Tag: 11 جنوری وفات

  • چاند نگر کے انشا جی!

    انشاؔ جی ہے نام اِنہی کا چاہو تو اِن سے ملوائیں
    اِن کی روح دہکتا لاوا ہم تو اِن کے پاس نہ جائیں
    یہ جو لوگ بنوں میں پھرتے جوگی بیراگی کہلائیں
    اِن کے ہاتھ ادب سے چومیں اِن کے آگے سیس نوائیں
    نہ ان کی گدڑی میں تانبا پیسہ نہ منکے مالائیں
    پریم کا کاسہ روپ کی بھکشا، گیت،غزل، دوہے، کویتائیں

    ان اشعار کے خالق فقیرانہ مزاج کے حامل ابنِ انشا ؔہیں جو دوچار برس نہیں تقریباً چار دہائیوں تک اپنی بے نظیر تخلیقی صلاحیتوں، اور ادب کی متنوع اصناف پر خامہ فرسائی کرتے ہوئے ادب کے بے تاج بادشاہ بنے رہے۔

    ابنِ انشاءؔ کی تاریخِ ولادت میں اختلاف ہے، اس ضمن میں آپ خود تحریر کرتے ہیں کہ ”پیدائش ضلع جالندھر(مشرقی پنجاب) کے ایک دیہاتی کاشت کار گھرانے میں ہوئی۔ اس گھرانے میں تعلیم نہیں تھی۔ فقط والد صاحب نے چوتھی جماعت تک پڑھا تھا۔ پیدائشی نام شیر محمد ہے جو راجپوت ہونے کی نسبت سے شیر محمد خان ہو گیا۔پیدائش کی قطعی تاریخ معلوم نہیں۔ دیسی تاریخوں کا جو حساب معلوم ہوا۔ اس سے اساڑھ مہینے کی پہلی تاریخ کا دن 15جون1927ء معلوم ہوتا ہے۔“

    گویا ابنِ انشا ؔایک ایسے گھرانے کے فرد تھے جہاں تعلیم عام نہ تھی لیکن فطری ذہانت اور خداداد صلاحیتوں کے بل بوتے پر ابنِ انشانے ابتدائی تعلیم سے اعلیٰ تعلیم تک امتیازی نمبروں سے کامیابی حاصل کی۔ 1946ء میں گریجویشن کرنے کے بعدامپیریل کونسل آف ایگریکلچر ریسرچ اور پرسا انسٹی ٹیوٹ دہلی میں ایک رسالے کی ادارت سے وابستہ ہو گئے۔ بعد ازاں آپ نے آل انڈیا ریڈیو میں بحیثیت مترجم کام کرنے کی درخواست کی، جلد ہی آپ کا تقرر بھی ہو گیا، لیکن تقسیمِ ہند کی وجہ سے آپ نے پاکستان جانے کا فیصلہ کر لیااس کی بابت یوں رقمطراز ہیں:

    ”ادھر دلی کی فضا بکھرنے لگی۔ ایک روز تو چند سکھ کرپانیں باندھے ہمارے کمرے میں دندناتے چلے آئے،آخر ہم نے دلی سے کنارہ کیااور اپنے گاؤں انبالہ پہنچ کر اگلے ہی دن پاکستان کی راہ لی۔“

    پاکستان میں ابنِ انشاکا مسکن لاہور تھا۔ آپ ریڈیو پاکستان لاہور سے منسلک ہو گئے۔ 1949ء میں ریڈیو پاکستان لاہور خبروں کا یونٹ کراچی منتقل ہونے کے بعدابنِ انشانے بھی رختِ سفر باندھا اور کراچی میں سکونت اختیار کر کے ریڈیو پاکستان کراچی سے وابستہ ہو گئے،اس دوران آپ نے اردو کالج میں ایم اے کے لیے داخلہ لے لیا۔یہاں کالج کے مجلہ ”برگِ گل“ کے مدیر بنے۔

    اردو کالج کے بانی بابائے اردو سے اپنے تعلق کے حوالے سے ڈاکٹر خلیل الرحمٰن اعظمی کو ایک خط میں لکھتے ہیں کہ ”مولوی صاحب سے میرا تعلق 1952ء سے ہے۔اس سال میں نے اردو کالج سے ایم اے پاس کیا۔امتحانوں سے فارغ ہو کر ڈان اخبار میں مضامین کا سلسلہ شروع کیا۔پہلا مضمون قدرتاً مولوی صاحب پر تھا۔یہ مضمون رسمی نہیں تھا کچھ عجب سا مسخرہ پن لیے تھا، بہر حال مولوی صاحب کو وہ بہت پسند آیا۔اور اُنہوں نے مجھے خط لکھا۔میری زبان وبیان کی تعریف کی۔ملنے کی خواہش ظاہر کی۔ میں بدقسمت اُن کے پیار سے محروم تھا۔ اُنہوں نے حد سے زیادہ توجہ اورعنایت سے نوازا اور برابر آنے کو کہا۔“

    رفتہ رفتہ بابائے اُردو سے ابنِ انشا کا تعلقِ خاطردوستی میں تبدیل ہوتا چلا گیا۔ انجمن کے معاملات میں بابائے اردو کے ساتھ ہونے والی نا انصافی کا ابنِ انشا کو بہت قلق تھا چونکہ طبعاً آپ حساس اور منصف مزاج تھے اس لیے اس ضمن میں ابنِ انشا کی مساعی جمیلہ لائق صد ستائش اور قابلِ قدر ہے۔ ابنِ انشا کی کاوشیں بار آور ہوئیں اور حق بہ حقدار رسید کے مصداق انجمن بابائے اُردو کے حوالے کر دی گئی، 1950ء میں ریڈیو کی ملازمت ترک کر کے ابنِ انشا پاکستان کی پہلی دستور ساز اسمبلی سیکریٹریٹ میں بحیثیت سینئر مترجم فائز ہو گئے۔ 1952 ء میں آپ محکمہ دیہات سے منسلک ہوئے تو محکمے سے جاری ہونے والے جریدے ”پاک سرزمین“ کی ادارت کی اور رسالے کے معیار پر خصوصی توجہ دی۔ 1960ء میں روزنامہ امروز کے لیے کالم نگاری کی۔ مولانا چراغ حسن حسرت کی رحلت کے بعد روزنامہ امروز کراچی کے ایڈیشن کی ذمہ داری ابنِ انشاکو سونپ دی گئی۔ 1965ء میں روزنامہ انجام کے لیے کالم لکھے۔ 1966ء میں روزنامہ جنگ میں کالم نگاری کا آغاز کیا جو تادمِ مرگ جاری رکھا۔ انشا جی کے شگفتہ اور پر مغز کالم عوام و خواص دونوں میں یکساں مقبول اور پسند کیے جاتے تھے۔ 1961ء میں پاکستان کونسل آف ایگریکلچر ریسرچ میں اسسٹنٹ ڈائریکٹر مطبوعات کی حیثیت سے آپ کا تقرر ہوا تو آپ نے زرعی تحقیقاتی ادارے کی مطبوعات کو جدید طرز کے مطابق استوار کیا۔ اسی دوران بیلجیم میں ہونے والے عالمی مشاعروں کے اجتماع میں پاکستان کی نمائندگی کی اور کئی یورپی ممالک کا دورہ کیا، یہ سفر آپ کی سفرنامہ نگاری کے لیے سنگِ میل ثابت ہُوا۔ ”دنیا گول ہے“ کے دیباچہ میں لکھتے ہیں: ”یوں تو ہماری آوارگی 1961ء کے سفرِ یورپ سے شروع ہوتی ہے اور1963 ء میں ہم ایران سے فارسی بولتے ہوئے 1964 ء میں لنکا سے وہاں کی ملاحت مآبوں پر جان چھڑکتے ہوئے لوٹے تھے۔ لیکن1966،1967 اور1968 ہمارے لیے سیاحت کے بھرپور سال تھے۔ یورپ اور پچھم ہماری وحشت کے صحرا تھے۔“

    بلا شبہ ابن انشا کی اس سیاحت کے طفیل پاکستانی ادب میں آوارہ گرد کی ڈائری، ابنِ بطوطہ کے تعاقب میں، چلتے ہو تو چین کو چلیے، دُنیا گول ہے، نگری نگری پھرا مسافر جیسے خوش طبع سفر ناموں کا اضافہ ہُوا۔ دورانِ سیاحت پیش آنے والے تجربات، واقعات، مشاہدات اور ذاتی احساسات ابنِ انشا نے اپنے سفر ناموں میں جس طرز سے بیان کیے آپ کا وہ اسلوب قارئین کے لیے دلنشین ٹہرا۔ قارئین آپ کے سفر ناموں کا انتظار کرتے اور آپ کے شگفتہ اور چبھتے ہوئے فقروں سے خوب لطف اندوز ہوتے۔ ”دنیا گول ہے ” کا ایک اقتباس ملاحظہ فرمائیے:

    ”ہم اس دھرتی کا گز بنے بحرِ ظلمات میں گھوڑے دوڑاآئے لیکن ہمیں تو ہرچیز چپٹی ہی نظرآئی۔ دنیا سے زیادہ تو ہم خود گول ہیں کہ پیکنگ سے لڑھکے تو پیرس پہنچ گئے اور کوپن ہیگن سے پھسلے تو کولمبو میں آکر رکے بلکہ جکارتا پہنچ کر دم لیا۔“

    1961ء میں بیلجیم کا سفر ابنِ انشا کے لیے اس طرح وسیلۂ ظفر ثابت ہُوا کہ سفر سے واپسی پر آپ کو نیشنل بک سینٹر کے مرکزی ڈائریکٹر کا منصب عطا کیا گیا۔ اس عہدے پر فائز ہونے کے بعد ابنِ انشا نے پاکستانی کتب کی ترقی اور فروغ کے لیے مثالی خدمات انجام دیں۔اور محض پاکستان ہی میں نہیں بیرونِ ممالک میں بھی خوش اسلوبی اور ذمہ داری سے پاکستان کی نمائندگی کرتے ہوئے پاکستانی مطبوعات کے فروغ میں اہم کردار ادا کیا۔ یونیسکو کی جانب سے کتابوں کی ترقی و فروغ کے لیے جاپان کے شہر ٹوکیو میں ایک کانفرنس منعقد کی گئی۔ اس کانفرنس میں ابنِ انشا نے پاکستان کی بھرپور نمائندگی کی۔ کانفرنس کے تمام شرکاء میں آپ کو خوب پذیرائی ملی۔ 1967 میں انقرہ میں منعقد ہونے والی ایک کانفرنس میں ایک بار پھر ابنِ انشا کو پاکستان کی نمائندگی کا فرض سونپا گیا۔ آپ نے اپنا فرض عمدگی سے نبھایا۔ 1967 ہی میں آپ نے تین ماہ کے تربیتی ورکشاپ کے لیے یورپ اور مشرقی وسطیٰ کا سفر کیا۔ عالمی سطح پر ہونے والی ادبی کانفرنسوں میں شرکت کر کے ابنِ انشا نے پاکستان کے کامیاب نمائندہ ہونے کا حق ادا کر دیا۔ آپ کی ان ہی ادبی خدمات کے پیشِ نظر آپ کو 1977 میں لندن کے سفارتخانے میں فائز کیا گیا۔ جہاں اردو مخطوطات کو محفوظ کر کے اُن کی مائیکرو فلم حاصل کرنے کی ذمہ داری آپ کو سونپی گئی۔ آپ نے اپنا یہ فرض بھی حسبِ سابق نہایت خوش اسلوبی اور ذمہ داری سے نبھایا گو کہ یہ وہ زمانہ تھا جب آپ علاج کی غرض سے لندن گئے تھے لیکن آپ کے جذبۂ شوق اور کتاب دوستی کو ہر شے پر سبقت حاصل رہی۔

    بحیثیت مزاح نگار ابنِ انشانے منفرد انداز اختیار کیا۔ انشا جی کی حسِ مزاح آ پ کے سفرناموں، کالموں، مکاتیب، مضامین میں نمایاں طور پر جلوہ گر ہے۔ اردو کی آخری کتاب، خمار گندم، قصہ ایک کنوارے کا طنز ومزاح پر مبنی آپ کے مضامین کے مجموعے ہیں۔ ممتاز مزاح نگار مشتاق احمد یوسفی رقمطراز ہیں، ”بچھو کا کاٹا روتا اور سانپ کا کاٹا سوتا ہے۔ انشا جی کا کاٹا سوتے میں مسکراتا بھی ہے۔ ہم خوش نصیب ہیں کہ اردو مزاح کے سنہری دور میں جی رہے ہیں۔ سادگی و پر کاری شگفتگی و بے ساختگی میں وہ اپنا حریف نہیں رکھتے۔ اُن کی تحریر ہماری ادبی زندگی میں ایک سعادت اور نعمت کا درجہ رکھتی ہے۔“

    بلا شبہ ابنِ انشاکے قلم سے پھوٹنے والے مزاح کے چشموں سے قارئین سیراب بھی ہوتے ہیں اور شاداب و سرشار بھی۔ آ پ کے مضامین کا مجموعہ ”اُردو کی آخری کتاب“ محض 192 صفحات پر مشتمل ہے۔ لیکن یہ چھوٹی سی کتاب جو ضخیم بھی نہیں اپنے اندر اتنی وسعتیں لیے ہوئے ہے کہ اس میں ایک جہاں آباد ہے۔ یہ باتصویر کتاب ایک روزنامچہ کی حیثیت رکھتی ہے۔ مضمون کے آخر میں مضمون سے متعلق سوالات پڑھ کر اس پر اسکول ڈائری کا بھی گماں ہوتا ہے۔ انشا جی نے جس ہنرمندی سے یہ منفرد اسلوب برتا ہے یقیناً لائقِ ستائش ہے۔ طنز و مزاح کے پیرائے میں بڑے قرینے سے تاریخی معلومات مہیا کر دیں۔ کتاب کے آغاز میں ابنِ انشا قارئین کو خبردارکر دیتے ہیں کہ ”یہ کتاب صرف بالغوں کے لیے ہے۔ ذہنی بالغوں کے لیے۔ معمر نابالغوں کے لیے نہیں۔“

    ابنِ انشا بہترین مترجم تھے، ترجمہ نگاری میں آپ کے جوہر خوب کھل کر سامنے آئے۔ آپ نے کئی شعری و نثری تخلیقات کے ترجمے کیے۔ نکولس کے ناول کاترجمہ ”محبوبہ“ کے نام سے شائع ہُوا۔ ایڈگر ایلن پو سے ابنِ انشا بہت متاثر تھے۔ آپ نے پو کی تخلیقات کا ترجمہ کیا۔ ادارہ مطبوعات فرنیکلن میں مترجم کے فرائض ادا کرتے ہوئے متعدد کتب کا اُردو میں ترجمہ کیا۔ چینی نظموں کے انگریزی تراجم آپ کو ایسے بھائے کہ اردو میں نہ صرف ان کا ترجمہ کر ڈالا بلکہ ”ٹھنڈا پربت“ کے نام سے تراجم کا مجموعہ بھی شائع کر دیا۔ ادارۂ مطبوعات پاکستان کے لیے پاکستان کی علاقائی شاعری کا بھی اردو میں ترجمہ کیا۔

    ابن انشا کے مکتوبات میں بھی بذلہ سنجی، ذاتی زندگی اور نظریہ حیات نمایاں ہیں۔ اپنے قریبی دوست ڈاکٹر خلیل الرحمان اعظمی کو لکھتے ہیں: ”آپ کا کرم نامہ ملا،۔آپ نے جو کچھ لکھا ہے اس کا میں مستحق تو نہیں، لیکن آپ کے الفاظ سے بوئے وفا آتی ہے، اس لیے قبول کر کے ممنون ہوں۔“

    یوں توابنِ انشا کی ادبی خدمات کا دائرہ بہت وسیع ہے۔ لیکن اپنے ذاتی تجربات اور احساسات کی ترجمانی کے لیے شاعری کی صنف آپ کا بہترین انتخاب ہے۔ شاعری آپ کو اپنے دہقان باپ منشی خان سے وراثت میں ملی جو پنجابی زبان میں شاعری کرتے تھے۔ ابنِ دہقان نے شعر و ادب میں ابنِ انشا کے نام سے خوب نام کمایا۔ 1942ء میں لدھیانہ اسکول میں تعلیم کے دوران شعر گوئی کا آغاز کیا۔ مکتوبات میں دوستوں سے شاعری کی زبان میں گفتگو کرتے۔

    اپنی چھوٹی بہن بلقیس بانو کے لیے جو کہ ابھی بچی ہی تھیں آپ شاعری کرتے اور پھر بالآخر ان تمام نظموں پر مبنی ایک شعری مجموعہ ”بلو کا بستہ“ شائع ہو گیا۔ بچوں کا دل موہ لینے والا سہل اور دلچسپ اسلوب۔ ایک شعر نذرِ قارئین ہے:
    اُردو نہ جانو انگلش نہ جانو
    کہتی ہو خود کو بلقیس بانو

    ابنِ انشا کو انشا جی کا نام آپ کے عزیز دوست جمیل الدین عالی ؔنے دیا جو ایسا مقبول ہوا کہ آپ کی عرفیت ہی بن گیا۔

    زمانۂ طالب علمی میں اختیاری مضمون کے طور پر فارسی اور ہندی کا انتخاب ابنِ انشا کے لیے بہت سود مند ثابت ہُوا۔ بالخصوص آپ کی شاعری جس میں بے تحاشہ ہندی الفاظ اور اصطلاحات اور ان سے جنم لینے والی غنائیت اور اور شیرینی پڑھنے اور سننے والوں کو اپنے سحر میں جکڑ لیتی ہے۔

    کبھی اس کے ملن کی آشا نے اک جوت جگائی تھی من میں
    اب من کا اُجالا سنولایا پھر شام ہے من کے آنگن میں

    جمالیاتی حس ابن انشا کی شاعری کا خاصہ ہے۔ انسانی جذبات اور نفسیات پر آپ کی گرفت بہت مضبوط ہے۔ آپ کی نظم اور غزل دونوں ہی اس ہنر سے آراستہ اور تابندہ ہیں۔ ترقی پسند ہونے کے باوجود وہ گھن گھرج جو ترقی پسند شعراء کی شناخت ہے ابنِ انشا نے اس سے الگ اپنی راہ نکالی اور سیاسی و سماجی موضوعات پر دیگر ترقی پسند شعراء کی بہ نسبت دھیما لہجہ رکھا۔ اپنی موضوعاتی اور انقلابی شاعری کے ضمن میں ابنِ انشا اپنا نظریہ شعری یوں بیان کرتے ہیں کہ ”اپنے موضوعات کے اعتبار سے یہ نظمیں تبلیغی نہیں بلکہ ذاتی ہیں اور محمد حسن عسکری کے الفاظ میں یہ نظمیں میں نے اپنے اعصاب سے پوچھ کر لکھی ہیں اور یہی وجہ ہے کہ بعض جگہ ان میں تذبذب یا تشائم راہ پاگئے ہیں۔ میں بڑی آسانی سے ان کے انجامیے لوگوں کے حسبِ د ل خواہ رکھ سکتا تھا لیکن پھر وہ اوروں کی نظمیں ہوتیں، میرے جذبات اور میری کمزوریوں کی ترجمان نہیں رہتیں۔“

    ”چاند“ انشا جی کی شاعری کا استعارہ ہے جس کو انشا جی نے اس حسن و خوبی سے اپنے کلام میں برتا ہے کہ چاند کو چار چاند لگا دیے۔ چاند نگر کا یہ باسی، اس بستی کے ایک کوچے کا مکیں، دلِ وحشی کا ہمسفر، اپنی طرز کا منفرد شاعر ہے۔ ابنِ انشا کی شاعرانہ ہنر مندی اگر آپ کی مختصر نظموں میں اپنا رنگ جماتی ہے تو طویل نظموں میں بھی خود کو منواتی ہے۔ بقول ڈاکٹر سید ابوالخیر کشفی”انشا جی کی طویل نظمیں اُردو شاعری کا نیا باب ہیں“ بلا شبہ بغداد کی ایک رات، دیوارِ گریہ، یہ بچہ کس کا بچہ ہے، ڈاکٹر کشفی کے قول کی دلیل ہیں۔

    اور جوگی انشا جی بھی تو ایک مسافر تھے۔ راہِ زیست کے مسافر۔ اچھے بھلے ادبی سرگرمیوں میں مصروف تھے معلوم بھی نہ ہُوا کہ کب سرطان جیسا موذی مرض آپ جیسے حلیم الطبع انسان دوست پر حملہ آور ہو گیا۔ آپ کو معلوم ہو گیا لیکن آپ نے اپنی بیماری کو کسی خزانے کی طرح چھپا کر رکھا۔ 1977ء میں علاج کی غرض سے لندن روانہ ہوئے وہاں بھی اپنی بیماری سے جنگ لڑتے ہوئے آپ وطنِ عزیز کے ادبی سفیر کی حیثیت سے کام کرتے رہے۔ 29 نومبر1976ء میں ٹوکیو میں قیام کے دوران آپ نے اپنی طویل نظم”عمر کی نقدی“ کہی۔

    گو کہ اس سے قبل ”انشاجی اب کوچ کرو اس شہر میں جی کا لگانا کیا“ کہہ چکے تھے۔ لیکن ”عمر کی نقدی“ الہامی کیفیت میں تخلیق کی جانے والی نظم محسوس ہوتی ہے۔ بہت ممکن ہے کہ ابنِ انشا نے بیماری منکشف ہونے کے بعد خود کو زندگی سے دور ہوتا محسوس کیا ہو جب ہی تو آپ نے کہا:

    اب عمر کی نقدی ختم ہوئی
    اب ہم کو اُدھار کی حاجت ہے
    ہے کوئی جو ساہوکار بنے
    ہے کوئی جو دیون ہار بنے

    11 جنوری 1978ء میں محض اکیاون برس کی عمر میں انشاؔ نام کا دیوانہ جب حقیقت میں اس جہان فانی سے کوچ کر گیا تو ہر آنکھ اشک بار تھی۔

    بے حد روشن اور شرارتی آنکھوں والے انشا جی کی آنکھیں بند ہوئیں تو آپ کے قریبی دوست قتیلؔ شفائی نے اپنے مشترکہ دوستوں کے جذبات کی ترجمانی کرتے ہوئے کہا:

    تم لاکھ سیاحت کے ہو دھنی ایک بات ہماری بھی مانو
    کوئی جا کے جہاں سے آتا نہیں اُس دیس نہ جاؤ انشا جی
    نہیں صرف قتیلؔ کی بات یہاں کہیں ساحر ؔہے کہیں عالی ؔہے
    تم اپنے پرانے یاروں سے دامن نہ چھڑاؤ انشاؔ جی

    لیکن جانے والا اپنی عمر کی میعاد پوری کر کے چلا گیا۔ یہ کہتے ہوئے کہ

    یہ سرائے ہے یہاں کس کا ٹھکانہ ڈھونڈو
    یاں تو آتے ہیں مسافر سو چلے جاتے ہیں

    بعد از مرگ انہیں صدارتی تمغہ حسنِ کارکردگی عطا کیا گیا۔ ابنِ انشا کا کام اور نام قارئینِ ادب کے دلوں میں ہمیشہ روشن رہے گا۔

  • کاغذی گھاٹ والی خالدہ حسین کا تذکرہ

    کاغذی گھاٹ والی خالدہ حسین کا تذکرہ

    خالدہ حسین نے کہا تھا، ’کئی کہانیاں ایسی ہیں جو میں لکھنا چاہتی ہوں، مگر یوں لگتا ہے جیسے میرے قلم میں اتنی طاقت نہیں ہے کہ اسی طرح کاغذ پر آجائیں، لیکن بہر طور لکھوں گی۔‘

    11 جنوری 2019ء کو خالدہ حسین اس دنیا سے رخصت ہوگئی تھیں۔ انھوں نے 1954ء میں قلم تھاما اور کہانیاں لکھنا شروع کیں، لیکن ادبی حلقہ اور سنجیدہ قارئین 60ء کی دہائی میں ان کے نام سے واقف ہوئے۔ خالدہ حسین نے اپنے ابتدائی دور کی کہانیاں چند غیر معروف رسائل کو بھیجیں جو شائع ہوئیں اور اس وقت وہ دسویں جماعت کی طالبہ تھیں۔ بعد میں ان کی تخلیقات معروف جرائد کی زینت بنیں اور تب عظیم افسانہ نگار غلام عباس، قرۃُ العین حیدر اور اس دور کے دیگر اہم نام ان کی طرف متوجہ ہوئے اور وہ وقت بھی آیا جب خالدہ حسین نے ان سے اپنے فن اور اسلوب کی داد پائی۔

    18 جولائی 1938ء کو لاہور میں پیدا ہونے والی خالدہ حسین کا خاندانی نام خالدہ اصغر تھا۔ ان کے والد ڈاکٹر اے جی اصغر انجینئرنگ یونیورسٹی لاہور میں وائس چانسلر کے عہدے پر فائز تھے۔ اپنے بچپن اور ماحول کے بارے میں خالدہ حسین بتاتی تھیں کہ ان کی زندگی کا ابتدائی دور نہایت حسین اور خوش گوار تھا، اساتذہ ہی نہیں بلکہ عزیز و اقارب اور احباب سبھی اچھّے تھے اور ان کی حوصلہ افزائی کی جاتی تھی۔ گھر میں لکھنے پڑھنے کا رجحان تھا، ماحول ادبی تھا۔ سبھی مطالعے کے عادی تھے اور مختلف موضوعات پر مباحث کے بھی۔ خالدہ حسین کے مطابق ان کی سہیلیاں بھی باذوق تھیں اور لائبریری سے کتابیں لے کر پڑھا کرتی تھیں۔ ایسے میں لکھنے لکھانے کی تحریک کیوں نہ پیدا ہوتی۔

    پاکستان کی اس ممتاز افسانہ نگار کی پسندیدہ مصنف قرۃُ العین حیدر تھیں۔ انھوں نے عالمی ادب بھی پڑھا اور جنون کی حد تک مطالعہ کی عادی رہیں۔ وہ کافکا کے بعد روسی ادیب ترگنیف، ٹالسٹائی اور دوستوفسکی سے متاثر ہوئیں۔

    خالدہ حسین ادب کی مختلف اصناف میں نت نئے تجربات، ادبی تحریکوں سے بھرپور آگاہی رکھتی تھیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان کا قلم تمام موضوعات کو بخوبی سمیٹتا رہا۔

    ان کی کہانیوں اور افسانوں کی طرف چلیں تو ’پہچان‘، ’دروازہ‘، ’مصروف عورت‘، ’خواب میں ہنوز‘، ’میں یہاں ہوں‘ وغیرہ قابلِ ذکر ہیں۔ خالدہ حسین نے ایک ناول بھی لکھا جس کا عنوان ’کاغذی گھاٹ‘ تھا۔ تاہم اسے وہ توجہ اور پذیرائی نہ مل سکی جس کی توقع تھی۔

    ان کی ایک کہانی ’سواری‘ نے اردو کی صفِ اوّل کی ادیب قرۃُ العین حیدر کو اس قدر متاثر کیا کہ وہ اس کا انگریزی میں ترجمہ کرنے پر مجبور ہوگئیں۔ یہ ایک ایسی کہانی تھی جس میں سماج اور ثقافت کے تمام رنگ شامل تھے۔ اس طویل کہانی کی فضا مابعد الطبیعاتی ہے۔ یہ کہانی ایٹم کے پلنے اور اس سے اٹھنے والے تعفن اور اس کے متاثرین کی زندگی پر لکھی گئی ہے۔ اس کا پلاٹ یہ ہے کہ ایک سواری گزرتی ہے جس سے تعفن اٹھتا ہے اور لوگ اس تعفن سے بیمار پڑجاتے ہیں۔ 3 کرداروں کے ساتھ کچرا ڈمپ کرنے والے گڑھے اور اس تعفن پر خالدہ حسین نے کیفیات اور صورتِ حال کو جس طرح بیان کیا ہے وہ نہایت متاثر کن ہے۔

    خالدہ حسین نے اس کہانی میں علامت اور واقعہ نگاری کے امتزاج سے قاری کی توجہ اپنی طرف مبذول کی۔ تاہم خالدہ حسین کے افسانوں کی ایک خوبی یہ بھی ہے کہ وہ ضرورت کے مطابق حقیقت نگاری کے ساتھ ساتھ اساطیر کی طرف متوجہ ہوجاتی ہیں اور یہ آمیزش افسانے کا حُسن بڑھا دیتی ہے۔ بلاشبہ انہوں نے معاشرتی مسائل کو تخلیقی انداز میں بیان کیا اور انہیں کسی خاص فکر یا نظریے کے تحت بیان کرنے سے گریز کیا ہے۔ ان کے بیشتر افسانے اور کہانیاں متوسط درجے کے گھرانوں کی عکاس ہیں۔ ان کے تمام کردار ان جذبات اور کیفیات سے لبریز ہیں جو ہمارے گرد عام ہیں۔

    ‘رہائی’ اور ‘تیسرا پہر’ کے علاوہ ‘جزیرہ’ اور ‘ابنِ آدم’ مہذب دنیا کی جانب سے فلسطین، عراق اور دیگر خطوں پر ظلم اور ناانصافی مسلط کرنے کی داستان ہیں۔ اسی طرح ‘سلسلہ’ اور ‘میں یہاں ہوں’ جیسی کہانیاں ایک قسم کی روحانی وارداتوں کا بیان ہیں۔

    ناقدین کے نزدیک وہ خوب علامتی یا تجریدی افسانہ لکھتی تھیں، مگر خود خالدہ حسین کی نظر میں ایسا نہیں تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ کہانیوں میں استعارہ اور علامت ہوگی، مگر اس پر معنویت غالب ہے۔

  • نذرُ السلام کا تذکرہ جو "شاہ خرچ” مشہور تھے!

    نذرُ السلام کا تذکرہ جو "شاہ خرچ” مشہور تھے!

    پاکستانی فلمی صنعت کے سنہرے دور کا ایک نام نذرُ الاسلام بھی ہے جو اعلیٰ دماغ اور تخلیقی صلاحیتوں کے حامل ایسے ہدایت کار تھے جنھوں نے کم مگر نہایت معیاری فلمیں‌ بنائیں۔ وہ فلم نگری میں‌ "دادا” مشہور تھے۔

    نذر الاسلام کلکتہ میں‌ 1939ء میں پیدا ہوئے تھے۔ تقسیم کے بعد ڈھاکا چلے گئے اور پھر وہاں چند فلمیں بنانے کے بعد لاہور آ بسے۔ اسی شہر میں 11 جنوری 1994ء کو وفات پائی اور پیوندِ خاک ہوئے۔

    نذرُ السلام "شاہ خرچ” بھی تھے۔ جو شاٹ پسند نہ آتا، اسے دوبارہ فلماتے اور اپنے کام کو خاصا وقت دیتے۔ وہ کم گو بھی تھے اور بہت زیادہ سوچنے کے عادی بھی۔ یہی وجہ ہے کہ ان کا کام بڑا ستھرا اور معیاری ہوتا تھا۔ وہ اپنی اسی بلند خیالی کے اعتبار سے دوسرے ہدایت کاروں سے الگ نظر آتے ہیں۔ وہ فوٹوگرافی اور میوزک کو بہت سمجھتے تھے، بالخصوص گانوں کی پکچرائزیشن اور اس کی کٹنگ میں انھیں کمال حاصل تھا۔

    وہ نیو تھیٹرز کلکتہ کے دبستان کے نمائندہ ہدایت کار تھے۔ ان کی فنی زندگی کا آغاز ڈھاکا سے بطور تدوین کار ہوا تھا۔ چند بنگالی فلموں کے لیے اپنی صلاحیتوں کا مظاہرہ کرنے کے بعد جب وہ پاکستان آئے تو یہاں فلم ساز الیاس رشیدی کے ساتھ فلمی سفر شروع کیا۔ ان کی فلموں میں حقیقت، شرافت، آئینہ، امبر، زندگی، بندش، نہیں ابھی نہیں، آنگن، دیوانے دو، لو اسٹوری، میڈم باوری کے نام سرفہرست ہیں۔ یہ وہ فلمیں تھیں جنھیں باکس آفس پر زبردست کام یابی ملی۔

    بطور ہدایات کار نذرُ الاسلام کی آخری فلم لیلیٰ تھی۔ یہ ان کی وفات کے بعد نمائش پذیر ہوئی تھی۔

  • یومِ وفات: نام وَر ادیب اور شاعر ابنِ انشا کو بطور مزاح نگار زیادہ شہرت ملی

    یومِ وفات: نام وَر ادیب اور شاعر ابنِ انشا کو بطور مزاح نگار زیادہ شہرت ملی

    اردو ادب میں‌ ابنِ انشا کو ان کی تخلیقات کی بدولت جو مقام حاصل ہے، اس میں وہ نظم اور نثر دونوں اصناف پر حاوی نظر آتے ہیں۔ ایک طرف شاعری، بالخصوص ان کی نظموں اور دوسری جانب ان کی مزاحیہ تحریروں نے قارئین کو اپنی جانب متوجہ کیا۔ کالم نویسی اور سفرنامہ نگاری ان کا ایک ایسا مستند حوالہ ہے جو ان کے منفرد اسلوب کی وجہ سے بہت مقبول ہوئے۔ آج ابنِ انشا کا یومِ وفات ہے۔

    سرطان کے مرض نے ابنِ انشا کو ہم سے ہمیشہ کے لیے چھین لیا تھا وہ علاج کی غرض سے لندن میں تھے جہاں 11 جنوری 1978ء کو ان کے انتقال کے بعد میّت کراچی لائی اور اس شہر میں ابنِ انشا سپردِ خاک کیے گئے۔

    ان کا اصل نام شیر محمد خان تھا۔ وہ 15 جون 1927ء کو ضلع جالندھر میں پیدا ہوئے تھے۔جامعہ پنجاب سے بی اے اور جامعہ کراچی سے اردو میں ایم اے کیا۔ انھوں نے درویش دمشقی کے نام سے کالم لکھنا شروع کیا تھا اور بعد میں باتیں انشا جی کے نام سے لکھنے لگے، وہ روزنامہ ’’انجام‘‘ کراچی اور بعد میں روزنامہ جنگ سے وابستہ ہوئے اور طویل عرصہ تک نیشنل بک کونسل کے ڈائریکٹر کی حیثیت سے بھی خدمات انجام دیں۔

    ابنِ انشا کا پہلا مجموعۂ کلام ’’چاند نگر‘‘ تھا۔ اس کے علاوہ ان کے شعری مجموعوں میں ’’اس بستی کے ایک کوچے‘‘ میں اور ’’دلِ وحشی‘‘ شامل ہیں۔ انھوں نے بچّوں کے لیے شاعری بھی کی اور نثر بھی لکھی۔ متعدد کتب کا اردو ترجمہ کیا اور خوب صورت سفرنامے بھی لکھے جن میں آوارہ گرد کی ڈائری، دنیا گول ہے، ابنِ بطوطہ کے تعاقب میں، چلتے ہو تو چین کو چلیے اور نگری نگری پھرا مسافر شامل ہیں۔

    مرحوم کی دیگر کتابوں میں اردو کی آخری کتاب، خمارِ گندم، باتیں انشا جی کی اور قصّہ ایک کنوارے کا بہت مقبول ہوئیں۔ مکتوبات بھی ان کے اسلوب اور دل چسپ انداز کے سبب قارئین میں مقبول تھے اور ابنِ انشا کے خطوط کتابی شکل میں بھی شایع ہوئے۔

    ابنِ انشا کی یہ غزل بہت مشہور ہے، ملاحظہ کیجیے۔

    انشاؔ جی اٹھو اب کوچ کرو، اس شہر میں جی کو لگانا کیا
    وحشی کو سکوں سے کیا مطلب، جوگی کا نگر میں ٹھکانا کیا

    اس دل کے دریدہ دامن کو، دیکھو تو سہی، سوچو تو سہی
    جس جھولی میں سو چھید ہوئے اس جھولی کا پھیلانا کیا

    شب بیتی، چاند بھی ڈوب چلا، زنجیر پڑی دروازے میں
    کیوں دیر گئے گھر آئے ہو سجنی سے کرو گے بہانا کیا

    اس حُسن کے سچّے موتی کو ہم ديکھ سکيں پر چُھو نہ سکيں
    جسے ديکھ سکيں پر چُھو نہ سکيں وہ دولت کيا وہ خزانہ کيا

    اس کو بھی جلا دُکھتے ہوئے مَن، اک شُعلہ لال بھبوکا بن
    یوں آنسو بن بہہ جانا کیا؟ یوں ماٹی میں مل جانا کیا

    اُس روز جو ان کو دیکھا ہے، اب خواب کا عالم لگتا ہے
    اس روز جو ان سے بات ہوئی، وہ بات بھی تھی افسانہ کیا

    جب شہر کے لوگ نہ رستہ دیں کیوں بَن میں نہ جا بسرام کرے
    دیوانوں کی سی نہ بات کرے تو اور کرے دیوانہ کیا

    ابنِ انشا نے محض 51 برس کی عمر میں‌ یہ دنیا چھوڑ دی تھی۔ وہ اپنے اہلِ قلم احباب میں بھی بہت پسند کیے جاتے تھے۔ ادیبوں اور شاعروں کی زندگی کے بعض واقعات پُرلطف بھی ہیں اور ان کی شخصیت کی کم زوریوں یا خوبیوں کو بھی بیان کرتے ہیں۔ یہاں ہم ممتاز مفتی کی کتاب اور اوکھے لوگ سے ابنِ انشا سے متعلق ایک واقعہ نقل کررہے ہیں۔

    "احمد بشیر کا کہنا ہے کہ ابنِ انشا نے بڑی سوچ بچار سے عشق لگایا تھا، ایسی محبوبہ کا چناؤ کیا تھا جو پہلے ہی کسی اور کی ہو چکی تھی اور شادی شدہ اور بچّوں والی تھی جس کے دل میں انشا کے لیے جذبۂ ہم دردی پیدا ہونے کا کوئی امکان نہ تھا۔ جس سے ملنے کے تمام راستے مسدود ہو چکے تھے۔ اپنے عشق کو پورے طور پر محفوظ کر لینے کے بعد اس نے عشق کے ساز پر بیراگ کا نغمہ چھیڑ دیا۔

    مواقع تو ملے، مگر انشا نے کبھی محبوبہ سے بات نہ کی، اس کی ہمّت نہ پڑی۔ اکثر اپنے دوستوں سے کہتا: ’’یار اُسے کہہ کہ مجھ سے بات کرے۔‘‘

    اس کے انداز میں بڑی منت اور عاجزی ہوتی پھر عاشق کا جلال جاگتا، وہ کہتا: ’’دیکھ اس سے اپنی بات نہ چھیڑنا۔ باتوں باتوں میں بھرما نہ لینا۔‘‘

    محبوبہ تیز طرّار تھی، دنیا دار تھی۔ پہلے تو تمسخر اڑاتی رہی۔ پھر انشا کی دیوانگی کو کام میں لانے کا منصوبہ باندھا۔ اس دل چسپ مشغلے میں میاں بھی شریک ہوگیا۔ انشا کو فرمائشیں موصول ہونے لگیں۔ اس پر انشا پھولے نہ سماتا۔

    دوستوں نے اسے بار بار سمجھایا کہ انشا وہ تجھے بنا رہی ہے۔ انشا جواب میں کہتا کتنی خوشی کی بات ہے کہ بنا تو رہی ہے۔ یہ بھی تو ایک تعلق ہے۔ تم مجھے اس تعلق سے محروم کیوں کر رہے ہو۔

    ایک روز جب وہ فرمائش پوری کرنے کے لیے شاپنگ کرنے گیا تو اتفاق سے میں بھی ساتھ تھا۔ میں نے انشا کی منتیں کیں کہ انشا جی اتنی قیمتی چیز مت خریدو۔ تمہاری ساری تنخواہ لگ جائے گی۔

    انشا بولا۔ ’’مفتی جی، تمہیں پتا نہیں کہ اس نے مجھے کیا کیا دیا ہے۔ اس نے مجھے شاعر بنا دیا، شہرت دی، زندگی دی!‘‘ انشا کی آنکھوں میں آنسو چھلک رہے تھے۔