Tag: 1 جون انتقال

  • علم و ادب میں‌ ممتاز خواجہ احمد عبّاس کا یومِ‌ وفات

    علم و ادب میں‌ ممتاز خواجہ احمد عبّاس کا یومِ‌ وفات

    یکم جون 1987ء کو ہندوستان سے تعلق رکھنے والے اردو کے مشہور و معروف افسانہ نگار، ناول اور ڈراما نویس، صحافی اور فلم ساز خواجہ احمد عبّاس وفات پاگئے تھے۔ ان کی عمر 72 برس تھی۔

    خواجہ احمد عباس 7 جون 1914ء میں پانی پت ہندوستان میں پیدا ہوئے۔ علی گڑھ سے تعلیم حاصل کی۔ علم و ادب سے لگاؤ اور لکھنے پڑھنے کا شوق میدانِ صحافت میں لے آیا۔ اپنی کہانیوں اور افسانوں‌ کی بدولت ہم عصروں‌ میں پہچان بناتے چلے گئے اور پھر ناول نگاری، ڈراما نویسی، سفرناموں، خاکہ نگاری اور آپ بیتی تک نہایت کام یابی سے علمی و ادبی سفر جاری رہا۔ اسی عرصے میں فلم سازی کی طرف مائل ہوئے۔ متعدد فلموں‌ کی کہانیاں‌ لکھیں‌ اور ان کے ہدایت کار بھی رہے۔

    خواجہ احمد عباس نے اردو، ہندی اور انگریزی زبانوں‌ میں کئی مضامین بھی تحریر کیے۔ انھوں نے اپنے بارے میں‌ ایک جگہ لکھا:

    ادیب اور تنقید نگار کہتے ہیں میں ایک اخبارچی ہوں، جرنلسٹ کہتے ہیں کہ میں ایک فلم والا ہوں، فلم والے کہتے ہیں کہ میں ایک سیاسی پروپیگنڈٹسٹ ہوں، سیاست داں کہتے ہیں کہ میں کمیونسٹ ہوں، کمیونسٹ کہتے ہیں کہ میں بورژوا ہوں۔ سچ یہ ہے کہ مجھے خود نہیں معلوم کہ میں کیا ہوں۔

    ان کی چند کتابوں میں سرفہرست میں کون ہوں؟، دیا جلے ساری رات، ایک لڑکی، اگر مجھ سے ملنا ہے، انقلاب کے نام شامل ہیں۔ خواجہ احمد عبّاس کے افسانوی مجموعے زعفران کے پھول، پاؤں میں پھول، اندھیرا اجالا، کہتے ہیں جس کو عشق اور ڈرامے زبیدہ، یہ امرت ہے، چودہ گولیاں، انقلاب کے نام سے شایع ہوئے۔

    وہ ایک نہایت باصلاحیت، قابل اور غیر معمولی تعلیم یافتہ شخص تھے اور یہی وجہ ہے کہ انھوں ادب سے لے کر فلم سازی تک جہاں‌ اپنے تخلیقی وفور کو ثابت کیا، وہیں سماج کے مختلف پہلوؤں اور کم زوریوں پر بھی ان کی نظر رہی اور وہ اس پر لکھتے رہے۔ انھیں سماجی دانش ور بھی کہا جاسکتا ہے۔

    فلمی دنیا میں‌ وہ بڑے اداروں سے وابستہ رہے اور بڑے پردے کی متعدد تنظیموں کے عہدے دار اور رکن بھی رہے۔ خواجہ احمد عباس کی فلمیں عوام میں مقبول تو نہیں ہوئیں، لیکن انھیں‌ ناقدین نے اعلٰی درجے کی کاوش قرار دیا اور انھوں‌ نے اپنی فلموں کے لیے ملکی اور بین الاقوامی سطح کے اعزازات اپنے نام کیے۔

  • یومِ وفات: اپنی قوّتِ ارادی سے کام لے کر دنیا میں مقام بنانے والی ہیلن کیلر کا تذکرہ

    یومِ وفات: اپنی قوّتِ ارادی سے کام لے کر دنیا میں مقام بنانے والی ہیلن کیلر کا تذکرہ

    ہیلن کیلر کا نام کسی تعارف کا محتاج نہیں دنیا انھیں ایسی باہمّت اور باصلاحیت خاتون کے طور پر یاد کرتی ہے جنھوں نے بصارت اور سماعت سے محرومی کے باوجود بھرپور زندگی گزاری اور دنیا کے لیے مثال بنیں۔ ہیلن کیلر ایک ماہرِ تعلیم اور مصنّفہ کی حیثیت سے مشہور ہیں۔ یکم جون 1968ء کو ہیلن کیلر نے یہ دنیا ہمیشہ کے لیے چھوڑ دی تھی۔

    ہیلن کیلر 27 جون 1880ء کو امریکا میں پیدا ہوئیں۔ وہ پیدائشی طور پر صحّت مند اور نارمل تھیں، لیکن کم سنی میں لاحق ہونے والے ایک مرض کے سبب ان کی بینائی اور قوّتِ سماعت جاتی رہی۔ معالج ان کا مرض نہ جاسکے اور جب والدین ان کے علاج کی طرف سے مایوس ہوگئے تو ایک ایسی خاتون کی خدمات حاصل کرلیں جس نے انھیں معذوری کے ساتھ بھرپور زندگی گزارنا سکھایا۔ اس مہربان اور ماہر استاد کی بدولت ہیلن کیلر نے معمولاتِ زندگی انجام دینا سیکھے۔ لکھنا پڑھنا شروع کیا۔

    دس سال کی عمر میں ہیلن کیلر ٹائپ رائٹر استعمال کرنے لگی تھیں۔ اگلے پانچ سال بعد وہ کسی قدر بولنے کے قابل ہوگئیں اور پھر انھوں نے معذوروں‌ کے ایک اسکول میں‌ داخلہ لے لیا، کالج تک پہنچیں اور گریجویشن کی ڈگری حاصل کی۔

    ہیلن کیلر توانا فکر اور زرخیز ذہن رکھتی تھیں۔ انھوں نے گریجویشن کے ساتھ معذور افراد کو جینے کا حوصلہ دینے اور ان کی ہر طرح سے مدد کرنے کا سلسلہ شروع کردیا۔ اب وہ امریکا میں معذوری کو شکست دینے والی عورت کے طور پر پہچانی جاتی تھیں اور مختلف اداروں اور تقریبات میں لیکچر دینے لگی تھیں۔ انھوں نے بینائی، سماعت اور گویائی سے محروم لوگوں‌ کے حقوق کے لیے کام کیا اور ان سے متعلق بے بنیاد باتوں اور غلط تصوّرات کو دور کرنے کی کوشش کی۔

    ہیلن کیلر نے 14 کتابیں‌ تصنیف کیں اور ان کے کئی مضامین شایع ہوئے۔ ہیلن کیلر کی تصانیف میں‌ ورلڈ آئی لِو اِن، آؤٹ آف دی ڈارک کے علاوہ ہیلن کیلرز جرنل شامل ہیں۔ امریکا میں نابینا افراد کے لیے قائم کردہ تنظیم کے پلیٹ فارم سے جڑنے کے بعد انھیں دنیا کے متعدد ممالک میں لیکچرز دینے کا موقع ملا۔ ان کی خدمات کے صلے میں انھیں‌ متعدد اعزازات سے نوازا گیا، 87 سال کی عمر میں‌ وفات پانے والی ہیلن کیلر عزم و ہمّت اور حوصلے کی علامت کے طور پر آج بھی دلوں میں زندہ ہیں۔