Tag: 12 اپریل وفات

  • نظیر صدیقی کا تذکرہ جنھوں نے اردو ادب کو ‘جان پہچان’ دی!

    نظیر صدیقی کا تذکرہ جنھوں نے اردو ادب کو ‘جان پہچان’ دی!

    نظیر صدیقی اردو کے ایک اہم نثر نگار اور نقاد تھے۔ وہ انشائیہ نگار اور شاعر کی حیثیت سے بھی معروف ہیں‌۔ اردو زبان و ادب کے کم ہی طالبِ علم شاید ان کے نام اور علمی و ادبی کارناموں سے واقف ہوں گے، لیکن نظیر صدیقی کا ادبی تحقیقی کام، اور تدریس کے میدان میں ان کی کاوشیں لائقِ تحسین ہیں۔ آج پروفیسر نظیر صدیقی کی برسی ہے۔

    اردو اور انگریزی میں ایم اے کرنے والے پروفیسر نظیر صدیقی مشرقی پاکستان کی کئی جامعات اور کالجوں سے وابستہ رہے۔ 1969ء میں وہ کراچی منتقل ہوگئے تھے جہاں اسلام آباد کے وفاقی کالج برائے طلبہ سے وابستگی اختیار کی اور بعد ازاں علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی کے شعبۂ اردو سے منسلک ہوگئے۔ اسی جامعہ سے وہ صدر شعبۂ اردو کی حیثیت سے ریٹائر ہوئے۔ نظیر صدیقی نے نے بیجنگ یونیورسٹی کے شعبۂ اردو میں بھی تدریس کے فرائض بھی انجام دیے تھے۔

    پروفیسر نظیر صدیقی نے 12 اپریل 2001ء کو وفات پائی اور اسلام آباد کے ایک قبرستان میں سپردِ‌ خاک کیے گئے۔ نظیر صدیقی کا پورا نام محمد نظیر الدّین صدیقی تھا۔ وہ 7 نومبر 1930ء کو سرائے ساہو ضلع چھپرا بہار میں پیدا ہوئے تھے۔

    تنقید ایک مشکل کام ہے اور نثر پاروں یا کسی شاعر کے کلام پر معیاری اور مفید تنقید ہر اعتبار سے تحقیق اور محنت طلب امر ہے اور صرف اسی صورت میں‌ معیاری اور مفید مباحث سامنے آسکتے ہیں جب کوئی نقاد اس میں‌ دقّتِ نظری سے کام لے۔ پروفیسر نظیر صدیقی نے اس میدان میں‌ بڑی محنت سے مفید مباحث چھیڑے ہیں۔

    نظیر صدیقی کی انشائیہ نگاری بھی کمال کی ہے۔ ادبی حلقوں‌ نے ان کی بلند خیالی اور نکتہ رسی کو سراہا اور ان کے انشائیوں پر مشتمل کتاب ‘شہرت کی خاطر’ کو بہت پذیرائی ملی۔ اسی طرح پروفیسر نظیر صدیقی کے شخصی خاکوں کا مجموعہ ‘جان پہچان’ کے نام سے بہت مشہور ہوا۔ ادبی دنیا میں بالخصوص اس کتاب میں شامل خاکے بہت مقبول ہوئے۔ پروفسیر نظیر صدیقی نے ایک خود نوشت سوانح عمری بھی سپردِ‌ قلم کی تھی۔ ان کی یہ کتاب بعنوان ‘سو یہ ہے اپنی زندگی’ شایع ہوئی تھی۔

    اردو کے اس معروف نقاد، ادیب اور شاعر کی تنقیدی کتب میں‌ تأثرات و تعصبات، میرے خیال میں، تفہیم و تعبیر، اردو ادب کے مغربی دریچے، جدید اردو غزل ایک مطالعہ شامل ہیں جب کہ ادبی تحقیقی کتابیں اردو میں عالمی ادب کے تراجم، اقبال اینڈ رادھا کرشنن اور ایک شعری مجموعہ حسرتِ اظہار کے نام سے شایع ہوا تھا۔

  • مولانا عامر عثمانی کا تذکرہ جن کی نظم سوشل میڈیا پر خاصی مقبول ہے

    مولانا عامر عثمانی کا تذکرہ جن کی نظم سوشل میڈیا پر خاصی مقبول ہے

    آج اردو کے معروف شاعر، مصنّف مولانا عامر عثمانی کی برسی ہے جن کی تخلیقات کا نمایاں پہلو ان کی طنز نگاری ہے۔ وہ ایک محقق بھی تھے جن کا قلم دینی تعلیمات کے فروغ اور سماجی برائیوں کی نشان دہی کرتے ہوئے لوگوں کی اصلاح کے لیے متحرک رہا۔ چند برسوں کے دوران مولانا عامر عثمانی کی ایک نظم سوشل میڈیا کے ذریعے ہر خاص و عام تک پہنچی ہے۔ یہ نظم انسانوں کی بے بسی، جبر اور ظلم کی منظر کشی کرتی ہے اور کسی بھی معاشرے میں‌ ناانصافی پر عوام کے جذبات کی عکاس ہے۔

    اس نظم کا ایک بند ملاحظہ کیجیے:

    آج بھی میرے خیالوں کی تپش زندہ ہے
    میرے گفتار کی دیرینہ روش زندہ ہے
    آج بھی ظلم کے ناپاک رواجوں کے خلاف
    میرے سینے میں بغاوت کی خلش زندہ ہے
    جبر و سفاکی و طغیانی کا باغی ہوں میں
    نشۂ قوّتِ انسان کا باغی ہوں میں
    جہل پروردہ یہ قدریں یہ نرالے قانون
    ظلم و عدوان کی ٹکسال میں ڈھالے قانون
    تشنگی نفس کے جذبوں کی بجھانے کے لیے
    نوعِ انساں کے بنائے ہوئے کالے قانون
    ایسے قانون سے نفرت ہے عداوت ہے مجھے
    ان سے ہر سانس میں تحریکِ بغاوت ہے مجھے

    پاکستان میں ان دنوں‌ ایک طرف سیاسی افراتفری، انتشار بڑھ رہا ہے تو دوسری جانب عوام مسائل اور مصائب کے بوجھ تلے دبتے ہی چلے جا رہے ہیں۔ ظلم و ستم اور ناانصافی کے واقعات عام ہیں‌۔ لوگ لٹیروں کے نشانے پر ہیں۔ لوٹ مار کے دوران مزاحمت کرنے پر جرائم پیشہ افراد کئی شہریوں کو ابدی نیند سلا چکے ہیں۔ ایسے ہی افسوس ناک واقعات کی فوٹیجز کے پسِ پردہ ایک گلوکار کی آواز میں‌ ہم یہ نظم سنتے ہیں جس کے اشعار ناانصافی اور لاقانونیت کا شکار ہونے والوں کی بے بسی اور کرب کو ظاہر کرتے ہیں۔ لوگوں میں‌ اپنی نقدی اور اسباب کے چھن جانے اور زندگی سے محروم ہوجانے کے خوف کو اجاگر کرتی یہ نظم بحیثیت شہری ان کے حقوق کی پامالی اور عدم تحفظ کا نوحہ بھی ہے۔ عامر عثمانی کی یہ نظم عوام کو بغاوت پر اکساتی ہے۔ شاعر نے اپنی اس نظم کو عنوان بھی بغاوت ہی دیا ہے۔

    مولانا عامر عثمانی دیو بند کے فیض یافتہ تھے۔ دیوبند کے کتب خانے سے انہوں نے بہت استفادہ کیا۔ انھوں نے نظم اور نثر دونوں میں‌ اپنے کمالِ فن کا اظہار کیا اور طنز نگار کی حیثیت سے مخصوص شناخت بنائی۔ مولانا عامر عثمانی کا سنہ پیدائش 1920ء اور ان کا آبائی علاقہ دیوبند ہے۔ ان کے والد کا نام مطلوبُ الرّحمٰن تھا جو انجنیئر تھے۔ عامر عثمانی نے معاش کے لیے کئی راستے اختیار کیے جن میں‌ دیوبند سے فارغ التحصیل ہونے کے بعد پتنگیں بنا کر بیچنا بھی شامل ہے۔ اس سے ضروریات پوری نہ ہوئیں تو شیشے پر لکھنے کی مشق کرنے لگے اور اس فن میں طاق ہوئے۔ تجلی وہ رسالہ تھا جس کے کئی سرورق مولانا عامر عثمانی نے بنائے۔ پھر کسی نے ان کو بمبئی کی فلم نگری کی طرف دھکیل دیا، مگر ان کی روح اس دنیا سے بیزار ہی رہی اور عامر عثمانی جلد ہی دیوبند لوٹ گئے۔ یہیں‌ انہوں نے ذریعۂ معاش کے طور پر 1949 میں تجلّی جیسے رسالے کا اجراء کیا۔ اس رسالے نے علمی و ادبی دنیا میں بہت کم عرصہ میں مقبولیت حاصل کی۔ یہ رسالہ مولانا عامر عثمانی کی وفات تک 25 سال مسلسل شائع ہوتا رہا۔

    عامر عثمانی نے جہاں‌ شاعری کے ذریعے علمی و ادبی حلقوں‌ میں‌ اپنا تعارف کروایا، وہیں اپنے کالموں‌ کی بدولت اسلامیانِ ہند کو اپنی جانب متوجہ کیا اور مقبول ہوئے۔ ان کے کالم ’’مسجد سے مے خانے تک‘‘ کے عنوان سے تجلّی میں شائع ہوئے جن میں‌ مولانا کا بامقصد انداز اور طرزِ تحریر طنزیہ واضح ہوتا تھا۔ وہ ہندوستانی مسلمانوں کو مغرب کی نقالی، بدعات و خرافات کے ساتھ علمائے وقت کو ان کے غلط فیصلوں پر گرفت کرنے سے بھی نہ رکے اور دینی اور سماجی اصلاح کا کام انجام دیا۔

    مولانا عامر عثمانی جماعتِ اسلامی (ہند) کے بڑے حامی تھے۔ انہوں‌ نے خلافت و ملوکیت نمبر نکالا اور مولانا مودودی کے خلاف کی جانے والی باتوں‌ کا جواب دیا اور جماعت اسلامی کے مخالفین کو دلائل سے رام کرنے کی کوشش کی۔ لیکن ان کا انداز جارحانہ ہی رہا۔

    بھارت میں‌ علم و ادب کی دنیا میں مولانا عامر عثمانی کی شہرت کے بعد وہ وقت بھی آیا جب بیماری کی وجہ سے ڈاکٹروں نے ان کو چلنے پھرنے سے منع کر دیا تھا اور ان کی علمی و ادبی سرگرمیوں کا سلسلہ ازحد محدود ہوچکا تھا۔ مگر ایک موقع پر وہ سفر کر کے پونے (بھارت) میں منعقدہ ایک مشاعرے میں شرکت کے لیے پہنچ گئے۔ یہ طویل سفر تھا اور وہاں‌ عامر عثمانی نے اپنی مشہور نظم ’’جنہیں سحر نگل گئی وہ خواب ڈھونڈتا ہوں میں‘‘ سنائی۔ اس نظم کو سنانے کے فقط دس منٹ بعد ہی مولانا عامر عثمانی اس جہانِ فانی سے کوچ کر گئے۔ یہ 12 اپریل 1975ء کی بات ہے۔

    یوں داغِ‌ مفارقت دے جانے والے عامر عثمانی پر اخبارات اور رسائل میں تعزیتی مضامین کا انبار لگ گیا۔ ماہر القادری جیسے بلند مرتبہ شاعر اور نثار نے لکھا:

    ’’مولانا عامر عثمانی کا مطالعہ بحرِ اوقیانوس کی طرح عریض و طویل اور عمیق تھا۔ وہ جو بات کہتے تھے کتابوں کے حوالوں اور عقلی و فکری دلائل و براہین کے ساتھ کہتے تھے۔ پھر سونے پر سہاگہ زبان و ادب کی چاشنی اور سلاست و رعنائی۔ تفسیر، حدیث، فقہ و تاریخ، لغت و ادب غرض تمام علوم میں مولانا عامر عثمانی کو قابل رشک بصیرت حاصل تھی۔ جس مسئلے پر قلم اٹھاتے اس کا حق ادا کر دیتے۔ ایک ایک جزو کی تردید یا تائید میں امہاتُ الکتب کے حوالے پیش کرتے۔ علمی و دینی مسائل میں ان کی گرفت اتنی سخت ہوتی کہ بڑے بڑے چغادری اور اہلِ قلم پسینہ پسینہ ہو جاتے۔‘‘

    مولانا عامر عثمانی کا شعری مجموعہ یہ قدم قدم بلائیں، حفیظ جالندھری کے شاہ نامۂ اسلام کے طرز پر شاہ نامۂ اسلام (جدید) اور کالموں پر مشتمل کتاب شایع ہوچکی ہے۔

  • صحافت میں نام وَر اور علم و ادب میں ممتاز احفاظ الرّحمٰن کی برسی

    صحافت میں نام وَر اور علم و ادب میں ممتاز احفاظ الرّحمٰن کی برسی

    پاکستان میں آزادئ صحافت کے علم بَردار، ترقی پسند ادیب، شاعر، مترجم اور سینئر صحافی احفاظ الرحمٰن پچھلے سال 12 اپریل کو طویل علالت کے بعد انتقال کرگئے تھے۔ آج ان کی پہلی برسی ہے۔

    احفاظ الرحمٰن 4 اپریل 1942ء کو متحدہ ہندوستان کے علاقے جبل پور میں پیدا ہوئے تھے۔ 1947ء میں قیامِ پاکستان کے بعد ان کے خاندان نے ہجرت کی اور کراچی میں‌ سکونت اختیار کی۔

    مطالعہ ان کا شوق تھا، شاعری، ناول، سیاست، فلسفہ، مصوّری، فلم اور مختلف موضوعات پر دنیا بھر کے ادیبوں اور قلم کاروں کی تخلیقات پڑھنے والے احفاظ الرحمٰن بائیں‌ بازو کے نظریات سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے۔ عالمی ادب کے تراجم اور اردو ادب کا وسیع مطالعہ کرتے ہوئے خود بھی ‌لکھنے لکھانے کا سلسلہ شروع کردیا۔ ان کا طرزِ تحریر منفرد اور نہایت پُراثر تھا جس میں‌ املا انشا اور صحّتِ زبان کا بہت خیال رکھتے۔ وہ شاعری اور مختلف موضوعات پر تحاریر اور تراجم کے علاوہ ایک عرصے تک سیاہ و سفید کے عنوان سے کالم بھی لکھتے رہے۔

    احفاظ الرحمٰن کالج کے زمانے میں بائیں بازو کی طلبہ تنظیم ’’نیشنل اسٹوڈنٹس فیڈریشن‘‘ (این ایس ایف) میں شامل ہوئے اور اس زمانے میں ایوب خان کی تعلیمی اصلاحات کے خلاف احتجاج میں پیش پیش رہے۔ بعد ازاں جب ایم اے صحافت کی غرض سے جامعہ کراچی میں داخلہ لیا تو این ایس ایف کے پلیٹ فارم سے نثر اور نظم کے ذریعے ترقی پسند افکار عام کرنے کی کوششیں جاری رکھیں۔

    کچھ عرصے تک تدریس سے وابستہ رہے اور پھر پیشہ ورانہ صحافت میں قدم رکھا۔ وہ ’’کراچی یونین آف جرنلسٹس‘‘ کے سرگرم رکن اور عہدے دار رہے جنھوں نے صحافیوں کو منظّم رکھنے اور ان کی تربیت کرنے کے ساتھ مختلف ادوار میں احتجاجی مظاہروں اور تحریکوں میں‌ صحافیوں کی قیادت اور راہ نمائی کی۔

    ضیاء الحق کے مارشل لاء میں ان پر پابندیاں عائد کی گئیں جن کی وجہ سے وہ طویل عرصے تک بیروزگار رہے۔ تاہم 1985 میں چین کی ’’فارن لینگویج پریس‘‘ سے وابستہ ہوگئے اور چین میں قیام کیا، جہاں سے 1993ء میں واپس آئے اور ملک کے دو بڑے روزناموں سے بطور میگزین ایڈیٹر وابستہ ہوئے۔

    گلے کے کینسر کے باعث احفاظ الرحمٰن کی صحّت ان کی زندگی کے آخری چند برسوں میں بتدریج گرتی چلی گئی، اور 2018ء میں انھوں نے صحافت کو مکمل طور پر خیرباد کہہ دیا تھا۔

    احفاظ الرحمٰن نے کبھی اصولوں اور معیار پر سمجھوتا نہیں کیا، ان کی علمی و ادبی خدمات کے ساتھ آزادی صحافت کے لیے جدوجہد کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔

    ان کی متعدد کتابیں شایع ہوئیں جن میں‌ نثر و نظم پر طبع زاد، تراجم اور تالیف شامل ہیں۔ چین کی تاریخ، سیاست اور چینی ادبیات کے موضوع پر ان کے تراجم بہت مقبول ہوئے۔ انھوں نے چیئر مین مائو کے ساتھ لانگ مارچ، چو این لائی کی سوانح کا اردو ترجمہ، متعدد چینی ناولوں، افسانوں کے علاوہ بچّوں کی کہانیوں، نظموں کے تراجم بھی کیے۔ جنگ جاری رہے گی ان کی ایک ایسی کتاب ہے جس میں‌ انھوں‌ نے انسان دوست شخصیات، ظلم و جبر کے خلاف لڑ جانے والوں کی زندگی کے اوراق اکٹھے کیے ہیں، اُن کی معرکہ آرا تصنیف ’’سب سے بڑی جنگ‘‘ ہے جو ملک میں مختلف سیاسی ادوار اور صحافت کی جدوجہد کی تاریخ ہے۔