Tag: 10 نومبر وفات

  • اردو کے ممتاز شاعر بیخود بدایونی کا تذکرہ

    اردو کے ممتاز شاعر بیخود بدایونی کا تذکرہ

    آج اردو زبان کے ممتاز شاعر بیخود بدایونی کا یومِ وفات ہے۔ وہ غزل اور رباعیات کے شاعر تھے۔ ان کی شاعری میں محبّت، تصوف اور مذہب کا رنگ نمایاں ہے۔

    بیخود کے زمانے میں شعرو ادب کے مراکز دلّی اور لکھنؤ تھے، لیکن ان کی زندگی کا بڑا عرصہ جودھ پور میں بسر ہوا، اسی لیے ان کے کلام کا زیادہ شہرہ نہ ہوسکا۔تاہم ادبی تذکروں میں‌ آیا ہے کہ بیخود کے چار مجموعہ ہائے کلام شایع ہوئے۔

    اردو کے اس شاعر نے مولانا الطاف حسین حالی اور بعد میں داغ دہلوی کی شاگردی اختیار کی تھی۔ ان کا اصل نام محمد عبد الحئی صدیقی تھا۔ 1857ء کو بدایوں کے ایک صوفی گھرانے میں پیدا ہوئے۔ اُس زمانے کے رواج کے مطابق بیخود نے پہلے عربی اور فارسی کی تعلیم حاصل کی۔ بعد میں قانون کی سند لے کر وکیل کی حیثیت سے مراد آباد اور شاہجہان پور میں کام کیا۔ جب وکالت سے اکتا گئے تو سرکاری نوکری کر لی اور سروہی (راجستھان) اور جودھ پور میں خدمات انجام دیتے رہے۔

    محققین کے مطابق بیخود کا کلام عرصے تک عام اور زیورِ‌ طبع سے آراستہ نہ ہونے کے باعث دوسرے شعرا سے بھی منسوب کردیا گیا اور کئی غزلیں موقع پرستوں نے اپنے نام سے شایع و پیش کیں۔

    10 نومبر 1912ء کو بیخود بدایوں میں انتقال کرگئے اور وہیں آسودۂ خاک ہیں۔ ان کا ایک شعر دیکھیے

    بیٹھتا ہے ہمیشہ رِندوں میں
    کہیں زاہد ولی نہ ہو جائے

  • یومِ‌ وفات: استاد شاعر حیدر دہلوی کو خیّامُ الہند بھی کہا جاتا ہے

    یومِ‌ وفات: استاد شاعر حیدر دہلوی کو خیّامُ الہند بھی کہا جاتا ہے

    آج استاد شاعر حیدر دہلوی برسی ہے۔ ان کا تعلق شعرا کی اُس نسل سے تھا جن کی اصلاح و تربیت داغ اور مجروح جیسے اساتذہ کے زیرِ سایہ ہوئی تھی۔ غزل کے علاوہ کلاسیکی دور کی شاعری میں خمریات کا موضوع بہت پُرلطف رہا ہے۔ حیدر دہلوی اس کی مضمون بندی میں کمال رکھتے تھے اور اسی سبب خیّامُ الہند کہلائے۔

    اردو شاعری میں استاد کا درجہ پانے والے حیدر دہلوی نے کم عمری ہی میں‌ شعر کہنا شروع کردیا تھا۔ تیرہ برس کی عمر سے‌ مشاعروں میں‌ شرکت کا سلسلہ شروع ہو گیا تھا اور جلد ہی ان کی شہرت ہندوستان بھر میں‌ پھیل گئی۔

    حیدر دہلوی کا اصل نام سید جلال الدین حیدر تھا۔ انھوں نے 17 جنوری 1906ء کو دہلی میں کے ایک گھرانے میں‌ آنکھ کھولی۔ تقسیمِ ہند کے بعد پاکستان آگئے اور کراچی میں سکونت اختیار کر لی۔ 10 نومبر 1958ء کو اسی شہر میں حیدر دہلوی نے اپنی زندگی کا سفر تمام کیا۔ وہ کراچی کے پی ای سی ایچ سوسائٹی کے قبرستان میں سپردِ خاک ہوئے۔

    حیدر دہلوی نے اپنی شاعری میں‌ خمریات کے موضوع کو اپنے تخیّل اور کمالِ فن سے یوں سجایا کہ جہانِ سخن میں‌ اس کی مثال کم ہی ملتی ہے۔ اردو ادب اور شعرا کے مستند اور مشہور تذکروں میں آیا ہے کہ خمریات کے موضوع پر ان کے اشعار خوب صورت و نادر تشبیہات، لطیف استعاروں اور رمز و کنایہ کے ساتھ معنویت سے بھرپور ہیں۔

    ان کا مجموعہ کلام ان کی وفات کے بعد صبحِ الہام کے نام سے شائع ہوا تھا۔ استاد حیدر دہلوی کے دو مشہور شعر ملاحظہ کیجیے۔

    چمن والوں سے مجھ صحرا نشیں کی بودو باش اچھی
    بہار آکر چلی جاتی ہے ویرانی نہیں جاتی

    عشق کی چوٹ تو پڑتی ہے دلوں پر یک سَر
    ظرف کے فرق سے آواز بدل جاتی ہے

  • الغوزہ نواز مصری خان جمالی کی برسی

    الغوزہ نواز مصری خان جمالی کی برسی

    مصری خان جمالی پاکستان کی لوک موسیقی کی روایت کو زندہ رکھنے اور مقامی ساز الغوزہ کے ذریعے دل نواز دھنیں بکھیرنے کے لیے ملک اور بیرونِ ملک بھی پہچانے جاتے تھے۔

    وہ اپنے وقت کے مقبول سازندے تھے جو 1980ء میں آج ہی کے دن خالقِ حقیقی سے جا ملے۔ آج مصری خان جمالی کا یومِ وفات ہے۔

    1921ء میں سندھ کے مشہور شہر جیکب آباد کے علاقے روجھان جمالی میں پیدا ہونے والے مصری خان جمالی نے نواب شاہ میں‌ آلاتِ موسیقی بنانے کا کاروبار شروع کیا اور اپنے کاروبار اور اسی کام کے دوران انھیں اس مقامی طور پر بنائے جانے والے ساز میں وہ کشش محسوس ہوئی جس نے نوجوانی ہی میں انھیں دھن ساز مشہور کردیا۔ وہ اس ساز کو بجانے میں مہارت حاصل کرتے چلے گئے اور مقامی لوگوں میں ان کا چرچا ہونے لگا۔ اسی شہرت نے ایک دن انھیں‌ ریڈیو اسٹیشن تک پہنچا دیا۔

    الغوزہ بانسری نما وہ ساز تھا جسے بجاتے ہوئے اس کا ماہر دل موہ لینے والی دھنیں بکھیرتا ہے۔ آج جدید آلاتِ موسیقی اور سازوں کے ساتھ ساتھ طرزِ گائیکی بھی بدل گیا ہے۔ کئی روایتی ساز مٹ چکے ہیں جب کہ لوک موسیقی میں لوگوں کی دل چسپی بھی کم ہی نظر آتی ہے، اسی طرح پاک و ہند کا یہ مقبول ساز الغوزہ بھی اب ماضی بن چکا ہے اور اس کے ماہر سازندے اب دنیا میں نہیں‌ رہے۔

    مصری خان جمالی کو ریڈیو کے بعد ٹیلی ویژن پر اپنے فن کا مظاہرہ کرنے کا موقع ملا اور انھیں بیرونِ ملک بھی پہچان ملی۔

    مصری خان جمالی نے اپنی دھنوں‌ سے سامعین کو محظوظ کرتے ہوئے لوک موسیقی اور اس مقامی ساز کے ذریعے اپنی ثقافت کو فروغ دیا۔ 1979ء میں‌ حکومتِ پاکستان نے انھیں صدارتی تمغہ برائے حسنِ کارکردگی عطا کیا تھا۔

    انھیں نواب شاہ کے قبرستان حاجی نصیر میں سپردِ خاک کیا گیا۔