Tag: 10 اکتوبر وفات

  • گرو دَت کا تذکرہ جنھیں موت کے بعد لازوال شہرت ملی

    گرو دَت کا تذکرہ جنھیں موت کے بعد لازوال شہرت ملی

    ستّر کی دہائی میں فلم انڈسٹری میں گرو دَت کا چرچا تو خوب ہوا، لیکن جو شہرت انھیں‌ موت کے بعد نصیب ہوئی، وہ زندگی میں ان کا مقدر نہیں بن سکی۔ 10 اکتوبر 1964ء کی ایک صبح گرو دَت کی موت کی خبر سامنے آئی۔ انھوں نے خود کشی کر لی تھی۔

    خود کُشی سے ایک روز قبل وہ رات گئے تک معروف مکالمہ نگار اور اسکرپٹ رائٹر ابرار علوی کے ساتھ خوش گپیوں میں مصروف رہے، لیکن اس رات خود کُشی کے طریقے بھی زیرِ بحث آئے تھے۔ ابرار علوی کی زبانی معلوم ہوا کہ گرو دت نے اس روز کہا تھا کہ زیادہ مقدار میں نیند کی گولیاں پانی میں‌ گھول کر پی جائيں تو خود کُشی کی کوشش میں کام یابی ہوسکتی ہے۔ اپنی زندگی ختم کرنے کے لیے انھوں نے یہی طریقہ اپنایا۔ گرو دت اپنے بیڈ روم میں مردہ حالت میں پائے گئے تھے۔

    فلم انڈسٹری میں‌ گرو دت کو ایک باکمال ہدایت کار، کام یاب فلم ساز اور بہترین اداکار کے طور پر پہچانا جاتا ہے۔ بنگلور میں 9 جولائی 1925ء کو پیدا ہونے والے گرو دت کا بچپن کلکتہ میں‌ گزرا۔ وہ بیس برس کے تھے جب فلم نگری میں بطور اسسٹنٹ ڈائریکٹر اپنا سفر شروع کیا۔ انھیں اس آغاز پر گیان مکرجی اور امیہ چکروتی جیسے ہدایت کاروں کی رفاقت نصیب ہوئی تھی۔ گرو دَت کی اوّلین تصور کی جانے والی فلم ’باز‘ تھی لیکن اس سے پہلے بھی وہ تین فلموں ’لاکھا رانی‘،’ ہم ایک ہی‘ اور’گرلز اسکول‘ کے لیے اپنی صلاحیتوں‌ کو آزما چکے تھے۔

    گرو دت کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ اپنے زمانے سے آگے کی فلمیں بناتے تھے۔ اس کی ایک مثال مسٹر اینڈ مسز 55 ہے جس میں نظر آنے ولے کردار ہمیں آج کی شہری زندگی میں‌ بھی دکھائی دیتے ہیں۔ گرو دت کی فلم ‘پیاسا’ کو ٹائم ميگزین نے دنیا کی 100 بہترین فلموں کی فہرست میں شامل کیا تھا۔

    1970ء میں گرو دَت کی فلموں کا خوب چرچا ہوا اور 1980ء میں ان کا نام ایک فرانسیسی محقّق کے ریسرچ پیپر میں شامل ہوا جس نے گرو دت کو عالمی سطح پر پہچان دی۔ ان کی فلمیں فرانسں اور یورپ کے متعدد شہروں میں منعقد ہونے والے فلمی میلوں میں زیرِ نمائش رہیں۔

    گرو دت کی الم ناک موت کی اطلاع پاکر اپنے وقت کے نام ور فن کار اور فلمی شخصیات جن میں دیو آنند، پرتھوی راج، نرگس، مینا کماری، جانی واکر اور وحیدہ رحمان بھی شامل ہیں، اپنی مصروفیات ترک کر کے ممبئی (بمبئی) پہنچے تھے۔ ہر چھوٹا بڑا فن کار اور فلم نگری سے وابستہ آرٹسٹ ان کی آخری رسومات کی ادائیگی میں شریک اور غم زدہ تھا۔ گرو دَت 39 سال کے تھے جب انھوں نے یہ قدم اٹھایا۔

    1951ء میں گرو دت کی فلم بازی ریلیز ہوئی تھی جس نے زبردست بزنس کیا اور یوں 25 برس کی عمر میں ان کے فن و کمال کو سبھی نے تسلیم کیا۔ وہ اپنی فلموں میں‌ اداکاری بھی کرتے رہے اور خود کو اس میدان میں منوانے میں‌ کام یاب رہے۔

    اس سے اگلے سال گرو دت نے فلم جال کے لیے ہدایات دیں اور پھر آر پار، مسٹر اینڈ مسز 55، سی آی ڈی جیسی فلمیں‌ بنائیں۔ گرو دت نے اداکارہ وحیدہ رحمان کو فلم انڈسٹری میں‌ متعارف کرایا تھا اور ان سے تعلق اس ہدایت کار کی ذاتی زندگی میں‌ ایک اہم موڑ ثابت ہوا۔ وحیدہ رحمان ان کی فلمی زندگی میں خوش گوار اضافہ تھی، لیکن اسی لڑکی نے فلم ساز کی خانگی زندگی میں وہ طوفان برپا کیا جس میں‌ گرو دت اپنی زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھے۔

    1953ء میں گرو دت نے معروف گلوکارہ گیتا دت سے شادی کی تھی۔ اس جوڑے کے یہاں‌ دو بیٹوں کی پیدائش ہوئی، لیکن وحیدہ رحمان سے گرو دت کے عشق نے ان کی بیوی کو بدظن کر دیا اور وہ بچّوں کو لے الگ رہنے لگی۔ یہ عشق کسی سے چھپا نہ رہ سکا اور اہلیہ سے تلخی اور اس کا گھر چھوڑ دینا اب ایک افسانہ بن گیا تھا۔ وحیدہ رحمان نے خود پر الزام آتا دیکھا گرو دَت سے دور جانے کا فیصلہ کرلیا۔ اب گرو دَت تنہا رہ گئے تھے۔

    اسی عرصہ میں‌ ان کی ایک فلم بھی ناکامی سے دوچار ہوئی اور ہدایت کار کی حیثیت سے گرو دت کو اس کا بڑا قلق ہوا۔ بیوی بچّوں اور پھر وحیدہ کا ان سے دور ہوجانا جہاں ان کی ذہنی حالت پر اثرانداز ہوا تھا، وہیں فلم کی ناکامی نے بھی گرو دَت کو توڑ کر رکھ دیا تھا اور ان سارے جھمیلوں سے نجات پانے کے لیے گرو دت نے نیند کی گولیاں کھا کر اپنی زندگی کا خاتمہ کر لیا۔

  • گرو دت کی کہانی جس نے موت کے بعد لازوال شہرت حاصل کی

    گرو دت کی کہانی جس نے موت کے بعد لازوال شہرت حاصل کی

    گرو دت کو زندگی میں جو شہرت نہ مل سکی وہ موت کے بعد اس کا مقدر بنی۔ انھوں نے خود کشی کرلی تھی۔ 10 اکتوبر 1964ء کی ایک صبح وہ اپنے بیڈ روم میں مردہ پائے گئے تھے۔

    1970ء کی دہائی میں گرو دت کو جیسے نئی زندگی مل گئی۔ ان کی فلموں کا چرچا ہونے لگا اور 1980ء میں ایک فرانسیسی محقق نے کی گرو دت پر ریسرچ شایع ہوئی تو اسے دنیا بھر میں‌ پہچان مل گئی۔ بعد کے برسوں میں گرودت کی فلمیں فرانس میں اور یورپ کے دیگر شہروں میں منعقدہ میلوں میں نمائش کے لیے پیش کی گئیں۔

    وہ ہندوستان کے نام وَر اور باکمال ہدایت کار، فلم ساز اور اداکار کے طور پر پہچانے جاتے ہیں۔ وہ بنگلور میں 9 جولائی 1925ء کو پیدا ہوئے۔

    گرو دت بیس برس کی عمر میں اسسٹنٹ ڈائریکٹر کے طور پر فلمی دنیا سے وابستہ ہوئے اور گیان مکرجی اور امیہ چکروتی جیسے ہدایت کاروں کے ساتھ اپنے سفر کا آغاز کیا۔ انھوں نے اپنی اوّلین تصور کی جانے والی فلم ’باز‘ سے پہلے تین فلمیں ’لاکھا رانی‘،’ ہم ایک ہی‘ اور’گرلز اسکول‘ بھی کی تھیں۔

    گرو دت کی بمبئی میں خود کشی کی خبر جنگل کی آگ کی طرح ہر طرف پھیل گئی تھی۔ دیو آنند، پرتھوی راج، نرگس اور مینا کماری، جانی واکر اور وحیدہ رحمان جیسے فن کار خبر ملتے ہی سب کام چھوڑ کر بمبئی پہنچ گئے۔ فلم نگری کا ہر چھوٹا بڑا فن کار، آرٹسٹ غم زدہ تھا۔ وہ 39 سال کے تھے جب اپنی زندگی کا خاتمہ کیا۔

    1951ء میں فلم نگری نے کئی خوب صورت اور یادگار فلمیں‌ ریلیز کی تھیں جن میں گرو دت کی فلم بازی بھی تھی جس نے اچھا خاصا بزنس کیا اور محض 25 برس کی عمر میں انھیں ایک باکمال ہدایت کار کے طور پر تسلیم کر لیا گیا۔ انھوں نے اپنی فلموں میں‌ اداکاری کے جوہر بھی دکھائے اور ایک باصلاحیت اداکار کے طور پر خود کو منوانے میں‌ کام یاب رہے۔

    اگلے سال انھوں نے فلم جال کی ہدایات دیں اور پھر آر پار، مسٹر اینڈ مسز 55، سی آی ڈی منظرِ عام پر آئی، جس میں گرو دت نے وحیدہ رحمان کو متعارف کرایا تھا جو اس ہدایت کار کی ذاتی زندگی کا اہم موڑ ثابت ہوا۔

    1953ء میں گرو دت معروف سنگر گیتا دت سے شادی کرچکے تھے اور ان کے دو بیٹے بھی تھے، لیکن وحیدہ رحمان کی وجہ سے اس کی خانگی زندگی میں گویا زہر گھل گیا۔

    گرو دت کی بیوی نے تنگ آکر الگ مکان لے لیا اور بچّوں کو لے کر وہاں چلی گئی۔ تب وحیدہ رحمان نے خود پر الزام آتا دیکھ کر گرو دت سے دوری اختیار کر لی اور یوں گرو دت بالکل تنہا رہ گئے۔

    اسی زمانے میں‌ گرو دت نے ایک فلم بنائی جو ناکام ہوگئی جس کا ہدایت کار کو شدید صدمہ ہوا۔ کہتے ہیں اس فلم کی ناکامی نے انھیں‌ توڑ کر رکھ دیا۔

    ایک روز انھوں نے وافر مقدار میں نیند کی گولیاں کھا کر اپنی زندگی ختم کر لی۔

  • نوح ناروی کا تذکرہ جو استاد داغ کے بعد ان کے جانشین بنے

    نوح ناروی کا تذکرہ جو استاد داغ کے بعد ان کے جانشین بنے

    نوح ناروی استاد شاعر داغ دہلوی کے شاگرد تھے جو بعد میں ان جانشین بنے۔ اردو ادب میں انھیں ایک ایسے شاعر کے طور پر یاد کیا جاتا ہے جس نے روایتی موضوعات اور عام بندشوں کو اپنے مخصوص کلاسیکی رنگ میں خوب صورتی سے بیان کیا ہے۔

    نوح ان شاعروں میں سے ہیں جنھوں نے اپنے تخلص کو اپنی شاعری کی صورت گری میں بہت جگہ دی۔ ان کے مجموعوں کے نام اس کی عمدہ مثال ہیں جن میں سفینہ نوح ، طوفانِ نوح ، اعجازِ نوح شامل ہیں۔

    ان کا اصل نام محمد نوح تھا۔ تخلّص بھی نوح اختیار کیا۔ تذکروں میں ان کا سنِ‌ پیدائش 1878ء لکھا ہے جب کہ ضلع رائے بریلی ان کا آبائی وطن تھا۔ ابتدائی تعلیم گھر پر ہوئی، اس کے بعد میر نجف علی سے فارسی، عربی کا درس لیا اور ان زبانوں میں کمال حاصل کیا۔

    نوح جو حضرت داغ دہلوی کے شاگرد تھے، اپنی شاعری میں اسی بانکپن اور بے باکی کے لیے پہچانے گئے جو داغ کا خاصہ تھا۔ حسن و عشق کے موضوعات کو انھوں نے خوب صورتی سے اپنے اشعار میں‌ برتا ہے۔

    10 اکتوبر 1962ء اردو زبان کے اس شاعر نے وفات پائی۔ ان کے چند اشعار ملاحظہ کیجیے۔

    محفل میں تیری آ کے یوں بے آبرو ہوئے
    پہلے تھے آپ، آپ سے تم، تم سے تُو ہوئے

    ہم انتظار کریں ہم کو اتنی تاب نہیں
    پلا دو تم ہمیں پانی اگر شراب نہیں

    اللہ رے ان کے حسن کی معجز نمائیاں
    جس بام پر وہ آئیں وہی کوہِ طور ہو

    ستیا ناس ہو گیا دل کا
    عشق نے خوب کی اکھاڑ پچھاڑ