Tag: 12 نومبر وفات

  • مارول کامکس کے شہرۂ آفاق کرداروں کے خالق اسٹین لی کا تذکرہ

    مارول کامکس کے شہرۂ آفاق کرداروں کے خالق اسٹین لی کا تذکرہ

    کامکس کے مداح دنیا بھر میں موجود ہیں۔ کامک بکس آج بھی نہایت شوق سے پڑھی جاتی ہیں، لیکن اسکرین پر نمودار ہونے کے بعد تو ان کرداروں نے گویا ہر طرف دھوم مچا دی۔ ہم بات کریں اسپائیڈر مین، آئرن مین اور دی ہلک جیسے شہرۂ آفاق کرداروں کی تو انھیں کتابوں‌ سے سنیما تک خوب پذیرائی اور مقبولیت حاصل ہوئی۔

    ایک طرف تو کامکس کے وہ پرستار ہیں جن کی دل چسپی ان زبردست اور کرشماتی قوّتوں‌ کے حامل کرداروں میں‌ ہے اور دوسری طرف ان کرداروں‌ پر مشتمل کہانیوں کے شائقین ہیں جو خیر اور شَر کی جنگ کے انجام میں دل چسپی رکھتے ہیں۔

    ہم نے یہاں‌ جن کرداروں کا ذکر کیا ہے، انھیں کئی دہائیوں قبل اسٹین لی نے اپنے ذہن میں تخلیق کیا تھا اور جلد ہی وہ اس مصنّف کی کہانیوں میں قارئین تک پہنچے۔ اسٹین لی نے 95 برس کی عمر میں وفات پائی۔

    اسٹین لی کو بیسویں صدی کا ایک شان دار تخلیق کار کہا گیا کیوں کہ اس کے تخلیق کردہ کرداروں اور مارول کامک بکس نے دنیا بھر میں بچّوں اور نوجوانوں ہی نہیں بڑوں کو بھی اپنا گرویدہ بنا لیا تھا۔ ان کا تعلق امریکا سے تھا۔ 1940ء کے عشرے میں اسٹین لی نے لکھنے کا آغاز کیا تھا اور پھر یہ کردار تخلیق کیے۔ ان کرداروں کو کہانی میں پیش کیا، لیکن بعد میں کامک بک کی اشاعت سے اور بالخصوص اسکرین تک اس مصنّف نے دوسرے آرٹسٹوں کی مدد سے شان دار کام یابیاں اپنے نام کیں، تاہم یہ سب اسٹین لی کی صلاحیتوں اور اس کے جوہرِ تخلیق کی بدولت ہی ممکن ہوا۔

    اپنے سفر آغاز میں انھوں نے ایک چھوٹا چھاپہ خانہ قائم کیا اور مارول کامک بکس شایع کرنے لگے۔ اسٹین لی کے تخلیق کردہ کردار بچوں کی نفسیات پر حاوی ہو جاتے ہیں۔ وہ اس مصنّف کی سبق آموز کہانیوں کی بدولت خود انہی کرداروں میں ڈھلا ہوا دیکھتے اور خیالی دنیا میں بدی کی طاقتوں کو شکست دینے لگتے۔ اسٹین لی کو مارول کرداروں پر مبنی کہانیوں کے سبب لیجنڈ کا درجہ حاصل ہے۔ وہ فلم ساز اور مکالمہ نویس بھی تھے۔

    سپر مین کے بارے میں بات کرتے ہوئے ایک بار اسٹین لی نے کہا تھا کہ وہ میرے لیے کبھی بھی دل چسپی کا باعث نہیں رہا کیوں کہ میں کبھی اس کے بارے میں فکرمند نہیں ہوا۔ اگر آپ اپنے ہیرو کے لیے فکرمند نہیں ہوتے تو اس میں کوئی جوش نہیں ہوتا۔

    اسٹین لی کا ساتھی آرٹسٹ جیک کربی تھا جنھوں نے مل کر 1961ء میں کمپنی مارول کامکس بنائی تھی۔ انھوں نے فینٹیسٹک فور نامی سیریز سے آغاز کیا تھا اور بعد میں ان کے کامک بک کے کردار اسپائیڈر مین اور دی ہلک انتہائی مقبول ہوئے۔

    اسٹین لی 28 دسمبر 1922ء کو امریکا، نیویارک میں‌ پیدا ہوئے تھے اور ان کی زندگی کا سفر 12 نومبر 2018ء کو تمام ہوا۔

    مارول کامکس کے اس لیجنڈ نے اپنی وفات سے کچھ عرصہ قبل پولیس میں شکایت درج کرائی تھی اور دعویٰ کیا تھا کہ ان کے بینک اکاؤنٹ سے 3 لاکھ ڈالر چوری ہوگئے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ اپنے بینک اکاؤنٹ سے رقم نکلوانے کا انھیں علم نہیں تھا اور کہا گیا کہ ایک جعلی چیک کے ذریعے ایسا کیا گیا ہے۔

    ہالی وڈ میں اسٹین لی کے تخلیق کردہ کرداروں پر فلمیں بنائی گئیں جو بے حد مقبول ہوئیں اور فلم سازوں کو زبردست مالی منافع دیا۔

  • زینت بیگم: فلمی صنعت کی ایک بھولی بسری آواز

    زینت بیگم: فلمی صنعت کی ایک بھولی بسری آواز

    زینت بیگم کی وجہِ شہرت ان کی کلاسیکی گائیکی ہے، لیکن فلمی دنیا میں‌ انھوں نے اداکاری کے فن اور ہدایت کاری کے شعبے میں‌ بھی خود کو آزمایا۔

    وہ 1920ء یا 1931ء میں پیدا ہوئی تھیں۔ ان کا تعلق طوائف گھرانے سے تھا جس میں ناچ گانا بھی معمول کی بات تھی۔ اس ماحول کی پروردہ زینت بیگم کو موسیقی لگاؤ اور گلوکاری کا شوق ہوا تو کسی نے اعتراض نہ کیا۔ وہ کلاسیکی موسیقی سیکھنے کے بعد فلم نگری سے وابستہ ہوگئیں۔

    یہ 1944ء کی بات ہے جب زینت بیگم کا خاندان لاہور سے ممبئی منتقل ہوا۔ اس زمانے میں فنونِ لطیفہ سے وابستہ شخصیات اور تخلیق کاروں کی اکثریت وہاں پہنچ چکی تھی۔ زینت بیگم 1937ء میں لاہور میں پس پردہ گلوکاری کا آغاز کرچکی تھیں۔ انھیں مشہور کلاسیکی موسیقار پنڈت امر ناتھ نے فن کی دنیا میں متعارف کروایا تھا۔

    1942ء میں انھوں نے پہلی بار فلم کے لیے پسِ پردہ اپنی آواز دی تھی۔ یہ گوویند رام کی پنجابی فلم منگتی تھی جس کے لیے زینت بیگم نے گیت گائے۔ اس فلم نے گولڈن جوبلی منائی۔ ہندی زبان میں زینت بیگم کی اوّلین فلم نشانی بھی اسی سال کی یادگار ہے۔ 1944ء میں انھوں نے فلم پنچھی کے لیے گیت گائے جو بہت مقبول ہوئے۔ ممبئی میں متعدد موسیقاروں کے ساتھ زینت بیگم نے اپنی آواز کا جادو جگایا اور کئی گیت گائے جنھیں بہت پسند کیا گیا۔ انھوں نے اپنے وقت نام ور موسیقاروں جن میں پنڈت حُسن لال بھگت رام، ماسٹر غلام حیدر، پنڈت گوبند رام شامل ہیں، کے ساتھ کام کیا۔

    وہ تقسیمِ ہند کے بعد بھارت میں رہیں اور 1951ء کی ہندوستانی فلم مکھڑا کے لیے پس پردہ گلوکاری کے بعد ہجرت کرکے پاکستان آگئیں۔ یہاں چند برس تک انھوں نے فلم انڈسٹری کے لیے گیت گائے اور ہیر نامی فلم میں سہتی کا کردار بھی ادا کیا۔

    زینت بیگم نے 12 نومبر 1966ء کو لاہور میں‌ وفات پائی۔ فلم کے علاوہ انھوں نے ریڈیو کے لیے بھی اپنی آواز میں متعدد گیت ریکارڈ کروائے تھے جنھیں سامعین نے بہت پسند کیا۔ پنچھی، شالیمار، شہر سے دور جیسی فلموں کے لیے ان کی آواز میں‌ گانے اس زمانے میں بہت مقبول ہوئے تھے۔

  • جواں فکر اور جواں‌ مرگ شاعر شکیب جلالی کا تذکرہ

    جواں فکر اور جواں‌ مرگ شاعر شکیب جلالی کا تذکرہ

    شکیب جلالی نے 1966ء میں آج ہی کے دن ٹرین کے سامنے آکر خودکشی کرلی تھی۔ ان کی عمر 32 برس تھی۔

    شکیب کی ذاتی زندگی کا سب سے بڑا المیہ ان کی والدہ کی خود کشی تھی اور یہ منظر انھوں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا۔ جب وہ دس سال کے تھے، ان کی والدہ نے بریلی شہر کے ریلوے اسٹیشن پر ٹرین کے نیچے آکر اپنی جان دے دی تھی۔

    کم سِن سیّد حسن رضوی کے ذہن کے پردے پر اُس دردناک دن کے قیامت خیز منظر کی فلم سی چلتی رہتی تھی جس نے انھیں شدید ذہنی کرب اور ہیجان میں‌ مبتلا کردیا۔ وہ نفسیاتی الجھنوں کا شکار ہوگئے اور ایک دن غیرطبعی موت کو گلے لگا لیا۔ وہ لاہور کے ایک ذہنی امراض کے اسپتال میں زیرِ علاج بھی رہے تھے۔

    شکیب جلالی کس ماحول کے پروردہ تھے۔ ان کے گھریلو اور معاشی حالات کیسے تھے اور اپنے والدین کو انھوں نے کیسا پایا، یہ جان لیا جائے تو ان کی خود کُشی کی بنیادی وجہ بھی سامنے آجاتی ہے۔ تاہم ان کی والدہ کی موت کے سانحے کو دو طرح سے بیان کیا گیا ہے۔ شکیب کے والد ذہنی مریض اور نفسیاتی عوارض کا شکار ہوگئے تھے اور کہتے ہیں کہ اسی غم اور مسائل کے سبب ان کی والدہ نے خود کُشی کرلی تھی۔ لیکن یہ بھی مشہور ہے کہ ذہنی توازن کھو بیٹھنے والے شکیب کے والد نے اپنی بیوی کو ٹرین کے آگے دھکیل دیا تھا۔

    تقسیمِ ہند کے بعد پاکستان کے شعری افق پر ابھرنے والے نوجوان شاعروں میں شکیب جلالی کو ان کے جداگانہ شعری اسلوب نے ہم عصرو‌ں میں ممتاز کیا، لیکن اپنے اشعار سے دلوں میں‌ آتشِ عشق بھڑکاتے اور جذبات میں سوز و گداز پیدا کرتے اس شاعر کو انہی ہم عصروں نے نظرانداز بھی کیا۔ تاہم وہ بہت کم وقت میں اپنی جگہ اور مقام بنانے میں کام یاب رہے۔

    خودکُشی کے بعد شکیب کا کلام احمد ندیم قاسمی نے شایع کروایا۔ شکیب جلالی کو جدید شاعری کے معماروں میں سے ایک کہا جاتا ہے۔ ان کا اصل نام سید حسن رضوی تھا۔ شاعری کا آغاز کیا تو شکیب تخلّص اختیار کرلیا اور اسی سے پہچانے گئے۔ شکیب جلالی یکم اکتوبر 1934ء کو علی گڑھ (اتر پردیش) کے ایک قصبے میں پیدا ہوئے۔ تقسیمِ ہند کے بعد ان کا خاندان پاکستان آگیا تھا۔

    سیّد حسن رضوی نے میٹرک بدایوں سے کیا تھا۔ ہجرت کے بعد سیالکوٹ سے ایف اے اور لاہور کی درس گاہ سے بی اے آنرز تک تعلیم حاصل کی۔ وہ ایم اے کرنا چاہتے تھے، لیکن کسی وجہ سے تعلیمی سلسلہ جاری نہ رکھ سکے۔

    شکیب نے ابتدائی دور میں چند ادبی جرائد میں کام کیا، اور ان کی بندش کے بعد ایک اخبار سے منسلک ہوگئے۔ بعد میں ایک محکمہ میں ملازمت ملی، لیکن وہ ذہنی الجھنوں اور دیگر مسائل کی وجہ سے ہمیشہ ناآسودہ اور پریشان رہے۔ ان کا اضطراب اور بے چینی بڑھتی ہی رہی اور سرگودھا میں‌ انھوں نے اپنی زندگی کا خاتمہ کرلیا۔

    شکیب جلالی نے غزل جیسی مقبول صنفِ سخن کو اپنی فکرِ تازہ سے وہ دل کشی اور نغمگی عطا کی جس نے خود انھیں بھی شعرا کے درمیان امتیاز اور مقبولیت بخشی۔ ان کا لہجہ تازہ اور آہنگ سب سے جدا تھا۔ وہ اردو کے صاحبِ اسلوب شاعر کہلائے۔

    روشنی اے روشنی ان کا وہ شعری مجموعہ ہے جو 1972ء میں ان کی موت کے چند سال بعد شایع ہوا۔ 2004ء میں شکیب جلالی کا کلّیات بھی منظرِ‌ عام پر آیا۔

    شکیب جلالی نے اپنے اشعار سے جہاں شعرا اور تمام ادبی حلقوں کو متوجہ کیا، وہیں باذوق قارئین نے انھیں زبردست پذیرائی دی۔ ان کی غزلیں گنگنائی گئیں، ان کے اشعار زباں زدِ‌ عام ہوئے۔

    ان کے چند اشعار پڑھیے۔

    شکیبؔ اپنے تعارف کے لیے یہ بات کافی ہے
    ہم اس سے بچ کے چلتے ہیں جو رستہ عام ہو جائے

    جہاں تلک بھی یہ صحرا دکھائی دیتا ہے
    مری طرح سے اکیلا دکھائی دیتا ہے
    نہ اتنی تیز چلے، سَر پھری ہوا سے کہو
    شجر پہ ایک ہی پتّہ دکھائی دیتا ہے

    تو نے کہا نہ تھا کہ میں کشتی پہ بوجھ ہوں
    آنکھوں کو اب نہ ڈھانپ مجھے ڈوبتا بھی دیکھ