Tag: 1 نومبر وفات

  • ایزرا پاؤنڈ: بیسویں صدی کا صاحبِ اسلوب شاعر جسے پاگل خانے بھیج دیا گیا تھا

    ایزرا پاؤنڈ: بیسویں صدی کا صاحبِ اسلوب شاعر جسے پاگل خانے بھیج دیا گیا تھا

    ایزرا پاؤنڈ نے کہا تھا کہ نقّاد کو کچھ سوال ایسے بھی اٹھانے چاہییں جن کا کوئی جواب نہ دیا جا سکے، ان میں سے بعض سوال ایسے بھی ہوں جن میں نہ تو ادیبوں کو کسی قسم کا کوئی فائدہ پہنچے نہ ادب کو!

    جہانِ ادب میں‌ تو ایزرا پاؤنڈ کو بہت پذیرائی ملی اور اس کی تخلیقات کو سراہا گیا، لیکن امریکی حکومت کے لیے وہ اپنے فکر و خیالات کی وجہ سے ناقابلِ‌ برداشت تھا، سو اُسے بدترین حالات میں قید جھیلنا پڑی۔ شہرۂ آفاق امریکی شاعر ایزرا پاؤنڈ نے دوسری جنگِ عظیم کے خاتمے پر امریکا میں جبر اور سخت مصائب اٹھائے۔ جرأتِ اظہار کی پاداش میں‌ رہائی کے بعد بھی اُسے کئی پابندیوں کا سامنا رہا۔ وہ ایک بڑا نقّاد بھی تھا۔

    ایزرا پائونڈ 1885 میں‌ پیدا ہوا۔ دوسری جنگِ عظیم شروع ہوئی تو اس نے اٹلی میں اپنے قیام کے دوران جنگ کی مخالفت میں تقاریر کیں جس میں‌ وہاں‌ لوگوں کو امریکا اور اس کے اتحادیوں کی مخالفت پر اکسایا۔ جنگ ختم ہوئی تو اس کی عمر 60 سال تھی اور اُسے قیدی بنا لیا گیا۔ امریکا اور اس کے اتحادی ممالک کی حکومتوں کی مخالفت پر ایزرا پاؤنڈ کو غدار اور جنونی بھی قرار دے دیا گیا۔ یہی نہیں بلکہ اسے پاگل ثابت کرکے امریکا کے ایک پاگل خانے میں داخل کرایا گیا جہاں وہ 73 برس تک بند رہا۔ اپنے وقت کے مشہور شاعر رابرٹ فراسٹ نے اس پر حکام کو درخواست دی اور ایزرا پاؤنڈ کو پاگل خانے سے نکلوایا۔

    ایزرا پاؤنڈ کے بارے میں‌ مشہور تھا کہ وہ ایک جھگڑالو اور جھکّی انسان ہے، لیکن اپنے وقت کے بڑے تخلیق کاروں‌ اور اہلِ قلم نے اسے انقلابی اور بڑا شاعر قرار دیا ہے۔ ممتاز اہلِ قلم نے اس کے افکار و خیالات کو سراہا ہے۔ ایزرا پاؤنڈ کی نظم دی ویسٹ لینڈ بھی بیسویں صدی کی شان دار تخلیق کہلاتی ہے۔

    پاگل خانے سے رہائی کے بعد ایزرا پاؤنڈ دوبارہ اٹلی چلا گیا اور وہاں فلورنس کے ایک اسپتال میں ایک مرض کے سبب چل بسا۔ ایزرا پاؤنڈ کا یومِ‌ وفات یکم نومبر 1972ء ہے۔

    یونان، اٹلی اور فرانسیسی ادب کا گہرا مطالعہ کرنے والے ایزرا پاؤنڈ نے اپنی تخلیقات میں نت نئے تجربے کیے جو فکر و نظر کے ساتھ اسلوب کی انفرادیت کے تجربات تھے۔ وہ شاعری میں‌ نئی جہات سے آشنا کرنے کے لیے مشہور ہوا۔ یورپ اور مشرقی تہذیبوں سے ایزرا پاؤنڈ نے جو استفادہ کیا تھا، وہ اسے جدیدیت کی تحریک کا بانی بنانے میں معاون ثابت ہوئے۔

    برطانیہ میں‌ قیام کے دوران 1912ء تک ایزرا پاؤنڈ نے اپنی نظموں کے چار مجموعے شایع کروائے۔ امریکا کے اس سچّے اور خوب صورت شاعر کی بہترین نظمیں وہ ہیں جو اس نے چینی، جاپانی اور اطالوی ادب سے متاثر ہو کر لکھی ہیں۔ اس کے خیالات و جذبات میں قدیم داستانوں، عوامی گیتوں اور جدید معاشرتی ہیجان نمایاں‌ ہیں‌ جن کو اس نے بڑے سلیقے سے اپنی شاعری میں‌ پیش کیا۔

  • برج موہن دتاتریہ کیفی دہلوی: اردو کے ایک عاشق اور خدمت گار کا تذکرہ

    برج موہن دتاتریہ کیفی دہلوی: اردو کے ایک عاشق اور خدمت گار کا تذکرہ

    آج معروف ادیب، قادرُ الکلام شاعر، ڈراما نویس، ناول نگار اور انشا پرداز پنڈت برج موہن دتاتریہ کیفی دہلوی کا یومِ‌ وفات ہے۔

    ان کی اردو زبان کی ترقّی کے لیے پُرخلوص خدمات کو دیکھتے ہوئے انھیں اردو کا عاشق کہا گیا۔ دتاتریہ کیفی دہلوی شان دار شخصیت کے مالک تھے، ان کی گفتگو، تقریر اور تحریر نہایت شستہ اور شائستہ تھی۔

    معروف شاعر، افسانہ نگار اور فلم ساز خلیق ابراہیم خلیق نے ان کے بارے میں لکھا، انجمن ترقی اردو (ہند) کا مرکزی دفتر حیدر آباد دکن سے دہلی منتقل ہوا تو وہ انجمن کے ہمہ وقتی رکن بن گئے اور اردو کی ترقی اور فروغ کی کوششوں میں بابائے اردو کا ہاتھ بٹانے لگے۔

    بڑے عالم فاضل شخص تھے۔ اردو، فارسی، عربی اور انگریزی پر تو عبور رکھتے ہی تھے، سنسکرت اور ہندی میں بھی خاصی استعداد تھی۔ اعلیٰ پائے کے ادیب اور شاعر تھے۔

    ابتدا میں اپنے کلام پر انھوں نے مولانا حالی سے اصلاح لی تھی۔ تنقید میں بھی حالی کی پیروی کرتے تھے۔ معاش کے لیے پنڈت کیفی نے درس و تدریس کا پیشہ اختیار کیا۔ عرصہ دراز تک کشمیر میں قیام پذیر رہے۔ کچھ عرصہ لائل پور (موجودہ فیصل آباد) میں بھی گزارا۔ ان کی شخصیت میں ایسی کشش تھی کہ جہاں بھی رہے وہاں کے شاعر اور ادیب ان کے پاس آئے اور ان کی صحبت سے فیض اٹھایا۔

    پنڈت کیفی ان بوڑھوں میں سے تھے جن کی صحبت میں بوڑھوں، جوانوں، بچوں سبھی کا دل لگتا۔ میری ان سے خاصی دوستی ہوگئی تھی۔ دلّی تو ان کا گھر ہی تھا۔ اس کے چپے چپّے کی تاریخ سے وہ واقف تھے۔ اپنے بچپن اور جوانی کی دلی کے قصے مزے لے لے کے سنایا کرتے تھے۔ کشمیر اور لائل پور کے بھی قصے سناتے اور لائل پور کے اپنے بعض دوستوں اور شاگردوں کا ذکر بہت محبت سے کرتے تھے۔

    کیفی دہلوی نے ادب و شعر کی مختلف اضاف میں متعدد کتابیں لکھیں جن میں سے بعض نصاب میں بھی شامل رہیں۔ وہ 13 دسمبر 1866ء کو دہلی میں پیدا ہوئے اور یکم نومبر 1955 کو نواسی سال کی عمر میں دہلی کی ایک نواحی بستی غازی آباد میں وفات پائی۔

    ان کی تصانیف میں منشورات (لیکچرز و مضامین، 1934ء)، واردات (شعری مجموعہ، 1941ء)، پریم ترنگنی (مثنوی)، توزک ِ قیصری (منظوم تاریخِ ہند، 1911ء)، راج دلاری (ڈراما، 1930ء)، خمسۂ کیفی (اُردو زبان سے متعلق مقالات و منظومات، انجمن ترقی اُردو (ہند) دہلی، 1939ء)، اُردو ہماری زبان (1936ء)، نہتا رانا یا رواداری (تاریخی ناول،1931ء)، بھارت درپن (ڈراما) و دیگر شامل ہیں۔

  • لازوال گیتوں کے خالق تنویر نقوی کی برسی

    لازوال گیتوں کے خالق تنویر نقوی کی برسی

    آج پاکستانی فلم انڈسٹری کے ممتاز نغمہ نگار تنویر نقوی کی برسی ہے۔ تنویر نقوی یکم نومبر 1972ء کو اس جہانِ فانی سے کوچ کر گئے تھے۔

    آواز دے کہاں ہے دنیا میری جواں ہے جیسے کئی گیت آج بھی ہماری سماعتوں میں رس گھول رہے ہیں جن کے خالق تنویر نقوی تھے۔

    نغمہ نگار تنویر نقوی 6 فروری 1919ء کو لاہور میں پیدا ہوئے۔ ان کا اصل نام سید خورشید علی تھا۔ انھوں نے فلمی دنیا میں تنویر نقوی کے نام سے شہرت پائی۔ وہ 15 سال کے تھے جب شاعری کا آغاز کیا اور 1938ء میں اپنی پہلی فلم ‘شاعر’ کے لیے گیت لکھے۔ اس وقت متحدہ ہندوستان میں بمبئی فلمی صنعت کا مرکز تھا، جہاں تنویر نقوی نے تقریباً آٹھ سال تک گیت نگاری کی۔

    ان کا تعلق ایک علمی اور ادبی گھرانے سے تھا اور ان کے بڑے بھائی بھی نوا نقوی کے نام سے شاعری کرتے تھے۔ 1940ء میں تنویر نقوی کا پہلا مجموعہ سنہرے سپنے کے نام سے شائع ہوا۔ اسی کی اشاعت کے بعد انھوں نے بمبئی کی فلم انڈسٹری کا رخ کیا تھا جہاں کئی فلموں کے لیے نغمات تحریر کیے اور نام کمایا۔

    قیام پاکستان سے قبل انھوں‌ نے فلم ‘انمول گھڑی’ کے لیے نغمات تحریر کیے تھے جن میں ان کی وجہِ شہرت بننے والا نغمہ آواز دے کہاں ہے بھی شامل تھا۔ یہ اس دور کا سب سے زیادہ مقبول ہونے والا گیت تھا، جس کے بعد ان کے دو نغمات آجا میری برباد محبت کے سہارے اور جواں ہے محبت حسیں ہے زمانہ کو بھی شائقین نے بہت پسند کیا۔

    تقسیم کے بعد وہ پاکستان آگئے جہاں ان کی پہلی پاکستانی فلم ‘تیری یاد’ تھی۔ پاکستان میں تنویر نقوی نے 1959ء میں بننے والی فلم ‘کوئل’ کے گیت لکھ کر لازوال شہرت پائی، جس میں رم جھم رم جھم پڑے پھوار یا مہکی فضائیں، گاتی ہوائیں اور دل کا دِیا جلایا نے مقبولیت کے گویا ہفت آسمان طے کیے۔

    اسی طرح 1960ء میں فلم ‘ایاز’ ریلیز ہوئی جس کا گیت رقص میں ہے سارا جہاں بھی بہت مقبول ہوا۔ بعد کے برسوں میں فلم ‘انار کلی’ کے گیت کہاں تک سنو گے کہاں تک سناﺅں یا جلتے ہیں ارمان میرا دل روتا ہے سمیت متعدد فلموں کے گیتوں نے تنویر نقوی کو بہترین شاعر اور نغمہ نگار ثابت کیا۔ انھیں فلم و ادب کی دنیا کے کئی اعزازات سے نوازا گیا۔

    1965ء کی جنگ میں نشر ہونے والا نغمہ رنگ لائے گا شہیدوں کا لہو اور چھٹی ذرا سیاں جی کے نام لکھ دے بھی ان کے ناقابلِ‌ فراموش نغمات میں سرفہرست ہیں۔

    تنویر نقوی نے فلموں کے لیے متعدد خوب صورت نعتیں بھی لکھیں جن میں ‘نورِ اسلام’ کی ایک نعت نہایت مشہور ہوئی اور یہ کلام آج بھی بے انتہا مقبول ہے۔ یہ نعت آپ نے بھی ضرور سنی ہوگی: شاہِ مدینہ، یثرب کے والی، سارے نبی تیرے در کے سوالی۔ ان کا یہ کلام ہر محفل میں پڑھا گیا اور سوالی گلی گلی پھر کر اسے بلند آواز سے پڑھتے اور لوگوں سے نذرانے وصول کرتے تھے۔

    تنویر نقوی نے خوب صورت گیت نگاری پر تین نگار ایوارڈ حاصل کیے۔

  • اردو زبان و ادب، نونہالوں اور طلبہ کے محسن اسماعیل میرٹھی کی برسی

    اردو زبان و ادب، نونہالوں اور طلبہ کے محسن اسماعیل میرٹھی کی برسی

    مولوی محمد اسماعیل میرٹھی کو بچّوں کا بڑا شاعر اور ادیب مانا جاتا ہے۔ ایک دور تھا جب ان کی نظمیں بچّوں کو ہی نہیں ان کے والدین اور بڑوں کو بھی زبانی یاد تھیں اور چھوٹے بچّوں کو بہلانے اور انھیں خوش کرنے کے لیے بڑے خاص طور پر مائیں لوری کی صورت یہ نظمیں‌ سنایا کرتی تھیں۔

    نظم خدا کی تعریف کا یہ شعر دیکھیے:

    تعریف اُس خدا کی جس نے جہاں بنایا
    کیسی زمیں بنائی کیا آسماں بنایا

    اسی طرح ہماری گائے وہ ایک مشہور نظم ہے جس کا مطلع تھا:

    رب کا شکر ادا کر بھائی
    جس نے ہماری گائے بنائی

    آج اردو کے اس نام ور ادیب، شاعر اور مضمون نگار کی برسی ہے۔ وہ یکم نومبر 1917ء کو اس دارِ فانی سے کوچ کرگئے تھے۔

    مولوی اسماعیل میرٹھی نے 12 نومبر 1844ء کو ضلع میرٹھ کے ایک علاقے میں آنکھ کھولی۔ اسی شہر کی نسبت اپنے نام سے میرٹھی جوڑا۔ ابتدائی تعلیم و تربیت والد کی زیرِ نگرانی گھر ہی پر حاصل کی۔ بعد میں اتالیق سے گھر پر مزید تعلیم مکمل کی اور عربی اور فارسی بھی سیکھی۔

    دورانِ تعلیم انھوں‌ نے اپنے تخلیقی سفر کا آغاز کیا۔ انھوں نے متحدہ ہندوستان میں بچّوں کی تعلیم و تربیت، ان میں دین و مذہب، اپنی روایات اور ثقافت کا شعور بیدار کرنے کی غرض سے اصلاحی مضامین لکھنا شروع کیے جنھیں‌ بہت پسند کیا گیا۔ بعد میں وہ ایک شاعر اور مصنّف کے طور پر مشہور ہوئے جنھوں نے کئی درسی کتابیں بھی تحریر کیں۔ ان کی زیادہ تر نظمیں، حکایات اور کہانیاں طبع زاد ہیں اور بعض تحریریں فارسی اور انگریزی سے ماخوذ یا ترجمہ ہیں۔

    مولوی محمد اسماعیل میرٹھی نے شاعری کے علاوہ تصنیف و تالیف کے حوالے سے بالخصوص تعلیمی مضامین اور تدریس کے موضوعات پر کام کیا۔ ان کے مضامین اور نظمیں‌ آج بھی ہماری درسی کتب میں‌ شامل ہیں اور مختلف رسائل کی زینت بھی بنتی رہتی ہیں۔

    ان کے زمانے میں‌ اگرچہ زبان و ادب پر فارسی کا گہرا اثر تھا، لیکن مولوی اسماعیل میرٹھی اور ان کے چند ہم عصر ایسے تھے جنھوں نے اردو کی آب یاری کی اور زبان کو تصنع اور تکلف سے دور رکھتے ہوئے سادہ و عام فہم انداز اپنایا۔ خاص طور پر بچّوں کے لیے تخلیق کردہ ادب میں ان کی ذہنی سطح اور زبان کو سمجھنے کی استعداد اور صلاحیت کو بھی پیشِ نظر رکھا۔ اسماعیل میرٹھی نے ابتدائی جماعتوں کے لیے اردو زبان کا قاعدہ بھی مرتّب کیا تھا۔

    مولوی اسمٰعیل میرٹھی نے بچّوں کی نظموں کے علاوہ مقبول ترین صنفِ سُخن غزل میں بھی خوب طبع آزمائی کی جب کہ مثنوی، قصیدہ، رُباعی اور قطعہ نگاری بھی کی، تاہم اُن کی شہرت کا اصل میدان بچّوں کی شاعری ہی رہا۔

    اسمٰعیل میرٹھی نے اپنے عزم و حوصلے سے نونہالوں اور طلبہ میں ایسا ادبی ذوق بیدار کیا جس نے آنے والی کئی نسلوں کا نہ صرف نصاب سے بلکہ کتاب سے بھی رشتہ مستحکم تر کر دیا۔ گوپی چند نارنگ نے ان کے بارے میں‌ لکھا ہے کہ ’’وہ صرف عجیب چڑیا، گھوڑا، اونٹ، ملمع کی انگوٹھی، محنت سے راحت اور ہر کام میں کمال اچھا ہے کے، شاعر نہیں تھے۔ انھوں نے ’’مناقشۂ ہوا و آفتاب‘‘، ’’مکالمۂ سیف و قلم‘‘، ’’بادِ مراد‘‘، ’’شفق، ’’تاروں بھری رات‘‘ اور ’’آثار سلف‘‘ جیسی نظمیں بھی لکھیں۔‘‘