک میں نیگرؤوں سے کتوں جیسا سلوک کرتے ہیں‘۔

    محمد علی کا زندگی کے بارے میں خیال تھا کہ انسان کی  زندگی بہت چھوٹی ہے، ہم بہت جلدی بوڑھے ہوجاتے ہیں اور مرجاتے ہیں۔ یہ ایک احمقانہ بات ہے کہ ہم لوگوں سے نفرت کرنے میں اپنا وقت ضائع کردیں۔

  • نامور کلاسیکل گلوکار استاد غلام حسن شگن کو ہم سے بچھڑے چار برس بیت گئے

    نامور کلاسیکل گلوکار استاد غلام حسن شگن کو ہم سے بچھڑے چار برس بیت گئے

    لاہور: کلاسیکی موسیقی کے بے تاج بادشاہ استاد غلام حسن شگن کو ہم سے بچھڑے چار برس بیت گئے مگر اُن کا فن آج بھی مداحوں کے دلوں میں زندہ ہے۔

    ریڈیو پاکستان کے لاہور اسٹیشن نے دنیا کو کئی کلاسیکل گلوکار دیئے اور استاد شگن بھی ان میں سے ایک تھے۔ نامور کلاسیکل گلوکار غلام حسن شگن1928امرتسر میں پیدا ہوئے، ان کے والد اور بھائی بھی مشہور کلاسیکل گلوکار تھے۔

    قیام پاکستان کے بعد ان کا خاندان لاہور آکر قیام پذیر ہوگیا، ان کے والد نے ریڈیو پاکستان لاہور میں بحیثیت میوزک سپروائزر ملازمت اختیار کی، مشہور گوالیار گھرانے سے تعلق رکھنے والے استاد غلام حسن شگن نے محض سات سال کی عمر میں لاہور میں ہونے والے ایک ایک پروگرام سے اپنے فن کا آغاز کیا۔

    ابتدا میں انہیں کافی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اپنی محنت اور فن سے سچی لگن کے باعث وہ ملک اور بیرون ملک آل پاکستان میوزک کانفرنس اور اس جیسے دوسرے بڑے فورمز کا مستقل حصہ بننے لگے۔1998میں حکومت پاکستان نے انہیں پرائڈ آف پرفارمنس سے نوازا اور اس کے بعد سال2000میں ان کی فنی خدمات کے عوض ستارہ امتیاز بھی عطا کیا گیا۔

    اس سے قبل سال1962میں استاد شگن کے فن سے متاثر ہوکر بھارت کے شہر کولکتہ میں ایک میوزک کانفرنس میں سنگیت سمراٹ ایوارڈ دیا جا چکا ہے،دورہ بھارت میں انہیں سنگیت رتن اور سندھ سنگیت منڈلم جیسے القابات بھی ملے۔

    استاد شگن صرف برصغیر میں مشہور نہیں تھے بلکہ فرانس، سوئیڈن، سپین، سوئٹزرلینڈ ، جرمنی اور برطانیہ کے موسیقار بھی ان کی بہترین پرفارمنس پر ان کے معترف تھے۔ نامور کلاسیکل گلوکار غلام حسن شگن آج سے چار سال قبل دل کے عارضے میں مبتلا ہوکر پچاسی سال کی عمر میں جہان فانی سے کوچ کر گئے۔