Tag: 10 دسمبر وفات

  • جب دیوکا رانی کو اشوک کمار ملے!

    جب دیوکا رانی کو اشوک کمار ملے!

    ہندوستان کی فلم نگری میں اشوک کمار نے بہ طور اداکار ہی اپنی صلاحیتوں کو نہیں منوایا بلکہ فلم سازی، ہدایت کاری کے ساتھ ساتھ گلوکاری کا شوق بھی پورا کیا اور متعدد معتبر فلمی ایوارڈز اپنے نام کیے۔ اشوک کمار 10 دسمبر 2001ء کو ممبئی میں چل بسے تھے۔

    اشوک کمار نے فلموں کے علاوہ درجنوں بنگالی ڈراموں میں‌ بھی کام کیا تھا اور ہر میڈیم کے ناظرین میں مقبول تھے۔

    ممتاز افسانہ نگار سعادت حسن منٹو کا یہ مضمون اشوک کمار کے فلمی سفر اور ان کی شہرت و مقبولیت سے متعلق ہے جو قارئین کی دل چسپی کے لیے نقل کیا جارہا ہے۔

    منٹو لکھتے ہیں:

    نجمُ الحسن جب دیوکا رانی (اداکارہ) کو لے اڑا تو بومبے ٹاکیز میں افراتفری پھیل گئی۔ فلم کا آغاز ہو چکا تھا۔ چند مناظر کی شوٹنگ پایۂ تکمیل کو پہنچ چکی تھی کہ نجمُ الحسن اپنی ہیروئن کو سلولائڈ کی دنیا سے کھینچ کر حقیقت کی دنیا میں لے گیا۔

    بومبے ٹاکیز میں سب سے زیادہ پریشان اور متفکر شخص ہمانسو رائے تھا۔ دیوکا رانی کا شوہر اور بمبے ٹاکیز کا ’’دل و دماغِ پس پردہ۔‘‘

    ایس مکر جی مشہور جوبلی میکر فلم ساز (اشوک کمار کے بہنوئی) ان دنوں بمبے ٹاکیز میں مسٹر ساوک واچا ساؤنڈ انجینئر کے اسسٹنٹ تھے۔ صرف بنگالی ہونے کی وجہ سے انہیں ہمانسو رائے سے ہمدردی تھی۔ وہ چاہتے تھے کہ کسی نہ کسی طرح دیوکا رانی واپس آجائے۔ چنانچہ انہوں نے اپنے آقا ہمانسو رائے سے مشورہ کیے بغیر اپنے طور پر کوشش کی اور اپنی مخصوص حکمتِ عملی سے دیوکا رانی کو آمادہ کرلیا کہ وہ کلکتے میں اپنے عاشق نجمُ الحسن کی آغوش چھوڑ کر واپس بمبے ٹاکیز کی آغوش میں چلی آئے۔ جس میں اس کے جواہر کے پنپنے کی زیادہ گنجائش تھی۔

    دیوکا رانی واپس آگئی۔ ایس مکر جی نے اپنے جذباتی آقا ہمانسو رائے کو بھی اپنی حکمتِ عملی سے آمادہ کرلیا کہ وہ اسے قبول کر لیں، اور بے چارہ نجمُ الحسن ان عاشقوں کی فہرست میں داخل ہوگیا جن کو سیاسی، مذہبی اور سرمایہ دارانہ حکمتِ عملیوں نے اپنی محبوباؤں سے جدا کر دیا تھا۔ زیرِ تکمیل فلم سے نجمُ الحسن کو قینچی سے کاٹ کر ردی کی ٹوکری میں پھینک تو دیا گیا مگر اب یہ سوال درپیش تھا کہ عشق آشنا دیوکا رانی کے لیے سیلو لائڈ کا ہیرو کون ہو۔

    ہمانسو رائے ایک بے حد محنتی اور دوسروں سے الگ تھلگ رہ کر خاموشی سے اپنے کام میں شب و روز منہمک رہنے والے فلم ساز تھے۔ انہوں نے بمبے ٹاکیز کی نیو کچھ اس طرح ڈالی تھی کہ وہ ایک باوقار درس گاہ معلوم ہو۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے بمبئی شہر سے دور مضافات میں ایک گاؤں کو جس کا نام ’’ملاڈ‘‘ ہے اپنی فلم کمپنی کے لیے منتخب کیا تھا۔ وہ باہر کا آدمی نہیں چاہتے تھے۔ اس لیے کہ باہر کے آدمیوں کے متعلق ان کی رائے اچھی نہیں تھی۔ (نجمُ الحسن بھی باہر کا آدمی تھا)

    یہاں پھر ایس مکر جی نے اپنے جذباتی آقا کی مدد کی۔ ان کا سالا اشوک کمار بی ایس سی پاس کر کے ایک برس کلکتے میں وکالت پڑھنے کے بعد بمبے ٹاکیز کی لیبارٹری میں بغیر تنخواہ کے کام سیکھ رہا تھا۔ ناک نقشہ اچھا تھا۔ تھوڑا بہت گا بجا بھی لیتا تھا۔ مکر جی نے چنانچہ برسبیلِ تذکرہ ہیرو کے لیے اس کا نام لیا۔ ہمانسو رائے کی ساری زندگی تجربوں سے دو چار رہی تھی۔ انہوں نے کہا دیکھ لیتے ہیں۔

    جرمن کیمرہ مین درشنگ نے اشوک کا ٹیسٹ لیا۔ ہمانسو رائے نے دیکھا اور پاس کر دیا۔ جرمن فلم ڈائریکٹر فرانزاوسٹن کی رائے ان کے برعکس تھی۔ مگر بمبے ٹاکیز میں کس کی مجال کہ ہمانسو رائے کی رائے کے خلاف اظہارِ خیال کرسکے۔ چنانچہ اشوک کمار گانگولی جو ان دنوں بمشکل بائیس برس کا ہوگا، دیوکا رانی کا ہیرو منتخب ہوگیا۔

    ایک فلم بنا۔ دو فلم بنے۔ کئی فلم بنے اور دیوکا رانی اور اشوک کمار کا نہ جدا ہونے والا فلمی جوڑا بن گیا۔ ان فلموں میں سے اکثر بہت کام یاب ہوئے۔ گڑیا سی دیوکا رانی، اور بڑا ہی بے ضرر اشوک کمار، دونوں سیلو لائڈ پر شیر و شکر ہو کر آتے تو بہت ہی پیارے لگتے۔ معصوم ادائیں، الہڑ غمزے۔ بڑا ہنسائی قسم کا عشق۔

    لوگوں کو جارحانہ عشق کرنے اور دیکھنے کے شوق تھے۔ یہ نرم و نازک اور لچکیلا عشق بہت پسند آیا۔ خاص طور پر اس نئے فلمی جوڑے کے گرویدہ ہوگئے۔ اسکولوں اور کالجوں میں طالبات کا ( خصوصاً ان دنوں) آئیڈیل ہیرو اشوک کمار تھا اور کالجوں کے لڑکے لمبی اور کھلی آستینوں والے بنگالی کرتے پہن کر گاتے پھرتے تھے۔

    تُو بَن کی چڑیا، میں بَن کا پنچھی…. بَن بن بولوں رے

  • یومِ وفات: سیاست سے ادب تک شائستہ اکرامُ‌ اللہ کے سفرِ زیست پر ایک نظر

    یومِ وفات: سیاست سے ادب تک شائستہ اکرامُ‌ اللہ کے سفرِ زیست پر ایک نظر

    تحریکِ آزادی میں فعال کردار ادا کرنے والی شائستہ اکرامُ اللہ نے قیامِ‌ پاکستان کے بعد سفارت کار کے طور پر بھی ذمہ داریاں نبھائیں اور علم و ادب کے میدان میں اپنے زورِ قلم کے لیے بھی پہچانی گئیں۔

    وہ 22 جولائی 1915ء کو کلکتہ میں پیدا ہوئی تھیں۔ شائستہ اکرام اللہ کے والد حسّان سہروردی ہندوستان میں برطانوی وزیر کے مشیر تھے۔ ان کے شوہر اکرام اللہ قیامِ پاکستان کے بعد پاکستان کے سیکریٹری خارجہ کے عہدے پر فائز ہوئے۔ ان کی شادی 1932ء میں ہوئی تھی۔

    بیگم شائستہ اکرام اللہ لندن یونیورسٹی سے ناول نگاری کے موضوع پر پی ایچ ڈی کرنے والی پہلی ہندوستانی خاتون تھیں۔ وہ تقسیم سے قبل بنگال لیجسلیٹو اسمبلی کی رکن رہیں اور قیامِ پاکستان کے بعد یہاں پہلی دستور ساز اسمبلی کی رکن منتخب ہوئیں۔

    انھوں نے تقسیمِ ہند کے واقعات اور اس زمانے کی اپنی یادوں کو تحریری شکل بھی تھی جن میں حقائق بیان کرتے ہوئے انھوں نے بہت سے جذباتی پہلوؤں کا احاطہ کیا ہے۔

    بیگم شائستہ اکرام اللہ لکھتی ہیں کہ جب برصغیر کی تقسیم یقینی نظر آنے لگی تھی تو اس وقت مجھ سمیت لاکھوں لوگوں کا خیال تھا کہ دلّی اور مسلم کلچر تو ایک ہی حقیقت ہیں۔ دلّی کے بغیر پاکستان ایسے ہوگا جیسے دل کے بغیر جسم۔

    انھوں نے یادوں بھری اپنی کتاب میں‌ لکھا، ’’مسلم فنِ تعمیر سے بھرے پُرے شہر دلّی کو اس وقت کوئی بھی دیکھتا تو یہی کہتا کہ یہ تو مسلمانوں کا شہر ہے۔ لوگ کہتے تھے کہ مسلم ثقافت اگرچہ دلّی کے چپے چپے سے چھلک رہی ہے، مگر آبادی کے لحاظ سے مسلمان یہاں اقلیت میں ہیں، لیکن ایسا ہرگز بھی نہیں تھا، مردم شماری بھی کرائی جاتی تو دلّی ہمارا تھا، مگر پنجاب کو تقسیم کر کے ہماری مجموعی اکثریت کو اقلیت میں بدلا گیا اور یوں ہم دلّی ہار گئے اور آج دلّی کی مسجدیں غرناطہ اور قرطبہ کی طرح یہ کہ رہی ہیں کہ جن عرب وارثوں نے ہمیں تخلیق کیا تھا ہم ان کی عظمتَ رفتہ کی یاد دلانے والی علامتیں ہیں۔‘‘

    وہ شائستہ اختر سہروردی کے نام سے شادی سے پہلے افسانے لکھا کرتی تھیں جو اس وقت کے مشہور اور قابلِ ذکر ادبی پرچوں میں شایع ہوتے تھے۔ 1940ء میں وہ لندن یونیورسٹی کی پہلی ہندوستانی خاتون بنیں جس نے ناول نگاری کے موضوع پر پی ایچ ڈی کیا۔

    انھیں اقوامِ متحدہ میں پاکستان کی نمائندگی کرنے کا اعزاز حاصل ہوا جب کہ مراکش میں بحیثیت سفارت کار بھی خدمات انجام دیں۔

    بیگم شائستہ اکرام اللہ نے افسانوی ادب کو اپنا مجموعہ کوششِ ناتمام کے نام سے دیا، دلّی کی خواتین کی کہاوتیں اور محاورے، فرام پردہ ٹو پارلیمنٹ، لیٹرز ٹو نینا، اور دیگر کتب ان کے ادبی مشاغل کی یادگار ہیں۔

    بیگم شائستہ اکرام اللہ کو حکومتِ پاکستان کی جانب سے نشانِ امتیاز عطا کیا گیا تھا۔ انھوں نے 10 دسمبر 2000ء کو وفات پائی اور کراچی میں حضرت عبداللہ شاہ غازیؒ کے مزار کے احاطے میں پیوندِ خاک ہوئیں۔

  • گڑیا جیسی دیوکا رانی اور بڑے ہی بے ضرر اشوک کمار!

    گڑیا جیسی دیوکا رانی اور بڑے ہی بے ضرر اشوک کمار!

    اردو کے نام وَر افسانہ نگار سعادت حسن منٹو کی یہ تحریر اداکار اشوک کمار کے فلمی سفر اور ان کی شہرت و مقبولیت سے متعلق ہے۔ ہندوستان کی فلم نگری میں بہ طور اداکار اشوک کمار نے اپنی صلاحیتوں کو منوا کر متعدد اہم اور معتبر فلمی ایوارڈ اور حکومتی سطح پر بھی اعزازات اپنے نام کیے تھے۔

    اشوک کمار 13 اکتوبر، 1911ء کو بنگال میں پیدا ہوئے۔ انھیں دادا منی کے نام سے بھی پکارا جاتا تھا۔ اشوک کمار نے کئی فلموں اور بنگالی ڈراموں میں فنِ اداکاری کے جوہر دکھائے اور کام یابیاں‌ سمیٹیں۔ وہ 10 دسمبر 2001ء کو چل بسے تھے۔ ان کا انتقال ممبئی میں ہوا۔ سعادت حسن منٹو لکھتے ہیں:

    نجمُ الحسن جب دیوکا رانی کو لے اڑا تو بومبے ٹاکیز میں افراتفری پھیل گئی۔ فلم کا آغاز ہو چکا تھا۔ چند مناظر کی شوٹنگ پایۂ تکمیل کو پہنچ چکی تھی کہ نجمُ الحسن اپنی ہیروئن کو سلولائڈ کی دنیا سے کھینچ کر حقیقت کی دنیا میں لے گیا۔

    بومبے ٹاکیز میں سب سے زیادہ پریشان اور متفکر شخص ہمانسو رائے تھا۔ دیوکا رانی کا شوہر اور بمبے ٹاکیز کا ’’دل و دماغِ پس پردہ۔‘‘

    ایس مکر جی مشہور جوبلی میکر فلم ساز (اشوک کمار کے بہنوئی) ان دنوں بمبے ٹاکیز میں مسٹر ساوک واچا ساؤنڈ انجینئر کے اسسٹنٹ تھے۔ صرف بنگالی ہونے کی وجہ سے انہیں ہمانسو رائے سے ہمدردی تھی۔ وہ چاہتے تھے کہ کسی نہ کسی طرح دیوکا رانی واپس آجائے۔ چنانچہ انہوں نے اپنے آقا ہمانسو رائے سے مشورہ کیے بغیر اپنے طور پر کوشش کی اور اپنی مخصوص حکمتِ عملی سے دیوکا رانی کو آمادہ کرلیا کہ وہ کلکتے میں اپنے عاشق نجمُ الحسن کی آغوش چھوڑ کر واپس بمبے ٹاکیز کی آغوش میں چلی آئے۔ جس میں اس کے جواہر کے پنپنے کی زیادہ گنجائش تھی۔

    دیوکا رانی واپس آگئی۔ ایس مکر جی نے اپنے جذباتی آقا ہمانسو رائے کو بھی اپنی حکمتِ عملی سے آمادہ کرلیا کہ وہ اسے قبول کر لیں، اور بے چارہ نجمُ الحسن ان عاشقوں کی فہرست میں داخل ہوگیا جن کو سیاسی، مذہبی اور سرمایہ دارانہ حکمتِ عملیوں نے اپنی محبوباؤں سے جدا کر دیا تھا۔ زیرِ تکمیل فلم سے نجمُ الحسن کو قینچی سے کاٹ کر ردی کی ٹوکری میں پھینک تو دیا گیا مگر اب یہ سوال درپیش تھا کہ عشق آشنا دیوکا رانی کے لیے سیلو لائڈ کا ہیرو کون ہو۔

    ہمانسو رائے ایک بے حد محنتی اور دوسروں سے الگ تھلگ رہ کر خاموشی سے اپنے کام میں شب و روز منہمک رہنے والے فلم ساز تھے۔ انہوں نے بمبے ٹاکیز کی نیو کچھ اس طرح ڈالی تھی کہ وہ ایک باوقار درس گاہ معلوم ہو۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے بمبئی شہر سے دور مضافات میں ایک گاؤں کو جس کا نام ’’ملاڈ‘‘ ہے اپنی فلم کمپنی کے لیے منتخب کیا تھا۔ وہ باہر کا آدمی نہیں چاہتے تھے۔ اس لیے کہ باہر کے آدمیوں کے متعلق ان کی رائے اچھی نہیں تھی۔ (نجمُ الحسن بھی باہر کا آدمی تھا)

    یہاں پھر ایس مکر جی نے اپنے جذباتی آقا کی مدد کی۔ ان کا سالا اشوک کمار بی ایس سی پاس کر کے ایک برس کلکتے میں وکالت پڑھنے کے بعد بمبے ٹاکیز کی لیبارٹری میں بغیر تنخواہ کے کام سیکھ رہا تھا۔ ناک نقشہ اچھا تھا۔ تھوڑا بہت گا بجا بھی لیتا تھا۔ مکر جی نے چنانچہ برسبیلِ تذکرہ ہیرو کے لیے اس کا نام لیا۔ ہمانسو رائے کی ساری زندگی تجربوں سے دو چار رہی تھی۔ انہوں نے کہا دیکھ لیتے ہیں۔

    جرمن کیمرہ مین درشنگ نے اشوک کا ٹیسٹ لیا۔ ہمانسو رائے نے دیکھا اور پاس کردیا۔ جرمن فلم ڈائریکٹر فرانزاوسٹن کی رائے ان کے برعکس تھی۔ مگر بمبے ٹاکیز میں کس کی مجال کہ ہمانسو رائے کی رائے کے خلاف اظہارِ خیال کرسکے۔ چنانچہ اشوک کمار گانگولی جو ان دنوں بمشکل بائیس برس کا ہوگا، دیوکا رانی کا ہیرو منتخب ہوگیا۔

    ایک فلم بنا۔ دو فلم بنے۔ کئی فلم بنے اور دیوکا رانی اور اشوک کمار کا نہ جدا ہونے والا فلمی جوڑا بن گیا۔ ان فلموں میں سے اکثر بہت کام یاب ہوئے۔ گڑیا سی دیوکا رانی، اور بڑا ہی بے ضرر اشوک کمار، دونوں سیلو لائڈ پر شیر و شکر ہو کر آتے تو بہت ہی پیارے لگتے۔ معصوم ادائیں، الہڑ غمزے۔ بڑا ہنسائی قسم کا عشق۔

    لوگوں کو جارحانہ عشق کرنے اور دیکھنے کے شوق تھے۔ یہ نرم و نازک اور لچکیلا عشق بہت پسند آیا۔ خاص طور پر اس نئے فلمی جوڑے کے گرویدہ ہوگئے۔ اسکولوں اور کالجوں میں طالبات کا ( خصوصاً ان دنوں) آئیڈیل ہیرو اشوک کمار تھا اور کالجوں کے لڑکے لمبی اور کھلی آستینوں والے بنگالی کرتے پہن کر گاتے پھرتے تھے۔

    تُو بَن کی چڑیا، میں بَن کا پنچھی…. بَن بن بولوں رے