Tag: 13 اگست وفات

  • فلورنس نائٹ انگیل: صحّتِ‌ عامّہ کے شعبے اور جدید نرسنگ کی بانی کا تذکرہ

    فلورنس نائٹ انگیل: صحّتِ‌ عامّہ کے شعبے اور جدید نرسنگ کی بانی کا تذکرہ

    فلورنس نائٹ انگیل صحّتِ عامّہ اور علاج معالجے کے حوالے سے اپنی خدمات کی وجہ سے دنیا بھر میں مشہور ہیں۔ وہ جدید نرسنگ کی بانی تھیں اور اس شعبے میں انھوں نے انقلابی کام کیا جسے ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔

    فلورنس نے اٹلی کے مالی طور پر نہایت آسودہ اور خوش حال گھرانے میں جنم لیا۔ وہ 1820ء میں پیدا ہوئی تھیں۔ ان کے والد زمین دار اور والدہ معروف سیاسی اور سماجی شخصیت تھیں۔ والدین نے ان کا نام فلورنس نائٹ انگیل رکھا۔ اس زمانے کے رواج کے مطابق گھر پر فلورنس نے ابتدائی تعلیم حاصل کی۔ ان کے والدین رحم دل اور خدا ترس تھے، وہ سماج کے کم زور اور کم تر طبقے کی مدد اور ان سے تعاون کرتے تھے اور دوسروں کو بھی یہی درس دیتے تھے۔ اسی ماحول نے فلورنس کو بھی ایک ایسا انسان بننے پر آمادہ کیا جو ایک بامقصد اور تعمیری زندگی بسر کرتا ہے۔

    انسانوں کی خدمت اور مدد کا جذبہ فلورنس کے اندر بھی پروان چڑھا اور وہ ایک مصلح، ماہرِ شماریات اور نرس کی حیثیت سے پہچانی گئیں۔

    فلورنس نے دنیائے طب میں نرسنگ کے شعبے کا چناؤ کرتے ہوئے مریضوں کی دیکھ بھال اور مرہم پٹی کرنے کا سلسلہ شروع کیا اور دُکھی انسانیت کی خدمت کو اپنا شعار بنا لیا۔

    انھوں نے جنگوں اور عام حالات میں اسپتال میں مریضوں کی دیکھ بھال اور خدمت کا کام کیا اور اپنے علم، مشاہدات اور تجربات کو تحریر میں لائیں۔ انھوں نے امراض اور حفظانِ صحّت کے حوالے سے لوگوں کی راہ نمائی کی اور ہاتھ منہ دھونے سمیت گھروں اور دیگر مقامات پر صفائی ستھرائی کی اہمیت کو اجاگر کیا۔
    انیسویں صدی میں زخمی فوجیوں کی دیکھ بھال اور نرسوں کی تربیت کے بارے میں ان کے طرزِ عمل نے ان گنت جانیں بچائیں اور بے شمار زندگیوں کو اپنے طبّی مشوروں کی بدولت امراض سے محفوظ بنایا۔ انسانوں کو صحّت مند رہنے کے بارے میں انھوں نے کئی راہ نما اصول بتائے جن پر آج بھی عمل کیا جاتا ہے۔

    نائٹ انگیل نے عوام کو سختی سے مشورہ دیا کہ زیادہ سے زیادہ روشنی کے حصول اور ہوا کے گزر کے لیے گھروں میں کھڑکیاں بنائیں اور جامد اور آلودہ ہوا کو باہر نکالنے کا بندوبست کریں۔ انھوں نے ہیضے اور ٹائیفائیڈ جیسی پانی سے پیدا ہونے والی بیماریوں سے نمٹنے کے لیے نکاسیِ آب کے نظام کو بہتر بنانے کا بھی مشورہ دیا۔

    یہ وہ زمانہ تھا جب اٹلی میں بھی عورتوں کا کام کرنا اور ان کے گھروں سے باہر رہنے کو معیوب سمجھا جاتا تھا۔ فلورنس کو بھی خاندان کی مخالفت سہنا پڑی لیکن انھیں والدین کا بھرپور اعتماد حاصل تھا جس نے انھیں مایوسی سے بچایا۔

    چوں کہ وہ ایک امیر کبیر گھرانے کی تعلیم یافتہ خاتون تھیں تو اس وقت انھیں یوں کام کرتا دیکھ کر اور عام اور غریب لوگوں کے ساتھ میل جول کی وجہ سے معاشرے کے مخصوص طبقات کی جانب سے طعنے اور طنزیہ باتیں سننے کو ملتیں مگر فلورنس نائٹ انگیل نے ہر قسم کی مخالفت کا ڈٹ کر مقابلہ کیا۔ انھوں نے نرسنگ کے شعبے کو باعزت اور قابلِ احترام بنایا۔

    وہ اسپتالوں اور مریضوں سے متعلق معلومات جمع کرکے باقاعدہ نوٹس تیار کرتیں اور ان کا جائزہ لے کر صحتِ عامّہ کے مسائل کو اجاگر کرتی رہیں جو اس وقت ایک بڑا کام تھا۔

    لندن میں 1910ء میں آج ہی کے دن وہ ہمیشہ کے لیے اس دنیا سے رخصت ہوگئی تھیں، مگر ان کا انسانوں سے محبّت اور ہم دردی کا درس انھیں آج بھی دلوں میں زندہ رکھے ہوئے ہے۔

  • اردو اور ہندکو زبان کے مزاح گو شاعر نیاز سواتی کی برسی

    اردو اور ہندکو زبان کے مزاح گو شاعر نیاز سواتی کی برسی

    اردو اور ہندکو کے ممتاز مزاحیہ شاعر اور ادیب نیاز سواتی 13 اگست 1995ء کو ایک ٹریفک حادثے میں زندگی سے محروم ہوگئے تھے۔ آج ان کا یومِ وفات ہے۔ وہ ایک ایسے شاعر تھے جس نے معاشرتی اور اخلاقی کم زوریوں اور برائیوں کی نشان دہی کرتے ہوئے طنز و مزاح کے نشتر چلائے اور شہرت حاصل کی۔

    نیاز سواتی ضلع مانسہرہ کے ایک گاؤں میں 29 اپریل 1941ء کو پیدا ہوئے۔ ان کا اصل نام نیاز محمد خان تھا۔ ڈگری کالج ایبٹ آباد سے بی اے کے بعد انھوں نے لا کالج پشاور سے ایل ایل بی کیا اور بعد میں ایبٹ آباد میں بطور سینئر پاپولیشن پلاننگ افسر عملی زندگی کا آغاز کیا۔ شگفتہ مزاجی اور نکتہ رسی و مشاہدہ کی عادت نے انھیں شعروسخن کی دنیا میں بھی ممتاز کیا۔ نیاز سواتی تحریف کے ماہر تھے اور انھوں نے کئی مشہور شعرا کے کلام کی پیروڈیاں لکھیں۔

    نیاز سواتی کی طنزیہ و مزاحیہ شاعری میں طنز کا عنصر اس وقت نہایت کاٹ دار اور قابلِ توجہ ہوجاتا ہے جب وہ معاشرے میں مغربی تہذیب کی تقلید اور اپنوں کو غیروں کی پیروی کرتا دیکھتے۔ ان کی حساس طبیعت نے انھیں معاشرتی و اخلاقی برائیوں پر خاموشی اختیار کرنے کے بجائے قلم کی طاقت اور اپنے فنِ شاعری کو آزمانے پر آمادہ کیا اور انھوں نے اس سے خوب کام لیا۔

    ان کی دو کتابیں بے باکیاں اور کلّیاتِ نیاز کے نام سے منظرِ عام پر آئیں۔ وہ مانسہرہ کے قبرستان میں آسودہ خاک ہوئے۔ ان کا یہ قطعہ ملاحظہ کیجیے

    ورنہ مجھے بھی جھوٹا سمجھتے تمام لوگ
    صد شکر اپنے حلقے کا ممبر نہیں ہوں میں
    دولت کی ریل پیل ہے اب گھر میں اس لیے
    کسٹم کا اک کلرک ہوں، ٹیچر نہیں ہوں میں

  • ممتاز ادیب، شاعر، نقّاد اور ماہرِ تعلیم سجّاد باقر رضوی کی برسی

    ممتاز ادیب، شاعر، نقّاد اور ماہرِ تعلیم سجّاد باقر رضوی کی برسی

    اردو زبان و ادب میں سجّاد باقر رضوی شاعر، ادیب، نقّاد اور مترجم کی حیثیت سے معروف ہیں۔ وہ ترقّی پسند تحریک سے وابستہ تھے۔ سجّاد باقر رضوی 1992ء میں آج ہی کے دن وفات پاگئے تھے۔

    سجّاد باقر رضوی کا تعلق اعظم گڑھ، یو پی سے تھا جہاں‌ انھوں نے 4 اکتوبر 1928ء کو آنکھ کھولی۔ قیامِ پاکستان کے بعد وہ کراچی آگئے اور یہاں‌ جامعہ کراچی سے اپنی تعلیم کا سلسلہ مکمل کیا، بعد ازاں وہ لاہور چلے گئے اور اسلامیہ کالج سول لائنز اور اورینٹل کالج پنجاب یونیورسٹی سے وابستہ ہوگئے۔ درس و تدریس کے شعبے سے وابستہ ہونے کے بعد انھوں نے ادب کے ساتھ تعلیم کے شعبے کے لیے بھی خدمات انجام دیں۔

    سجّاد باقر رضوی کا تنقیدی کام نہایت وقیع اور اہمیت رکھتا ہے۔ اس ضمن میں ان کی کتب مغرب کے تنقیدی اصول اور تہذیب و تخلیق اردو تنقید میں اہم شمار کی جاتی ہیں۔

    ان کے دو شعری مجموعے ’’تیشۂ لفظ‘‘ اور ’’جوئے معانی‘‘ کے نام سے شایع ہوئے جب کہ تراجم میں داستانِ مغلیہ، افتاد گانِ خاک، حضرت بلال اور بدلتی دنیا کے تقاضے کے نام سے کتابیں‌ علم و ادب کا سرمایہ اور ان کی یادگار ہیں۔

    لاہور میں وفات پانے والے ڈاکٹر سجّاد باقر رضوی ماڈل ٹائون کے ایک قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔