Tag: 10 مارچ وفات

  • مشہور موسیقار اور گائیک استاد عاشق علی خان کی برسی

    مشہور موسیقار اور گائیک استاد عاشق علی خان کی برسی

    کلاسیکی موسیقی اور غزل گائیکی میں‌ نام و مرتبہ رکھنے والے استاد عاشق علی خان 10 مارچ 1948ء کو وفات پاگئے تھے۔ ان کا تعلق فنِ موسیقی اور گائیکی کے‌ لیے مشہور پٹیالہ گھرانے سے تھا۔

    استاد عاشق علی خان کافیاں گانے میں‌ خاص مہارت رکھتے تھے اور اس حوالے سے بہت مقبول تھے۔ 1880ء میں پیدا ہونے والے استاد عاشق علی خان نے موسیقی اور گائیکی کے فن کو اپنے شوق کی بدولت اپنایا اور لے کاری میں‌ خاص مہارت حاصل کی۔

    ایک زمانے میں‌ جب پاک و ہند میں بڑی تعداد کلاسیکی موسیقی اور گائیکی کا شوق رکھتی تھی تو استاد عاشق علی خان سے اس فن کی تربیت لینے اور گائیکی کے اسرار و رموز سیکھنے والے بھی ان کے گرد موجود رہتے تھے، جن میں سے بعض نے آگے چل کر اس فن میں بڑا نام پیدا کیا اور پاکستان کے نام ور گلوکاروں میں‌ شمار ہوئے۔

    استاد عاشق علی خان کے کئی شاگردوں‌ نے غزل گائیکی اور صوفیانہ کلام کو اپنے انداز میں‌ پیش کرکے مقبولیت حاصل کی۔ ان کے شاگردوں میں استاد بڑے غلام علی خان، چھوٹے عاشق علی خان، حسین بخش ڈھاڑی، اللہ دینو خاں، مختار بیگم، فریدہ خانم اور زاہدہ پروین نمایاں ہیں۔

  • پاکستان کے مشہور فلمی ہدایت کار مسعود پرویز کی برسی

    پاکستان کے مشہور فلمی ہدایت کار مسعود پرویز کی برسی

    پاکستان کے مشہور فلمی ہدایت کار مسعود پرویز 10 مارچ 2001ء کو لاہور میں وفات پاگئے تھے۔ آج ان کی برسی منائی جارہی ہے۔ صدارتی ایوارڈ یافتہ مسعود پرویز کا تعلق ایک علمی اور ادبی گھرانے سے تھا۔ اردو کے نام ور ادیب سعادت حسن منٹو ان کے قریبی عزیز تھے۔

    مسعود پرویز 1918ء میں امرتسر میں پیدا ہوئے تھے۔ انھوں نے قیامِ پاکستان سے قبل بننے والی فلم منگنی سے ہیرو کی حیثیت سے اپنے فلمی کیریئر کا آغاز کیا تھا۔ بعد وہ ہدایت کاری کی طرف آگئے۔ انھوں نے قیامِ پاکستان کے بعد یہاں انڈسٹری سے وابستہ ہوتے ہوئے ہدایت کاری کے شعبے میں اپنے تجربے اور مہارت کو آزمایا اور بیلی، انتظار، زہرِ عشق، کوئل، مرزا جٹ، ہیر رانجھا، مراد بلوچ، نجمہ، حیدر علی اور خاک و خون جیسی یادگار فلمیں بنائیں۔

    مسعود پرویز نے 1957ء میں فلم انتظار پر بہترین ہدایت کار کا صدارتی ایوارڈ حاصل کیا۔ یہ وہ فلم تھی جس نے مجموعی طور پر 6 صدارتی ایوارڈ حاصل کیے اور ایک اس ہدایت کار کے نام ہوا۔

    پاکستان میں فلمی دنیا کے معتبر اور معروف، نگار ایوارڈ کی بات کی جائے تو مسعود پرویز کو فلم ہیر رانجھا اور خاک و خون پر یہ ایوارڈ دیا گیا جب کہ ان کی ہدایت کاری میں بننے والی دوسری فلموں نے متعدد زمروں میں نگار ایوارڈز حاصل کیے۔

    پاکستان فلم انڈسٹری کے اس کام گار کو لاہور میں ڈیفنس سوسائٹی کے قبرستان میں سپردِ خاک کیا گیا۔

  • معروف شاعر اور مقبول فلمی گیتوں کے خالق عبدالحمید عدم کی برسی

    معروف شاعر اور مقبول فلمی گیتوں کے خالق عبدالحمید عدم کی برسی

    اردو کے ممتاز اور مقبولِ عام شاعر عبدالحمید عدم 10 مارچ 1981ء کو طویل علالت کے بعد لاہور میں وفات پاگئے تھے۔ آج ان کا یومِ وفات ہے۔ عدم کو قادرُ الکلام اور زود گو شاعر مانا جاتا ہے۔ وہ شاعری کی مختلف اصناف پر عبور رکھتے تھے، لیکن غزل گوئی ان کی پہچان بنی۔

    10 اپریل 1910ء کو تلونڈی موسیٰ خان، ضلع گوجرانوالہ میں پیدا ہونے والے عبدالحمید عدم کو سہلِ ممتنع کا شاعر کہا جاتا ہے جنھوں نے اپنے خیالات اور جذبات کے اظہار کے لیے سادہ اور رواں بحروں کا انتخاب کیا۔ ان کی شاعری کے مضامین رومان پرور اور داخلی جذبات و کیفیات پر مبنی ہیں۔

    عدم کے کلام کے مختلف مجموعے شائع ہوئے جن میں نقشِ دوام، زلفِ پریشاں، خرابات، قصرِ شیریں، رم آہو، نگار خانہ، صنم کدہ، قول و قرار، زیرِ لب، شہرِ خوباں، گلنار، جنسِ گراں، ساز و صدف، آبِ رواں، سر و سمن شامل ہیں۔

    عالمی شہرت یافتہ موسیقار اور گلوکار نصرت فتح علی کی آواز میں عبدالحمید عدم کا یہ کلام آپ نے بھی سنا ہو گا ’’یہ جو ہلکا ہلکا سرور ہے، یہ تیری نظر کا قصور ہے….‘‘ اس کے علاوہ عدم کے کئی اشعار زباں زدِ عام ہوئے اور ان کی غزلیں فلم کے لیے ریکارڈ کی گئیں۔

    اردو زبان کے اس مقبولِ عام شاعر کے چند اشعار ملاحظہ کیجیے۔

    ہم مے کدے کی راہ سے ہو کر گزر گئے
    ورنہ سفر حیات کا کتنا طویل تھا

    شاید مجھے نکال کے پچھتا رہے ہوں آپ
    محفل میں اس خیال سے پھر آگیا ہوں میں

    عدمؔ خلوص کے بندوں میں ایک خامی ہے
    ستم ظریف بڑے جلد باز ہوتے ہیں

    اے عدم احتیاط لوگوں سے
    لوگ منکر نکیر ہوتے ہیں