Tag: 1 اکتوبر وفات

  • سیّد کمال: خوبرو اور پُرکشش اداکار جنھیں پاکستانی راج کپور بھی کہا جاتا ہے

    سیّد کمال: خوبرو اور پُرکشش اداکار جنھیں پاکستانی راج کپور بھی کہا جاتا ہے

    اداکار کمال انتہائی خوبرو اور پُرکشش تھے جو مشہور بھارتی اداکار راج کپور سے بہت مشابہت رکھتے تھے اور کمال کی اُن سے ملاقاتیں اور بے تکلفی بھی تھی۔

    پاکستان کی فلم انڈسٹری کے اداکار کمال کو اردو اخبارات اور فلمی جرائد میں‌ اکثر پاکستانی راج کپور بھی لکھا جاتا تھا۔ اگر کبھی اتفاق سے دونوں ملکوں کے ان فن کاروں‌ کی ملاقات ہوجاتی تو اس کی خبر یا کسی اسٹوری میں ان کی شکل و صورت کا ذکر ضرور کیا جاتا۔ آج اداکار کمال کے یومِ وفات پر اسی مناسبت سے ایک مشہور قصّہ ملاحظہ کیجیے: ایک مرتبہ کسی فلم کی شوٹنگ کے لیے راج کپور بھارت کے کسی شہر کے ہوٹل میں‌ ٹھیرے ہوئے تھے، بھارت میں ان کے مداحوں کی تعداد بھی کچھ کم نہ تھی اور وہ اپنے وقت کے مقبول ہیرو تھے۔ مقامی لوگوں اور راج کپور کے مداحوں کو ہوٹل میں‌ ان کی موجودگی کا علم ہوا تو وہاں‌ ایک جمِ غفیر اکٹھا ہوگیا۔ ان کا اصرار تھا کہ راج کپور ہوٹل کی بالکونی میں آکر انھیں‌ اپنا دیدار کروائیں۔

    شہرت اور مقبولیت بھی عجیب شے ہے۔ فلم اسٹارز کو اپنے مداحوں کا خیال رکھنا پڑتا ہے۔ راج کپور کی طبیعت اس وقت کچھ ناساز تھی۔ سیّد کمال ان کے ساتھ تھے، راج کپور نے انھیں کہا کہ وہ بالکونی میں جائیں اور لوگوں کو اپنا دیدار کرائیں۔ سیّد کمال ہوٹل کی بالکونی میں پہنچے اور لوگوں کو دیکھ کر اپنا ہاتھ ہلایا۔ لوگوں نے ان سے محبّت جتائی، نیک تمنّاؤں اور اپنی خوشی کا اظہار کرتے رہے۔ انھیں ایک لمحے کے لیے بھی شک نہ ہوا کہ یہ راج کپور نہیں بلکہ کوئی اور ہے۔

    اس مجمع میں سے کچھ لوگوں نے راج کپور سے آٹو گراف لینا چاہا تو ہوٹل میں داخل ہوگئے۔ استقبالیہ پر رش بڑھنے لگا۔ انتظامیہ کی مشکل کو دیکھتے ہوئے راج کپور نے کمال سے پھر درخواست کی کہ وہ ان کی طرف سے آٹو گراف دے دیں۔ کمال کو یہ بھی کرنا پڑا۔ انھوں نے آٹو گراف بکس لیں اور انھیں‌ بھرتے چلے گئے۔ یہاں‌ بھی کسی کو شک نہ ہوسکا۔

    مشہور ہے کہ سیّد کمال نے راج کپور سے کہا تھا کہ ’’آپ کی وجہ سے مجھے آج مداحوں کو آٹو گراف دینے اور کی محبت سمیٹنے کا ایسا خوب صورت تجربہ ہوا ہے، جب کہ ابھی میں کچھ نہیں ہوں۔ اس پر راج کپور نے کہا وہ وقت بھی آئے گا جب لوگ سیّد کمال سے آٹو گراف لینے آئیں گے۔ ان کی یہ پیش گوئی درست ثابت ہوئی اور سیّد کمال نے پاکستان میں مقبولیت اور نام و مقام حاصل کیا۔

    اداکار کمال نے فلموں میں رومانوی، المیہ اور مزاحیہ کردار ادا کیے اور مشہور ہوئے۔ انھوں نے اپنے دور کی مقبول ترین اداکاراؤں زیبا، دیبا، نیلو، شبنم، نشو اور رانی کے ساتھ کئی فلمیں کیں۔ کمال نے بطور فلم ساز بھی سنیما کو فلمیں دی ہیں۔ ان میں‌ اردو اور چند پنجابی زبان کی فلمیں شامل ہیں جو سپرہٹ ثابت ہوئیں۔ فلموں سے ریٹائرمنٹ کے بعد وہ ٹیلی ویژن پر نظر آئے اور ڈراموں میں‌ اداکاری کے علاوہ ان کا بطور میزبان ایک پروگرام بھی بہت مقبول ہوا۔

    اداکار سیّد کمال 2009ء میں آج ہی کے دن اس جہانِ فانی سے کوچ کر گئے تھے۔ ان کا تعلق میرٹھ سے تھا جہاں وہ 27 اپریل 1937 کو پیدا ہوئے تھے۔ ان کا نام سیّد کمال شاہ تھا۔ بطور اداکار کمال نے قیام پاکستان سے قبل ممبئی میں بننے والی فلم ’’باغی سردار‘‘ میں ایک مختصر کردار نبھایا تھا۔ تقسیم ہند کے بعد وہ پاکستان آئے اور ہدایت کار شباب کیرانوی کی فلم ’’ٹھنڈی سڑک‘‘ میں بطور ہیرو کام حاصل کرکے پاکستانی فلم انڈسٹری میں آگے بڑھنے کا آغاز کیا۔

    کمال ایک منجھے ہوئے اداکار ہی نہیں‌ فلم ساز اور ہدایت کار بھی تھے۔ اداکاری کے میدان میں‌ وہ اپنے سنجیدہ اور مزاحیہ ہر قسم کے کرداروں میں فلم بینوں‌ کی توجہ حاصل کرنے میں‌ کام یاب رہے۔ ان کی 80 سے زائد فلموں‌ میں اردو فلموں کے علاوہ چند پنجابی اور ایک پشتو فلم بھی شامل ہے۔ سیّد کمال کی مشہور فلموں میں زمانہ کیا کہے گا، آشیانہ، ایسا بھی ہوتا ہے، ایک دل دو دیوانے، بہن بھائی، ہنی مون سرفہرست ہیں۔ بحیثیت فلم ساز اور ہدایت کار ان کی فلمیں جوکر، شہنائی، ہیرو، آخری حملہ، انسان اور گدھا اور سیاست ہیں۔ ٹیلی وژن اسکرین پر اداکار کمال مشہور ڈراما سیریل ’’کشکول‘‘ میں بھی نظر آئے تھے۔

    1985 کے عام انتخابات ہوئے تو سید کمال سیاست کے میدان میں بھی اترے، مگر کام یاب نہ ہوئے۔ انہی انتخابات کے واقعات کو انھوں نے اپنی فلم ’’سیاست‘‘ میں‌ پیش کیا تھا۔ کمال نے بطور مصنّف اپنی خود نوشت سوانح بھی یادگار چھوڑی۔ انھوں نے تین مرتبہ نگار ایوارڈ بھی اپنے نام کیا تھا جب کہ انھیں لائف ٹائم اچیومنٹ ایوارڈ سے بھی نوازا گیا تھا۔

  • ریاض شاہد: مایہ ناز فلم ساز اور مکالمہ نویس کا تذکرہ

    ریاض شاہد: مایہ ناز فلم ساز اور مکالمہ نویس کا تذکرہ

    ریاض شاہد ایک فلم ساز، ہدایت کار اور مصنّف کے طور پر شہرت رکھتے ہیں جن کی عملی زندگی کا آغاز صحافت سے ہوا تھا۔ تاہم اُن کی پہچان منفرد موضوعات پر اُن کی فلمیں اور مکالمہ نگاری ہے۔

    ریاض شاہد 1972ء میں‌ آج ہی کے دن کینسر کے سبب وفات پاگئے تھے۔ لاہور کے ایک کشمیری گھرانے میں 1930ء میں آنکھ کھولنے والے ریاض شاہد کا اصل نام شیخ ریاض تھا۔ انھوں نے لاہور کے اسلامیہ کالج سے تعلیم حاصل مکمل کرنے کے بعد صحافت سے اپنی عملی زندگی کا آغاز کیا اور ’چٹان‘ سے منسلک ہوگئے۔ بعد ازاں فیض احمد فیض کے جریدے ’لیل و نہار‘ سے وابستہ ہوئے۔ ریاض شاہد نے ’ہزار داستان‘ کے نام سے ایک ناول تحریر کیا اور بعد میں فلموں کا اسکرپٹ لکھنے لگے۔

    پاکستان کی فلمی تاریخ میں ریاض شاہد کو ان منفرد اور کاٹ دار مکالمہ نگاری کی وجہ سے بہت سراہا گیا۔ وہ اعلیٰ تعلیم یافتہ، ترقی پسند اور روشن خیال فن کاروں میں سے ایک تھے۔ انھوں نے چند فلمی نغمات بھی تحریر کیے تھے۔

    ’بھروسہ‘ بطور مصنّف ان کی پہلی فلم تھی اور یہی فلم اُن کی وجہِ شہرت بن گئی۔ یہ فلم 1958ء میں نمائش کے لیے پیش کی گئی تھی۔ اس کے بعد ریاض شاہد کی ایک اور فلم ’شہید‘ کے نام سے ریلیز ہوئی جسے پاکستانی فلم انڈسٹری کی تہلکہ خیز فلم کہا جاتا ہے۔ 1962ء میں ریاض شاہد بطور ہدایت کار سامنے آئے اور اپنی پہلی فلم ’سسرال‘ بنائی۔ یہ اپنے وقت کی ایک یادگار فلم ثابت ہوئی۔ اس کام یابی کے بعد ریاض شاہد نے فلم ’فرنگی‘ کی کہانی اور ’نیند‘ کا اسکرپٹ لکھا جب کہ 1967ء میں ایک اور فلم ’گناہ گار‘ سامنے آئی جو انہی کی تحریر کردہ تھی۔

    ریاض شاہد نے تاریخی فلمیں بھی بنائیں جنھیں ملک بھر میں‌ شائقین نے پسند کیا۔ ان شاہکار فلموں میں مسئلہ فلسطین اور مسئلہ کشمیر پر ’زرقا‘ اور ’یہ امن‘ بھی شامل ہیں۔ اس کے علاوہ فلم ’’غرناطہ‘‘ بھی تاریخ کے موضوع پر ریاض شاہد کی ایک بہترین کاوش تھی۔ ریاض شاہد نے تیس سے زائد فلموں کی کہانیاں اور مکالمے لکھے جن میں ’’شکوہ، خاموش رہو، آگ کا دریا، بدنام، بہشت اور حیدر علی‘‘ قابلِ ذکر ہیں۔ انھوں نے اردو کے علاوہ کئی پنجابی فلموں کے اسکرپٹ بھی تحریر کیے جن میں مشہور فلم’’ نظام لوہار‘‘بھی شامل ہے۔

    ریاض شاہد خداداد صلاحیتوں کے مالک تھے۔ انھیں پاکستانی فلمی صنعت کا معتبر نگار ایوارڈ 11 مرتبہ دیا گیا۔ ’’زرقا‘‘ ریاض شاہد کی وہ فلم تھی جسے تین نگار ایوارڈ دیے گئے تھے۔

    ریاض شاہد نے اپنے زمانے کی مقبول اداکارہ نیلو سے شادی کی تھی۔ شان انہی کی اولاد ہیں جو پاکستان میں فلم انڈسٹری کے صفِ اوّل کے اداکار ہیں۔

  • معروف فلم ساز اور کہانی کار ریاض شاہد کا تذکرہ

    معروف فلم ساز اور کہانی کار ریاض شاہد کا تذکرہ

    آج پاکستان فلم انڈسٹری کے معروف فلم ساز و ہدایت کار ریاض شاہد کا یومِ وفات ہے۔ وہ صحافی اور مصنّف بھی تھے۔ تاہم ان کی اصل پہچان منفرد موضوعات پر بنائی گئی ان کی فلمیں ہیں۔

    ریاض شاہد 1972ء کو آج ہی کے دنیا سے رخصت ہوگئے تھے۔ انھوں نے لاہور کے ایک کشمیری گھرانے میں 1930ء میں آنکھ کھولی۔ ان کا اصل نام شیخ ریاض تھا۔ ریاض شاہد کو خون کا سرطان لاحق تھا اور اسی بیماری کے سبب انھوں نے وفات پائی۔

    لاہور کے اسلامیہ کالج سے تعلیم حاصل کرنے کے بعد ریاض شاہد نے صحافت سے عملی زندگی کا آغاز کیا اور ’چٹان‘ سے منسلک ہوئے۔ بعدازاں فیض احمد فیض کے جریدے ’لیل و نہار‘ سے وابستہ ہوئے۔ ریاض شاہد نے ’ہزار داستان‘ کے نام سے ایک ناول بھی تحریر کیا تھا اور بعد میں انھوں نے فلموں کے لیے اسکرپٹ لکھنے کا آغاز کیا۔

    شاہد ریاض نے ’بھروسہ‘ فلم کا اسکرپٹ لکھ کر انڈسٹری میں اپنے سفر کا آغاز کیا تھا اور یہ پہلی کاوش ہی ان کی کام یابی اور شہرت کا سبب بنی۔ یہ فلم 1958ء میں نمائش کے لیے پیش کی گئی تھی۔

    اس کے بعد ان کی فلم ’شہید‘ ریلیز ہوئی جو تہلکہ خیز ثابت ہوئی۔ اس کے بعد 1962ء میں انھوں نے خود کو ہدایت کار کے طور پر آزمایا اور اس میدان میں ان کی پہلی فلم ’سسرال‘ تھی جو پاکستانی فلمی صنعت کی یادگار فلموں میں سے ایک ہے۔ اس کام یابی کے بعد ریاض شاہد نے فلم ’فرنگی‘ کی کہانی، ’نیند‘ کا اسکرپٹ لکھا اور 1967ء میں ان کی تحریر کردہ نہایت منفرد فلم ’گناہ گار‘ سامنے آئی۔

    ریاض شاہد کی بنائی ہوئی ناقابلِ فراموش اور شاہکار فلموں میں مسئلہ فلسطین اور مسئلہ کشمیر پر ’زرقا‘ اور ’یہ امن‘ بھی شامل ہیں۔ اسی طرح تاریخی موضوع پر فلم ’’غرناطہ‘‘ بھی ریاض شاہد کی کاوش تھی۔

    انھوں نے تیس سے زائد فلموں کی کہانیاں اور مکالمے لکھے جن میں ’’شکوہ، خاموش رہو، آگ کا دریا، بدنام، بہشت اور حیدر علی‘‘ بھی قابل ذکر ہیں۔

    ریاض شاہد نے اردو کے علاوہ کئی پنجابی فلموں کے اسکرپٹ بھی تحریر کیے جن میں مشہور ترین فلم’’ نظام لوہار‘‘بھی شامل ہے۔

    خداداد صلاحیتوں کے مالک ریاض شاہد کو پاکستان میں فلمی دنیا کے معتبر ترین نگار ایوارڈ سے 11 مرتبہ نوازا گیا جب کہ ان کی فلم’’زرقا‘‘ نے تین نگار ایوارڈ اپنے نام کیے۔

    انھوں نے اپنے وقت کی نام ور ہیروئن نیلو سے شادی کی، اس جوڑے کے گھر تین بچّوں نے جنم لیا جن میں سے شان نے فلمی صنعت میں قدم رکھا اور صفِ اوّل کے اداکاروں میں شمار ہوتے ہیں۔

  • بہمنی سلطنت: تاج الدّین فیروز شاہ کا عہد گلبرگہ کا بامِ‌ عروج ثابت ہوا

    بہمنی سلطنت: تاج الدّین فیروز شاہ کا عہد گلبرگہ کا بامِ‌ عروج ثابت ہوا

    بہمنی سلطنت کا آٹھواں حکم ران ابو المظفر تاج الدّین فیروز شاہ تھا جس کا دورِ حکومت 1397ء سے 1422ء تک رہا۔

    فیروز شاہ کی تاریخِ پیدائش اور اس کے ابتدائی حالاتِ زندگی بہت کم دست یاب ہیں، لیکن مؤرخین اس کا یومِ وفات یکم اکتوبر 1422ء بتاتے ہیں۔ آج اس بہمنی سلطان کا یومِ‌ وفات ہے جس کے بارے میں قیاس یہ ہے کہ وہ 1371ء میں پیدا ہوا اور 1397 میں تخت سنبھالا تھا۔ گلبرگہ اس سلطنت کا دارُالخلافہ تھا۔

    تاج الدّین فیروز شاہ کی پیدائش کے حوالے سے اس قیاس کو محمد قاسم فرشتہ کے اس تذکرے سے تقویت ملتی ہے کہ وہ اپنے چچا داؤد شاہ کے اِنتقال کے وقت سات سال کا تھا جب کہ اس کے بھائی احمد شاہ کی عمر چھے برس تھی۔

    فیروز شاہ کے ابتدائی حالات کا بھی کوئی علم نہیں، سوائے اِس کے کہ اس کی پیدائش اس کے چچا محمد شاہ اوّل کے عہد میں ہوئی تھی اور انھوں نے ان دونوں بھائیوں کو استاد فضل اللہ کے آگے زانوئے تلمذ طے کرنے بھیجا تھا۔ انہی کے حلقے میں فیروز شاہ کی تربیت اور درس مکمل ہوا۔ دونوں بھائیوں نے جو فیروز شاہ اور احمد شاہ کے نام سے بعد میں بہمنی سلاطین مشہور ہوئے، نے استاد کی خصوصی توجہ اور شفقت سے خوب دل لگا کر علم حاصل کیا۔

    مؤرخین کے مطابق تاج الدّین فیروز شاہ غیر معمولی طور پر ذہین اور طبّاع واقع ہوا تھا۔ اس نے اپنے استاد فضل اللہ کے علم و فضل سے بھرپور فائدہ اٹھایا اور ان کی صحبت سے خوب فیض پایا۔ فیروز شاہ نے اپنے ذخیرۂ علم سے جو شعور اور دانش سمیٹی تھی، اسے پھیلانے کا فیصلہ کیا اور تخت نشینی کے بعد بہمنی سلطنت میں تعلیم اور مدارس کی سرپرستی کے ساتھ اساتذہ کی پزیرائی اور عزّت کرتا رہا۔

    بہمنی سلطنت کی تاریخ میں فیروز شاہ کے دور کو بہت زیادہ اہمیت حاصل ہے اور خود اسے ذی علم اور فاضل ترین حکم ران تسلیم کیا جاتا ہے جس نے اپنے عہد میں تہذیب و تمدن اور علم و فضل کی بڑی قدر کی اور اس کے فروغ کے لیے نمایاں کام کیا۔

    فیروز شاہ دکن کے بہمنی خاندان کے اُن سلاطین میں سے ہے جن کو مؤرخین نے دکن کا تاج بھی کہا ہے کیوں کہ اُس کا عہدِ حکومت دکن کا بامِ ترقی تھا۔

    مؤرخین لکھتے ہیں کہ اُس زمانے میں فیروز شاہ نے سلطنت کو سنبھالا تھا جب اغیار کے ہاتھوں اسے دھکا لگ رہا تھا اور ڈر تھا کہ کہیں یہ نوخیز سلطنت برباد نہ ہوجائے، لیکن فیروز شاہ نے اسے ایسی مضبوط طنابوں سے جکڑ دیا کہ سلطنت عرصہ دراز تک مستحکم رہی۔

    فیروز شاہ سیاست اور امورِ سلطنت میں بھی اپنی فہم و فراست اور ذہانت کے سبب کام یاب رہا اور وہ ایسا حکم ران تھا جس نے تمام اقوام اور روایات کا مطالعہ کرتے ہوئے اپنی ہمسایہ سلطنتوں کے سیاسی تعلقات پر بھی قائم رکھے اور معقول تدبیر سے جواب دیا۔

    فیروز شاہ مصلح بھی تھا جس نے سیاست اور معاشرت میں بڑی اِصلاحات بھی کیں۔ اہلِ دکن کے دل و دماغ میں ایک تلاطم اور معاشرت میں طوفان برپا کر دیا اور زندگی کا نیا مطمح نظر پیدا کرکے ایک جدید معاشرہ تشکیل دیا۔

    فیروز شاہ کا علمی شغف تمام بہمنی سلاطین سے زیادہ تھا۔ اُسے دکن کا مُعلَّم سلطان بھی کہا جاتا ہے جس نے زندگی بھر اپنی رعایا کی علمی و اِخلاقی خدمت بھی کی اور دکن میں علم کے بڑے بڑے خزانے جمع کردیے۔

    فیروز شاہ کی علم نوازی سے گلبرگہ مرکزِ‌ علم و فضل بن گیا تھا اور سلطنت کو آس پاس کی ریاستوں میں پہچان و قبولیت ملی۔

  • یومِ وفات: اداکار کمال نے سنجیدہ اور مزاحیہ ہر کردار کو خوبی سے نبھایا

    یومِ وفات: اداکار کمال نے سنجیدہ اور مزاحیہ ہر کردار کو خوبی سے نبھایا

    پاکستان فلم انڈسٹری کے نام وَر اداکار سیّد کمال 2009ء میں آج ہی کے دن جہانِ فانی سے کوچ کرگئے تھے۔ انھوں نے فلم کے علاوہ ٹیلی ویژن پر بھی اداکاری کی اور اپنے اسٹیج شو کے ذریعے بھی ناظرین کو محظوظ کیا۔

    سید کمال 27 اپریل 1937 کو متحدہ ہندوستان کے شہر میرٹھ میں پیدا ہوئے۔ ان کا نام سیّد کمال شاہ تھا۔ انھوں نے قیام پاکستان سے قبل ممبئی میں بننے والی فلم ’’باغی سردار‘‘ میں مختصر کردار نبھا کر اپنے فنی سفر کا آغاز کیاا۔ وہ تقسیم ہند کے بعد پاکستان آگئے جہاں ہدایت کار شباب کیرانوی نے انھیں اپنی فلم ’’ٹھنڈی سڑک‘‘ میں بطور ہیرو کام کرنے کا موقع دیا اور یوں پاکستان کی فلم انڈسٹری میں ان کے آگے بڑھنے کا سلسلہ شروع ہوا۔

    وہ اداکار ہی نہیں‌ فلم ساز، ہدایت کار اور کہانی کار بھی تھے۔ کمال نے سنجیدہ اور مزاحیہ ہر قسم کے کردار نبھائے اور اپنی فنی صلاحیتوں کا بھرپور اظہار کیا۔

    اداکار کمال نے 80 سے زائد فلموں‌ میں‌ اداکاری کی۔ اردو فلموں کے علاوہ انھیں چند پنجابی اور ایک پشتو فلم میں‌ بھی کردار نبھانے کا موقع ملا۔ سید کمال کی مشہور فلموں میں زمانہ کیا کہے گا، آشیانہ، ایسا بھی ہوتا ہے، ایک دل دو دیوانے، بہن بھائی، ہنی مون سرفہرست ہیں۔ بحیثیت فلم ساز اور ہدایت کار ان کی فلمیں جوکر، شہنائی، ہیرو، آخری حملہ، انسان اور گدھا اور سیاست ہیں۔ پاکستان ٹیلی ویژن پر سید کمال کا شو بھی نشر ہوا جسے ناظرین میں بے حد مقبولیت حاصل ہوئی۔ کمال نے مشہور ڈراما سیریل ’’کشکول‘‘ میں بھی کردار نبھایا جسے بہت پسند کیا گیا۔

    1985 کے عام انتخابات ہوئے تو سید کمال سیاست کے میدان میں اترے، مگر کام یابی نہ ملی۔ انہی انتخابات کے واقعات کو انھوں نے اپنی فلم ’’سیاست‘‘ میں‌ پیش کیا تھا۔ اداکار نے قلم اٹھایا تو اپنی خود نوشت سوانح تحریر کی۔ تین بار فلم نگری کا سب سے بڑا نگار ایوارڈ اپنے نام کرنے والے سید کمال کو لائف اچیومنٹ ایوارڈ بھی دیا گیا تھا۔