Tag: 08th death anniversary

  • قوال امجد صابری کو دنیا سے رخصت ہوئے 8 برس بیت گئے

    قوال امجد صابری کو دنیا سے رخصت ہوئے 8 برس بیت گئے

    کراچی : پاکستان کے مشہور قوال امجد صابری کو اپنے مداحوں سے بچھڑے 8 برس بیت گئے۔

    امجد صابری کو 22جون سال 2016 میں ماہ رمضان میں فائرنگ کرکے قتل کردیا گیا تھا تاہم کئی سالوں بعد بھی قوال کی یاد مداحوں کے دلوں میں زندہ ہے۔

    امجد صابری کو 8 سال قبل لیاقت آباد کے علاقے میں 16 رمضان کو ان گاڑی میں نامعلوم افراد کی فائرنگ کا نشانہ بنا یا تھا۔

    وہ گھر سے رمضان ٹرانمیشن میں شرکت کیلئے روانہ ہوئے تھے اور راستے میں ان کے سر پر گولیاں ماری گئیں جس کی وجہ سے وہ موقع پر ہی دم توڑ گئے۔

    برصغیر کے معروف قوال گھرانے سے تعلق رکھنے والے امجد صابری استاد غلام فرید صابری کے گھر 23 دسمبر 1976 کو کراچی میں پیدا ہوئے۔

    صابری برادران کے نام سے مشہور اپنے والد اور چچا سے قوالی کی تربیت حاصل کی اور چھوٹی سی عمر سے ہی اس فن سے وابستہ ہوگئے۔ امجد صابری نے پاکستان سمیت بہت سے ممالک میں اپنے فن کا مظاہرہ کیا اور خوب شہرت کمائی۔

    امجد صابری کو ماہِ رمضان 22 جون 2016ء میں کراچی میں اس وقت قتل کیا گیا جب وہ گھر سے رمضان ٹرانمیشن میں شرکت کیلئے روانہ ہوئے تھے۔

    یاد رہے کہ مقتول امجد صابری کے قاتلوں کو گرفتار کرلیا گیا تھا ملزمان نے عدالت میں اپنے جرم کا اعتراف بھی کیا تھا۔

  • شہنشاہ غزل مہدی حسن کو بچھڑے 8 برس بیت گئے

    شہنشاہ غزل مہدی حسن کو بچھڑے 8 برس بیت گئے

    کراچی: شہنشاہِ غزل استاد مہدی حسن کو بچھڑے 8 برس بیت گئے، مگر اُن کا فن آج بھی زندہ ہے، ان کا نام اور ان کی آواز کسی تعارف کی محتاج نہیں ہے۔

    سانسوں کو سروں میں ڈھال دینے کے ماہرمہدی حسن پچیس ہزار سے زائد فلمی وغیر فلمی گیت اور غزلیں گائیں، حکومت پاکستان نے مہدی حسن کو ان کی خدمات کے اعتراف تمغہ امتیاز اور صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی سے بھی نوازا۔

    انیس سو نواسی میں مہدی حسن کو بھارتی حکومت نے اپنا بڑا ایوارڈ ”کے ایل سہگل“ سے بھی نوازا، مہدی حسن 1927ء میں بھارتی ریاست راجستھان کے ایک گاؤں لونا میں پیدا ہوئے تھے ۔

    اُن کے والد اور چچا دُھرپد گائیکی کے ماہر تھے اور مہدی حسن کی ابتدائی تربیت گھر ہی میں ہوئی۔ خود اُن کے بقول وہ کلاونت گھرانے کی سولہویں پیڑھی سے تعلق رکھتے تھے۔

    انہوں نے موسیقی کی تربیت اپنے والد استاد عظیم خان اور اپنے چچا استاد اسماعیل خان سے حاصل کی، جو کلاسیکل موسیقار تھے۔

    1947ء میں مہدی حسن اہل خانہ کے ساتھ ہجرت کر کے پاکستان چلے گئے اور محنت مزدوری کے طور پر سائیکلیں مرمت کرنے کا کام شروع کیا۔

    سال انیس سو پچاس کی دہائی اُن کے لیے مبارک ثابت ہوئی جب اُن کا تعارف ریڈیو پاکستان کے پروڈیوسر سلیم گیلانی سے ہوا۔ اس وقت سے لے کراپنی وفات تک انہوں نے پچیس ہزار سے زیادہ فلمی ،غیر فلمی گیت اور غزلیں پاکستان میں فنِ گائیکی کی نذر کی ہیں۔60 اور70کی دہائیوں میں مہدی حسن پاکستان کے معروف ترین فلمی گائیک بن چکے تھے۔

    اس کے علاوہ کئی ملی نغمے بھی گائے جو لوگوں مداحوں میں بے حد مقبول ہوئے، سنتوش کمار، درپن، وحید مراد اور محمد علی سے لے کر ندیم اور شاہد تک ہر ہیرو نے مہدی حسن کے گائے ہوئے گیتوں پر لب ہلائے۔

    برِصغیر کے ملکوں کا کئی بار دورہ بھی کیا۔ ان کے شاگردوں میں سب سے پہلے پرویز مہدی نے نام پیدا کیا اور تمام عمر اپنے اُستاد کو خراجِ عقیدت پیش کرتے رہے۔

    بعد میں غلام عباس، سلامت علی، آصف جاوید اور طلعت عزیز جیسے ہونہار شاگردوں نے اْن کی طرز گائیکی کو زندہ رکھا۔ استاد مہدی حسن تیرہ جون سال 2012کو کراچی کے ایک نجی اسپتال میں اس دار فانی سے کوچ کرگئے تھے۔

  • فخرِ پاکستان ارفع کریم رندھاوا کو ہم سے جدا ہوئے 8 سال گزر گئے

    فخرِ پاکستان ارفع کریم رندھاوا کو ہم سے جدا ہوئے 8 سال گزر گئے

    کم عمری میں ہی پاکستان کی پہچان بننے والی کم عمرترین مائیکرو سافٹ سرٹیفائیڈ پروفیشنل ارفع کریم رندھاوا کی آج آٹھویں برسی منائی جارہی ہے، انہوں نے نو برس کی عمر میں دنیا کی کم عمر ترین سافٹ سرٹیفائیڈ کا اعزازحاصل کیا تھا۔

    ارفع کریم 2 فروری 1995 کو فیصل آباد میں پیدا ہوئیں اورصرف 9 برس کی عمر میں دنیا کی کم عمر ترین مائیکرو سافٹ سرٹیفائیڈ کا اعزازحاصل کیا، ارفع نے اپنی لازوال کاوش کی بنا پر فاطمہ جناح گولڈ میڈل، سلام پاکستان یوتھ ایوارڈ اورصدارتی پرائیڈ آف پرفارمنس سمیت دیگراعزازات بھی حاصل کیے تھے۔

    سنہ دو ہزار پانچ میں مائیکرو سافٹ کے خالق بل گیٹس نے ارفع کریم سے خصوصی ملاقات کی اور انھیں مائیکرو سافٹ سرٹیفائیڈ ایپلی کیشن کی سند عطا کی تھی ۔مائیکرو سافٹ نے بار سلونا میں منعقدہ سن 2006 کی تکنیکی ڈیولپرز کانفرنس میں پوری دنیا سے پانچ ہزار سے زیادہ مندوبین میں سے پاکستان سے صرف ارفع کریم کو مد عو کیا گیا تھا۔

    اس کے علاوہ ارفع کریم نے دبئی کے فلائنگ کلب میں صرف دس سال کی عمر میں ایک طیارہ اڑایا اور طیارہ اڑانے کا سرٹیفیکٹ بھی حاصل کیا ۔

    ارفع کو 22 دسمبر 2011 کو مرگی کا دورہ پڑنے پر لاہور کے اسپتال میں منتقل کیا گیا جہاں وہ کچھ روز کومے میں رہنے کے بعد 14جنوری 2012 کو خالق حقیقی سے جا ملیں لیکن مائیکرو سافٹ کی تاریخ میں ناقابل فراموش نقوش چھوڑ گئیں۔

    جنوری 2012ء میں وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی نے ارفع کے نام پر ڈاک کا یادگاری ٹکٹ جاری کرنے کی منظوری دی‘ جبکہ پنجاب حکومت نے ان کے نام سے لاہور میں ارفع کریم آئی ٹی ٹاور بھی تعمیر کیا ہے۔

    شوخ چنچل اور اپنی زندگی کھل کر جینے والی ارفع آج ہم میں نہیں ہے مگر ارفع کی طرح دیگر کئی کم عمر مائیکروسافٹ پروفیشنلز اس کا مشن جاری رکھنے کے لئے پر عزم ہیں، ارفع کریم رندھاوا ایک پھول تھا جو مرجھا گیا مگر اس کی خوشبو آج بھی دل و دماغ پر مہک رہی ہے۔

  • لازوال کرداروں کے خالق معین اختر کو ہم سے بچھڑے آٹھ برس بیت گئے

    لازوال کرداروں کے خالق معین اختر کو ہم سے بچھڑے آٹھ برس بیت گئے

    کراچی : چاردہائیوں تک لوگوں کے چہروں پر قہقہے بکھیرنے والے ہردلعزیز فن کار معین اختر کی آج آٹھویں برسی منائی جا رہی ہے۔

    قہقہوں کے بادشاہ معروف اداکار، کامیڈین معین اختر کو ہم سے بچھڑے آٹھ برس بیت چکے ہیں مگر ان کا فن آج بھی زندہ ہے، فن کی دنیا میں مزاح سے لے کر پیروڈی تک اسٹیج سے ٹیلی ویژن تک معین اختروہ نام ہے جس کے بغیر پاکستان ٹیلی ویژن اوراردو مزاح کی تاریخ نامکمل ہے۔

    پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی سے تعلق رکھنے والے معین اختر 24 دسمبر 1950 کو کراچی میں پیدا ہوئے اور انہوں نے پاکستان ٹیلی ویژن پر اپنے کام کا آغاز 6 ستمبر 1966ء کو پاکستان کے پہلے یوم دفاع کی تقاریب کے لیے کیے گئے پروگرام سے کیا۔ جس کے بعد انہوں نے کئی ٹی وی ڈراموں، سٹیج شوز میں کام کرنے کے بعد انور مقصود اور بشرہ انصاری کے ساتھ ٹیم بنا کر کئی معیاری پروگرام پیش کیے۔

    نقالی کی صلاحیت کو اداکاری کا سب سے پہلا مرحلہ سمجھا جاتا ہے لیکن یہ اداکاری کی معراج نہیں ہے۔ یہ سبق معین اختر نے اپنے کیرئر کی ابتداء ہی میں سیکھ لیا تھا۔ چنانچہ نقالی کے فن میں ید طولٰی حاصل کرنے کے باوجود اس نے خود کو اس مہارت تک محدود نہیں رکھا بلکہ اس سے ایک قدم آگے جا کر اداکاری کے تخلیقی جوہر تک رسائی حاصل کی۔

    معین اختر نے کئی یادگار اور مثالی کردار ادا کیے جنہیں لازوال حیثیت حاصل ہے۔ جن میں میڈم روزی اورسیٹھ منظوردانہ والا بے پناہ مشہور ہیں۔

    مرحوم معین اختر نہ صرف پاکستان بلکہ بھارت میں بھی اتنے ہی مقبول تھے،اے آر وائی کا پانچ سال تک جاری رہنے والاشہرہ آفاق پروگرام لوزٹاک بھارت میں بھی بے حد مقبول رہا، جس میں انہوں نے چارسو کے قریب مختلف روپ دھارے،اوراس پروگرام سے متاثرہوکراسی طرز کا ایک پروگرام بھارتی ٹی وی چینلز پر بھی پیش کیا گیا۔

    لیجنڈ اداکارمعین اخترنے ریڈیو ٹی وی اور فلم میں ادا کاری کے کئی یاد گا جوہر دکھائے، چوالیس سال تک کامیڈی اداکاری گلوکاری اور پروڈکشن سمیت شوبز کے تقریباً ہرشعبے میں ہی کام کیا۔

    ان کے مشہور ڈراموں میں ہاف پلیٹ، سچ مچ ،عید ٹرین میں، مکان نمبر 47، فیملی ترازو،سات رنگ، بندرروڈ سے کیماڑی، بند گلاب، اسٹوڈیو ڈھائی، یس سرنو سر،انتظار فرمائیے، ہیلو ہیلو ودیگرشامل ہیں۔

    اس کے علاوہ انہوں نے مختلف پروگراموں میں میزبانی کے دوران اپنے برجستہ جملوں سے اپنےلاکھوں سننے والوں کو محظوظ کیا اورزبردست شہرت پائی۔

    ان کے مشہور اسٹیج ڈراموں میں، بچاؤ معین اخترسے، ٹارزن معین اختر، بے بیا معین اختر، بکرا قسطوں پر، بایونک سرونٹ، بس جانے دو معین اختر،قابل ذکر ہیں۔

    مزاح نگار، ڈائریکٹر، پروڈیوسر فلم اور اسٹیج کے فنکار بھی تھے۔ انہیں متعدد اعزازا ت سے بھی نوازا گیا، انہیں انکے کام کے اعتراف میں حکومت پاکستان کی طرف سے تمغا حسن کارکردگی اور ستارہ امتیاز سے نوازا گیا ہے۔

    معین اختر22 اپریل 2011 میں اپنے کروڑوں مداحوں کو سوگوار چھوڑ کر اپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔ ان کی وفات سے پاکستان ایک عظیم فنکار سے محروم ہوگیا۔

  • معروف نعت گو شاعر مظفر وارثی کو ہم سے بچھڑے 8برس بیت گئے

    معروف نعت گو شاعر مظفر وارثی کو ہم سے بچھڑے 8برس بیت گئے

    آج اردو کے ممتاز شاعر مظفر وارثی کی آٹھویں برسی منائی جارہی ہے، آپ کی وجہ شہرت لازوال حمد اورنعتیں تخلیق کرنا ہے، ماضی میں پاکستان کی فلم انڈسٹری بھی ان کے بغیر ادھوری تھی۔

    صدارتی تمغہ حسن کارکردگی حاصل کرنے والے حمد و نعت گو شاعر اور سیکڑوں فلمی گیتوں کے خالق مظفر وارثی کو اس دنیا سے کوچ کئے آٹھ برس بیت گئے۔

    مظفر وارثی 23 دسمبر 1933ءکو میرٹھ میں پیدا ہوئے تھےان کا اصل نام محمد مظفر الدین صدیقی تھا۔ ان کے والد الحاج محمد شرف الدین احمد، صوفی وارثی کے نام سے معروف تھے۔ وہ ایک خوش گو شاعر تھے اورانہیں فصیح الہند اورشرف الشعرا کے خطابات عطا ہوئے تھے،قیام پاکستان کے بعد مظفر وارثی نے لاہور میں اقامت اختیار کی اور جلد ہی ممتاز شعراء کرام میں شمار ہونے لگے۔

    ایک زمانہ تھا کہ پاکستانی فلم انڈسٹری مظفر وارثی کے بغیر ادھوری تھی، میرٹھ کے علمی گھرانے میں جنم لینے والے مظفروارثی کا آواز و انداز گنا چنا شمار ہوتا تھا، مظفر وارثی نغمہ نگار، موسیقار اور نعت نگار تھے۔

    ان کے مشہور فلمی گانوں میں کیا کہوں اے دنیا والو کیا کہوں میں۔۔۔ مجھے چھوڑ کر اکیلا کہیں دور جانے والےاور۔۔۔۔ یاد کرتا ہے زمانہ انہی انسانوں کو ۔۔۔ عوام میں زبردست مقبولیت ملی، فلمی دنیا سے کنارہ کشی کے بعد ان کی ساری توجہ نعت گوئی پرمرکوز ہوگئی تھی، انہیں صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی بھی عطا کیاگیا،

    مظفر وارثی کی مشہور نعتوں میں یارحمت اللعالمین، ورفعنالک ذکرک اورتو کجا من کجا اور حمدیہ کلام میں مشہور’حمد کوئی تو ہے جو نظام ہستی چلا رہا ہے وہی خدا ہے‘ سرفہرست ہیں۔ فلمی اور قلمی دنیا کا یہ درخشندہ ستارہ اٹھائیس جنوری سال دو ہزار گیارہ کو اس جہانِ فانی سے کوچ کر گیا۔