Tag: 12 death anniversary

  • معروف شاعر فراز احمد فراز کو گزرے 12 برس بیت گئے

    معروف شاعر فراز احمد فراز کو گزرے 12 برس بیت گئے

    اسلام آباد : اردو زبان اور غزل کو آفاقی شہرت بخشنے والے شاعر فراز احمد فرازؔ کی آج بارہویں برسی ہے آپ کا شمار عصر حاضر کے مقبول ترین شعراء میں ہوتا ہے۔

    احمد فراز کا اصل نام سید احمد شاہ تھا اور وہ 12 جنوری 1931ءکو نوشہرہ میں پیدا ہوئے تھے، ان کے والد سید محمد شاہ برق کا شمار کوہائی فارسی کے ممتاز شعراء میں ہوا کرتا تھا۔

    احمد فراز اردو، فارسی اور انگریزی ادب میں ماسٹرز کی ڈگری کے حامل تھے اور انہوں ریڈیو پاکستان سے اپنی عملی زندگی کا آغاز کیا۔

    ریڈیو پاکستان کے بعد احمد فراز پشاور یونیورسٹی سے بطور لیکچرار منسلک ہوگئے، وہ پاکستان نیشنل سینٹر پشاور کے ریذیڈنٹ ڈائریکٹر، اکادمی ادبیات پاکستان کے اولین ڈائریکٹر جنرل اور پاکستان نیشنل بک فاﺅنڈیشن کے منیجنگ ڈائریکٹر کے عہدوں پر بھی فائز رہے۔

    احمد فراز کا شمار عہد حاضر کے مقبول ترین شعراء میں ہوتا ہے، ان کی عمومی شناخت ان کی رومانوی شاعری کے حوالے سے ہے لیکن وہ معاشرے کی ناانصافیوں کے خلاف ہر دور میں صدائے احتجاج بلند کرتے رہے جس کی پاداش میں انہیں مختلف پابندیاں جھیلنی پڑیں اور جلاوطنی بھی اختیار کرنی پڑی۔

    آج ہم دار پہ کھینچے گئے جن باتوں پر

    کیا عجب کل وہ زمانےکو نصابوں میں ملیں

    احمد فراز کے مجموعہ کلام میں ’تنہا تنہا‘، ’درد آشوب‘، ’نایافت‘، ’شب خون‘، ’مرے خواب ریزہ ریزہ‘، ’جاناں جاناں‘، ’بے آواز گلی کوچوں میں‘، ’نابینا شہر میں آئینہ‘، ’سب آوازیں میری ہیں‘، ’پس انداز موسم‘، ’بودلک‘، ’غزل بہانہ کروں‘ اور ’اے عشق جنوں پیشہ‘ کے نام شامل ہیں۔

    اب کے ہم بچھڑےتوشاید کبھی خوابوں میں ملیں

    جس طرح سوکھے ہوئے پھول کتابوں میں ملیں

    احمد فراز کے کلام کی کلیات بھی شہر سخن آراستہ ہے کے نام سے اشاعت پذیر ہوچکی ہے۔ انہیں متعدد اعزازات سے نوازا گیا جن میں آدم جی ادبی انعام، کمال فن ایوارڈ، ستارہ امتیاز اور ہلال امتیاز کے نام سرفہرست ہیں۔ ہلال امتیاز کا اعزاز انہوں نے جنرل پرویز مشرف کی پالیسیوں سے اختلاف کی وجہ سے واپس کردیا تھا۔ انہیں جامعہ کراچی نے پی ایچ ڈی کی اعزازی ڈگری بھی عطا کی گئی تھی۔

    احمد فراز 25 اگست 2008ء کو اسلام آباد میں وفات پاگئے، وہ اسلام آباد کے مرکزی قبرستان میں آسودہ خاک ہیں۔

    شکوہ ظلمت شب سے تو کہیں بہتر تھا

    اپنے حصے کی کوئی شمع جلاتے جاتے

  • معروف شاعر محسن بھوپالی کو ہم سے بچھڑے بارہ برس بیت گئے

    معروف شاعر محسن بھوپالی کو ہم سے بچھڑے بارہ برس بیت گئے

    آج اردو ادب کو لافانی اشعار دینے والے معروف شاعر محسن بھوپالی کی 12ویں برسی ہے‘ انہوں نے اردو شاعری کو نئی جہت عطا کی اورزندگی بھر مزاحمت کا استعارہ بنے رہے۔

    محسن بھوپالی کا اصل نام عبدالرحمن تھا اور وہ بھوپال کے قریب ضلع ہوشنگ آباد کے قصبے سہاگ پور میں 29 ستمبر 1932ء کو پیدا ہوئے۔ قیام پاکستان کے بعد ان کا خاندان نقل مکانی کرکے لاڑکانہ منتقل ہوگیا اور پھر کچھ عرصے کے بعد حیدرآباد میں رہائش اختیار کی۔ آخر میں وہ کراچی منتقل ہوگئے۔

    این ای ڈی انجینئرنگ کالج کراچی سے سول انجینئرنگ میں ڈپلومہ کورس کرنے کے بعد وہ 1952ء میں محکمہ تعمیرات حکومت سندھ سے وابستہ ہوئے۔ اس ادارے سے ان کی یہ وابستگی 1993ء تک جاری رہی۔ اسی دوران انہوں نے جامعہ کراچی سے اردو میں ایم اے کی ڈگری حاصل کی۔

    محسن بھوپالی کی شعر گوئی کا آغاز 1948ء سے ہوا۔ ان کی وجہ شہرت شاعری ہی رہی۔ ان کی شاعری کا پہلا مجموعہ “شکست شب” 1961ء میں منظر عام پر آیا۔ ان کی جو کتابیں اشاعت پذیر ہوئیں ان میں شکست شب، جستہ جستہ، نظمانے، ماجرا، گرد مسافت، قومی یک جہتی میں ادب کا کردار، حیرتوں کی سرزمین، مجموعہ سخن، موضوعاتی نظمیں، منظر پتلی میں، روشنی تو دیے کے اندر ہے، جاپان کے چار عظیم شاعر، شہر آشوب کراچی اور نقد سخن شامل ہیں۔

    محسن بھوپالی کویہ منفرد اعزاز بھی حاصل تھا کہ 1961ء میں ان کے اولین شعری مجموعے کی تقریب رونمائی حیدرآباد سندھ میں منعقد ہوئی جس کی صدارت زیڈ اے بخاری نے انجام دی۔ کہا جاتا ہے کہ یہ کسی کتاب کی پہلی باقاعدہ تقریب رونمائی تھی جس کے کارڈ بھی تقسیم کئے گئے تھے۔ وہ ایک نئی صنف سخن نظمانے کے بھی موجد تھے۔

    محسن بھوپالی اردو کے ایک مقبول شاعر تھے ۔ ان کی زندگی میں ہی ان کے کئی قطعات اور اشعار ضرب المثل کا درجہ حاصل کرگئے تھے خصوصاً ان کا یہ قطعہ توان کی پہچان بن گیا تھا اور ہر مشاعرے میں ان سے اس کے پڑھے جانے کی فرمائش ہوتی تھی۔

    تلقین اعتماد وہ فرما رہے ہیں آج
    راہ وفا میں خود جو کبھی معتبر نہ تھے
    نیرنگیٔ سیاستِ دوراں تو دیکھیے
    منزل انہیں ملی جو شریک سفر نہ تھے

    معروف محقق عقیل عباس جعفری کی کتاب ’پاکستان کے سیاسی وڈیرے‘ کی تقریب پزیرائی کے موقع پر انہوں نے خصوصی نظمانہ تحریر کیا اور 9 جنوری 1994 کو اس تقریب میں پڑھا ۔

    اپنے ملک پہ اک مدت سے قائم ہے
    گنتی کے ان سرداروں
    ……..اورجاگیروں کے پانے والوں
    کی نسلوں کا راج
    آزادی سے بڑھ کر جن کو پیارا تھا
    انگریزوں کا تاج!
    سوچ رہا ہوں…….. شائد اب کے
    قسمت دے دے مظلوموں کا ساتھ
    استحصالی ٹولے سے…. پائے قوم نجات
    صبح ہوئی تو گونج رہا تھا’
    بے ھنگم نعروں کا شور
    اپنے خواب کی ہم نے کی…….. من مانی تعبیر
    پھر ہے اپنے قبضے میں……. ملت کی تقدیر
    پاکستان کا مطلب کیا؟…. …موروثی جاگیر

    محسن بھوپالی کی شاعری میں ادب اور معاشرے کے گہرے مطالعے کا عکس نظر آتا ہے۔ انہوں نے جاپانی ادب کا اردو میں ترجمہ کیا اور ہائیکو میں بھی طبع آزمائی کی۔

    اگر یہی ہے شاعری تو شاعری حرام ہے
    خرد بھی زیر دام ہے ، جنوں بھی زیر دام ہے
    ہوس کا نام عشق ہے، طلب خودی کا نام ہے

    ان کی شاعری کے موضوعات معاشرتی اور سیاسی حالات ہوتے تھے۔ ان کے ایک قطعے کو بھی خوب شہرت حاصل ہوئی۔

    جاہل کو اگر جہل کا انعام دیا جائے
    اس حادثہ وقت کو کیا نام دیا جائے
    مے خانے کی توہین ہے رندوں کی ہتک ہے
    کم ظرف کے ہاتھوں میں اگر جام دیا جائے
    ہم مصلحت وقت کے قائل نہیں یارو
    الزام جو دینا ہو، سر عام دیا جائے

    سنہ 1988 میں ان کے گلے کے سرطان کا کامیاب آپریشن کیا گیا، اس کے بعد انہیں بولنے میں دشواری ہوتی تھی مگر اس کے باوجود بھی انہوں نے زندگی کے معمولات جاری رکھے اور مشاعروں میں شرکت کرتے اور شعر پڑھتے رہے۔

    اردو ادب کو ایک لافانی ذخیرہ فراہم کرنے والے محسن بھوپالی 17جنوری 2007ء کو دنیا سے رخصت ہوئے اور کراچی میں پاپوش نگر کے قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔