Tag: 13 اکتوبر وفات

  • گلوکار کشور کمار کا تذکرہ جنھیں کئی سال تک ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا

    گلوکار کشور کمار کا تذکرہ جنھیں کئی سال تک ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا

    کشور ایک ایسے گلوکار تھے جو اپنے عہد میں ایک خوب صورت آواز بن کے ابھرے اور امر ہو گئے۔

    بالی وڈ کے گانوں کو اپنی آواز دینے والے مقبول ترین گلوکار کشور کمار 13 اکتوبر 1987ء کو اس دنیا سے رخصت ہوگئے تھے۔

    کشور کمار کے 70 اور 80 کی دہائی میں گائے گئے رومانوی گانے آج بھی ان کے مداحوں کی سماعتوں میں تازہ ہیں۔

    1946ء میں گلوکاری کی دنیا میں قدم رکھنے والے کشور کمار نے اپنے کریئر میں سیکڑوں گیت گائے۔ تاہم ممبئی کی فلمی صنعت میں بطور گلوکار اپنا سفر شروع کرنے اور اس وقت کی مشہور اور مقبول ترین آوازوں کے درمیان جگہ بنانے کے لیے انھیں‌ بہت محنت کرنا پڑی اور اس نگری میں انھیں عظیم موسیقاروں نے مسترد کردیا تھا۔

    یہ بھی حققیت ہے کہ وہ کلاسیکی گائیکی سے ناواقف تھے، لیکن پھر ان کی شہرت کا وہ سفر شروع ہوا جس میں انھوں نے کئی ایوارڈ اپنے نام کیے اور مقبولیت کی انتہا کو چھو لیا۔

    کشور بنگالی گھرانے سے تعلق رکھتے تھے۔ ان کا اصل نام ابہاس کمار گنگولی تھا۔ ان کا سنِ پیدائش 1929ء تھا۔ ان کے بڑے بھائی فلمی دنیا کے معروف اداکار اشوک کمار تھے جن کی بدولت انھیں سب پہلے 1946ء میں فلم شکاری میں گیت گانے کا موقع ملا۔

    پلے بیک سنگنگ کے علاوہ کشور کمار نے متعدد فلموں میں اداکاری اور ہدایت کاری کے جوہر بھی دکھائے، کئی فلموں میں موسیقی بھی دی، گلوکاری میں مخصوص انداز سے یوڈیلینگ کرنا ان کا منفرد انداز تھا۔

    ان کے گائے ہوئے گانوں پر اپنے وقت کے سپر اسٹارز نے پرفارمنس دی اور نام کمایا۔ کشور کمار کو مجموعی طور پر 27 بار فلم فیئر کے بہترین گلوکار ایوارڈ کے لیے نام زد کیا گیا اور آٹھ مرتبہ وہ اس ایوارڈ کے حق دار قرار پائے۔

    کلاسیکی موسیقی کی تربیت نہ ہونے کے باوجود انھوں نے سنہ 1981ء میں راگ شیورنجنی میں جس طرح ‘میرے نیناں ساون بھادوں…’ اور راگ یمن میں لطیف انداز میں ‘چُھو کر میرے من کو’ گایا اس کی مثال کم ہی ملتی ہے۔

    ان کی آواز میں یہ مقبول ترین گانے آپ نے بھی سنے ہوں گے، ’میرا جیون کورا کاغذ، کورا ہی رہ گیا،‘ ’او ماجھی رے دریا کا دھارا،‘، ’بڑی سونی سونی ہے زندگی یہ زندگی۔‘

    اداکاری، گلوکاری اور ہدایت کاری کے علاوہ کشور کمار کو شاعری کا بھی شوق تھا۔ وہ ایک اچھے پینٹر اور آرٹسٹ بھی تھے۔

  • قاضی فیض محمد: سندھ کے سیاسی و سماجی حقوق کے لیے جدوجہد کا تذکرہ

    قاضی فیض محمد: سندھ کے سیاسی و سماجی حقوق کے لیے جدوجہد کا تذکرہ

    قاضی فیض محمد سندھ دھرتی کے وہ فرزند تھے، جو سیاسی و سماجی مسائل کی آگاہی اور تاریخ کا شعور رکھتے تھے اور انھوں نے متحدہ ہندوستان کے زمانے میں اپنی سیاسی سرگرمیوں کے ساتھ ساتھ ادب بھی تخلیق کیا۔

    قاضی فیض محمد نے اپنے دور میں معروف سیاست دانوں اور قوم پرست راہ نماؤں کے ساتھ مل کر ہاریوں، مزدوروں اور محنت کشوں سمیت معاشرے کے محروم اور پسے ہوئے طبقات کے حقوق کے لیے جدوجہد میں حصّہ لیا۔ انھوں نے سندھ کے حقوق کے لیے ہر سیاسی پلیٹ فارم استعمال کیا۔

    23 نومبر 1908ء کو پیدا ہونے والے قاضی فیض‌ محمد کے نام اور ان کے کام سے‌ آج نوجوان نسل شاید ہی واقف ہو۔ وہ 13 اکتوبر 1982ء کو وفات پاگئے تھے۔

    صوبہ سندھ کے قاضی فیض محمد ضلع نوشہرو فیروز کی تحصیل محراب پور کے شہر ہالانی میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم ہالانی اور بعد میں خیرپور اور نوشہرو فیروز سے تعلیمی مدارج طے کرتے ہوئے 1929ء میں میٹرک پاس کیا۔ 1940ء میں ایل ایل بی کا امتحان پاس کر کے نواب شاہ میں وکالت کا سلسلہ شروع کیا۔

    انھوں نے متعدد کتابیں لکھیں جن میں منھنجو خواب، دردن سندو داستان، منھنجو سفر اور دو ناول جنسار، انجان قابل ذکر ہے۔

    انھوں نے خاکسار تحریک سے وابستگی کے دوران ہی سندھ ہاری کمیٹی کے رکن بنے اور کئی سیاسی جماعتوں کا پلیٹ فارم استعمال کیا۔ ان کی سیاسی بصیرت اور فکری وجدان نے انھیں سندھ کے قومی حقوق کے حصول کی جنگ کو اپنے واضح فکری اور نظریاتی رجحانات کے ساتھ پانچ دہائیوں تک سیاست میں متحرک و فعال رکھا۔

  • پاکستانی فلم صنعت کے باکمال ہدایت کار انور کمال پاشا کی برسی

    پاکستانی فلم صنعت کے باکمال ہدایت کار انور کمال پاشا کی برسی

    پاکستان کے نام وَر فلمی ہدایت کار انور کمال پاشا 1987ء میں آج ہی کے دن اس دنیا سے ہمیشہ کے لیے رخصت ہوگئے۔ وہ ایک ادیب اور مترجم بھی جس نے فلم نگری سے مکالمے لکھ کر اپنے سفر کا آغاز کیا تھا۔

    انور کمال پاشا کا تعلق لاہور کے ایک علمی گھرانے سے تھا۔ ان کے والد حکیم محمد شجاع کا شمار اردو کے مشہور ادیبوں میں ہوتا ہے جن کی کئی کہانیوں پر برصغیر کے باکمال ہدایت کاروں نے فلمیں بنائیں۔

    انور کمال پاشا کو اپنے والد کی وجہ سے شروع ہی سے اردو زبان و ادب کا بھی شوق رہا۔ انھوں نے مشہور ناول گڈ ارتھ کا اردو ترجمہ بھی کیا تھا۔

    وہ سرکاری ملازمت چھوڑ کر فلمی دنیا میں آئے تھے اور یہاں فلم ’’شاہدہ‘‘ کے مکالمے لکھ کر انڈسٹری سے وابستہ ہوئے، اس کے بعد بطور ہدایت کار انور کمال پاشا نے اپنے والد کے ناول ’’باپ کا گناہ‘‘ پر ’’دو آنسو‘‘ نامی فلم بنائی۔ یہ 1950ء میں ریلیز ہوئی اور کام یاب ثابت ہوئی۔

    بعد میں انور کمال پاشا نے غلام، قاتل، سرفروش، چن ماہی اور انار کلی جیسی فلمیں بنائیں جنھیں زبردست کام یابی نصیب ہوئی۔ ان کی دیگر فلموں میں دلبر، رات کی بات، انتقام، گمراہ، لیلیٰ مجنوں شامل ہیں۔

    فلم انڈسٹری کے اس ہدایت کار کو ان کی فلم ’’وطن‘‘ کی کہانی کے لیے نگار ایوارڈ سے نوازا گیا۔ 1981ء میں انور کمال پاشا کو ان کی تیس سالہ فلمی خدمات پر خصوصی نگار ایوارڈ بھی دیا گیا تھا۔