Tag: 11 اکتوبر وفات

  • جب کراچی میں رکشہ چلانے والے بدر منیر پر قسمت مہربان ہوئی!

    جب کراچی میں رکشہ چلانے والے بدر منیر پر قسمت مہربان ہوئی!

    بدر منیر کراچی میں رکشہ چلاتے تھے۔ وہ صرف سنیما اور فلم کے دیوانے نہیں تھے، خود بھی اداکار بننا چاہتے تھے۔ یہ ان کا ایک خواب تھا جس کی تعبیر ملنا آسان نہ تھا۔

    بدر منیر نے ایک روز رکشہ چھوڑ کر کار ڈرائیور بننے کی ٹھانی، لیکن یہ سب ایک منصوبے کے تحت کیا اور اس کے ساتھ ہی وہ فلم اسٹار وحید مراد کے فلمی دفتر پہنچ گئے۔ وہاں‌ بدر منیر نے ڈرائیور کے طور پر ادارے کے لیے اپنی خدمات پیش کیں، لیکن اس وقت ڈرائیور کی ضرورت نہیں‌ تھی۔ بدر منیر کو دفتر میں چائے بنانے اور چھوٹے موٹے کام انجام دینے کے لیے رکھ لیا گیا۔

    1966ء کی بات ہے جب وحید مراد کی فلم ’ارمان‘ سُپر ہٹ ہوئی تو بدر منیر نے مالک کو اس کی کام یابی پر خوش دیکھ کر اپنے دل کی بات کہہ دی۔ اور وحید مراد نے کچھ عرصے بعد انھیں فلم ’جہاں ہم وہاں تم‘ میں ایک چھوٹا سا کردار دِلوا دیا۔

    اس فلم کے بعد دو تین برس تک بدر منیر نے مزید فلموں‌ میں‌ چھوٹے موٹے کردار نبھائے اور 1970ء میں ان کی قسمت کا ستارہ چمک اٹھا۔ انھیں‌ پشتو فلموں‌ کے ہیرو کے طور پر بے مثال شہرت اور مقبولیت نصیب ہوئی۔ انھوں نے اس سال پشتو فلم ’یوسف خان شیر بانو‘ میں‌ مرکزی کردار نبھایا جو پاکستان میں اس زبان میں‌ بننے والی اوّلین فلم تھی۔

    بدر منیر نے ساڑھے چار سو سے زیادہ پشتو اور اردو فلموں میں کام کیا۔ وہ پشتو فلم کی معروف ہیروئنوں کے ساتھ پردے پر نظر آئے اور شائقین کی توجہ حاصل کی۔ اگرچہ بدر منیر پشتو اداکار کی حیثیت سے مشہور ہیں‌ ہے، لیکن اردو فلموں کے شائقین نے بھی انھیں پسند کیا۔

  • شان الحق حقّی: ہمہ جہت شخصیت، جنھوں نے زبان و ادب کے لیے بے مثال خدمات انجام دیں

    شان الحق حقّی: ہمہ جہت شخصیت، جنھوں نے زبان و ادب کے لیے بے مثال خدمات انجام دیں

    شان الحق حقّی ہمہ جہت شخصیت کے مالک تھے۔ اردو زبان و ادب میں اپنی شعری اور نثری تخلیقات کے علاوہ انھیں تدوین و تالیف، تراجم، تنقید اور ان کے تحقیقی کاموں کے سبب ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔

    لسانیات اور اصطلاحات کے میدان میں ان کی وقیع و مستند کاوشوں نے انھیں ان کے ہم عصروں میں ممتاز کیا۔ آج شان الحق حقّی کا یومِ وفات ہے۔

    اردو زبان کی اس ممتاز شخصیت کا تعلق دہلی سے تھا جہاں انھوں نے 1917ء میں آنکھ کھولی۔ ابتدائی تعلیم دہلی ہی میں حاصل کی، سینٹ اسٹیفن کالج، علی گڑھ یونیورسٹی سے بی اے اور دہلی یونیورسٹی سے انگریزی ادب میں ماسٹرز کیا۔ تقسیم ہند کے بعد وہ ہجرت کر کے کراچی آگئے۔

    شان الحق حقّی کے علم و ادب ذوق و شوق نے انھیں لکھنے لکھانے پر مائل کیا اور بعد کے برسوں میں وہ مختلف رسائل و جرائد کے مدیر رہے، پاکستان میں محکمہ اطلاعات، اشتہارات و مطبوعات و فلم سازی میں ملازمت کے دوران انھوں نے بڑا اہم کام کیا۔ ترقی اردو بورڈ (کراچی) اور مقتدرہ قومی زبان کے لیے گراں قدر علمی خدمات انجام دیں۔ وہ کثیراللسان محقق تھے۔

    اردو، عربی، فارسی، انگریزی، ہندی، سنسکرت، ترکی اور فرانسیسی زبانوں پر عبور رکھتے تھے۔ انھوں نے جدید آکسفورڈ اردو انگریزی ڈکشنری بھی مرتّب کی تھی۔

    تارِ پیراہن (منظومات)، نکتہ راز (مضامین)، خیابانِ پاک، نشیدِ حریت، اور انجان راہی آپ کی اہم کاوشیں ہیں۔ وہ ایک ایسے ادیب اور شاعر تھے جس نے متنوع اور ہمہ گیر تخلیقی کام کیا۔

    1958ء میں اردو لغت بورڈ کے قیام کے بعد آکسفورڈ انگریزی ڈکشنری کی طرز پر اردو کی ایک جامع لغت مرتب کرنے کا اہم کام ہونا تھا۔ اس میں تاریخی اصولوں پر اردو کے تمام الفاظ کو جمع کیا جانا تھا۔ بابائے اردو بورڈ کے پہلے چیف ایڈیٹر تھے اور ان کے سیکریٹری حقی صاحب تھے۔ انھوں نے کتابیں اور دیگر مواد جمع کرنے سے لے کر اسٹاف کی بھرتی تک تمام امور خوش اسلوبی، دل جمعی اور محنت سے سرانجام دیے۔ تاہم بعض اختلافات کی وجہ سے لغت کی تیّاری سے قبل ہی بورڈ کو خیرآباد کہہ دیا۔ وہ اردو لغت بورڈ سے کم و بیش 17 سال منسلک رہے۔

    ان کی تیارکردہ کتاب فرہنگِ تلفظ اپنی مثال آپ ہے۔ تراجم اورشاعری سے لے کر صحافت تک ہر جگہ ان کی تحریروں میں اردو کی چاشنی اور الفاظ کا تنوع دکھائی دیتا ہے۔

    بچّوں کے لیے کہانیاں، نظمیں لکھنے کے ساتھ انھوں نے افسانے بھی لکھے۔ ان کے علمی مضامین الگ ہیں جب کہ کتابوں کی تعداد 60 کے لگ بھگ ہے۔

    شان الحق حقی کی کتابیں دنیا کی بیشتر اہم لائبریریوں سمیت لائبریری آف کانگریس اور یونیورسٹی آف ٹورنٹو لائبریری میں بھی موجود ہیں۔

    بعد میں وہ وہ کینیڈا منتقل ہوگئے تھے جہاں 11 اکتوبر 2005ء کو جگر کے عارضے کے باعث اس جہانِ فانی سے کوچ کر گئے۔

    شان الحق حقی کو حکومت پاکستان نے ستارہ امتیاز سے بھی نوازا تھا۔ ان کی ایک مشہور غزل شاید آپ نے بھی سنی ہو، جس کا مطلع تھا۔

    تم سے الفت کے تقاضے نہ نباہے جاتے
    ورنہ ہم کو بھی تمنّا تھی کہ چاہے جاتے

  • برصغیر کے نام وَر موسیقار استاد جھنڈے خان کا تذکرہ

    برصغیر کے نام وَر موسیقار استاد جھنڈے خان کا تذکرہ

    جھنڈے خان برصغیر کے استاد موسیقار تھے جن کی خوب صورت بندشیں اور مدھر دھنیں ان کی لازوال فنی اختراع ہیں۔ استاد جھنڈے خان 1952ء میں آج ہی کے دن وفات پاگئے تھے۔

    جھنڈے خان کا اصل نام میاں غلام مصطفٰی تھا۔ وہ 1866ء میں جمّوں کے ایک گاؤں کوٹلی اوکھلاں میں پیدا ہوئے تھے۔ موسیقی کا شوق ایسا تھا کہ اس فن کو باقاعدہ سیکھنے کی خاطر انھوں نے ہندوستان کے طول و عرض میں سفر کیا۔ بعد میں بمبئی سکونت اختیار کی جہاں اس زمانے میں موسیقی کے بھنڈی بازار گھرانے کے باکمال فن کاروں چھجو خان، نذیر خان اور خادم حسین خان کی صحبت میں رہے اور ان سے اکتساب کیا۔ وہ ہندوستان میں تھیٹریکل کمپنیوں سے وابستہ ہوگئے اور ان کے لیے دھنیں اختراع کرتے رہے۔

    ہندوستان میں ناطق فلمیں بننے لگیں تو جھنڈے خان نے تیس سے زیادہ فلموں کی موسیقی ترتیب دی۔ ان کا ایک فنی کرشمہ فلم ’’چتر لیکھا‘‘ کی تمام دھنیں ایک ہی راگ (بھیرویں) میں ترتیب دینا تھا۔ سُر ایک ہی تھے لیکن ان کے زیر و بم میں تنوع کے باعث محسوس ہی نہیں ہوتا تھا کہ کوئی ایک ہی راگ سماعت کررہا ہے۔

    تقسیمِ ہند کے بعد وہ پاکستان کے شہر گوجرانوالہ آگئے تھے اور وہیں وفات پائی۔

    استاد جھنڈے خان کو رجحان ساز اور زبردست اختراع کار موسیقار کہا جاتا ہے جنھوں نے اپنے دور میں فلمی موسیقی کو بامِ عروج پر پہنچا دیا تھا۔