Tag: 1 ستمبر وفات

  • نواب واجد علی شاہ جنھیں ایک من گھڑت رپورٹ کی بنیاد پر معزول کردیا گیا

    نواب واجد علی شاہ جنھیں ایک من گھڑت رپورٹ کی بنیاد پر معزول کردیا گیا

    اودھ کے فرماں رواؤں کو ان کی علم و ادب اور فنونِ لطیفہ میں دل چسپی اور سرپرستی کی وجہ سے شہرت اور تاریخ میں خاص مقام حاصل رہا ہے۔ اس ریاست کے آخری فرماں روا نواب واجد علی شاہ اختر بھی اپنی ادب دوستی اور باکمال و یکتائے زمانہ شخصیات پر اپنی نوازش و اکرام کے سبب مشہور ہیں۔ وہ خود بھی شاعر تھے اور شعرا کی پذیرائی بھی کرتے تھے۔

    نواب واجد علی شاہ کو رنگین مزاج اور عیّاش نواب بھی کہا جاتا ہے، تاہم ان کی ایسی شہرت دراصل انگریزوں کی جانب سے پھیلائی گئی باتوں کا نتیجہ تھی۔ وہ 1822ء کو اودھ کے شاہی خاندان میں پیدا ہوئے تھے۔ ان کا پورا نام ابو المنصور سکندر شاہ پادشاہ عادل قیصر زماں سلطان عالم مرزا محمد واجد علی شاہ اختر تھا۔ انھیں شروع ہی سے رقص، شاعری اور موسیقی سے لگاؤ تھا۔ خود بھی رقص، گانے بجانے کے ماہر تھے۔ انھوں نے شاعری کے علاوہ ناٹک کو بھی فروغ دیا اور ڈرامے لکھے جنھیں باقاعدہ پردے پر پیش کیا جاتا تھا۔

    یہ بھی کہا جاتا ہے کہ انھوں نے کتھک رقص کو نئی زندگی دی۔ رہس، جو گیا، جشن اور اس قسم کی کئی چیزوں کا احیا کیا اور اس میں طاق اور ماہر فن کاروں کو لکھنؤ میں جمع کیا۔ انھوں نے اس فن میں استاد باسط خاں، پیارے خاں اور نصیر خاں سے تربیت لی تھی۔ واجد علی شاہ نے خود کئی نئے راگ اور راگنیاں ایجاد کی تھیں۔

    مؤرخین کا کہنا ہے کہ ہندوستان کا کوئی بھی فرماں روا ادب، تہذیب و ثقافت کا ایسا دلدادہ نہیں تھا جیسا کہ واجد علی شاہ اختر تھے۔ انھوں نے رقص اور موسیقی کے رموز پر تحریری مواد بھی یادگار چھوڑا جو سو سے زائد کتابچوں پر مشتمل ہے۔

    ہندوستان کے اس تہذیب و ثقافت کے دلدادہ حکم راں کو انگریزوں کی وجہ سے الم ناک حالات میں لکھنؤ چھوڑنا پڑا تھا۔ ان کی زوجہ حضرت محل کے نام سے مشہور ہیں جو خود بھی شاعرہ تھیں اور انھوں نے بعد میں ہندوستان کی آزادی کی جنگ میں بڑا اہم کردار نبھایا۔

    واجد علی شاہ کی تخت نشینی کا سن 1847ء تھا جس کے فوراً ہی بعد ان پر ریاست میں بدنظمی، انتشار کو روکنے میں ناکامی اور نا اہلی کے الزام لگا کر انھیں معزول کردیا گیا۔ انگریز تمام اختیار اور انتظام اپنے ہاتھ میں لینا چاہتا تھا اور اس کے لیے انھوں واجد علی شاہ کو ناکام والی ثابت کرکے چھوڑا۔ اس ضمن میں ایک برطانوی افسر نے ریاست کا دورہ کرکے اپنی رپورٹ تیار کی اور حکام کو بھیجی جس کی بنیاد پر انھیں اپنا وطن چھوڑنے پر مجبور کیا گیا، وہ 1857 میں واجد علی شاہ اپنے بیٹے کو تخت نشیں کر کے خود وہاں سے رخصت ہوگئے۔ وہ بعد میں یکم ستمبر 1887ء کو کلکتہ میں وفات پاگئے۔

    مذکورہ رپورٹ کی تیاری کے لیے برطانوی افسر اور اس کی ٹیم کے اراکین نے تین مہینے تک ریاست کا دورہ کیا اور رپورٹ میں رعایا کی تباہ حالی اور حکام کی سر کشی کا ذکر کرتے ہوئے لکھنؤ میں لاقانونیت، قتل اور لوٹ مار معمول ظاہر کی گئی جس کے بعد واجد علی شاہ کو معزولی کا سامنا کرنا پڑا۔

  • روشن آرا: مغل شاہزادی جو رفاہِ عامّہ اور خیراتی کاموں کے لیے مشہور تھیں

    روشن آرا: مغل شاہزادی جو رفاہِ عامّہ اور خیراتی کاموں کے لیے مشہور تھیں

    مغل شہنشاہ شاہ جہان اور ملکہ ممتاز محل کی صاحب زادی روشن آرا بیگم کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ ایک دین دار خاتون تھیں اور اپنے دور میں انھوں نے رفاہِ عامّہ کے کئی کام کروائے جن کا ذکر اب صرف تاریخ کے صفحات میں ملتا ہے۔

    یہ بھی مشہور ہے کہ وہ اپنے بھائی اور ہندوستان کے بادشاہ اورنگزیب عالمگیر کی لاڈلی تھیں۔ وہ انھیں بے حد عزیز رکھتا تھا۔

    روشن آرا بیگم 11 ستمبر 1671ء کو وفات پاگئی تھیں۔ 1617ء میں‌ پیدا ہونے والی روشن آرا بیگم کی ماں مغل بادشاہ کی چہیتی بیوی ملکہ ارجمند بانو (ممتاز محل) تھیں۔ روشن آرا کے حقیقی بہن بھائیوں میں دارا شکوہ، اورنگزیب عالم گیر اور جہاں آرا مشہور ہیں۔

    روشن آرا بیگم کی تعلیم و تربیت اسی طرح ہوئی جیسا کہ اس دور کے رواج کے مطابق ایک شاہزادی کے لیے اہتمام کیا جاتا تھا۔ انھوں نے جملہ علوم و فنون اور تدبیر و سیاست سیکھی، لیکن اس شہزادی کو فنِ کتابت میں خاص ملکہ حاصل تھا۔ ان کی خداداد صلاحیت اور مشق نے انھیں کتابت میں ایسا باکمال کیا کہ ان کا خط دیکھنے والے داد دیے بغیر نہیں‌ رہ سکتے تھے۔

    شہزادی روشن آرا کو سب بھائیوں میں اورنگزیب عالم گیر سے زیادہ محبّت تھی۔ وہ اورنگزیب کی خیرخواہ تھیں۔ جب شہزادی کے بھائیوں دارا شکوہ، مراد، شجاع اور اورنگزیب میں تخت نشینی پر تنازع پیدا ہوا تو روشن آرا نے اورنگزیب کا ساتھ دیا۔

    مشہور ہے کہ وہ شہنشاہ کے دربار میں اورنگزیب کے خلاف ہونے والی باتیں بھائی تک پہنچاتی تھیں اور اسے ہر قسم کی سازشوں سے آگاہ کر دیا کرتی تھیں۔

    ہندوستان میں تاج و تخت سے جڑے واقعات، محلّاتی سازشوں کے تذکروں اور اس دور کے شاہی مؤرخین کے قلم سے لکھی گئی تاریخ میں مبالغہ آرائی ہی نہیں، من گھڑت اور بے بنیاد قصّے کہانیاں اور جھوٹ کی آمیزش سے انکار نہیں‌ کیا جاسکتا، لیکن اس بات سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ جاہ و جلال اور اختیار کی خواہش اور ہوسِ زر کے لیے خونی رشتوں کو بھی قربان کردیا گیا۔ اسی شہزادی کے باپ اور بھائیوں کو قید کے ساتھ دردناک موت کا بھی سامنا کرنا پڑا تھا جس میں اورنگزیب کا ہاتھ تھا۔

    اکثر مؤرخین نے لکھا ہے کہ روشن آرا بیگم نے تخت نشینی کے معاملے میں اورنگزیب کا بھرپور ساتھ دیا۔ ان کی خیر خواہی اور بیدار مغزی نے اورنگزیب کو فائدہ پہنچایا اور وہ تخت و تاج حاصل کرنے میں کام یاب ہوا۔

    مؤرخین لکھتے ہیں کہ اس کام یابی میں اگرچہ اورنگزیب کی تدبیر و سیاست اور عزم و ہمّت کو سب سے زیادہ دخل تھا، لیکن اس کی بہن شہزادی روشن آرا بیگم نے ہر موقع پر اس کی مدد اور راہ نمائی کرتے ہوئے کسی بھی نقصان سے بچائے رکھا۔ یہاں تک کہ وہ ہندوستان کا بادشاہ بنا۔ یہی وجہ ہے کہ اورنگزیب عالمگیر اپنی بہن اور شہزادی روشن آرا بیگم کو بے حد عزیز رکھتا تھا۔

    شہزادی روشن آرا بیگم نے شادی نہیں کی تھی۔ وہ ایک بڑی جاگیر کی مالک تھیں جب کہ شاہی وظیفہ بھی پاتی تھیں۔ مؤرخین کے مطابق شہزادی کی دولت کا پیش تر حصّہ غریبوں، مسکینوں اور محتاجوں کی مدد میں صرف ہوتا تھا۔

    شہزادی روشن آرا بیگم رفاہِ عامہ کے سلسلے میں اپنا حصّہ ڈالتی رہتی تھیًں۔ انھوں نے کئی کام کروائے جن سے رعایا کو فائدہ پہنچا، لیکن آج ان کا کوئی نام و نشان باقی نہیں‌ رہا۔

  • بھارتی جیلوں میں کلامِ اقبال علی گیلانی کی قوّت و ہمّت اور سہارا بنا

    بھارتی جیلوں میں کلامِ اقبال علی گیلانی کی قوّت و ہمّت اور سہارا بنا

    سیّد علی گیلانی دنیا سے رخصت ہوئے۔ وہ کشمیر کو پاکستان کا حصّہ قرار دیتے ہوئے اس مسئلے کو تقسیمِ ہند کا نامکمل ایجنڈا سمجھتے تھے۔

    سیّد علی گیلانی کے اجداد مشرق وسطیٰ سے ہجرت کر کے کشمیر میں آباد ہوئے تھے۔ انھوں نے شمالی کشمیر کے سوپور قصبے میں ایک آسودہ حال گھرانے میں 29 ستمبر 1929 کو آنکھ کھولی تھی۔ ابتدائی تعلیم سوپور سے حاصل کی اور اعلیٰ تعلیم کے لیے اورینٹل کالج لاہور چلے گئے، جہاں جماعتِ اسلامی کے بانی مولانا مودودی کے خیالات سے بہت متاثر ہوئے اور شاعرِ مشرق علاّمہ اقبال کی فکر اور ان کا کلام ان کے قلب و جگر میں اتر گیا۔

    سیّد علی گیلانی نے علامہ اقبال کی فارسی شاعری کے ترجمے پر مشتمل تین کتابیں اور خود نوشت سوانح عمری سمیت تقریباً ایک درجن کتابیں بھی تصنیف کیں۔

    وہ اپنے زورِ خطابت اور شعر و سخن سے شغف کے لیے مشہور ہوئے اور جماعتِ اسلامی کے پلیٹ فارم سے سیاسی سفر کا آغاز کرتے ہوئے کئی اتار چڑھاؤ دیکھے اور کشمیری حریت پسند لیڈر کی حیثیت سے قید و بند کی صعوبتیں جھیلتے کے باوجود اپنے مؤقف پر قائم اور کشمیر کی آزادی کے لیے ڈٹے رہے۔

    علّامہ اقبال کے اس عاشق و شیدا نے شاعرِ مشرق کے کلام سے آزادی کی جدوجہد کے دوران اپنے لیے ہمّت، طاقت اور توانائی سمیٹی اور اسے مقبوضہ وادی کے نوجوانوں میں جذبہ حریت اور آزادی کی امنگ بیدار رکھنے کے لیے استعمال کیا جو آج بھی بھارتی فوج کے مظالم اور جبر و استبداد کے سامنے ڈٹے ہوئے ہیں اور آزادی کا نعرہ بلند کرتے نظر آتے ہیں۔

    سیّد علی گیلانی کا اقبال سے عشق ایسا تھاکہ وہ نہ صرف مقبوضہ وادی میں اپنے گھر پر اقبال کے یومِ‌ ولادت پر تقریب کا اہتمام کرتے تھے بلکہ اپنے ہر خطاب میں ان کے اشعار سنا کر جوش و ولولہ پیدا کرتے اور نوجوانوں کو بھی فکرِ اقبال سے اکتساب کی ہدایت کرتے تھے۔

    اس حوالے سے تنویر قیصر شاہد نے تین سال قبل ایک خوب صورت کالم لکھا تھا جس سے چند پارے یہاں نقل کیے جارہے ہیں۔ وہ لکھتے ہیں، مقبوضہ کشمیر کے اس ضعیف مجاہد و حریت پسند لیڈر جن کی ہمّتیں ہمہ وقت جواں رہتی ہیں، نے حکیمُ الامت حضرت علامہ محمد اقبال ؒ کے 107 ویں یومِ پیدائش کے موقع پر سری نگر میں اپنے گھر پر ایک شان دار تقریب کا اہتمام کیا تھا۔

    شاعرِ مشرق نے اپنے کلام میں متعدد بار جس محبّت، درد مندی اور خلوص سے کشمیریوں کو خراجِ تحسین پیش کیا ہے، اُن پر ڈھائے جانے والے ڈوگرہ حکم رانوں کے خلاف جس شدّت سے احتجاج کیا ہے، اس کا بھی تقاضا ہے کہ ہمارے کشمیری بھائی حضرت علاّمہ اقبال کو اپنی یادوں میں بسائے رکھیں۔ اس کا عملی مظاہرہ جناب سیّد علی گیلانی نے اقبال کے یومِ ولادت کے موقع پر اپنے گھر (حیدر پورہ) پر کیا تھا۔

    واقعہ یہ ہے کہ علی گیلانی صاحب کی نجی گفتگو، خطوط اور تقاریر میں جا بجا فکرِ اقبال کی چھاپ نظر آتی ہے۔ وہ کلامِ اقبال کو برمحل بروئے کار لاتے ہیں اور سُننے والوں کے دل گرما دیتے ہیں۔ حضرت علامہ اقبال کا یومِ پیدائش آیا تو گیلانی صاحب نے اپنے دولت خانے پر’’اقبال…داعیِ حق، محبِّ انسانیت‘‘ کے موضوع پر ایک دلکشا مجلس کا اہتمام کیا تھا۔

    اس موقع پر مقبوضہ کشمیر میں حریت کانفرنس (گیلانی گروپ) کے بانی و مجاہد کا خطبہ یادگار بھی تھا اور اقبال کی محبت سے سرشار بھی۔ علی گیلانی صاحب نے کہا تھا: ’’کشمیری نوجوانوں سے میری گزارش ہے کہ وہ قرآن و سنّت کے اتباع کے ساتھ ساتھ کلامِ اقبال کو بھی خصوصیت کے ساتھ پڑھیں اور خود کو فکرِ اقبال کے ساتھ منسلک کیے رکھیں۔ لاریب شاعرِ مشرق ملّتِ اسلامیہ کے داعی اور عظیم محسن ہیں۔‘‘ گیلانی صاحب نے مزید ارشاد فرمایا:’’علامہ اقبال کے افکار کا صرف ہم پر ہی نہیں بلکہ ساری ملّت پر احسانات ہیں۔

    سیّد علی گیلانی نے خود نوشت سوانح حیات میں کلامِ اقبال اور فکرِ اقبال کو اپنی باتوں، خطوط اور گفتگو میں سمویا ہے اور خود کو ایسا صاحبِ مطالعہ شخص ثابت کیا ہے جو کلامِ اقبال کا حافظ بھی ہو اور عاشقِ صادق بھی۔

    کشمیریوں پر ڈھائے جانے والے لا تعداد و متنوع بھارتی مظالم اور بھارتی استبداد تلے پسِ دیوارِ زنداں اُن پر کیا گزری، اِن سب کا ذکر کرتے ہُوئے جناب سید علی گیلانی کو بے اختیار حضرت علامہ اقبال کے اشعار یاد آ جاتے ہیں۔ اگر یہ کہا جائے کہ گیلانی صاحب نے اپنی اِس خود نوشت سوانح حیات کے ذریعے کشمیریوں میں فکرِ اقبال اور کلامِ اقبال کی نہایت احسن طریقے سے ترویج و تبلیغ کی ہے تو ایسا کہنا شائد مبالغہ نہیں ہوگا۔

    یہ کہنا بھی بے جا نہ ہوگا کہ کلامِ اقبال سے بے پناہ عشق نے علی گیلانی صاحب کو بھارتی قید خانے میں قوت و ہمّت بھی عطا کیے رکھی اور سہارا بھی۔

  • پاکستان کے نام وَر مصوّر اور مجسمہ ساز آذر زوبی کی برسی

    پاکستان کے نام وَر مصوّر اور مجسمہ ساز آذر زوبی کی برسی

    آذر زوبی پاکستان کے نام وَر مصوّر اور مجسمہ ساز تھے جن کا آج یومِ وفات ہے۔وہ یکم ستمبر 2001ء کو کراچی میں وفات پاگئے تھے۔

    ان کا اصل نام عنایت اللہ تھا۔ وہ 28 اگست 1922ء کو قصور میں پیدا ہوئے۔ 1943ء میں میو اسکول آف آرٹ لاہور سے مصوّری کی تعلیم مکمل کی اور اسکالر شپ پر اٹلی سے فنِ مصوّری کی مزید تعلیم حاصل کرنے چلے گئے۔ 1950ء سے 1953ء تک اٹلی میں تعلیم حاصل کرنے کے بعد 1954ء میں وطن لوٹے اور پنجاب یونیورسٹی کے شعبہ فائن آرٹس میں اپنے فن پاروں کی پہلی سولو نمائش کی۔ بعد ازاں کراچی منتقل ہوگئے۔

    آذر زوبی نے کراچی میں‌ 1956ء میں شعور کے نام سے ایک ادبی جریدہ بھی جاری کیا۔ انھوں نے آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی کے اسکول آف آرٹس میں تدریس کے فرائض انجام دیے اور اس اسکول کے پرنسپل رہے۔ 1968ء میں آذر زوبی نے اسکول آف ڈیکور کے نام سے مصوری، مجسمہ سازی اور درون خانہ آرائش کی تربیت کا ایک ادارہ قائم کیا۔

    انھیں 1980ء میں حکومتِ پاکستان نے صدارتی تمغہ برائے حسنِ کارکردگی عطا کیا تھا۔ آذر زوبی کراچی میں ڈیفنس سوسائٹی کے قبرستان میں آسودۂ خاک ہوئے۔

  • یومِ وفات: مصوّر احمد سعید ناگی جن سے قائدِاعظم نے اپنا پورٹریٹ بنوایا

    یومِ وفات: مصوّر احمد سعید ناگی جن سے قائدِاعظم نے اپنا پورٹریٹ بنوایا

    یکم ستمبر 2006ء کو پاکستان کے نام و‌َر مصوّر احمد سعید ناگی کراچی میں وفات پاگئے تھے۔ انھیں قائدِ اعظم کو روبرو بٹھا کر ان کا پورٹریٹ بنانے کا اعزاز حاصل تھا۔

    احمد سعید ناگی باکمال مصوّر، ایک خوش لباس، ہنس مکھ، ملن سار اور محبّت کرنے والے فن کار مشہورتھے۔ آج ان کی برسی ہے۔

    احمد سعید ناگی لاہور سے معاش کی تلاش میں‌ کراچی آئے تھے اور زندگی کا سفر اسی شہر میں تمام کیا۔ وہ 2 فروری 1916ء کو امرتسر میں پیدا ہوئے تھے۔ انھوں نے امرتسر، لاہور، دہلی کی درس گاہوں سے تعلیمی مدارج طے کرنے کے بعد پیرس کا رخ کیا اور اعلیٰ تعلیم مکمل کر کے وطن لوٹے۔

    احمد سعید ناگی نے 1944 میں قائدِاعظم کا پورٹریٹ بنایا تھا۔

    پاکستان کے اس باکمال مصوّر کے فن پاروں کو ملک کے مختلف شہروں کے علاوہ پیرس، برطانیہ، امریکا، ایران، بھارت میں‌ نمائش کے لیے سجایا گیا جہاں شائقین اور ناقدین نے ان کے کام کو دیکھا اور سراہا۔

    احمد سعید ناگی کے مختلف فن پارے زیارت ریذیڈنسی، گورنر ہائوس کوئٹہ، گورنر ہائوس کراچی، موہٹہ پیلس، قصر ناز، گورنر ہائوس پشاور اور پنجاب اسمبلی بلڈنگ لاہور میں آویزاں ہیں۔

    حکومتِ پاکستان نے فنِ مصوری میں ان کی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے انھیں صدارتی تمغہ برائے حسنِ کارکردگی عطا کیا تھا۔