Tag: 11 فروری وفات

  • سلویا پلاتھ: منفرد شاعرہ، باکمال ادیب

    سلویا پلاتھ: منفرد شاعرہ، باکمال ادیب

    سلویا پلاتھ کو اس کی منفرد شاعری نے دنیا بھر میں پہچان دی۔ اس نے کہانیاں اور ایک ناول بھی تخلیق کیا۔ محض 31 سال کی عمر میں‌ دنیا سے رخصت ہوجانے والی سلویا پلاتھ کی موت آج بھی ایک معمّہ ہے۔ کہا جاتا ہے کہ اس نے خود کُشی کرلی تھی۔

    یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں‌ تھی کہ سلویا پلاتھ ایک عرصے تک شدید ذہنی دباؤ کا شکار رہی۔ وہ تین مرتبہ اپنی زندگی کا خاتمہ کرنے کی ناکام کوشش کرچکی تھی۔ اس نے ماہرِ نفسیات سے اپنا علاج بھی کروایا تھا، مگر ڈپریشن سے مکمل نجات حاصل نہیں کرسکی اور ایک روز اس کی موت کی خبر آئی۔

    اس منفرد شاعرہ اور باکمال کہانی نویس نے کم عمری میں شہرت حاصل کر لی تھی۔ 27 اکتوبر 1932ء کو پیدا ہونے والی سلویا پلاتھ کے والد ایک کالج میں پروفیسر اور ماہرِ حشرات تھے۔ سلویا شروع ہی سے فطرت اور حسین مناظر میں کشش محسوس کرنے لگی تھی۔ اسے زندگی کے ابتدائی برسوں ہی میں اپنے اندر ایک ایسی لڑکی مل گئی تھی جو اپنے جذبات اور محسوسات کو الفاظ میں قرینے سے ڈھالنا جانتی تھی۔ جب سلویا نے جان لیا کہ وہ شاعری کرسکتی ہے تو اس نے باقاعدہ قلم تھام لیا۔ وہ 18 سال کی تھی جب ایک مقامی اخبار میں اس کی پہلی نظم شایع ہوئی۔ بعد میں‌ اس نے نثر کی طرف توجہ دی اور آغاز بچّوں کے لیے کہانیاں لکھنے سے کیا۔ اس نے ایک ناول دی بیل جار کے نام بھی لکھا اور شاعری کے علاوہ یہ بھی اس کی ایک وجہِ شہرت ہے۔

    کہا جاتا ہے کہ اس ناول کے چند ابواب دراصل سلویا پلاتھ کی ذاتی زندگی کا عکس ہیں۔ اس کی نظموں کا پہلا مجموعہ 1960ء میں شایع ہوا تھا۔ سلویا کی الم ناک موت کے بعد کے برسوں بعد اس کی دیگر نظموں‌ کو کتابی شکل میں‌ شایع کیا گیا تھا۔ اس شاعرہ کی نظموں کا متعدد زبانوں میں ترجمہ کیا گیا جن میں اردو بھی شامل ہے۔ بعد از مرگ سلویا پلاتھ کو اس کی شاعری پر پلٹزر پرائز دیا گیا تھا۔

    شاعرہ اور ناول نگار سلویا پلاتھ کی ذاتی زندگی اتار چڑھاؤ اور تلخیوں سے بھری پڑی ہے۔ اس نے اپنے زمانے کے مشہور برطانوی شاعر ٹیڈ ہیوگس سے شادی کی تھی اور اس جوڑے کے گھر دو بچّوں نے جنم لیا، لیکن ان کی یہ رفاقت تلخیوں کا شکار ہوگئی اور ایک وقت آیا جب انھوں نے علیحدگی کا فیصلہ کر لیا، اس کے بعد حساس طبع سلویا پلاتھ شدید نفسیاتی دباؤ کا شکار ہوگئی اور خود کو سمیٹ نہ پائی۔ خیال ہے کہ ماضی کی تکلیف دہ یادوں نے اسے موت کو گلے لگانے پر اکسایا ہوگا۔ وہ 11 فروری 1963ء کو اپنے گھر میں‌ مردہ پائی گئی تھی۔

  • سندھی زبان و ادب کے محقّق ڈاکٹر چندگر بخشانی کا تذکرہ

    سندھی زبان و ادب کے محقّق ڈاکٹر چندگر بخشانی کا تذکرہ

    سندھ دھرتی کی ہزاروں سال قدیم تہذیب، ثقافت اور اس دھرتی پر علم و ادب کے حوالے سے سرمائے کو اکٹھا کرکے، اپنی تحقیق کے بعد محنت اور لگن سے اس کی ترتیب و تدوین اور اشاعت ایک بڑا کارنامہ ہے جسے انجام دینے والوں میں سے ایک معتبر نام ڈاکٹر ہوت چندگر بخشانی کا بھی ہے۔

    ان کا ایک بڑا کارنامہ سندھ کے عظیم صوفی اور شاعر شاہ عبدُ اللطیف بھٹائی کے کلام کو اشعار کی صورت یکجا کرنا ہے۔

    ڈاکٹر بخشانی نے شاہ عبداللطیف بھٹائی کے کلام کو اشعار کی صورت میں جمع کر کے محققانہ چھان بین کے بعد اس طرح مرتّب کیا ہے کہ اب ان کی دی ہوئی ترتیب ہی مستند قرار پائی ہے۔

    ڈاکٹر چندگر بخشانی نے شاہ جو رسالو کی تین جلدیں مرتب کرکے شائع کیں لیکن چوتھی جلد ان کی وفات کی وجہ سے اشاعت پذیر نہ ہوسکی، جسے بعد میں مشہور محقق ڈاکٹر نبی بخش خان بلوچ نے مکمل کیا ۔

    ڈاکٹر چندگر بخشانی کا دوسرا تحقیقی کارنامہ ’’لواری جا لال‘‘ نامی کتاب کی تالیف ہے۔ یہ کتاب دراصل سوانحی کتاب ہے جس میں ڈاکٹر گربخشانی نے لواری سلسلے کی بعض شخصیات کا تذکرہ کیا ہے۔ ڈاکٹر گربخشانی کی تحقیقی و تنقیدی کتابوں اور مضامین کی فہرست بہت طویل ہے جس کی بنیاد پر ڈاکٹر گربخشانی کو سندھی تنقید کے بانیوں میں شمار کیا جاتا ہے۔

    ڈاکٹر ہوت چند مول چند گربخشانی 8 مارچ 1884ء کو سندھ کے تاریخی شہر حیدرآباد میں پیدا ہوئے۔ 1900ء میں میٹرک کا امتحان پاس کرنے کے بعد ڈی جے کالج کراچی میں داخلہ لیا اور 1905ء میں بی اے کا امتحان امتیازی نمبروں سے پاس کیا۔ اسی سال ایم اے کے لیے ولسن کالج بمبئی میں داخل ہوئے۔

    1907ء میں ایم اے کرنے کے بعد اسی کالج میں انگریزی اور فارسی کے اسسٹنٹ پروفیسر مقرر ہوئے اور ایک ہی سال بعد ڈی جے کالج کراچی میں فارسی کے پروفیسر ہو گئے۔

    یہاں انھوں نے اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا اور بتدریج ترقی کی منازل طے کرتے ہوئے پرنسپل کے عہدے پر فائز ہو ئے۔

    1928ء میں ڈاکٹر گربخشانی لندن یونیورسٹی چلے گئے، جہاں Mysticism in the Early 19th Century Poetry of England (انگلستان کی ابتدائی انیسویں صدی کی شاعری میں تصوف) کے عنوان سے مقالہ لکھا جس پر انھیں پی ایچ ڈی کی ڈگری تفویض ہوئی۔ یہ مقالہ بعد ازاں ڈاکٹر گربخشانی کی صد سالہ تقریبات کی مناسبت سے بھارت سے کتابی صورت میں بھی شائع ہوا۔

    ڈاکٹر ہوت چند گربخشانی نے ہر چند سندھی ادب میں متنوع اضافے کیے ہیں اور سندھی فکشن میں اپنے کام کی بنیاد پر بھی اپنے ہم عصروں میں انفرادیت رکھتے ہیں لیکن دراصل وہ تحقیق کے آدمی تھے۔

    ان کی دیگر تصانیف میں نور جہاں، مقدمۂ لطیفی اور روح رھان شامل ہیں۔ انھوں نے سندھی تنقید نگاری کو اپنے اظہار کے لیے ایک خاص زبان اور اسلوب بخشا اور اپنی تخلیقات سے سندھی زبان و ادب پر گہرے اثرات مرتب کیے۔

    وہ 11 فروری 1947ء میں حیدرآباد، سندھ میں وفات پا گئے۔

    (محمد عارف سومرو کے مضمون سے)

  • ہاکی کے مشہور کھلاڑی تنویر ڈار کی برسی

    ہاکی کے مشہور کھلاڑی تنویر ڈار کی برسی

    تنویر ڈار کا شمار اپنے دور کے ہاکی کے بہترین کھلاڑیوں میں ہوتا تھا۔ وہ 11 فروری 1998ء کو کراچی میں وفات پاگئے تھے۔ کھیل کے میدان میں پنالٹی کارنر ان کی وجہِ شہرت ہیں۔

    ہاکی کے اس مشہور پاکستانی کھلاڑی کا تعلق امرتسر سے تھا جہاں وہ 4 جون 1937ء کو پیدا ہوئے تھے۔ اپنے بڑے بھائی منیر ڈار کی ہاکی سے ریٹائرمنٹ کے بعد تنویر ڈار پاکستان کی ہاکی ٹیم کے مستقل فل بیک بن گئے۔ انھوں نے 1968ء کے اولمپکس، 1970ء کے ایشیائی کھیلوں اور 1971ء کے عالمی کپ میں زبردست کھیل کا مظاہرہ کیا۔ ان تینوں ٹورنامنٹس میں پاکستان نے پہلی پوزیشن حاصل کی تھی۔

    تنویر ڈار نے مجموعی طور پر 80 بین الاقوامی سطح کے میچ کھیلے اور 48 گول اسکور کیے۔ 1971ء کے عالمی کپ میں انھوں نے تین ہیٹ ٹرکس اسکور کیں اور ریکارڈ بنایا۔

    14 اگست 1971ء کو انھیں‌ حکومتِ پاکستان کی جانب سے صدارتی تمغہ برائے حسنِ کارکردگی عطا کیا گیا تھا۔

  • معروف اداکار قاضی واجد کی تیسری برسی آج منائی جارہی ہے

    معروف اداکار قاضی واجد کی تیسری برسی آج منائی جارہی ہے

    معروف اداکار قاضی واجد 11 فروری 2018ء کو اس جہانِ فانی سے کوچ کر گئے تھے۔ آج ریڈیو اور ٹیلی ویژن کے اس نام وَر اور باکمال فن کار کی برسی منائی جارہی ہے۔ زندگی کی 88 بہاریں دیکھنے والے قاضی واجد دل کا دورہ پڑنے کے سبب انتقال کرگئے تھے۔

    قاضی واجد نے ریڈیو اور ٹیلی ویژن ہی نہیں فلم اور تھیٹر پر بھی اپنی اداکاری کے جوہر دکھائے اور شائقین کو اپنی طرف متوجہ کرلیا۔ انھوں نے اپنے کیریئر کا آغاز ریڈیو سے کیا جہاں‌ بچّوں کے پروگرام سے اپنی فن کارانہ صلاحیتوں‌ کا اظہار کرنے کے بعد اسی میڈیم پر نشر کیے جانے والے ڈراموں میں متعدد کردار نبھائے اور شہرت حاصل کی۔ جب 60 کی دہائی میں پاکستان ٹیلی ویژن کا آغاز ہوا تو قاضی واجد اس سے منسلک ہو گئے۔

    1969ء میں ٹیلی ویژن کی تاریخ کا مقبول ترین ڈرامہ سیریل ’خدا کی بستی‘ شروع ہوا تو اس میں قاضی واجد نے راجہ نامی بدمعاش کا کردار ادا کیا جس نے انھیں‌ ملک گیر شہرت دی۔

    قاضی واجد نے ٹیلی ویژن پر کئی ڈراموں میں‌ مختلف قسم کے کردار ادا کیے، لیکن ان کے حصّے میں زیادہ تر منفی کردار آئے۔ سنجیدہ کرداروں کے ساتھ قاضی واجد نے بعض ڈراموں میں‌ مزاحیہ رول بھی ادا کیے۔

    1988 میں قاضی واجد کو صدارتی تمغہ برائے حسنِ کارکردگی سے بھی نوازا گیا تھا۔

    ڈراما ‘دھوپ کنارے،’ ‘تنہائیاں، ’حوّا کی بیٹی،‘ ‘خدا کی بستی’ اور ‘انار کلی’ میں انھوں نے بے مثال اور لاجواب اداکاری سے ناظرین کو اپنا گرویدہ بنا لیا۔ پاکستان بھر میں ان کی شخصیت اور فن کے مداح و معترف موجود ہیں جن کے دلوں میں ان کی یاد ہمیشہ زندہ رہے گی۔