Tag: 1 فروری وفات

  • شعر و ادب، نقد و نظر میں ممتاز جلیل قدوائی کا یومِ وفات

    شعر و ادب، نقد و نظر میں ممتاز جلیل قدوائی کا یومِ وفات

    جلیل قدوائی کو دنیائے ادب میں شاعر، افسانہ نگار، محقّق، نقّاد اور مترجم کی حیثیت سے پہچانا جاتا ہے۔ صحافت بھی ان کا ایک حوالہ ہے۔ جلیل قدوائی یکم فروری 1996ء کو اسلام آباد میں وفات پاگئے تھے۔

    آج اس معروف ادیب و شاعر کا یومِ‌ وفات ہے۔ جلیل قدوائی 16 مارچ 1904ء کو اناؤ (اودھ) میں پیدا ہوئے تھے۔ علی گڑھ اور الہ آباد یونیورسٹی سے تعلیم حاصل کرنے کے بعد علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے شعبۂ اردو میں لیکچرر مقرر ہوئے۔ حکومت ہند کے محکمۂ اطلاعات و نشریات میں اسسٹنٹ انفارمیشن افسر کے عہدے پر بھی فائز رہے۔ تقسیمِ ہند کے بعد وہ پاکستان چلے آئے اور یہاں وزارتِ اطلاعات و نشریات سے وابستہ رہے اور کئی اہم عہدوں پر خدمات انجام دیں۔

    جلیل قدوائی نے شاعری اور افسانہ نگاری کے ساتھ علمی و ادبی مضامین، تبصرے اور تنقید بھی لکھی۔ انھوں نے متعدد شعرا کا کلام مرتب کیا۔ ان کی تصانیف میں چند اکابر، چند معاصر، گلدستہ تنقید، تذکرے اور تبصرے (تنقید)، قطراتِ شبنم، مکتوباتِ عبد الحق (ترتیب)، شعری مجموعے خاکستر پروانہ، نقش و نگار، نوائے سینہ تاب اور، حیاتِ مستعار (خود نوشت)، سیرِ گل (افسانہ)، اصنام خیالی (مختصر افسانے) جب کہ مانا دانا اور ماموں‌ جان ڈراموں کے تراجم ہیں۔

  • اسٹیج اور ٹیلی ویژن پر لازوال کردار نبھانے والے ظہور احمد کی برسی

    اسٹیج اور ٹیلی ویژن پر لازوال کردار نبھانے والے ظہور احمد کی برسی

    پاکستان میں اسٹیج اور ریڈیو کے معروف فن کار اور ٹیلی ویژن ڈراموں میں اپنی شان دار اداکاری کے سبب شہرت حاصل کرنے والے ظہور احمد یکم فروری 2009ء کو وفات پاگئے تھے۔

    ظہور احمد 1934ء کو ناگ پور، ہندوستان میں پیدا ہوئے تھے۔ انھوں نے تھیٹر پر اپنی شان دار پرفارمنس سے پہچان بنائی اور اسٹیج ڈراموں میں اعلیٰ کارکردگی کا مظاہرہ کیا اور جب پی ٹی وی کا قیام عمل میں آیا تو 60 اور 70 کی دہائی میں ان کا شمار اس میڈیم کے مصروف اداکاروں میں‌ ہونے لگا۔

    انھوں نے مشہور ڈراما سیریز خدا کی بستی کا وہ اہم کردار ادا کیا جو ان کی شناخت بن گیا۔ اس ڈرامے میں انھوں نے نیاز کباڑیے کا کردار اس خوبی سے نبھایا کہ ناظرین اسے آج تک فراموش نہیں‌ کرسکے۔ ظہور احمد نے نظام سقّہ اور نور الدین زنگی کے کرداروں سے بھی خوب شہرت حاصل کی۔ ڈراما آخری چٹان اور چنگیز خان میں انھوں نے اعلیٰ درجے کی اداکاری کا مظاہرہ کیا۔ یہ دونوں تاریخی کھیل تھے جنھیں ناظرین نے بہت پسند کیا اور ظہور احمد کو زبردست پذیرائی ملی۔

    ظہور احمد کے پاکستان ٹیلی ویژن کے یادگار ڈراموں میں دیواریں، پردیس اور آہن بھی قابلِ ذکر ہیں۔ اس باکمال اداکار نے بعد میں چند فلمیں بھی کیں جن میں ہیرا اور پتھر، ارمان، بادل اور بجلی، شہر اور سائے، مسافر شامل ہیں۔

    ظہور احمد اسلام آباد میں مدفون ہیں۔

  • معروف اداکار نور محمد لاشاری کی برسی

    معروف اداکار نور محمد لاشاری کی برسی

    پاکستان ٹیلی ویژن کے معروف اداکار نور محمد لاشاری یکم فروری 1997ء کو اس جہانِ فانی سے رخصت ہوگئے تھے۔ آج ان کی برسی ہے۔ ان کا شمار پی ٹی وی کے سینئر اداکاروں‌ میں‌ ہوتا تھا۔ انھوں نے کئی ڈراموں میں‌ بے مثال اداکاری کی اور ان کے نبھائے ہوئے کردار پی ٹی وی کی تاریخ میں لازوال اور یادگار ثابت ہوئے۔

    نور محمد لاشاری بھان سعید آباد کے مقام کوٹ لاشاری کے رہنے والے تھے۔ ابتدائی تعلیم کے حصول کے بعد انھوں نے محکمہ تعلیم سے وابستگی اختیار کرلی اور تدریس کے فرائض انجام دینے لگے۔

    نور محمد لاشاری نے استاد بخاری کی ناٹک منڈلی سے اپنے فنی سفر کا آغاز کیا تھا۔ اسٹیج ڈراموں میں اپنے فن کا مظاہرہ کرنے کے بعد انھیں طویل عرصے تک ریڈیو پاکستان، حیدرآباد سے وابستہ رہنے کا موقع ملا جہاں انھوں نے صدا کاری کے میدان میں‌ خود کو منوایا اور سامعین میں مقبول ہوئے۔

    ملک میں ٹیلی ویژن کا دور شروع ہوا تو پی ٹی وی کے کراچی اسٹیشن کے لیے انھوں نے ہفتہ وار سندھی ڈرامے ناٹک رنگ سے چھوٹی اسکرین پر اداکاری کا آغاز کیا۔ نور محمد لاشاری نے متعدد اردو اور سندھی ڈراموں میں‌ لازوال کردار نبھائے اور ناظرین میں مقبول ہوئے۔ اس کے علاوہ لگ بھگ دو درجن سندھی اور اردو فلموں میں بھی کام کیا اور اپنے فن کا لوہا منوایا۔ ان کا مکالموں کی ادائیگی کا مخصوص انداز، لب و لہجہ اور ایک خاص ٹھہراؤ ان کے کرداروں‌ میں‌ ایسی جان ڈال دیتا تھا کہ اس پر حقیقت کا گمان ہونے لگتا۔

    جنگل، دیواریں، چھوٹی سی دنیا، چاند گرہن، دشت اور ماروی جیسے پی ٹی وی کے مقبول ترین ڈراموں میں نور محمد لاشاری نے اپنی اداکاری سے ناظرین کے دل جیتے۔ 1993ء میں انھیں صدارتی ایوارڈ سے نوازا گیا تھا۔

    نور محمد لاشاری کی آخری آرام گاہ منگھو پیر قبرستان میں ہے۔