Tag: 11 مارچ وفات

  • یومِ وفات: ممتاز شیریں کو اردو کی پہلی خاتون نقّاد کہا جاتا ہے

    یومِ وفات: ممتاز شیریں کو اردو کی پہلی خاتون نقّاد کہا جاتا ہے

    ممتاز افسانہ نگار، نقّاد اور مترجم ممتاز شیریں نے 11 مارچ 1973ء کو اس دنیا سے کوچ کیا۔ آج ان کا یومِ‌ وفات ہے۔ زندگی کے آخری ایّام میں وہ وفاقی وزارتِ تعلیم میں بہ حیثیت مشیر خدمات انجام دے رہی تھیں۔

    ممتاز شیریں سے ایک ملاقات کے عنوان سے میرزا ادیب لکھتے ہیں: "ممتاز شیریں جس وقت دنیائے ادب میں داخل ہوئیں تو ان کی حیثیت افسانوں کے ایک سخت گیر نقاد کی تھی۔ ان کے مضامین پڑھے تو پتہ چلا کہ یہ خاتون اردو کے افسانے تو رہے ایک طرف انگریزی، روسی اور فرانسیسی افسانوی ادب کا بھی بالاستیعاب مطالعہ کرچکی ہیں۔

    ان کا مقالہ” تکنیک کا تنوع” سویرا میں چھپا تو ہر طرف اس کی دھوم مچ گئی۔ یہ مقالہ ایک ایسے ذہن کی پیداوار معلو ہوتا تھا جس نے برسوں افسانے کی متنوع تکنیک سمجھنے کی کوشش کی اور دنیا کے نام ور افسانہ نگاروں کے مشہور افسانوں کو غور و فکر کی گرفت میں لے چکا ہے۔ یہ مضمون اور ان کے دوسرے مضامین پڑھ کر میں نے ان کے بارے میں ایک خاص تصویر بنالی تھی اس کے بعد ان کے افسانے چھپنے لگے معلوم ہوا کہ وہ جتنی اچھی نقاد ہیں اسی قدر ماہر فن افسانہ نگار بھی ہیں۔

    اپنی افسانوی تحقیقات میں وہ زندگی کی ہر حقیقت کو، وہ کتنی بھی تلخ اور مکروہ کیوں نہ ہو، اس کی پوری جزیات کے ساتھ پیش کردیتی تھیں۔ جنتی موضوعات کے سلسلے میں ان کا قلم خاص طور پر بڑا بے باک تھا۔ سعادت حسن منٹو ان کا پسندیدہ افسانہ نگار تھا۔ اس سے بھی ان کے تخلیقی رجحانِ طبع کا اندازہ ہوجاتا ہے۔”

    ممتاز شیریں کا پہلا افسانہ انگڑائی ادبی مجلّہ ساقی، دہلی میں 1944ء میں شائع ہوا تھا جسے ادبی حلقوں میں زبردست پزیرائی حاصل ہوئی اور بعد میں بھی انھوں نے اپنے تنقیدی مضامین اور تراجم سے علم و ادب کی دنیا کو مالا مال کیا۔ ممتاز شیریں معروف ادبی جریدے نیا دور کی مدیر بھی تھیں۔ وہ اس زمانے کی روایتی سوچ اور عورتوں سے متعلق مخصوص ذہنیت کو مسترد کرتے ہوئے اپنے افکار اور قلم کی بے باکی کی وجہ سے بھی مشہور ہوئیں۔

    ممتاز شیریں 12 ستمبر 1924ء کو ہندو پور (آندھرا پردیش) میں پیدا ہوئیں۔ ان کے نانا جو میسور میں مقیم تھے، انھوں نے اپنی اس نواسی کو تعلیم و تربیت کی غرض سے اپنے پاس میسور بلا لیا۔ اس طرح بچپن ان کا ننھیال میں گزرا۔ ممتاز شیریں نہایت ذہین اور قابل طالبہ تھیں اور گھر کا ماحول بھی علمی و ادبی تھا جس نے انھیں لکھنے لکھانے کی طرف راغب کرلیا۔ یوں تعلیم کے ساتھ ان کا ادبی سفر بھی جاری رہا اور 1942ء میں ان کی شادی صمد شاہین سے ہو گئی جو بعد میں پاکستان میں سرکاری عہدے پر فائز ہوئے۔ یہ جوڑا بیرونِ ملک بھی مقیم رہا اور قیامِ پاکستان کے بعد اس خاندان نے کراچی میں سکونت اختیار کی تھی۔

    ممتاز شیریں کے افسانوی مجموعوں میں اپنی نگریا، حدیثِ دیگراں اور میگھ ملہار شامل ہیں جب کہ ان کے تنقیدی مضامین کے مجموعے معیار اور منٹو، نہ نوری نہ ناری کے نام سے اشاعت پذیر ہوئے۔ انھوں نے جان اسٹین بک کے مشہور ناول دی پرل کا اردو ترجمہ دُرِشہوار کے نام سے کیا تھا۔ ان کی آپ بیتی اور خطوط بھی لائقِ مطالعہ ہیں۔

  • یہودی تاجر کی بیٹی کے کردار سے شہرت پانے والی طاہرہ واسطی کا تذکرہ

    یہودی تاجر کی بیٹی کے کردار سے شہرت پانے والی طاہرہ واسطی کا تذکرہ

    پاکستان ٹیلی ویژن کے یادگار ڈرامہ سیریل افشاں میں یہودی تاجر کی بیٹی اور آخری چٹان میں ملکہ ازابیل کے کردار سے طاہرہ واسطی نے غیر معمولی شہرت پائی۔ طاہرہ واسطی بارعب اور پُروقار شخصیت کی مالک تھیں جنھیں خاص طور پر اُن کرداروں‌ کے لیے منتخب کیا جاتا تھا، جن کے لیے شاہانہ کرّوفر اور رعب و دبدبہ ضروری ہوتا تھا۔

    طاہرہ واسطی 1980ء اور 1990ء کے عشرے میں پاکستان ٹیلی ویژن کے ناظرین میں بے حد بہت مقبول تھیں۔ آج اس اداکارہ کی برسی منائی جارہی ہے۔ وہ 2012ء میں اس دنیا سے رخصت ہوگئی تھیں۔

    1968ء میں طاہرہ واسطی نے پاکستان ٹیلی ویژن سے اداکاری کا آغاز کیا تھا۔ ان کا پہلا ڈرامہ سیریل ’جیب کترا‘ تھا جو بہت مشہور ہوا۔ یہ اردو کے نام ور افسانہ نگار سعادت حسن منٹو کی کہانی پر مبنی سیریل تھا۔

    طاہرہ واسطی نے 1944ء میں‌ سرگودھا میں‌ آنکھ کھولی تھی۔ وہیں ابتدائی تعلیم مکمل کی اور بعد میں لاہور کی درس گاہ میں داخلہ لیا۔ ان کی شادی رضوان واسطی سے ہوئی جو معروف ٹی وی اداکار اور انگریزی نیوز کاسٹر تھے۔ ان کی صاحبزادی لیلیٰ واسطی بھی ٹیلی ویژن پر اداکاری کرچکی ہیں۔

    پی ٹی وی کی معروف اداکارہ طاہرہ واسطی کے تاریخی کہانیوں پر مبنی ڈراموں میں غرناطہ، شاہین، ٹیپو سلطان کے علاوہ شمع اور دلدل شامل ہیں جو اپنے وقت کے مقبول ترین اور یادگار ڈرامے ثابت ہوئے۔

    وہ ایک منجھی ہوئی اداکارہ ہی نہیں قابل رائٹر بھی تھیں جنھوں نے خود بھی متعدد ڈرامے لکھے۔ ایڈز جیسے موضوع پر ان کا تحریر کردہ کھیل کالی دیمک کے نام سے نشر ہوا تھا جسے بہت پسند کیا گیا۔ طاہرہ واسطی نے سائنس فکشن بھی لکھا۔

  • افسانہ نگار، نقّاد اور مترجم ممتاز شیریں کا تذکرہ

    افسانہ نگار، نقّاد اور مترجم ممتاز شیریں کا تذکرہ

    اردو کی نام ور نقّاد، افسانہ نگار اور مترجم ممتاز شیریں 11 مارچ 1973ء کو اسلام آباد میں وفات پاگئی تھیں۔ آج ان کا یومِ‌ وفات ہے۔

    ممتاز شیریں کا پہلا افسانہ انگڑائی ادبی مجلّہ ساقی، دہلی میں 1944ء میں شائع ہوا تھا جس نے ادبی حلقوں میں زبردست پزیرائی حاصل کی اور یوں ان کا تخلیقی سفر جاری رہا اور اس سفر میں‌ ان کے قلم نے کہانیاں اور افسانوں کے ساتھ تنقیدی مضامین اور ترجمہ بھی کیا۔ وہ اردو کے معروف ادبی جریدہ نیا دور کی مدیر بھی تھیں۔

    12 ستمبر 1924ء کو ہندو پور (آندھرا پردیش) میں پیدا ہونے والی ممتاز شیریں کے افسانوی مجموعوں میں اپنی نگریا، حدیثِ دیگراں اور میگھ ملہار شامل ہیں جب کہ ان کے تنقیدی مضامین کے مجموعے معیار اور منٹو، نہ نوری نہ ناری کے نام سے اشاعت پذیر ہوئے۔ انھوں نے جان اسٹین بک کے مشہور ناول دی پرل کا اردو ترجمہ دُرِشہوار کے نام سے کیا تھا۔

  • معروف خطّاط یوسف دہلوی کی برسی

    معروف خطّاط یوسف دہلوی کی برسی

    خطّاطی اور خوش نویسی ایک قدیم فن ہے جس کی مختلف شکلیں‌ ہیں اور اسلامی خطّاطی کی بات کی جائے تو اس میں طغریٰ اور عام تحریری نمونے شامل ہیں۔ آج اسی فن کے حوالے سے معروف محمد یوسف دہلوی کی برسی ہے جو ایک ماہر خوش نویس اور استاد خطّاط تھے۔ یوسف دہلوی 11 مارچ 1977ء کو کراچی میں‌ ٹریفک حادثے میں‌ زندگی سے محروم ہوگئے تھے۔

    یوسف دہلوی کے والد منشی محمد الدین جنڈیالوی بھی خوش نویس اور خطّاط تھے جنھوں نے 1932ء میں غلافِ کعبہ پر خطّاطی کا شرف حاصل کیا۔ یوسف دہلوی نے اپنے والد سے ہی ذوقِ خوش نویسی سمیٹا تھا۔ انھیں شروع ہی سے خوش خطی کا شوق ہوگیا تھا۔ یوسف دہلوی عہدِ شاہ جہانی کے مشہور خطاط، عبدالرشید دیلمی سے بہت متاثر تھے اور اسی کا مطالعہ کرتے ہوئے خود بھی اس فن میں ماہر ہوئے، انھوں نے اپنی اختراع اور اجتہادی صلاحیتوں سے کام لے کر ایک نیا طرز متعارف کروایا جسے دہلوی طرزِ نستعلیق کہا جاتا ہے۔

    محمد یوسف دہلوی 4 ستمبر 1894ء کو دہلی میں پیدا ہوئے تھے۔ قیامِ پاکستان کے بعد وزیراعظم لیاقت علی خان کے اصرار اور ڈاکٹر ذاکر حسین کی کوششوں سے یوسف دہلوی نے پاکستان کے کرنسی نوٹوں پر خطّاطی کی۔ بعدازاں ہجرت کرکے پاکستان آگئے اور پاکستان کے سکّوں پر حکومتِ پاکستان کے خوب صورت طغریٰ کی تخلیق اور خطّاطی کا کام سرانجام دیا۔

    ریڈیو پاکستان کا مونوگرام جس پر قرآنی آیت دیکھی جاسکتی ہے، وہ بھی یوسف دہلوی کے موقلم کا نتیجہ ہے۔

  • نادرِ روزگار شخصیت آغا شاعر قزلباش کا یومِ وفات

    نادرِ روزگار شخصیت آغا شاعر قزلباش کا یومِ وفات

    اردو زبان و ادب کا ایک نہایت معتبر اور مستند نام آغا شاعر قزلباش دہلوی کا ہے جنھیں ہندوستان بھر میں استادِ فن ،صاحبِ کمال اور زبان داں کی حیثیت سے پہچانا جاتا تھا۔ 11 مارچ 1940ء کو یہ نادرِ روزگار شخصیت اس دنیا سے رخصت ہوگئی تھی۔ آج ان کی برسی ہے۔

    آغا صاحب کے سیکڑوں شاگرد تھے جب کہ علّامہ اقبال جیسی ہستیاں زبان کے معاملہ میں ان سے رجوع کرتی تھیں۔ آغا شاعر قزلباش دہلوی اپنے وقت کے استاد شاعر داغ دہلوی کے شاگرد تھے، لیکن زبان و بیان پر عبور اور اپنی خوش گوئی کے سبب نہ صرف عوام اور خواص میں شہرت و مقبولیت حاصل کی بلکہ ان کے ہم عصر اور استاد شاعر کا درجہ رکھنے والے بھی ان کے کلام کی فصاحت، روانی اور برجستگی کے معترف رہے۔

    وہ 5 مارچ 1871ء کو پیدا ہوئے تھے۔ ان کا اصل نام آغا مظفر علی بیگ قزلباش تھا۔ انھوں نے حیدرآباد دکن کا رخ کیا تو وہاں داغ دہلوی کے شاگرد ہوگئے۔ وہیں سے شوخیٔ مضمون اور روزمرہ کا بے تکلف استعمال آپ کے کلام کا جزوِ لازم بن گیا۔ آغا شاعر قزلباش ایک اچھے ڈرامہ نگار بھی تھے۔ انھوں نے جو چند ڈرامے لکھے ان میں حورِ عرب مشہور ہوا۔

    انھوں نے قرآن پاک کا منظوم ترجمہ بھی کیا۔ اس کے علاوہ انھوں نے عمر خیام کے رباعیات کا بھی منظوم اردو ترجمہ کیا اور ان کا ایک نثری مجموعہ خمارستان کے نام سے بھی شایع ہوا۔ ان کی شعری تصانیف میں تیر و نشر، آویزہ گوش، دامنِ مریم اور پرواز شامل ہیں۔

  • تاریخی کرداروں سے غیرمعمولی شہرت حاصل کرنے والی اداکارہ طاہرہ واسطی کی برسی

    تاریخی کرداروں سے غیرمعمولی شہرت حاصل کرنے والی اداکارہ طاہرہ واسطی کی برسی

    11 مارچ 2012ء کو پاکستان ٹیلی وژن کی معروف اداکارہ طاہرہ واسطی ہمیشہ کے لیے اس دنیا سے رخصت ہوگئی تھیں۔ آج ان کی برسی ہے۔ صف اوّل کے فن کاروں میں‌ شمار کی جانے والی طاہرہ واسطی پُروقار اور بارعب شخصیت کی مالک تھیں جنھیں شاہانہ کرّوفر اور شان و شوکت والے کرداروں کے لیے خاص طور پر منتخب کیا جاتا تھا۔

    1968ء میں طاہرہ واسطی نے پاکستان ٹیلی ویژن سے اداکاری کا آغاز کیا اور ان کا پہلا ڈرامہ سیریل ’جیب کترا‘ بہت مشہور ہوا۔ یہ سیریل ممتاز افسانہ نگار سعادت حسن منٹو کی کہانی پر مبنی تھا۔

    1944ء میں‌ سرگودھا میں‌ پیدا ہونے والی طاہرہ واسطی نے ابتدائی تعلیم مقامی سطح پر حاصل کی اور اعلیٰ تعلیم لاہور سے مکمل کی۔ ان کے شوہر رضوان واسطی بھی معروف ٹی وی اداکار اور انگلش نیوز کاسٹر تھے۔ ان کی صاحبزادی لیلیٰ واسطی بھی ٹیلی ویژن پر اداکاری کرچکی ہیں۔

    طاہرہ واسطی نے 1980ء اور 1990ء کے عشرے میں کئی مشہور ڈراموں میں کام کیا اور ناظرین میں مقبول اور ان کی پسندیدہ اداکارہ رہیں تاریخی واقعات پر مبنی ڈراموں میں ان کی اداکاری کو خاص طور پسند کیا گیا۔

    مشہور ڈرامہ سیریل افشاں میں طاہرہ واسطی نے یہودی تاجر کی بیٹی اور آخری چٹان میں ملکہ ازابیل کا کردار نبھایا تھا جسے غیر معمولی شہرت اور مقبولیت حاصل ہوئی۔ ان کے دیگر مشہور تاریخی ڈراموں میں غرناطہ، شاہین اور ٹیپو سلطان شامل ہیں۔

    طاہرہ واسطی نے متعدد ڈرامے بھی تحریر کیے جن میں ایڈز کے موضوع پر کالی دیمک بہت مشہور ہوا۔