Tag: 10 فروری وفات

  • ہر دل عزیز فاطمہ ثریا بجیا کا تذکرہ جو آج ہی کے دن ہم سے جدا ہوگئی تھیں

    ہر دل عزیز فاطمہ ثریا بجیا کا تذکرہ جو آج ہی کے دن ہم سے جدا ہوگئی تھیں

    ’’بجیا‘‘ سب کے لیے محترم اور سب کی نظر میں‌ شفیق و مہربان ہستی تھیں۔ فاطمہ ثرّیا کے نام سے بجیا کا لفظ ایسا جڑا کہ ہر چھوٹا بڑا انھیں عزّت و احترام سے بجیا پکارتا تھا۔

    وہ برصغیر کی مسلم تہذیب کا نمونہ تھیں‌۔ شائستہ آداب، نرم گفتار، منکسرُ المزاج، مہذّب اور مہربان بجیا کا تعلق بھی ہندوستان کے ایک علمی و ادبی گھرانے سے تھا۔ بجیا نے 10 فروری 2016ء کو وفات پائی۔ آج ان کی برسی ہے۔

    تہذیب و روایت کی روشن مثال، اردو ڈرامے کی آبرو، ہر دل عزیز فاطمہ ثریا بجیا یکم ستمبر 1930ء کو حیدرآباد دکن میں پیدا ہوئی تھیں۔ 1948ء میں ان کا خاندان ہجرت کرکے کراچی آگیا تھا۔ بجیا اور ان کے بہن بھائی پاکستان میں‌ علم و ادب اور فنونِ لطیفہ کے مختلف شعبوں سے وابستہ ہوئے اور خوب نام و مقام بنایا۔ انور مقصود، زہرہ نگاہ اور زبیدہ طارق (زبیدہ آپا) سے کون واقف نہیں۔ بجیا انہی بہن بھائیوں میں سب سے بڑی تھیں۔ وہ کبھی اسکول نہیں‌ گئیں اور باقاعدہ تعلیم حاصل نہیں‌ کی، لیکن اردو زبان و ادب کو کہانی اور ڈراما نگاری کے ذریعے فاطمہ ثریا بجیا نے مشرقی تہذیب و اقدار کے حوالے سے عدیمُ النّظیر اور لازوال تخلیقات سے مالا مال کیا۔

    بجیا نے پاکستان ٹیلی ویژن کے ناظرین کو مشترکہ خاندانی نظام کی افادیت، رشتوں ناتوں کی بہار، پیار و محبت اور آپس میں اتحاد و اتفاق سے رہنے کی اہمیت اور اس کے فوائد سے یوں آشنا کیا کہ ان کے تحریر کردہ ڈراموں‌ کو کردار سازی اور تربیت کے حوالے سے اہمیت حاصل ہوئی۔

    فاطمہ ثریا بجیا کے شہرۂ آفاق اور مقبول ترین ڈراموں میں ’شمع‘،’افشاں‘،’عروسہ‘ اور ’زینت‘ شامل ہیں۔ بجیا نے اپنی اے آر خاتون اور زبیدہ خاتون کے ناولوں سے ماخوذ ڈرامے بھی تحریر کیے جنھیں بہت پسند کیا گیا۔ ان کے ڈراموں کا جوہر تہذیب و تمدن کا درس تھا۔ 60ء اور70ء کی دہائی اور اس کے بعد بجیا کے تحریر کردہ ڈراموں میں ’اساوری‘،’گھر ایک نگر‘، ’آگہی‘، ’انا‘، ’کرنیں‘،’بابر‘،’تصویرِ کائنات‘،’سسّی پنوں‘، ’انار کلی‘ اور بچوں کے پروگرام بھی شامل ہیں۔

    ان کی سوانحِ عمری ’’برصغیر کی عظیم ڈرامہ نویس فاطمہ ثریا بجیا کی کہانی‘‘ کے عنوان سے 2012ء میں شائع ہوئی۔

    حکومت پاکستان نے 1997ء میں ان کی ادبی خدمات کے اعتراف میں تمغۂ حسنِ کارکردگی اور 2012ء میں ’’ہلالِ امتیاز‘‘ سے نوازا تھا۔ بجیا نے کئی قومی اور بین الاقوامی اعزازات اپنے نام کیے جن میں جاپان کا شاہی ایوارڈ بھی شامل ہے۔

    انھوں‌ نے کینسر کے موذی مرض کے باعث 86 سال کی عمر میں وفات پائی۔

  • جمال احسانی: ایک منفرد غزل گو شاعر

    جمال احسانی: ایک منفرد غزل گو شاعر

    جمال احسانی نے محبّت کرنے والوں کو ایک نیا راستہ یوں دکھایا تھا۔

    یاد رکھنا ہی محبّت میں نہیں ہے سب کچھ
    بھول جانا بھی بڑی بات ہوا کرتی ہے

    جذبات اور احساسات کی شدّت کے ساتھ اردو غزل کے روایتی موضوعات کو خوب صورت تشبیہات اور استعارے سے سجاتے ہوئے تازگی عطا کرنے والے ممتاز شاعر جمال احسانی کی آج برسی منائی جارہی ہے۔ وہ 10 فروری 1998ء کو دارِ بقا کو لوٹ گئے تھے۔

    جمال احسانی کا خاندانی نام محمد جمال عثمانی تھا اور ان کا تخلّص جمال۔ شعروادب کی دنیا میں انھیں‌ جمال احسانی کے نام سے شہرت اور مقام بھی ملا۔ 1951ء کو سرگودھا میں پیدا ہونے والے جمال احسانی کا تعلق متحدہ ہندوستان کے شہر پانی پت سے تھا جو تاریخی اعتبار سے اہمیت کا حامل اور مشہور علاقہ ہے۔ جمال احسانی نے بی اے تک تعلیم حاصل کی اور کراچی میں محکمۂ اطلاعات و نشریات میں‌ ملازمت اختیار کرلی۔ اس وقت تک ان کے ادبی اور تخلیقی سفر کا آغاز ہوچکا تھا۔ صحافت بھی جمال احسانی کا ایک حوالہ ہے کیوں کہ وہ روزنامہ’’حریت‘، روزنامہ’’سویرا‘‘ اور ’’اظہار‘‘ کراچی سے بھی وابستہ رہے۔ ان روزناموں‌ میں انھوں نے معاون مدیر کی حیثیت سے خدمات انجام دیں۔ جمال احسانی نے ایک ادبی پرچہ بھی نکالا تھا۔

    1970ء کی دہائی میں جمال احسانی نے اپنی تخلیقات کی وجہ سے پہچان حاصل کرنا شروع کی اور جلد ان کا شمار اہم غزل گو شعرا میں ہونے لگا۔ ان کا ایک مشہور شعر ملاحظہ کیجیے:

    چراغ سامنے والے مکان میں بھی نہ تھا
    یہ سانحہ مرے وہم و گمان میں بھی نہ تھا

    ان کے شعری مجموعوں میں ستارۂ سفر، رات کے جاگے ہوئے اور تارے کو مہتاب کیا شامل ہیں۔ جمال احسانی کی یہ غزل دیکھیے:

    وہ لوگ میرے بہت پیار کرنے والے تھے
    گزر گئے ہیں جو موسم گزرنے والے تھے

    نئی رتوں میں دکھوں کے بھی سلسلے ہیں نئے
    وہ زخم تازہ ہوئے ہیں جو بھرنے والے تھے

    یہ کس مقام پہ سوجھی تجھے بچھڑنے کی
    کہ اب تو جا کے کہیں دن سنورنے والے تھے

    ہزار مجھ سے وہ پیمانِ وصل کرتا رہا
    پر اس کے طور طریقے مکرنے والے تھے

    تمہیں تو فخر تھا شیرازہ بندیٔ جاں پر
    ہمارا کیا ہے کہ ہم تو بکھرنے والے تھے

    تمام رات نہایا تھا شہر بارش میں
    وہ رنگ اتر ہی گئے جو اترنے والے تھے

    اس ایک چھوٹے سے قصبے پہ ریل ٹھہری نہیں
    وہاں بھی چند مسافر اترنے والے تھے

  • مصوّری اور اسلامی خطّاطی میں شہرت کے ہفت خواں طے کرنے والے صادقین کی برسی

    مصوّری اور اسلامی خطّاطی میں شہرت کے ہفت خواں طے کرنے والے صادقین کی برسی

    مصوّری میں مہارتِ تامّہ اور اسلامی خطّاطی میں مجتہدانہ اسلوب کے ساتھ صادقین شہرۂ آفاق فن کاروں کی صف میں‌ کھڑے نظر آتے ہیں۔ وہ ایسے فن کار تھے جن کی تخلیقات اور فن پاروں کو پرت در پرت سمجھنے کی کوشش میں معنی و مفاہیم کی ایک نئی دنیا دریافت ہوتی ہے۔

    آج اس عالمی شہرت یافتہ مصوّر، خطّاط اور نقّاش کا یومِ وفات ہے۔ 10 فروری 1987ء کو صادقین نے اس دارِ فانی سے کوچ کیا تھا۔ امروہہ سے تعلق رکھنے والے اس باکمال مصوّر کا پورا نام سید صادقین حسین نقوی تھا۔ وہ 20 جون 1930ء کو پیدا ہوئے۔ 1943ء میں میٹرک اور بعد میں‌ انٹر کا امتحان بھی امروہہ سے پاس کیا۔ 1948ء میں‌ آگرہ یونی ورسٹی سے بی اے کی سند حاصل کی۔ اور اس کے ساتھ ہی ہجرت کرکے پاکستان آگئے۔

    انھوں نے 1944 سے 46ء تک آل انڈیا ریڈیو میں اسٹاف آرٹسٹ کی حیثیت سے کام کیا اور 1946ء میں امام المدارس انٹر کالج میں آرٹ ٹیچر کے طور پر تدریس کا فریضہ بھی انجام دینے لگے۔ اس وقت تک صادقین اپنے اساتذہ اور طالبِ علم ساتھیوں میں ایک مصوّر اور شاعر کے طور پر متعارف ہوچکے تھے۔ تقسیم کے بعد پاکستان کے شہر کراچی میں‌ قیام کے بعد انھیں‌ نئے سرے سے زندگی کے لیے بھاگ دوڑ کرنا پڑی۔ یہاں بھی جلد ہی وہ اپنی مصوّری اور خطّاطی کے حوالے سے پہچان بنانے میں کام یاب ہوگئے۔ کم عمری ہی سے صادقین کو منظر کشی پسند تھی۔ سو، گھر کی دیواروں پر نقش و نگار بناتے اور اس پر ڈانٹ اور مار بھی کھائی، لیکن اپنے شوق کی دیواروں پر مشق کا یہ سلسلہ رائیگاں نہ گیا اور بعد کے برسوں میں‌ یہی ان کا فن ٹھیرا۔ صادقین 24 سال کے تھے جب ان کے فن پاروں‌ کی پہلی نمائش ہوئی۔

    پاکستان آنے کے بعد ان کی اصل شہرت کا آغاز میورلز سے ہوا جو انھوں نے کراچی ایئر پورٹ، سینٹرل ایکسائز لینڈ اینڈ کسٹمز کلب، سروسز کلب اور اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی لائبریری میں بنائیں۔ لاہور کے عجائب گھر کی چھت بھی صادقین کی لازوال مصوّری کا نمونہ ہے۔

    صادقین نے مصوّری اور خطاّطی دونوں‌ اصناف میں اپنے فن و کمال کے اظہار کی بالکل نئی راہ نکالی کی۔ رفتہ رفتہ لوگ ان کے نام اور کام سے واقف ہوتے چلے گئے۔ 1950ء کی دہائی کے وسط سے انفرادی نمائشوں کا سلسلہ شروع کیا اور ساٹھ کے عشرے میں صادقین کی شہرت مغرب تک پہنچ گئی۔ ان کا کام دنیا بھر میں فائن آرٹس کے ناقدین کی نظر میں‌ آیا اور انھیں خوب سراہا گیا۔ وہ پیرس بھی گئے جہاں اپنے فن پارے نمائش کے لیے پیش کیے اور ناقدین و شائقین سے داد وصول کی۔

    1969ء میں غالب کی صد سالہ برسی کے موقع پر صادقین نے کلامِ غالب کو مصورانہ کمال کے ساتھ نہایت خوب صورتی سے پیش کیا۔ یہ کسی مصّور کی پہلی اور نہایت خوب صورت کاوش تھی جس نے سبھی کی توجہ حاصل کی۔ 1970ء میں صادقین نے سورۂ رحمٰن کی آیات کو مصوّرانہ خطّاطی میں یوں نمایاں‌ کیا کہ دیکھنے والے داد دیے بغیر نہ رہ سکے۔

    صادقین کے فن پاروں کی دنیا بھر میں‌ نمائش ہوئی۔ ان کی مصوّری اور خطّاطی کے نمونے آج بھی بڑی گیلریوں کا حصّہ ہیں۔ 1986ء میں انھوں نے کراچی کے جناح ہال کو اپنی مصوری سے آراستہ کرنے کا آغاز کیا تھا، لیکن اجل نے اسے پایۂ تکمیل کو پہنچانے کی مہلت نہ دی۔

    وہ ایک بہت اچھے شاعر بھی تھے۔ رباعی ان کی محبوب صنفِ سخن تھی۔ ان کی کئی رباعیاں مشہور ہوئیں اور صادقین نے اپنا کلام بھی مصوّرانہ انداز میں‌ کینوس پر اتارا۔

    حکومتِ پاکستان کی جانب سے صادقین کو صدارتی تمغہ برائے حسنِ کارکردگی عطا کیا گیا تھا۔ یہ نابغۂ روزگار مصوّر کراچی میں سخی حسن کے قبرستان میں آسودۂ خاک ہے۔

  • تارے کو مہتاب کرنے والے جمال احسانی کی برسی

    تارے کو مہتاب کرنے والے جمال احسانی کی برسی

    آج اردو زبان کے ممتاز غزل گو شاعر جمال احسانی کی برسی ہے۔ وہ 10 فروری 1998ء کو وفات پاگئے تھے۔

    جمال احسانی کا خاندانی نام محمد جمال عثمانی تھا، انھوں نے تخلّص جمال اختیار کیا۔ 1951ء کو سرگودھا میں پیدا ہونے والے جمال احسانی کا خاندان پانی پت کا تھا۔ جمال احسانی نے بی اے تک تعلیم حاصل کرنے کے بعد کراچی میں محکمۂ اطلاعات و نشریات میں‌ ملازمت اختیار کرلی۔ وہ روزنامہ’’حریت‘، روزنامہ’’سویرا‘‘ اور ’’اظہار‘‘ کراچی سے بھی وابستہ رہے جہاں انھوں نے معاون مدیر کی حیثیت سے خدمات انجام دیں۔ جمال احسانی نے ایک ادبی پرچہ بھی نکالا تھا۔

    1970ء کی دہائی میں شاعری کا آغاز کرنے والے جمال احسانی بہت جلد اہم غزل گو شعرا میں شمار ہونے لگے تھے۔ ان کا یہ شعر بہت مشہور ہے:

    چراغ سامنے والے مکان میں بھی نہ تھا
    یہ سانحہ مرے وہم و گمان میں بھی نہ تھا

    ان کے شعری مجموعوں میں ستارۂ سفر، رات کے جاگے ہوئے اور تارے کو مہتاب کیا شامل ہیں۔ جمال احسانی کی یہ غزل دیکھیے:

    وہ لوگ میرے بہت پیار کرنے والے تھے
    گزر گئے ہیں جو موسم گزرنے والے تھے

    نئی رتوں میں دکھوں کے بھی سلسلے ہیں نئے
    وہ زخم تازہ ہوئے ہیں جو بھرنے والے تھے

    یہ کس مقام پہ سوجھی تجھے بچھڑنے کی
    کہ اب تو جا کے کہیں دن سنورنے والے تھے

    ہزار مجھ سے وہ پیمانِ وصل کرتا رہا
    پر اس کے طور طریقے مکرنے والے تھے

    تمہیں تو فخر تھا شیرازہ بندیٔ جاں پر
    ہمارا کیا ہے کہ ہم تو بکھرنے والے تھے

    تمام رات نہایا تھا شہر بارش میں
    وہ رنگ اتر ہی گئے جو اترنے والے تھے

    اس ایک چھوٹے سے قصبے پہ ریل ٹھہری نہیں
    وہاں بھی چند مسافر اترنے والے تھے

  • شہرہ آفاق مصوّر اور خطاط صادقین کی برسی

    شہرہ آفاق مصوّر اور خطاط صادقین کی برسی

    آج شہرہ آفاق مصوّر، خطاط اور نقّاش صادقین کا یومِ وفات ہے، وہ 10 فروری 1987ء کو اس دارِ فانی سے رخصت ہوگئے تھے۔ امروہہ سے تعلق رکھنے والے اس باکمال مصوّر کا پورا نام سید صادقین حسین نقوی تھا جنھیں فن کی دنیا میں‌ صادقین کے نام سے دنیا بھر میں‌ شہرت ملی۔

    20 جون 1930ء کو پیدا ہونے والے صادقین 1948ء میں آگرہ یونیورسٹی سے گریجویشن کرنے کے بعد ہجرت کرکے پاکستان آگئے تھے۔ یہاں وہ اپنی مصوّری اور خطّاطی کے لیے پہچان بنانے لگے۔ ان کی اصل شہرت کا آغاز میورلز سے ہوا جو انھوں نے کراچی ایرپورٹ، سینٹرل ایکسائز لینڈ اینڈ کسٹمز کلب، سروسز کلب اور اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی لائبریری میں بنائیں۔

    کچھ عرصے کے بعد وہ پیرس چلے گئے جہاں اپنے فن کے نمونے پیش کیے اور ناقدین و شائقین سے داد وصول کی۔ انھوں نے اپنے فن پاروں پر کئی بین الاقوامی اعزازات اپنے نام کیے۔

    1969ء میں غالب کی صد سالہ برسی کے موقع پر صادقین نے کلامِ غالب کو مصورانہ کمال کے ساتھ نہایت خوب صورتی سے پیش کیا۔ 1970ء میں صادقین نے سورۂ رحمٰن کی آیات کو مصورانہ خطاطی میں یوں نمایاں‌ کیا کہ دیکھنے والے داد دیے بغیر نہ رہ سکے۔ یوں انھوں نے اسلامی خطاطی میں ایک نئے طرز کی بنیاد ڈالی۔ لاہور کے عجائب گھر کی چھت بھی صادقین کی لازوال مصوّری کا نمونہ ہے۔

    کم عمری ہی سے صادقین کو منظر کشی پسند تھی۔ سو، گھر کی دیواروں نے اس شوق کی مشق میں‌ ان کا خوب ساتھ دیا، وہ ان پر نقش و نگار بناتے رہے اور پھر یہی ان کا فن ٹھیرا۔ صادقین 24 سال کے تھے جب ان کے فن پاروں‌ کی پہلی نمائش ہوئی۔

    صادقین کے فن پاروں کی دنیا بھر میں‌ نمائش ہوئی اور ان کی مصوری اور خطاطی کے نمونے گیلریز کا حصّہ بنے۔ 1986ء میں کراچی کے جناح ہال کو اپنی مصوری سے آراستہ کرنے کا آغاز کیا تھا، لیکن ان کی اچانک موت کی وجہ سے یہ کام مکمل نہ ہوسکا۔

    صادقین ایک بہت اچھے شاعر بھی تھے اور رباعی ان کی محبوب صنف تھی۔ صادقین نے اپنی شاعری کو بھی مصورانہ انداز میں‌ پیش کیا ہے۔

    حکومتِ پاکستان کی جانب سے انھیں صدارتی تمغہ برائے حسنِ کارکردگی عطا کیا گیا تھا۔ وہ کراچی میں سخی حسن کے قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔

  • برصغیر کی عظیم ڈراما نویس فاطمہ ثریا بجیا کی برسی

    برصغیر کی عظیم ڈراما نویس فاطمہ ثریا بجیا کی برسی

    10 فروری 2016ء کو تہذیب و روایت کی روشن مثال، اردو ڈرامے کی آبرو، ہر دل عزیز فاطمہ ثریا بجیا اس دنیا سے ہمیشہ کے لیے رخصت ہوگئی تھیں۔ آج ان کی پانچویں برسی ہے۔

    فاطمہ ثریا بجیا کا تعلق ایک تعلیم یافتہ اور علمی و ادبی گھرانے سے تھا۔ وہ یکم ستمبر 1930ء کو حیدرآباد دکن میں پیدا ہوئی تھیں اور 1948ء میں ان کا خاندان ہجرت کرکے کراچی آبسا تھا۔ ان کا پورا گھرانہ علم و ادب اور فنونِ لطیفہ کے مختلف شعبوں سے وابستہ ہے۔ انور مقصود، زہرہ نگاہ اور زبیدہ طارق (زبیدہ آپا) سے کون واقف نہیں۔ بجیا اسی گھرانے کے دس بہن بھائیوں میں سب سے بڑی تھیں۔ وہ کبھی اسکول نہیں‌ گئیں اور باقاعدہ تعلیم حاصل نہیں‌ کی، لیکن اردو زبان و ادب کو کہانی اور ڈراما نگاری کے ذریعے فاطمہ ثریا بجیا نے مشرقی تہذیب و اقدار کے حوالے سے عدیمُ النّظیر اور لازوال تخلیقات سے مالا مال کیا۔

    بجیا نے پاکستان ٹیلی ویژن کے ناظرین کو مشترکہ خاندانی نظام کی افادیت، رشتوں ناتوں کی بہار، پیار و محبت اور آپس میں اتحاد و اتفاق سے رہنے کی اہمیت اور اس کے فوائد سے یوں آشنا کیا کہ آج بھی ان کے تحریر کردہ ڈرامے بلاامتیازِ جنس و طبقہ شخصیت سازی میں اہم کردار ادا کرسکتے ہیں۔

    فاطمہ ثریا بجیا کے شہرہ آفاق اور مقبول ترین ڈراموں میں ’شمع‘،’افشاں‘،’عروسہ‘ اور ’زینت‘ شامل جیسے ڈرامے شامل ہیں۔ بجیا نے اپنی فنّی مہارت سے اے آر خاتون اور زبیدہ خاتون کے ناولوں سے ماخوذ ڈرامے لکھے جنھیں بہت پسند کیا گیا۔ ان کے ڈراموں کا جوہر تہذیب و تمدن کا درس تھا۔ 60ء اور70ء کی دہائی اور اس کے بعد بجیا کے تحریر کردہ ڈراموں میں ’اساوری‘،’گھر ایک نگر‘، ’آگہی‘، ’انا‘، ’کرنیں‘،’بابر‘،’تصویرِ کائنات‘،’سسّی پنوں‘، ’انار کلی‘ اور بچوں کے پروگرام بھی شامل ہیں۔

    ان کی سوانحِ عمری ’’برصغیر کی عظیم ڈرامہ نویس فاطمہ ثریا بجیا کی کہانی‘‘ کے عنوان سے 2012ء میں شائع ہوئی۔

    حکومت پاکستان نے 1997ء میں ان کی ادبی خدمات کے اعتراف میں تمغۂ حسنِ کارکردگی اور 2012ء میں ’’ہلالِ امتیاز‘‘ سے نوازا گیا۔ بجیا نے کئی قومی اور بین الاقوامی اعزازات اپنے نام کیے جن میں جاپان کا شاہی ایوارڈ بھی شامل ہے۔

    کینسر کے موذی مرض کے باعث 86 سال کی عمر میں بجیا ہمیشہ کے لیے ہم سے جدا ہو گئی تھیں۔