Tag: 10 ستمبر وفات

  • یگانہ صفت خطّاط اور ماہر خوش نویس محمد یوسف سدیدی کی برسی

    یگانہ صفت خطّاط اور ماہر خوش نویس محمد یوسف سدیدی کی برسی

    حافظ محمد یوسف سدیدی پاکستان کے مایہ ناز خطّاط تھے جن کا آج یومِ وفات ہے۔ ماہر خوش نویس اور یگانہ صفت خطّاط 1986ء میں دارِ فانی سے کوچ کرگئے تھے۔

    وہ عبد المجید زرّیں رقم، حامد الآمدی اور ہاشم بغدادی جیسے استاد اور باکمال خطّاط کے سے متاثر تھے۔ انھوں نے تاج الدین زرّیں رقم اور منشی محمد شریف لدھیانوی جیسے خوش نویسوں کی شاگردی اختیار کی اور فنِ خطّاطی میں نام و مقام اور عزّت و مرتبہ پایا۔ کئی مشہور عمارتیں ان کے خطّاطی کے نمونوں سے مزیّن ہیں۔

    حافظ یوسف سدیدی نے 1927ء میں اس دنیا میں آنکھ کھولی۔ ان کا تعلق چکوال، ضلع جہلم کے ایک گاؤں بھون سے تھا۔ وہ ایک دینی گھرانے سے تعلق رکھتے تھے اور ابتدائی عمر میں ہی قرآن مجید حفظ کرلیا۔ اسی عرصے میں خطّاطی سے رغبت پیدا ہوئی اور اس فن کو باقاعدہ سیکھنے کا آغاز کیا۔ انھیں خطِ نستعلیق کے علاوہ ثلث، نسخ، دیوانی اور کوفی میں بھی اختصاص حاصل تھا۔ تاہم جدّت طبع نے انھیں‌ ہر خط میں انفرادیت لانے پر آمادہ کیا اور وہ اپنے الگ انداز کے لیے پہچانے گئے۔

    حافظ محمد یوسف سدیدی نے مزارِ اقبال، مینارِ پاکستان، مسجدِ شہدا اور قطب الدین ایبک کے مزار پر اپنے فن کے جوہر دکھائے۔ انھوں نے کئی کتابوں کے سرورق اور سرکاری دستاویزات کے لیے بھی اپنی فنی مہارت کا اظہار کیا۔

    وہ اپنے فن ہی نہیں سادگی، خوش مزاجی اور فقیرانہ طرز کے لیے بھی مشہور تھے۔ انھیں ساندہ کلاں لاہور کے ایک قبرستان میں سپردِ خاک کیا گیا۔

  • انگریزی زبان کی معروف ادیب، شاعر اور صحافی زیبُ النسا حمیدُ اللہ کی برسی

    انگریزی زبان کی معروف ادیب، شاعر اور صحافی زیبُ النسا حمیدُ اللہ کی برسی

    ادب اور صحافت میں زیبُ النسا حمیدُ اللہ صرف اسی لیے ممتاز نہیں کہ انھوں نے اپنے دور میں تخلیقِ ادب اور کارِ صحافت کے لیے انگریزی زبان کا انتخاب کیا جو دنیا میں سب سے زیادہ بولی اور پڑھی جاتی ہے بلکہ انھوں نے اس زبان میں اپنی جان دار تخلیقات اور شان دار صحافت کے سبب نام و مقام بنایا تھا۔

    وہ انگریزی زبان کی معروف ادیب، شاعر اور صحافی تھیں۔ انھوں نے کراچی سے انگریزی جریدے دی مرر کا اجرا کیا اور پہلی خاتون مدیر رہیں۔

    آج زیبُ النسا حمید اللہ کی برسی ہے۔ وہ سن 2000ء میں آج ہی کے دن دنیا سے رخصت ہوگئی تھیں۔

    کلکتہ ان کا وطن تھا جہاں وہ 25 دسمبر 1921ء کو پیدا ہوئیں۔ تقسیمِ ہند کے بعد انھوں نے پاکستان ہجرت کی۔ وہ اعلیٰ تعلیم یافتہ اور نہایت زرخیز ذہن کی مالک تھیں۔ انھوں نے اکتوبر 1951ء میں انگریزی جریدے دی مرر کا اجرا کیا۔ کراچی سے شایع ہونے والا یہ جریدہ اپنی معیاری تحریروں، مفید اور معلوماتی مضامین کی وجہ سے پاکستان بھر میں‌ مقبول ہوا۔ اس کی اشاعت کا سلسلہ 1972ء تک جاری رہا۔

    تقسیمِ ہند سے قبل ہی زیبُ النسا حمید اللہ مختلف ہندوستانی اخبار و جرائد میں اپنے مضامین کی وجہ سے پہچان بنا چکی تھیں۔ انھیں پہلی مسلمان کالم نویس بھی کہا جاتا ہے۔

    پاکستان میں اعلیٰ تعلیم یافتہ گھرانوں اور انگریزی زبان و ادب کے قارئین میں‌ ان کی ادبی اور سماجی موضوعات پر تحریروں کے علاوہ شایع ہونے والے سیاسی کالم بہت مقبول ہوئے۔

    ان کے شعری مجموعے The Lotus Leaves اور The Flute of Memory کے نام سے شایع ہوئے۔

  • یومِ وفات: جھارا پہلوان کی زندگی حسد اور انتقام کے آگ میں جھونک دی گئی

    یومِ وفات: جھارا پہلوان کی زندگی حسد اور انتقام کے آگ میں جھونک دی گئی

    محمد زبیر المعروف جھارا پہلوان 1991ء میں آج کے دن وفات پاگئے تھے۔ جھارا پہلوان نے اپنی زندگی میں لگ بھگ 60 کشتیاں لڑیں اور ہر مقابلے کے فاتح رہے۔ انھیں فخرِ پاکستان اور رستمِ پاکستان کے خطابات سے نوازا گیا تھا۔

    کشتی یا پہلوانی برصغیر کا ایک مقبول کھیل رہا ہے اور اسے صرف ایک کھیل نہیں بلکہ جسمانی نشوونما اور طاقت کا ذریعہ اور ایک نہایت مفید اور مثبت سرگرمی تصوّر کیا جاتا ہے۔ اس کھیل میں پاکستان کی پہچان بننے والے محمد زبیر کو جھارا پہلوان کے نام سے شہرت ملی۔

    وہ 1960ء میں ایک ایسے گھرانے میں پیدا ہوئے تھے جو پہلوانی اور اکھاڑے میں‌ اترنے کے لیے مشہور تھا۔ وہ اسلم پہلوان کے بیٹے، مشہور بھولو پہلوان کے بھتیجے اور امام بخش پہلوان کے پوتے اور گاما کلو والا پہلوان کے نواسے تھے۔

    27 جنوری 1978ء کو پہلا مقابلہ کرنے کے لیے اکھاڑے میں اترنے والے جھارا نے گوگا پہلوان کو چت کرکے فتح اپنے نام کی تھی۔ اگلے برس 1979ء جاپان کے مشہور پہلوان انوکی کے ساتھ مقابلہ کیا اور اس کشتی کے پانچویں راؤنڈ کے بعد جاپانی پہلوان نے جھارا کے ہاتھ اوپر اٹھا کر اسے مقابلے کا فاتح قرار دے دیا تھا۔

    جھارا پہلوان نے 60 کے قریب مقابلوں میں‌ حصّہ لیا اور ہر بار فتح اپنے نام کی۔ بدقسمتی سے کچھ لوگ جھارا کی کام یابیوں سے حسد کرنے لگے تھے اور انھوں نے ایک سازش کے تحت اس پہلوان کو منشیات کے استعمال کا عادی بنا دیا۔ یوں نہایت کم عمری میں جھارا نے اپنی زندگی گنوا دی۔ وہ صرف 31 سال کی عمر میں دنیا سے رخصت ہوگئے۔

  • یومِ وفات: کنور آفتاب کا نام پاکستان ٹیلی وژن کے معماروں میں شامل ہے

    یومِ وفات: کنور آفتاب کا نام پاکستان ٹیلی وژن کے معماروں میں شامل ہے

    آج کنور آفتاب احمد کا یومِ وفات ہے۔ وہ پاکستان ٹیلی وژن کے معماروں میں سے ایک ہیں۔ سن 2010ء میں آج ہی کے دن کنور آفتاب دنیا سے رخصت ہوگئے تھے۔

    کنور آفتاب 28 جولائی 1929ء کو مشرقی پنجاب میں پیدا ہوئے۔ گارڈن کالج راولپنڈی سے فارغ التحصیل ہونے کے بعد انھوں نے پنجاب یونیورسٹی لا کالج سے ایل ایل بی کی ڈگری حاصل کی۔ والد انھیں وکیل بنانا چاہتے تھے، لیکن کنور آفتاب نے لندن جا کر فلم سازی کی تربیت حاصل کی اور چار برس کے بعد وطن لوٹے تو بطور ڈائریکٹر، پروڈیوسر اپنی پہلی فلم ’جھلک‘ تیّار کی۔ یہ روایتی اور عام ڈگر سے ہٹ کر فلم تھی جو باکس آفس پہ کامیاب نہ ہوسکی۔

    کنور آفتاب نے فلم کی ناکامی کے بعد 1964ء میں ٹیلی وژن سے وابستگی اختیار کی۔ انھوں نے فلم سازی کی تعلیم اور تربیت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنی صلاحیتوں کو ٹیلی ویژن کے لیے آزمایا اور اسلم اظہر، آغا ناصر اور فضل کمال جیسی شخصیات کے ساتھ اردو ڈراما کو بامِ عروج دیا۔

    کنور آفتاب کے مشہور ٹیلی وژن ڈراموں میں نئی منزلیں نئے راستے، زندگی اے زندگی، منٹو راما اور شہ زوری سرِفہرست ہیں۔ انفرادی کاوشوں‌ میں‌ ان کے ڈرامے نجات، یا نصیب کلینک، سونے کی چڑیا، اور نشان حیدر سیریز کا ڈراما کیپٹن سرور شہید قابلِ ذکر ہیں۔

    انھوں نے دستاویزی پروگرام بھی تیار کیے۔ سیالکوٹ کی فٹ بال انڈسٹری پر ان کی بنائی ہوئی فلم کو بین الاقوامی فلمی میلوں میں ایوارڈ دیے گئے۔

    کنور آفتاب لاہور کے ایک قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔