Tag: 11 نومبر وفات

  • ممتاز افسانہ نگار راجندر سنگھ بیدی کا تذکرہ

    ممتاز افسانہ نگار راجندر سنگھ بیدی کا تذکرہ

    بیدی اردو کے چند ممتاز ترین افسانہ نگاروں میں شامل ہیں۔ انھوں نے ڈرامہ لکھا اور فلموں کے لیے مکالمے بھی تحریر کیے۔

    راجندر سنگھ بیدی کی تحریریں اپنے ہم عصروں کے مقابلے میں زیادہ گمبھیر، تہ دار اور پُرمعنٰی ہیں۔ بیدی کے افسانے انسانی شخصیت کا لطیف ترین عکس ہمارے سامنے لاتے ہیں اور وہ آئینہ خانہ ہیں‌ جس میں انسان کا سچّا روپ ظاہر ہوتا ہے۔ وہ اپنی کہانیوں میں فرد اور سماج کے پیچیدہ رشتوں اور انسان کی شخصیت کے پُراسرار تانے بانے بھی اس خوبی سے پیش کرتے ہیں کہ وہ زیادہ بامعنٰی، بلیغ اور خیال انگیز ثابت ہوتے ہیں، اور اس میں‌ اپنے تخیّل و قلم کی انفرادیت کا اظہار اُس سوز و گداز سے کرتے ہیں جو احساس کی بلندی پر پہنچ کر ہی سامنے آسکتا ہے۔ ان کے ہاں استعارہ اور اساطیری تصوّرات بہت اہمیت رکھتے ہیں۔

    بیدی 1915ء میں سیالکوٹ میں پیدا ہوئے۔ زندگی کا ابتدائی عرصہ لاہور میں گزرا اور وہیں تعلیم حاصل کی۔ ایک محکمہ میں کلرک بھرتی ہوئے اور ملازمت کے ساتھ ادبی سفر بھی رکھا۔

    بیدی کی ادبی زندگی کا آغاز 1932ء میں ہوا۔ مشہور ہے کہ وہ محسن لاہوری کے نام سے انگریزی اور اردو میں نظمیں اور کہانیاں تخلیق کرنے لگے جنھیں کالج میگزین اور مقامی اخبارات میں جگہ ملی۔ بعد میں یہ سفر اپنے اصل نام سے جاری رکھا اور ان کے افسانوں کے مجموعے، مضامین اور خاکے بھی شایع ہوئے۔ راجندر سنگھ بیدی کو اپنے عہد کا بڑا اور صاحبِ طرز ادیب تسلیم کیا گیا۔ انھوں نے طنزو مزاح بھی لکھا۔

    بیدی نے تقریباً ستّر فلموں کے مکالمے لکھے۔ ان میں بڑی بہن، داغ، مرزا غالب، دیو داس، ستیہ کام اور ابھیمان کے مکالمے اپنی ادبیت اور کردار و ماحول شناسی کی بنا پر سراہے گئے۔ بیدی نے فلم سازی میں بھی خود کو آزمایا اور گرم کوٹ، رنگولی، بھاگن اور آنکھیں نامی فلمیں بنائیں۔ ان کی کاوش دستک کو اعلیٰ فنی خوبیوں کی بنا پر 1970ء میں قومی ایوارڈ بھی دیا گیا۔

    راجندر سنگھ بیدی کی کہانیوں میں متوسط طبقے کے متنوع کرداروں اور ماحول کے ساتھ انسانی رشتوں کے اتار چڑھاؤ سے پیدا ہونے والے مسائل پڑھنے کو ملتے ہیں۔ متوسط اور نچلے متوسط طبقے کی ہندوستانی عورت اور مرد کے کردار ان کے افسانوں میں نمایاں ہیں۔

    انھوں نے اپنی پہلی مختصر کہانی، مہارانی کا تحفہ پر لاہور کے ادبی جریدے کی جانب سے سال کی بہترین مختصر کہانی کا انعام بھی حاصل کیا تھا۔ ان کی مختصر کہانیوں کا پہلا مجموعہ 1940ء میں منظرِ عام پر آیا اور دوسرا مجموعہ 1943ء میں شائع ہوا۔ بیدی کا مشہور اردو ناول ایک چادر میلی سی کا انگریزی ترجمہ بھی کیا گیا جس پر انھیں ساہتیا اکیڈمی ایوارڈ سے نوازا گیا تھا۔

    بیدی کو ان کے تخلیقی جوہر نے مسلسل دماغ سوزی اور اپنی کہانیوں پر محنت کرنے پر آمادہ کیے رکھا اور انھوں نے حقیقت اور تخیّل کے امتزاج سے لاجواب کہانیاں قارئین کو دیں۔

    بیدی نے مختلف جرائد کے لیے لکھا، ادارت کی، اور ریڈیو کے لیے ڈرامے یا اسکرپٹ تحریر کرتے ہوئے 1946ء میں اپنا پبلشنگ ہاؤس قائم کیا، لیکن بٹوارے کے بعد 1947ء میں انھیں لاہور چھوڑنا پڑا۔

    بیدی نے اردو ادب کو کئی کہانیاں دیں اور ان کا قلم مختلف صورتوں یا اصناف میں‌ ہمیشہ متحرک رہا، لیکن فلم انڈسٹری میں کیمرے کے پیچھے رہ کر بھی انھوں نے بڑا کام کیا۔

    فلمی سرگرمیوں کے ساتھ ساتھ بیدی نے اس زمانے میں‌ متحدہ ہندوستان کے پنجاب کے خوش حال و بدحال لوگوں کی زندگی کا گہرا مشاہدہ کیا اور ان کے تخلیقی جوہر نے اسے بڑی درد مندی کے ساتھ کاغذ پر منتقل کیا۔

    وہ عاشق مزاج بھی تھے۔ انھوں نے اپنی ازدواجی زندگی کو رومان اور دل لگی کے ہاتھوں تلخ بنا لیا تھا۔

    اردو زبان کے اس نام وَر افسانہ نگار کی زندگی کے آخری ایّام کس مپرسی اور بے بسی کے عالم میں‌ بسر ہوئے۔ ان پر فالج کا حملہ اور بعد میں کینسر تشخیص ہوا اور 11 نومبر 1984ء کو ان کا انتقال ہو گیا۔

  • معروف گلوکار اے نیّر احمد رشدی کو استاد کا درجہ دیتے تھے

    معروف گلوکار اے نیّر احمد رشدی کو استاد کا درجہ دیتے تھے

    نام وَر پاکستانی گلوکار اے نیّر 11 نومبر 2016ء کو جہانِ فانی سے رخصت ہوگئے تھے۔ آج ان کا یومِ‌ وفات ہے۔

    اے نیّر 17 ستمبر 1950ء کو پیدا ہوئے۔ ان کا اصل نام آرتھر نیّر تھا اور وہ ایک عیسائی خاندان سے تعلق رکھتے تھے۔ انھیں‌ بچپن ہی گلوکاری کا شوق تھا اور وہ پسِ پردہ گائیکوں کی طرح خود بھی پلے بیک سنگر بننا چاہتے تھے، لیکن اس زمانے میں گھر والوں کی مخالفت اور ڈر کی وجہ سے انھیں اپنا یہ خواب پورا ہوتا نظر نہیں آتا تھا۔ وہ گھر والوں سے چھپ کر ریڈیو پر مختلف گلوکاروں کو سنا کرتے اور ان کی طرح گانے کی کوشش کرتے تھے۔ ان کا یہی شوق اور لگن انھیں پاکستان کی فلم انڈسٹری تک لے گئی اور پھر مخالفت کا زور بھی ٹوٹ گیا۔ اس کے بعد اے نیّر نے کئی گیتوں کو اپنی آواز دے کر لازوال بنایا اور خوب شہرت حاصل کی۔

    1974ء میں انھوں نے پلے بیک سنگر کے طور پر ایک فلم بہشت سے اپنے سفر کا آغاز کیا۔ ان کے اوّلین فلمی گانے کے بول تھے، ‘ یونہی دن کٹ جائے، یونہی شام ڈھل جائے…، جب کہ ان کی آواز میں پہلا سپر ہٹ گانا فلم خریدار کا تھا جس کے بول تھے، پیار تو ایک دن ہونا تھا، ہونا تھا ہوگیا۔

    اے نّیر نے اپنے متعدد انٹرویوز میں‌ بتایا کہ ان کے کیریئر میں مشہور گلوکار احمد رشدی کا کردار بہت اہم رہا اور انھوں نے احمد رشدی ہی سے یہ فن سیکھا۔ اے نیّر انھیں اپنے استاد کا درجہ دیتے تھے۔

    1980ء کی دہائی میں اے نیّر کی شہرت عروج پر تھی جس کے دوران انھوں نے 5 بار بہترین گلوکار کا نگار ایوارڈ بھی اپنے نام کیا۔ ان کی آواز میں جو گیت مشہور ہوئے ان میں ‘جنگل میں منگل تیرے ہی دَم سے، ‘بینا تیرا نام، ‘ یاد رکھنے کو کچھ نہ رہا، ‘ایک بات کہوں دلدارا اور درد و سوز سے بھرپور شاعری ‘ میں تو جلا ایسا جیون بھر، کیا کوئی دیپ جلا ہو گا’ شامل ہیں۔

    اے نیّر نے لاہور میں ایک میوزک اکیڈمی بھی کھولی تھی۔ وہ کافی عرصے سے علیل تھے اور 66 سال کی عمر میں دنیا سے ہمیشہ کے لیے منہ موڑ لیا۔

  • این جی مَجُمدار کا تذکرہ جنھیں سندھ کے علاقے جوہی میں گولی مار دی گئی تھی

    این جی مَجُمدار کا تذکرہ جنھیں سندھ کے علاقے جوہی میں گولی مار دی گئی تھی

    سندھ میں ہزاروں سال قدیم تہذیب اور آثار کی دریافت کے حوالے سے این جی مَجُمدار کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ متحدہ ہندوستان کے اس ماہرِ آثارِ قدیمہ کو 1938ء میں آج ہی کے دن ضلع دادو کی تحصیل جوہی کے قریب پہاڑی سلسلے میں قتل کردیا گیا تھا۔

    وہ 1897ء کو جیسور، بنگال میں پیدا ہوئے۔ این جی مَجُمدار کا پورا نام نینی گوپال مجمدار تھا۔ انھوں نے 1920ء میں یونیورسٹی آف کلکتہ سے ایم کیا اور فرسٹ کلاس پوزیشن حاصل کرکے گولڈ میڈل اپنے نام کیا۔

    این جی مجمدار کی وجہِ شہرت اُس وقت کے صوبہ سندھ میں قبلِ مسیح اور لوہے و تانبے کے زمانے کے 62 آثارِ قدیمہ کی دریافت اور ان مقامات سے متعلق تحقیقی کتاب ایکسپلوریشنس اِن سندھ ہے۔

    انھیں 1929ء میں آرکیالوجیکل سروے آف انڈیا کے سینٹرل سرکل میں تقرری کے بعد اسی سال کلکتہ میں اسٹنٹ سپریٹنڈنٹ مقرر کردیا گیا۔ انھوں‌ نے کئی سال ہندوستان کے قدیم مقامات اور تہذیبی آثار کی دریافت اور ان پر تحقیق کے لیے اپنی ٹیم کے ساتھ کام کیا۔ انھوں نے اپنی قابلیت کے ساتھ محنت و لگن سے اپنے محکمے میں اپنی جگہ بنائی۔ اسی محنت اور لگن کو دیکھتے ہوئے این جی مجمدار کو 1938ء میں سندھ میں قبل از تاریخ دورانیے کے سروے کا کام سونپا گیا تھا۔ اس کے علاوہ انھوں نے موہن جودڑو میں کھدائی اور تلاش و تحقیق کے کام میں‌ سَر جان مارشل کی بھی مدد کی۔

    این جی مجمدار نے سندھ میں مختلف مقامات پر کئی تاریخی آثار دریافت کیے تھے۔اس ماہرِ‌ آثارِ قدیمہ نے پرانے دور کے مختلف ہیروں یا سونے وغیرہ سے بنے ہوئے ہتھیاروں پر لکھے گئے اپنے مقالے پر گریفتھ یادگاری انعام بھی حاصل کیا تھا۔

    11 نومبر 1938ء کو جوہی میں ان کے کیمپ پر ڈاکوؤں کے ایک گروہ نے حملہ کرکے این جی مجمدار کو گولی مار دی تھی۔ اس زمانے میں‌ عام لوگوں کے ذہن میں تصور تھا کہ ایسے مقامات پر خزانہ مدفون ہوتا ہے اور اس زمین میں ان کے آبا و اجداد دفن ہیں جن کی باقیات کو ماہرینِ آثار کھود کر نکال لیتے ہیں، اور اس طرح ان کی بے حرمتی ہوتی ہے جب کہ زمین سے خزانہ اور قیمتی اشیا بھی برآمد ہوتی ہیں جنھیں یہ لوگ چرا لیتے ہیں۔

    ایکسپلوریشنس ان سندھ این جی مجمدار کی انگریزی زبان میں تحریر کردہ وہ کتاب ہے جو سندھ کے کئی قدیم مقامات سے واقف کراتی اور اس میں‌ تفصیلی تحقیقی بحث شامل ہے۔ اس کتاب میں کاہو جو دڑو، لوہم جو دڑو، چانہو جو دڑو، آمری، واہی پاندھی اور دیگر مقامات اور دریافت کیے گئے ٹیلوں اور اشیا سے متعلق تفصیل سے بات کی گئی ہے۔